ترغیب ذکر اللہ

حضرات :آج دنیااس سبب کو معلوم کرنے کے لئے سرگرادں وپریشان ہے کہ بداعمالی کا سیلاب اس قدر زور سے کیوں امنڈتا چلا آرہا ہے ہرطرف سے مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے خلاف کمر بستہ کیوں ہیں ؟
بد اعمالی کے اسباب :۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بجلی کے قمقمے پاورہاؤس سے متعلق ہیں اسی طرح ہاتھوں کی قوت لامسہ ،پاؤں کی قوت ماشیہ ،آنکھوں کی قوت باصرہ ،کانوں کی قوت سامعہ ، اور دماغ کی قوت ذہنیہ ،قلب سے متعلق ہیں ۔دل ان سب اعضاء پر بادشاہی کررہا ہے دل نہ چاہے تو زبان بولتی نہیں،ہاتھ ہلتے نہیں ،پاؤ ں چلتے نہیں ،دماغ سوچتا نہیں ،آنکھیں دیکھتی نہیں ،کان سنتے نہیں ۔
معلوم ہوا کہ سارا دارومدار دل پر ہی ہے لہذا علاج سب سے پہلے دل کاہی کرنا چاہیئے
حضور علیہ السلام کا قبضہ :۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر صحابہ کرامؓ کے دلوں پر قبضہ کیااپنے اخلاق حسنہ اور عادات عالیہ سے دلوں کو مسخر کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ اب ان کے ہاتھ اٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد میں اور پاؤں چلے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت میں یہی وجہ ہے کہ جب خداتعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کا امتحان لیاتو ان کے دلوں کا لیا۔
اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌوَّاَجْرٌعَظِےْمٌ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کا امتحان خداتعالیٰ نے پرہیز گاری کے سلسلے میں لے لیا ہے ان کے لئے مغفرت اوراجرعظیم ہے ۔
مذکورہ آیت میں دو چیزیں ذکر کی گئی ہیں ۔(۱)۔۔۔قلب(۲)۔۔۔تقوٰی
نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحابہ کرامؓ امتحان میں کامیاب ہوئے اوران کی کامیابی پر گواہی خداتعالیٰ نے ہی دی
قلوب کا تزکیہ وتصفیہ :۔
قلوب کا تزکیہ مشکل ہے ،جب تک شیخ کامل نہ ہو ،شیخ کامل کی علامت یہ ہے کہ عقیدے میں اہل سنت ہو یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو ،اور عمل میں متبع سنت ہو۔ اگر خدانخواستہ عقیدے میں نقص ہو ،یا اس کے عمل خلاف سنت ہوں اور اس کے باوجود اس سے ایسے واردات رونما ہوں کہ طبیعتیں حیران رہ جائیں تو اسے کرامت سے تعبیر نہ کیا جائے بلکہ استدراج شیطانی ہوگا
قرآن پاک میں اولیاء اللہ کی تعریف مجمل طور پر بھی کیگئی ہے اور مفصل طور پر بھی
اولیاء اللہ کی اجمالی تعریف :۔
اَلَآاِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَz الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَکَانُوْا یَتَّقُوْنَz(پ ۱۱)
خبردار بلاشبہ اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے اولیاء اللہ وہ لوگ جو ایمان دار ہوں اورمتقی پرہیز گا رہوں ۔
اولیاء اللہ کی تفصیلی تعریف :۔
وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًاوَّاِذَاخَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْاسَلٰمًاz وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدً ا وَّقِیَامًاz وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَااصْرِفْ عَنَّاعَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَہَاکَانَ غَرَامًاz اِنَّہَاسَآءَ تْ مُسْتَقَرًّاوَّمُقَامًاz وَالَّذِیْنَ اِذَآاَنْفَقُوْالَمْ یُسْرِفُوْاوَلَمْ یَقْتُرُوْاوَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاz وَالَّذِیْنَ لَایَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًااٰخَرَوَلَایَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاz یّٰضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانَاz اِلَّامَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًاصَالِحًافَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًاz وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًافَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًاz وَالَّذِیْنَ لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَامَرُّوْابِا للَّغْوِ مَرُّوْاکِرَامًاz وَالَّذِیْنَ اِذَاذُکِّرُوْابِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْاعَلَیْہَاصُمًّاوَّعُمْیَانًاz(پ ۱۹)
اور اللہ تعالیٰ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب ان سے بے سمجھ لوگ بات کرتے ہیں تو سلام کہہ کر ٹال جاتے ہیں اور جو خدا کے سامنے رات کو سجدے کرتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں اور جو کہتے ہیں اے اللہ ہمیں جہنم کی آگ سے بچالینا کیونکہ جہنم کا عذاب بڑی چٹی ہے وہ بیشک قرار ومقام کے لئے بری جگہ ہے اور وہ لوگ ہیں جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل بالکل سیدھی گزران کرتے ہیں اور جوکہ خدا کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے اور جو کہ ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جس نے ایسا کیا اس کے لئے قیامت کے روز دوہرا عذاب ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ بے عزت ہوگا مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیئے پس ان کی برائیاں اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیں گے اور اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا مہربان ہے اور جس نے توبہ کی اور نیک عمل کیئے پس اس نے اللہ کو رجوع کیا اور وہ جو کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ بات سے گزریں تو نیک بن کر گزرتے ہیں اور جب ان کوان کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جاتی ہے تو بہرے اندھے ہو کر نہیں ٹوٹ پڑتے ہیں بلکہ دھیان رکھ کر سنتے ہیں۔
اوصاف اولیاء اللہ کا خلاصہ:۔
(۱)۔۔۔متکبر نہ ہونا ۔
(۲)۔۔۔ہر بات پر بگڑ نہ جائے ۔
(۳)۔۔۔راتیں یاد الہٰی میں بسر ہوں ،تہجد کا عادی ہو۔
(۴)۔۔۔ذکر وفکر اس کا شعار ہو ،نیک عمل کرنے کے باوجود ڈرتا رہے۔
(۵)۔۔۔راہ حق میں مال خرچ کرتا ہو ،لیکن فضول خرچی نہ کرتا ہو۔
(۶)۔۔۔حاجت روائی مشکل کشائی کے لئے خدا تعالیٰ کے بغیر کسی کو غیب دان اور متصرف سمجھ کر نہ پکارتا ہو ۔
(۷)۔۔۔ناحق قتل نہ کرے ۔
(۸) ۔۔۔بدمعاشی رنڈی باز قسم کا آدمی نہ ہو۔
(۹)۔۔۔ جھوٹی شہادت نہ دیتا ہو۔
(۱۰) ۔۔۔بیہودہ افعال یا بدگوئی ،بری رسموں کی طرف ذرہ بھر بھی متوجہ نہ ہو۔
(۱۱)۔۔۔ہر مشکل میں خدا تعالیٰ کو پکارے ۔
یہ سب اوصاف ایک نیک بخت صالح او رولی اللہ کے لئے ضروری ہیں سو اگر خدانخواستہ ان صفات عالیہ سے موصوف نہ ہو تو شرعاً وہ نہ ولی کہلانے کا مستحق ہے او رنہ مرشد۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے حضرات سے تعلقات قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو قرآن وحدیث کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے والے ہوں۔ آمین
کیا شریعت طریقت کے مقابلہ میں لاَشے ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ حضرت شیخ قطب الاقطاب مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے کوبڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے
(۱)۔۔۔ الطریقۃ والمعرفۃ کلاہما وزیر اللشریعۃ
طریقت ومعرفت دونوں شریعت کے وزیر ہیں
(۲)۔۔۔الطریقۃ خلاف الشریعۃ زندیقۃ
جو طریقت شریعت کے خلاف ہو وہ بے دینی ہے
حضرات :۔ان تسبیحات اور مراقبات سے شریعت پر عمل آسان ہوتا ہے مقصود اہل حق کے نزدیک شریعت ہی ہے۔
یہی شریعت تو تھی جس کے لئے حضور علیہ السلام نے تکلیفیں برداشت کیں ، خداگواہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے دندان مبارک شہید ہوئے تو شریعت کی خاطر ،
اور وجود لہولہان ہواتو شریعت کی خاطر ۔
ہم اس بناوٹی طریقت ومعرفت کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لئے تیار ہیں ، جس سے شریعت پر بدنما داغ لگتا ہو ۔
سن لو اور کھلے لفظوں میں سن لو ،ہم بتوں کے پجاری نہیں ہیں ہم اللہ کے پجاری ہیں ہم بدعات ورسومات کے دلدادہ نہیں ہیں سنت خیر الوریٰ کے متبع ہیں ۔
ان وظائف واوراد کو ہم روحانی علاج تصور کرتے ہیں دین اور شریعت میں اس طرح ضروری نہیں سمجھتے کہ ان کے بغیر خداکا ملنا ہی محال ہو ۔یاد رکھو التزام مالایلتزم بدعت ہے اور ہم اس سے کنارہ کش ہیں۔
تزکیہ یا اطمینان قلب؟
ہاں تو میں عرض یہ کررہا تھا کہ علاج سب سے پہلے دل کا کرنا چاہیئے اور اس کی درستگی تب ہوگی جب اسے اللہ کی طرف متوجہ کیا جائے اور اس کی توجہ کا واحدطریقہ ذکر خدا ہے جس کے لئے آج کی مجلس منعقد کی گئی ہے۔
حضرت کا ارشاد گرامی :۔
فی الجسد مضغۃ اذا اصلحت صلح الجسد واذافسدت فسد الجسد کلہ الاوہی القلب
بلاشبہ جسم میں ایک مضغہ ہے اگر وہ اچھارہا تو سارا وجود اچھا رہے گا اگر وہ فاسد ہوگیا تو ساراو جود فاسد ہوجائے گا خبردار وہ دل ہے۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ اصلاح کا مداراصلاح قلب پر ہے تو اب ہمیں سوچنا ہے کہ اسکی اصلاح کس طرح ہوگی تو اسے حل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا ہے،
اَلَابِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ
خبردار اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمینا ن حاصل ہوتا ہے
یہ نسخہ ایک قطعی اور یقینی نسخہ ہے بلاشبہ قلوب کا تزکیہ اورا طمینان بغیر یاد خد اکے مشکل ہے اور ذکر خواہ تلاوت قرآن سے ہو یا تعلیم وتعلم سے اورادو وظائف سے ہو یا تفکر وتسبیحات سے بہرحال قلبی سکون وراحت ذکر الہٰی اور صرف ذکر الہٰی میں ہے
ذکر الہٰی کا ذکر قرآن میں ۔۔۔اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے
رِجَالٌ لَّاتُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ۔
ایسے مرد ہیں کہ جن کو کوئی چھوٹی بڑی تجارت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی۔
پیام مغفرت:۔
وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہ کَثِیْرًاوَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّاللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًاz (پارہ ۲۳)
وہ مرد جو اللہ کا ذکرکرنے والے ہیں اور وہ عورتیں جو خداتعالیٰ کا ذکر کرنے والیاں ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کررکھا ہے
جہاد میں بھی ذکر خدانہ چھوٹنے پائے :۔
یٰٓاَیُّہَاالَّذیْنَ اٰمَنُوْآاِذَالَقِیْتُمْ فِءَۃًفَاثْبُتُوْْاوَاذْکُرُواللّٰہَ کَثِیْرًالَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ z(پ۱۰)
اے ایمان والو جب تم لڑائی شروع کرو تو ثابت قدم رہواور خداتعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو تا کہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔
نماز جمعہ کے بعد بھی ذکر الہٰی :۔
فَاِذَاقُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْافِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْامِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُواللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَz (پ ۲۸)
پس جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل کو تلاش کرو اور خداکو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
زندگی میں زندگی :۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل الذی یذکرربہ والذی لا یذکر مثل الحی والمیت (متفق علیہ )
حضور علیہ السلام نے فرمایا ذکر خدا کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ۔
ذکر کرنے والوں پر اللہ کی رحمت :۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یقعد قوم یذکرون اللہ الا حفتہم الملئکۃ وغشیتہم الرحمۃ ونزلت علیہم السکینۃ وذکرہم اللہ فی من عندہ (مسلم )
حضور ؐ نے فرمایا ،جہاں کوئی جماعت خداتعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھتی ہے تو فرشتے بھی ان کو ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت بھی سکینت ان پر نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے
یاد کی یاد :۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا عند ظن عبدی بی وانا معہ اذا ذکرنی فان ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی وان ذکرنی فی ملأ ذکرتہ فی ملا خیر منہم۔
حضور ؐ نے فرمایا میں اپنے بندے کے گمان کے قریب ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے پس اگر وہ مجھے اکیلا یاد کرتا ہے تو میں اسے اکیلا یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے اچھی جماعت میں یاد کرتا ہوں۔
فرشتوں کی اسپیشل فوج :۔
قال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وان اللّٰہ ملائکۃ یطوفون فی الطرق یلتمسون اہل الذکر فاذا وجدوا قوما یذکرون اللہ تنادوا ہلمو الی حاجتکم قال فیحفونہم با جنحتہم الی السماء الدنیا قال فیسا لہم ربہم وہوا علم بہم ما یقول عبادی قال یقولون یسبحونک ویکبرونک ویحمد ونک و یمجدونک قال فیقول ہل راؤنی قال فیقولون لاواللہ ماراؤک قال فیقول کیف لوراؤنی قال فیقولون لوراؤک کانوااشد لک عبادۃ واشد لک تمجید اواکثر لک تسبیحا قال فیقول فما یئالون قالوایسألونک الجنۃ قال فیقول فہل راؤہا قال فیقولون لاواللہ یارب ماراوہاقال یقول فیکف لو راؤہا یقولون کانو اشد علیہا حرصا واشد لہا طلب وعظم فیہا رغبۃ قال فمما ایتعوذون قال یقولون من النار قال یقول فہل راؤہا قال یقولون لا واللہ یارب ماراؤہا قال یقول فیکف لوراؤہا قال فیقولون لوراؤہا کانواشد منہا فرارواشد لہا مخافۃ قال فیقولون فاشہد کم انی قد غفرت لہم قال یقول لک من الملائکۃ فیہم فلان لیس منہم انما جاء لحاجتہ قال ہم الجلساء لایشقی جلیسہم (رواۃ بخاری)
حضور ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے لئے فرشتوں کی ایک جماعت ہے جو کہ ذکرالہٰی کرنے والوں کی جستجو میں پھرتی رہتی ہے پس جب وہ ان کو پالیتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں آجاؤ مقصود حاصل ہوگیا ہے پس وہ ان کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں پس اللہ تعالیٰ ان سے ،جاننے کے باوجود پوچھتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ،تیری تسبیح ،تکبیر ،تحمید ،وتمجید کررہے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں اللہ کی قسم آپ کو انہوں نے نہیں دیکھا ،پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور اگر دیکھ بھی لیں ؟تو فرشتے کہتے ہیں اگر دیکھ بھی لیں تو عبادت میں سخت مصروف ہوجائیں اور ذکر زیادہ کریں پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا طلب کرتے ہیں ؟فرشتے کہتے ہیں بہشت مانگتے ہیں ،پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا انہوں نے بہشت کو دیکھا ہے ؟فرشتے کہتے ہیں نہیں فرماتے ہیں اگر دیکھ لیں؟ عرض کرتے ہیں اگر دیکھ لیں تو حرص طلب اور رغبت بڑھ جائے پھر پوچھتے ہیں کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ عرض کرتے ہیں جہنم سے کیا اسے دیکھا ہے ؟دیکھا تو نہیں اگر دیکھ لیں تو بہت زیادہ ڈرنے لگ جائیں گے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں اے فرشتو گواہ ہوجاؤ میں نے ان تمام ذکرکرنے والوں کو بخش دیا ہے ان میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ یااللہ فلاں شخص اس مجلس ذکر میں محض اپنے کام کے لئے آیا تھا اور یونہی بیٹھ گیا تھا تواللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ یہ وہ مجلس ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والابھی محروم نہیں رہتا ۔
حضرات :۔یہ ہے ہمارا مقصد خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے دربار میں ہمارے اجلاس کو قبول فرمائے۔
وظائف کیوں کیئے جاتے ہیں ؟
بہت سے ناواقف اور ہم چوں ما دیگرے نیست کہنے کے عادی یہ کہا کرتے ہیں کہ وظائف کیوں کئے جاتے ہیں؟
عرض یہ ہے کہ یہ وظائف حقیقت میں فرائض عمل کو آسان بناتے ہیں ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے کہ صحیح العقیدہ شیخ کے جو ہاتھ آگیا اور پھر اس کے فرمان کے مطابق وظائف کو مسلسل جاری رکھا تو ۔
(۱)۔۔۔اس میں عملی طور پر نمایاں ترقی نظر آئی۔
(۲) ۔۔۔اس کے لئے سنت پر عمل کرنا سہل ہوگیا ۔
(۳)۔۔۔جو بھولے سے کبھی نماز پڑھ لیتا تھا ،وہ تہجد کا عادی بن گیا۔
(۴) ۔۔۔داڑھی شریعت کے مطابق ہوگئی ۔
(۵) ۔۔۔اچھے اچھے خواب نظر آنے لگے ۔
(۶) ۔۔۔بارہا سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نیند میں نصیب ہوا ۔
(۷) ۔۔۔نہ صرف وہ سنور گیا بلکہ اس کے ذریعہ بیسیوں اور بھی شریعت کے پابند ہوگئے ۔
باطن کی ترقی سے ظاہر کی ترقی ہوتی ہے :۔
لیکن باطنی ترقی اصلاح کے بغیر ناممکن ہے ،اور اصلاح ،شیخ کامل اور اتباع سنت کے بغیر ناممکن ہے ۔اطاعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کے بغیر مشکل ہے ،اور محبت کا مقام قلب ہے ،معلوم ہوا ہے کہ اگر قلب میں یاد خدا ہوگی تو حضورؐ کے فرمان کے مطابق انسان حضور علیہ السلام کے ہرفرمان کی تعمیل کرے گا۔
باطنی اصلاح کی ضرورت
پہلی مثال :۔
کاغذی بادام کا نرخ آج کل مارکیٹ میں چار روپے سیر ہے اگر آپ ایک سیر بادام لے کر مغز نکال لیں اور باقی چھلکے واپس کریں اور دوکاندار کو اسی نرخ پر واپس کرنے پر مجبور کریں تو دنیا آپ کو بے وقوف خیال کرے گی ۔کیونکہ بادام کی قیمت تو اس کے مغز کے ساتھ تھی ۔جب مغز نکل گیا تو اب چھلکا ٹکے سیر خریدنے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں ہے بس اسی طرح آپ کے ظاہرکی قدر خداتعالیٰ کے ہاں اس وقت ہوگی جب آپ کا باطن ذکر الہٰی کے نور سے معمور ہوگا ۔
دوسری مثال :۔
ایک شخص ہاتھ میں پنجرہ لئے ہوئے اسے قسم وقسم کے رنگا رنگ کپڑے سے سلے ہوئے چولے سے چھپائے ہوئے ،چاندی کا کڑااس کی چوٹی پر لگائے ہوئے بازار کی سیر کررہا ہے دیکھنے والا یقین کرتا ہے کہ اس پنجرے کے اندر بہترین قسم کا اور شکاری طرز کا تیتر ہوگا ۔
جب لوگ دیکھتے ہیں تو پنجرہ یا تو خالی ہے اور یا تیتر وحشی ہے ،بولتا ہی نہیں تو لوگ اسے کہیں گے یہ بڑا بے وقوف ہے پنجرہ اورپنجرے کا چولاایسا شاندار ہے اور اندر کا پرندہ گونگا ہے ، اور اگر پرندہ تو مالک کی سیٹی پر بولنے والا ہے لیکن پنجرہ بالکل سادہ ہے تو لوگ اسے شاباش کہیں گے کیونکہ لوگوں کی نگاہیں پنجرے پر نہیں ہوتیں اس پرندے پر ہوتی ہیں،
بس اسی طرح اگر آپ کے سر پر زری سے جڑا ہوا کلاہ ہے ،بدن پر لال گھوڑے کی قمیص ہے نیچے پاجامہ ہے اور آپ کا قلب ذکر الہیٰ کا واقف بھی نہیں ہے نہ آپ کو مراقبے کی عادت ہے اور نہ قلبی ذکر نہ آپ کا قلب مہبط انوار ہے اور نہ متوجہ الی اللہ ہے تو یقین جانئیے یہ لباس اور زینت خدا کے دربار میں ناقابل قبول ہے بلکہ مبغوض ومذموم ہے۔
تیسری مثال :۔
صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے ہی کانوں میں رونے چیخنے چلانے اور آہ وبکاکی آوا ز سنائی دی معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ایک عورت برسر بازار رورہی ہے کہ آہ میرا بچہ بچہ اس کے سامنے چارپائی پر پڑاہوا ہے اس سے جب پوچھا گیا کہ تیرا بچہ تو چار پائی پر پڑا ہوا ہے اور تو چیخ چیخ کر بچے کو پکار رہی ہے ؟جواب دیتی ہے کہ یہ تو میرے بچے کا جنازہ ہے بچہ تو جہاں کا تھا وہاں چلاگیا۔
معلوم ہوا کہ جسم فقط لاش ہے حقیقی انسانیت تو روحانیت کی زندگی ہے یقین جانیئے کہ ذکر الہٰی نہ کرنے والے وجود حقیقت میں ایک قسم کی لاشیں ہیں۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی زیارت :۔
آپ سن کر حیران ہونگے کہ ہمارے سلسلہ عالیہ میں ایک ایسا اللہ کا شیر بھی پیدا ہوا ہے جن کی نظر میں غضب کا اثر تھا علم سلوک وتصوف میں درجہ علیا پر فائز تھے ،لباس سادہ تھا مگر علم شریعت وطریقت میں انتہائی درجے کے ولی تھے ذکرالہٰی نہ صرف بتاتے تھے بلکہ ان کی توجہ سے تھوڑی سی مدت کے اندر ساتوں کے ساتوں لطائف یکلخت جاری ہوجاتے تھے کشف میں کمال حاصل تھا اللہ کی توحید کے لئے وطن کو خیر بادتو کہہ دیا مگر مسئلے کو نہ چھوڑا ذکر الٰہی کی برکت سے انہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی زیارت ہوئی۔
آپ انتظار میں ہوں گے کہ ایسی ہستی نقشبندیہ سلسلے میں کون تھی ؟تو سن لو وہ تھے خواجہ محمد عثمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز حضر ت مولانا حسین علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن کا علمی فیض آج اکناف عالم تک پہنچ چکا ہے۔
بہرحال میرا مقصد یہ ہے کہ پہلے دور کے علماء نہ صرف عالم ہوتے تھے بلکہ عارف بھی ہوتے تھے لیکن افسوس یہ کہ آج کل کے بعض علماء صرف فرائض اور مؤکدہ سنتوں پر ہی اکتفاء کرلیتے ہیں نہ نوافل کی پروا ہ ہے اور نہ اور ارادووظائف سے سروکار ہے اور اگر کہا جائے تو جھگڑا مول لینا پڑتا ہے۔
میں علماء ملت سے کہوں گا شریعت اور طریقت کے بٹوارے کو ختم کردو ، خدانخواستہ ایسا دن کبھی ہمیں دیکھنا نصیب نہ ہو کہ شریعت اور طریقت کے ٹھیکیدار تو تم بن جاؤ اور اورادووظائف جاہلوں کے سپرد کردوورنہ چند دنوں کے بعد استدراج اور کرامت کے درمیان فرق مشکل ہوجائے گا ہم نے اکابر میں سے جسے دیکھا ہے اسی رنگ میں رنگا ہواپایا ہے ۔
خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا عابد اور اپنے حبیب ؐ کا مطیع بنائیں اور قیامت کے دن صالحین کے گروہ سے اٹھائیں واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین