جواہرِ جہاد (قسط۱۷)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 592)
مگر ایک بات یاد رکھیں… اپنے نفس کو سمجھانے سے بھی فائدہ ہوگا، روزانہ کی تعلیم، مذاکرے اور مطالعے سے بھی فائدہ ہوگا… مگر اصل مسئلہ تب حل ہوگا جب ہم اپنے دل میں جہاد کی قدر بٹھا لیں گے، خود کو جہاد کا محتاج سمجھیں گے اور جہاد سے محرومی کو عذاب جانیں گے… آپ دیکھیں ایک آدمی اپنی جان اور صحت کو اپنے لئے ضروری سمجھتاہے تو پھر اس کی حفاظت کے لئے کتنی تدبیریں کرتا ہے ا ور کتنی دعائیں مانگتا ہے… حالانکہ جہاد فی سبیل اﷲ ہمارے لئے جان اور صحت سے زیادہ ضروری ہے… جان نہ ہوئی تو مرجائیں گے اور مرنا تو ویسے بھی ہے، صحت نہ ہوئی تو بیمار ہوجائیں گے… مگر جہاد سے محروم ہوئے تو برباد ہوجائیں گے کیونکہ جہاد سے محرومی اﷲ تعالیٰ کی ناراضی کی علامت ہے… آپ ایک بار سورۃ توبہ کی آیت ۴۳ اور اس سے پہلے کی دو آیتیں اور اس کے بعد کی دس آیتوں کا مطالعہ کرلیں … اگر اﷲتعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی تو انشا ء اﷲ اپنی کسی اگلی مجلس میں ان بارہ تیرہ آیات کا خلاصہ عرض کروں گا… آپ ان آیات میں جھانک کر دیکھیں کہ جہاد سے محرومی کتنا بڑا عذاب اور کتنی عظیم رسوائی ہے… اور اﷲ پاک چاہتا ہے کہ بعض لوگ جہاد میں نہ نکلیں… کیونکہ ان کا جہاد میں نکلنا اﷲ پاک کو پسند نہیں ہے…اعوذباﷲ، اعوذباﷲ، استغفراﷲ، استغفراﷲ… یہ کتنی شدید وعید ہے اور کتنا سخت عذاب کہ انسان اتنا گر جائے اور اتنا گندہ ہوجائے کہ اﷲ پاک اس کو جہاد سے محروم فرمادے… یا اﷲ، یااﷲ، یااﷲ آپ کو آپ کی وسیع رحمت کا واسطہ کہ مجھے ان لوگوں میں شامل ہونے سے اپنی پناہ میں لے لیجئے اور جو مسلمان مرد اور عورتیں اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں ان کے لئے بھی یہی دعاء ہے کہ اﷲ پاک ان کو جہاد کی محرومی سے اپنی پناہ میں رکھے اور یہی دعاء اپنے والدین، اہل خانہ، عزیز واقارب، دوست احباب اور محسنین ومعاونین کے لئے بھی ہے… یا اﷲ یا ارحم الراحمین ہمیں اپنی ناراضی سے بچالیجئے… اور ہمیں محرومی اور بدنصیبی سے بچالیجئے…
اے القلم کے پڑھنے والو… آپ میرے لئے دعاء کریں، میں آپ کے لئے دعاء کرتا ہوں … جہاد کا انکار کفر ہے، جہاد کا ترک محرومی ہے، اور شہادت ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے … ا ﷲپاک ہمیں کفر اور محرومی سے بچائے، مقبول شہادت کی نعمت نصیب فرمائے اور انتالیس بدنصیب افراد والے گروہ میں شامل ہونے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے… آمین یا ارحم الراحمین یا اﷲ ، یا اﷲ، یا اﷲ…
(رنگ و نور/ ج،۳/ ایک بدنصیب گروہ)
محبت اور نفرت کا قرآنی معیار
اﷲ تعالیٰ کا سورۃ توبہ میں ارشاد گرامی ہے:
یرضونکم بافواہہم وتابیٰ قلوبہم (التوبۃ۸)
یعنی یہ مشرکین اور کفار اپنی زبانی باتوں اور الفاظ سے تمہیں خوش کرتے ہیں جبکہ ان کے دل تمہاری دشمنی سے بھرے پڑے ہیں…
ہمارے ملک پاکستان میں ’’امریکی مہمان‘‘ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان مہمانوں سے ملنے کے لئے ہمارے ’’مسلمان لیڈروں‘‘ کا ایک ہجوم قطار لگائے کھڑا رہتا ہے… ہر کوئی ان سے محبت اور وفاداری کا بڑھ چڑھ کر اظہار کر رہا ہوتا ہے…
انا ﷲ وانا الیہ راجعون
کسی کے سینے میں ’’مسلمان دل‘‘ اور منہ میں ’’پاک زبان‘‘ ہوتی تو ان مجرموں سے پوچھتا کہ… ساری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں کر رہے ہو؟…
سورۃ توبہ کی آیت ۷ تا ۹ … قرآن پاک نے چار جرائم کا تذکرہ فرمایا ہے کہ یہ بدترین جرائم ہیں…
۱۔ اﷲ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا… (امریکی حکام عیسائی ہیں اور عیسائی تین خدا ماننے کی وجہ سے مشرک ہیں)
۲۔ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہ ماننا (امریکی حکام ہمارے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکر ہیں)
۳۔ مسلمانوں سے دشمنی رکھنا (امریکی حکام لاکھوں مسلمانوں کے قاتل اور مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں)
۴۔ دنیا پرستی میں اتنا مگن ہوجانا کہ دنیا ہی اصل مقصود بن جائے اور دنیا پرستی کی خاطر ایمان قبول نہ کرنا (امریکیوں کی مادہ پرستی سب کے سامنے ہے)…
قرآن پاک کے نزدیک یہ چار بہت گندے، بہت برے اور قابل نفرت جرائم ہیں… کیاآج کا مسلمان بھی ان چیزوں کو ’’جرم‘‘ سمجھتا ہے؟…
اگر جرم سمجھتا تو پھر کافروں کا غلام کیسے بنتا… افسوس صد افسوس کافروں نے جہاد کو دہشت گردی کا نام دے کر ’’جرم‘‘ قرار دیا… اور پھر اپنے غلاموں کو ساتھ لے کر اس جرم کے خاتمے کے لئے جنگ شروع کردی… حالانکہ جہاد اﷲ پاک کا ’’حکم‘‘ ہے… امریکی اس ’’حکم الٰہی‘‘ کو ختم کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں… پھر بھی وہ ہمارے محبوب اور ہیرو ہیں…
اے مسلمانو!… کچھ تو سوچو، کچھ تو سمجھو… کیا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا کوئی چھوٹا جرم ہے؟… کیا ہمارا اپنے رب سے یہی تعلق ہے کہ ہم اس کے منکروں اور دشمنوں کو اپنا یار بنائیں؟…
پھر کس منہ سے قیامت کے دن اﷲ پاک کے سامنے پیش ہوں گے؟… کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہ ماننا چھوٹا جرم ہے؟… کیا لاکھوں مسلمانوں کو بمباری سے روند ڈالنا چھوٹا جرم ہے؟… کیا دنیا کو عیش پرستی اور بے حیائی سے بھر کر ایمان اور آخرت سے لوگوں کو غافل رکھنا چھوٹا جرم ہے؟…
آہ عراق کی پاکیزہ عصمتیں!… کون ہے ان کا وارث؟ …
اجمع العلماء علی انہ اذا سبیت امراۃ واحدۃ اصبح الجہاد فرض عین علی کل المسلمین حتی تنقذ المرأۃ…
یعنی امت کے اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر ایک مسلمان عورت کو کافر اپنا قیدی بنا لیں تو تمام مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہو جائے گا یہاں تک کہ اس عورت کوچھڑا لیا جائے…
آہ صرف ایک مسلمان بیٹی… مگر آج تو ایک نہیں ہزاروں ادھڑے ہوئے آنچل… بوسنیا سے لے کر فلسطین تک… کشمیر سے لے کر عراق تک… افغانستان سے لے کر فلسطین تک…
کیوں؟ کیوں؟… ہماری فوجیں گونگی دیواریں، کافروں کے فرنٹ لائن اتحادی… ہمارے سیاستدان رنگیلے… اور ہمارے واعظ بے زبان… معلوم نہیں عبداﷲ بن مبارکؒ کہاں سو گئے؟… فرمایا کرتے تھے:
کیف القرار وکیف یہدئُ مسلم
والمسلمات مع العدوّ المعتدی
ارے ایک مسلمان کو کیسے سکون اور قرار آئے جبکہ… ہماری مسلمان بہنیں ظالم دشمن کے قبضے میں ہیں…
کسی نے امریکہ سے عراق اور افغانستان کی بیٹیوں کا حساب مانگا؟… کسی نے ظالموں سے دجلہ وفرات میں بہتی لاشوں کا جواب مانگا؟… احساس کمتری کی چمکیلی بوریاں کیسے ان کافروں کے سامنے سر اٹھا کر بولتیں… دل میں کفر کی محبت ہے… دل میں مال کا لالچ ہے… دل میں عہدے کی ہوس ہے… دل میں ترقی کا رعب ہے … دل میں امریکہ کی دہشت ہے… ہاں جو دل ’’اﷲاکبر‘‘ سے خالی ہوں… جو دل ’’سبحان اﷲ‘‘ سے خالی ہوں… جو دل ’’الحمدﷲ‘‘ سے خالی ہوں… ہاں جو دل ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ سے محروم ہوں… وہ دل نہیں ہوتے… انہیں دل کہنا د ل کی توہین ہے… جس اخبار کو اٹھا کر دیکھ لیں… اندھیرا نظر آتا ہے … صرف اندھیرا… بزدلی کا اندھیرا، احساس کمتری کا اندھیرا… اور دنیا کی ہوس کا اندھیرا… کالم نویس انٹرنیٹ سے دنیا کی بڑی کمپنیوں کا پروفائل پڑھ کر… حرص اور لالچ میں تڑپنے لگتے ہیں… اور پھر قلم اٹھا کر مسلمانوں کو یہی سبق دیتے ہیں کہ… بس دنیا پرست بنو… اپنے پاس ڈھیر ساری گندگی جمع کرو… اور آخرت کو نہ مانو… کیونکہ جو آخرت کو مانتے ہیں وہ دنیا میں ترقی نہیں کرسکتے… نعوذباﷲ، استغفراﷲ…
آفرین ہو افغانستان والوں پر… انہوں نے اپنا ملک کھنڈر بنوالیا مگر غلامی کو قبول نہیں کیا… افسوس ہم تو بالکل غلام بن گئے… اپنی بلڈنگیں اور سڑکیں بچانے کے لئے ہم نے اپنی عزت کو نیلام کردیا… امریکی وزیر خارجہ یہاں ایسے بول رہے تھے جس طرح پاکستان امریکہ کی ایک حقیر سی کالونی ہو… کتنے ظالم اور قابل نفرت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے ملک اور قوم کو امریکہ کا غلام بنادیا ہے… آفرین ہو عراق والوں پر… چھ لاکھ لاشیں دے کر بھی انہوں نے امریکہ کے سامنے سر نہیں جھکایا… ہم نے بھی تو زلزلے میں ایک لاکھ افراد گنوادئیے… اگر ہم بھی اپنی اسلامی غیرت اور عزت کو بچا لیتے تو شاید اس سے بھی کم قربانی دینی پڑتی… مگر افسوس، دنیا بھر کی اقوام میں ’’بے عزتی‘‘ کے وکٹری اسٹینڈ پر ہم نے ہی کھڑے ہونا تھا…
کوئی ہے جو مسلمانوں کو سمجھائے کہ… کافروں کے ملکوں میں مال کمانے کے لئے دھڑا دھڑ نہ جاؤ… تمہاری اس حرص نے مسلمانوں کی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے… کوئی ہے جو مسلمانوں کو سمجھائے کہ محبت اور نفرت کا قرآنی معیار کیا ہے؟… لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نفرت پھیلاتے ہیں… حالانکہ ہم تو محبت کا درس دیتے ہیں… اے بندو اپنے پیدا کرنے والے رب، اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو… اپنے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کرو… تمام انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین سے محبت کرو… اہل بیت، صحابہ کرام اور اولیاء اﷲ سے محبت کرو… ہر ایمان والے فرد سے محبت کرو… ہر غریب، مسکین، یتیم، محتاج سے محبت کرو… محبت، محبت اور محبت… ہم تو جانوروں پر ظلم کو حرام سمجھتے ہیں… ہم تو ایک چیونٹی کو بلاوجہ مارنا برا سمجھتے ہیں… مگر تم ہمارے بچوں کے چیتھڑے اڑاؤ اور ہم تم سے محبت کریں… اس بات کو بھول جاؤ… رب کعبہ کی قسم ساری دنیا کے مسلمان شرعی طور پر ایک جان کی طرح ہیں… تم بوسنیا کی بیٹیوں کو حرام کے حمل اٹھانے پر مجبور کرو… تم ہماری آبادیوں پر ڈیزی کٹر بم برساؤ… اور ہم تم سے محبت کریں… اس بات کو بھول جاؤ… تم ہمارے ملکوں کو اپنی انسانی شکارگاہیں بناؤ… اور ہم تمہیں مہذب اور ترقی یافتہ سمجھیں… اس کو بھول جاؤ… جو لوگ تمہاری نوکری کر رہے ہیں… انہیں یا تو تمہاری طاقت کا ڈر ہے… یا تمہارے ڈالروں کی ہوس … ہم تو الحمدﷲ تم سے اتنا بھی نہیں ڈرتے جتنا کوئی مچھر سے ڈرتا ہے… ہم موت کے انتظار میں زندگی گزارنے والے صحابہ کرام کی روحانی اولادیں ہیں… اور ہمیں تمہارے ڈالر غلاظت سے زیادہ ناپاک لگتے ہیں… اس لئے تم سے محبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… میں تم سے محبت کروں تو قندوز کے کنارے ڈیزی کٹر بم سے جل جانے والے جمعہ خان شہید کو کیا منہ دکھاؤں… میں تم سے محبت کروں تو کنٹینر میں سسک سسک کر شہید ہونے والے سلطان بھائی کو کیا منہ دکھاؤں…
ملا اختر عثمانی کے قاتلو… ملا داد اﷲ کے قاتلو… ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے قاتلو… تم سے محبت کرکے میں اپنے ایمان سے محروم نہیں ہونا چاہتا… تمہارے پاس کون سی ایسی چیز ہے جو مجھے متاثر کرے؟… اﷲ تعالیٰ کی توحید سے تم محروم ہو… آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی سے تم محروم ہو… انسانی قدروں اور حیاء سے تم محروم ہو… تمہارے ڈالر تو فانی ہیں… یہ مرنے کے بعد کسی کام نہیں آئیں گے… تمہارے منہ سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے… جو مجھے چین کی نیند نہیں سونے دیتا… تمہاری ترقی نے زمین کا حسن چھین لیا ہے… تم نے فضاء کو آلودگی سے بھر دیا ہے… تم نے انسانوں کو نوٹ گننے اور گیس بنانے والی مشینیں بنادیا ہے… تم نے دنیا کو معاشی ناہمواری کے دلدل میں پھنسا دیا ہے… اﷲ کی قسم جس شخص کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو… اور اسے یاد ہو کہ میں نے مرنا ہے اور مرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کو حساب دینا ہے… وہ کبھی بھی تم سے متاثر نہیں ہوسکتا… تمہیں اپنی طاقت پر ناز ہے تو یہ ناز محض ایک فریب ہے… تم اپنے زر خرید ایجنٹوں کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھا سکتے… تم عراق اور افغانستان سمیت ہر جگہ بدترین شکست سے دو چار ہو… تم وہ جادوگر ہو جس کی جان مسلمانوں کی ایک کمزوری میں پوشیدہ ہے… ہاں دنیا کی محبت کی کمزوری… مسلمانوں میں ’’دنیا کی محبت‘‘ آگئی ہے… اس لئے تمہارا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے… جس دن مسلمانوں کی اس کمزوری کا علاج ہوگیا… اس دن تم واپس اپنی اوقات پر آجاؤ گے… امام مہدی کے لشکر میں کل بارہ ہزار افراد ہوں گے… مگر یہ بارہ ہزار مسلمان دنیا کی محبت سے آزاد ہوں گے… ان کے نزدیک خیمہ اور کوٹھی ایک جیسے ہوں گے… ان کے نزدیک ریشم اور ٹاٹ میں کوئی فرق نہیں ہوگا… ان کے نزدیک کھانے کا مطلب بھوک مٹانا اور پہننے کا مطلب جسم چھپانا ہوگا… اور وہ موت کی تلاش میں گھوم رہے ہوں گے… تب یہ لشکر دنیا کے ایک بڑے حصے کو فتح کرلے گا… آج کا مسلمان بھی حب دنیا سے نجات پالے… فائیو اسٹار کلچر اور پروٹوکول کے خرخشوں سے آزاد ہوجائے … شادی، لباس اور کھانے کو ضرورت کی چیز سمجھے … اور اسلام کے علاوہ کسی چیز میں عزت نہ ڈھونڈے… اور شہادت کا طلب گار ہو تو پھر امریکہ اور یورپ کو اپنی اصل اوقات نظر آجائے گی… آج چند فدائیوں نے دنیا کی سپر طاقتوں کا ناک میں دم کیا ہوا ہے… زمینوں، پلاٹوں، کوٹھیوں، کاروں، جوتوں، لباسوں… اور چمکیلی چیزوں سے آزاد یہ فدائی مجاہدین… اصل اور حقیقی مسلمان ہیں…
حکومت والوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ… مسلمانوں کے اس ملک کو کافروں کے ہاتھوں فروخت کرنے سے پرہیز کریں… یہ ملک آپ کی جائیداد نہیں ہے اور نہ آپ نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے… اپنی خواہشات کی خاطر آئندہ نسلوں کو غلامی کا طوق ورثے میں دے کر جانا کسی ’’شریف انسان‘‘ کا شیوہ نہیں ہے… اور امریکی مہمانوں سے ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ آپ… مہمان بن کر آیا کریں، مسلمان مہمانوں کا اکرام کرتے ہیں… خواہ وہ مہمان غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں… مگر ہمارے آقا بن کر آنے کی ضرورت نہیں ہے… ہم مسلمان غلامی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں… اور ہمارا خون بہت کڑوا ہے جو کسی کو بھی ہضم نہیں ہوسکتا… ہاں اگر ہمارے مسلمان کہلانے والے چند لوگ آپ کے ’’وفادار غلام‘‘ بن چکے ہیں تو آپ ان کو اپنے ساتھ لے جائیے…
رنگ و نور/ ج، ۳/ عجیب مہمان)
٭…٭…٭