جواہرِ جہاد (قسط۸)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 581)
’’حرمین شریفین ‘‘پر گڑی ناپاک نظریں…
اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ کو غلبہ عطاء فرمائے… ظالم یہودیوں کی نظر (نعوذباﷲ)… مدینہ منورہ پر ہے… یہودیوں کے طیارے بمباری کر رہے ہیں… ان کے ٹینک آگ اُگل رہے ہیں… اور فلسطین و لبنان کے مظلوم مسلمان… بمباری سے گرنے والی عمارتوں کے نیچے بے بسی کے آخری سانس لے رہے ہیں… یہودی، انبیاء علیہم السلام کے قاتل… یہودی سونے کے بچھڑے کے پجاری… یہودی بندروں اور خنزیروں کی اولاد … دنیا کی سب سے بزدل… سب سے ذلیل… سب سے ناکام… اور سب سے گندی قوم… ناپاک، نجس، مرُدار… بدبودار… چوہوں سے زیادہ غلیظ اور کمزور… انسانیت کے نام پر ایک دھبہ… زمین پر بوجھ…
اب یہی یہودی… مدینہ منورہ پر قبضے کی بات کر رہے ہیں… ان کے منہ میں خاک اور آگ کے انگارے… مدینہ منورہ کا پاک نام ان کی ناپاک زبانوں سے سن کر… ہر مسلمان کا خون اس کی رگوں میں ’’جذبۂ جہاد‘‘ بن کر دوڑنے لگتا ہے… اے یہودیو! تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا… مدینہ منورہ نے سوا چودہ سو سال پہلے تمہیں نکال پھینکا تھا… تم مدینہ منورہ کی پاک زمین کے قابل نہیں تھے… تم نے وہاں بھی ’’سود‘‘ اور ’’لسانی عصبیت‘‘ کی لعنتیں عام کر دی تھیں… اور ان دوچیزوں کے ذریعے وہاں کے مقامی لوگوں کو اپنا ذلیل غلام بنا لیا تھا… مگر ’’مدینہ منورہ‘‘ کی قسمت میں ازل سے سعادت لکھی تھی… وہاں ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا ننھیالی قبیلہ آباد تھا… مدینہ منورہ والے میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’پیارے ماموں‘‘ لگتے تھے… پھر وہ خود چل کر مکہ مکرّمہ گئے اور اسلام کے نور سے اپنے دل اور دماغ روشن کر آئے… پھر وہ کہنے لگے کیوں نہ ہم آقا صلی اﷲ علیہ و سلم کو اپنے پاس لے آئیں… وہ جانتے تھے کہ وہ بہت بھاری پتھر اٹھا رہے ہیں… وہ جانتے تھے کہ وہ دنیا بھر کی دشمنی مول لے رہے ہیں …وہ جانتے تھے کہ اب ان پر تلواریں برسیں گی… اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ’’یتیم‘‘ ہو جائیں گے… مگر اے یہودیو! تمہیں یاد ہے … وہ آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کو لے آئے… اور پھر واپس نہیں جانے دیا… وفاداری کا مطلب تم جیسے بے وفا اور خود غرض جانوروں کو کہاں سمجھ آ سکتا ہے؟… تمہیں وہ دن یاد ہے… مدینہ منورہ کی گلیاں خوشی میں ڈوبی ہوئی تھیں… مدینہ منورہ کی پاکیزہ بچیاں ترانے پڑھ رہی تھیں… ایک جوش تھا، ایک سرور تھا اور ایک عجیب نورانی کیفیت… ارے! آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لا رہے تھے… ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم تو کسی کے خواب میں آ جائیں تو اس کی نیند کو خوشبودار بنا دیتے ہیں… وہاں تو آقا صلی اﷲ علیہ وسلم خود تشریف لا رہے تھے… اے مسلمانو! اس عجیب منظر کو یاد کرو اور ہجرت کے معنیٰ سمجھو… اے یہودیو! اس عجیب دن کو یاد کرو اور اس بات سے مایوس ہو جاؤ کہ تم… اپنی مکاریوں اور سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو ختم کر دو گے… نہیں، اﷲ کی قسم نہیں… حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی تمہارے ہاتھوں سے ختم نہیں ہوں گے… تم لاکھ اپنے خزانوں کے منہ کھولو… تم لاکھ فری میسن کے گندے کیڑوں کو پالو… تم لاکھ اپنی شرمگاہوں کے ڈورے مسلمان حکمرانوں پر ڈالو… رب کعبہ کی قسم!… تم اسلام اور مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے… ہاں! بندروں اور سوروں کی اولاد… اچھی طرح یاد رکھو… تم مسلمانوں کے ہاتھوں ختم ہو جاؤ گے… تمہاری نسل مٹ جائے گی… تمہارا نام و نشان ختم ہو جائے گا… اور زمین کا کوئی درخت اور پتھر تمہیں پناہ نہیں دے گا… کروڑوں ڈالر خرچ کر کے اپنا رعب قائم کرنے کی کوشش نہ کرو… تمہارے زرخرید دانشور مسلمانوں کو تم سے ڈراتے ہیں… ارے! آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت چوہوں سے نہیں ڈرا کرتی… تمہاری پر اسرار کہانیاں مشہور ہیں کہ… جو تمہاری خفیہ تنظیم ’’فری میسن‘‘ کے خلاف لکھتا ہے وہ… اچانک مار دیا جاتا ہے… تمہارے جاسوسی اداروں کے کارنامے بھی بڑھا چڑھا کر بیان کیے جاتے ہیں… مگر تم کچھ بھی نہیں ہو… کاش! مسلمان تمہاری حقیقت کو سمجھ لیتے… اور سارے مسلمان مل کر تم پر تھوک دیتے تو تم… ان کی تھوک میں بہہ جاتے…
اگر تم واقعی طاقتور ہوتے تو دنیا کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر… ایک چھوٹی سی ’’کالونی‘‘ میں نہ رہ رہے ہوتے… تمہاری سازشیں کس کام کی؟… دنیا بھر میں تم خوف اور ذلت کی زندگی گزارتے ہو… اور سانس لینے کے بدلے رشوت دے کر جیتے ہو… تم ہرجگہ ’’نفرت‘‘ اور ’’سازش‘‘ کا نشان ہو… تم ہر جگہ دوسروں کے محتاج ہو… اور تمہارا اپنا کوئی وجود نہیں… تمہاری قوت اور طاقت کا سارا راز… مسلمان حکمرانوں کی ’’بے حمیتی‘‘ میں چھپا ہوا ہے… ان ظالموں نے فلسطین کے نہتے مسلمانوں کو تمہارے جبڑوں میں اکیلا چھوڑ دیا ہے… تم نے ’’احمد یٰسین‘‘ جیسے چند شیر مار کر خود کو کچھ سمجھنا شروع کر دیا ہے… حالانکہ چوہے اگر بیماری پھیلا کر شیر کو مار دیں تو چوہے… چوہے ہی رہتے ہیں… شیر نہیں بن جاتے… تم نے مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر قبضہ کیا… اب مسلمانوں کا اجتماعی فرض تھا کہ وہ … مل کر تمہارے خلاف جہاد کرتے… اور تمہیں مقدس سرزمین سے نکال باہر کرتے… مگر مسلمانوں نے غفلت کی، وہ دنیا کی حقیر زندگی کو چمکدار بنانے میں مشغول ہو گئے… ان کی فوجیں کافروں کی نوکر اور غلام بن گئیں… ان کے حکمران غیرت سے بہت دور نیلامی کے کوٹھے پر جا بیٹھے… جہاں انہیں صرف اپنی اور اپنے اقتدار کی فکر ہے… مسلمان نوجوان ناچنے لگا… وہ ’’پب‘‘ اور ’’کلب‘‘ میں جا کر مدینہ منورہ کے نور سے محروم ہونے لگا… اس کو کمپیوٹر نے ’’پیلا‘‘ کر دیا… اس کو ڈش اور کیبل نے ’’نیلا‘‘ کر دیا… وہ عشق، معشوقی کے چکر میں کھو گیا… تب… اے سوروں اور بندروں کی اولاد! تم نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر لیا… اور اب تمہارے طیارے بمباری کر رہے ہیں… مگر مسلمان حکمران خاموش دیواروں کی طرح… اپنے جبوں اور وردیوں میں جکڑے بیٹھے ہیں… مگریاد رکھو! وقت ایک جیسا نہیں رہتا… کسی دن مسلمانوں کے ضمیر پر لگے ہوئے یہ تالے ٹوٹ جائیں گے… ہاں! مسلمانوں کے حکمران… مسلمانوں کے ضمیر پر لگے ہوئے تالے ہیں… یہی لوگ کافروں کے محافظ ہیں… یہی لوگ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے سے روکتے ہیں… یہی لوگ مسلمانوں کو ڈانس اور گانے پر لگا کر بزدل بناتے ہیں… ان لوگوں کے نزدیک امریکہ کی خاطر لڑنا ’’قومی مفاد‘‘ اور مسلمانوں کی خاطر لڑنا ٹھیکیداری اور ملک دشمنی ہے… وہ ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے ہر کسی کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا… ارے! اگر تم نے مسلمانوں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا تو پھر … تمہیں مسلمانوں پر حکمرانی کا حق حاصل نہیں ہے… مسلمان ایک ’’امت‘‘ ہیں… مسلمان ایک ’’جسم‘‘ ہیں… مسلمان ایک ’’خاندان‘‘ ہیں… مسلمان ایک ’’جماعت‘‘ ہیں… جو اسے نہیں مانتا وہ قرآن پاک کو نہیں مانتا… وہ آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کو نہیں مانتا… دنیا کا کوئی بارڈر اور کوئی نقشہ… مسلمانوں کو تقسیم نہیں کر سکتا… اور انسانوں کی بنائی ہوئی لکیریں… اﷲ تعالیٰ کے قوانین کو نہیں توڑ سکتی… قرآن پاک نے تمام مسلمانوں کو بھائی قرار دیا ہے… اِنَّمَا المُؤْمِنُونَ اِخْوَۃٌ… قرآن پاک نے مسلمانوں کو ایک فریق… اور کافروں کو دوسرا فریق قرار دیا ہے… مسلمان کے نزدیک رنگ، نسل، قوم، قبیلہ… اور زبان کی ’’تعارف‘‘ سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں… انگریزوں نے اپنے ظالمانہ دور میں مسلمانوں کو تقسیم کیا… انگریزوں نے مسلمانوں کی ’’خلافت‘‘ کو ختم کیا… تب… افغان مسلمانوں نے امت مسلمہ کی لاج رکھی تھی… اور ۱۹۱۹ء میں ہزاروں انگریز فوجیوں کو کاٹ کر رکھ دیا تھا… ملکہ برطانیہ کا پرچم آدھی دنیا پر لہرا رہا تھا مگر… مسلمانوں کی سرزمین افغانستان اس منحوس، ذلیل… اور ظالمانہ پرچم سے محفوظ رہی… افغان مجاہدین نے پورے انگریزی لشکر کو… جہنم کی راہ دکھائی… اور ایک انگریز سرجن کو اس لیے زندہ چھوڑ دیا تاکہ وہ … برطانیہ جاکر اپنی فوج کی حالت بتا سکے… آج برطانیہ نے اسی شکست کا بدلہ لینے کے لئے پھر افغانستان میں… فوجیں اتار دی ہیں… دنیا میں کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ تمہارا افغانستان میں کیا کام ہے؟… کوئی پاکستانی مجاہد کشمیر میں نظر آجائے تو دنیا ’’کراس بارڈر ٹیرر ازم‘‘ کا شور مچا دیتی ہے… کوئی عرب فدائی افغانستان میں نظر آجائے تو ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کا شور بلند ہو جاتا ہے… حالانکہ ہم مسلمان ہیں… اور ہم قرآن پاک کو اپنا پہلا اور آخری دستور مانتے ہیں… اور قرآن پاک نے ہمیں مسلمانوں کی مدد کا حکم دیا ہے… خواہ وہ کہیں بھی ہوں…
ہاں اے مسلمانو! وہ دن یاد کر نے کے قابل ہے جب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم… مکہ مکرمہ چھوڑ کر ’’مدینہ منورہ‘‘ پہنچے تھے… ہر طرف خوشی تھی اور عجیب جذبات … اس منظر کا تصور تو کرو… اﷲاکبر کبیرا … دل مچلنے لگتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں… مرنے کے بعد حوض کوثر پر… اﷲ کرے ہمارے برے اعمال آڑے نہ آ جائیں… ہمیں کتنی شدت سے اس لمحے کا انتظار ہے… ہماری گناہگار آنکھیں… اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک پاکیزہ جھلک… یا اﷲ! نصیب فرما… یا اﷲ! نصیب فرما… مگر اُس دن مدینہ منورہ والوں کے نصیب پوری طرح سے جاگے ہوئے تھے… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم خود تشریف لا رہے تھے… یاد کیجئے!… دارالندوۃ میں مشرکین کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف مشورہ… پھر (نعوذباﷲ) شہید کرنے پر اتفاق… ایک سو خونخوار مشرک… ایک سو تیز تلواریں… گھر مبارک کا مکمل محاصرہ… آسمان سے جبرئیل امین علیہ السلام کی آمد… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بستر پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ… مشرکین کے سر پر خاک… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے درمیان سے گزر کر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے گھر… صدیق کی بیٹی کا کھانا باندھنا اور لقب پانا… غلام کا دو اونٹنیاں لے آنا… جو پہلے سے ہجرت کے لئے خریدی گئی تھیں… پھر غارثور… مشرکین کا دوبارہ محاصرہ… کبوتری کے انڈے، مکڑی کا جالا… کالے سانپ کا صدیق کے پاؤں پر کاٹنا… آنسوؤں کا آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرے پر گرنا… پیارے، میٹھے اور شفاء بخش لعاب کا کمال… پھر لمبا سفر… کئی سو کلو میٹر… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک زخمی… اﷲاکبر کبیرا… صدیق اکبر کا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کندھے پر اٹھا لینا… ام معبد اور ان کی بکری کے نصیب جاگنا… سراقہ کا دھنسنا… اور قبا والوں کی قسمت پر آسمان کا رشک کرنا… اور پھر مدینہ منورہ… صحابہ کرام اونٹنی کے گرد دیوانوں کی طرح دوڑ رہے ہیں… بچیاں ترانہ پڑھ رہی ہیں… چاند… ہاں چودھویں کا چاند ہم پر طلوع ہو رہا ہے… ’’وداع‘‘ کی گھاٹیوں سے یہ چاند روشن ہو رہا ہے… اﷲ تعالیٰ کا شکر ہم پر واجب ہو چکا ہے… خواتین دروازوں کے پیچھے سے… ایک جھلک کے لئے… جی ہاں! ایک نورانی اور پاکیزہ جھلک کے لئے دعائیں مانگ رہی ہیں… ہر شخص کے سینے میں دل زور، زور سے دھڑک رہا ہے… بس ایک ہی تمنا ہے اور ایک ہی آرزو کہ… آقا صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے گھر کو اپنا گھر بنا لیں… اے مسلمانو! کبھی کبھار اس دن کو یاد کر لیا کرو… ہمت اور معرفت کے نئے دروازے تم پر کھلتے چلے جائیں گے… اور یہودیو! تم بھی اس دن کو یاد رکھو… تمہارے باپ دادے اپنے قلعوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے… ان ہوس پرستوں اور دنیا کے غلاموں نے اس عظیم نعمت کی قدر نہ کی… تب… مدینہ منورہ نے تمہیں باہر پھینک دیا… اب اس بات کو بھول جاؤ کہ تم واپس وہاں آ جاؤ گے… تم ایک نہیں سارے مسلمان حکمرانوں کو خرید لو… تم ’’فری میسن‘‘ کی ممبر عورتوں کو اونچے ایوانوں تک پہنچا دو… تم جو کچھ بھی کر لو… انشاء اﷲ تم کامیاب نہیں ہو سکو گے… تمہاری ساری دولت اپنی جگہ… تمہارا اثر و رسوخ اپنی جگہ… تمہارے خفیہ ادارے اپنی جگہ… تمہارے مسلمان ایجنٹ اپنی جگہ… تمہارے ایٹم بم اور اسلحے اپنی جگہ… ہماری تو بس اتنی دعا ہے کہ… اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے تم تک پہنچنے کے راستے کھول دے… پھر رب کعبہ کی قسم!… تمہیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ تم نے کس ماں کا دودھ پیا ہے…
(کس ماں کا دودھ پیا ہے/ رنگ و نور، ج۲)