جواہرِ جہاد (قسط۳)

جواہرِ جہاد (قسط۳)
از: امیر المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر صاحب دامت برکاتہم العالیہ
(شمارہ 576)
جہاد کے خلاف کافروں کی سازشیں
اللہ تعالیٰ نے آسانی فرمائی اور ہم ’’کابل‘‘ پہنچ گئے۔ طور خم ، جلال آباد، سروبی… اور پل چرخی… ہر جگہ خوب اکرام اور عمدہ مہمان نوازی ہوئی۔ صدر نجیب کا تختہ الٹا جا چکا تھا… صبغت اللہ مجددی صدرِ عارضی تھے… ہم نے ایک ہفتہ ’’کابل‘‘ میں قیام کیا… اس دوران کئی جہادی رہنمائوں سے ملاقات ہوئی… افغان جہاد کے بزرگ، معمّر، صاحب علم رہنما حضرت مولوی محمد نبی محمدی ؒکی زیارت کا اشتیاق تھا… اور یہ خوشخبری بھی سنی جا رہی تھی کہ ان کی جماعت… حرکت انقلاب اسلامی افغانستان… دوبارہ متحد ہو چکی ہے… سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران یہ بہت طاقتور، مقبول… اور مضبوط جماعت تھی… پھر اس جماعت کے ساتھ بھی وہ ’’المیہ‘‘ ہوا جو بڑی جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے… مولانا نصراللہ منصور ؒ نے اپنا دھڑا الگ کر لیا… خود ان کی شخصیت تو بھاری تھی مگر دھڑا ’’بھاری‘‘ نہ ہو سکا… ادھر مولانا ارسلان رحمانی… اور مولوی پیر محمد جیسے مضبوط کمانڈر… استاد سیاف کی ’’اتحاد اسلامی‘‘ میں پھنس گئے… مگر… مولوی محمد نبی محمدی… اور ان کی مبارک جماعت ان تمام ’’صدمات‘‘ کو سینہ تان کر سہہ گئی… چنانچہ… مولوی محمد نبی محمدی اور ان کی جماعت کی اہمیت کسی لمحہ بھی کم نہ ہوئی… اور بالآخر اسی جماعت کے بابرکت نظام سے ’’تحریک طالبان‘‘ نے وجود پکڑا… قابل رشک اورحیرتناک بات یہ ہے کہ… مولوی محمد نبی محمدی ؒ نے اپنی جماعت کے ایک چھوٹے سے کمانڈر… ملا محمد عمر مجاہد… حفظہ اللہ تعالیٰ و رعاہ… کی تحریک کو نہ صرف قبول کر لیا… بلکہ… انہیں اپنا امیر تسلیم کیا اور تا دمِ آخر ان کی حمایت و تائید فرماتے رہے… جو لوگ افغانستان میں مولوی محمد نبی محمدی ؒکے مقام کو جانتے ہیں ان کو ’’علم‘‘ ہے کہ اس دور میں یہ ان کا کتنا بڑا کارنامہ ہے… ورنہ… آج کل تو ہر شخص خود کو ’’امیر جہاد‘‘ کا امیر سمجھتا ہے اور اس سے بیعت علی الجہاد بھی اس لئے کرتا ہے تاکہ اس پر اپنی مرضی مسلط کر سکے… مگر ’’بیعت علی الجہاد‘‘ بھی عجیب چیز ہے، جو اس کو رسوا کرتا ہے… خود بھی… رسوائی سے نہیں بچ سکتا… ہاں! تو بات چل رہی تھی ’’سفر کابل‘‘ کی… چند دوستوں نے کوشش کی اور ملاقات کا وقت طے کر لیا… ہم رات کے وقت ان کی قیام گاہ پر پہنچے… ماشاء اللہ… اجڑے ہوئے کابل میں یہ محفوظ اور شاندار عمارت تھی… بتایا گیا کہ… یہ… افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ کا ہیڈ آفس تھا… کابل پر قبضے کے بعد یہ عمارت ہمارے حصے میں آئی ہے… مولوی محمد نبی محمدی ؒ… بہت مسرور بیٹھے تھے… خوب گفتگو فرمائی… پشتو اور فارسی کے اشعار بھی پڑھتے رہے… گفتگو کے دوران ایک ڈبی میں سے سونگھنے والی نسوار نکال کر… اسے ناک کے نتھنے پر رکھتے اور زور سے سانس اندر کھینچ کر دماغ کو آسودہ کرتے… یقیناً وہ زمانے کے بڑے آدمی تھے… اور اپنے اونچے مقام کے ’’حقدار‘‘ تھے… ہمیں اس ملاقات میں بہت مزا آیا… اور… یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی کہ… ان کے تمام بچھڑے ہوئے ’’ساتھی‘‘ ان کے ارد گرد اس طرح مؤدب بیٹھے تھے جس طرح مدارس کے طلبہ اپنے استاذ کے سامنے بیٹھتے ہیں… مولانا نصراللہ منصور… مولانا ارسلان رحمانی… اور بہت سارے قدآور حضرات… مجال ہے مولوی نبی محمدیؒ کی موجودگی میں کوئی بولا ہو… ہاں!… ان کے اٹھنے کے بعد سب ’’بولنے‘‘ لگے… آج کے کالم میں اس ملاقات کی تفصیل بتانا مقصود نہیں ہے… بلکہ… ایک ’’راز‘‘ کی بات عرض کرنی ہے… مولانا محمد نبی محمدی ؒ سے مجلس کے بعد ہم نے اس عمارت کا چکر لگایا… عمارت کے منتظم صاحب ہمیں ایک ’’خصوصی‘‘ کمرے میں لے گئے… اس کمرے میں ’’خاد‘‘ کا ریکارڈ رکھا ہوا تھا… انہوں نے ہمیں چند موٹی موٹی کاپیاں دے کر فرمایا… ان میں ان لوگوں کے نام ہیں جو مجاہدین… اور عام مسلمانوں میں گھس کر… کمیونسٹوں کیلئے ’’جاسوسی‘‘ کرتے تھے… یا… کمیونسٹوں کیلئے سازگار ماحول بناتے تھے… یا… مجاہدین کو بدنام کرتے تھے… اور اس کام کے عوض انہیں ماہانہ ’’تنخواہ‘‘ دی جاتی تھی… ہم نے کاپیاں کھولیں تو اس میں مختلف افراد کے نام، ان کے پتے… اور ان کی تنخواہوں کی تفصیل ٹائپ شدہ موجود تھی… اکثر لوگ… قبائلی علاقوں کے سردار تھے… جبکہ بعض کے نام کے ساتھ ’’مولوی‘‘ بھی لکھا ہوا تھا… اور ایک پوری ’’کاپی‘‘ پاکستان میں ’’خاد‘‘ کے خدمت گزاروں کے ناموں کی تھی… یہ منظر دیکھ کر… ہمارے کئی ساتھی بہت جذباتی ہوکر… جہاد کے مخالفین کو موٹی موٹی سنانے لگے کہ اب پتہ چلا کہ وہ کہاں سے بولتے تھے وغیرہ…
یہ واقعہ ختم… اب دوسرا واقعہ سنئے… بندہ کو کچھ عرصہ… کشمیر کی ایک ’’جیل‘‘ میں قیام کا شرف حاصل رہا… وہاں موجود مجاہدین نے ایک دوسرے کی ’’اخلاقی تربیت‘‘ کا نظام بنایا… تفصیل تو بہت لمبی ہے اس لئے بس اصل بات پر اکتفا کرتا ہوں… ایک دن… اجلاس میں اکثر ساتھیوں نے یہ ’’بل‘‘ پیش کر دیا کہ اپنے وارڈ میں سگریٹ پر پابندی لگا دی جائے… بل پیش کرنے والوں کے دلائل وزنی تھے… اور تعداد زیادہ… ان کا کہنا تھا کہ سارا دن حفظ، ناظرہ اور درس قرآن کی کلاسیں چلتی ہیں… تسبیحات و ذکر کا اہتمام ہوتا ہے… کئی ساتھی ’’سگریٹ‘‘ سے تائب ہو چکے ہیں… اب… جو دوچار افراد پیتے ہیں ان کی وجہ سے تعلیم میں حرج… اور تائبین کو اشتیاق پیدا ہوتا ہے… وغیرہ… خیر سگریٹ کی بندش کا فیصلہ ہو گیا… ’’دھواں کش‘‘ ساتھی کافی پریشان ہوئے… ان میں سے ایک نے نہایت جذبات سے کہا… او! جو فیصلے کرنے ہوں کرتے رہو، اللہ پاک کسی کی روزی اور نشہ بند نہیں کرتا، (نعوذ باللہ) سب سگریٹی احباب پریشان تھے، مگر وہ بالکل مطمئن تھا… اللہ کا کرنا دیکھئے کہ اگلے ہی دن… جیل حکام نے آ کر بتایا کہ اس کو دوسری جیل شفٹ کرنے کا حکم نامہ آ گیا ہے… میں اس سے ’’الوداعی‘‘ ملاقات کے لئے گیا تو اس نے… شکریہ اور اظہار محبت کے بعد اپنا ’’قول‘‘ یاد دلایا… وہ جس جیل میں جا رہا تھا وہاں ایسی کسی پابندی یا بندش کا امکان نہیں تھا… اب جاتے جاتے میں اسے کیا سمجھاتا کہ… دنیا میں بے شک بہت ساری خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں… مگر… ہمیں… قرآن و سنت میں سکھلا دیا گیا ہے کہ… کیا مانگنا ہے اور کیا نہیں؟… اور کونسی لذت نعمت ہے… اور کونسی زحمت؟… اللہ پاک ہم سب کو معاف فرمائے… یہ واقعہ بھی ختم… اب تیسرا اور آخری واقعہ پڑھ لیجئے… اس واقعہ کے بعد بتاؤں گا کہ یہ تین واقعات کیوں عرض کئے ہیں؟…
آپ نے سنا ہوگا کہ ’’غزوۂ تبوک‘‘ جو ۹ہجری میں پیش آیا تھا… اسلام کا بہت اہم، مگر مشکل ’’غزوہ‘‘ تھا… قرآن پاک میں اس غزوے کے کئی ’’مراحل‘‘ کا تذکرہ ملتا ہے… آپ نے یہ بھی سن رکھا ہو گا کہ قرآن پاک نے اس ’’جنگی مہم‘‘ میں نہ جانے والے افراد کو سخت وعیدیں سنائی ہیں… ان آیات کو پڑھ کر انسان لرز کر رہ جاتا ہے… معلوم نہیں جہاد میں تاویلیں کرنے والے حضرات ان آیات کو کس طرح ’’ہضم‘‘ کرتے ہوں گے… آپ نے یہ بھی سن رکھا ہو گا کہ تین مخلص مسلمان بھی بغیر کسی معقول عذر کے اس ’’غزوہ‘‘ میں نہ جا سکے تھے… انہوں نے… حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر پیش نہیں کیا… بلکہ… انتہائی ندامت، شرمندگی… اور غم کے ساتھ اپنی غلطی کا اقرار کرلیا… اور معافی اور توبہ کی درخواست کی… آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر مؤخر فرما دیا… اور فیصلہ آنے تک مسلمانوں کو ان تین حضرات سے ہر طرح کے تعلق کو قطع کرنے کا حکم فرما دیا… یہاں تک کہ… اہل خانہ کو بھی الگ ہونے کا حکم دیا گیا… حکم پر سوفیصد عمل ہوا… یہ تینوں حضرات… آنسوئوں کی لڑیاں… ندامت کے غم میں پرو رہے تھے… سب کا ’’قطع تعلق‘‘ برداشت تھا مگر جب آقا صلی اﷲ علیہ وسلم بھی چہرہ مبارک پھیر لیتے تو دل پر ایسی بجلیاں گرتیں جن کا تصور بھی محال ہے… ان کا عشق ’’معمولی عشق‘‘ نہیں تھا… زمین جب سے آباد ہے… صحابہ کرام جیسا ’’عشق رسول صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ اس نے نہیں دیکھا… اور دیکھ بھی نہیں سکے گی… کوئی مثال ہو تو دیکھے… ان تین حضرات میں سے ایک حضرت کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ بھی تھے… خوبصورت، جوان، بہادر… اور زبردست خطیب و شاعر… سیرت کی مشہور کتاب… سیرت حلبیہ میں سے… ان کے اس واقعے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے…
’’حضرت کعب رضی اﷲتعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں کی اس جفا اور مجھ سے بے تعلقی کو بہت عرصہ ہو گیا تو ایک روز میں ابوقتادہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر اندر گیا۔ ابو قتادہ میرے چچا زاد بھائی ہیں اور مجھے ان سے بے حد محبت ہے… میں نے اندر پہنچ کر ابو قتادہ کو سلام کیا تو اللہ کی قسم انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا… آخر میں نے ان سے کہا ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم میرے بارے میں جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے کس قدر محبت کرتا ہوں… ابو قتادہ خاموش رہے تو میں نے پھر اپنا سوال دہرایا اور پھر ان کو قسم دے کر پوچھا مگر پھر بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا… تیسری مرتبہ میں نے پھر اپنا سوال دہرایا اور قسم دی تو انہوں نے صرف اتنا کہا… اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں… یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے میں وہاں سے واپس مڑا یہاں تک کہ دیوار پھلانگ کر باہر آگیا… جب میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ملک شام کے نبطیوں میں سے ایک نبطی کو دیکھا جو اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لایا تھا اور اسے یہاں مدینہ میں فروخت کر رہا تھا اچانک میں نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا ’’کوئی شخص مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتاسکتا ہے… یہ سن کر لوگ اس کو میرا پتہ بتانے لگے… یہاں تک کہ جب وہ میرے پاس آیا تو اس نے مجھے غسّان کے بادشاہ کا ایک خط دیا… غسّان کا بادشاہ حارث ابن شمریا جبلہ بن ایہم (عیسائی) تھا… غرض وہ خط ایک ریشمی کپڑے میں لپٹا ہوا تھا… میں نے اسے کھول کر پڑھنا شروع کیا… اس کا مضمون یہ تھا…
’’میں نے سنا ہے کہ تمہارے نبی نے تمہیں چھوڑ دیا ہے… مگر یاد رکھو خدا نے تمہیں ذلیل ہونے یا دوسروں کے واسطے فنا ہونے کے لئے نہیں بنایا ہے… اس لئے تم ہمارے پاس چلے آؤ ہم تمہارے غم خوار و غمگسار ثابت ہونگے۔‘‘
میں نے خط پڑھ کر کہا: یہ ’’دوسری مصیبت‘‘ ہے اس کے بعد سیدھا چولہے کی طرف گیا اور وہ خط اس میں جھونک دیا…
یہ واقعہ بھی ختم… ان تینوں واقعات کا تعلق اس ’’بل‘‘ سے ہے جو امریکی کانگریس میں بحث کے لئے پیش کر دیا گیا ہے… اس بل کا خلاصہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں تعاون کے لئے ’’جاسوس‘‘ بھرتی کرنے کی ضرورت ہے… چنانچہ اکتالیس ارب ڈالر کی رقم منظور کی جائے تاکہ امریکہ کی خاطر… اپنی قوم کے خلاف ’’جاسوسی‘‘ کرنے والے افراد بھرتی کئے جا سکیں… اس بل کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اب تک ’’جاسوسی‘‘ کا زیادہ انحصار ’’آلات‘‘ پر تھا، سیارچے، جہاز… اور دیگر آلات ترصُدّ وغیرہ… مگر… ان تمام آلات سے بھی… مطلوبہ مقاصد… پوری طرح حاصل نہیں ہو رہے… اس لئے ایسے ’’باقاعدہ جاسوسوں‘‘ کی ضرورت ہے جو امریکہ کی خاطر امریکہ کے دشمنوں میں گھس جائیں… پھر وہاں سے خبریں لائیں… اور خاص کارروائیاں کریں… بی بی سی والے بتا رہے تھے کہ… جاسوسوں کی یہ بھرتی… کئی ممالک میں کی جائے گی جن میں سب سے اہم ملک… ’’پاکستان‘‘ ہے…
اب آپ پچھلے تین واقعات کو سمجھ گئے ہوں گے… سوویت یونین نے ہمارے ملک سے ’’جاسوس‘‘ بھرتی کئے… اب… امریکہ آ رہا ہے… اپنے مسلمان بھائیوں کو بیچنے والے ’’مسلمان‘‘ خوش ہوں گے کہ اللہ پاک نے ان کی روزی اور نشے کا پھر بندوبست کر دیا ہے… مگر… کچھ غیرتمند ماؤں کے بچے… حضرت کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ… کی طرح… ان ناپاک ڈالروں کو تنور میں جلا کر اپنی دنیا اور آخرت روشن کریں گے… آج کالم مختصر لکھنے کا ارادہ ہے ورنہ اس ’’بل‘‘ کے تناظر میں کئی باتیں مچل رہی ہیں… بس صرف ان کی طرف ہلکا سا اشارہ…
(۱) یورپ اور امریکہ کے پجاری ہمیں ہر وقت طعنہ دیتے رہتے ہیں کہ وہ ترقی میں کہاں تک پہنچ گئے ہیں؟ اب ہم ان سے کہاں لڑ سکتے ہیں؟ ان کے طیارے ایسے ان کے سیارچے ایسے… وغیرہ وغیرہ… لیجئے اس ’’بل‘‘ نے بتا دیا کہ آپ کے محبوب پھر سیارچوں سے ’’انسانوں‘‘ کی طرف واپس آ رہے ہیں… اور ان کے وہ آلات جن کو دیکھ کر آپ کانپتے ہیں… اب… مجاہدین کے سامنے ناکارہ ثابت ہوکر… خود کانپ رہے ہیں…
(۲) مجاہدین کو شاباش کہ… کمزور، نہتے اور بکھرے ہوئے… ہونے کے باوجود… ماشاء اللہ… ان کی یہ شان ہے کہ… پھر … امریکہ کے خزانے سے اکتالیس ارب ڈالر اور نکلوا لئے…
(۳) مسلمانوں کو تنبیہ کہ… اس عارضی اور فانی دنیا کی خاطر… کافروں کیلئے جاسوسی نہ کریں… ورنہ… انہیں کے ساتھ قیامت کے دن حشر کا خطرہ ہوگا… اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کافروں کے لئے جاسوسی کرنے سے صاف منع فرمایا ہے… اور اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو ہدایت سے محروم ظالم قرار دیتا ہے جو یہود و نصاریٰ سے یاریاں کرتے ہیں… ان شاء اللہ موقع ملا تو دلائل اور حوالہ جات کے ساتھ اس موضوع پر پھر کبھی لکھا جائے گا…
(۴) امریکہ کو مشورہ کہ… کیوں اتنے سارے پیسے ایک فضول کام پر خرچ کر رہے ہو؟… ان پیسوں سے اپنے لوگوں کے لئے ’’شلواریں‘‘ خرید لو… بے چارے نیکر پہن کر پھر رہے ہیں… مسلمان نہ تو ایٹم بم سے ختم ہوں گے… نہ… چند بے غیرت جاسوسوں کی مخبری سے… آپ لوگ اکتالیس ارب ڈالر خرچ کرکے بھی ایسے ’’نظریاتی افراد‘‘ نہیں بنا سکو گے جیسے یہ مجاہدین اکتالیس روپے خرچ کئے بغیر بنالیتے ہیں… پھر یہ بھی خطرہ ہے کہ… بے غیرت لوگ تم سے پیسے بھی کھا جائیں اور تمہارا کام بھی نہ کریں… اس لئے کہ… جو اپنی قوم کے نہیں بنے وہ تمہارے کیا وفادار بنیں گے… اس لئے سعدی کی مانو تو یہ اکتالیس ارب ڈالر بچالو… اس سے برگر کھائو… چاکلیٹ چاٹو… اور افغانستان سے تازہ چرس منگوا کر… اپنے دماغ… اور خیال روشن کرو… !
ان چار باتوں کے بعد… خیال جی سے پوچھا کہ اگر امریکہ نے وسیع پیمانے پر… ہمارے ملکوں میں جاسوس بھرتی کر لئے تو جہاد اور مجاہدین کا کیا بنے گا؟… بہت فکر کی بات ہے… خیال جی نے بے فکری سے کہا مجھے تو مجاہدین کی کوئی فکر نہیں… ان شاء اﷲ ان کا کچھ بھی… نہیں بگڑے گا…
(’’شرما جائیں گے‘‘/ رنگ و نور، ج۱)
٭…٭…٭