انسان جب تک چار چیز وں کو نہ اپنالے


تمہید :۔
حضرات اس سورت میں رب قدوس نے اعلان فرمایا ہے کہ انسان جب تک چار چیز وں کو نہ اپنالے ،قیامت کے دن خداتعالیٰ کے قہر وغضب سے بچ نہیں سکتا ۔
ان میں سے
پہلا نمبر۔۔۔ ایمان کا ہے ۔
دوسرانمبر ۔۔۔اعمال صالحہ کا ہے ۔
تیسرا نمبر۔۔۔ تواصی بالحق کا ہے ۔
چوتھا نمبر۔۔۔ تواصی بالصبر کا ہے ۔
وہ اس لئے کہ ایمان کا مقام نہ آنکھ ہے اور نہ آنکھ کی قوت باصرہ ہے ۔نہ کان ہیں اور نہ کانوں کی قوت سامعہ ہے۔ نہ دماغ ہے اورنہ دماغ کی قوت ذہنیہ ہے ۔ نہ ہاتھ ہیں اور نہ ہاتھوں کی قو ت لامسہ ہے ۔نہ پاؤں ہیں نہ پاؤں کی قوت ماشیہ ہے ۔ایمان کا مقام حقیقت میں قلب ہے اور زبان کی حیثیت صرف ترجمان کی ہے اور دل کی کیفیت کو بغیر علام الغیوب کے کوئی نہیں جانتا اس بناء پر مشکل تھا کہ انسان کی اندورنی حالت کو معلوم کیا جاسکے اس لئے مولا کریم نے وَعَمِلُواالصّٰلِحٰت فرماکر تصریح کردی کہ اعمال کی طرف دیکھ لیا جائے ۔ اگر ایماندار ہے تو اس کے عمل ایمان داروں والے ہونگے ورنہ نہیں لیکن عمل صالح بھی وہی بہتر ہے جس پر دوام ہو ،سو اس لئے وَتَوَاصَوْا بِالْحَق فرما یا کہ جب نیکی کی لوگوں کو نصیحت کرے گا تو خود بھی اعمال صالح پر مستقل و متسمر ہوجائیگا اور اگر اعلان حق پر مخالفین طرح طرح کی تکلیفیں دیں تو فرمایا وَتَوَاصَوْابِالصَّبْرِ
تمہید کا خلاصہ :۔
یہ ہوا کہ نجارت کے لئے ایمان کی علامت اعمال صالحہ ہیں اور اعمال صالحہ پر دوام تبلیغ حق سے ہوگا اور تبلیغ حق پر دشمن مخالفت کریں گے تو صبر کرنا ہوگا۔
ایمان عمل کی ضرورت
قومیت باعث نجات نہیں بنے گی ۔
قیامت کے دن صرف ایمان وعمل کام آئیں گے کوئی شخص خواہ چھوٹا ہو یا بڑا،قومیت کے بل بوتے پر چھوٹ نہیں سکتا۔
زمانہ نبوی ا کا ایک واقعہ
مدینہ میں ایک شخص کی چوری ہوگئی ۔مقدمہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پہنچا۔ مدعی نے دعویٰ کیا ۔گواہ پیش کئے ۔مجرم اور ملزم ایک یہودی عورت ثابت ہوئی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب قانون شریعت ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تھوڑی دیر کے بعد ملزمہ کے ورثاء درباررسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ ملزمہ بڑے گھرانے کی فردہے بلاشبہ اس نے چوری کی ہے اورسخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے جناب کا فیصلہ اپنے مقام پر حق ہے ۔صرف نظرثانی کی اپیل ہے ۔آپ بجائے ہاتھ کاٹنے کے چند کوڑوں کا حکم صادر فرمادیں یا اس قسم کی کوئی او رسزا مقرر فرمائیں تو بہتر رہے گا ۔اگر خدانخواستہ اس لڑکی کا ہاتھ کاٹ لیا گیاتوعیب دار بن جائے گی متمول کھاتے پیتے لوگ اس کے عیب دار ہونے کی وجہ سے نکاح کے لئے منظور نہ کریں گے ۔جناب رحمۃ للعلمین ہیں براہ کرم ہماری سفارش قبول فرمایئے ۔
یہ سنتے ہی حضور علیہ السلام کے چہرہ اقدس پر جلال کے آثار نمودار ہوئے اور فرمایا بلاشبہ یہ تمھاری فاطمہ ہے لیکن اگرمیری لخت جگر نور بصر سیدہ فاطمہؓ سے چوری ثابت ہوجائے تو حکم خدا کا ہوگا اور ہاتھ کاٹنے والا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا
لو سرقت فاطمۃ بنت محمد لقطعت یدھا
اگر میری بیٹی چوری کرتی میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹتا
ظاہر ہے کہ سیدہ فاطمہؓ تو پاک تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لئے فرمایاتاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ قومیت حدود وقصاص اور دینی سزاؤں کا کفارہ نہیں بن سکتی نیز کوئی شخص اپنے کو قریشی یا سید کہلا کر حدودو قصاص میں نہ معافی لے سکتا ہے اور نہ اسے معافی دی جاسکتی ہے ۔
لافرق بین الاسودوالاحمر ۔
یعنی گورے اور کالے کا شریعت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
قرآنی تائید :۔
یٰٓاَ یُّھَاالنُّاسُ اِنَّاخَلَقَْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍوَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْباًوَّقَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْااِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ
اے اولادآدم قومیت پر فخر نہ کرو بلاشبہ ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قبیلوں اور شعبوں میں تقسیم اس لئے کیا ہے تاکہ تمھاری جان پہچان ہو ورنہ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ قابل تعظیم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
قیامت کے دن کوئی شخص بھی سید اور قریشی کی آڑ لے کر اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے نہیں بچاسکے گا ۔
پیران پیر کا واقعہ :۔
ایک دن کڑکتی دھوپ میں کعبۃ اللہ کے سامنے سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ اپنی پیشانی اور رخساروں کو گرم پتھروں پر رگڑ رگڑ کر زارو قطار رورہے تھے اور بصد الحاح وزاری عرض کررہے تھے یاللہ قیامت کے روز مجھ کو بخش دینا میرے گناہوں کو معاف فرمانااور خدانخواستہ میں نہ بخشا جاؤں تو پھر مجھے آنکھو ں سے نابینا بنا کر کھڑا کرناتاکہ اولیاء اللہ کی صفوں میں شرمسار ہوکر نہ اٹھوں ۔
دیکھئے اگر محبوب سبحانی کی یہ حالت ہے تو ہماراکیا حال ہوگا ۔معلوم ہوا کہ قیامت کے دن بھی ایمان وعمل کے بغیر قومیت ہرگز ہرگز نہ بچاسکے گی۔
مشاہدات :۔
رمضان کا چاند چڑھ چکا ہے ۔مسلمان مرد عورتیں بچے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کررہے ہیں ۔ہر گھر میں روزے رکھنے کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔بوڑھے بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ہمیں بھی عمل کرنے کا احسن موقع ہاتھ آگیا اب کے تو ضرور نیکیاں کرکے اللہ تعالیٰ سے گناہ بخشوالیں گے۔
اتنے میں نماز مغرب کے بعد لوگ کھانے پینے میں مشغول ہوجاتے ہیں عشاء کی آذان سنتے ہی لوگ جوق درجوق جامع مسجد میں ٹوٹ پڑتے ہیں آناً فاناً مسجد بھر جاتی ہے اغنیاء وامراء کا تو کیا کہنا غربا ء بھی کپڑے دھوکر مسجد میں آجاتے ہیں ۔ بچے بھی ایک طرف جمع ہیں سب کے سب نماز کی تیاریاں کررہے ہیں ۔
سب ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں۔دیکھونمازعشاء کے بعدتراویح ہوگی۔تراویح پڑھ کر جانا ہوگا ہر طرف سے یہی جواب ملتا ہے ۔ضرور عشاء کی نماز پڑھ لیتے ہیں ۔امام صاحب تو اس لئے مطمئن تھے کہ شہریوں نے کسی قاری حافظ صاحب کا انتظام کرلیا ہوگا اور شہری اس لئے کہ یہ ڈیوٹی امام صاحب اور خطیب کی ہے ۔ حالانکہ انتظام کسی نے بھی نہیں کیا ۔
ایک صاحب بولتے ہیں کہ ۲۹ شعبان کو ایک حافظ صاحب یہاں آئے نہیں تھے دوسرا بولتا ہے بیشک آئے تو تھے لیکن وہ سید اور قریشی نہیں تھے ظاہر ہے کہ سب اس کو ملامت کریں گے کہ خدا کے بندو یہاں قومیت کا کیا سوال ہے ۔یہاں تو قرآن کے پڑھنے اور سنانے کا مسئلہ ہے خواہ پڑھنے سنانے والا جس قوم سے تعلق رکھتا ہو ۔کیا موچی کا بابا آدم علیہ السلام اور ہے اور قریشی اور سید کا اور ہے ہرگز نہیں ۔سچ ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ
مولائے کریم کے نزدیک رتبہ ولایت کے لئے قومیت کا امتیاز نہیں ہے قطب زماں ولی دوران حضرت خواجہ سیلمان صاحب تونسوی کے فیوضات سے ضلع ڈیرہ غازی خان کا پہاڑی علاقہ خصوصی طور پر مستفیض ہوا۔قومیت کے لحاظ سے پٹھان تھے اورحضرت خواجہ خلیفہ غلام محمد صاحب دین پوری ؒ بلوچ ۔قطب عالم حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری ؒ جن کے مزار کی مٹی سے کئی سال عجیب قسم کی خوشبو آتی رہی ۔وہ قوم سکھ سے مسلمان ہوئے تھے ۔حضرت پیرطریقت خواجہ محمد عبدالمالک صاحب نقشبندی قوم گھلو سے تعلق رکھتے ہیں، معلوم ہوا کہ مدار ذات پر نہیں ہے بلکہ مولائے کریم کی فیوضات پر ہے
حسن وجمال بھی باعث نجات نہیں بنے گا
ابولہب کا حسن ملک عرب میں شہرہ آفاق تھا ۔دیکھنے والا چہرے پر ٹکٹکی باندھ کر کچھ دیرتک دیکھنے کی تاب نہ لاسکتا تھا ۔خداتعالیٰ نے اس کو حسن وخوبصورتی جیسی نعمت سے مالا مال کیا تھا۔
مگر جس دن حبیب کبریاصلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑی پر چڑھ کر اہالیان مکہ کو بلایا اور توحید خداوندی کی دعوت دی تو سب سے پہلے یہی حسین وجمیل شخصیت تھی ۔ جس نے مال ودولت کے اور ظاہری عزت ووجاہت کے نشے میں مخمور ہوکر پتھر اٹھایا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا۔
تبالک یا محمد الھذادعوتنا
یعنی کیا آپ ؐنے ہمیں اس لئے بلایا تھا
مولاکریم کی غیرت جوش میں آئی فوراً جبرائیل امین یہ سورۃ لے کر نازل ہوئے
تَبَّتْ یَدَآاَبِیْ لَہَبٍz وَّتَبَّ مَآاَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَz سَیَصْلٰی نَارًاذَاَتَ لَہَبz
ہلاک ہوگئے ہاتھ ابولہب کے اور ہلاک ہوگئے نہ بچاسکے گا اس کو خدا کے قہر سے اس کا مال ومتاع داخل ہوگا شعلوں والی جہنم میں
کہاں گیا ابولہب کا حسن اور کہاں گیا اس کا جمال؟
یاد رکھیئے بدعمل حسین اور نے عمل خوبصور ت کا شریعت کے ہاں کوئی مقام نہیں ۔
کیا نہیں دیکھتے کہ حضرت بلالؓ اگرچہ شکل کے لحاظ سے خوبصورت نہیں تھے لیکن انوار ایمان سے ان کا سینہ معمور تھا ۔ان کی نگاہوں میں جمال نبوت کا تصور تھا وہ حبیب کبریاصلی اللہ علیہ وسلم سے ایک پل بھی جدائی گوارہ نہ کرتے تھے۔
اگر حالت یہ تھی تو دنیا نے دیکھا کہ منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اگر مسجد نبوی کے موذن بنے تو حضرت بلالؓ بنے ۔صدیق اکبرؓ او ر فاروق اعظمؓ جیسے برگزیدہ آفاق لوگ عثمان غنیؓ اور علی المرتضیٰؓ جیسے پاکباز انسان اس کی آذان کے منتظر نظرآتے تھے ۔آخر وجہ کیا تھی ؟فقط یہی کہ ابولہب بے ایمان تھا ،بدعمل تھا،اور حضرت بلالؓ کا دل زیور ایمان سے آراستہ تھا اور یہی ایمان وعمل کے برکات تھے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوتوں کی کھسکھساہٹ بہشت میں سنی اور جس دن وفات پائی تو فاروق آعظمؓ نے فرمایا آج اسلام کا بادشاہ فوت ہوگیا
وطن بھی کام نہیں آئے گا
ایک نیک دل شاعر نے کیا خوب کہا
حسنؓ زبصرہ بلا ل ازحبش صہیب ازروم
زخاک مکہ بوجہل ایں چہ بوالعجمی است
یعنی حسن بصری بصرے میں ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئے ،حضرت بلالؓ حبش میں رہ کر اور حضرت صہیبؓ رومی میں رہ کر۔ مگربدقسمت ابوجہل کا کیا کہنا کہ مکر مکرمہ میں رہتے ہوئے دیدار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوتے ہوئے کلام خدا وندی سنتے ہوئے معجزات کا ملاحظہ کرتے ہوئے بھی حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر لبیک نہ کہہ سکا او ربے ایمان ہوکر مرا۔
حبیب کبریاا کا معجزہ اور ابوجہل کی ہٹ دھرمی
جب فخر موجودات نے ربوبیت خداوندی اور اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو لوگ جوق در جوق کلام الہٰی کے سننے کے لئے بے چین نظر آنے لگے ۔
ابوجہل نے مشہور کردیا کہ محمد بن عبداللہ جادو گر ہے اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر نہیں ہے چنانچہ ایک دن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہم تجھے جادوگر سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی ہمیں یقین ہے کہ جادوگروں کا جادو زمین پرتو چل سکتا ہے لیکن آسمان پر نہیں چل سکتا اگر تو خدا کا پیغمبر ہے تو انگلی کے اشارے سے چاند کو دوٹکڑے کردے چنانچہ حضور علیہ السلام نے دربار خداوندی میں عرض کیا مولائے کریم نے فرمایا اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اشارہ کرنا تیرا کام ہوگا اور چاند کو دوٹکڑے کرنا میرا کام ہوگا۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوا سب کو نظر آیا مگر بدنصیب ابوجہل نے اسے بھی جادو سے تعبیر کیا
]۲[۔۔۔اسی طرح ایک دن ابوجہل چند کنکریاں ہاتھ میں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ آسمانوں کے رازوں سے خبر رکھتے ہیں تو بتایئے میرے ہاتھ میں کیا ہے
گر رسولی چیست ورمشتم نہاں
گر خبرداری ز راز آسماں
حقیقت میں ابو جہل عقل سے کورا تھا آپ نے دیکھا ہوگا کہ دولڑکے آپس میں بیٹھ کر کھیلتے ہیں ،ایک کنکریاں ہاتھ میں بند کرکے دوسرے سے دریافت کرتا ہے کہ بتا جفت یا طاق ،بسا اوقات طاق کہہ دیا جاتا ہے جب کھولا جاتا ہے تو کنکریاں طاق ہی ہوتی ہیں ،تو کیا اس بتانے والے کو نبی کہہ دیا جائے ،ہرگز نہیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توجہ کو فوراًدوسری طرف پھیر دیا ۔
گفت نبی پاک کہ گوئم بتو
یاکہ ہماں چیز کنند گفت گو
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوجہل میں بتاؤں کہ تیری مٹھی میں کیا ہے یا تیری مٹھی والی چیز بتائے کہ میں کون ہوں ۔
گفت ابوجہل دوئم نادراست
گفت نبی پاک خداقادراست
ابوجہل نے کہا دوسری بات تو مشکل ہے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک خدا تعالیٰ تو قادر ہے ۔
لاالہ گفت الاللہ گفت
گوہراحمد رسول اللہ سفت
کنکریوں نے ابوجہل کے ہاتھ میں کلمہ طیبہ کا ورد کیا تو ابوجہل نے کنکریوں کو نیچے پھینک دیا اور کہا
گفت نبی نیست کہ جادو گراست
خلاصہ یہ کہ ابوجہل کومکہ معظمہ کا تووطن قہرخداوندی سے نہ بچاسکا، اس بنا پر ہمیں کہنا پڑے گا کہ ملتان شریف ،پاک پتن ،اور اجمیر شریف ،اور بغداد شریف،کے رہنے والے اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ ہم وطن ا ور شہر کی بدولت بچ جائیں گے ہم نے ماناکہ
حضرت خواجہ بہاؤالحق زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ملتا ن میں قدم رکھا ،
حضرت باباصاحب نے پاک پتن میں قدم رکھا ،
اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے اجمیر کے ٹیلے پر قدم رکھا
اور حضرت خواجہ عبدالقادر جیلانی ؒ نے بغداد میں قدم رکھا
ان کے مجاہدات وریاضات کی برکات سے لوگوں نے ان کو شریف کہا اور واقع کے مطابق کہا ،لیکن کوئی شخض بھی اپنے شہر کو پیش کر کے حشر کے روز بلا ایمان وعمل خداوندی عذاب سے نہ بچ سکے گا ؟
کسی نیک کا باپ ہونا بھی نجات کا باعث نہیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر ہیں لیکن ان کا باپ ان کی نبوت کی وجہ سے نجات نہ پاسکا چنانچہ قرآن مجید میں ان کے متعلق ایک واقعہ نقل کیاگیا ہے ملاحظہ فرمایئے
وَاذْکُرْفِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ انَّہْ کَانَ صِدِّیْقًانَّبِیًّاzاِذْقَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَالَا یَسْمَعُ وَلَایُبْصِرُوَلَایُغْنِیْٓ عَنْکَ شَیْأًzیٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآءَ نِْی مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْ اَھْدِکَ صِرَاطًاسَوِیًّاz یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِالشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّاz یٰٓاَبَتِ اِنّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوَنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّاz قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ یٰٓابْرٰہِیْمُ لئنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّاz(پارہ ۱۶ایت۴۰ سورہ مریم)
اور ذکر کر دیجئے کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کا بیشک وہ سچے نبی تھے جبکہ اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ آپ کیوں عبادت ایسی چیزوں کی کرتے ہیں جو نہ سن سکے اور نہ دیکھ سکے اور نہ مشکل کشائی کرسکے ،اے میرے با پ تحقیق میرے پاس اللہ کی طرف سے علم نبوت آچکا ہے جو تیرے پا س نہیں آیا آپ میری پیروی اخیتار کر لیجئے میںآپ کو سیدھے راستے کی راہنمائی کرتا ہوں اے اباجان شیطان کا کہنا مت مانیے بلاشبہ وہ رحمان کا دشمن ہے اے اباجان بے شک میں ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ خدا کے عذاب میں مبتلانہ ہوجائیں پس آپ شیطان کے دوست نہ بن جائیں باپ نے جواب دیا اے ابراہیم کیا تو مجھے میرے مشکل کشاؤں سے منحرف کرنا چاہتا ہے یاد رکھ اگر تو ایسی باتوں سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر ماروں گا
بالآخر حضرت ابراہیم کے باپ نے بیٹے کے کہنے پر تو نہ شرک کو ترک کیا اور نہ توحید کو مانا ،اس لئے مولائے کریم نے ان کو جہنم میں ڈال دیا اور ان کے بیٹے کو خلیل اللہ کے لقب سے ملقب فرمادیا ۔
کسی نیک کا بیٹا ہونا بھی موجب نجات نہیں
حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر موجود ہے جب حضرت نوح علیہ السلام بمع اپنے اصحاب کے کشتی پر سوار ہوگئے اور ان کا بیٹا کنعان بوجہ کفر کشتی پر دیدہ ودانستہ سوار نہ ہوا تو لگے حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو بلانے
یابنی ارکب معنا ۔اے میرا بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا
بیٹے نے جواب دیا ابا جان مجھے آپ کی کشتی کی ضرورت نہیں ہے
سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ ۔قریب ہے کہ میں پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جوکہ مجھے پانی کی زد سے بچالے گا
خداوندی غیرت جوش میں آئی جبرائیل امینؑ بحکم رب جلیل نازل ہوئے اور پانی کو پیغام دیا کہ مولائے کریم کی غیرت برداشت نہیں کرسکتی کہ پاک باپ اور ناپاک بیٹے کے درمیان گفتگو جاری ر ہے فوراً درمیان میں جدائی ڈال دے
وَحَالَ بَیْنَھُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ موج باپ بیٹے کے درمیان حائل آگئی اور کنعان غرق ہونے والوں میں سے ہوگیا
حضرت نوح علیہ السلا م جب بیٹے سے ناامید ہوئے تو مولائے کریم کی طرف رخ کیا اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَتحقیق میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور بے شک تیراوعدہ برحق ہے اور آپ احکم الحاکمین ہیں
خالق کائنات کی طرف سے جواب ملا
اِنَّہ‘ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہ‘ عَمَلٌ غَیْرُ صَاِلحٍ بلاشبہ کنعان تیرے اہل بیت میں نہیں رہا اس لئے کہ وہ بدعمل ہے
دیکھئے چونکہ عمل غیر صالح تھے لہذا باپ کی نبوت بھی بیٹے کو نہ بچاسکی نیز پیغمبر کی تدبیر مولائے کریم کی تقدیر کو ٹال نہ سکی اس کے بعد خدائے قدوس نے فرمایا ۔
نَجَّیْنَا نُوْحًاوَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَعَہ‘ ہم نے نوح علیہ السلام کو بھی بچا لیا اور جوان کے ساتھ ایماندار تھے ان کو بھی بچالیا
ازدواجیت کے تعلقات بھی نہ بچا سکیں گے
فرعون کی بیوی حضرت آسیہ دربار خداوندی میں مقبول ہوگئی اور فرعون دریائے نیل میں غرق ہوگیا
اسی طرح حضر ت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویاں تباہ وبرباد ہوگئیں ان کو خاوندوں کی نبوت نہ بچاسکی
خداوندی اعلان :۔
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِzوَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِzوَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِz
قیامت کے دن جوان اپنے بھائی ماں باپ اوربیوی اولاد سے بھاگ جائے گا
بے ایمان اور بے عمل سرپرست بے وفا:۔
اِذْتَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْامِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُاالْعَذَابَ وَتقَطَعَتْ بِھِمُ الْاَسْبَابُz وَقَالَ الَّذِینَْ اتَّبَعُوْالَوْاَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُ وَامِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اللّٰہُ اَعْماَلَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ وَمَاہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارz
اور جبکہ سرپرست لوگ اپنے متبعین سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو دیکھیں گے اور سب امیدوں کے علاقے ٹوٹ جائیں گے کہیں گے اگر ہمیں اجازت ہو تو ہم ان سے بیزار ہوجائیں جس طرح یہ ہم سے بیزار ہوگئے اسی طرح دکھائیگا اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال حسرتیں ڈالنے کے لئے وہ جہنم سے باہر نہ نکلیں گے
آسمان اور ستارے بے وفا:۔
اِذَاالسَّمَآءُ انْفَطَرَتْz وَاِذَاالْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ
جب آسمان پھٹ جائیں گے اور ستارے بے نور ہوکر جھڑ پڑیں گے
پہاڑ بے وفا:۔
یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِz وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ
جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہونگے اور پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح
حشر کے دن جب ہرطرف سے انسان مایوس ہوجائے گا تو عرض کرے گا کہ مجھے شیطان بے ایمان نے گمراہ کیا تھا تو شیطان جواب دے گا
فَلَاتَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓااَنْفُسَکُمْ
مجھے ملامت نہ کرو تم اپنے نفسوں کو ملامت کرو
میں نے کب کسی کی شکل بن کر تمھیں زنا کی ترغیب دی تھی، چوری پر اکسایاتھا، دغابازی اور فریب کاری کا شوق دلایا تھا، کیا میں نے تمھارے گلے میں رسی ڈالی تھی؟ تم کیوں جھوٹ بولتے ہو ؟
پس انسان شرمندہ ہوگا اور مولائے کریم حکم دیں گے کہ جاؤ ان کو جہنم میں ڈالو
اگر ایمان اور عمل صالح ہونگے :۔
تو میدان قیامت میں جب کہ سور ج کی نزدیکی کی وجہ سے لوگ تڑپ رہے ہونگے زمین گرم ہوجانے کی وجہ سے ایک پاؤں اوپر اٹھے گا تو ایک نیچے۔ بدن پسینے سے شرابور ہوں گے، پسینے کے ہرقطرے سے جہنم کے انگاروں کی گرمی محسوس ہوگی ۔انبیاء علیہم السلام رب سلم سلم کہہ رہے ہونگے لوگ نفسی نفسی کی فریاد کررہے ہونگے ۔
اس میدان میں ایک اور صرف ایک آمنہ کے لال حبیب کبریا احمد مجتبٰی حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے جو سر سجدے میں رکھیں گے اللہم اغفرلا متی یا اللہ میری امت کو بخش دے کہیں گے ۔اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملے گا
ارفع راسک یا محمد قل تسمع سل تعطہ واشفع تشفع
اے حبیب مکرم اپنا سر مبارک اٹھائیے، کہو سنے جاؤگے ،سوا ل کرو دیئے جاو گے۔ شفاعت کرو شفا عت منظور کیے جاؤگے
اس کے بعد حضور علیہ السلام ایمان داروں کوجہنم سے نکال نکال کر بہشت میں لے جائیں گے ،
اگر ایمان اور اعمال صالحہ میسر آجائیں تو
قیامت کے دن جنت الفردوس ملے گی :۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاًz خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لَایَبْغُوْنَ عَنْھَاحِوَلاz
بیشک جو ایمان لائے اور عمل صالحہ کیے ان کے لئے جنت الفردوس ہوگی بطور مہمانی کے جن میں ہمیشہ رہیں گے اس بہشت سے واپسی کو طلب نہ کریں گے
مغفرت اور اجر عظیم :۔
وعداﷲالذین آمنواوعملوالصلحات لہم مغفرۃ واجر عظیم
اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرعظیم کا وعدہ ان لوگوں سے کیا ہے جو ایماندار ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں
سیأت حسنات سے بدل جائیں گے :۔
اِلَّامَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاًصَالِحًافَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اﷲُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًاz(پارہ ۱۹ )
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل نیک کیئے پس ان کے برے عملوں کوخدا تعالیٰ نیک عملوں سے بدل دیں گے اور اللہ تعالیٰ غفورالرحیم ہے۔
سیآت کا کفارہ دے کر بہشتوں میں داخل کئے جائیں گے :۔
وَمَنْ یُّوؤمِنْ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صْالِحًا یُّکَفِرْعَنْہُ سَیِّاتِٰہٖ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْانْھٰرُ خٰالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًاذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ z
اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے سیأت کا کفارہ کردیں گے اور اسے داخل کریں گے بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔
قیامت کے عذاب سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالامال ہونگے :۔
فَوَقٰہُمُ اللّٰہُ شَرَّذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰہُمْ نَضْرَۃًوَّسُرُوْرًاz وَجَزٰہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃًوَّحَرِیْرًاz مُّتَّکِءِیْنَ فَیْھَا عَلَی الْاَرَآءِکِ لَایَرَوْنَ فِیْھَا شَمْسًاوَّلَا زَمْھَرِیْرًاz وَدانِیَۃً عَلَیْہِمْ ظِلٰلُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُھَا تَذْلِیْلًاzوَ یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِٰانِیَۃٍمِّنْ فِضَّۃٍ وَّاکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَاzقَوَارِیْرَامِنْ فِضَّۃٍقَدَّرُوْھَا تَقْدِیْرًاzوَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلًاzعَیْنًا فِیْھَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلًاzوَیَطُوْفُ عَلَیْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَا رَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُوؤلُؤًامَّنْثُورًاzوَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکً کَبِیْرًاzعٰلِیَہُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌوَّاِ سْتَبْرَقٌ وَّحُلُّوْآ اَسَاوِرَمِنْ فِضَّۃٍ وَسَقٰہُمْ رَبُّہُمْ شَرَاباًطَہُوْرًاzاِنَّ ھٰذَاکَانَ لَکُمْ جَزَآءً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا (سورت الدھرپارہ ۲۹)
پس بچالیا اللہ نے ان کو قیامت کے شرسے اور ملادی ان کو تازگی اور خوشی اور جزا دی ان کو ان کے صبر کے بدلے بہشت اورریشمی پوشاک بہشت میں تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے نہ دیکھیں گے وہاں دھوپ اور نہ سردی جھک جائیں گیں ان پر چھائیں اور نہایت نزدیک کردیئے جائیں گے ان کو پیالوں سے پلایا جائے گا جس کی ملونی میں سنڈھ ہوگا اس بہشت میں ایک چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل ہے پھریں گے ان کے پاس لڑکے ہمیشہ رہنے والے جو کہ بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح نظر آئیں گے اے مخاطب جب دیکھے گا تو دیکھے گا نعیم اور بڑا ملک ان بہشتوں پر سبز ریشم کے کپڑے ہونگے اور چاندی کے کنگن ہوں گے اور ان کو ان کا رب شرابا طہور ا پلائے گا اور آواز آئے گی یہ ساری نعمتیں تمھارے لئے بطور جزاء کے ہیں اور تمہاری کوشش مشکور ہے
ان آیات سے بخوبی معلوم ہورہا ہے کہ مذکور ہ نعمتوں سے وہ لوگ نوازے جائیں گے جن کا ایمان کامل ہوگا اور اعمال صالح ہوں گے دعا ہے کہ مولائے کریم ہمیں دونوں نعمتوں سے نوازے اور دنیاء اور آخرت کے خسارے سے محفوظ رکھے۔ آمین