کچھ بھی ہو سکتا ہے

کچھ بھی ہو سکتا ہے
ہم ایک بار پھر 77ء میں داخل ہوچکے ہیں… گویا ہمار اسیاسی سفر ایک بار پھر77 سے شروع ہونے والا ہے… اور ہر گز یہ با ت نہیں کہ ایسا محترم عمران خان اور علامہ طاہر القادری صاحب کی وجہ سے ہو رہا ہے… جی نہیں…! علامہ صاحب تو پہلے بھی کینیڈا سے آئے تھے اورواپس چلے گئے تھے… اس بار پھر وہ اس لیے آئے تھے کہ چلو ذرا پاکستان کا ایک چکر اور سہی… کچھ نہ کچھ تو مل ہی جائے گا… اور نہیں تو کینیڈا واپس لوٹتے وقت بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی… لیکن ان کی آمد سے پہلے ماڈل ٹائون کا واقعہ پیش آگیا… ویسے پیش آگای سے زیادہ مناسب یہ کہنا ہے کہ ڈرامہ سٹیج کر دیا گیا… اس ڈرامے نے ان کی واپسی کھٹائی میں ڈال دی… اب جب تک یہ کھٹائی ختم نہیں ہو جاتی، وہ کیوں لگے جانے… رہے خان صاحب ! ماڈل ٹائون والے واقعے سے انہوں نے بھی رنگ پکڑ لیا… ورنہ زرداری دور بھی انہوں نے بغیر رنگ پکڑے گزار لیا تھا… توپھر میاں صاحب کی باری میں ایسا کیا ہو گیا کہ دونوں بس تل گئے ہیں اور میں نہ مانوں پر آکر اٹک گئے ہیں… اس میں نہ مانوں میں ان دونوں حضرات کا ایک فیصد بھی قصور نہیں…
سوا سال تک میاں صاحب نے جو بویا… یہ تو اس کی فصل تیار ہو ئی ہے… اب فصل کاٹنے میں ہچکچاہٹ کیسی… ملک بھر کے اخبارات نے چیخ چیخ کر اور چلّا چلّا کر میاں صاحب کی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش کی… ’’میاں صاحب…جن لوگوںکے ووٹوں سے آپ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے ہیں، ا ن کے بھی کچھ حق ہیں… اور کچھ نہیں تو ان بے چاروں کو لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے ہی نجات دلا دیں، یہ آپ کو دعائیں دیں گے

… آپ کا دم بھرتے نہیں تھکیں گے… انہیں اپنے آپ سے اتنا دور نہ کریں کہ یہ پھر آپ کے نزدیک آنے کے بارے میں سوچ بی نہ سکیں اور ظاہر ہے جب یہ سوچ بھی نہیں سکیں گے تو قریب آنے کا تو سوال ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘
اور سوال ختم ہو گیا۔ لوگوںنے جان لیا… جس طرح سواسال گزر اہے… باقی پونے چار سال بھی اسی طرح گزریں گے،بلکہ بعید نہیں، اس سے بھی بدتر گزریں… عوام بے چارے پہلے ہی برسوں سے بد سے بدتر سال گزارتے رہے ہیں… اب اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ واپسی ممکن نہیں رہی… حالات میں ا س قدر تیزی آچکی ہے کہ پورا ملک اس تیزی کی لپیٹ میں ہے… اور ہر طرح کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں… لگتاہے پورے پاکستان کے لوگ سیاسی کشتی میں سوار ہیں اور اس کشتی کا ملاح کوئی نہیں… موجیں کشتی کو اٹھا اٹھا کر پٹخ رہی ہیں اور کشتی کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے… لیکن پاکستان کے عوام کے لیے مشکل ایک اور ہے… یہ بے چارے سیاسی کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے ہیں… چکر لگا کر پھر وہیں آجاتے ہیں جہاں سے چلے تھے… دور دورتک کوئی منزل تو نظر آتی نہیں… آپ خود غور کرلیں… آج جو حالات ہیں، ان کے بارے میں تو ماہر ترین تجزیہ نگار بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہوگا… یہ کالم یوں بھی غالباً 15 اگست کو شائع ہوگا جب کہ 14 اگست کی بازگشت پورے ملک میں گونج رہی ہے… ہر شخص یہ کہتا سنائی دیتا ہے…

٭ کاش! حکومت نے سوا سال میں لوگوں کے دل جیتنے کی تھوڑی بہت ہی کوشش کی ہوتی تو آج اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا… ٭

’’نہ جانے 14 اگست کو کیا ہوگا۔‘‘
’’ کہیں مارشل لا نہ لگ جائے گا۔‘‘
77ء مںک بھی بالکل ایسے حالا ت تھے… دوبارہ انتخابا ت کا مطالبہ زورپکڑ تا جا رہا تھا اور بھٹو صاحب انتخابات کرانے پر تیار نہیں تھے… نتیجہ یہ کہ بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلی اور آخر کار ملک میں مارشل لا لگ گیا… اس بار پھر اگر یہی ہوتاہے تو گویا ہم پھر 77 میں داخل ہو جائیں گے او ر وہیں سے اپنا سفر شروع کریں گے… تو کیا اس سے یہ بہتر نہیں سب کا منہ ایک ہی بار بند کر دیا جائے… اعلان کر دیا جائے… ٹھیک ہے… ہم پورے ملک میں دوبارہ عام انتخابات کر انے پر تیار ہیں… اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی… لیکن لگتا ہے… حکمران اس بات پر نہیں آئیں گے… اس صورت میں کچھ بھی ہو سکتاہے… اور یہ کچھ بھی چاہے، کچھ بھی ہو،ملک کے لیے بہتر نہیں ہوگا… ملک عالمی انتشار کی گود میں چلا جائے گا… لہٰذا اس کا بھی جائزہ کیوں نہ لے لیا جائے…
نئے سرے سے انتخابات اگر صرف فوج کی نگرا نی میں کرالیے جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا… اس طرح دھاندلی کے بغیر منتخب ہونے والے لو گ حکومت میں آئیں گے… حق دار کو حق مل جائے گا… یعنی حکومت کا حق… اب چاہے، وہی لوگ آئیں یا آس پا س کے لوگ آئیں یا بالکل دوسری یا تیسری طرف کے… ان کی حکومت کو تسلیم کرلیا جائے اور انہیں پانچ سال تک سکون سے حکومت کرنے دی جائے… کوئی حکومت کی ٹانگیں نہ کھینچے… جو ٹانگیں کھینچے، ان کی ٹانگیں کھینچ کر سلاخوں کے پیچھے بھجوا دیے جائیں… تاکہ حکومت اور عوام کو سکھ کا سانس تو نصیب ہو…
حکومت نے اگر ایسا نہ کیا تو کیا کچھ ہونے کے امکانات ہیں… اس صورت میں مارشل لا لگنے کے امکانات ہیں اور مارشل لا ہمارے ملک کے لیے مشکل ہی مفید بیٹھ سکتا ہے… مارشل لا نہیں لگتا تو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کی گرفتار یاں ہوں گی… ان گرفتاریوں کا سلسلہ طویل پکڑے گا… احتجاج کرنے والے کم نہیں اور زیادہ ہوں گے… ان کے احتجاج میں اور نئے نئے احتجاج شامل ہوتے جائیں گے اور اس طرح احتجاجوں کی کھچڑی پکنے لگے گی… اس طرح سے حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی مشکل ہو جائے گی… اور ایسا کیوں ہو گا… جواب وہی ہے… عوام میں حکومت کی جڑیں ہیں ہی نہیں… سواسال سے یہ ان جڑوں کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے… عوام میں جڑیں مضبوط ہوتیں تو ایک بار کیا… حکومت کہتی… دس بار الیکشن کرالو… جی ہاں اور الیکشنوں کا مطالبہ کرنے والے الیکشن کرانے کے نزدیک بیک نہ آئے… بلکہ دور دور سے الیکشنوں کو سلام کرتے نظر آئے… لہٰذا موجوہ حکومت کے لیے لے دے کے ایک ہی راستہ ہے… درمیانی مدت الیکشن… اس کے علاوہ کوئی چارہ
نہیں… اس کے علاوہ حکومت کا اٹھایا گیا ہر قدم… اس کے خلاف جائے گا… اس کے حق میں نہیں… کاش! حکومت نے سوا سال میں لوگوں کے دل جیتنے کی تھوڑی بہت ہی کوشش کی ہوتی تو آج اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا… اورحالات کہہ رہے ہیں… نئے حکمران بھی یہی کریں گے… عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کریں گے… وہ بھی صرف اپنے اقتدار کے لیے کریں گے جو کچھ بھی کریں گے… اور یہ چیز انہیں شاید سوا ل سال بھی پورا نہ کرنے دے… تب پھر کیا ہو گا… یہ ایک خوفناک سوال ہے… اس سوال کا جواب آج تلاش کرلیا جائے تو ملک بچ سکتا ہے… ورنہ نہیں… کچھ بھی ہو سکتا ہے اشتیاق احمد