جواہرِ جہاد (قسط۱۴)

جواہرِ جہاد (قسط۱۴)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 589)
واقعہ ہجرت… اور بے مثال اسباق
اﷲ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ ہجرت کے موقع پر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو کون بچا کر لایا تھا؟… شام کی طرف سے مدینہ منورہ میں زیتون کا تیل لایا جاتا تھا… زیتون کا درخت بھی برکت والا اور اس کا پھل اور تیل بھی برکت والا… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے لگاؤ… زیتون کے تیل کو قرآن پاک نے ایک بڑی مثال میں بھی بیان فرمایا ہے… اس بار شام کے جو تاجر زیتون کا تیل لائے وہ اپنے ساتھ ایک خبر بھی لائے… روم کی عیسائی سلطنت مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع کر چکی ہے… چالیس ہزار کا ایک لشکر سرحد تک پہنچ چکا ہے… یہ ۹ ہجری کا زمانہ تھا… مسلمانوں نے جزیرۂ عرب کو تقریباً پاک کر دیا تھا… مکہ مکرمہ پر ایک نوجوان مسلمان صحابی عتاب بن اسید رضی اﷲ عنہ گورنر تھے… حنین اور طائف کا مسئلہ بھی نمٹ چکا تھا… موسم سخت گرمی کا تھا، کھجور تیار تھی، دھوپ سخت اور سائے کی جگہ خوشگوار تھی… اور کچھ آثار قحط اور خشک سالی کے بھی تھے… اور دوسری طرف روم کی طاقتور اور اپنے زمانے کی سپر پاور حکومت کا رعب تھا… مسلمانوں کی خوش بختی کے عروج کا آخری زمانہ تھا… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم ان کے سروں پر موجود تھے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے آخری دو سال… اﷲ اکبر کبیرا… حکم فرمایا کہ سب نکل پڑو… کوئی بھی پیچھے نہ رہے، نہ خواص نہ عوام… نفیر عام کا ڈنکا بجا… مدینہ منورہ کی مسجد اور گلیاں ’’حی علی الجہاد‘‘… ’’حی علی الجہاد‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھیں… مقابلہ روم کی سپرپاور سے ہے، اور ان کے حملہ کرنے سے پہلے ان پر حملہ کرنا ہے… قرآن پاک نور کی بارش برسا رہا ہے کہ عیسائیوں سے جہاد کرنا کیوں ضروری ہے… یہ لوگ کتنے برے اور کتنے گندے ہیں … نعوذ باﷲ، اﷲ تعالیٰ کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں… یہ لوگ زمین کو معاشی ناہمواری کے ظلم سے بھرتے ہیں… ان کی مذہبی قیادت فتویٰ فروش لالچیوں کے ہاتھ میں ہے… اے مسلمانو! ان سے لڑو… ان سے طاقت چھین لو… یہ تمام آیتیں سورۃ توبہ میں موجود ہیں… جی ہاں! وہی سورۃ توبہ جسے پاکستان کے حکمرانوں نے نصاب کی کتابوں سے نکال دیا ہے… مگر یہ سورۃ قرآن پاک میں موجود ہے… اور موجود رہے گی… یہ اﷲ پاک کا کلام ہے، جسے کوئی بد دماغ نقصان نہیں پہنچا سکتا… اور خوش نصیب مسلمان سورۃ توبہ پر عمل کرتے رہیں گے… اور انشاء اﷲ کامیاب ہوتے رہیں گے… غزوۂ تبوک عجیب غزوہ تھا… یہ میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا آخری غزوہ تھا… جی ہاں! وہ آخری اسلامی لشکر جس کی کمان حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم خود فرما رہے تھے… اس غزوہ میں تیس ہزار مسلمان شریک ہوئے… جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان عام (جس کو شریعت کی اصطلاح میں نفیر عام کہا جاتا ہے) فرمایا تو لوگوں کی چھ قسمیں ہو گئیں … قرآن پاک نے ان تمام قسموں کو بیان فرمایا… جلدی جلدی بھاگ بھاگ کر جہاد میں شریک ہونے والے… صدیق اکبرؓ اپنی ملکیت کا تمام سامان لے کر… اﷲ اکبر کبیرا… صدیق اکبر مسلمان ہوئے تھے تو چالیس ہزار درہم رکھنے والے مکہ کے سیٹھ تھے… پھر یہ مال دین پر اور آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم پر خرچ ہوتا رہا، مسلمان غلام خرید خرید کر آزاد ہوتے رہے، آٹھ سو درہم کی دو اونٹنیاں ہجرت کے لئے خریدیں… ہجرت کے وقت پانچ ہزار درہم بچ گئے تھے وہ آقا کی خدمت کے لئے ساتھ لے لئے… اور پھر ان سے مسجد نبوی کی زمین خریدی گئی… اور جب انتقال فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بقول ایک درہم بھی پاس نہیںتھا…
حضرت فاروق اعظمؓ آدھا سامان… حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بڑی بڑی رقمیں اور ابو عقیل انصاریؓ ساری رات ایک کھیت میں مزدوری کرتے رہے، انہیں اس کے بدلے دو سیر کھجوریں ملیں تو وہ لا کر پیش خدمت کردیں… پہلی قسم وہ لوگ جو بھاگ بھاگ کر خود بھی آ رہے تھے، سامان بھی لا رہے تھے… دوسری قسم وہ لوگ جنہیں تھوڑی دیر دنیا نے اپنی طرف کھینچا مگر پھر ان کا ایمان غالب آ گیا اور وہ لشکر اسلامی میں شامل ہونے کے لئے دوڑ پڑے… تیسری قسم وہ لوگ جو جانے کے لئے تڑپ رہے تھے، رو رہے تھے، مچل رہے تھے مگر معذور تھے کسی کے پاس سامان نہیں تھا تو کوئی چلنے سے معذور تھا۔ چوتھی قسم وہ لوگ جو مسلمان تھے مگر سستی کا شکار ہوگئے… انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور خود کو سزا کے لئے پیش کر دیا… پانچویں قسم وہ لوگ جو منافق تھے، انہوں نے طرح طرح کے بہانے بنائے اور جہاد میں شریک نہیں ہوئے… چھٹی قسم وہ لوگ جو منافق تھے مگر وہ جاسوسی کے لئے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کے لئے لشکر میں شامل ہو گئے تھے… اﷲ پاک نے ان تمام قسم کے افراد کے بارے میں آیتیں نازل فرمائیں…
یہ ایک تفصیلی موضوع ہے… آج عرض یہ کرنا ہے کہ غزوۂ تبوک کا اعلان ہو چکا تھا… کچھ لوگ سستی کر رہے تھے… اور کچھ گھبرا بھی رہے تھے… اس وقت قرآن پاک نے ساڑھے نو سال پرانا ایک واقعہ یاد دلایا… جی ہاں! حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت کا واقعہ… اور لوگوں کو سمجھایا کہ اﷲ پاک تمہارا محتاج نہیں ہے… اﷲ پاک کا دین بھی تمہارا محتاج نہیں ہے… اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی تمہارے محتاج نہیں ہیں… اگر تم لوگ جہاد پر نہیں نکلو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے… عظیم الشان جنت سے محروم رہو گے… اور دنیا کی فانی زندگی پر آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کو قربان کرنے والے کم عقل بنو گے… اﷲ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا… ہجرت کے موقع پر رسول اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک ساتھی، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ تھے… وہاں اﷲ پاک نے کیسے نصرت فرمائی… اور کس کس ڈھنگ سے نصرت فرمائی… اور اپنے نبی کو مدینہ منورہ تک بحفاظت پہنچا دیا…
سورۂ توبہ کی آیت رقم (۴۰) ہجرت کے عجیب واقعہ کو یاد کراتی ہے… اور مسلمانوں کو جہاد اور قربانی کی دعوت دیتی ہے… حضرت صدیق ا کبرؓ ہجرت کی رات بھی کامیاب رہے اور تبوک کے دن بھی کامیاب رہے… اﷲ پاک ان کی ایمانی فراست کا کچھ حصہ ہم لوگوں کو بھی عطاء فرمائے جو ہر امتحان میں ناکام رہتے ہیں… اور ادنیٰ چیزوں کے پیچھے خود کو برباد کرتے رہتے ہیں… صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنی ہر چیز آخرت کے لئے قربان کر دی… اﷲ پاک نے دنیا میں بھی ان کو کسی کا محتاج نہیں فرمایا… اور آخرت میں بھی کتنا اونچا مقام ان کے لئے مقدّر فرمایا… ہجرت کے موقع پر تو ان کے ایمان نے وہ کارنامے دکھائے کہ آسمان کے فرشتے بھی حیران رہ گئے… جب غارثور کی طرف جا رہے تھے تو ان پر عجیب کیفیت طاری تھی… کبھی حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے آگے چلتے، کبھی پیچھے اور کبھی دائیں اور بائیں… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پوچھنے پر عرض کیا… کسی طرف سے دشمن آپ پر حملہ آور نہ ہوجائے اسی فکر میں یہ سب کچھ کر رہا ہوں… اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ بچ جائیں اور میں قتل ہو جاؤں… اور فرمایا کہ اگر میں مارا گیا تو ایک آدمی مرے گا اور آپ کو کچھ ہوا تو امت ہلاک ہو جائے گی… پھر غار ثور کو صاف کیا… سانپ نے کاٹا… ایک بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کندھے پر بھی اٹھا کر چلے اور پاؤں کے نشانات چھپانے کے لئے اپنے پنجوں کے بل چلتے رہے، جس سے پاؤں زخمی ہو گئے…
آہ قربانی!… صدیق اکبر کی ساری تھکاوٹیں اور زخم دور ہو گئے اور اجر ومقام کا زمانہ شروع ہو گیا… وہ لوگ سوچیں جو سارے مزے اور آرام اسی زندگی میں پانا چاہتے ہیں… اور سو سو کر اپنی جوانیاں بستروں پر ذبح کر رہے ہیں… بات یہ عرض ہو رہی تھی کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر ہجرت کا واقعہ یاد دلایا گیا تو اس میں بے شمار حکمتیں تھیں… اور قربانی پر آمادہ کرنے کے لئے ہجرت کا واقعہ ایک خاص تاثیر رکھتا ہے… اور اس میں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مسلمان مشکل حالات میں ہجرت کے واقعہ سے سبق لیا کریں… آج ہمارے چاروں طرف ایسے کئی مناظر نظر آرہے ہیں جو ہمارے دلوں کو زخمی کرتے ہیں… ایسے وقت میں ہجرت کے واقعات زخموں پر مرہم کا کام دیتے ہیں… دراصل کافروں نے تو اپنے گمان میں ہجرت کی رات اسلام کو ختم کر دیا تھا… کتابوں میں لکھا ہے کہ ہجرت کی رات جب ایک سو مسلح کافروں نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو ابوجہل کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی… وہ قہقہے لگا رہا تھا اور اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا کہ… محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کہتے تھے کہ میرے ساتھی غالب ہوں گے اور وہ تمہیں قتل کریں گے اور تم جہنم میں جاؤ گے اور وہ جنت میں جائیں گے، آج دیکھو سب کچھ ختم ہونے والا ہے… ہجرت کی رات جب کافر اسلام کو ختم نہ کرسکے حالانکہ یہ خاتمہ تلوار کے ایک وار کے فاصلے پر تھا… اور ظاہری طور پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچنے کا ذرہ برابر امکان نہیں تھا… مگر اﷲ پاک نے بچایا… تو اب اس دین کو کون ختم کر سکتا ہے… ہاں! کافر اپنی باتوں سے ایسا ماحول ضرور بنا لیتے ہیں کہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ… اب اسلام ختم اور اب مسلمان ختم… امریکی اٹھیں گے اور وزیرستان پر ایک بم ماریں گے تو وزیرستان ختم… پھر افغانستان پر ایٹم بم ماریں گے تو افغانستان ختم… مگر یہ سب کہنے کی باتیں ہیں… امریکی توعراق میں ایسے پھنسے ہیں کہ واپسی کا راستہ نہیں مل رہا… اور ایٹم بم چلانے والے خوب جانتے ہیں کہ ان کا واسطہ کس قوم سے ہے… نائن الیون والے جہاز امریکہ کے کسی ایٹمی ری ایکٹر پربھی گر سکتے تھے… اور مسلمان الحمدﷲ اس بات سے محفوظ ہیں کہ کوئی ان کا مکمل خاتمہ کر دے… یہ جاپانی نہیں ہیں کہ ایٹم بم کھا کر چپ بیٹھ جائیں گے… یہ دشمن کا ہر قرضہ اتارنے والی قوم ہے… ماضی میں ہمیں ختم کرنے کا خواب دیکھنے والوں کا اب نام ونشان بھی باقی نہیں ہے… کوئی جائے اور منگولیا نامی چھوٹے سے ملک میں تاتاریوں کی ہڈیاں تلاش کرے… وہ تاتاری جنہیں لوگ یاجوج ماجوج سمجھ کر اپنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑدیتے تھے…
آج میں نے اخبار میں بعض تصویریں اور خبریں دیکھیں تو پھر ہجرت کے مناظر یاد آگئے… دارالندوہ مکہ میں مشرکین کے نیٹو جیسے اتحاد کا ہیڈکوارٹر تھا… وہاں مشورہ ہو رہا تھا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا کیا جائے؟ … بالآخر طے پایا کہ ہر قبیلے سے ایک جوان آدمی لیا جائے پھر یہ تمام لوگ مل کر حملہ کریں… اس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قبیلے والے لوگ تمام قبائل سے نہیں لڑ سکیں گے… بالآخر دیت پر فیصلہ ہوگا تو تمام قبائل مل کر ادا کریں گے… اسی دارالندوہ سے متحدہ فورسز کا لشکر نکلا تھا اور اس نے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر مبارک کا محاصرہ کرلیا تھا… گھر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ تھے… آج جب کسی جگہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اسی طرح کا اجلاس ہوتا ہے تو ہجرت کی رات یاد آجاتی ہے… اس رات میرے آقا محاصرے میں تھے… اور آج آقا کا دین اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی محاصرے میں ہیں… اور کافروں مشرکوں کے عزائم بالکل ویسے ہی ہیں… مگر اﷲ پاک اپنے دین کا اور مسلمانوں کا محافظ ہے… وہ دارالندوہ ۸ھ میں مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تھا… اور حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں اس کے مسلمان مالک نے اسے بیچ کر تمام رقم اﷲ پاک کے راستے میں دے دی تھی… انشاء اﷲ آج کے وہ ہیڈکوارٹر جہاں زمانے کے طاقتور لوگ بیٹھ کر… اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں… ایک دن مسلمانوں کے قبضے میں آئیں گے… بس شرط یہی ہے کہ مسلمان اپنے گھروں سے چمٹے رہنے کی بجائے ہجرت اور جہاد کے عمل کو زندہ کریں… آج جب مسلمانوں کے کچھ قاتل خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فوٹو کھنچواتے ہیں تو مسلمانوں کے دل سے ہوک اٹھتی ہے کہ… ملا محمد عمر کعبہ شریف نہیں جاسکتے… اکثر جہادی مسلمان کعبہ شریف نہیں جا سکتے… اور یہ مسلمانوں کے قاتل جب چاہتے ہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں… اس کا جواب بھی ہجرت کا واقعہ دیتا ہے… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آنکھوں میں آنسو لئے مکہ مکرمہ سے نکل رہے تھے… بلکہ نکالے جارہے تھے… اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے…
ما اطیبک من بلد واحبک الی ولو لا ان قومی اخرجونی ما سکنت غیرک
’’اے مکہ تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھ کو بہت ہی محبوب ہے اگر میری قوم مجھ کو نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کسی اور جگہ سکونت اختیار نہ کرتا…‘‘
ابوجہل اور دوسرے مشرکین خانہ کعبہ کے متولّی بنے ہوئے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ثور پہاڑ کی ایک تاریک غار میں روپوش تھے… اور پھر سات سال تک آپ خانہ کعبہ نہ آسکے… کعبہ شریف نے اپنی مبارک آنکھوں سے ایسے کئی مناظر دیکھے ہیں… کعبہ شریف کا خادم اور عابد حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کعبہ کے نزدیک سولی پر لٹکا ہوا تھا… اور حجاج جیسا ظالم و قاتل کعبہ کا حاکم قرار پایا تھا… حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کافروں کے لشکر کے ساتھ غزوۂ بدر میں آئے تھے اور اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے… حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان سے بات کی کہ چچا ایمان لے آتے تو ہجرت اور جہاد کا اجر عظیم پاتے… چچا بھتیجے کی بات کچھ بڑھ گئی اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے خیر خواہی کے تحت کچھ تلخی بھی کر لی… اس پر حضرت عباسؓ نے فرمایا تم لوگ ہماری برائیاں تو گنواتے ہو مگر ہماری نیکیوں کا تذکرہ نہیں کرتے… حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حیرت سے پوچھا کہ چچا! آپ لوگوں کی کوئی نیکی بھی ہے؟… انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم خانہ کعبہ کی خدمت کرتے ہیں… اسے آباد رکھتے ہیں، اس کی تعمیر کرتے ہیں، حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں، ان کی خدمت کرتے ہیں… اس پر قرآن پاک کی آیات نازل ہوئیں کہ خانہ کعبہ کی خدمت، آبادی اور حاجیوں کو پانی پلانا ایمان لانے اور جہاد کرنے کے برابر ہر گز نہیں ہو سکتا… بلکہ جہاد کا درجہ ان خدمات سے بہت اونچا ہے… الغرض ہجرت کا واقعہ مسلمانوں کو کسی بھی وقت مایوس نہیں ہونے دیتا… بلکہ ہر موقع پر ان کی رہنمائی کرتا ہے… اور انہیں حوصلہ دیتا ہے کہ اﷲ پاک نے کتنے مشکل وقت میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کو بچایا ہے… وہ اﷲ تعالیٰ اب بھی موجود ہے… وہ حَیٌّ قَیُّوم ہے… اسے اونگھ اور نیند تک نہیں آتی… وہ پاک اور بلند ہے… اس کی نصرت آج بھی ان پر اترتی ہے… جو ہجرت اور جہاد کے عمل کو زندہ کرتے ہیں… ہم میں سے ہر مسلمان صرف ایک بار اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ میں نے… دین کی خاطر کیا چھوڑا ہے… اور میں نے دین کی خاطر کیا قربانی دی ہے…
(ماخوذ از: رنگ و نور، ج،۳ /’’ایک سدا بہار واقعہ‘‘)
٭…٭…٭