جواہرِ جہاد (قسط۱۱)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 585)
الٹتی سازشیں…
اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل سے ہمیں مسلمان بنایا… اسلام کی اس عظیم الشان بے، مثال نعمت کا اصل فائدہ تو آخرت کی اصل زندگی میں معلوم ہوگا… اس وقت دنیا کے بڑے بڑے کافر رو رو کر چیخ چیخ کر حسرت کے ساتھ کہہ رہے ہوں گے… کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے… کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے… قرآن پاک نے یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
{رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ}
آخرت تو آنے والی ہے… اس سے پہلے دنیا ہی میں کافروں کی… ذلت کا زمانہ شروع ہو چکا ہے… ایک ناکامی کے بعد دوسری ناکامی… ایک رسوائی کے بعد دوسری رسوائی… اور ہر بڑی سازش… بحمدﷲ… ذلیل اور ناکام… اور ہر جوتا الٹا اپنے ہی سر… ابھی اسرائیل کو دیکھ لیجئے! اس کے ساتھ کیا ہوا؟… چھ ہفتے کا آپریشن اپنی موت آپ مر گیا… خود اکثر یہودیوں کی رائے یہی ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوئی ہے… تاریخ گواہ ہے کہ یہودی جب ہارتا ہے تو پھر ہارتا ہی چلا جاتا ہے… جبکہ دوسری طرف عالم اسلام میں بیداری اور جذبے کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے… عمارتیں بنتی اور گرتی رہتی ہیں… سڑکیں دوبارہ تعمیر ہو جاتی ہیں… بجلی کے کھمبے واپس لگائے جا سکتے ہیں… اور شہید ہونے والوں کے غم کو تسلیم و رضا کی خوشی سے دھویا جا سکتا ہے… مگر شکست کے زخم کو سینا اور پسپائی کی ذلت کو برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا… لبنان نے اپنی سڑکیں، عمارتیں اور چند افراد کھوئے ہیں، جبکہ… اسرائیل نے اپنی عزت کھوئی ہے… اپنا رعب کھویا ہے… اپنی دہشت کھوئی ہے… اپنی بدمعاشی حیثیت کھوئی ہے… اور اپنا مورال کھویا ہے… اسرائیل کے بہت سے فوجی بھی مارے گئے… جو بدقسمتی سے ناقابل شکست سمجھے جاتے تھے… اسرائیل کے بہت سے شہری بھی مارے گئے جو… خود کو محفوظ سمجھتے تھے کہ… امریکہ اور یورپ کی چھتری ان کے سر پر ہے… اب اسرائیلی سیاست اور اسرائیلی معاشرہ سخت انتشار کا شکار ہے… اور یہودی غنڈے ایک دوسرے کا گریبان کھینچ رہے ہیں… اس وقت دو خبریں آپس میں کندھا ملا کر ساتھ ساتھ چل رہی ہیں… پہلی خبر اسرائیل کی شکست اور دوسری خبر برطانیہ میں طیارے تباہ کرنے کی سازش کا انکشاف… اور زمین پر بیٹھے ’’ہائی جیکروں‘‘ کی گرفتاری… ان دونوں خبروں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے… آئیے! اس کھچڑی کے اجزاء، دال، چاول، نمک… اور کالی مرچ وغیرہ کو الگ کر کے دیکھتے ہیں… اور یوم آزادی کے موقع پر… عالم اسلام کی فتح کا ’’شکر‘‘ بھی مناتے ہیں…
عراق کے شعلے
امریکا نے ایک نقشہ بنایا تھا… بالکل نیا نقشہ… ایک نئے مشرق وسطیٰ کا نقشہ… اﷲ اکبر کبیراً… عرب حکمرانوں نے امریکہ کی نوکری، چاکری میں اپنا سب کچھ لگا دیا… مگر امریکہ اب بھی راضی اور مطمئن نہیں ہے… کاش! امریکہ کا ساتھ دینے والے ’’عقلمند‘‘ کچھ عبرت حاصل کریں… نئے ’’مشرق وسطیٰ‘‘ کی خاطر عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا گیا… یہ کام تو آسانی سے ہو گیا کہ… عراق کے شیعہ پکے ہوئے پھل کی طرح امریکہ کی گود میں جا گرے… اور انہوں نے امریکہ کا اس طرح سے ساتھ دیا کہ… عقل حیران… اور ناطقہ سر بگریبان ہے… صرف ’’مقتدی صدر‘‘ کے لوگوں نے چند گولیاں… امریکہ کے خلاف چلائیں… بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھی ’’نوراکشتی‘‘ تھی… اور دوسرے شیعہ گروپوں سے نمایاں ہونے کی ایک کوشش… اور بس… مگر عراق کے ’’مسلمان‘‘ بہت سخت جان نکلے… اور انہوں نے جہاد کے ایسے شعلے بھڑکا دئیے جنہوں نے… امریکی نقشے کا ایک حصہ جلا کر راکھ کر دیا… اس پوری بات کا قدرے باریکی سے جائزہ لیں… بہت سے پراسرار راز کھل جائیںگے…
یہودیوں کی بے تابی
نئے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں نے… عراق، بحرین، کویت وغیرہ اپنے حامی شیعوں کے سپرد کرنے تھے… کیونکہ عراق میں ’’شیعہ‘‘ بہت کام آئے… ان کے مذہبی رہنما واشنگٹن اور نیویارک جا بیٹھے… اور ان کے مسلح دستوں نے چن چن کر عراق کے سنیوں کو قتل کیا… فرقہ واریت کی یہ آگ امریکہ نے بھڑکائی اور بدقسمتی سے شیعہ اس کا شکار ہو گئے… انہوں نے صدام حسین سے نجات ہی کو سب کچھ سمجھا… اور اپنے پرانے نعرے بھول گئے… امریکہ چاہتا تھا کہ… عراق، بحرین… اور کویت اسی طرح کے شیعوں کو دے دے… ایران اور شام بھی شیعوں کے پاس رہیں، مگر حکومتیں تبدیل کر دی جائیں… سعودی عرب پر سیکولر سنیوں کی حکومت ہو… اور یوں ’’مشرق وسطیٰ‘‘ میں اسلام کے لئے کوئی جگہ… اور امریکہ کے لئے کوئی خطرہ باقی نہ رہے… اسرائیل امریکی قلعہ… اور امریکہ کی یہودی کالونی ہے… عراق کے فوراً بعد… اسرائیل کو اجازت ملنی تھی کہ وہ… اپنے دشمنوں حماس، اسلامی جہاد… اور حزب اﷲ کی صفائی کر دے… امریکہ بے چارہ عراق میں پھنس گیا… ادھر حماس والے حکومت تک پہنچ گئے… اور لبنان سے شامی افواج کے نکلنے کے باوجود… حزب اﷲ کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا… اسرائیل بے تاب تھا اور تین سال سے… حملہ کرنے کے لئے تڑپ رہا تھا… اب جا کر امریکہ نے اسے اجازت دی… تاکہ… حماس اور حزب اﷲ کی کمر ٹوٹ جائے… اور دنیا کی توجہ عراق سے ہٹ جائے…
خواب الٹا ہو گیا
امریکہ اور اسرائیل کا خیال تھا کہ… حزب اﷲ کا کوئی بھی ساتھ نہیں دے گا… عراق کے شیعوں نے جس طرح عراق کے سنیوں کا قتل عام کیا ہے… اس کی وجہ سے عرب دنیا میں شیعوں کے لئے ہمدردی باقی نہیں رہی… اب حزب اﷲ اکیلی ہو گی… اور ایک آدھ ہفتے میں اس کا دم نکل جائے گا… مگر یہ خواب الٹا ہو گیا… عالم اسلام کے سنی عوامی حلقے لبنان کے ساتھ کھڑے ہو گئے… مصر سے سعودی عرب تک سروں پر کفن باندھے ’’فدائی دستے‘‘ شیروں کی طرح دھاڑنے لگے… لوگوں نے چلتی گاڑیاں سڑک پر روک کر… لبنان کے امدادی فنڈ میں دے دیں… مسلمان خواتین نے زیورات کے ڈھیر لگا دئیے… شاہ عبداﷲ نے پہلی بار شاہ فیصل کی یاد تازہ کر کے… اپنی آخرت کے لئے آسانی کا سامان کیا… مسلمان حکمران اپنی بے حسی کے ساتھ الگ تھلگ جا پڑے… اور اسرائیل کو اپنی طرف سروں پر کالے اور سرخ رومال باندھے… فدائی نوجوان بڑھتے ہوئے نظر آئے… تب اسرائیل کا حسین خواب… بھیانک بھوت بن گیا… اسرائیل نے آج تک ’’اقوام متحدہ‘‘ کی کوئی بات نہیں مانی… مگر… اب اس نے فرمانبردار بچوں کی طرح جنگ بندی کی قرار داد پر سر جھکا دیا… ساری دنیا اس بات پر حیران ہے… اور طاقت کے پجاری دانشور کوئی بات بنا نہیں پا رہے… تل ابیب سے لے کر مکہ مکرمہ تک ایک ہی شور ہے… اسرائیل ہار گیا… اسرائیل کو شکست ہو گئی… کاش! عراق اور ایران کے شیعہ عراق میں… آنکھیں بند کر کے امریکہ کی حمایت نہ کرتے تو آج… مشرق وسطیٰ تو کیا دنیا کا نقشہ بھی کچھ اور ہوتا…
پرانے مکار دشمن کی چال
تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کے لئے… شکست لکھی جانی تھی… یہ بات ٹونی بلیئر اور بش کو گوارہ نہیں تھی… اس لیے دونوں مل بیٹھے… اپنی رہی سہی ناک… اور عزت بچانے کے لئے… تب ایک نیا ڈرامہ دنیا بھر کے میڈیا پر چھا گیا… جی ہاں! اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی قبول کرنے سے دو دن پہلے… فضا کو دھویں سے بھرنے کے لئے… ایک مضحکہ خیز ڈرامہ رچایا گیا… تاکہ اسرائیل اس دھویں اور گرد کا فائدہ اٹھا کر… اپنے اترے ہوئے کپڑے سنبھالے… اور چپکے سے بھاگ جائے…
لبنان جل رہا تھا… بیروت پر اسرائیلی میزائل آگ بن کر گر رہے تھے… حیفہ میزائلوں سے لرز رہا تھا… اقوام متحدہ کے دفاتر میں ایک قرار داد پر سودے بازی جاری تھی… مگر دنیا بھر کے میڈیا پر ایک اور خبر چھائی ہوئی تھی… چند پاکستانی مسلمان نوجوان پکڑے گئے ہیں… انہوں نے امریکی جہازوں کو فضا میں ہی مار گرانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا… منصوبہ کامیاب ہونے والا تھا… امریکی جہاز گرنے والے تھے کہ برطانوی پولیس نے دہشت گردوں کو پکڑ لیا… امریکہ نے اس قوالی میں آواز ملائی کہ … ارے! ہم بھی پکڑنے والوں میں ساتھ تھے… اچانک ڈھول کی تھاپ پر… پاکستان کے قوال نے سُر لگائی… ارے! سب کچھ ہم نے کیا… یہ دہشت گرد ہم نے پکڑے ہیں… ہمیں شاباش دو… ہمیں شاباش دو…
صحافیوں نے… پاکستانی قوال سے پوچھا آپ نے کب یہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا… جواب ملا، یہی کوئی ایک ہفتہ پہلے… صحافیوں نے… برطانیہ والوں سے پوچھا کہ یہ کارنامہ آپ نے کب سر انجام دیا… انہوں نے کہا سات مہینے سے ہم تاک میں تھے… کوئی ایک بم برآمد نہیں ہوا… کیمیکل کی کوئی بوتل نہیں پکڑی گئی… کوئی پستول، چھری، چاقو… ان دہشت گردوں کے پاس نہیں تھا… مگر ہر طرف شور ہے… دہشت گردی کاعظیم منصوبہ ناکام… خطرناک دہشت گرد پکڑے گئے… ہر طرف ہائی الرٹ…
اﷲ اکبر کبیراً… سرائیکی کی ایک مشہور نظم کا ترجمہ کچھ یوں ہے… بہرے نے کہا: مجھے ڈھول کی آواز سنائی دے رہی ہے… اندھے نے کہا: فوراً چل کر دیکھ لیتے ہیں… گنجے نے کہا: نہ بابا، میں نہیں جاتا وہ لوگ بال پکڑ کر گھسیٹیں گے… لنگڑے نے کہا: ارے! ہم بھاگ جائیں گے… اے پیرفریدا! یہ سب تھوک کے حساب سے سچ بول رہے ہیں… ہم ان میں سے کس کو جھوٹا کہہ سکتے ہیں…
مسلمان دہشت گرد پکڑے گئے… ان کے پاس اسلحہ، بارود… اور کوئی سامان نہیں تھا… یہ خطرناک منصوبہ بالکل آخری مرحلے میں تھا… برطانوی پولیس سات مہینوں سے ان کی نگرانی کر رہی تھی… پاکستان والوں نے ایک ہفتہ پہلے… برطانوی پولیس کو ان کی خبر دی… امریکی پولیس بھی برطانوی اہلکاروں کے ساتھ تھی… ٹونی بلئیر نے نیند سے جگا کر صدر بش کو یہ خوشخبری سنائی… تمام کے تمام دہشت گرد پکڑے گئے… خطرہ اب بھی باقی ہے… اس گروپ کا کوئی آدمی گرفتاری سے نہیں بچ سکا… جہاز تباہ ہو سکتے ہیں، اس لیے ڈیڑھ سو پروازیں منسوخ… پیر فریدا… ان خبروں میں سے تم کس کو جھوٹا کہو گے…
ڈرامے کا پس منظر
کچھ دن پہلے برطانوی حکومت نے ایک سروے کروایا… اس سروے سے معلوم ہوا کہ… برطانیہ کے بیس فی صد مسلمان ابھی تک… مکمل انگریز نہیں بنے… یہ لوگ مجاہدین کو اپنا ہیرو مانتے ہیں… اور جہاد کو ایک اسلامی فریضہ اور حکم… ٹونی بلیئر اس سروے پر سخت جھنجلائے… میں نے بی بی سی پر ان کا انٹرویو سنا… وہ ڈرے ہوئے سانپ کی طرح پھنکار رہے تھے… انہوں نے کہا:… روشن خیال مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ… اس بیس فیصد طبقے کو ٹھیک کریں… ان کے دل سے مغرب اور برطانیہ کی مخالفت نکالیں… اور انہیں سچا برطانوی بنائیں… ٹونی بلیئر کی اس بات پر ’’روشن خیال‘‘ برگر خور مسلمان کچھ ناراض تھے… ان کا کہنا تھا کہ… ہم سچے اور ’’محب انگریز‘‘ برطانوی ہیں… وزیر اعظم خواہ مخواہ ہم پر شک کر رہے ہیں… پھر ہم روشن خیالی کے تقاضوں میں اتنے مصروف ہیں کہ… بنیاد پرستوں کو سمجھانے کے لئے ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں… تب ٹونی بلیئر اور ان کے ساتھیوں نے یہ دلچسپ منصوبہ بنایا… اب صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ وغیرہ ملکوں میں اسکولوں کی چھٹیاں ہیں… ان دنوں اکثر پاکستانی اور انڈین مسلمان واپس اپنے ملکوں میں آتے ہیں… یہاں ان کے لیے شادیوں اور دعوتوں کی تاریخیں طے ہوتی ہیں… وہاں کے ٹیکسی ڈرائیور یہاں آ کر ادبی نشستوں کی صدارت کرتے ہیں… اور کانوں میں بالیاں پہنے ہوئے نوجوان ہر جگہ یہ کہہ کر… اپنا رعب جھاڑتے ہیں کہ… ہم برٹن سے آئے ہیں… ہم برٹن سے آئے ہیں… ادھر اسرائیل کو کپڑے پہننے کے لئے دھویں کی ضرورت تھی… اور ادھر امریکہ اور برطانیہ کے ائیر پورٹوں پر مسلمانوں کا ہجوم تھا… تب اچانک جہاز تباہ کرنے والے دہشت گرد پکڑے گئے… فلائٹیں منسوخ ہوئیں… ہر پانچ منٹ بعد جوس پینے والے… اور ہر پندرہ منٹ بعد ٹوائلٹ جانے والے روشن خیال… ائیر پورٹوں پر پھنس گئے… ان سب کو یہ تکلیف ’’مسلم شدت پسندوں‘‘ کی وجہ سے ہوئی ہے… وہ بڑی قطاروں میں کھڑے کھڑے تھک گئے ہیں… ان کی شادیاں اور دعوتیں کینسل ہو رہی ہیں… ٹونی بلیئر کا خیال ہے کہ… اب یہ روشن خیال لوگ… ٹونی کو دعائیں دیں گے کہ تم نے ہمیں بچا لیا… اور شدت پسندوں کو گالیاں دیں گے کہ تم نے ہمیں تھکا دیا… یوں بنیاد پرستی کا خطرہ کم ہو جائے گا… اور مجاہدین کی مقبولیت کا گراف گر جائے گا… اسی لیے دہشت گردوں کے پکڑے جانے کے باوجود خطرہ قائم ہے… فلائٹیں منسوخ ہو رہی ہیں… اور ائیرپورٹوں پر ہجوم ہی ہجوم ہے… مگر نتیجہ یہ نکلا کہ… اسلامی شدت پسندوں کے خلاف تو کسی کا ذہن بنا نہیں… خود برطانیہ کی حکمران لیبر پارٹی کے تیس لیڈروں نے ٹونی کو خط لکھ دیا ہے کہ… تمہاری اور بش کی پالیسیوں نے دنیا کو غیر محفوظ بنا دیا ہے… تم دونوں نے لوگوں کو اتنا تنگ کیا کہ اب وہ… جہاز گرانے پر اتر آئے ہیں…
شیخ الہندؒ کی خوشبو
جیش محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر دنیا میں سب سے پہلے پابندی ’’برطانیہ‘‘ نے لگائی… حضرت مفتی جمیل خان شہید رحمہ اﷲ کو برطانیہ میں… گرفتار کر کے کہا گیا کہ… آپ کا جیش سے تعلق ہے… اور شکوہ کیا گیا کہ… جیش والے ہم سے بہت نفرت رکھتے ہیں… ان کا رہنما ہمیں سخت برا بھلا کہتا ہے… حضرت مفتی شہید رحمہ اﷲ کو بعد میں چھوڑ دیا گیا… انہوں نے واپسی پر بتایا کہ برطانیہ کی ’’جیش‘‘ پر گہری نظر ہے… اور وہ اس کے خلاف سخت محنت کر رہا ہے… پھر برطانیہ نے انڈیا کے ساتھ مل کر بھی جیش کے خلاف طرح طرح کے طوفان اٹھائے… پچھلے سال برطانیہ میں بم دھماکے ہوئے تو ٹونی کی انگلی جیش کی طرف اٹھی… اب اس ڈرامے میں جن بیچارے مسلمان نوجوانوں کو پکڑا گیا ہے … ان کا رشتہ بھی جیش سے جوڑا جا رہا ہے… آخر اس کی کیا وجہ ہے؟… میرے ہمسفر دوست ’’خیال جی‘‘ نے کئی دن تک اس ’’راز‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کی… آج وہ برطانیہ والوں کو پڑھ سمجھ کر واپس آیا تو اس سے پوچھا… بابا! یہ راز سمجھ آیا؟ … خیال جی نے الٹا سوال کر دیا… یہ شیخ الہند رحمہ اﷲ کون تھے؟… اور مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ کس شخصیت کا نام تھا؟… میں ان دونوں بزرگوں کے حسین تذکرے میں کھو گیا… اسیر مالٹا، مجاہدین شاملی کے جانشین… مسند علم کے صدر نشین… جہاد و خلافت کے داعی… دعوت رجوع الی القرآن کے علمبردار… اسلامی سیاست کے امین… انگریز کے سامنے جنہوں نے سر نہیں جھکایا… نو سال جیل کاٹی… ایک بار ارشاد فرمایا مجھے جلا کر میری خاک اڑاؤ تو وہ بھی… اس طرف نہیں جائے گی جہاں انگریز ہو گا… وہ جن کو موت کی سزا انگریز جج نے سنائی … وہ جنہوں نے انگریز کی فوج میں بھرتی کو حرام قرار دیا … وہ عظیم لوگ، وہ وقت کے قطب… میں ان دونوں کے تذکرے میں ڈوبتا چلا گیا… خیال جی نے چٹکی بھر کر مجھے حضرت شیخ الہند رحمہ اﷲ اور حضرت مدنی رحمہ اﷲ کی حسین یادوں سے واپس کھینچا … اور کہنے لگا کہ بس بس… اب بات سمجھ آ گئی… برطانیہ والے کہہ رہے تھے ہمیں ’’جیش‘‘ والوں سے شیخ الہند رحمہ اﷲ اور حضرت مدنی رحمہ اﷲ جیسے اپنے باغیوں کی بو آتی ہے… یہ لوگ ہمیں انہیں کے فکری، علمی اور عملی جانشین معلوم ہوتے ہیں… یہ ویزے کے لئے ہمیں درخواست نہیں دیتے… اور نہ ہمارے گورے رنگ اور ترقی سے متاثر ہوتے ہیں … اور انہوں نے ان مسلمان علماء کو بھی نہیں بھلایا جنہیں ہم نے… تندوروں میں جلا کر مارا تھا… یہ لوگ شیخ الہند رحمہ اﷲ کے دماغ سے سوچتے ہیں… اور ہمیں ان سے شیخ الہند رحمہ اﷲ کے نظریات کی ’’بو‘‘ آتی ہے… میں نے خیال جی کی گردن پر ہاتھ مارا… اور کہا ’’بو‘‘ نہیں خوشبو کہو… ہاں! پیارے شیخ الہند رحمہ اﷲ کی خوشبو… اسیر مالٹا کی خوشبو… سچے اسلام کی خوشبو…
(’’اسیر مالٹا کی خوشبو‘‘/ از: رنگ و نور، ج ۲)
٭…٭…٭