بصارت کو بہتر بنانے والی غذائیں
حکیم راحت نسیم سوہدروی
آنکھیں قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔ زندگی کی تمام بہاریں آنکھوں سے ہی ہیں۔ آنکھوں کی قدر و اہمیت کسی نابینا سے پوچھیے۔ ہر آنکھ کے پیچھے پردہ چشم کے مرکز میں خصوصی بافتوں کا ایک گُچھا ہوتا ہے جسے جوفِ چشم کہتے ہیں۔ جب پردہ چشم کا جوف خراب ہونے لگتا ہے تو اس خرابی کی وجہ سے انسان بصارت سے محروم ہو جاتا ہے یا بصارت کم ہو جاتی ہے۔ یہ مرض عموماً 60 سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ دنیا میں 25 ملین سے زیادہ افراد عمر بڑھنے کے باعث آنکھوں کے پٹھوں کی کمزوری اور سفید موتیا جیسے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ امریکن بصارت پیمائی ایسوسی ایشن کے جائزے کے مطابق یہ امراض بصارت کے خاتمے یا کمی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق اس مرض کا سبب ناقص غذا ہے اور صحت بخش غذا میں شامل مقویات جن میں لیوٹین اور زیکس تھن جیسے اہم غذائی اجزاء ہوتے ہیں۔ ان کے باقاعدہ استعمال سے آنکھوں کے ان امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حیاتیں اور معدنیات وغیرہ پردہ چشم کی کمزوری اور موتیا جیسی بیماریوں کا خطرہ کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایسی غذا جن میں حیاتین ج، حیاتین ای، کیروٹین، زنک اور اومیگا 3 فیٹی ایسڈ سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ان سے نہ صرف عمر میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ان امراض کا راستہ روکنے میں مددگار ہے۔ یہ اجزاء سبز پتوں والی ترکاریوں مکئی، آم، آڑو اور بہت سی دوسری سبز سرخ ترکاریوں اور پھلوں میں پائے جاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ جن افراد کی غذائوں میں لیوٹین کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ان میں چشم کے امراض کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والوں کو جوفِ چشم کے مرض کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ تمباکو نوشی کا جسم میں موجود لیوٹین پر زیادہ منفی اثر ہوتا ہے۔ اس طرح لیوٹین حیاتین ج پر بھی مضر اثر ڈالتی ہے۔ ذیل میں ہم ان غذائوں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں ہم اپنی خوراک میں شامل کر کے نہ صرف اپنی بصارت کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ چشم کے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
انڈا ناشتہ میں پروٹین سے بھرپور انڈا ضرور شامل کریں، انڈے میں اہم غذائی اجزاء اور حیاتین پائے جاتے ہیں۔ انڈے کی زردی میں لیوٹین اور زیکس تھن سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حیاتین ای اور اومیگا 3 جیسے اہم اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اگر دیسی انڈا میسر ہو تو ہفتے میں چار روز انڈا کھا لینا چاہئے۔ آج کے دور میں پولٹری فارم کے باعث جو انڈے میسر ہیں ان میں کولیسٹرول کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے پولٹری کے انڈے جن میں کولیسٹرول بڑھا ہوا ہے اعتدال میں استعمال کریں اور لیوٹین کی ضرورت پھلوں اور سبزیوں سے پوری کریں۔
مالٹا یہ رس بھرا پھل حیاتین ج سے بھرپور ہوتا ہے جو آنکھوں کی بافتوں (ٹشوز) کے لیے بہت اہم غذائی جزو ہے۔ حیاتین ج آنکھوں کی بافتوں کو اس نیلی روشنی سے محفوظ رکھتی ہے جو سورج کی روشنی میں پائی جانے والی ضرر رساں تابکاری ہے۔ سفید موتیا بند کے بچائو میں مدد دیتی ہے۔ اینٹی اوکسی ڈینٹ کی تشکیل میں کردار ادا کرتا ہے۔
پالک پالک کا ایک کپ غذائیت سے بھرپور لیوٹین اور زیکس تھن سے بھرپور ہوتا ہے۔ پالک کو صحت مندانہ مقدار میں لینے کے لیے سینڈوچز میں سلاد اور سبزی کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اس میں یہ خصوصیت بھی موجود ہے کہ اگر اسے پکا کر استعمال کیا جائے تو اس میں موجود لیوٹین جسم میں آسانی سے تحلیل ہو جاتی ہے۔
مکئی (بھٹہ) یہ نہ صرف مزے دار ہوتے ہیں بلکہ لیوٹین اور زیکس تھن سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مکئی کو جس قدر پکایا جائے اس میں اسی قدر لیوٹین اور اینٹی اوکسی ڈینٹ کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔ مکئی کو سوپ، انواع و اقسام کے سیرپ اور مختلف کھانوں میں استعمال کیاجاتا ہے۔
گوبھی یہ سبزی حیاتین ج، فائبر (ریشہ) سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس میں بصارت بڑھانے والے جزو لیوٹین اور زیکس تھن پائے جاتے ہیں۔ گوبھی کی شاخ کو آملیٹ، پیزا، توس، میکرونی، سیلڈ وغیرہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کرم کلا یہ بند گوبھی کی ایک قسم ہے جس میں حیاتین اور اینٹی اوکسی ڈینٹ کی اہم مقدار ہوتی ہے۔ اس میں لیوٹین اور زیکس تھن جیسے اہم اجزاء جو بصارت کے لیے مفید ہیں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے ایک کپ سے 23.8 ملی گرام لیوٹین اور زیکس تھن حاصل ہوتے ہیں۔ سلاد اور ترکاری کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے پتوں کو چپس کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کینسر میں بھی مفید ہے۔
اس کے علاوہ میٹھا کدو، لال انگور، ہرے مٹر، کھیرہ، سنگترے کا رس، خربوزہ، آم، سیب، گاجر، شکرقندی، خشک خوبانی اور ٹماٹر میں بھی لیوٹین اور زیکس تھن کی موجودگی بصارت کے لیے ان اشیاء کا استعمال مفید ہے۔
چنبل
جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی
یہ ایک جلدی مرض ہے۔ جس میں جلد پر سوزش ہو کر جلد کی سطح صرف (سیپ) کی اوپر والی سطح کی طرح کھردری ہو جاتی ہے اور کبھی اس پر مچھلی کی طرح جلد کے خشک چھلکے اترتے ہیں۔ آغاز مرض میں چھوٹے چھوٹے سرخ گلابی دانے بنتے ہیں ان پر چھلکوں کی تہہ جم جاتی ہے۔ کھرچنے سے چھلکے دور ہو جاتے ہیں، کچھ وقت کے بعد پھر بڑھنے لگتے ہیں اور پھر یہ سوزش بڑھ کر کافی جگہ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اگر کوئی مناسب تدبیر نہ کی جائے تو متاثرہ مقام کی جگہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ بڑا ضدی مرض ہے اور جلدی سے نہیں جاتا۔ سخت تکلیف دہ ہوتا ہے، اس کا زیادہ زور کہنیوں، بازوئوں، گھٹنوں، ٹانگوں، کھوپڑی اور کمر کے حصوں پر ہوتا ہے۔
زبان طب میں اسے چنبل کا نام دیا گیا ہے جبکہ اردو میں اپرس صدفہ اور انگریزی میں سورائس (Psoriasis) کہتے ہیں۔ اس کے لیے ایک انگریزی اصطلاح ایگزیما (Eezema) بھی مشتمل ہے اور آج کل زیادہ اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ طب مشرقی کے مطابق اس کا شمار سوداوی امراض میں ہوتا ہے اس میں زہریلا بدنی مواد جسم کے کسی حصے پر جلد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بڑا تکلیف دہ مرض ہے جو جلد کی ماہیت پر کچھ اثر انداز ہوتا ہے اور بڑی ناگواری کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ مطب کے تجربات شاھد ہیں کہ یہ بچوں اور بوڑھوں میں کم ہوتا ہے۔ البتہ نوجوانوں مں جن کی عمر ۲۰ سال سے لے کر چالیس سال کی ہو، میں زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگوں کو ٹانگوں اور بازوئوں پر دیکھنے میں آیا ہے۔ کھوپڑی پر گاہے ہوتا ہے مگر اکثر بفہ (ڈینڈروف) سمجھ لیا جاتا ہے اس لیے فرق ضروری ہے۔
اسباب: طب مشرقی کے نزدیک خلط سودا کے سبب ہوتا ہے۔ یعنی جسم بعض سوداوی مادے خارج کرنے میں ناکام رہتا ہے تو مادے اس مرض کا سبب بن جاتے ہیں اور دانوں کی صورت نمودار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نظام ہضم کی خرابی، میلا کچیلا رہنا، قبض، شراب نوشی، اور جذباتی تنائو بھی عوامل ہو سکتے ہیں۔ ذہنی دبائو (ڈیپریشن) سے بھی جلد کی سرگرمی بڑھ کر یہ مرض ہو سکتا ہے۔ گرم ممالک کی نسبت مغرب میں یہ مرض زیادہ ہے۔ ماہرین جدید کی رائے میں اس مرض کا سبب وائرس ہے۔
علاج:ذیل کا نسخہ استاد محترم شہید پاکستان حکیم حافظ محمد سعید کا معمولات مطب رہا اور شفاء کے حصول کے لیے تین ماہ تک مسلسل استعمال سے کافی لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔
رسوت چاکسو نرکچور کتھ سفید
۳ گرام ۳ گرام ۳ گرام ۳ گرام
چاروں اجزا پیس کر آدھے گلاس پانی میں جوش دے کر چھان کر صبح نہار منہ پی لیا جائے۔ سہ پہر کو قرص رسوت اعدد تازہ پانی لے کر کھا لیں اور شربت عشبہ خاص دو چمچے پی لیں۔ ٭ نسخہ نمبر ۲: گل منڈی دس عدد، چرائتہ چھ گرام۔ آدھے گلاس پانی میں جوش دے کر چھانک کر شربت عناب دو چمچے ملا کر صبح نہار منہ پی لیں۔ مغرب میں یہ مرض بہت عام ہے اور وہاں بڑی تحقیق جاری ہے، مگر ہنوز اس کا شافی علاج ان کے پاس نہیں ہے۔
کمردرد
جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی
کمردرد کا عارضہ آج کل عام ہے۔ ہر 10 میں سے 8 افراد بلامتیاز عمر وپیشہ زندگی میں کبھی نہ کبھی اس درد کا شکار ہوتے ہیں۔ کمر درد کے شکار ہی اس تکلیف کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بعض لوگوں میں یہ درد اس قدر شدید ہوتا ہے کہ روزمرہ کے معمولات، اٹھنا باٹھنہ، لباس بدلنا، ڈرائیونگ، چلنا پھرنا اور ازدواجی تعلق ایک بہت مشکل کام بن جاتا ہے۔ دراصل نیچے جھکنے یا دھچکا لگنے سے اور کمرمڑنے سے ریڑھ کی ہڈی پر دبائو پڑتا ہے اور شدید درد شروع ہو جاتا ہے۔ مریض کئی کئی گھنٹے اس حالت میں گزار دیتا ہے اور ہلنا جلنا تک مشکل ہو جاتا ہے۔
کمر کا دردکیوں؟
امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی کے ایک ماہر درد کا کہنا ہے کہ کمر درد کی بڑھتی وجہ طرزِ حیات (لائف سٹال) ہے۔ جو لوگ جس طرح اپنے وزن کو بڑھا رہے ہیں، اس سے کمر درد کا مسئلہ شدید ہوتا جا رہا ہے۔ کمر قدرت کی حیاتیاتی انجینئرنگ کا شاہکار ہے۔ اس ڈھانچے میں کھوپڑی، پسلیاں، پیڑو اور کندھے استوار ہوتے ہیں۔ یہ ان اعصابی پٹھوں کے لیے راستوں کا کام دیتی ہے جو دماغ کو جسم کے باقی حصوں سے جوڑتے ہیں۔ کمر لچک دار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رقاص اپنے فن کے مظاہرے کے دوران اپنی کمر کو دائرے کے دوتہائی حصے تک جھکا لیتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے خرابی ہو جائے تو پوری کمرمتاثر ہوتی ہے۔
کبھی اس کا آغاز نشوونما کے ابتدائی دور میں اس طرح ہو جاتا ہے کہ ایک ٹانگ دوسری سے بڑی یا چھوٹی رہ جاتی ہے۔ جس سے ریڑھ کے عضلات غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگوں میں کمر کے مہروں کے درمیان گریاں (Discs) انحطاط پذیر ہو جاتی ہیں۔
اسباب
غیر متوازن جسمانی انداز کے علاوہ درد کمر کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کا زیریں حصہ اس کا مرکز بنتا ہے۔ وہ لوگ اس کا شکار زیادہ ہوتے ہیں جو بے حرکتی کا شکار رہتے ہیں اور اس طرح اپنا وزن بڑھا لیتے ہیں۔ یا پھر کام کی زیادتی کے بوجھ تلے دبے افراد اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمر کے مہروں کی گریوں کے انحطاط یا شکستہ ہو کر سرک جانے سے ریڑھ کے پٹھوں پر تکلیف دہ دبائو پڑتا ہے۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ چپٹی ہڈی جو مہروں کے اوپر واقع ہوتی ہے اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ اس طرح ریڑھ کے عضلات دب کر متورم ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگوں میں نفسیاتی دبائو کے سبب بھی کمردرد ہوتا ہے۔
علاج
درد کمر کے جس طرح مختلف اسباب ہو سکتے ہیں، اسی طرح اس کے علاج بھی اسباب کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔ سبب کے تعین کے بعد ہی علاج کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ عموماً کمر کے مہروں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اگر گریوں میں شکستگی ہو تو عمل جراحی سے ان کو نکال دیا جاتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ آخری تدبیر کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے خطرات سے بچائو کے لیے بہتر ہے کہ دوائی تدابیر اختیار کی جائیں۔ استاد محترم شہید پاکستان حکیم حافظ محمد سعید کا معمول مطب یہ رہا ہے۔
ہوالشافی
مغزپنبہ دانہ (بنولے کی گری) ۹ گرام، رات کو آدھے گلاس پانی میں بھگو کر صبح نتھار کر پانی میں شہد خالص ایک چمچہ ملا کر پینا مفید ہے۔ پندرہ بیس یوم تک مسلسل اس تدبیر پر عمل کیا جانا چاہیے۔
موسم سرما کے امراض اور احتیاطی تدابیر
جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی
موسم سرما کا آغاز نومبر مںح ہوتا ہے اور فروری تک چلتا ہے۔ ان مہینوں میں عموماً شدت کی سردی پڑتی ہے، اگر سردی سے بچائو کا اہتمام نہ کیا جائے تو سردی مصر ثابت ہو سکتی ہے۔ موسم سرما طب و صحت کے حوالے سے جسم انسانی کے لیے مفید ہے۔ بیمار حضرات کو اس موسم میں علاج کرانا چاہیے، کیونکہ جلد صحت یابی کی توقع ہوتی ہے۔ سردی سے بچائو اور موسم سرما کے امراض سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ درج ذیل تدابیر پر عمل کیا جائے:
غسل
موسم گرما میں دن میں کئی بار نہایا جاتا ہے لیکن سردی کے باعث عوام غسل کے بارے میں محتاط رہتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی صحت موسمی شدتوں کی متحمل نہیں رہ سکتی، وہ ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں نہیں نہاتے، سردی کی شدت اور نمونیہ ہونے کا ڈر بجا مگر زیادہ دیر نہ نہانا بھی مضر صحت ہے۔ مناسب طریقہ تو یہ ہے کہ دن میں ایک غسل آفتابی کریں، اگر وقت نہ ہو یا کوئی امر مانع ہو تو پھر دن میں ایک بار نیم گرم پانی سے غسل کر لیا جائے۔ غسل ایسی جگہ کریں جہاں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نہ ہوں۔ اگر جسمانی طور پر کمزوری ہے یا پھر عمر کے سبب جسم میں طاقت نہیں تو ہفتہ میں کم از کم ایک بار ضرور نہایا جائے۔ غسل سے دوران خون کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ جسم میں فرحت چشتی پیدا ہو کر صلاحیت عمل بڑھ جاتی ہے۔ اگر غسل نہ کیا جائے تو جسم کے اندر گرم غذائوں کی تاثیر اور مسامات کے بند رہنے سے نہ صرف جلدی عوارض سر اٹھائیں گے بلکہ جسم کی طبعی نشوونما بھی متاثر ہوگی۔
لباس
موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی بتدریج گرم کپڑوں کا استعمال شروع کر دیں۔ چھوٹے اور شیرخوار بچے چونکہ جسمانی اور طبعی طور پر سبک اور نازک ہوتے ہیں، اس لیے سرد ہوا کا ایک جھونکا بھی انہیں شدید عارضے میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اس لیے بھی کہ اس موسم میں ہوا سرد اور تیز ہوتی ہے اس لیے ہر شخص اپنی صحت و حالات کے مطابق گرم کپڑوں کا استعمال کرے۔ گردن سینے اور پائوں کو سردی سے بچانے کے لیے خصوصی اہتمام کرے۔ علی الصبح بیدار ہو کر نماز فجر کے بعد کھلے کپڑوں میں ہلکی پھلکی ورزش کو معمول بنایا جائے۔
غذا
موسم سرما چونکہ گرما کے بعد آتا ہے اور گرمیوں میں بھوک کم لگتی ہے جسم سے فضلات بذریعہ پسینہ آسانی سے خارج ہوتے ہیں جس سے حرارت و توانائی برقرار رہتی ہے مگر موسم سرما میں ہوا کے سرد اور تر ہو جانے سے جسم کے مسامات بند ہو جاتے ہیں جس سے پسینہ نہیں آتا تو حرارت و توانائی کا نظام بھی صحیح نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ جسم کی حرارت کو برقرار رکھنے کیلئے زیادہ مقوی غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کھانے پینے کے شوقین حضرات و اہل ذوق مرغن، گرم اشیائ، بہ اعتدال استعمال کرنی چاہیے۔ خشک میوہ جات بادام، مغزیات، چلغوزہ، مونگ پھلی اور کشمش وغیرہ کا استعمال جسم کو حرارت مہیا کرتا ہے۔ چونکہ اس موسم میں اشتہا بڑھ جاتی ہے اس لیے ثقیل اشیاء بھی جلد ہضم ہو جاتی ہیں۔ چونکہ یہ موسم خوش خوراکی و خوش لباسی کے لحاظ سے بہت مناسب ہے اس لیے حتی الوسع بہتر سے بہتر اور ہر قسم کی غذا استعمال کر سکتے ہیں، تاکہ نشوونما کا یہ مہینہ امراض کی آماجگاہ نہ بن جائے۔ ناشتہ میں حسب استطاعت دودھ، انڈہ، دلیہ ڈبل روٹی مفید و مناسب ہے۔ دوپہر شام کھانے میں گوشت، مچھلی، سبزیاں اور پھل وغیرہ استعمال کریں۔ گرم مصالحہ جات بھی اعتدال میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر ممکن و مناسب ہو تو دوپہر کو پھل زیادہ اور کھانا کم کھائیں جبکہ رات کو خوب پیٹ بھر کر کھائیں۔ گاجر جسے اطباء نے سستا سیب قرار دیا ہے اس موسم کی اچھی غذا ہے۔ گاجروں کا حلوہ بھی بنا کر اس موسم میں کھایا جاتا ہے۔ جسم کے درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے مقوی غذائوں کا استعمال ضروری ہے۔
احتیاطی تدابیر:
صبح و شام سردی کے اوقات میں بلاضرورت باہر نہ نکلیں۔ رات چونکہ بہت سرد ہوتی ہے اس لیے کھلے میدان یا بالکل بند کمرے میں نہ سوئیں بلکہ کمرہ میں کھڑکی یا روشن دان ہمیشہ کھلا ہونا چاہیے۔ اپنے پیروں کو ہمیشہ گرم رکھیں۔ کیونکہ پائوں کی طبعی حالت جسم انسانی پر بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر کمزور ہیں اور موسمی شدت کامقابلہ نہیںکرسکتے تو دھوپ میں بیٹھ کر تلوں کے تیل کی مالش کریں۔ اگر صحت مند ہیں تو نماز فجر کے بعد ضروریات سے فارغ ہو کر سیر ضرور کریں۔ اگر یہ نہ کر سکتے ہوں تو صحت کے مطابق کھلی جگہ پر ہلکی ورزش کریں۔
موسم سرما میں جِلد زیادہ متاثر ہوتی ہے خصوصاً جن دنوں برفانی سردی پڑتی ہے کیونکہ دیگر اعضاء کپڑوں، جوتوں اور جرابوں میں لپٹے ہوتے ہیں، چہروں کی جلد خشک اور پھٹ جاتی ہے۔ ان کے لیے گلیسرین لگانا مفید ہے، اگر داغ پڑ جائیں تو نیم گرم پانی سے صابن کے ساتھ دھوئںر۔ بعض لوگوں کی جلد پر خراش ہوتی ہے۔ ان حالات میں گلیسرین اور عرق گلاب ملا کر استعمال کرنا مفید ہے۔
نزلہ، زکام، کھانسی موسم سرما کے خاص امراض ہیں ان کے لیے ذیل کا نسخہ مفید ہے:
گل بنفشہ ۵ گرام، گل گائو زبان ۵ گرام، تخم خطی۵گرام، عناب ۵ گرام، سپستاں ۹ دانہ، اصل السوس نیم کوفتہ ۵ گرام۔ پانی میں جوش دے کر چھان کر ضرورت کے مطابق چینی ملا کر صبح شام پی لیں۔
مغزیات پروٹین کے ماخذ ہیں
جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی
موسم سرما میں ہمارے ہاں مغزیات کا بہت استعمال ہوتا ہے۔ مغزیات قوت بخش غذا کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ مغزیات بیج ہیں جن سے درخت جنم لیتے ہیں۔ مغزیات کا استعمال نامعلوم تاریخ سے ہے بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کے ابتدائی دور میں مغزیات کا استعمال بطور غذا ہوتا تھا پھر ان کا استعمال کم ہونے لگا اب تحقیقات جدید کی روشنی میں پھر مغزیات کا استعمال بڑھنے لگا ہے۔ مغزیات میں اخروٹ، بادام، ناریل، مونگ پھلی، کاجو، پستہ وغیرہ شامل ہیں۔ بعض مغزیات میں قوت بخش اجزاء بہت مقدار میں ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 15 تا 20 فیصد پروٹین 50 تا 60 فیصد روڈن 9 تا 12 فیصد کاربوہائیڈریٹ 3 تا 5 فیصد کیلوریز اور معدنیات کئی ایک فیصد ہوتی ہیں۔ معدنی اجزاء میں پوٹاشیم صحت بخش، سوڈیم جوانی برقرار رکھنے والے کیلشیم اور گندھک کے اجزاء ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سو گرام مغزیات کے استعمال سے چھ سو حرارے (کیلوریز) پیدا ہوتے ہیں۔ اسی مقدار میں گندم استعمال کیا جائے تو تین سو اٹھارہ حرارے پیدا ہوتے ہیں اور سو گرام کھجوروں میں دو سو تراسی حرارے پیدا ہوتے ہیں۔ سبزیوں کے مدمقابل مغزیات میں زیادہ روغن ہوتا ہے۔ ان میں مجموعی وزن کا نصف تیل پیدا ہوتا ہے، روغن پیدا کرنے کی خاصیت کے سبب ہی اس میں توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ جس قدر پروٹین (لحمی اجزائ) مغزیات کے اندر ہوتے ہیں اس قدر سبزی میں نہیں ہوتے، قدرتی طریقہ علاج کے عالمی ماہر ڈاکٹر کیلوگ کا کہنا ہے کہ تمام نباتاتی خوراک میں سب سے عمدہ پروٹین مغز کے اندر ہوتی ہے۔ یہ حیوانات کے گوشت سے بھی زیادہ طاقت بخش ہے۔
شاہ بلوط اور اخروٹ کا دودھ دوسرے تمام دودھوں کے مقابل پانچ گنا طاقت بخش ہے یہ امر ہمیشہ پیش نظر رہے کہ مغزیات کے اندر جو پروٹین ہوتا ہے وہ مزاج کے اعتبار سے سرد ہوتا ہے اور اسے ہضم کرنے کے لئے جسم کے اندر حرارت درکار ہوتی ہے اس لئے ناتواں اشخاص جن کے اندر مغزیات ہضم کرنے کے لئے صلاحیت کم ہوتی ہے وہ اس سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکتے، اس لئے لوگ مغزیات کا استعمال اعتدال سے کریں تو بہتر ہے۔
مغز کو اس کی طبعی حالت میں ہی استعمال کرنا چاہیے، خام مغز کی بھیگی ہوئی چکنائی جسم کے لئے بہت فائدہ مند ہے اس سے دل اور اس کی شریانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، خام مغز اس لئے محفوظ ہے کہ اس کا اندرونی چھلکا سخت ہوتا ہے۔ جو جراثیم کو روکنے کے لئے موثر ہوتا ہے مغز کو اس کی افادیت اور خصوصیات کے ساتھ طویل عرصے تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے، مغز کو آسانی سے ہضم کرنے کے لئے ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے خوب چبا کر استعمال کریں۔ پستہ اور بادام کو استعمال سے چند گھنٹے قبل پانی میں بھگو رکھیں کہ وہ نرم ہو کر جلد ہضم ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ انہیں پیس کر چھڑک کر استعمال کیا جا سکتا ہے اس طرح یہ زود ہضم ہو جائے گا ورنہ بغیر پکائے مغز زیادہ موثر ہوتا ہے۔ مغزیات کو اگر دودھ یا شہد یا دیگر مشروبات کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ بہتر ہضم ہو جاتا ہے اس طرح غذائیت تو حاصل ہو جاتی ہے مگر ریاح پیدا نہیں ہوتے۔
بادام کا دودھ ایک عمدہ غذا ہے اور بہترین مشروب ہے جس کے اندر پروٹین وافر مقدار میں ہوتی ہے اور جلد ہضم ہوتا ہے۔ خون کی کمی آنتوں کے امراض موتی جھڑہ میں اس کے فوائد بہت ہیں جگر میں بھی مفید ہے، مونگ پھلی سے نظام ہضم کی کمزوری اور خرابیاں رفع ہوتی ہیں۔ قبض کشا ہے اور گیس خارج ہوتی ہے ناریل، گیس ناسور، بواسیر اور اعصابی کمزوری میں مفید ہے۔ اخروٹ گنٹھیا میں مفید ہے، پستہ خون کی کمی اور اعصابی خرابیوں کو صحیح کرتا ہے۔ البتہ وہ لوگ جنہیں فشار خون کی شکایت ہو وہ موسم سرما میں مغزیات سے احتیاط کریں یوں بھی ہر چیز کا استعمال حد اعتدال میں مناسب ہوتا ہے اس لئے اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔
موسم سرما میں سردی سے بچائو کے لئے بھی مغزیات کا استعمال مفید ہے، موسم گرما میں مغزیات کا استعمال بہت کم ہوتا ہے البتہ سرد مزاج کے مغزیات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بادام کے مغز کا سفوف بنا کر دودھ پر چھڑک کر ہمیشہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک عمدہ ٹانک ہے بالخصوص ایسے لوگوں کے لئے جو اعصابی کمزوری، خون کی کمی اور یادداشت متاثر ہونا یا حافظہ کی کمزوری کی شکایت کرتے ہیں۔ دماغی کام کرنے والوں اور طلبہ کے لئے یہ ایک نہایت عمدہ غذا و دوا ہے اور قدرت کی اس نعمت سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔
تل … موسم سرما کی سوغات
جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی
تل ہمارے ہاں صدیوں سے استعمال ہوتے ہیں۔ موسم سرما میں تل اور گڑ کے لڈو، ریوڑیاں، گزک کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ ریوڑیاں اور گزک، گڑ اور چینی سے بنتی ہیں جن پر تل چڑھائے جاتے ہیں۔ تل جہاں بطور غذا استعمال ہوتا ہے وہاں بطور دوا بھی استعمال ہوتا ہے۔
تل کے پودے کو انگریزی میں Seasamum Indicum اور زبان طب (فارسی) میں کنجد کہتے ہیں۔ تل سفید اور سیاہ رنگ کے بیج کی صورت میں ہوتے ہیں۔ رنگ کے امتیاز کے باعث تل سفید اور تل سیاہ لکھا جاتا ہے۔ کالے تلوں کے مقابل سفید تل بہتر اور زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کا پودا پایا جاتا ہے۔ امریکہ، چین، اٹلی، جاپان ، ہندوستان اور پاکستان میں یہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ دیسی ادویہ میں تل اور تلوں کا تیل صدیوں سے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تلوں کا تیل غذائوں میں پکوان میں استعمال ہوتا ہے۔ اس تیل کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ عرصہ دراز تک خراب نہیں ہوتا۔ تلوں میں تقریباً پچاس سے ساٹھ فی صد تیل پایا جاتا ہے جو غیر سیر شدہ تیل پر مبنی ہے۔ یہ تیل جلد خراب نہ ہونے کی خصوصیت رکھتا ہے۔ اس میں وٹامن ای (حیاتین)، وٹامن بی)حیاتین ب)، وٹامن بی ۲ (حیاتین ب ۲) کے علاوہ Caroteme موجود ہوتے ہیں، جدید تحقیق کے مطابق تلوں میں:
لحمیات: ۲۲ فی صد
کاربوہائیڈریٹ: ۱۸ فی صد
نشاستہ: ۴ فی صد
دیگر اجزائ: ۸.۴ فی صد ہوتے ہیں۔
تلوں میں پروٹین اور روغن کے علاوہ دیگر اہم معدنی نمکیات بھی ہوتے ہیں جو ۴۸ فی صد کے قریب ہیں۔ ان میں کیلشیم، میگنیشیم، فولاد، ایلومینیم، تانبا، نکل اور سوڈیم شامل ہیں۔ تل میں کیلشیم سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور ایک فاسفورس آمیز چکنائی بھی پائی جاتی ہے جو جسمانی بافتوں اور اعصابی تقویت کے لیے اہم ہے۔ انسانی دماغ اور غدودوں کی صحت کا انحصار اس فاسفورس آمیز چکنائی پر ہے۔ دماغ میں یہ مادہ تمام جانوروں سے زیادہ ہوتا ہے۔ تل میں موجود اس فاسفورس آمیز چکنائی کو لیس تھین کہتے ہیں۔ تل کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں دھاتوں کا تناسب بھی باکمال ہے۔ جس دھات کی جسم کو زیادہ ضرورت ہے وہ زیادہ مقدار میں موجود ہے اور جس کی کم مقدار ضرورت ہے وہ کم ہے۔ تل وٹامن ای کا خزانہ ہیں۔ یہ وٹامن جسم انسانی میں نسل کشی میں مدد دیتی ہے۔ جلد بوڑھا نہیں ہونے دیتی اور اس کی موجودگی سے جلد پر جھریاں نہیں پڑتیں۔ تلوں میں ایسے کیمیائی مرکبات بھی موجود ہیں جو جسم انسانی کی شکست و ریخت کو روکتے ہیں اور جسم کے خستہ خلیوں اور بافتوں کی تعمیر میں عجیب کرشمہ دکھاتے ہیں۔ اس طرح جسم کے اعصاب کو تقویت دیتے ہیں جس سے جسمانی امنگیں اور توانائیاں بدرار ہوتی ہیں۔ قدرت کی یہ چھوٹی سی خوبرو نعمت آج کے خستہ اعصاب اور شکست و ریخت کے عمل کا شکار انسان کے لیے خصوصی تحفہ ہے۔ خصوصاً وہ لوگ جو ذہنی دبائو اور عصبی تنائو کے باعث ڈپریشن کا شکار ہیں انہیں قدرت کی عطا کردہ نعمت سے موسم سرما میں بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ طب مشرقی میں تل اور اس کا تیل صدیوں سے مستعمل ہے۔ موسم سرما میں عموماً بچوں کو بکثرت پیشاب کی شکایت ہو جاتی ہے۔ بعض بچے رات کو بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں ان کو آدھی چمچی روزانہ تلوں کا استعمال اس مرض سے نجات دلاتا ہے۔ اس طرح عمر رسیدہ لوگ بھی شدت سردی کے باعث موسم سرما میں بار بار پیشاب کے عارضہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے تلوں کے لڈو بہت مفید ثابت ہوئے ہیں۔ کیونکہ عمر رسیدہ لوگوں کو ایسا اعصابی کمزوری کے باعث ہو جاتا ہے اور تل اعصاب کو طاقت بخشتے ہیں۔
٭ تل کے شیرے کو پانی میں چھان کر استعمال کرنا معدے کی جلن میں بہت مفید ہے، اس سے معدہ کی ترشی ختم ہوتی ہے۔
٭ ہلکے بھنے ہوئے تلوں کو سبز دھنیے، پودینے، سبز مرچ، لہسن اور بھنے ہوئے سفید زیرے اور نمک کے ساتھ پیس کر لیموں کا رس ملا کر نہایت لذیذ اور تقویت بخش چٹنی تیار ہو جاتی ہے جو باجرہ، مکئی، گندم اور چنے کی روٹی کے ساتھ مزہ دیتی ہے۔
٭ تلوں کا استعمال پھیپھڑوں اور کھانسی کے لیے مفید ہے۔
٭ تلوں کا استعمال جسم کو موٹا کرتا ہے۔
٭ تلوں کا استعمال جلد کی رنگت کو نکھارتا اور خارش کو ختم کرتا ہے۔
٭ جدید تحقیقات کے مطابق تلوں میں حیاتین اور پروٹین موجود ہوتی ہیں۔ یہ دونوں اجزاء جلد ہضم ہونے والے ہیں جن کے کوئی مضر اثرات نہیں، گویا تلوں کو گوشت کے فوائد کا نعم البدل قرار دیا جا سکتا ہے۔
٭ تل کے پودے کے پتے اور پھول بھی مفید ہیں۔ تل کے پتوں کو بالوں کی مضبوطی اور درازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کا طریقہ کار یہ ہے:
٭ تازہ پتے لے کر کوٹ کر رس نکال لیں اور بالوں کی جڑوں میں مل لیا کریں۔ یہ عمل بالوں کی سیاہی کو عرصہ تک قائم رکھتا ہے۔
٭ تل انسان کو جسمانی اور دماغی دونوں اعتبار سے صحت مند رکھتا ہے۔
٭ تل ہر عمر کے فرد کے لیے یکساں مفید ہے۔
٭ تل میں ایسے کیمیائی مرکب بھی ہوتے ہیں جو نکسیر کی روک تھام میں مفید ہیں۔
٭ تلوں سے حاصل کردہ تیل طب مشرقی کی بہت سی ادویہ کا جزو ہے۔ ہمارے ہاں جو تیل مالش کے لیے مستعمل ہیں ان میں تلوں کا تیل جسے میٹھا تیل بھی کہتے ہیں، خصوصی جزو ہے۔
٭ فرانس میں تلوں سے تقویت کا ایک ٹانک تیار کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو دماغی کام کرتے ہیں اور گھمبیر مسائل کے سبب شدید ذہنی دبائو اور عصبی تنائو کا شکار ہیں ان کے لیے تلوں کا استعمال نعمت غیر مترقبہ ہے۔
٭ تلوں کا استعمال ہر عمر کے افراد یکساں کر سکتے ہیں اور ان کے فوائد ہر عمر کے افراد کے لیے یکساں ہیں۔
٭ مغزیات کا استعمال نامعلوم تاریخ سے ہے۔ زندگی کے ابتدائی دور میں بہت استعمال ہوتے تھے، پھر استعمال کم ہونے لگا، اب جدید تحقیقات کے بعد پھر ان کا موسم سرما میں استعمال بطور قوت بخش غذا بڑھ گیا ہے۔
٭ تل زود ہضم ہیں، اس میں لحمیات بہت زیادہ ہوتے ہیں، اتنے کسی سبزی میں نہیں ہوتے۔ نباتاتی علاج کے عالمی ماہر ڈاکٹر کیلوگ کا کہنا ہے کہ تمام نباتاتی غذائوں میں عمدہ پروٹین مغز کے اندر ہوتی ہے یہ حیوانات کے گوشت سے بھی زیادہ توانائی بخش ہے۔
٭ موسم سرما میں مغزیات جن میں تل بھی شامل ہیں کا استعمال ایک ٹانک کا درجہ رکھتا ہے۔ خصوصاً دماغی کام کرنے والے طلبہ اسے ضرور استعمال کریں۔ اس سے حافظہ بہتر ہوتا ہے، خون کی کمی جاتی رہتی ہے اور اعصاب کو تقویت ملتی ہے۔
٭ وہ لوگ جنہیں بلند فشار الدم (ہائی بلڈ پریشر) کا عارضہ ہو، مغزیات کے استعمال سے احتیاط کریں، ویسے بھی ہر شے کے استعمال میں اعتدال ہی کی راہ مناسب ہے اور یہی راہ فطرت ہے۔ عدم توازن ہی امراض پیدا کرتا ہے۔
تل کھانے کا طریقہ:
تلوں کو بھون لیں اور تھوڑی مقدار میں شہد ملالیں۔ روزانہ دو سے تین چمچ کھا سکتے ہیں۔ تلوں کو بھون کر رکھنے سے خراب نہیں ہوتے اور یوں ان کی عمر بڑھ جاتی ہے۔ تلوں کے کھانے کے بعد اگر سرکہ یا انار دانہ لے لیا جائے تو بہتر ہے۔ سرکہ یا انار دانہ معدہ کی کیفیت کو تبدیل نہیں کرتے بلکہ معتدل رکھتے ہیں۔
بعض ماڈرن لوگ تلوں کو قدامت کی نشانی خیال کرتے ہوئے استعمال نہیں کرتے مگر انہیں معلوم نہیں کہ قدرت نے اس نعمت میں کس قدر فوائد رکھے ہیں۔ موسم سرما میں بھرپور استعمال کر کے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
نزلہ وزکام
جناب حکیم راحت نسیم سوہدروی
ایسے امراض جو بار بار ہوتے ہیں جن میں عوام و خواص یکساں طور پر مبتلا ہوتے ہیں ان میں نزلہ و زکام سرفہرست ہے۔ان امراض کے لئے کسی خاص موسم یاعمر کی تخصیص نہیں ہوا کرتی۔نزلہ و زکام میں غَشائے مخاطی یالعاب دارجھلی متورم ہوجاتی ہے جس سے رقیق رطوبت بہنے لگتی ہے۔ اگر ناک کے اندر کے غشائے مخاطی میں سوزش ہو جائے، اس سے رطوبت اور سیال فضلات بہنے لگیں تو زکام کہلاتا ہے۔ اگر غشائے مخاطی کی سوزش کا اثر گلے اور سینے کے اندر کی طرف ہو اوریہ رقیق مادہ گلے اور سینے کی طرف گرنے لگے تو نزلہ کہلاتا ہے۔
نزلہ و زکام عموماً موسم سرما، موسم خزاں یا یوں کہہ لیں کہ تبدیلی موسم کے زمانے میں شدت سے ہوا کرتا ہے تاہم یہ ایک متعدی مرض ہے، اگرچہ گاہے وبائی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اگر کیفیت شدت اختیار کرجائے تو انفلوئینزا بن جاتا ہے۔موسم خزاں میں ہونے والا نزلہ زکام بالعموم سردی کی شدت ،سرد ہوا لگنے،ٹھنڈے پانی میں بھیگنے ،گردو غبار ،کسی گرم جگہ سے یکدم ٹھنڈی جگہ پر جانے، برف ،لسی ،دہی، مرطوب اور ثقیل اشیاء کے استعمال سے ہوجاتاہے۔موسم کی تبدیلی کے ایام میں بدپرہیزی اور لاپرواہی سے یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ جن میں قوت مدافعت کمزور ہو وہ جلد متاثر ہو جاتے ہیں ۔ان حالات میں نظام ہضم کی خرابی ،صفرا کی زیادتی،،ترش اشیائ، سنگترے اور مالٹے کا استعمال بھی اس مرض کا سبب بن جاتے ہیں۔
نزلہ زکام شروع ہونے پر چھینکیں آکر پتلی رقیق رطوبت کا اخراج شروع ہوجاتا ہے۔طبیعت میں سستی اور اعضا بدن میں کسلمندی،پستان میں جکڑن،کنپٹیوں پروزن اور بوجھ جبکہ ناک بند معلوم ہوتی ہے۔
گاہے ناک کے نتھنوں کے کنارے سرخ ہوجاتے ہیں اگر گرمی کے سبب شکایت ہوتو رطوبت رقیق اور نمکین ہوگی اور اگر سردی کے باعث ہوتو رطوب غلیظ ہوگی۔تبدیلی موسم پر سردی یاٹھنڈی ہوا لگنے سے ہوتو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوت مدافعت کے کمزور ہونے سے ایسا ہوا ہے۔بعض لوگوں میں مستقل روگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور آج کل ماحولیاتی آلودگی کے سبب بھی نزلہ زکام رہنے لگا ہے۔نزلہ زکام سے بچائو کے لئے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔موسم بدلنے کے ایام میں خصوصی طور پر احتیاط کرنا چاہیے، ٹھنڈے پانی سے پرہیز کیا جائے۔کٹھی اور مرطوب ثقل اشیاء سے بچا جائے۔موسم سرما کے آغاز پر گرم لباس،گرم بستر اور نیم گرم پانی کا استعمال کیا جائے۔موسم سرما میں مفلر،ٹوپی وغیرہ سے سر ڈھانپنا ضروری ہے۔
طب مشرقی کے اصول علاج کے مطابق نزلہ زکام کو روکنے کی بجائے نکلنے دیا جانا چاہیے تاکہ اس کے مادے جمع نہ ہوں کیونکہ اس طرح اور دیگر پیچید گیاں پیداہوجاتی ہیں۔نزلہ زکام کی رطوبت اور فضلات کا اخراج ہی صحیح طریق ہے اور دوائی تدبیر کے طور پر ذیل کا نسخہ مفید ہے:
پوست خشخاش بنفشہ دار چینی
چھ گرام پانچ گرام ایک گرام
ایک کپ میں جوش دے کر، چھان کرقدرے چینی ملا کرصبح و شام نوش جاں کریں۔
بعض لوگوں میں یہ بگڑ کر دائمی زکام کی شکل اختیار کرلیتا ہے یا ماحولیاتی اور فضائی آلودگی کے سبب ناک کے اندرونی غشائے مخاطی (جھلی) متورم ہو کر اکثر پانی کی طرح بہتا ہے اور چھینکیں آتی ہیں یاکسی سبب الرجی کے باعث ایسا ہوتا ہے۔ایسے لوگ ذیل کی تدبیر کریں:
برگ بنفشہ تخم میتھی دار چینی
چھ گرام چھ گرام تین گرام
آدھے گلاس پانی مین جوش دے کر، چھان کر رات سونے سے قبل دس یوم تک پی لیں۔استاد محترم شہید پاکستان حافظ حکیم محمد سعید اس نسخے کو استعمال کراتے رہے جس کے اکثر مفید نتائج سامنے آئے اور میرے بھی معمولات مطب میں شامل ہے۔