سود سے نجات
’’زیورخ کی ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس جنت نما شہر کی وجہ شہرت سودی بینکاری نظام ہے۔ ہمارے دانشوروں کی منطق کی رو سے تو اب تک اس شہر کا دیوالیہ نکل جانا چاہیے تھا، مگر یہ شہر دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ ایک معروف کالم نگار کے ہیں جو اپنی زیورخ یاترا کے بعد علم کی ایک نئی دنیا سے آگاہ ہو کر آئے ہیں۔ اگر لفظ سودی استعمال نہ ہوتا تو پھر بھی میرے لیے گنجائش تھی کہ میں حسنِ ظن سے کام لیتا کہ شاید موصوف کو بینکاری کے خون چوسنے والے نظام سے عشق ہے، لیکن سود کا دفاع اور اس قدر واضح اور کھل کر اس اُمت کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ایسی موجود ہو۔
موصوف کی یہ سطور پڑھ رہا تھا تو مجھے سود کی حمایت کرنے والوں کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ نے جو کیفیات بتائی ہیں یاد آ رہی تھیں۔ اللہ فرماتا ہے: ’’مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بائولا (پاگل) کر دیا ہو اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود جیسی چیز ہے۔‘‘ کس قدر سچا ہے میرا ربّ جو ایسے دانشوروں کی ذہنی کیفیت اور دلوں میں چھپے اسلام کے نظام کے ساتھ بغض و عناد کو جانتا ہے۔ کتنی صادق آتی ہے یہ آیت ان سطور پر جو موصوف نے اپنے کالم میں تحریر کی ہیں۔
چلیں چھوڑیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو کہ ان میں حکمت وہ لوگ تلاش کرتے ہیں جن کی آنکھیں مغرب کی روشنی سے چندھیا نہ گئی ہوں۔ ان کے آئیڈیل اور قابلِ تعریف سوئٹزرلینڈ اور زیورچ کے سودی بینکاری نظام کی اصل بنیاد کیا ہے۔
وہ کون سی لوٹ مار ہے جس پر اس کی عمارت تعمیر ہے اور آج بھی اس نے دنیا بھر کے مظلوم مقہور اور مجبور انسانوں کی دولت کو لوٹنے والوںکو اپنا محسن قرار دیا ہے۔ اس لوٹی ہوئی دولت سے لٹیروں اور ڈاکوئوں کا ایک شہر آباد کیا ہے۔ ایک ایسا شہر جو دنیا بھر کے ظالموں، چوروں، اچکوں، اٹھائی گیروں اور کرپٹ انسانوں کی دولت پر پلتا ہے۔ اس شہر کے لوگ ان بینکوں میں ان لٹیروں کی دولت کا حساب رکھتے ہیں اور تحفظ کرتے ہیں۔ بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں، عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ زیورچ اور سوئس بینکوں کی یہ روایت 300 سال پرانی ہے۔ فرانس کے بادشاہوں کو اپنے عوام سے لوٹی ہوئی دولت کو چھپانے کی ضرورت تھی، اس لیے 1713ء میں The Great Council of Geneva نے رازداری کا قانون Code of Seerecy متعارف کرایا جس کے تحت بینکار کھاتے کی رقم صرف کھاتے دار کو بتاتا ہے، کسی دوسرے کو اس کی اطلاع نہیں دیتا۔
اس کے بعد انقلاب فرانس آیا تو وہ سب سیاستدان، وڈیرے، نواب جنہوں نے عوام کا سرمایہ لوٹا تھا، بھاگ کر یہاں آ گئے۔ اس لوٹی ہوئی دولت سے ان بینکوں کے کاروبار کا آغاز ہوا۔ یہ لوگ اس قدر ظالم ہیں کہ جس وقت 1930ء کا عالمی معاشی بحران آیا، دنیا کی حکومتیں اپنے لوٹے ہوئے پیسے کے بارے میں معلومات چاہتی تھیں تاکہ جوپیسہ عوام سے لوٹا گیا ہے، ان کو واپس لوٹایا جا سکے تو سوئٹرزلینڈ نے 1934 Banking Actمنظور کیا۔ دنیا کے غریبوں کو ان چوروں، لٹیروں اور ڈاکوئوں کے نام اور ان کا سرمایہ بتانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جب جنگ عظیم دوم کا آغاز ہوا تو اس وقت تک سوئٹرزلینڈ ایسے تمام لوگوں کے لیے ایک محفوظ جنت سمجھی جانے لگی تھی جو اپنے ملکوں کا سرمایہ لوٹ کر وہاں لے جائیں۔ اسے اس زمانے میں Repository of capital for unstable countries (غیرمستحکم ملکوں کے سرمایے کی جنت )کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یہودیوں پر ظلم و ستم کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہولوکاسٹ تھا ان کا قتل عام ہو رہا تھا۔ یہودیوں نے اپنی حکومتوں کے خوف سے اپنا سرمایہ اور سونا ان سوئس بینکوں میں جمع کروانا شروع کیا۔
سونا ان رقوم میں صرف 4 ارب ڈالر کا تھا۔ ان ظالم بینکاروں نے مرنے والے یا قید ہونے والے یہودیوں کے کاغذات کو آہستہ آہستہ جلانا شروع کردیا۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ وہ واحد ملک تھا جس نے نازی ظلم سے بھاگنے والے یہودیوں پر اپنی سرحدیں بند کردیں۔ جرمن یہودیوں کے پاسپورٹوں پر J کا لفظ لکھتے تھے۔ اس پاسپورٹ کو دیکھ کر سوئٹزرلینڈ کی سرحد سے انہیں واپس دھکیل دیا جاتا تھاتاکہ یہ دولت واپس نہ مانگ لیں۔ جرمن آرکائیوز کے مطابق 1944ء میں جرمن وزیر داخلہ ’’ہیزرچ ہملر‘‘ نے سونے اور زیورات سے لدی ہوئی ایک ٹرین سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کو بھجوائی تاکہ ناگہانی کیفیت میں جنگ میں اسلحہ کی خریداری کے لیے کام آ سکے۔ جنگ ختم ہوئی اور 1946ء میں پیرس معاہدہ Paris Agreement وجود میں آیا جس کی وجہ سے اس سونے پر ان بینکوں اور عالمی اتحادی طاقتوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ ان بینکوں کو ملا۔ یہودی اپنی طاقت اور بالادستی کے باوجود ان سود خور بینکوں سے اپنی دولت نہ لے سکے۔ بددیانتی کے اس کاروبار نے سوئٹزرلینڈ اور موصوف کالم نگار کی جنت زیورچ کو سرمایہ فراہم کیا۔ آج بھی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں 80 فیصد رقوم تین ذرایع سے آتی ہیں۔ -1 دوسرے ملک سے ٹیکس چوری کا پیسہ جن میں یورپ اور امریکا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ -2 غیرترقی یافتہ ممالک کے آمروں اور حکمرانوں کا کرپشن اور لوٹ مار کا سرمایہ اور -3 دنیا کے بڑے بڑے مافیاز کے جرائم سے حاصل کردہ سرمایہ۔ یہ ہیں وہ تین بنیادی ذرایع جو اس جنت نظیر علاقے کی آمدن اور ترقی کی بنیاد ہیں۔ یہ ہے سوئٹزرلینڈ کا بزنس ماڈل۔ چند سال پہلے تک ٹیکس چوری سوئٹزرلینڈ میں جرم نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جب جرمن محکمہ Deutsche post کے سربراہ Klaus Zumwinkle کے بارے میں جرمن حکام نے کرپشن کی تحقیقات کا آغاز کیا تو سوئٹزرلینڈ نے کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کر دیا۔ ان بینکوں کا سوئٹزرلینڈ کی سیاست پر اس قدر اثر ہے کہ اس ملک کے سیاست دان بینکاری کے غلیظ دھندے کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ رہنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ یورپی یونین کا حصہ بننے سے انکار کرتے رہے۔ دنیا کا ہر چور بددیانت قاتل ڈاکو ظالم حکمران اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے ان بینکوں کو پناہ گاہ سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ فرانس کے سوشلسٹ وزیر خزانہ Jerome cahuzac کا بھی یہاں ایک خفیہ اکائونٹ ہے۔ فلپائن کا مارکوس، چلی کا آلندے، ایران کا رضا شاہ، پاکستان کا زرداری اور افریقہ کے آمروں کی لوٹی ہوئی رقوم ان بینکوں کے کاروبار کو مستحکم کرتی ہیں۔ اس سارے سرمائے کا بدترین اور انسانیت دُشمن استعمال یہ ہے کہ یہ سب کے سب بینک اس وقت دناپ بھر میں خوراک کی تجارت اور ذخیرہ اندوزی پر سرمایہ لگاتے ہیں۔ ملکوں سے خوراک خریدتے ہیں اور پھر ان کا ذخیرہ کر کے مہنگے داموں پر لوگوں کو بیچتے ہیں جس کے نتیجے میں اس وقت دنیا میں ایک ارب مرد، عورتیں اور بچے قحط اور بھوک کا شکار ہیں۔ یہ قاتل اور انسانیت دُشمن بینک اپنے سرمائے سے کھاتے داروں کو سود ادا کرتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے عوام کو شاندار سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ پورا معاشرہ ڈاکوئوں، چوروں، آمروں، ڈکٹیٹروں اور انسانیت دشمن افراد کا ملازم ہے۔ ان کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور کیوں نہ ہو ڈاکوئوں چوروں اور پیشہ ور قاتلوں کے کارندے سرمائے میں نہاتے ہیں۔
یہ ہے وہ جنت جس کی تعریف مذکورہ کالم نگار نے کی ہے، لیکن میرے اللہ نے ایسے افراد کی کیفیت کے بارے میں کیا خوب ارشاد فرمایا تھا جو ان شہروں میں چند دن گزار کر متاثر ہو جاتے ہیں۔ اللہ سورئہ آل عمران کی آیت نمبر 197 میں ارشاد فرماتا: ’’یہ تو تھوڑا سا مزہ ہے (جو یہ اُڑا رہے ہیں) پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بدترین بچھونا ہے۔‘‘ کون ہے جو شہروں کی چہل پہل سے متاثر ہو کر بدترین جائے قرار کو منتخب کرلے۔