گناہ ــــــپریشانیوں کا سبب از: مولانا محمد شفیق الرحمن علوی

 

آج ہر انسان پریشان ہیکسی کوجانی پریشانی ہے تو کسی کومالی، کسی کو منصب کی پریشانی ہے تو کسی کوعزت وآبرو کی، امیر اپنی کوٹھی میں پریشان تو غریب جَھونپڑی میں، کوئی روزگار اور حالات سے نالاں ہے تو کوئی عزیز واقارب اور دوست واحباب سے شاکی۔ تقریباً ہر آدمی کسی نہ کسی فکر، ٹینشن اور پریشانی میں مبتلاہے۔

 دلی سکون،قرار اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہر ایک اپنے ذہن اوراپنی سوچ کے مطابق اپنی پریشانیوں کی از خود تشخیص کرکے ان کے علاج میں لگتاہے۔ کوئی اقتدار،منصب یا عہدہ میں سکون تلاش کرتاہے؛ مگر جب اُسے مطلوبہ منصب مل جاتا ہے تو پتہ چلتاہے کہ اس میں تو سکون نام کی کوئی چیز ہی نہیں؛ بلکہ منصب کی ذمہ داریوں اورمنصب کے زوال کے اندیشوں کی صورت میں اور زیادہ تفکرات ہیں۔

کسی نے سمجھا کہ سکون صرف مال ودولت کی کثرت وفراوانی میں ہے؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ مال ودولت حاصل ہوا، اُن میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ کاروباری تفکرات، ترقی کا شوق،دن بدن بڑھتی ہوئی حرص اور تجارت میں نقصان کے اندیشوں سے اُن کی راتوں کی نیند حرام ہے،الا ماشاء اللہ۔کسی نے رقص وسرود اور شراب وکباب کو باعثِ سکون جانا؛ مگروقتی اور عارضی لذت کے بعد پھر بھی بے چینی اور اضطراب برقرار۔ کسی نے منشیات کا سہارا لیا؛ مگر اس میں بھی صرف عارضی دل بہلاوا، عارضی فائدہ اور دائمی نقصان۔ کسی نے نت نئے فیشن کرکے دل بہلانے کی کوشش کی؛ مگر سکون وقرار نہ ملا۔

 جب کہدینی ذہن رکھنے والوں کا یہ خیال ہے کہ مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا اصل طریقہ اور اُن کا حقیقی علاج صرف ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو گناہگار،خطاکار، نافرمان اور قصوروار سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا جائے؛ کیونکہ سکون وراحت کے سب خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں،وہی ان کا مالک ہے، جب مالک راضی ہوگا تو خوش ہوکر اپنی مملوکہ چیز(سکون وراحت) اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا کرے گا اور وہ مالک راضی ہوتا ہے نافرمانی اور گناہوں کو چھوڑنے اور فرمانبرداری اختیارکرنے سے۔

ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی سے ہے۔ کسی واقعہ اور حادثہ کے طبعی اسباب جنہیں ہم دیکھتے، سُنتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ کسی اچھے یا برے واقعہ کے لیے محض ظاہری سبب کے درجہ میں ہیں۔ سادہ لوح لوگ حوادث وآفات کو صرف طبعی اورظاہری اسباب سے جوڑتے اورپھراِسی اعتبار سے اُن حوادث سے بچاؤ کی تدابیر کرتے ہیں۔ شرعی تعلیمات کی روشنی میں بحیثیت مسلمان ہمیں یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور امر سے ہوتا ہے، جس کاعقل اورحواس خمسہ کے ذریعہ ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں، وحی الٰہی اورانبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جزاء وسزا کا جو نظام سمجھایا ہے، وہ ہمیں اس غیبی نظام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی واقعہ اور حادثہ کا اصل اورحقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ناراضی ہے۔

 اللہ تعالیٰ نے حالات کو (خواہ اچھے ہوں یا بُرے) انسانی اعمال سے جوڑا اور وابستہ فرمایا ہے، چنانچہ انسان کے نیک وبداعمال کی نوعیت کے اعتبار سے احوال مرتب ہوتے ہیں؛ صحت ومرض، نفع ونقصان، کامیابی وناکامی، خوشی وغمی، بارش وخشک سالی، مہنگائی وارز انی، بدامنی ودہشت گردی، وبائی امراض، زلزلہ، طوفان، سیلاب وغیرہ،یہ سب ہمارے نیک وبد اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر :ان سب احوال کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں؛ مگر حقیقی اسباب ہمارے نیک وبد اعمال ہوتے ہیں۔اس طرح کے خوفناک اور عبرت انگیز واقعات (خواہ انفرادی ہوں یااجتماعی ) دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”الارم“ اور ”تنبیہ“ ہوتے ہیں؛ تاکہ انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور کوئی تنبیہ اس کے غفلت شعار دل کو جُنبش دینے میں کامیاب ہوجائے :

جب بھی میں کہتا ہوں: اے اللہ! میرا حال دیکھ

حکم   ہو  تا    ہے   کہ    ا   پنا     نا   مہٴ   ا   عما    ل   د  یکھ

دُنیا میں پیش آمدہ اچھے یا بُرے واقعات سے حاصل ہونے والا انسانی تجربہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ بہت سارے لوگوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے دُنیا میں ہی مختلف قسم کے عذاب آئے ہیں، مثلاً:کوئی مسخ کیاگیا، کوئی زمین میں دھنسایا گیا، کوئی دریا میں غرق کیاگیا،کوئی طوفان کی نذر ہوا۔ ان تباہ شدہ اقوام کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی اس حقیقت پر دال ہیں کہ نافرمانی سببِ پریشانی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں اعمال کی حسبِ نوعیت تاثیرات کو(جیسی کرنی ویسی بھرنی کے بہ مصداق) مختلف پہلوؤں اور طریقوں سے بیان فرمایا ہے، امت کوبدعملیوں کے بُرے نتائج سے آگاہ فرماکر اعمال کی اصلاح کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ یہ مضمون قرآن کریم کی دسیوں آیات اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں احادیث سے صراحةً ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

۱- ”مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوةً طَیِّبَةً“․ (النحل:۹۷)

ترجمہ:”جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نیکی پُرسکون زندگی کا سبب ہے؛چنانچہ دو چیزوں (ایمان اور اعمال صالحہ) کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ”حیٰوة طیبة“ یعنی پرلطف اور پُرسکون زندگی عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔ عام آدمی بھی یہ آیت پڑھ کر یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ نہ ہوں یا کوئی ایک نہ ہو تو ”حیٰوة طیّبة“ یعنی ”پُرسکون زندگی“ نصیب نہ ہوگی، بلکہ ”پریشان زندگی“ نصیب ہوگی۔

۲- ”وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَعْمیٰ“․ (طہ:۱۲۴)

ترجمہ:”اور جو شخص میری نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔“

مطلب یہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہ کی؛ بلکہ نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا کی زندگی تنگ کردیں گے، ظاہری طور پر مال ودولت، منصب وعزت مل بھی جائے تو قلب میں سکون نہیں آنے دیں گے، اس طور پر کہ ہر وقت دنیا کی حرص، ترقی کی فکر او ر کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہے گا۔ اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔

۳- ”ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ“․(الروم:۴۱)

ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔

۴- ”وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ“․ (الشوریٰ:۳۰)

ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“۔

ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بآسانی سمجھ میں آرہاہے کہ: اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔

۵- ”وَلَوْ أَ نَّ أَہْلَ الْقُرَیٰ أٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمآءِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنٰہُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ“․(الاعراف:۹۶)

ترجمہ:”اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے؛ لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا“۔

یعنی ایمان اور تقویٰ( اعمالِ صالحہ) برکت وخوشحالی کا ذریعہ اور بُرے اعمال عذاب وپکڑ اور پریشانی کا سبب ہیں۔

۶- ”وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّةً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاََتتََوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ“․(ہود:۵۲)

ترجمہ:”اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو“۔

۷- ”فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہ کَانَ غَفَّارًا، یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا، وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہٰرًا“․(نوح:۱۲)

ترجمہ: ”تو میں نے کہا کہ گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ بخشنے والا ہے، تم پر آسمان کی دھاریں (تیز بارشیں) برسائے گا اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں“۔

ان دونوں آیات میں نعمتوں اور برکات کے حصول کا طریقہ گناہوں سے توبہ، استغفار اور تقویٰ کو بیان فرمایا ہے، جب معلوم ہوا کہ گناہوں کا چھوڑنا اور توبہ کرنا مال واولاد کی کثرت اور خوشحالی کا سبب ہے تو اس سے لازمی طور صاحبِ عقل وشعور یہی نتیجہ نکالے گا کہ” گناہ اور نافرمانی، نعمتوں میں کمی اور بدحالی کا سبب ہے“۔

۸- ”وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ“․ (الطلاق:۲،۳)

ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا“۔

اس آیت میں تقویٰ کو نجات اور وسعتِ رزق کا سبب بتایا ہے اور اس کا عکس یہی ہے کہ نافرمانی اور گناہ‘ پریشانیوں میں گرفتار ہونے اور قلتِ رزق اورنعمت میں کمی کا سبب ہے۔

۹- ”وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَةً کَانَتْ أٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً یَّأْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بأَنْعُمِ اللّٰہِ فَأَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ“․(النحل: ۱۱۲)

ترجمہ:”اور بتائی اللہ نے ایک بستی کی مثال جو چین وامن سے تھے، چلی آتی تھی اس کی روزی فراغت سے ہرجگہ سے، پھر ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، پھرمزہ چکھایا اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کے لباس کا“۔

اگر غور کیا جائے تو یہ آیت درحقیقت ایک آئینہ ہے، جس میں ہر بستی اور ہر ملک والے اپنی حالت دیکھ اور جانچ سکتے ہیں۔ جس کی حالت اس بستی کی طرح ہے، وہ سمجھ لے کہ اُس سے غلطی بھی اُنھیں کی طرح ہوئی ہے۔اپنے ملک کے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے آیت کے ترجمہ کودوبارہ پڑھیں اور غورکریں تو صاف پتہ چلے گا کہ ہم میں اور ان بستی والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اسلامی ملک پاکستان کے ساتھ مسلمانانِ پاکستان نے جو غیر اسلامی سلوک روا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری ہے ،جس کے نتیجہ میں ہم پر آج برے حالات مسلط ہیں ۔ہمارے وطن کے من جملہ بڑے مسائل میں سے دو مسئلے بہت خطرناک اور انتہائی پریشان کن ہیں۔ (۱)مہنگائی۔ (۲)بدامنی اور دہشت گردی۔ اس آیت میں بھی ناشکری کی دو سزائیں مذکور ہیں، ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور اُس کی نافرمانی کی ہے؛ اس لیے ہم ان حالات کا شکار ہیں۔بہرحال قرآن مجید کی یہ آیت ٹھیک ٹھیک ہمارے حالات پر چسپاں ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔

بہت سی احادیث بھی صراحةً اسی مضمون ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون“ پر دلالت کرتی ہیں۔ ”مشتے نمونہ ازخروارے“یہاں چنداحادیث پیش کی جاتی ہیں، حضرت ابن عمرسے روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” اس وقت کیا ہوگا؟ جب پانچ چیزیں تم میں پیدا ہوجائیں گی اور میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تم میں پیدا ہوں یا تم ان (پانچ چیزوں) کو پاؤ، (وہ یہ ہیں):

 ۱-بے حیائی: جسے کسی قوم میں علانیہ (ظاہراً) کیا جاتا ہو تو اس میں طاعون اور وہ بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو ان سے پہلوؤں میں نہیں تھیں۔

۲- اور جو قوم زکوٰة سے رک جاتی ہے تو وہ (درحقیقت) آسمان سے ہونے والی بارش کو روکتی ہے اور اگر جانور نہ ہوتے تو ان پر بارش برستی ہی نہیں۔

 ۳-اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، رزق کی تنگی اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

۴- اور امراء جب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے بغیر فیصلے کرتے ہیں تو ان پر دشمن مسلط ہوجاتا ہے جو ان سے ان کی بعض چیزوں کو چھین لیتا ہے۔

۵- اور جب اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلمکی سنت کو چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں جھگڑے پیدا کردیتا ہے“۔(الترغیب،ج:۳،ص:۱۶۹)

مذکورہ حدیث میں مختلف گناہوں کو مختلف آفات وپریشانیوں کا سبب بتایا گیا ہے، اس قدر صراحت کے بعد بھی کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور باعثِ عذاب ہے“؟۔

ایک اور روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے:

”عبادَ اللّٰہ! لَتُسَوُّنَّ صفوفَکم أو لیخالفَنَّ اللہ بین وجوہکم“․(مشکوٰة،ص:۹۷)

ترجمہ:”اے اللہ کے بندو! تم اپنی صفوں کو درست کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں (یعنی دلوں) میں اختلاف پیدا کردے گا“۔

مذکورہ حدیث میں صفوں کو سیدھا نہ کرنے کے فعل بد پر(جو ہے بھی بظاہر چھوٹا گناہ) آپس میں اختلافات پیدا ہونے کی وعید ہے،اس سے واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ بُرے اعمال سبب پریشانی ہیں۔ حضرت حسن بصریسے منقول ایک حدیث میں ہے کہ:

 ”أعمالکم عمالکم وکما تکونوا یولی علیکم“․(کشف الخفاء ج:۱، ص:۱۴۷، بحوالہ طبرانی)

 ترجمہ:”تمہارے اعمال ہی (درحقیقت) تمہارے حاکم ہیں اور جیسے تم ہوگے ایسے ہی حاکم تم پر مسلّط ہوں گے“۔

یہ حدیث بھی اعمالِ بد کے برے نتائج برآمد ہونے پر دلالت کرتی ہے؛ چنانچہ برے اور ظالم حکمران بھی اعمالِ بد کی وجہ سے مسلط ہوتے ہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہاں ذکر کردیا جائے، جومذکورہ مسئلہ پر دلالت کرتا ہے :”حضرت عمرکے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور حجاز کے علاقہ میں زبردست قحط پڑا، حضرت عمرنے مصر وشام کے علاقہ سے کثیر مقدار میں غذائی اشیا منگوائیں؛ مگر قحط کسی طور پر کم نہ ہوا، ایک صحابی بلال بن حارث مزنیکو خواب میں حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: میں تو سمجھتا تھا کہ عمر  سمجھدار آدمی ہے! اس صحابی نے حضرت عمرکو خواب سنایا، حضرت عمر بہت پریشان ہوئے اور نمازِ فجر کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں نے میرے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد کوئی تبدیلی محسوس کی؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: نہیں اورحضرت عمرکی کچھ تعریف کی۔ حضرت عمرنے خواب دیکھنے والے صحابیکو فرمایا کہ اپنا خواب بیان کریں۔ خواب سن کرصحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا: امیر المؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جانب متوجہ فرمارہے ہیں کہ قحط کے حالات سے نمٹنے کے لیے آپ دنیا کے ظاہری اسباب تو اختیار فرمارہے ہیں؛ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ سے رجوع نہیں کیا، یعنی نمازِ استسقاء نہیں پڑھی، حضرت عمر چونکہ حق قبول کرنے کا مزاج رکھتے تھے تو آپ  نے نمازِ استسقاء ادا فرمائی اور ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ کا طویل قحط دور ہوا۔ (البدایہ والنہایہ،ج:۷، ص:۲۰۳،۲۰۴)

اس واقعہ پر غور کرنے سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ اچھے اعمال کا اثر بھی اچھا اور بُرے اعمال کا اثر بھی بُرا ہوتا ہے،جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں نمازِ استسقاء کا اثر اچھا ہوا۔ اوراس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسائل صرف ظاہری اسباب سے حل نہیں ہوتے؛ بلکہ ان کے لیے باطنی اسباب بھی ضروری ہوتے ہیں۔

ممکن ہے کسی کو یہ تردّد اور اشکال ہو کہ عجیب بات ہے، پریشانی دنیوی ہے اور مشورہ دنیوی اسباب کے بجائے گناہوں اور نافرمانیوں کے چھوڑنے کادیا جارہا ہے، یعنی بظاہر ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا۔

اس اعتراض کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہوں کو پریشانی اور نیکی کو راحت واطمینان کا سبب قرار دے دیا تو ایک مسلمان کے ایمان کاتقاضا یہ ہے کہ عقل میں آئے یا نہ آئے، بلاتردُّد ”آمَنَّا وَصَدَّقْنَا“کہے اور بزبانِ حال یوں گویا ہو کہ:

سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

کیونکہ جس ذات پر ایمان لائے ہیں، اس کا یہی فرمان ہے، اس لیے ماننے کے سوا چارہٴ کار نہیں۔

دوسرا جواب عقلی لحاظ سے یہ ہے کہ مال ودولت، عزت ومنصب، صحت وتندرستی، راحت وسکون وغیرہ،یعنی دنیا کی ہر نعمت اللہ تعالیٰ کے خزانہ اور ملکیت میں ہے، جب ہر نعمت اللہ تعالیٰ کے خزانہ اور ملکیت میں ہے تو پھر سوچئے کہ کیا مالک (اللہ تعالیٰ) جس کے دربار میں نہ ہی چوری ممکن ہے اور نہ زبردستی سفارش، اس کو راضی کیے بغیر کچھ لیا جاسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرکے ہی پریشانیوں سے چھٹکارا اور راحت وسکون مل سکتا ہے۔

ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں : بعض اوقات نیک وصالح،دین دار، حتیٰ کہ بزرگ حضرات بھی مصیبت وپریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں؛ حالانکہ وہ گناہوں سے بھی بچ رہے ہوتے ہیں، فرمانبرداری بھی کر رہے ہوتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟۔

اس کاایک جواب تو یہ ہے کہ یہ قاعدہ اکثریہ ہے یعنی اکثر پریشانیاں گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں؛ مگر بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو بہ طورِ آزمائش ہوتی ہیں اور نتیجتاً نعمت کے حصول کا سبب بنتی ہیں،وہ اس طرح کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کو کسی خاص اخروی درجہ اور مرتبہ پر فائز کرنا چاہتے ہیں؛ مگر وہ اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے نیکیوں کی بنیاد پر اُس کا مستحق نہیں بن سکتا تو اللہ تعالیٰ اُس کے مرتبہ کو مزید بڑھانے اور اونچا کرنے کے لیے دنیا کے اندر آزمائش (بیماری، پریشانی وغیرہ) میں مبتلا کردیتے ہیں تو یہ مصیبت درحقیقت مصیبت نہیں ہوتی، بلکہ ایک طرح کی نعمت ہوتی ہے جو نتیجتاً رفعِ درجات کا سبب بنتی ہے، انبیاء علیہم السلام کی تکالیف اور آزمائشیں اسی قبیل سے ہیں،ان کی مثال اُس محنت کی طرح ہے جو کسی نعمت کے حصول میں کرنی پڑتی ہے،جیسے شہد کے حصول میں بعض اوقات شہد کی مکھی کے ڈنک سہنے پڑتے ہیں، تو اس طرح کی پریشانیاں دراصل شہد کی مکھی کے اُن ڈنکوں کی طرح ہیں جو بالآخر شہد جیسی نعمت کے حصول پر منتج ہوتے ہیں۔

اس شبہ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس نیک بندے سے بشری کمزوری کی بنا پر کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ جو بڑے رحیم وکریم ہیں، اپنے خاص بندے کے اس گناہ کو دنیا ہی میں دھونے کے لیے اُسے مصیبت میں مبتلا کردیتے ہیں؛ تاکہ وہ آخرت کی بڑی رُسوائی اور بڑے عذاب سے بچ جائے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ایک صورت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔

ان دو جوابات کا حاصل یہ ہے کہ انسان پر آنے والی پریشانی دو قسم کی ہوتی ہے:ایک پریشانی وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے،جو اخروی عذاب کی ایک جھلک ہوتی ہے۔ اصل دارالجزاء تو آخرت ہے، دنیا دارالعمل ہے؛ مگر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اخروی عذاب کا ایک ادنیٰ سا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے؛ تاکہ انسان نافرمانی سے باز آجائے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْن“․(السجدة:۲۱)

ترجمہ: ”اور ہم ضرور ان کو قریب کاچھوٹا عذاب چکھائیں گے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ لوٹ آئیں ۔“

اور پریشانی کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے جو رفع درجات یا گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اور یہ پریشانی اور تکلیف درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سے تکلیف کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندے کو آخرت کے بڑے عذاب سے بچالیتے ہیں یا رفع درجات کی صورت میں آخرت کی بڑی نعمت عطا فرمادیتے ہیں حتیٰ کہ ایک حدیث میں ہے کہ:

”أشد الناس بلاء الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل“․

ترجمہ:”سب سے زیادہ آزمائش انبیاء علیہم السلام پر آتی ہے ، پھر جو اُن کے جس قدر زیادہ مشابہ ہوں۔“

یعنی انبیاء علیہم السلام پر زیادہ آزمائشیں آئیں اور پھر جس کا جس قدر اُن سے زیادہ تعلق ہوگا، زیادہ قرب ہوگا، زیادہ اتباع ہوگی، اس پر بھی آزمائشیں زیادہ آئیں گی؛ مگر خدانخواستہ انبیاء علیہم السلام پر آنے والی یہ تکالیف اور آزمائشیں کوئی سزا نہیں تھیں؛ بلکہ ان کے درجات کو مزید بلند کرنا مقصد تھا۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ نافرمان لوگ جومال دار ہیں، بظاہر خوش نظر آتے ہیں۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ مالداری ایک نعمت ہے اور خوشی اور آرام کا ظاہری سبب ہے؛ مگر ضروری نہیں کہ جو مال دار ہو، وہ خوشحال اور پرسکون بھی ہو؛کیونکہ بعض لوگوں کے پاس بہ ظاہر مال ودولت اور سامانِ عیش وعشرت تو ہوتا ہے؛ مگر ان کا دل قناعت وتوکل سے خالی ہونے کی بنا پر ہروقت دنیا کی مزید حرص، ترقی کی فکر، اور کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہتا ہے، ذرا اُن سے پوچھ کر تو دیکھیے کہ وہ راحت وآرام کے سارے اسباب اپنے پاس رکھنے کے باوجود سکونِ دل کی دولت سے کتنے محروم ہیں؟ ہاں! اگر کوئی ایک آدھ فرد ا یسامل جائے جو نافرمان ہونے کے باوجودبھی خوش ہو تو وہ شاذ ونادر مثال ہوگی اور شاذ ونادر کا اعتبار نہیں ہوتا، حکم اکثریت پر لگتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ نافرمانوں کی اکثریت پریشان ہی رہتی ہے۔ دراصل قلبی سکون اور حقیقی اطمینان مال سے حاصل ہونے والی چیز ہی نہیں ہے، اس کا تعلّق اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کے ذکر سے ہے، جیساکہ ارشاد خداوندی ہے: ”أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ“ یعنی ”خبر دار اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ہوتا ہے“۔ مگر ہم میں سے اکثر لوگ چونکہ ذکر اللہ کی لذت سے بالکل کورے ہیں؛ اس لیے ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا،دراصل ہم نے اس وادی میں قدم ہی نہیں رکھا، بقولِ شاعر:

ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تانہ چشی

مذکورہ اعتراض کا یہ جواب بھی ہے کہ جو نافرمان بہ ظاہر خوشحال ہیں، انھیں دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے، جو چند روزہ ہے، یہ چند روزہ خوشحالی لمبی پریشانی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ جس خوشحالی کا انجام چند روز کے بعد دائمی تباہی ہو، اسے خوشحالی کہنا کہاں زیبا ہے؟ جیسے چوہا زہر ملی ہوئی چیز کھاکر خوش ہوتا ہے؛ مگر اس میں اس کی تباہی پوشیدہ ہوتی ہے۔

اصل نکتہ کی بات یہ ہے کہ سکون وراحت کا تعلّق صرف جسم سے نہیں ہے؛ بلکہ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی ان کا تقاضہ کرتی ہے، مادی وسائل اور راحت وسکون کے ظاہری اسباب جسم کو تو آرام دے سکتے ہیں؛ مگر روح کو قرار اور دل کو سکون بخشنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ روح کی تسکین اور اس کی غذا عبادت اور ذکر اللہ ہیں؛ کیونکہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ وہ کسی لافانی ذات کی بندگی کرے، اس فطری خواہش کی تسکین مادہ پرست زندگی کے اسباب ووسائل سے پوری نہیں ہوسکتی،روح کی تسکین کے لیے روحانی اسباب (اعمال صالحہ جیسے ذکر اللہ اور عبادت وغیرہ) کا اختیار کرنا ضروری ہے۔

ایک بزرگ نے یہی بات کیا ہی خوب صورت انداز میں بیان فرمائی ہے :

”یہ خدا نا آشنا زندگی کا لازمی خاصّہ ہے کہ اس کے شیدائی ایک انجانی سی بے قراری کا شکار رہتے ہیں، اس بے قراری کا ایک کرب انگیز پہلو یہ ہے کہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بے قرار کیوں ہیں؟ وہ ہمہ وقت اپنے دل میں ایک نامعلوم اضطرار اور پراسرار کسک محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ اضطراب کیوں ہے؟ کس لیے ہے؟ وہ نہیں جانتے“۔

خلاصہ یہ کہ ہم پر جو پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں، وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں، لہٰذا پُرسکون اورپُرلطف زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی گزشتہ کوتاہیوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے ان پر معافی مانگیں،فی الفور نافرمانی چھوڑ کر آئندہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ والله الموفّق والمعین ․