جواہرِ جہاد (قسط۲۵)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 601)
مجاہد اور امانت
کہاں گئی امانت؟… ہاں وہ پیاری امانت جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سکھائی… وہ پیاری امانت جو رسول پاکﷺ نے مکمل تاکید کے ساتھ سکھائی… کہاں گئی وہ امانت؟… جس کے آتے ہی انسان کا دل ایمان سے بھر جاتاہے… اور دنیا کا کوئی شخص ایسے انسان کو خرید نہیں سکتا… کہاں گئی وہ امانت؟… جو فقیری میں بادشاہی کا مزہ دیتی ہے اور انسان کو ہر طرح کی غلامی سے بچاتی ہے… ہاں مسلمانو! ڈھونڈو اُس امانت کو جو سورۃ انفال میں سکھائی گئی… اور اُ س پر عمل کر کے اُس زمانے کے مسلمان روم و فارس کے خزانوں کے مالک بن گئے…
اے امانت! واپس آجا… مسلمانوں میں واپس آجا… مجاہدین میں واپس آجا…اے ہماری عزت ، اے ہماری آبرو! واپس آجا…
رب کعبہ کی قسم آج اگر مجاہدین میں اجتماعیت اور امانت واپس آجائے تو… چند دن بعد زمین کا نقشہ ہی بد ل جائے… مگر جو لوگ چند لاکھ اور چند کروڑ روپے میں امانت کا خیال نہیں رکھتے اُن کو زمین کے خزانوں کا مالک کیسے بنا دیا جائے؟… مجھے یہ خبر ملتی ہے کہ امریکی بحری بیڑہ مجاہدین پر حملے کے لئے روانہ ہو چکا ہے تو میرا دل نہیں ڈوبتا… بلکہ یہی یقین ہوتاہے کہ یہ بیڑہ غرق ہو گا… مجھے انڈیا کی سازشوں کی خبر ملتی ہے تو دل میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی…بلکہ دل کہتا ہے حسبنا اﷲ ونعم الوکیل…لیکن جب یہ خبرملتی ہے کہ کسی مجاہد نے اجتماعی مال میں خیانت کی ہے تو دل ڈوبنے لگتا ہے… اور آنکھوں کے سامنے مایوسی کا اندھیرا چھانے لگتا ہے… مجاہداور خیانت؟… مسلمان اور خیانت؟… یہ کیسے ہوگیا؟… اور اب اس کا نتیجہ کتنا بھیانک نکلے گا… اور اس سے کفر کو کتنی طاقت ملے گی… دینی جماعتوں، اسلامی مدارس اور جہادی تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ اپنا مالیاتی نظام شریعت کے مطابق بنائیں… اور اس میں جتنی محنت کر سکتے ہوں کریں… کیونکہ اس کے بغیر کسی بھی دینی کام میں برکت اور قبولیت کے اثرات ظاہر نہیں ہوں گے… الحمد ﷲ ایسا بھی نہیں کہ سب ہی بگڑ گئے ہیں… میں ایسے افراد کو جانتاہوں جن کے نزدیک مال کی قیمت غلاظت کے برابر بھی نہیں… شکر الحمد ﷲ مجھے ایسے افراد کی زیارت نصیب ہوئی ہے جو مال سے نفرت رکھتے ہیں… اور حرام کا تو اُن کے نزدیک کوئی تصور بھی نہیں ہے…ہاںمیرے کاغذات میں ایسے خطوط ہیںکہ کچھ خوش نصیب لوگوں نے اپنا تمام مال جہاد کے لئے وقف کرنے… اور خود کو شہادت کے لئے پیش کرنے کی درخواست کی ہے…میں ایسے افراد کو جانتاہوں جن کے تھیلوںمیں کروڑوں روپے اجتماعی مال کے موجود ہوتے ہیں… مگر وہ اپنے گھر کے بجلی کے بل کو دیکھ کر پریشانی سے اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھ رہے ہوتے ہیں… جی ہاں وہ بل اُن پر بھاری پڑتا ہے کیونکہ اُن کے ذہن میں اس کا وہم تک نہیں آتا کہ وہ اجتماعی مال میں خیانت کریں…ہاں اب بھی ایسے لوگ ہیں جو روز انہ لاکھوں روپے اجتماعی مال کے تقسیم کرتے ہیں… اور پھر دال روٹی پر خوشی سے گزارہ کرتے ہیں… الحمد ﷲ امانتدار موجود ہیں… مگر ’’امانت‘‘ کی زور دار آواز لگانے کی ضرورت برقرارہے… دشمنان اسلام نے زندگی کو مہنگا کردیا تاکہ مسلمان مال کے پیچھے دوڑ کر اپنے رب کو بھول جائے… اﷲ تعالیٰ کے لئے اس سازش کو سمجھیں… اور اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں… قرضے لینا بند کر دیں… مہنگی شادیوں سے مکمل توبہ کرلیں… اور مغربی اسٹائل پرلعنت بھیجیں… اپنے محبوب آقا ﷺ کی زندگی اور سیرت کو پڑھیں…اور قرآن وسنت سے اجتماعی اموال کے احکامات کویاد کریں… اِس وقت کفر اوراسلام کی جنگ اپنے آخری اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے… کافروں کے پاس اگر ایٹم بم، بمبار طیارے اور میزائل ہیں تو مجاہدین اُن کے مقابلے میں… اجتماعیت، امانت اور فداکاری کو کھڑاکردیں… یہ تین ہتھیار کافروں کو زمین کی آخری گہرائی میں دفن کردیں گے… مجاہدین کا پلّہ آج بھی بھاری ہے لیکن اگر اُن کی جنگ میں یہ تین بڑے ہتھیار پوری چمک دمک اور قوت کے ساتھ آگئے تو آپ دیکھ لیں گے کہ انشاء اﷲ… جنگ کتنی تیزی سے دشمنوں کے علاقوں میں گھستی ہے… اس وقت تو بدقسمتی سے خود ہمارے علاقے میدان جنگ بنے ہوئے ہیں… حالانکہ حضور پاکﷺ نے دس سال کی مدنی زندگی میں… ایک دن بھی جنگ کو مدینہ منورہ میں نہیں گھسنے دیا… غزوہ خندق کے موقع پر بھی سات دن کی محنت کر کے جنگ کو مدینہ منورہ کے دروازوں پرروک دیا… کبھی بدر، کبھی اُحد، کبھی خیبر اور پھر فتح مکہ… مدینہ منورہ کے مضافات میںجنگ ہوئی… مگر یہودیوں کی بستیوں میں اور وہ بھی اس تدبیر سے کہ لڑائی زیادہ نہ ہو… مگر آج تو پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کے علاقے’’میدان جنگ‘‘ بنے ہوئے ہیں… ہمیں اس وقت پوری طاقت اس بات پر لگانی چاہئے کہ یہ جنگ دشمنان اسلام کے علاقوں میں منتقل ہو جائے… اور ایسا بہت جلد ہو سکتا ہے… بشرطیکہ ہم مال سے اپنی گردن آزاد کرالیں… مال کی فکر سے اپنے دل کو پاک کر لیں… اور اپنی روزی کا معاملہ مکمل یقین کے ساتھ اپنے ربّ رزّاق جلّ شانہ کے سپر د کر دیں… ہم اجتماعی اموال میں اتنی احتیاط کریںکہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں ’’امین‘‘ اور ’’امانتدار‘‘ لکھ لئے جائیں… ہم خود کو حرام مال کے دھویں اور چھینٹوں تک سے بچائیں… ہم آج ہی فضائل جہاد یا حدیث شریف کی کسی کتاب میں اُن وعیدوں کو پڑھیں جو خیانت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں… اور پھر ایک پختہ عزم اورعہد کے ساتھ آگے بڑھیں… جی ہاں اونچی منزلیں، خوبصورت جنت… اور اچھا انجام تو ایمان والوں ہی کے لئے ہے…
(رنگ و نور/ ج، ۵/ واپس آ جا)
کوئی برابری نہیں
کفر اور اسلام کا یہ مقابلہ کئی سالوں سے جاری ہے… اور دونوں فریق ظاہری طور پر سخت پریشان ہیں… ’’کفار‘‘ تو اس لئے پریشان ہیں کہ اُن کی ہر تدبیر ناکام ہو رہی ہے… وہ آگے بڑھتے ہیں تو موت نظر آتی ہے اور پیچھے ہٹتے ہیں تو موت نظر آتی ہے… بڑے بڑے عقلمندوں اور جرنیلوں کا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا ہے… عراق میں ایک مجاہد بھی نہیں تھا مگر جب امریکی اور اتحادی افواج وہاں پہنچیں تو ہر گلی سے مجاہد… اور ہر گھر سے مجاہدہ نکل پڑی… افغانستان کی جنگ امریکہ کی طاقت کے سامنے ایک مہینے کی مار تھی… مگر آج آٹھ سال ہو گئے کہ امریکہ کو سوائے شکست کے اور کچھ نظر نہیں آرہا… گزشتہ ایک مہینے میں درجنوں غیر ملکی فوجی مارے جا چکے ہیں اور کابل جیسے شہر میں دو خوفناک فدائی حملے ہو چکے ہیں… امریکہ وغیرہ کے پاس جتنی بھی ٹیکنالوجی تھی وہ سب عراق اور افغانستان میں آزمائی جا چکی ہے… اور وہ بُری طرح ناکام ہوئی ہے… اب صرف ’’ایٹم بم‘‘ اور آکسیجن بم باقی ہیں… اگر امریکہ وہ استعمال کرتا ہے تو مسلمانوں کی طرف سے بھی امریکہ پر ایٹمی حملہ خود امریکہ کے ہتھیاروں سے ہو جائے گا… تب دنیا کا بیشتر حصّہ تباہ و برباد ہو جائے گا… اب کافر’’بیچارے‘‘پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں؟… اگر وہ افغانستان چھوڑ کر جاتے ہیں تو دوبارہ’’امارتِ اسلامیہ‘‘قائم ہوتی ہے… اور ’’عالم کفر‘‘ امارتِ اسلامیہ کو اپنے لئے موت سمجھتا ہے… وہ کہتے ہیں کہ’’امارتِ اسلامیہ‘‘ موجود تھی تو اسی کی وجہ سے ’’بائیس رمضان‘‘ بھی ہو گیا اور’’نائن الیون‘‘ بھی… اب اگر دوبارہ امارتِ اسلامیہ قائم ہوئی تو معلوم نہیں کیا کچھ ہو جائے گا… پریشانی ہی پریشانی… اور الجھن ہی الجھن… اور نئی تدبیریں اور ہر دن نئی ہزیمتیں… دوسری طرف مسلمان بھی پریشان ہیں… اور اس پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا نہیں ہے جس پر وہ آزادی سے مل بیٹھیں… سوویت یونین کے خلاف جہاد کے وقت مجاہدین کے لئے پاکستان کی صورت میں ایک ’’بیس کیمپ‘‘ موجود تھا…مجاہدین کو جب کوئی پُرامن’’بیس کیمپ‘‘ مل جاتا ہے تو اُن کا جہاد منظم ہو جاتا ہے… وہ اپنی فتوحات کو دیکھ سکتے ہیں اور کافروں کے زخم بھی گِن سکتے ہیں… اور یوں اُن کا حوصلہ بلند رہتا ہے… مگر موجود ہ جہاد میں مجاہدین کے پاس کوئی پُرامن جگہ موجود نہیں ہے… اسی لئے بڑی کامیابیوں کے باوجود وہ پریشان رہتے ہیں اور کبھی کبھار مایوس ہو جاتے ہیں… اب عراق کی اصل صورتحال کیا ہے یہ کسی کو بھی معلوم نہیں… افغانستان کی اصل صورتحال کیا ہے اس کا بھی کسی کو پورا علم نہیں… دنیا تک تو صرف دُھواں پہنچتا ہے حالانکہ اس وقت جہاد کی آگ شعلے برسا رہی ہے… مگر مسلمان اپنے اس جہاد کی خوشی نہیں منا سکتے… اور نہ اپنی فتوحات کی قیمت کو جان سکتے ہیں… پہلے زمانوں میں حضرات انبیاء علیہم السلام کو ستایا جاتا تھا تو وہ حرم شریف کی طرف ہجرت کرتے تھے… پھر حرم شریف میں رسول اﷲﷺ کو ستایا گیا تو آپﷺ نے’’مدینہ پاک‘‘ کی طرف ہجرت کی… پھر بعد کے مسلمان جب ستائے جاتے تو وہ حرمین شریفین کا رُخ کرتے تھے… مگر اب تو’’حرمین شریفین‘‘ جانا بھی آسان نہیں… اگر حالیہ عالمی جہاد کی تھوڑی سی قیادت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہوتی… وہ کعبہ شریف کے سامنے بیٹھ کر حجر اسود کی طرف نظریں اٹھا کر جہاد کی منصوبہ بندی کرتی… وہ روضۂ اقدس کی جالیوں کے سائے میں بیٹھ کر قتال فی سبیل اﷲ کی تدبیریں کرتی تو آج… حالات کچھ اور ہوتے… مگر اس وقت تو ہجرت اور جہاد کندھا ملا کر چل رہے ہیں… اورہجرت ایسی ہے کہ اس میں کسی’’دارالہجرۃ‘‘ کا پتہ نہیں… بس چلتے رہو چلتے رہو… سورج کی طرح نکلتے اور چھپتے رہو… اور شہاب ثاقب کی طرح خود کو فدا کر کے حملے کرتے رہو…اس صورتحال کی وجہ سے مسلمان بھی کچھ پریشان ہیں… انہیں کوئی کنارہ نظر نہیں آرہا… خلاصہ یہ ہوا کہ لڑائی کے دونوں فریق پریشان ہیں تو اب فیصلہ کس کے حق میں ہو گا؟… ظاہر بات ہے کہ مسلمانوں کی پریشانی صرف طبعی ہے… وہ دل سے پریشان نہیں ہیں… جس طرح اچھی منزل کی طرف جانے والا مسافر لمبے راستے میں تھکتا ہے… کبھی گِر بھی جاتا ہے اور کبھی مایوس بھی ہونے لگتا ہے… مگر اُسے منزل کا یقین پھر کھڑا کر دیتا ہے… مسلمان بھی وقتی طور پر پریشان ہو جاتے ہیں… مگر انہیں معلوم ہے کہ ہمارے لئے شکست ہے ہی نہیں… ہم مارے گئے تو جنت اور فاتح رہے تو جنت…جبکہ کفار کی پریشانی حقیقی ہے… وہ دنیا میں فتح اور عیش چاہتے ہیں اور اس لڑائی نے اُن کی دنیا کو تاریک کر دیا ہے… غزوہ ٔاُحد کے موقع پر جب ستر مسلمانوں کی لاشیں میدان میں کٹی پڑی تھیں… اور باقی اکثر مسلمان زخموں سے نڈھال تھے تو مشرکین کے سردارنے آوازلگائی!
’’ہمارا تمہارا معاملہ برابر ہو گیا بدر میں ہمارے ستّر مارے گئے تو آج اُن کے بدلے تمہارے ستّر کٹ گئے‘‘…
مشرکین کے سردار کی بات ظاہری طور پر معقول تھی مگر دربار نبویﷺ سے مبارک آواز گونجی!
’’کوئی برابری نہیں!! ہمارے مقتولین تو جنت میں ہیں جب کہ تمہارے مقتولین آگ میں ہیں‘‘…
لہٰذا آج بھی ’’کوئی برابری نہیں تم جہنم اور شکست کی طرف جارہے ہو اور مسلمان جنت اور فتح کی طرف رواں دواں ہیں‘‘… اور مجاہدین کی خدمت میں عرض ہے کہ… پریشان ہونے کی ضرورت نہیں… ہم جس راستے پر چل رہے ہیں یہ راستہ ہی خود منزل ہے…
(رنگ و نور/ ج، ۵/ کوئی برابری نہیں)
٭…٭…٭