جو جنگ آپ نے نہیں دیکھی
تجزیہ نگاروں، دانشوروں، سیاست دانوں… کسی کی بھی گفتگو، تحریر یا تقریر ملاحظہ کریں جو ان دنوں فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و تشدد اور بربریت کے جواب میں کی یا لکھی گئی ہو تو اس میں آپ کو ایک نکتہ مشترک ملے گا۔ ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ چوراہوں، سڑکوں، پریس کلبوں اور عالمی دفاتر کے سامنے پلے کارڈ اٹھائے نعرے لگاتے اور موم بتیاں جلاتے لوگ نظر آئیں گے۔ یہ سب اس بات پر کس قدر مطمئن ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ ہم نے اپنا حصہ ڈال دیا۔ اب ہم دن بھر شاپنگ کریں، عیش و عشرت میں گم رہیں اور پھر رات کو مزے کی نیند سو جائیں، ہم مطمئن ہیں۔
یہ عالمی ضمیر ہے کیا چیز؟ کیا گزشتہ 15 سالوں میں ہر بڑے، چھوٹے، بوڑھے، جوان نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا؟ نائن الیون کے بعد اسی عالمی ضمیر نے نیویارک میں اکٹھے ہو کر 40 سے زیادہ ممالک کو یہ اختیار دیا تھا کہ ایک ایسے ملک پر ٹوٹ پڑیں جو وسائل کے اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اس کے پاس نہ رَسد و رسائل کے ذرائع تھے اور نہ ٹیکنالوجی، لیکن اس کے باوجود بھی پہاڑوں، جنگلوں اور بیابانوںمیں آباد ان چرواہوں اور کسانوں کو انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن قرار دیا گیا۔
دنیا کے یہ 48 غنڈے اس ملک پر چڑھ دوڑے۔ اس عالمی ضمیر کا نمایندہ پاکستانی وفد جب ملا محمد عمر کے پاس گیا تو اس نے اور بہت سی باتوں
کے علاوہ ایک بات ایسی کی جو اب سچ ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ اس نے کہا تھا: ’’دیکھو! یہ باری کی بات ہے۔ ہماری باری پہلے آ گئی ہے، کل تمہاری بھی آ جائے گی۔ ہمیں خاک ہونے کا ڈر نہیں کہ ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں، مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ ہم نے مٹی میں چلے جانا ہے۔ ان لوگوں کا کیا ہو گا جنہوں نے آسمان سے چھوتی عمارتیں تعمیر کرلی ہیں۔ آسائش کی زندگی اور تعیش کا سامان جمع کر لیا ہے۔ اللہ کا واسطہ باریاں مت لگاؤ۔‘‘
لیکن ہم سب نے اسی عالمی ضمیر کا ساتھ دیا۔ وہ سب جو آج غزہ کے ظلم پر چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ کوئی پڑوسی ان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ انہوں نے اس عالمی ضمیر کا ساتھ دینے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے دی۔ میرے ملک سے امریکی طیارے 57 ہزار دفعہ اُڑے۔ انہوں نے اسی طرح افغان مسلمانوں کے جسموں کے پرخچے اُڑائے جس طرح آج غزہ میں اسرائیل کررہا ہے۔ عالمی ضمیر مطمئن ہوگیا۔ دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ افغانستان ’’فتح‘‘ کرلیا گیا۔ کیا اس کے بعد کسی اور کی باری نہیں آئی؟ شاید ہم بھول گئے۔ اس کے بعد عراق تھا۔ اس کے لیے تو کسی نے نیویارک میں موجود عالمی ضمیر کی علامت اقوام متحدہ سے اجازت لینے کی ضرورت تک محسوس نہ کی۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنی فوجی قوت اور میڈیا کے پروپیگنڈے کے زور پر عراق میں داخل ہوئے۔ کون سا پڑوسی تھا جس نے اس ظلم پر احتجاج کیا؟ سب نے اس عالمی ضمیر کے سامنے سر جھکائے رکھے۔ سب کئی سال عراق کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتے رہے۔
معاملہ یہاں تک رہتا تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ ان کا ضمیر اس عالمی ضمیر نے خرید لیا ہے، لیکن پھر ان دونوں ملکوں میں جب ان عالمی غنڈوں نے اپنی مرضی کے آئین تحریر کیے، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے اور اپنی کاسہ لیس حکومتیں قائم کیں تو ان تمام ممالک نے ان دونوں حکومتوں کو نہ صرف جائز تسلیم کیا، بلکہ ان کے ہر ظلم پر بدترین خاموشی اختیار کی۔ یہ حکومتیں شہروں کے شہر اُجاڑتی رہیں۔ لوگوں کو دہشت گرد، القاعدہ اور باغی کہہ کر قتل کرتی رہیں۔ ان کے حکمرانوں کا تمام پڑوسی ملک اپنے ایوانوں میں استقبال کرتے رہے۔ وہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین تھے، وہ محفوظ جگہوں میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرتے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے۔ اس سب کو میڈیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی قرار دیا۔ جان پلیجر کی وہ مشہور ڈاکومنٹری ’’War You have not Seen‘‘ (جنگ جو آپ نے دیکھی نہیں) ایسے تمام چہروں کو بے نقاب کرتی ہے جو اس عالمی ضمیر اور عالمی پروپیگنڈے کے سامنے سربسجود تھے۔
مسلمانوں نے اپنے گزشتہ 10 سالوں میں اس عالیی ضمیر کو ایک نکتہ سمجھا دیا کہ ہم بے حس ہیں، بے ضمیر ہیں اور تم جس کو بھی دہشت گرد اور انسانیت کے لیے خطرہ تصور کر کے ان کے گھر بار، خاندان اور آبادی سب کو تباہ کر دو، ہم خاموش رہیں گے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو آج اسرائیل اور اس کے اتحادی بول رہے ہیں، لیکن کمال کی بات یہ ہے ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں، پلے کارڈ اُٹھاتے ہیں، یوم القدس مناتے ہیں۔ کس قدر بھولے ہیں کہ یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔ کیا 57 اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے کہ جو اسلامی ممالک کو دعوت دے کہ آؤ! اپنے فیصلے طاغوت سے نہیں خود کریں۔