جواہرِ جہاد (قسط۱۲)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 586)
شہادت… ایک عظیم سعادت
اﷲ تعالیٰ جن مسلمانوں کی جان ومال جنت کے بدلے خرید لیتا ہے… وہ مسلمان بے حد خوش نصیب ہوتے ہیں… بہت ہی زیادہ خوش نصیب… مگر آہ! ہر کوئی اس قابل نہیں ہوتا کہ محبوب رب اسے خرید لے… آہ شہادت! آہ شہادت… ایک میٹھی موت … نہیں موت نہیں زندگی… بہت میٹھی، بہت سکون والی… اے مسلمانو! تھوڑا سا سوچو! کیا موت اپنے وقت سے پہلے آسکتی ہے؟… قرآن پاک فرماتا ہے کہ نہیں … کیا موت ایک منٹ مؤخر ہوسکتی ہے؟… قرآن پاک فرماتا ہے ’’نہیں‘‘… پھر سچے دل سے شہادت مانگتے ہوئے دل کیوں کانپتا ہے؟… بات واضح ہے کہ ہر کوئی شہادت کا اہل نہیں ہوتا… ہر کسی کو اﷲ پاک نہیں خریدتا… شہادت کیا ہے؟ کبھی ہم نے سوچا… ادھر آنکھ بند ہوئی اور ادھر مزے ہی مزے شروع ہوگئے… ارے سارے گناہ معاف… رہنے کے لئے اونچے اونچے محلاّت… اور پاکیزہ جیون ساتھی… اور ہر لمحہ اﷲ پاک کے راضی ہونے کی عجیب خوشی، عجیب مستی… پھر بھی ہر کوئی دل سے شہادت کیوں نہیں مانگتا؟… بات وہی ہے کہ اﷲ پاک کا یہ سودا صرف اپنے پیاروں کے ساتھ ہوتا ہے… وہ پیارے جو اﷲ پاک سے ملنے کا شوق رکھتے ہیں… جو اﷲ پاک کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں… ورنہ سب جانتے ہیں کہ ہم ایک دن مر ہی جائیں گے… زمین میں بیج بویا جاتا ہے، پھر پودا نکلتاہے، پھر درخت بنتا ہے… اور پھر سوکھ کر بکھر جاتا ہے یا جلا کر راکھ بنادیا جاتا ہے… انسان بھی اسی طرح بچپن سے گزر کر جوان اور پھر سوکھے درخت کی طرح… ہاں سب ختم ہو رہے ہیں… مگر شہداء نے کمال کیا کہ یہاں بھی اپنا پورا وقت گزارتے ہیں… اور مرتے ہی ہر دُکھ، ہر تکلیف، ہر تنگی، ہر بیماری اور ہر پریشانی سے نجات پا جاتے ہیں… نہ موت کا درد، نہ قبر کی تنگی، نہ منکر نکیر کی سختی اور نہ کوئی غم… آہ شہادت، آہ شہادت… اﷲ پاک کی قسم! شہادت بہت اونچی اور میٹھی نعمت ہے… اﷲ پاک کی رضاء کے لئے اس کے دین کی خاطر قربان ہوجانا… بہت بڑی سعادت ہے اور بہت بڑی عقلمندی… کوئی لاکھ خود کو دھوکا دے مگر اسے ماننا ہی پڑے گا کہ… شہادت جیسی نعمت ایمان کے بعد اور کوئی نہیں ہے… میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کون سا مقام نہیں تھا… ربّ کعبہ کی قسم! ان کے پاس تو سب کچھ تھا… مگر تمنا کیا تھی کہ بار بار شہادت پاؤں، بار بار شہادت پاؤں… ارے محبوب کی خاطر ذبح ہونے کا مزہ ہی کچھ اور ہے… ہم جیسے بے وفا اسے کیا جانیں… اس مزے کو تو آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم جانتے تھے… اور انہی سے صحابہ کرامؓ نے بھی سمجھ لیا… اس لئے تو آدھی دنیا کا حکمران سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ بلک بلک کر شہادت مانگتا تھا… اﷲ پاک نے ایمان والوں کی جان ومال کو خرید لیا ہے… اس قیمت پر کہ ان کے لئے جنت ہے… وہ قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں… یہ وعدہ اﷲ پاک کے ذمّے پکا ہے… تورات، انجیل اور قرآن جیسی کتابیں اس وعدے کی گواہ ہیں… اے لوگو! اﷲ پاک سے بڑھ کر اپنا وعدہ پورا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟… پس جن لوگوں سے یہ سودا ہوچکا ہے وہ اپنے اس سودے پر خوشیاں منائیں… اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے… یہ ہے قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا مفہوم … اﷲاکبرکبیرا … مبارک ہو اے امت مسلمہ کے شہیدو!… بہت مبارک ہو… آہ شہادت، آہ شہادت… کیا مجھے اور آپ کو بھی یہ نعمت مل سکتی ہے؟… اپنے اعمال کو دیکھیں تو ناممکن نظر آتی ہے… مگر جب اﷲ پاک کے فضل وکرم کو دیکھیں تو بہت امید ہوتی ہے… لیکن کیا ہم نے کبھی سچے دل سے اسے مانگا بھی ہے؟… حالات سے تنگ ہو کر نہیں، وقتی جوش میں آکر نہیں، مجمع کو گرمانے کے لئے نہیں، بلکہ خالص اﷲ پاک کی محبت میں… کیا ہم نے کبھی شہادت مانگی ہے؟… باوفا بیوی کو خاوند کی ملاقات کا کس قدر شوق ہوتا ہے؟… کہتی ہے کہ وہ کب آئیں گے کہ میں اپنا سب کچھ نچھاور کردوں گی… ایک خفیہ جذبہ، ایک خالص جذبہ… جو کسی کو بھی نہیں بتایا جاتا… ایک وفادار بندہ بھی اﷲ پاک کی محبت میں ڈوب کر سوچتا ہے کہ… مالک کے لئے کب ذبح ہوں گا؟… کب میں ان کے نام پر کٹ کر گروں گا… کب؟ کب؟ … ایک خفیہ نورانی جذبہ… اﷲاکبرکبیرا… میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا… جو سچے دل سے شہادت مانگے گا اسے شہادت کا درجہ دے دیا جائے گا… اگرچہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرا ہو… کچھ لوگ جہاد میں آئے… آتے ہی خفیہ جذبے نے انہیں آگے پہنچا دیا… اور وہ فوراً شہادت سے ہم آغوش ہوگئے… کچھ اور لوگ جہاد میں آئے، اﷲ پاک نے ان سے بڑے بڑے کام لئے اور پھر انہیں… شہادت عطاء فرمادی… کچھ اور لوگ جہاد میں آئے… کچھ کام کیا اور پھر ’’پرانے مجاہد‘‘ بن کر گھر جا بیٹھے… اب وہ صرف ’’غیبت‘‘ کا حرام گوشت کھاتے ہیں… اپنے اعمال کی دنیاوی قیمت وصول کرتے ہیں… اور کام میں جُڑے ہوئے مجاہدین کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں… ہاں خود کو مجاہدین کہلوانے والوں کی بھی کئی قسمیں ہیں… قرآن پاک کی سورۂ توبہ نے ان کے حالات قیامت تک کے لئے بیان فرما دئیے ہیں… کچھ اور لوگ جہاد میں آئے… اﷲ پاک نے ان سے کام لیا… ان کو آزمائشوں میں ڈالا… مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور شہادت کی راہوں پر گامزن ہیں… ان کو معلوم ہے کہ شہادت اپنے وقت سے پہلے نہیں آئے گی… ہمارا کام تو میزبانِ رسول ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کی طرح چلتے رہنا ہے… چلتے رہنا… مدینہ منوّرہ سے لے کر قسطنطنیہ کی دیوار تک… دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک… کچھ اور لوگ جہاد میں آئے… اﷲ پاک نے انہیں دشمنوں کے ہاتھوں قید کی آزمائش میں ڈال دیا… پھر وہ چھوٹ گئے… مگر انہوں نے کام بند کردیا… اور غیبت شروع کردی… جبکہ کچھ لوگ چھوٹ کر آئے تو انہوں نے گھر سے پہلے کام کی خبر لی… اور اﷲ پاک نے انہیں ماضی کی سعادتوں سمیت دوبارہ جوڑ لیا… ہاں میرے بھائیو! شہادت ہر کسی کو نہیں ملتی… آہ شہادت، آہ شہادت… وہ دیکھو اُحد کے دامن میں ستر بادشاہ… اﷲاکبرکبیرا … قرآن پاک نے ان کے حالات کھول کر بیان کردئیے… وہ دیکھو بدر کے میدان میں چودہ (۱۴)خوش نصیب… قرآن پاک نے ان پر آفرین بھیجی… اور پھر بدر و اُحد کے ان بادشاہوں کا لشکر پھیلتا چلا گیا… آج بھی بھرتی جاری ہے… عراق، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور معلوم نہیں کہاں کہاں… ارے شہادت کا بازار بھی کبھی ٹھنڈا ہوسکتا ہے؟… ہاں یہ بازار کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا… مگر یہ نعمت قسمت والوں کو ملتی ہے… آہ شہادت، آہ شہادت… پہلا کام ہے سچے دل سے اس کی دعاء… اور اس میں شرطیں لگانا چھوڑ دیں… کوئی کہتا ہے امام مہدی کے ساتھ شہید ہوں، اور کوئی کچھ اور جوڑتا ہے… بابا! مقبول شہادت جب اور جہاں مل جائے وہ بڑی نعمت ہے… ہم کون ہیں شرطیں لگانے والے؟… ممکن ہے ان شرطوں کے پیچھے نفس کی کوئی خواہش چھپی ہو… پھر قربانی کیسی؟… شہدائے اُحد تو ایک ایسی جنگ میں شہید ہوئے جس میں مسلمانوں کو ظاہری شکست ہوئی تھی… مگر دنیا کا کوئی فاتح شہید ان مظلوم شہداء کے ہم پلہ ہوسکتا ہے؟… حضرت سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے… خارجیوں کا برا ہو کہ ان کے خلاف نفرت پھیلاتے پھرتے ہیں… ان کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا بھی خیال نہیں… تاریخ کے حوالوں کو گولی مارو… بس اسی پر فیصلہ کر لو کہ ہم دعاء کرتے ہیں… اﷲ پاک ہمارا حشر حضرت سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ فرمائے… اور اُن کا قاتلانِ حسین کے ساتھ… حضرت سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کن حالات میں ہوئی؟… مقصد یہ ہے کہ دعا ء میں شرطیں نہ لگاؤ… بس شہادت مانگو کہ ربّا فضل فرما اور اپنے راستے کی مقبول شہادت نصیب فرما… بعض لوگ ظاہری طور پر بے نتیجہ شہید ہوتے ہیں… مگر اﷲ پاک ان کی شہادت کو ان کے لئے اور مسلمانوں کے لئے بہت قیمتی بنادیتا ہے… بالاکوٹ کے شہداء کتنی عجیب حالت میں شہید ہوئے …مسلمانوں کی بے وفائی، مال پرست لوگوں کی طوطا چشمی… اپنے علاقے سے دوری اور اسباب کے بارے میں بے بسی… ان کی تو لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہیں تھا… مگر آج وہ جہاد اور شہادت کا حسین استعارہ بنے ہوئے ہیں… اور ان کے جہادی آثار لاکھوں مسلمانوں کو جہاد اور شہادت کا مسئلہ سمجھا رہے ہیں…
دوسرا کام ہے ’’بیعت علی الجہاد‘‘… یعنی اﷲ پاک سے باقاعدہ سودا کرنے کے لئے ایک امیر کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کرلو… بیعت علی الجہاد بہت عظیم نعمت ہے… جس کسی نے بھی سچے دل اور اخلاص سے یہ بیعت کی ہے… وہ اکثر شہادت سے محروم نہیں رہا… آپ قرآن پاک میں شہادت کی آیات پڑھیں… اور پھر ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کی آیات پڑھیں… آپ کو واضح مناسبت نظر آئے گی… حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ … قرآن وسنت کے ماہر عالم دین تھے… انہوں نے ایک بار مسجد میں مجھ سے فرمایا… میں نے جہاد کی رسمی بیعت نہیں کی، حقیقی بیعت کی ہے… اور دیکھنا میں بستر پر نہیں مروں گا… بیعت کے معنیٰ ہیں بیچنا، سودا کرنا… کہ اﷲ پاک سے سودا کرلیا ہے… شہادت ہر کسی کو نہیں ملتی… اس لئے ’’بیعت علی الجہاد‘‘ کرنے والے بھی بہت کم ہیں… اور اسے نبھانے والے اس سے بھی کم… بس جہاں نفس پر یا مفادات پر ذرا سا بوجھ پڑا وہاں بیعت ختم… دنیا کی عورتوں کے لئے لوگ کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں جبکہ… جنت کی حوروں کو سب نے (نعوذباﷲ) بے قیمت سمجھ رکھا ہے… آہ شہادت، آہ شہادت…
بیعت علی الجہاد کے بعد اگلا کام ہے… جہاد کے راستے پر چلتے رہنا چلتے رہنا… جہاں تشکیل ہوجائے… جب بلاوا آئے… کوئی مجاہد خود کو بھاری نہ ہونے دے… مجاہد بھاری ہوتا ہے دو چیزوں سے … ایک مال کی لالچ… اور دوسرا عہدے کا حرص… مجاہد تو اپنے امیر کے ہاتھ پر بیٹھا ہوا وہ ’’باز‘‘ ہوتا ہے… جو اشارہ ملتے ہی اپنے کام پر جھپٹ پڑتا ہے… مال کے لالچی لوگ جہاد کو اور خود کو نقصان پہنچاتے ہیں… اور عہدے سے چپک جانے والے شہادت سے اکثر محروم رہتے ہیں… مجاہد کے نزدیک کوئی تشکیل بڑی نہیں ہوتی… اور نہ کوئی چھوٹی… گاڑی اور سہولتیں مجاہد کے نزدیک گدھے کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں… جو مجاہد اپنے امیر کو اس بات کا حق نہیں دیتے کہ وہ جہاں چاہے ان کی تشکیل کرے وہ مجاہد نہیں… جہاد کے راستے کی رکاوٹ ہوتے ہیں… انہیں کی وجہ سے فتنے آتے ہیں… اور انہیں کی بدولت پاکیزہ راستے ناپاک ہوتے ہیں… ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں جو جہاد دے کر گئے ہیں… بس وہی جہاد ہی شہادت اور کامیابی کا ضامن ہے… اس جہاد میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ مامور ہوتے ہیں… اور کم سن اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ ان کے امیر…
اے مجاہدو!… اﷲ کے لئے خود کو ہلکا رکھو… تب تم دشمن پر بہت بھاری پڑو گے… اور جہاد کو زمانے کا کوئی فرعون، کوئی بش اور کوئی پرویز نقصان نہیں پہنچا سکے گا… خود کو اسباب، عہدے اور پروٹوکول کا عادی نہ بناؤ… اور نہ جہاد کے اسباب کو گناہ کے کاموں میں استعمال کرو… تب تمہیں بھی ان شا ء اﷲ شہادت نصیب ہوگی… اور تم بھی اس میٹھی نعمت کے مستحق بنوگے…
ایک بہت ضروری اور اہم گذارش
اے مسلمانو!… اگر آپ شہادت کے طلبگار ہو تو ان لوگوں سے بچو… جو جہاد چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں… اور وہ مجاہدین کی غیبت اور مخالفت کرتے ہیں… یہ لوگ آپ کے ایمان کے لئے بہت خطرناک ہیں، بہت خطرناک… انہوں نے چند دن جہاد میں گزارے… مگر یہ جہاد کے اہل نہ تھے اس لئے اﷲ پاک نے ان کو ہٹادیا… اگر یہ لوگ مخلص اور سچے ہوتے اور کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے گھر بیٹھے ہوتے تو یہ کبھی بھی مجاہدین کی مخالفت نہ کرتے… بلکہ یہ لوگ اپنی محرومی پر بلک بلک کر روتے اور ہر ملنے والے سے اپنے لئے دعاء اور استغفار کراتے… جی ہاں انسان پر بعض اوقات ایسے حالات آجاتے ہیں کہ وہ جہاد نہیں کر سکتا… مگر وہ جہاد کو نقصان بھی نہیں پہنچاتا… بلکہ خوب استغفار کرتا ہے… خوب روتا اور تڑپتا ہے… مگر یہ لوگ تو ذرّہ برابر نہیں پچھتاتے… یہ تو جہاد کو خالہ جی کا گھر سمجھ کر گئے تھے … مگر جب انہیں جیلوں میں جانا پڑا… گوانٹا نامو بے اور دوسرے عقوبت خانوں میں جانا پڑا تو یہ لوگ ثابت قدم نہ رہ سکے… اب وہ پرُامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں… مگر افسوس یہ کہ وہ دن رات مجاہدین کے خلاف زہر اُگلتے ہیں… ان کی زبانوں پر دو ہی الزامات ہیں… مجاہدین مال کھا رہے ہیں… اور مجاہدین ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں… عجیب بات یہ ہے کہ کوئی ان ظالموں سے نہیں پوچھتا کہ تم خود جہاد پر کیوں نہیں جاتے؟… تم نے کس عذر کی بنا پر جہاد چھوڑ دیا ہے؟… عراق، افغانستان، کشمیر وغیرہ میں کون لوگ لڑ رہے ہیں؟… کن کو ختم کرتے کرتے ٹونی بلیئر کا اقتدار ختم ہو رہا ہے؟… کن سے لڑتے لڑتے بش اب ٹُھس ہوگیا ہے؟… کون ہیں جنہوں نے ہند پر لرزہ طاری کر رکھا ہے؟… کن کو مارنے کے لئے نیٹو کا اتحاد دن رات اپنی لاشیں گن رہا ہے؟… ہاں کوئی کچھ نہیں پوچھتا… اور یہ ’’پرانے مجاہد‘‘ غیبت کا حرام گوشت مزے سے کھاتے اور کھلاتے رہتے ہیں… چند دن پہلے ایک خاتون کا خط آیا کہ مجھے ایک پرانے مجاہد نے جواب کسی جگہ پڑھاتے ہیں بتایا ہے کہ… آپ نے جیل میں کمانڈر نصر اﷲ منصور کو تھپڑ مارا تھا… استغفراﷲ ، استغفراﷲ… اﷲ پاک کمانڈر صاحب کو جلد واپس لے آئے … وہی اس جھوٹے بہتان کا زیادہ بہتر جواب دے سکتے ہیں… الحمدﷲ میرا تو آج بھی ان سے محبت کا رشتہ قائم اور تازہ ہے… لیکن بالفرض اﷲ نہ کرے ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی ہو… تو کیا دو انسانوں کے درمیان کبھی اختلاف اور جھگڑا اور پھر صلح نہیں ہوتی؟… مگر ’’پرانے مجاہدین‘‘ کی گود میں بس اسی طرح کی جھوٹی باتیں اور واقعات ہیں… اور کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ… ان حالات میں آپ کا جہاد چھوڑنا کس طرح سے جائز ہے؟… اور کام میں جڑے ہوئے مجاہدین کے خلاف نفرت پھیلانا کون سا ثواب ہے؟… میرے ایک اور عزیز ساتھی بتا رہے تھے کہ ان کے گاؤں کا گوانٹا ناموبے سے رہا ہونے والا ایک شخص… غیبت کا تفصیلی بازار لگاتا ہے… اس سے کوئی بھی بات کرے تو کہتا ہے … اگر آپ کے پاس ’’تین گھنٹے‘‘ ہوں تو میں ان مجاہدین کی حقیقت آپ کو بتا سکتا ہوں… تین گھنٹے غیبت… اور غیبت زنا سے بدتر گناہ… استغفراﷲ، استغفراﷲ…
اے مسلمانو!… ان لوگوں سے بچو… انہوں نے اپنے اعمال تو ضائع کردئیے ہیں اب یہ دوسروں کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں… جہاد کوئی موسمی میلہ نہیں ہے کہ… جب حالات ٹھیک تھے تو یہ لوگ جاتے تھے… اب حکومتوں کا خطرہ ہے تو انہوں نے خود کو ’’فریز‘‘ کرنے کی بات شروع کردی ہے… جو لوگ جہاد چھوڑ کر غیبت کرتے ہیں ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے… یہ خود جھوٹ گھڑتے ہیں، بدگمانیاں پالتے ہیں اور نفرتیں بیچتے ہیں… اﷲ پاک ان کو توبہ کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں ان جیسے برے انجام سے اپنی پناہ میں رکھے…
بات یہ چل رہی تھی کہ… شہادت ایک بہت پیاری اور میٹھی نعمت ہے… مگر یہ نعمت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی… ہم سچے دل سے اس کی طلب اپنے اندر پیدا کریں… ہم سچے دل سے اسے اﷲ پاک سے مانگیں… ہم مقبول لوگوں سے اپنے لئے شہادت کی دعاء کروائیں… والدین اپنے بچوں کو شہادت کی دعاء دیں… شہادت اور اس کی محبت عام ہوگی تو اسلام کو دنیا بھر میں غلبہ ملے گا… صرف بارہ ہزار شہادت کے شیدائی مسلمان جہاں جمع ہوجائیں گے… وہاں انہیں انشاء اﷲ فتح نصیب ہوگی… ہم شہادت پانے کے لئے ان نسخوں پر بھی عمل کریں جن کا آج کے کالم میں مذاکرہ ہوا ہے… اﷲ پاک ہم پر اپنا فضل فرمائے… اور ہمیں اپنے پیارے راستے کی مقبول شہادت نصیب فرمائے…
آہ شہادت! آہ شہادت!
(نہیں ملتی یہ نعمت ہر کسی کو/ رنگ و نور، ج،۳)
٭…٭…٭