رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 486)
اللہ تعالیٰ نے ہر عاقل،بالغ مسلمان مرد … اور مسلمان عورت پر ’’نماز ‘‘ کو فرض فرمایا ہے…
وَاَقِیْمُو الصَّلوٰۃ
حضور اَقدس ﷺ نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا اور نماز چھوڑنے کو کفر قرار دیا…
فرمایا:
فمن ترکھا فقد کفر
جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوا
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن و سنت کی روشنی میں واضح اعلان فرمایا:
لا حظ فی الاسلام لمن ترک الصلوٰۃ
جو نماز چھوڑے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں…
آپ بتائیں! جو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہو…جو حضور اقدس ﷺ کو مانتا ہو…کیا وہ جان بوجھ کر ایک نماز بھی چھوڑ سکتا ہے؟…نماز اسلام کا سب سے بڑا اور لازمی فریضہ…ایک تابعی فرماتے ہیں …حضرات صحابہ کرام کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے مگر نمازکے چھوڑنے کو کفر قرار دیتے تھے…
آہ امت مسلمہ! آج اکثر مسلمان نماز کے تارک ہو گئے…سچی بات ہے دل خون کے آنسو روتا ہے…قرآن مجید نے کافروں کی صفت بیان کی :
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُونْ
جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو وہ رکوع نہیںکرتے…
کیا روز مسجد سے نہیں بلایا جاتا…حیّ علی الصلوٰۃ،حیّ علی الصلوٰۃ
آؤ نماز ادا کرو…آؤ اپنے رب کے لئے رکوع،سجدے کرو…یہ آواز سن کر جو ٹس سے مس نہیں ہوتے…وہ آخر کس عقیدے پر ہیں؟کس دین پر ہیں؟ …تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ … جو شخص نماز کی فرضیت کا منکر ہو وہ بالکل پکا کافر ہے …اور جو شخص نماز کو حقیرسمجھے یا معمولی چیز سمجھے اور چھوڑ دے وہ بھی کافر ہے…
صرف اس شخص کے بارے میں حضرات ائمہ کرام کا اختلاف ہے…جو نماز کو فرض سمجھتا ہو مگر اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے ادا نہ کرتا ہو… احناف کے نزدیک وہ فاسق ہے، اسے کوڑے مارے جائیں اور توبہ کرنے تک قید رکھا جائے … شوافع اور مالکیہ کے نزدیک وہ فاسق ہے اسے قتل کر دیا جائے…کیونکہ نماز کاچھوڑنا بڑا جرم ہے … اور اس کی سزا موت ہے…حنابلہ کے نزدیک وہ کافر،مرتد ہے…اسے مرتد ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا جائے…اللہ کے بندو! یہ سب کچھ نہ سختی ہے اور نہ شدت…یہ سب شفقت ہی شفقت ہے …بے نمازی کی موت بڑی دردناک ہوتی ہے …یا اللہ! امان، یا اللہ! امان…بے نمازی کے جسم کا ہر بال اور ہر خلیہ ناپاک اور نجس ہو جاتا ہے …یا اللہ! امان…یا اللہ! امان…بے نمازی کی قبر آگ کا تندور اور عذاب کی بھٹی ہوتی ہے … یااللہ! امان، یا اللہ! امان… اور بے نمازی کے لئے آخرت میں آگ ہی آگ ہے…اور عذاب ہی عذاب…
اب ایک مسلمان کو ان تمام دردناک سزاؤں اور بُرے انجام سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ …اسے نماز پر لایا جائے…آخر کلمہ پڑھنے کا کچھ تو مطلب ہو…جو اللہ تعالیٰ کی پہلی بات ہی نہ مانے اس نے اللہ تعالیٰ کو کہاں مانا؟…جو رسول کریم ﷺ کے سب سے تاکیدی حکم کو نہ مانے … اُس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی آخر کیا حیثیت ہے؟…دل میں جن کا احترام ہو اُن کے حکم کا بھی اِحترام ہوتا ہے…اور یہاں نماز کے بارے میں ایک حکم نہیں…بلکہ بار بار تاکید ہے…بہت سخت تاکید ہے…حتی کے بستر وفات پربھی یہی فکر اور کڑھن ہے کہ…مسلمانو! نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو…مسلمانو! نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو…سچی بات یہ ہے کہ جو لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر نماز ادا نہیںکرتے…وہ رسول کریم ﷺ کو تکلیف پہنچاتے ہیں…کوئی والد اپنے بیٹے کو آٹھ، دس بار کوئی کام بتائے…بیٹا اپنی جگہ سے ہلے بھی نہ تو والد کے دل پر کیا گذرے گی ؟ …حضرت آقا مدنی ﷺ کا حق والد سے بہت زیادہ ہے بہت زیادہ…آپ ﷺ نے اپنے ہر امتی کو بار بار نماز کی طرف بلایا…سینکڑوں ہزاروں بار بلایا…فضائل سنا کر بلایا…وعیدیں سنا کر بلایا …اور نماز کو دین کے لئے ستون اور سر کی طرح قرار دیا… مگر کوئی شخص یہ سب کچھ سن کر بھی نہ اُٹھے تو …اس نے کتنا بڑا ظلم کیا…شیطان نے لوگوں کو بازار کی طرف بلایا…بازار کھچا کھچ بھر گئے …شیطان نے لوگوں کو سینما اور کلبوں کی طرف بلایا …کھیل اور بے حیائی کے مقابلوں کی طرف بلایا تو وہاں جگہ ملنا مشکل ہوگئی…حضرت آقا مدنی ﷺ نے مسلمان کو مسجد کی طرف بلایا تو…مسجدیں خالی خالی نظر آئیں…کیا یہ تکلیف پہنچانا نہیں؟ … ہائے کاش کوئی مسلمانوں کو سمجھائے…ایک وقت تھا کہ …ملکِ مغرب کے علماء کا ایک اِجلاس ہوا …مسائل پر گفتگو تھی…ایک عالم نے تجویز دی کہ…تارکِ صلوٰۃ یعنی نماز چھوڑنے والے مسلمان کے بارے گفتگو ہو جائے…آیا وہ مسلمان ہے یا کافر؟…اُس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی یا نہیں؟اس سے کسی مسلمان عورت کا نکاح جائز ہے یا نہیں؟اس کا ذبیحہ حلال ہے یا نہیں؟ … چونکہ ائمہ کرام کا اختلاف ہے اس لئے علماء کی یہ مجلس اپنے ملک کے لئے…کسی ایک فتویٰ پر اتفاق کر لے…یہ تجویز سن کر باقی علماء نے فرمایا…ملک میں یہ طبقہ موجود ہی نہیں…نماز چھوڑنے والے کسی مسلمان کا یہاں تصور ہی نہیں…تو ایک فرضی مسئلہ پر ہم اپنا وقت کیوں لگائیں…یہی وقت کسی اور مسئلہ پر گفتگو کر لیتے ہیں جس کا ہمارے ہاں وجود ہو…سبحان اللہ! پورے ملک میں ایک بھی نماز چھوڑنے والا نہیں تھا…کہتے ہیں کہ یہ ساتویں صدی ہجری کا قصہ ہے…اور آج…ہر طرف بے نمازی ہی بے نمازی…حکمران بے نمازی، عوام بے نمازی…اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا فریضہ چھوڑنے پر نہ کوئی شرم، نہ کوئی ندامت…نہ کوئی خوف، نہ کوئی دکھ…حالانکہ نماز چھوڑنا … چوری،شراب نوشی اور زنا سے بڑا گناہ ہے…مگر اب ہماری اشرافیہ میں اسے گناہ نہیں سمجھا جاتا… حالانکہ قرآن مجید نہایت صراحت کے ساتھ سمجھاتا ہے کہ نماز چھوڑنا کافروں کا کام…مشرکوں کا طریقہ ہے اور منافقوں کی عادت ہے…ایک آیت نہیں…سینکڑوں آیات میں نماز کا حکم موجود ہے…اور نہایت تاکید کے ساتھ موجود ہے… آہ! مسلمانوں کی حالت دیکھ کر دل روتا ہے کہ … نماز تک سے محروم ہو گئے…نماز ہی تو کلمہ طیبہ کے سچا ہونے کی پہلی دلیل ہے…اب معلوم نہیں کہ دل میں کلمہ بھی باقی ہے یا وہ بھی رخصت ہو چکا … وہ مسلمان جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز ادا کرتے ہیں وہ اس نعمت پر بہت شکر ادا کریں…آج جب مسجد جائیں اور نماز ادا کر لیں تو …دل کی گہرائی سے آنسو بہا بہا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ… یا اللہ! اتنی عظیم نعمت عطا فرما دی…جس کے والدین نمازی ہوں وہ اس پر شکر ادا کرے…جس کی بیوی نمازی ہو وہ اس پر شکر ادا کرے…جس کی اولاد نمازی ہو وہ اس پر شکر ادا کرے…ہر نماز کے بعد والہانہ شکر اور جو نمازیں رہ گئیں ان کی قضائ…اور اگلی نمازوں کے لئے دعاء کہ یا اللہ! جتنی رہ گئی ہیں …وہ سب آسان فرما ،قبول فرما…مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نصیب فرما…قیامت کے دن پہلا سوال نماز کا ہو گا…نماز ٹھیک نکلی تو باقی پرچہ آسان ہو جائے گا…اور اگر نماز ہی میں فیل ہو گئے تو پھر آگے سوائے ناکامی کے اورکوئی بات نہ ہو گی … ارے بنیادی سوال ہی حل نہ کیا تو کوئی لاکھ خوشخطی دکھا دے کوئی نمبر ملنے والے نہیں…نماز کی محنت کا آغاز اپنی ذات سے کریں…نماز سمجھیں،نماز سیکھیں،نماز درست کریں…اور نماز سے سچا عشق کریں …خواتین خاص طور پر فکر کریں…اور ہر نماز اول وقت میں ادا کریں…بنات کے جامعات بن گئے مگر نماز کا معاملہ کمزور پڑ گیا…فجر میں سستی عام ہو گئی…اے مسلمان بہن! کیا نماز کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے؟…کیا نماز کے بغیر بھی کوئی کامیابی ہے؟…اپنی ذات پر محنت کے بعد پھر اپنے گھر پر محنت کریں…جو کچھ بھی کرنا پڑے کر لیں کہ گھر میں کوئی بے نمازی نہ رہے… کسی کے پاؤں پکڑنے پڑیں تو پکڑ لیں…کسی کے سامنے رونا پڑے تو دریا بہا دیں…کسی کے بیٹے کو پھانسی کی سزا ہو جائے…وہ اس سزا کو ختم کرانے کی کتنی کوشش کرتا ہے؟…حالانکہ پھانسی دو منٹ کی تکلیف ہے…جبکہ بے نمازی کے لئے … بہت بڑی آگ ہے،بہت طویل عذاب اور بہت سخت لعنت…جو اپنی اولاد کو اس آگ، اس عذاب اور اس لعنت سے نہ بچا سکا…اس نے اولاد کے ساتھ کیا خیر خواہی کی؟…اپنے گھر کے بعد پھر عام مسلمانوں میں نماز کی دعوت ہے … بہت درد بھری، بہت جاندار، اوربہت تڑپتی ہوئی دعوت…یہ دعوت چل پڑی تو سب سے پہلا فائدہ خود دعوت دینے والے کو پہنچے گا…حضرات مجاہدین…نماز کا بہت خیال رکھیں…جاندار نماز کے بغیر جہاد میں جان نہیں پڑتی…اپنے مراکز میںنماز کا بہت اہتمام کرائیں…اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان دنوں سات مساجد کی مہم چل رہی ہے …اسی مہم کی روشنی میں اقامت صلوۃ کی محنت بھی کر لیں…کیا معلوم آپ کی دعوت…آپ کے نامہ اعمال میں کسی مسلمان کے ہزاروں سجدے ڈال دے…اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت پیارا نصاب عطاء فرمایا ہے…
کلمہ طیبہ، اقامت صلوٰۃ…اور جہاد فی سبیل اللہ…یا اللہ! آپ کا شکر ہے…بے حد شکر… الحمد للہ، الحمد للہ، الحمد للہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
انمول موقع
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 485)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مساجد آباد کرنے والا بنائے…سبحان اللہ…کتنا پیارا…اور میٹھا لفظ ہے…
مسجد،مسجد، مسجد…محبوب رب سے سجدے میں مناجات کی جگہ،ملاقات کی جگہ… واہ مسجد …پیاری مسجد…میٹھی مسجد…دنیا کے ہر غم،ہر فکر اور ہر گناہ سے آزادی کی جگہ
مسجد،مسجد،مسجد…
سب سے اُونچی جگہ
چاند پر جانا ترقی نہیں…مریخ پر پہنچ جانا ترقی نہیں… مچھر مکھیاں اُڑتی رہتی ہیں…اِنسان بھی اُڑتے پھرتے رہتے ہیں…ہاں! ایک مسلمان کا مسجد کو پا لینا واقعی ترقی ہے…بڑی ترقی…
کوئی میری اس بات پر ہنستا ہے ، تو ہنستا رہے …ترقی کہتے ہیں بلندی کو …اللہ تعالیٰ کے گھر سے بلند جگہ اور کون سی ہو سکتی ہے؟ …مسجد کا براہ راست تعلق ’’ جنت‘‘ سے ہے…
قیامت کے دن ساری زمین،چاند،ستارے تباہ ہو جائیں گے …مگر مسجد کی زمین کو جنت لے جا کر جنت کا حصہ بنا دیا جائے گا…مسجد کی زمین قیامت کے دن اُن اِیمان والوں کے لئے گواہی دے گی…جنہوں نے اس مسجد کو آباد کیا…وہاں رکوع اور سجدے کئے…اندازہ لگائیں مسجد کتنی طاقتور ہے اور مسجد کی سلطنت کتنی وسیع ہے…دنیا سے لے کر آخرت تک…زمین سے لے کر آسمان تک…اور آسمان سے لے کرجنت تک…ہائے دل چاہتا ہے کہ دنیا بھر میں مسجدیں بناتے چلیں جائیں…ان مسجدوں میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی اذانیں گونجیں…حضورِ اَقدس ﷺ نے مسجد میں اَذان بلند کرنے والوں کو تین بار دعا دی:
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِینْ
یا اللہ! اَذان دینے والوں کی مغفرت فرما دیجئے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا…یا رسول اللہ! آپ نے اذان کی ایسی فضیلتیں بیان فرمائیں کہ…آپ کے بعد مسلمان اذان کی خاطر ایک دوسرے پر تلواریں برسائیں گے…یعنی ہر شخص یہ چاہے گا کہ میں اذان دوں…ظاہر بات ہے کہ سب تو اذان نہیں دے سکیں گے…مگر دینا ہر کوئی چاہے گا تو آپس میں لڑائی ہو گی اور اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر تلواریں نکالی جائیں گی…حضورِ اَقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کَلَّا یَا عُمَرْ
اے عمر ! ایسا نہیں ہو گا
انہ سیأتی علی الناس زمان یترکون الاذان علی ضعفائھم
لوگ تو ایسے ہو جائیں گے کہ اذان کا کام اپنے کمزور لوگوں پر چھوڑ دیں گے…اللہ، اللہ، اللہ…آج مؤذن کا لفظ کتنا ہلکا ہو گیا…استغفرا للہ، استغفر اللہ… کمزور بوڑھے…اور وہ جن کو بے کار سمجھا جاتا ہے، اذان کا کام اُن کے سپرد کر دیا جاتا ہے…چلیں،ان کمزورں کے مزے ہو گئے کیونکہ حضورِ اَقدس ﷺ نے فرمایا:
وتلک لحوم حرمھا اللّٰہ عزوجل علی النار
یہ وہ گوشت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم پر حرام فرما دیا ہے
لحوم المؤذنین
اذان دینے والوں کے جسم کا گوشت…جہنم کے لئے حرام…جہنم کی آگ اس کو چھو بھی نہیں سکتی…یہ فضیلت نہ کسی سائنسدان کے لئے ،نہ ڈاکٹر، انجینئر کے لئے…اور نہ چاند پر چڑھنے والوں کے لئے…یہ فضیلت مسجدوں کو اَذان سے آباد کرنے والوں کے لئے ہے…اندازہ لگائیں کتنی بڑی ترقی ہے،کتنی بڑی…ایک مسلمان کو جہنم سے نجات مل جائے…اس سے بڑی ترقی اور کیا ہو سکتی ہے؟…اے دین کے دیوانو! مسجدیں بناؤ، مسجدیں آباد کرو…مسلمانوں کو مسجدوں سے جوڑو…اور جہاد کو مسجدوں سے قوت دو…
خوشی کا دن
الحمد للہ! دو دن بعد…ایک اور خوشی کا دن آ رہا ہے…۱۴ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۶ھ بمطابق ۵ مارچ بروز جمعرات …سات نئی مساجد کی تعمیر کا آغاز
الحمد للہ رب العٰلمین، الحمد للہ رب العٰلمین
دل کی تڑپ ہے کہ جماعت کم از کم تین سو تیرہ مساجد بنائے اور آباد کرے…دل کا درد ہے کہ جہاد اور مسجد آپس میں اسی طرح جڑ کر چلیں…جس طرح مسجد نبوی اور غزوۂ بدر کا جوڑ تھا…مساجد،دین اِسلام کا شعار اور علامت ہیں … مساجد ایک مسلمان کے ایمان کا ٹیسٹ ہیں…ہر شخص اپنے دل کو دیکھے اگر دل مسجد کی طرف لپکتا ہے…وہاں جا کر سکون پاتا ہے…تو سمجھ لیں کہ دل زندہ ہے اور اس میں اِیمان موجود ہے…لیکن اگر دل مسجد سے بھاگتا ہے…مسجد کو بوجھ سمجھتا ہے…اور مسجد میں جا کر بے چین ہوتا ہے تو سمجھ لیں کہ دل موت کے جھٹکوں پر ہے…اور کسی بھی وقت اِیمان سے خالی ہو سکتا ہے…آج کل جس طرح جسم اور خون کے میڈیکل ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں…ایک مسلمان کو چاہیے کہ…اپنے ایمان کی اپنے جسم سے زیادہ فکر رکھے…جسم نے تو ویسے گل سڑ جانا ہے … جبکہ ایمان کے بغیر کوئی گذارہ نہیں…
الحمد للہ! ملک کے مختلف شہروں میں مزید سات مساجد تعمیر کرنے کی ترتیب بن چکی ہے … جس دن ہم ان مساجد کے لئے اپنی جیب سے کچھ مال نکالیں گے…وہ کتنا خوشی کا دن ہو گا…ہاں واقعی عید جیسی خوشی کہ…اللہ تعالیٰ اپنے گھر کے لئے ہمارے مال کو قبول فرما لے…بندہ نے الحمد للہ ارادہ باندھ لیا ہے…اور ان شاء اللہ جمعرات کو مہم شروع ہوتے ہی اپنا ’’عطیہ‘‘ جمع کرانے کی سعادت حاصل کرے گا…آپ بھی نیت پکی کر لیں…اگر دو چار دن گوشت اور مرغی نہ کھائی تو کیا نقصان ہو گا؟…ویسے بھی آج کل ہر شہر میں حرام گوشت فروخت ہو رہا ہے…اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں مُردار اور نجس گوشت کھلایا جا رہا ہے … مسلمان جب تک کھانے پینے کے شوقین نہیں تھے تو کوئی انہیں حرام میں نہیں ڈال سکتا تھا…مگر جب سے چٹخارہ بازی مسلمانوں پر مسلط ہوئی ہے تو کوئی ان کو…خنزیر کے اَجزاء کھلا رہا ہے، تو کوئی ان کو کتے اور گدھے کا گوشت…کھانا پینا ایک ضرورت ہے مگر جب عادت یہ بن جائے کہ سامنے سادہ کھانا رکھا ہو تو …ہاتھ روک کر بیٹھے رہیں گے کہ کہیں اس پاک کھانے سے ہمارا پیٹ نہ بھر جائے…ہم نے تو ضرور کسی ہوٹل جا کر کسی نئی ڈش سے پیٹ بھرنا ہے تو پھر…مسلمانوں کے دشمن اِن کو حرام تک کھلا دیتے ہیں…آپ صرف زندگی کا ایک ہفتہ اس طرح گذاریں کہ کھانے کو صرف اپنی ضرورت سمجھیں…خواہش نہیں…دال ساگ جو ملے اس سے ضرورت پوری کر لیں…اور سنت کے مطابق پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں، تو آپ اپنی زندگی کو آزاد اورپُر سکون محسوس کریں گے…بڑی بڑی بیکریاں، بڑے بڑے ہوٹل اور طرح طرح کے مشروبات…آپ خود کو ان سے آزاد پائیں گے…کھانے کا کوئی اِشتہار…بوفے کا کوئی بورڈ اور ذائقے کا کوئی پوسٹر آپ پر اَثر انداز نہ ہو گا…اور آپ کو سادہ کھانے میں وہ مزہ آئے گا جو پانچ ستارہ ہوٹلوں کے کھانوں میں بھی نہیں ہوتا … مساجد کی تعمیر و آبادی کے لئے جو مال ہم لگائیں گے…وہ خوشبودار اَمانت بن کر ہمارے لئے محفوظ ہو جائے گا…جمعرات کے دن ہم مسلمانوں کے سامنے اللہ کے لئے جھولی بھی پھیلائیں گے … اپنی ذات کے لئے نہیں…اللہ تعالیٰ کے گھر اور دین کے لئے…تو یہ بھی خوشی اور سعادت کا موقع ہو گا…اسی مہم کے دوران ہم چندے کے ساتھ ساتھ…مسلمانوں کو مسجد حاضری کی دعوت بھی دیں گے…یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کے گھر کی طرف بلائیں گے…یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہو گی…اور ہم اس مہم کے دوران…اپنے محبوب رب کے گھروں یعنی مساجد کے فضائل بھی سنائیں گے…سبحان اللہ! محبوب کے گھر کے قصیدے…اور محبوب کے گھر کی دیواروں کے والہانہ بوسے…یہ بھی بڑی خوشی اور مسرت کا موقع ہو گا ان شاء اللہ…
آج منگل کا دن ہے…پرسوں جمعرات ہے…یہ رحمتوں اور خوشیوں بھری مہم آ رہی ہے …خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے سجدے اور اپنے مال سے اس مہم کا آغاز کرنا ہے…ان شاء اللہ…مکمل تیاری باندھ لیں…
اَنمول موقع
اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو اکیلے…پوری مسجد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بنا لیتے ہیں…اُن پر ہمیں رشک آتا ہے…کبھی دل سے دعا بھی نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی توفیق عطاء فرمائے …ایک سچے مومن کا عشق یا تو محاذ کے ساتھ ہوتا ہے یا مسجد کے ساتھ…ہاں ایک بات ضرور پوری زندگی مدنظر رہے…بعض لوگ اللہ تعالیٰ سے مال مانگتے ہیں…یا اللہ! مال دے ہم جہاد پر لگائیں گے،مساجد بنائیں گے…کھانے کھلائیں گے …ان کی دعا قبول ہو جاتی ہے…اور مال مل جاتا ہے اب وہ اپنے تمام عزائم اور ارادے بھول کر … اس مال کے مرید بن جاتے ہیں…اسی کی خدمت میں زندگی برباد کرتے ہیں…اسے جمع کرنے، بڑھانے،سنبھالنے اور محفوظ رکھنے کی فکر میں دن رات کاٹتے ہیں…ایسا مال دراصل وبال ہوتا ہے …بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے…اور قرآن مجید میں منافق کا حال مذکور ہے کہ…وہ اسی طرح مال مانگتا ہے کہ…یا اللہ! مال دے تاکہ تیری راہ میں لگاؤں …جب مال مل جاتا ہے تو وہ بگڑ جاتا ہے…اس لئے جب بھی دین کی خاطر مال مانگیں تو ساتھ توفیق بھی مانگیں…یا اللہ! دین پر خرچ کرنے کے لئے مال عطاء فرما اور ساتھ اس مال کو دین پر خرچ کرنے کی ہمت ،صلاحیت اور توفیق بھی عطاء فرما…یا اللہ! ایک مسجد بنانے کی خواہش ہے …خالص آپ کی رضا کے لئے پوری مسجد…یا اللہ! مال عطاء فرما…اس مال سے مسجد بنانے کی توفیق عطاء فرما…اور اسے قبول فرما…اس طرح دعاء ہو تو پھر ان شاء اللہ وبال اور عذاب سے حفاظت رہتی ہے…جماعت کی طرف سے جب اس طرح کی کسی مہم کا اعلان ہوتا ہے تو…یہ ہمارے لئے بہترین موقع ہوتا ہے کہ… ہم اپنی آخرت بنا لیں…اہل علم نے لکھا ہے کہ…اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں…توبہ کے فضائل بے شمار ہیں…مگر توبہ کس کی قبول ہوتی ہے؟…
لکھا ہے کہ …توبہ قبول ہونے کی بڑی علامات تین ہیں:
(۱) دل اچھی صحبت کی طرف مائل ہو جائے …اور برے لوگوں کی صحبت سے دور بھاگنے لگے
(۲) نیک اَعمال کی توفیق ملنے لگے…
(۳) دنیا کی محبت کم ہو جائے یا ختم ہو جائے
اسی طرح اَحادیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ…گناہوں کے فوراً بعد کوئی نیکی کر لی جائے تو وہ نیکی ان گناہوں کو مٹا دیتی ہے…
ہم سب الحمد للہ توبہ،استغفار کرتے رہتے ہیں …اور اس طرح کی مہم ہمارے لئے انمول موقع ہوتی ہے کہ…ہم اپنی توبہ کو مقبول بنا لیں…
مساجد کی محنت میں پہلا اِنعام اچھی صحبت ہے…ہم خود مساجد میں جائیں گے… مسلمانوں کو مساجد کی طرف بلائیں گے…مساجد کے تعاون کی مجالس سجائیں گے تو…یہ سب اچھی صحبت کے مقامات ہمیں نصیب ہو جائیں گے … دوسری علامت نیک اعمال کی توفیق…تو وہ بھی ان مہمات سے حاصل ہو جاتی ہے… ہر مہم میں الحمد للہ جانی اورمالی نیک اَعمال جمع ہوجاتے ہیں … اور جب ہم خود اپنا مال بھی لگاتے ہیں…اور مسلمانوں کو بھی مال لگانے کی ترغیب دیتے ہیں تو اس سے…دنیا کی محبت کم ہو جاتی ہے…اللہ تعالیٰ اس مہم کو کامیاب فرمائے…قبول فرمائے …اور اس میں ہمیں زیادہ سے زیادہ مقبول حصہ عطاء فرمائے…آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اے ایمان والو!جمے رہو، جڑے رہو
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 484)
اللہ تعالیٰ کو پانے کا واحد راستہ
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
مومن کے اعمال کو عرش تک پہنچانے کا واحد ذریعہ
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
دنیا میں کامیابی کی چابی
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
قبر میں آسانی اور راحت کا نسخہ
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
افضل ترین نیکی جو گناہوں کو مٹا دیتی ہے
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
ایمان کی جڑ…دین کی بنیاد …سب سے افضل ذکر…اور آخرت میں کامیابی کی پہلی شرط
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
بہت اہم نکتہ
آج کی مجلس میں ایک بڑا ’’اہم نکتہ‘‘ عرض کرنا ہے…یہ نکتہ قرآن مجید کی سورۃ الفتح کی آیت (۲۶) میں بیان فرمایا گیا ہے…بہت بڑا خزانہ ہے،رب کعبہ کی قسم، بہت بڑا خزانہ…اللہ تعالیٰ کا شکر جس نے ہمیں ’’قرآن مجید‘‘ جیسی نعمت عطاء فرمائی ہے…قرآن مجید جیسی اونچی اور اعلیٰ تعلیم (ہائر ایجوکیشن) اور کوئی نہیں…حضرت آقا مدنی ﷺ کا احسان کہ ہم تک قرآن مجید پہنچایا…
الحمدللّٰہ رب العالمین،والصلوٰۃ والسلام علی خاتم النبیین
پہلے ایک بات بتائیں
آج کے نکتے کا تعلق پاکستان اور دنیا کے موجودہ حالات سے ہے…اور اس نکتہ میں کلمہ طیبہ کا بیان بھی ہے…یہ نکتہ سمجھنے سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے وِرد کا معمول جاری ہے یا نہیں؟…الحمد للہ بارہ سو بار کلمہ طیبہ کے وِرد کی آواز لگی تو ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے اسے قبول کیا اور اپنا لیا…مگر کلمہ طیبہ اور استغفار سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے تو وہ…مسلمانوں کو اس سے غافل کرنے کا زور لگاتا ہے…اب معلوم ہواہے کہ کئی مسلمان بھائیوں اور بہنوں نے…کلمہ طیبہ کے ورد سے غفلت شروع کر دی ہے…استغفر اللہ، استغفر اللہ، استغفر اللہ…حضرت جنید بغدادیؒ کا جب انتقال ہو رہا تھا تو کسی نے انہیں ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کی…حضرت نے فرمایا اس کلمہ کو تو میں کسی وقت بھی نہیں بھولا…یعنی اسے یاد دلاؤ جو کبھی اس کلمہ سے غافل رہا ہو…میں تو الحمد للہ اس کلمہ سے کبھی غافل نہیں ہوا…سبحان اللہ! ایک وہ حضرات تھے جنہوں نے اس کلمہ طیبہ سے ایسا مضبوط تعلق جوڑا…اور ایک ہم ہیں کہ صرف بارہ سو بار کا ورد بھی بھاری لگتا ہے…حضرت شاہ ولی اللہؒ کو اللہ تعالیٰ نے بہت نفع اور برکت والا علوم عطائے فرمائے…آپ علم اور حکمت میں اپنے زمانے کے بادشاہ تھے…تفسیر و حدیث سے لے کر سیاست و مدنیت تک ہر علم میں آپ امام کا درجہ رکھتے تھے…یہ سارا کمال ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی برکت سے نصیب ہوا…بہت چھوٹی عمر میں اس کلمہ کے ساتھ جڑ گئے…ایک سانس میں دو سو بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا وِرد فرمایا کرتے تھے…اب یہ کلمہ تو ایسا ہے کہ اس کی شاخیں آسمان تک جاتی ہے…چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر علم و حکمت کے خزانے کھول دئیے…
ارے بھائیو! یہ کلمہ طیبہ ہی اصل میں کلمہ توحید ہے…اور کلمہ توحید سے بڑھ کر اور کوئی حفاظت نہیں…اور یہی کلمہ طیبہ ہی کلمۂ اِخلاص ہے… اور اِخلاص سے بڑھ کر کوئی قوت نہیں…آج کے مسلمانوں کے رجحان بس اس طرف ہے کہ روزی کے وظیفے کرو…حفاظت کے وظیفے کرو…ترقی کے وظیفے کرو…عزت کے وظیفے کرو…جو تھوڑا بہت وقت ذکر کے لئے نکالتے ہیں وہ سارا ان وظیفوں میں لگ جاتا ہے…اور اصل وظیفہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ رہ جاتا ہے…ارے بھائیو اور بہنو! یہ کلمہ طیبہ نصیب ہو گیا تو حفاظت،عزت،ترقی ،روزی اور کامیابی سب کچھ خود بخود مل جائے گا…کلمہ طیبہ کے بغیر نہ تو کوئی عمل قبول ہوتا ہے اور نہ کوئی وظیفہ کام کرتا ہے…آپ اپنے علاج کے لئے عاملوں کے دروازے پر نہ جائیں…آپ کے پاس سب سے بڑا عمل موجود ہے…اور وہ ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ…کسی عامل کا کوئی تعویذ اس کلمہ کے برابر نہیں…کسی عامل کا کوئی پراسرار عمل اس کلمہ سے زیادہ طاقتور نہیں…یہی کلمہ …قول ثابت یعنی سب سے پکی بات ہے…یہ کلمہ سات آسمانوں اور سات زمینوں سے بھاری ہے…دنیا کا کوئی جادو اس کلمہ سے زیادہ طاقتور نہیں…دنیا کی کوئی نحوست…اس کلمہ کی برکت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی…کلمہ طیبہ کو دل میں اُتاریں … اُس کے نور کو سمجھیں…اُس کے معنیٰ کو دل و دماغ میںبٹھائیں… اوراس کا وِرد ایسی پابندی،ایسے اہتمام…اور ایسے ذوق و شوق سے کریں کہ یہ کلمہ ہماری روح میں اتر جائے…ہماری ہڈیوں اور گوشت میں سرایت کر جائے اور ہمارے خون میں شامل ہو جائے…
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
وعدہ کرتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو مرتے وقت ’’کلمہ طیبہ‘‘ نصیب فرمائے…اور ہمیں موت کے وقت خوف اور دہشت سے بچائے…بس موت آیا ہی چاہتی ہے…آج کا قرآنی نکتہ پڑھنے سے پہلے…آپ سب سچا وعدہ کریں کہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ کا روزانہ ورد کبھی نہیں چھوڑیں گے…کبھی بھی نہیں…
صحت مند ہوں یا بیمار…مالدار ہوں یا غریب…آزاد ہوں یا قید…فائدہ محسوس ہو یا نہ ہو…کیفیت بنے یا نہ بنے…کسی بھی حال میں کلمہ طیبہ کا ورد ناغہ نہ ہو…اللہ نہ کرے بڑے بڑے گناہ ہو جائیں تب بھی کلمہ طیبہ کا ورد ناغہ نہ ہو…شیطان کہے گا کہ اب تمہارا منہ ’’کلمہ طیبہ‘‘ کے قابل نہیں رہا اس لئے پڑھنے کا کیا فائدہ؟ … تب شیطان کی نہ مانیں اور کلمہ طیبہ کے ورد میں لگ جائیں…کلمہ طیبہ بڑے بڑے گناہوں کو نیست و نابود کرنے کی طاقت رکھتا ہے…بارہ سو بار تو ابتدائی سبق ہے…جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی وہ تعداد میں اضافے کرتے جائیں … اضافہ نہ کرسکیں تو بارہ سو بار کو ہی پکا بنالیں…کھانا پینا اتنا ضروری نہیں……انسان آرام سے آٹھ دس دن بھوکا رہ سکتا ہے…نیند کرنا اتنا ضروری نہیں… انسان کافی وقت جاگ سکتا ہے اپنے ٹچ فون پر زندگی ضائع کرنا ضروری نہیں…بلکہ نقصان ہی نقصان ہے…جبکہ کلمہ طیبہ میں فائدہ ہی فائدہ ہے…فائدہ ہی فائدہ…تو پھر اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر وعدہ کر لیجئے کہ ان شاء اللہ…کلمہ طیبہ کے ورد کی پکی پابندی کریں گے…اور ہاں! کبھی کبھار کچھ وقت…آنکھیں اور زبان بند کر کے دل سے بھی پڑھا کریں
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
قرآنی نکتے کا خلاصہ
سورۃ الفتح میں جو نکتہ بیان فرمایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے …
اگر تمہارے دشمن مکمل جہالت پر اتر آئیں …اور کسی وجہ سے ان سے لڑنے کی اجازت نہ ہو …تو ایسے وقت میں تم ضد اور جہالت پر نہ اترو …بلکہ کلمہ طیبہ کے ساتھ مضبوطی سے جڑ جاؤ … تب کچھ ہی عرصے بعد تمہارے لئے فتوحات کے ایسے دروازے کھلیں گے کہ…تم خود حیران رہ جاؤ گے…اور جہالت پر اترنے والا تمہارا دشمن … ذلیل و خوار ہو جائے گا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اصل مفہوم
آیت مبارکہ…غزوہ حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی…مسلمان ،حضرت آقا مدنی ﷺ کی قیادت مبارکہ میں عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تھے…مشرکین مکہ نے انہیں حرم شریف میں داخل ہونے سے روک دیا…راستے میں جگہ جگہ مسلمانوں پر حملے کئے…اور اپنی جنگی طاقت سے انہیں مرعوب کرنے کی بھرپور کوشش کی…مسلمان کم تعداد میں تھے…اسلحہ اور لڑائی کا سامان بھی بہت قلیل تھا…اور علاقہ بھی دشمنوں کا تھا … ایسے وقت میں پہلا حملہ خوف اور بزدلی کا ہوتا ہے …مگر ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پر مضبوطی کی برکت سے وہ اس حملہ کی زد میں نہ آئے…اب مشرکین نے انہیں ضد اور غیرت دلانے کے لئے جاہلانہ حرکتیں شروع کر دیں…پہلی حرکت یہ کہ انہیں حرم شریف سے روکا…دوسری یہ کہ معاہدہ نامہ میں مسلمانوں کے مقدس الفاظ کاٹنے پر اصرار کیا اور اپنی مرضی کے نام لکھوائے…تیسرا یہ کہ معاہدہ میں ایسی شرطیں رکھیں جن سے مسلمانوں کو ذلت کا احساس ہو…یہ سارا شیطانی چکر اس لئے تھا کہ مسلمان بھی …ضد پر اتر آئیں…دوسری طرف حکم یہ تھا کہ یہاں اس موقع پر کسی بھی حال میں جنگ نہیں کرتی…ایک تو حرم شریف کے تقدس کا مسئلہ تھا…اور دوسرا یہ کہ اس وقت یہاں جنگ ہوتی تو مکہ میں پھنسے ہوئے چند مظلوم مسلمان شہید کر دئیے جائیں گے…اب بڑا سخت امتحان تھا…مشرکین بار بار جاہلانہ حرکتیں کر کے مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کر رہے تھے…ان کی اکڑ اور ان کا طرز عمل ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر دل غصے سے پھٹنے لگیں…حضرات صحابہ کرام کے ضمیر پر ہتھوڑے برس رہے تھے تو کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ …اگر ہم حق پر ہیں تو پھر اس طرح دبنے اور براشت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟…یہ بتوں کے پجاری کس طرح سے ہمیں ستا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس تلواریں اور جان دینے کا جذبہ موجود ہے…اسی دوران…ایک مسلمان قیدی جو مکہ مکرمہ سے بھاگ کر مسلمانوں کے لشکر پہنچ چکے تھے…مشرکین نے انہیں بھی واپس لے جانے کے ضد کی…یہ مرحلہ بڑا نازک تھا…غم،غصے اور غیرت سے کلیجے پھٹ رہے تھے…مگر ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی طاقت کام کر گئی…اور حضرات صحابہ کرام اس کلمہ سے جڑ کر جذبات میں بہنے سے بچ گئے … ایک امتحان تھا جو گذر گیا…مشرکین کے لئے ایک وقتی خوشی تھی جو چند دن میں بیت گئی…اور پھر ان کا ہر قدم،ذلت و زوال کی طرف اور مسلمانوں کا ہر قدم فتح اور عزت کی طرف بڑھتا چلا گیا…اور تھوڑے ہی عرصے میں مسلمان حرم شریف کے مالک بن گئے…اور وقتی ضد اور اکڑ دکھانے والے مشرکین کا قصہ ختم ہو گیا…
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
آیت مبارکہ کا ترجمہ
دیکھئے سورۃ الفتح کی آیت:۲۶
ترجمہ: جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد بٹھا لی اور ضد بھی جاہلیت کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور ایمان والوں پر اپنی طرف سے تسکین (یعنی سکون، تحمل یا خاص رحمت) نازل فرمائی اور ان کو تقوی کے کلمہ پر جمائے رکھا اور وہی اس (تقوی کے کلمہ) کے مستحق اور اہل تھے…اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے…
کلمہ طیبہ پر جمنے کا وقت
وہ جو مسلمان کہلاتے ہیں…مگر کام ان کے سارے کافروں والے ہیں…نہ نماز کے پابند …نہ دین سے کوئی تعلق…قرآن مجید کی تعلیم کے دشمن اور کافروں کی غلامی میں اپنی کامیابی دیکھنے والے…وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اللہ کرے وہ مسلمان ہوں…ہمیں کسی کی تکفیر کا ہرگز ہرگز شوق نہیں…مگر وہ اہل ایمان کو …ستا رہے ہیں،دبا رہے ہیں…اور خود کو ’’اتاترک‘‘ بنا رہے ہیں … کمال اتاترک کسی زمانے آیا تھا پھر مر گیا…اب اس کا نام بھی ترکی میں مرنے کو ہے…وہ ایک بد نصیب انسان تھا…خود اس کے دور اقتدار میں اہل ترکی کہتے تھے…کسی ماں نے کمال اتاترک سے زیادہ منحوس بچہ نہیں جنا…اس نے مساجد کو ویران کیا…اذان پر پابندی لگائی…بے حیائی اور فحاشی کو عام کیا…دینی تعلیم ممنوع قرار دی… عربی رسم الخط پر پابندی لگائی…مگر آج ترکی میں یہ سب کچھ دوبارہ بحال ہو رہا ہے…خلافت عثمانیہ ماشاء اللہ پانچ صدیوں تک قائم رہی جبکہ کمال اتاترک کا کفری نظام سو سال بھی نہ کاٹ سکا…
پاکستان میں دین کے دشمن…آج اپنے دل کی زہریلی امنگیں پوری کرنے کے لئے کمال اتاترک کو آوازیں دے رہے ہیں…مگر بے فکر رہیں…کمال اتاترک مر گیا ہے…وہ واپس نہیں آئے گا اور نہ پاکستان کی سرزمین پر ایسے کسی بے عقل زندیق کے لئے کوئی گنجائش ہے…اب تو ساری دنیا تیزی سے بدل رہی ہے…اور جہاد فی سبیل اللہ کے محاذ چاروں طرف کھل چکے ہیں … پاکستان کے اہل دین کی کوشش ہے کہ …سیکولر طبقے اور حکمرانوں کے جاہلانہ مظالم…اس ملک کومکمل خانہ جنگی میں نہ دھکیل دیں…
اس لئے صبر ہے…برداشت ہے…اور قرآنی نکتے کے مطابق…کلمہ طیبہ سے جڑنے اور کلمہ طیبہ پر جمنے کا وقت ہے…پس اے ایمان والو! کلمہ طیبہ پر جمے رہو،کلمہ طیبہ سے جڑے رہو …اے دین کے دیوانو! کلمہ طیبہ دل میں اتارو …یہی دل کی زندگی ہے…کلمہ طیبہ میں غور کرو یہی عقل اور خیال کی روشنی ہے…کلمہ طیبہ کی دعوت دو…یہی امر بالمعروف کا سب سے اہم درجہ ہے …کلمہ طیبہ کا دل و جان اور زبان سے ورد کرو … یہی کامیابی، خیر اور نصرت کی ضمانت ہے…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اے ایمان والو!دیکھو، دیکھو،غور سے دیکھو!
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 483)
اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں… اے ایمان والو! اے تمام دنیا والو!
سرکش ظالموں کے انجام کو دیکھو!
ضدی کافروں کے انجام کو دیکھو!
فسادیوں کے انجام کو دیکھو!
اُنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ …کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ…
کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ…کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْنَ…کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذِرِیْنَ…
دیکھو، دیکھو! اُن کا انجام جو بڑے تکبر سے دین کو جھٹلاتے تھے… اور وہ جو اپنی عقل اور طاقت پر ناز کھاتے تھے… دیکھو! ان کا انجام جو دین کے مقابلے پر اپنی طاقت لائے تھے… اور جنہوں نے اہل ایمان پر مظالم ڈھائے تھے…
دیکھو! دیکھو! غور سے دیکھو! ان کا انجام جو دنیا کی ترقی کو سب کچھ سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے منکر ہو گئے… وہ جن کو اپنی تعلیم، ترقی اور معیشت پر ناز تھا… دیکھو تو سہی ان سب کا کیسا بُرا اور حسرتناک انجام ہوا…
یاد رکھو! یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے…
اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ
یہ گھومنے والی، بدلنے والی، دفنانے اور مٹانے والی زمین صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے…
یُوْرِثُھَا مَن یَّشَاء
اللہ تعالیٰ کچھ وقت کے لئے جسے چاہتے ہیں یہ زمین دے دیتے ہیں… مگر اصل کامیابی اور اچھا انجام صرف اور صرف ایمان والوں کو عطاء فرماتے ہیں…
وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ
ہاں! اصل کامیابی، بہترین انجام صرف ایمان والوں کے لئے ہے… وہ ایمان والے جو ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہیں…
عبرتناک مناظر
اللہ تعالیٰ ہمیں حکم فرماتے ہیں کہ… ہم کافروں کی ظاہری طاقت اور ترقی دیکھ کر متاثر نہ ہوں… اور ان کو کامیاب نہ سمجھیں… اور پھر ہمیں حکم فرماتے ہیں کہ… ہم ان سرکش کافروں کے انجام کو اچھی طرح دیکھیں… اور اس سے عبرت حاصل کریں… چنانچہ قرآن مجید بہت سے عبرتناک مناظر ہمیں دکھاتا ہے…
وہ دیکھو! ذلت اور حسرت کے ساتھ ڈوبتا ہوا فرعون… دیکھو تو سہی… روئے زمین کا جابر ترین حکمران کس بے بسی سے ڈوب رہا ہے… وہ دیکھو! قومِ عاد کے بڑے بڑے لاشے اوندھے منہ پڑے ہیں… ان کے کارخانے، ان کی ایجادات اور ان کے مضبوط محلات سب مٹ چکے ہیں… وہ دیکھو! دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ دار ’’قارون‘‘ اپنی معیشت سمیت ذلت، عبرت اور بے بسی کی تصویر بنا… زمین میں دھنس رہا ہے…
وہ دیکھو! ابرہہ کا خوفناک عسکری لشکر… اپنے ہاتھیوں سمیت بھوسہ بنا پڑا ہے… وہ دیکھو! قوم ثمود ایک ماہر، فنکار اور ہنر مند ترقی یافتہ قوم… اپنی ترقی سمیت زمین بوس پڑی ہے… دیکھو، دیکھو، غور سے دیکھو! عبرت پکڑو یہ حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم… آزاد، لبرل، عیاش، جدت پسند، بے باک اور خوبصورت قوم… اسے اوپر اٹھا کر زمین پر دے مارا گیا… وہ جو حسن و خوشبو میں ہر وقت سنورتے تھے… اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے وبال سے بدبودار، مردار کیچڑ بن گئے … اور ان کے گناہوں کے اثرات نے زمین اور پانی تک کو بے کار بنا دیا…
وہ دیکھو! تجارت اور بزنس کی ماہر… حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم… وہ اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ تباہ کر دی گئی… اے کافرو! اپنے کفر پر ناز کرنے والو! تم بھی ’’سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ‘‘ زمین میں چل پھر کر دیکھو!…
اور اے اہل ایمان تم بھی دیکھو…
کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ
کہ مجرموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوا…
طوفان جواب دیتا ہے
وہ دیکھو! روئے زمین کا سب سے خوفناک طوفان… ایک پوری انسانی نسل کو ختم کرنے والا طوفان… پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والا طوفان…ایک ہزار سال سے قائم ایک بڑی تہذیب کو ملیامیٹ کرنے والا طوفان… ایسا طوفان کہ… آسمان سے پانی برس نہیں رہا تھا بلکہ گر رہا تھا… اور زمین سے بھی پانی ہی پانی ابل رہا تھا … حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم پر آنے والا طوفان… ساڑھے نو سو سال وہ اکڑتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے نبی کو ستاتے تھے… ان کو ناز تھا کہ ہم عقل والے، دانش والے، طاقت والے، اور حکومت والے ہیں… طوفان آیا تو اتنی بڑی قوم کا نام و نشان تک باقی نہ رہا… آج کسی کو وہ احادیث مبارکہ سنائیں جن میں آخری زمانے مسلمانوں کے مکمل غلبے کی بشارت ہے تو سوالات کی بوچھاڑ لگ جاتی ہے… یہ ایٹم بم کہاں جائیں گے؟ … یہ امریکہ، یورپ، انڈیا اور کفر کے بڑے بڑے ممالک اور لشکر کہاں جائیں گے؟… یہ کفار کی فضائی قوت اور عسکری ٹیکنالوجی کہاں جائے گی؟ … اس کا مقابلہ کیسے ہو سکے گا؟…
قرآن مجید ’’ طوفانِ نوح‘‘ کا قصہ سنا کر… ان تمام سوالات کا جواب دے دیتا ہے کہ… اللہ تعالیٰ سب کچھ بدلنے اور سب کچھ اکھاڑنے کی طاقت رکھتا ہے… اور زمین پر ایسے حالات لاتا ہے کہ جن کا مقابلہ… کوئی مخلوق نہیں کر سکتی… اور بڑی بڑی تہذیبیں اور قومیں اس طرح سے مٹا دی جاتی ہیں کہ… ان کے آثار اور کوئی آہٹ تک باقی نہیں رہتی…
ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزاً
یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے… طوفانِ نوح اس کی ایک مثال ہے… وہ جو زمین پر کروڑوں کی تعداد میں تھے وہ ختم ہو گئے … اور وہ جو درجنوں کی تعداد میں تھے وہ زمین کے مالک، حاکم اور اگلی نسل کے معمار بنا دئیے گئے … اللہ تعالیٰ جب چاہیں اور جس طریقے سے چاہے ایسا کر سکتا ہے… اور وہ ایسا بارہا کر چکا ہے… یقین نہ آئے تو دیکھو، دیکھو، غور سے دیکھو!… بڑی بڑی سلطنتوں کا انجام…
اپنے آس پاس دیکھیں
اگر ہم اپنے آس پاس دیکھیں… قریب زمانہ کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں یہی نظر آئے گا کہ… ایمان والے ہمیشہ اچھے انجام سے سرفراز ہوتے ہیں… اور اہل کفر، اہل نفاق اور اہل ظلم کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے… پاکستان پر ایک مصیبت بن کر گرنے والے پرویز مشرف کے دور اقتدار کو دیکھیں … ’’ میں میں ہوں، میں میں ہوں‘‘ کی منحوس گونج تھی… اور جہاد کو جڑ سے ختم کرنے کے دعوے … آج وہ کس حالت میں ہے اور جہاد کس حالت میں… ہر شخص بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے… ہمارے لئے قرآن مجید کا یہ حکم تھا کہ ہم اس کی طاقت اور جبر کو ’’نہ دیکھیں، ہرگز نہ دیکھیں‘‘… اس کے خوفناک اقدامات سے نہ ڈریں… اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنا حق کام کرتے رہیں…
جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو مانا… اور اس کے نوسالہ اقتدار کے دوران ’’نہ دیکھو، ہر گز نہ دیکھو‘‘ کی ترتیب پر رہے… اُن سے اللہ تعالیٰ نے بڑا اور مقبول کام لیا… اور آج پرویز مشرف اس حالت میں آ پہنچا ہے کہ… ہمارے لئے قرآن کا حکم ہے… ’’دیکھو، دیکھو، غور سے دیکھو!‘‘ کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوتا ہے… یہ ایک مثال ہے… آپ غور کریں گے تو ہر طرف بہت سی مثالیں نظر آ جائیں گی… مومن اپنے ایمان اور کام پر رہے تو اس کے لئے مرنے میں بھی ناکامی نہیں… اور کافر و منافق کے لئے ناکامی اور ذلت کا سفر اس کی موت سے پہلے یا موت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے…
انجام کے فرق کی ایک جھلک
ایک بہت ایمان افروز نکتہ ہے… تھوڑا سا غور کریں…
سورۃ الدخان کی آیت (۲۹) دیکھیں… اللہ تعالیٰ سمجھاتے ہیں کہ… فرعون اور اس کی قوم غرق ہو گئی… اپنی تمام بڑی بڑی نعمتیں اور عیاشیوں کا سارا سامان یہاں چھوڑ گئی…
مگر اس قوم کے ہلاک ہونے پر نہ آسمان رویا نہ زمین روئی…
فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَائُ وَالْاَرْضُ (الدخان)
غور فرمائیے! نہ آسمان رویا نہ زمین روئی… اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اتنا بڑا بادشاہ… اور اتنی بڑی قوم غرق ہو گئی… مگر پھر بھی زمین کا نظام چلتا رہا… آسمان کے نظام میں بھی کوئی فرق نہ آیا… یعنی ان لوگوں کی کوئی کمی کسی بھی طرح محسوس نہ کی گئی… حالانکہ جب وہ جیتے تھے تو گویا زمین کے مالک تھے اور آسمان کو اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کرتے رہتے تھے… اور ان کا یہ دعوی تھا کہ زمین کو ہم نے آباد کیا ہے… اس کو ہم نے سنوارا ہے… اور اس کو ہم نے اپنی عقل سے ترقی دی ہے… جس طرح آج کل امریکہ اور یورپ کا دعوی ہے کہ… ان کی ایجادات نے زمین اور انسان کو بہت آگے کر دیا ہے… نعوذ باللہ، استغفر اللہ…
ارشاد فرمایا: نہ اُن پر آسمان رویا اور نہ زمین روئی… کئی مفسرین حضرات فرماتے ہیں کہ… آسمان و زمین کا یہ رونا اور نہ رونا اپنے اصلی معنیٰ پر ہے… جب کوئی ایمان والا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی موت پر آسمان بھی روتا ہے اور زمین بھی روتی ہے… جبکہ کافر کی موت پر نہ آسمان روتا ہے اور نہ زمین روتی ہے بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ…
ہر مومن کے لئے آسمان میں دو دروازے ہوتے ہیں… ایک دروازہ سے اس کا رزق نیچے اترتا ہے اور دوسرے دروازہ سے اس کا عمل اور اُس کا کلام اوپر جاتا ہے… جب یہ مومن انتقال کر جاتا ہے تو وہ دونوں دروازے اس کی کمی محسوس کرتے ہیں اور روتے ہیں… ( تفسیر ابن کثیر)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا… کیا آسمان و زمین بھی کسی پر روتے ہیں؟… ارشاد فرمایا: ہر مومن کے لئے زمین پر وہ جگہ روتی ہے جس پر وہ نماز ادا کرتا ہے… اورآسمان میں ہر مومن کے لئے ایک راستہ ہوتا ہے جس سے اس کا عمل اوپر جاتا ہے… فرعون کی قوم کا نہ زمین میں نماز والا ٹکڑا تھا اور نہ ان کا کوئی نیک عمل تھا جو آسمان کے راستہ اوپر جاتا… اس لئے ان پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین روئی…
اسی طرح کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ہے… جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے وہ حصے جن پر کوئی مومن اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے… نماز اور سجدہ ادا کرتا ہے… ذکر و تلاوت کرتا ہے… یا اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا کوئی بھی عمل کرتا ہے…
تو اس کی وفات کے بعد زمین کا وہ حصہ… اس کی کمی اور یاد میں روتا ہے… اس طرح آسمان کا وہ دروازہ جس سے مومن کا رزق اترتا ہے اور اس کا نیک عمل اوپر جاتا ہے… یہ دروازہ اس کی وفات پر بند کر دیا جاتا ہے تو آسمان روتا ہے… حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں… زمین ایک مومن کے انتقال پر چالیس دن روتی ہے… اور حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں… جب کوئی مومن انتقال کر جاتا ہے تو اس پر زمین اور آسمان چالیس دن تک روتے ہیں… ان سے پوچھا گیا کیا زمین بھی روتی ہے؟… فرمایا: اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟… زمین ایسے شخص پر کیوں نہ روئے گی جو اسے رکوع اور سجود سے آباد رکھتا تھا…
اور آسمان ایسے شخص پر کیوں نہ روئے گا جس کی تکبیر و تسبیح سے آسمان میں شہد کی مکھیوں جیسی آواز گونجتی تھی…
اندازہ لگائیں… موت سے انجام کا آغاز ہوتا ہے… اور اس آغاز میں اتنا فرق ہے… مومن کی موت بہت میٹھی ہے،کافر کی موت بڑی دردناک ہے… مومن کی موت پر زمین و آسمان روتے ہیں… کافر کی موت پر زمین و آسمان خوشیاں مناتے ہیں… پھر ایک مومن کے لئے کہاں جائز بنتا ہے کہ… وہ ظالموں،کافروں اور منافقوں کی ظاہری طاقت اور ترقی کو دیکھ کر متاثر ہو… اور خود کو اور اپنے ایمان کو حقیر سمجھے… یا اللہ تعالیٰ سے مایوس ہو… یا یہ سمجھے کہ حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے… ارے ایمان والو! … ان ظالموں اور کافروں کے انجام کو دیکھو… خوب دیکھو، غور سے دیکھو! وہ دیکھو! مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر وحشی کتے کی طرح غرانے والا ’’ابو جہل‘‘… بدر کے ایک اندھے کنویں میں مردار پڑا ہے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اے ایمان والو! نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو!
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 482)
اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے…آج ایک بہت ہی اہم ’’نکتہ‘‘ عرض کرنا ہے…ایک بہت مفید قرآنی نکتہ
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ
نکتہ کی اہمیت
اس قرآنی نکتہ کی اہمیت یہ ہے کہ جس نے اسے سمجھا،دل میں بٹھایا اوراس پر عمل کیا وہ ہمیشہ سیدھے راستہ پر رہا…اور فتنوں سے بچا رہا … اور جس نے اس نکتے کو نظر انداز کیا وہ طرح طرح کے فتنوں میں پھنس گیا،ناکام ہو گیا، گمراہی میں جا گرا…اور گمراہی اور ناکامی کا سوداگر بن گیا…
صرف ایک آیت نہیں
قرآن مجید کا یہ نکتہ صرف کسی ایک آیت میں بیان نہیں ہوا…بلکہ یہ نکتہ بہت سی آیات میں نہایت تفصیل کے ساتھ سمجھا کر بیان فرمایا گیا ہے …قرآن مجید کی بعض پوری پوری سورتوں کا مرکزی موضوع یہی نکتہ ہے…پس خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو اسے سمجھ لیتے ہیں،اپنا لیتے ہیں …اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو ان میں شامل فرمائے…(آمین)
نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو
قرآن مجید کا یہ نکتہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ … ’’نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو‘‘…یعنی پسند کی نگاہ سے نہ دیکھو! توجہ نہ کرو…متاثر ہونے والے انداز سے نہ دیکھو…اگر دیکھو گے تو گر جاؤ گے،تباہ ہو جاؤ گے…کہیں کے نہیں رہو گے…
کیا نہ دیکھیں؟
قرآن مجید نے سمجھایا کہ…کافروں کی طاقت کو نہ دیکھو…اُن کے مال و دولت کو نہ دیکھو! ان کی چمکتی دمکتی زندگیوں کو نہ دیکھو!…ان کی سلطنت کو نہ دیکھو!…ان کے اُڑنے پھرنے کو نہ دیکھو!…ان کی عسکری قوت کو نہ دیکھو! … منافقین کے مال اور اولاد کی کثرت کو نہ دیکھو! … یہ نہ دیکھنے والے جتنے جملے میں نے لکھے ہیں…یہ لفاظی نہیں …ہر ایک جملے کے پیچھے قرآن مجید کی کوئی آیت یا کئی آیات اور قرآن مجید کے سچے قصے موجود ہیں…آپ میں سے جنہوں نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ رکھا ہے وہ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے…جنہوں نے ترجمہ نہیں پڑھا ان کے لئے ان آیات کی طرف اشارہ عرض کر دیا جائے گا…
چند اشارے
حضرت سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ سے کفر و شرک شروع ہوا…اور ساتھ یہ آزمائش بھی کہ کافروں اور مشرکوں کو اس فانی زندگی میں قوت، شوکت،مال،اولاد ،ترقی اور اقتدار دیا جاتا ہے … ان کافروں ،مشرکوں اور منافقوں کے لئے آخرت میں کچھ نہیں ہے…ان کے لئے آخرت میں عذاب ہی عذاب ہے…یہ وہ درخت اور لکڑیاں ہیں جن کو جلانے کیلئے پیدا کیا گیا ہے…البتہ دنیا میں ایمان والوں کی آزمائش کے لئے…اور بعض دیگر وجوہات سے اللہ تعالیٰ کافروں،مشرکوں اور منافقین کو…ظاہری قوت ،طاقت اور مال و دولت عطاء فرماتے ہیں…مگر یہ سب کچھ وقتی اور فانی ہوتا ہے…کافر ،مشرک اور منافق ہر زمانے میں یہی سمجھتے ہیں کہ …ان کا اقتدار ،ان کا مال، ان کی ترقی اور ان کی طاقت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے … مگر کچھ ہی عرصہ بعد میدان صاف ہو جاتا ہے اور اس میں دھول اُڑنے لگتی ہے…
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج کے دن تک کی تاریخ پڑھ لیں…ہمیشہ یہی ہوا اور آئندہ بھی ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا… قرآن مجید نے جالوت کا قصہ اٹھایا…عسکری طاقت کا وہ امریکہ تھا…مسلمانوں میں سے جس نے اس کی طاقت پر نظر ڈالی وہ سہم کر رہ گیا کہ اس سے مقابلہ ناممکن ہے…مگر جنہوں نے حکم مانا کہ …نہ دیکھو! انہوں نے زمین کی بجائے آسمان کی طرف دیکھا اور تھوڑی دیر میں جالوت کو شکست دے ڈالی…قرآن مجید نے قارون کا قصہ سنایا …اس کی معاشی اور اقتصادی طاقت ہر کسی کو فتنے میں ڈالنے کے لئے کافی تھی… جنہوں نے اس طاقت کی طرف دیکھا تو…قارون جیسا بننے کی فکر اور تمنا میں ڈوبنے لگے مگر جنہوں نے حکم مانا کہ … نہ دیکھو! …انہوں نے قارون کی طرف تھوک دیا کہ ایسا محروم شخص جس کے پاس آخرت کی اصل زندگی کے لئے ایک نیکی بھی نہیں…ہم اس جیسا بننے کی تمنا اور فکر کیوں کریں؟…یہ تو ایک ناکام انسان ہے…بظاہر ان کا یہ موقف ایسا تھا کہ … ان کا مذاق اڑایا جا سکے،مگر چند دن بعد جب قارون اپنی معاشی طاقت سمیت زمین میں دھنس رہا تھا تو …قارون جیسا بننے کی خواہش رکھنے والے تھر تھر کانپ رہے تھے…اور قارون کی دولت کی طرف ’’دیکھنے‘‘ کے اپنے جرم پر شرمندہ اور خوفزدہ تھے …قرآن مجید نے فرعون کا واقعہ سمجھایا…اس کی سلطنت ناقابل شکست تھی…اس سے مقابلے اور آزادی کی بات کرنا ایک طرح کی ظاہری بیوقوفی سمجھی جاتی تھی…اس کے اقتدار کے خاتمے کی دور دور تک کوئی امید نہیں تھی…مگر حکم تھا کہ یہ سب کچھ نہ دیکھو!…چند افراد نے حکم مانا اور طاقت کو دیکھنے سے انکار کر دیا اور مقابلے پر اتر آئے…ان میں سے چند ایک کو شہادت ملی اور باقی کو فتح…اور پوری قوم آزاد ہو گئی…اور ایسی سلطنت جس کے خاتمے کا اگلی کئی صدیوں تک وہم بھی نہیں تھا … مکمل طور پر مٹ گئی…اس طرح کی قرآنی مثالیں اور بھی ہیں…مگر ہم تیزی سے آگے بڑھ کر اس دور میں آتے ہیں…جب ساری دنیا پر کفر و شرک کا راج تھا…اکیلے حضرت محمد ﷺ مکہ مکرمہ کی پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا اعلان فرما دیا…
اس مبارک کلمہ کا آغاز ہی یہ تھا کہ…’’لا الہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت ،قوت سلطنت اور ظاہری خدائی کو نہ دیکھو…اگر دیکھو گے تو اس کلمہ کو اور کامیابی کو نہیں پا سکو گے…چنانچہ جو مسلمان ہوتا گیا وہ ’’لا الہ‘‘ کے حکم کو اپناتا گیا کہ اب کسی کو نہیں دیکھنا…حالانکہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے تھا …ابو جہل کی جاہلانہ عسکری طاقت…قریش کی خوفناک قبائلی طاقت…بنو امیہ کی سحر انگیز معاشی طاقت…اور چاروں طرف پھیلے ہوئے کفر کی سمندری قوت…اگر حضرات صحابہ کرام ان طاقتوں اور قوتوں کو دیکھتے…ان سے متاثر ہوتے …ان سے اپنا موازنہ کرنے بیٹھ جاتے تو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتے…مگر وہ ’’نہ دیکھو،نہ دیکھو ،ہرگز نہ دیکھو‘‘ کی ترتیب پر مضبوط رہے … اور آگے بڑھتے گئے…اور یہ تمام طاقتیں موم کی طرح پگھلتی گئیں…مکڑی کے جالے کی طرح ٹوٹتی گئیں…صحابہ کرام آگے بڑھتے گئے…اور قرآن انہیں بار بار یہی نکتہ یاد دلاتا رہا…اپنی نظریں ان کافروں کے مال و اسباب کی طرف نہ پھیرو…تمہیں ان کا زمین میں اڑنا پھرنا دھوکے میں نہ ڈالے…تمہیں ان کے مال و اولاد کی کثرت متاثر نہ کرے…تمہیں ان کی عسکری اور اقتصادی قوت کمزوری میں نہ ڈالے…یہ سب کچھ وقتی تماشا ہے،عارضی دھوکہ ہے اور آزمائش کے پھندے ہیں…ایک آیت، دو آیت،تین آیت…قرآن مجید بار بار یہ نکتہ سمجھاتا رہا…اور صحابہ کرام اسے دل میں اُتارتے چلے …پھر منافقین کا گروہ وجود میں آ گیا…
ہٹے کٹے،تروتازہ،چمکیلے، بظاہر عقلمند، چرب لسان…دانشوری کے دعویدار اور ہر طرح کے مفادات کو جمع کرنے والے…فرمایا ان کو بھی نہ دیکھو! یعنی ان کی اس ظاہری ٹیپ ٹاپ سے متاثر نہ ہونا…پوری ’’سورۃ المنافقون ‘‘ نازل ہو گئی اور ’’نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو!‘‘ کا نکتہ ایمان والوں کے دلوں میں بٹھا گئی…پس پھر کیا تھا نہ روم ان کے سامنے ٹھہر سکا نہ فارس…نہ ترک ان کے سامنے جم سکے نہ بربر…نہ عرب ان کا مقابلہ کر سکے اور نہ عجم…اسلام بڑھتا گیا اور کفر سمٹتا گیا…
دیکھنے والے مارے گئے
’’نہ دیکھو، ہرگز نہ دیکھو‘‘ کے حکم پر جنہوں نے عمل نہیں کیا…وہ ہمیشہ مارے گئے اور ناکام ہو گئے…یہ وہ لوگ ہیں جو کلمہ تو کسی وجہ سے پڑھ لیتے ہیں…مگر اس کے پہلے حکم ’’لا الہ‘‘پر عمل نہیں کرتے…یہ ہمیشہ کافروں کی طاقت، قوت، مالداری اور ترقی کو دیکھتے ہیں…اور متاثر ہوتے ہیں…اور ہر زمانے میں یہی سمجھتے ہیں کہ کافروں کی اس طاقت کا مقابلہ مسلمانوں کے بس میں نہیں ہے…یہ لوگ کافروں کے مال اور ترقی کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ اصل کامیابی یہی ہے …ہم تو پیچھے رہ گئے…یہ لوگ کافروں کی عسکری قوت کو ہر وقت ناپتے تولتے رہتے ہیں … اور اس سے متاثر ہو کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ…ہمیں ان کی غلامی میں آ جانا چاہیے…کیونکہ یہ ناقابل شکست ہیں…یہ آج کی بات نہیں…رسول کریم ﷺ کے مبارک زمانہ سے یہ ’’گندی آنکھوں ‘‘ والا طبقہ موجود ہے…غزوہ خندق کے موقع پر جب رسول نبی کریم ﷺ نے ایک پتھر کو توڑتے وقت اس سے نکلتے شعلوں کو دیکھ کر…مسلمانوں کو روم و فارس کی فتح کی خوشخبری عطاء فرمائی تو یہ ظالم…منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے تھے کہ…پیٹ پر بھوک سے پتھر بندھے ہیں اور باتیں ہیں روم و فارس فتح کرنے کی …ایک ظالم جو بڑا دانشور کہلاتا تھا یہاں تک بک گیا کہ…ہم آج آسانی سے بیت الخلاء تو جا نہیں سکتے…چاروں طرف کفار کا محاصرہ اور تیروں کی بوچھاڑ ہے…اور ہمیں دھوکا دیا جا رہا ہے روم و فارس فتح کرنے کا…اُحد کے موقع پر بھی اس طبقے کے یہی تبصرے تھے…اور حنین کے موقع پر جب مسلمانوں کے قدم اُکھڑے تو…ایسے ایسے ظالمانہ تبصرے ہوئے کہ انہیں لکھنا بھی محال ہے …پھر ہر موقع پر یہی ہوتا رہا…زیادہ دور نہ جائیں ابھی قریب ہی کا واقعہ ہے کہ…جب سوویت یونین نے ہر طرف چڑھائی شروع کی تو …مسلمانوں میں موجود یہ طبقہ ان کی طاقت اور پیش قدمی دیکھ کر…فوراً ان کے سامنے سجدے میں گر گیا…اور افسوس یہ کہ صرف خود نہیں گرا … بلکہ مسلمانوں پر بھی ان کا بھرپور اور جارحانہ دباؤ تھا کہ…اگر بچنا ہے تو سوویت یونین کی پناہ میں آ جاؤ …آپ اُس زمانے کے اخبارات اور کالم اٹھا کر دیکھیں…ایک ہی شور تھا کہ اب سوویت یونین ہی سب کچھ ہے…اسی کو مان لو اسی کی غلامی میں آ جاؤ…اور اب صدیوں تک سوویت یونین کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا…مگر ہوا کیا؟…وہ لوگ جو ’’نہ دیکھو،ہرگز نہ دیکھو!‘‘ کے حکم پر تھے وہ سوویت یونین سے ٹکرا گئے…اور آج سوویت یونین نام کا کوئی ملک یا جانور دنیا میں موجود نہیں ہے…تب ان دانشوروں نے فوراً قبلہ بدل لیا اور اب انہوں نے ایک اور ’’الٰہ‘‘ کی پوجا شروع کر دی…اور مسلمانوں کو بھی چیخ چیخ کر اس کے سامنے جھکنے کا کہنے لگے کہ…امریکہ اور یورپ ناقابل شکست ہیں…ان کو مان لو…ان کی ہر بات مان لو … ان کے سامنے گر جاؤ…کیونکہ ان کا قدم اب اگلی کئی صدیوں تک پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے…نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ
قرآنی نکتے کا اعجاز
بات دراصل یہ ہے کہ انسانی حواس بہت کمزور ہیں…مثلاً آپ آج انٹرنیٹ، اخبارات اور چند رپورٹیں سامنے رکھ کر امریکہ،یورپ، اسرائیل یا انڈیا کی طاقت کو دیکھنے لگیں…تھوڑی دیر میں آپ کا دل بیٹھ جائے گا…اور آپ کا نظریہ بن جائے گا کہ ان ملکوں نے زمین کے ہر چپے … ہوا کے ہر جھونکے…سمندر کے ہر قطرے،فضا کے ہر گوشے پر مکمل قبضہ کر لیا ہے…یہ جس کو چاہیں …ایک بٹن دبا کر مار سکتے ہیں…دنیا میں کوئی فون کال ان سے چھپی نہیں رہ سکتی…زمین کا کوئی گھر،کوئی کونہ گوگل ارتھ،ناسا رینج اور میزائل مار سے محفوظ نہیں ہے…یہ ممالک چاہیں تو زمین کو پورا الٹ دیں…موسموں کے رخ بدل دیں … سمندروں کو خشکی پر چڑھا دیں…اور منٹوں میں خطہ زمین کو تباہ کر دیں…
آپ مزید مطالعہ کرتے جائیں تو آپ کو ان کی طاقت کا ہوشربا طلسم…نا امیدی کے اندھیروں میں پھینکتا جائے گا…مگر آپ تھوڑا سا سر اٹھا کر دیکھیں…عراق میں ایک نوجوان مجاہد ایک امریکی کے سر پر خنجر لئے کھڑا ہے…چوبیس گھنٹے کا وقت دیتا ہے…اور پھر چوبیس گھنٹے بعد امریکی کو قتل کر دیتا ہے…آخر ناسا، پینٹاگون، گوگل ارتھ اور میزائل کہاں چلے گئے…ریڈیائی لہروں کا نظام کہاں مر گیا؟…دس سال تک امریکہ کے سب سے مطلوب مجاہد شیخ اسامہ … آرام سے زندگی کے دن پورے کرتے رہے … اور بالٓاخر اپنوں کی غداری سے ان کا سراغ لگا نہ کہ …عسکری اور سائنسی طاقت سے…افغانستان کے محاذ پر امریکہ کو شکست ہوئی…اسرائیل نے اسی رمضان حماس سے شکست کھائی…عراق و شام میں مجاہدین کے بڑے بڑے لشکر وجود میں آئے…اگر آپ صرف کفر کی طاقت دیکھیں تو یہ سب کچھ ممکن نظر نہیں آتا…مگر زمین پر دیکھیں تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ہر دن ہو رہا ہے…معلوم ہوا کہ جنہوں نے حکم مانا کہ…’’نہ دیکھو! ہرگز نہ دیکھو!‘‘ …اللہ تعالیٰ نے ان کو قوت بھی دی اور کامیابی بھی…فتح بھی عطاء فرمائی اور عزت بھی…مگر جنہوں نے حکم نہیں مانا اور اپنی آنکھوں کو گندا کر لیا…کافروں کی طاقت و قوت کو دیکھ لیا وہ ذلت ،غلامی اور ناکامی میں جا گرے…یہ جاوید غامدی کا فتنہ کیا ہے؟…یہ وحید الدین کا فتنہ کیا ہے؟…یہ وہ لوگ ہیں جو کافروں کی طاقت و قوت اور مال و دولت کو دیکھتے ہیِں، ان سے متاثر ہوتے ہیں…ان کو کامیاب اور ناقابل شکست سمجھتے ہیں …اور ان کی غلامی میں اپنی کامیابی دیکھتے ہیں … یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی روم کو اسی طرح سمجھتے تھے … فارس کو اسی طرح سمجھتے تھے…تاتاریوں کو اسی طرح سمجھتے تھے…فاطمیوں کو اسی طرح سمجھتے تھے …خوارج کو بھی اسی طرح سمجھتے تھے…انگریزوں کو اسی طرح سمجھتے تھے…سکھوں کو اسی طرح سمجھتے تھے…منافقین کا یہ ایڈیشن شیطان کی طرف سے ہر چند سال بعد شائع ہوتا ہے…اور آج کل جو ایڈیشن چل رہا ہے اس کا نام غامدی،وحید الدین وغیرہ ہے…آج اگر امریکہ ختم ہو جائے تو یہ کسی اور کافر طاقت کو دیکھ کر اس کی غلامی کا درس دینا شروع کر دیں گے…ان لوگوں کو صرف اللہ کی طاقت اور اسلام کی قوت نظر نہیں آتی…باقی سب کچھ نظر آتا ہے…جی ہاں وہ سب کچھ …جس کو نہ دیکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی آخری کتاب میں…بار بار دیا ہے…
شیطان کی چال
ابھی آج کل جو حالات پاکستان میں…اور دنیا کے میڈیا پر چل رہے ہیں…اگر آپ صرف انہیں کو دیکھیں تو یہ سمجھیں گے کہ…پاکستان سے دین ختم، جہاد ختم، دیندار ختم، داڑھی والے ختم، پگڑیوں والے ختم…گلی گلی ناکے، قدم قدم پر چھاپے اور مارو،پکڑو کی صدائیں…مگر ان سب کو نہ دیکھتے ہوئے کراچی کے دیوانوں نے اللہ تعالیٰ کے توکل پر محنت کی اور جہاد کشمیر کا ایسا اجتماع کر ڈالا کہ…اچھے حالات میں بھی ایسا اجتماع ممکن نظر نہیں آتا…ان دیوانوں نے حالات،اخبارات اور بیانات کو نہ دیکھا…اپنے رب کی طرف دیکھا تو رب تعالیٰ نے ان کی نصرت فرما دی اور اپنی حفاظت کے مضبوط حصار ان پر ڈال دئیے اور الحمد للہ اجتماع ہو گیا…اگر یہ دیوانے حالات کو دیکھتے تو کیا…ایسے حالات میں پانچ سو افراد بھی جمع کر سکتے تھے؟…
آنکھوں دیکھا واقعہ
آج سے اکیس سال پہلے مجھے ’’سری نگر‘‘ جانے کا موقع ملا…ائیر پورٹ سے لے کر اپنے میزبان کے گھر تک جو کچھ نظر آ رہا تھا وہ انتہائی خوفزدہ اور مایوس کرنے والا تھا…پاکستان کے رہنے والے شائد اس پورے منظر کو نہ سمجھ سکیں … ہر طرف آرمی ہی آرمی تھی…ہزاروں کی تعداد میں مسلح دستے…ہر چند میٹر کے فاصلے پر فوجی بینکر …سڑکوں کے کنارے ہر چند گز کے فاصلے پر مسلح فوجی…عمارتوں کی چھتوں پر ہیوی مشین گنیں … سڑکوں کے درمیان فٹ پاتھوں پر بھی فوجی دستے …جہاں کہیں کوئی گلی، یا موڑ آتا تو وہاں بھی فوجی مورچے… صرف سری نگر شہر میں فوجی دستوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی…حیرت کی بات تھی کہ ایسے شہر میں مجاہدین کہاں رہتے ہوں گے … کیسے چلتے ہوں گے اور کیسے کارروائیاں کرتے ہوں گے…جبکہ ان دنوں تحریک عروج پر تھی اور سری نگر میں ہر ہفتہ دو چار کارروائیاں ضرور ہو جاتی تھیں …ہم ایک گھر میں پہنچے ابھی کچھ آرام کیا تھا کہ مجاہدین آنا شروع ہو گئے… اور ماشاء اللہ تمام کے تمام مکمل طور پر مسلح تھے…کلاشنکوفیں، راکٹ، گرینیڈ، ہر طرح کا اسلحہ ان کے پاس تھا…یہ ’’نہ دیکھو،ہرگز نہ دیکھو ‘‘کا حکم ماننے والے افراد تھے …اللہ تعالیٰ نے انہیں راستے بھی سجھا دیے اور اپنی نصرت بھی انہیں عطاء فرما دی…ایک لاکھ آرمی کے بیچ وہ مسلح گھوم پھر رہے تھے…اگر یہ لوگ صرف دشمن کی طاقت کو دیکھتے اور اس کا اثر لیتے تو…شائد ایک چاقو لے کر بھی نہ گھوم سکتے…
ابھی حال کا واقعہ
آپ انٹرنیٹ اور عسکری معلومات کا کوئی میگزین پکڑ کر بیٹھ جائیں…فرانس کے دارالحکومت پیرس کی سیکورٹی کا جائزہ لیں… وہاں لگے ہوئے سی سی کیمرے شمار کریں…تیز رفتار پولیس کی تفصیل معلوم کریں…پولیس کی جائے واردات پربروقت پہنچنے کی صلاحیت بارے معلومات لیں…خفیہ اہلکاروں کی نقل و حرکت کی رپورٹیں لیں…اُس علاقے کی سیکورٹی کا جائزہ لیں،جہاں گستاخ رسالے چارلی ایبڈو کا دفتر ہے …یقیناً آپ یہ فیصلہ دیں گے کہ ان تمام انتظامات کی موجودگی میں…رسالے کے دفتر کو کوئی خطرہ ہو ہی نہیں سکتا…مگر تین چار افراد نے ’’نہ دیکھو،ہرگز نہ دیکھو‘‘ کا حکم مانا اور چل پڑے …ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ بھاری ہتھیاروں سمیت پہنچ گئے…اپنا کام اطمینان سے نمٹا گئے …اور بحفاظت وہاں سے نکل گئے…اور دو تین دن تک پورے ملک کو تگنی کا ناچ نچا کر بالآخر شہید ہو گئے…بے شک جو ’’نہیں دیکھتے‘‘ ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں خود بخود دور ہو جاتی ہیں…
آخری گزارش
آج بات کچھ لمبی ہو گئی مگر کیا کروں، قرآن مجید کا اہم نکتہ سمجھنے اور سمجھانے سے ابھی دل نہیں بھرا…مزید بہت سی باتیں اور مثالیں ذہن میں ہیں…مگر امید ہے کہ آپ اس نکتے کو ان شاء اللہ سمجھ چکے ہوں گے،اسی لئے مزید تفصیل میں نہیں جاتے…بس آج کی آخری گزارش سن لیں … شیطان کوشش کرتا ہے کہ ہماری آنکھیں اس طرف لگا دے جس طرف دیکھنے سے ہمارے مالک نے ہمیں منع فرمایا ہے…ایک شخص اچھا خاصا دین اور جہاد کا کام کر رہا ہے…اچانک شیطان نے اسے اکسایا کہ دیکھو تو سہی حالات کتنے خراب ہیں … ذرا آنکھیں تو کھولو کہ کفر و نفاق کی طاقت کتنی بڑھ گئی ہے…اب تم مقابلہ نہیں کر سکتے…خوامخواہ پکڑے جاؤ گے، مارے جاؤ گے،تشدد ہو گا… کہیں کوئی پر امن جگہ دیکھو…پرسکون گھر،امن والا ماحول…اور بے خطر زندگی…آخر کب تک دھکے کھاتے رہو گے…یہ شخص نہیںجانتا کہ اس کی زندگی میں اب صرف چند دن ہی باقی ہیں … اور وہ شیطان کے دھوکے میں آ کر دین کا کام چھوڑ دیتا ہے…اور پھر چند دن بعد مر جاتا ہے … بھائیو! اندازہ لگاؤ کہ کتنے نقصان میں جا پڑا…اگر چند دن اور ’’نہ دیکھو‘‘ کے حکم پر ڈٹا رہتا اور کام میں جڑا رہتا تو کتنی اچھی حالت میں موت آتی… دوسری بات یہ کہ اگر ہم خدانخواستہ اپنی آنکھیں گندی کر لیں…یعنی کافروں اور حکمرانوں کی طاقت دیکھ کر اور اسے مان کر اللہ تعالیٰ کا راستہ چھوڑ دیں تو ٹھیک ہے…ہم نے خود کو بظاہر اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے محفوظ کر لیا…اب وہ ہمیں خطرہ سمجھ کر نہ پکڑیں گے نہ ماریں گے…
مگر ہم اپنے باقی دشمنوں کا کیا کریں گے … ہارٹ اٹیک،کینسر،گردے فیل ہونا، ایکسیڈنٹ …گھریلو قتل وغارت…چور،ڈاکو،کرائے کے قاتل…
یہ سب تو اب بھی کسی وقت ہمیں مار سکتے ہیں …تو پھر اللہ تعالیٰ کا راستہ چھوڑنے سے ہمیں کیا ملا؟…موجودہ حالات میں شیطان بہت سرگرم ہو کر وساوس پھیلا رہا ہے کہ…دیکھو، دیکھو!… اے ایمان والو! شیطان کی نہ مانو…اور کہہ دو … ’’نہیں دیکھتے،ہرگز نہیں دیکھتے‘‘…ہم نے تو ایک دن وہ آزمائشیں نہیں دیکھیں جو حضرت سیدنا نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے…ساڑھے نو سو سال تک روزانہ دیکھیں…وہ ڈٹے رہے کامیاب ہو گئے …حضرات صحابہ کرام ڈٹے رہے کامیاب ہو گئے…
بس کامیابی کا نسخہ یہی ہے…استقامت، استقامت اور استقامت…اور ’’نہ دیکھو…ہرگز نہ دیکھو‘‘…جن کو وساوس کا سامنا ہے وہ روزانہ سو سو بار سورۃ فلق اور سورۃ الناس پڑھیں…اور کافروں،مشرکوں، حکمرانوں اور منافقوں کی طاقت ،قوت،وقتی جبر و ستم کو نہ دیکھیں…ہرگز نہ دیکھیں…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
ایک تاریخ ساز شخصیت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 481)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم سب کو ایمان اور راحت والی موت عطاء فرمائے…
ہمارے زمانے کے ایک بڑے عالم… بزرگ اور اللہ والے…شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا عبد المجید لدھیانوی صاحب گذشتہ کل انتقال فرما گئے…
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون…اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہُ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہْ
آج ’’ کہروڑپکا ‘‘ میں اُن کا جنازہ بڑی شان سے اُٹھا…اہلِ اسلام کا ایسا ہجوم تھا کہ شمار کرنا مشکل…علمائ، مجاہدین، طلبہ اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد،دور اور قریب ہر جگہ سے کھنچے چلے آ رہے تھے…واقعی تاریخی جنازہ تھا بلکہ تاریخ کو زندہ کرنے والا جنازہ تھا…
آپ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں…اہل حق کے جنازے عجیب شان سے اُٹھے…حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تو اپنی زندگی میں فرما دیا تھا کہ …اے حکمرانو! اے دین میں تبدیلیاں کرنے والو!
’’ بیننا وبینکم الجنائز‘‘
ہمارااور تمہارا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے…اللہ والوں کے جنازوں میں مخلوق ہر طرف سے اُمڈتی ہے…اللہ تعالیٰ کے ملائکہ بھی ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں…اور حضرات شہداء کرام کی ارواح بھی بعض خاص جنازوں میں حاضر ہوتی ہیں… گویا کہ دین کے ان خادموں کے جنازے ’’یوم مشہود ‘‘ ہوتے ہیں…وہاں حاضری ہی حاضری ہوتی ہے… فرشتے، اولیائ، خواص،عوام اور معلوم نہیں کون کون سی مخلوقات حاضرہوتی ہیں…اور ان جنازوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے…حکمران بے چارے حیرانی، حسرت،حسد اور تعجب کے ساتھ ان جنازوں کو دیکھتے ہیں…کیونکہ ان کو تو اپنے جلسوں کے لئے سرکاری ملازمین زبردستی لانے پڑتے ہیں…جبکہ ان کے جنازوں میں بے وضو افراد زیادہ ہوتے ہیں…جو دعائے مغفرت کے لئے نہیں، اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے لئے جنازے میں شریک ہوتے ہیں…
حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہوئے…دنیا کے حکمرانوں اور اہل بدعت کو یہ چیلنج کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فقیر بندے کے قول کی لاج رکھی اور امام احمد بن حنبلؒ کا ایسا شان والا جنازہ اٹھا کہ… صرف اس جنازے کے مناظر دیکھ کر اُسی دن بیس ہزار یہودی اور عیسائی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے…وقت کے حاکم نے جنازہ گاہ کی زمین ناپ کر اندازہ لگایا تو…جنازہ کے شرکاء کی تعداد سترہ لاکھ سے زائد بن رہی تھی…اس زمانے نہ جہاز تھے نہ گاڑیاں…نہ موٹروے تھے اور نہ اطلاع دینے کے برقی آلات…مگر پھر بھی اتنے مسلمان جنازہ میں حاضر ہوئے…اور پھر جو لوگ نماز جنازہ سے رہ گئے انہوں نے تدفین کے وقت قبرستان میں نماز جنازہ ادا کی…مگر پھر بھی لوگوں کا سلسلہ جاری رہا اور ایک بڑی تعداد نے ان کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی…ایک محدث لکھتے ہیں کہ مجھے شہر میں داخل ہونے کے بعد حضرت امام صاحبؒ کی قبر تک پہنچنے میں پورے سات دن لگ گئے…یعنی اتنا ہجوم تھا کہ تھوڑا سا فاصلہ بھی سات دنوں میں طے ہوا…اور بعد میں مسلمانوں کا جم غفیر ان کی قبر پر حاضری دیتا رہا…حضرت امام بخاریؒ کا انتقال دربدری کی حالت میں ہوا لیکن نماز جنازہ میں مسلمانوں کا ایسا ہجوم تھا کہ اہل اقتدار حیران رہ گئے…موت ایک لازمی حقیقت ہے
کل نفس ذائقۃ الموت
اور اس دنیا میں رہنا کوئی اعزاز و اکرام کی بات نہیں…اگر موت ،عذاب ہوتی تو حضرات انبیاء علیہم السلام پر نہ آتی…اور دنیا میں رہنا ہی اِعزاز ہوتا تو تمام انبیاء کرام اور تمام صحابہ کرام آج بھی زمین کی پشت پر موجود ہوتے…دنیا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے …جبکہ موت ایک دروازہ ہے…ہر انسان نے اس دروازے سے گذرنا ہے…اور اس دروازے کے بعد یا تو راحت ہی راحت ہے یا عذاب ہی عذاب…
حضور اقدس ﷺ نے ایک بہت ہی پُر تاثیر اور جامع دعاء سکھلا دی ہے:
اَللّٰہُمَّ اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِی ہُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِی وَاَصْلِحْ لِیْ آخِرَتِیَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَادِی،وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَادَۃً لِّیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍ وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ
اس دعاء میں پانچ چیزوں کا سوال ہے…
(۱) یا اللہ! میرا دین ٹھیک فرما دیجئے…دین ہی سب سے بڑی حفاظت ہے…
(۲) یا اللہ! میری دنیا ٹھیک فرما دیجئے … اس دنیا میں میرا معاش اور رہنا سہنا ہے…
(۳) یا اللہ! میری آخرت ٹھیک فرما دیجئے …اُسی آخرت کی طرف میں نے جانا ہے…
دین کی اصلاح، دنیا کی اصلاح، آخرت کی اصلاح
(۴) یا اللہ! میرے لئے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ فرما دیجئے…یعنی میں جتنے دن زندہ رہوں، زیادہ سے زیادہ خیریں اور نیکیاں اپنے نامہ اعمال میں بڑھاتا جاؤں…
(۵) یا اللہ! موت کو میرے لئے ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا دیجئے…یعنی موت کے دروازے میں داخل ہوتے ہی میرے لئے راحت ہی راحت ہو جائے…نہ غم، نہ پریشانی…نہ تنگی، نہ عذاب…نہ افسوس، نہ حسرت…
یہ دعاء حدیث صحیح میں آئی ہے… اللہ کرے ہر مسلمان کو یہ یاد ہو اور وہ اسے سجدے میں بھی مانگے اور رکوع میں بھی …اور اہم اوقات میں بھی اور قبولیت کے لمحات میں بھی…اس دعاء کے آخری الفاظ میں ’’حسن خاتمہ‘‘ کا سوال ہے…
وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ
ان الفاظ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ موت ’’عذاب ‘‘ نہیں ہے…بلکہ اہل ایمان کے لئے یہ راحت کا ذریعہ ہے…آرام،سکون،چین،عافیت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے میزبانی …اور اگر یہ موت شہادت والی ہو تو پھر اس میں ایک طاقتور ، زندگی بھی ہے…ایسی زندگی جو دنیا کی زندگی سے زیادہ مضبوط، زیادہ پُرتعیش اور زیادہ لذیذ ہے… جبکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو موت کے بعد جو زندگی عطاء فرمائی جاتی ہے وہ شہداء کی زندگی سے بھی زیادہ طاقتور اور وسیع ہوتی ہے…
اسلام نے ہم مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ … جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تو دوسرے مسلمان اس کی نماز جنازہ ادا کریں…یہ ایک مسلمان بھائی کا اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں پر حق ہے…اور نماز جنازہ ادا کرنے کی بہت فضیلت ہے…اگر کوئی صرف نماز جنازہ ادا کرے تو اس کے لئے ایک ’’قیراط‘‘ اجر کا وعدہ ہے…اور جو تدفین تک شریک رہے اس کے لئے دو ’’قیراط‘‘ کا اعلان ہے…اور قیراط کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک بڑے پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا اجر کا ذخیرہ ہوتا ہے…اُحد پہاڑ سے بھی بڑا…شاید میدانی اور شہری علاقوں کے رہنے والے افراد نہ جانتے ہوں کہ ایک پہاڑ اپنی لمبائی اور چوڑائی میں میلوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے…اور قیراط سے مراد عام پہاڑ نہیں بلکہ بڑا پہاڑ ہے…اسی لئے روایت میں آیا ہے کہ…ایک صحابی نے جب پہلی بار یہ حدیث دوسرے صحابی سے سنی تو افسوس کے ساتھ زمین پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہائے! ہم نے اب تک کتنے قیراط کا نقصان کر ڈالا…یعنی اگر یہ حدیث پہلے سن لیتے تو اور زیادہ محنت اور اہتمام کے ساتھ جنازوں میں شرکت کرتے…
پھر بعض جنازے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ … ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور مغفرت چھم چھم برس رہی ہوتی ہے…جب اس جنازے کے شرکاء نماز جنازہ میں دعاء کرتے ہیں
…اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا…
یا اللہ ! ہمارے زندوں کی بھی مغفرت فرما اور ہمارے وفات پانے والوں کی بھی مغفرت فرما…
تو اس دعاء کے ساتھ ہی…سب سے پہلے خود اُن کی مغفرت کر دی جاتی ہے…
چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ بعض جنازے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں اخلاص کے ساتھ شرکت کرنے والے تمام افراد کی مغفرت فرما دی جاتی ہے…
بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے…اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بہت اکرام فرمانے والے ہیں…پاکستان میں اس وقت اہل حق پر آزمائش کا دور چل رہا ہے…صرف اہل حق کو ہی ہدف بنا کر ایک اندھا آپریشن جاری ہے…اور اب تک تیس ہزار سے زائد افرادگرفتار کئے جا چکے ہیں…کئی بے گناہ افراد کو گرفتاری کے بعد سخت تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے…اس وقت ہر مسجد اور ہر مدرسہ خوفناک نگرانی کی زد میں ہے…ایسے حالات میں امت مسلمہ کے ایک غمخوار قائد کا اٹھ جانا مزید بڑا سانحہ ہے…لیکن ان کے وصال پر مسلمانوں نے جس پُر وقار اور عظیم الشان ’’اجتماعیت ‘‘ کا ثبوت دیا ہے…اور لاکھوں افراد اس مردِ درویش کے جنازے میں شریک ہوئے ہیں…اس سے حکمرانوں کو یہ سبق ضرور مل چکا ہو گا کہ…علماء اور مجاہدین اس ملک کی ایک حقیقت ہیں…اور انہیں کمزور یا قلیل سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش…مزید بدامنی کا ذریعہ بنے گی…کیونکہ یہ لوگ ایک قلبی نظریاتی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں…اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمزور نہیں ہیں…حضرت اقدس مولانا عبد المجید صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ…ہمارے اکابر میں سے تھے… آپ ایک مایہ ناز محدث، محقق اور زمانہ ساز مدرس تھے … آپ جہاد کے پُرجوش داعی اور تحفظ ختم نبوت کے جری سالار تھے…آپ حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک کو پرکھنے والے اُن گنے چنے اہل تحقیق میں سے تھے کہ…جنہوں نے اس تحریک کو مکمل گہرائی کے ساتھ سمجھا…اور اس تاریخی جہادی سفر کے چپے چپے کی داستان کو یاد کیا…حضرت لدھیانویؒ جب کبھی حضرت سید احمد شہیدؒ کے مزار پر حاضر ہوتے تو جہاد بالاکوٹ کا ایسا مدلل اور مفصل نقشہ بیان فرماتے کہ سننے والے ششدر رہ جاتے … انڈیا سے رہائی کے بعد جب پاکستان آنا ہوا تو حضرت ؒ نے بندہ کے ساتھ کئی بار بہت مثالی شفقت کا معاملہ فرمایا…وہ سارے مناظر آج بھی یاد آتے ہیں…اللہ تعالیٰ حضرت ؒ کو مغفرت ،رحمت اور اکرام کے اعلیٰ مراتب عطاء فرمائے…آمین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
آخری گھنٹے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 480)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مغفرت،ثابت قدمی اور نصرت عطاء فرمائے
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ
ایک سچی کہانی
آج کی مجلس میں ایک سچی کہانی عرض کرنی ہے…اور اسی کہانی کی روشنی میں موجودہ حالات پر چند باتیں…اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرمائے
گیارہ فروری 1994ء…کشمیر کے علاقہ ’’اننت ناگ‘‘ سے ہماری گرفتاری ہوئی…پہلے کچھ دن کھندرو کیمپ میں رکھا گیا…اور پھر بادامی باغ کے ’’آرمی عقوبت خانے‘‘ آر آر سینٹر منتقل کر دیا گیا…یہ کہانی بادامی باغ سری نگر کے اسی عقوبت خانے کی ہے
دنیا دھوکے اور امتحان کی جگہ
دنیا ہر انسان کا عارضی گھر ہے…اور یہ امتحان گاہ ہے… اللہ کے دشمن کرسیوں پر اور اللہ کے دوست سولیوں پر…اللہ کے دشمن ہنستے دمکتے …اور اللہ کے دوست روتے بلکتے درد سے کراہتے …اللہ کے دشمن حکمران اور اللہ کے دوست قید میں …یہ سب کچھ امتحان ہے کہ…کون اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفادار رہتا ہے اور جنت خریدتا ہے…اور کون دنیا کے یہ رنگ دیکھ کر گمراہ ہو جاتا ہے… آج 26جنوری تھی اس زمانے کا ابرہہ یعنی اُبامہ اور اس زمانے کا ابو جہل یعنی مودی…کس قدر خوش تھے…ان کے گرد بڑی فوج،بڑے پہرے تھے …انڈیا میں یوم آزادی کی پریڈ تھی…کافروں نے اپنی شان و شوکت دکھانے کی ہر کوشش کی … منافقین منہ میں رال لئے اُن کو دیکھتے رہے کہ… کاش ہمیں بھی ایسی عزت ملے… جبکہ اہل ایمان پر آج کا دن بھی آزمائش والا گزرا… چھاپے ، گرفتاریاں،غم، آنسو…اور ایک دوسرے کو دلاسے…پاکستان کی موجودہ حکومت نے تو ظلم اور کفر نوازی میں سابقہ تمام حکومتوں کو مات دے دی ہے…مگر ظلم کا انجام بھی بھیانک ہوتا ہے…یہ حکومت اور اس کے حکمران بھی…بد دعاؤں کی زد میں آنے کو ہیں…انہوں نے تو چادر اور چار دیواری کے تقدس کو بھی روند ڈالا ہے…اور یہ دنیا کی واحد اسلامی حکومت ہے جو نعوذ باللہ جہاد جیسے مقدس اسلامی فریضے کو ’’جرم‘‘ قرار دے کر عذاب الہٰی کو آوازیں دے رہی ہے…دنیا امتحان کی جگہ ہے یہاںموٹی اور تنی ہوئی گردنوں والے حکمرانوں کو…ایک وقت تک ڈھیل دی جاتی ہے…اور پھر رسی کھینچ لی جاتی ہے…دوسری طرف اہل ایمان ہمیشہ آزمائے جاتے ہیں…انبیاء علیہم السلام اور ان کے بعد سچے ایمان والے…طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالے جاتے ہیں…اور یہ آزمائشیں ان کے لئے حقیقی کامیابی کی ضمانت اور جنت کا ٹکٹ بن جاتی ہیں…جبکہ کافروں اور منافقوں کو جو کچھ دینا ہوتا ہے اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے…اور آخرت میں ان کے لئے عذاب کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہوتا…آج دنیا بھر کی جیلوں میں اہل ایمان…اپنی ایمانی آزمائش کے دن کاٹ رہے ہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سچے اہل ایمان میں شمار فرمائے…ہم نے بھی چند سال جیل کاٹی…اس قید کا پہلا سال سری نگر کے بادامی باغ میں گذرا…
قانون بدل جاتے ہیں
غزوہ بدر سے لے کر جہاد افغانستان تک … ہر جہاد میں کافروں کو ایسی مار پڑی کہ جہاد کے نام سے ان کی روحیں کانپتی ہیں…اسی لئے منافق حکمرانوں کو استعمال کرتے ہیں کہ…جہاد کے خلاف کام کرو… آج دنیا کی ہر جیل میں خواہ وہ مسلمانوں کے ممالک کی ہو یا کفار کے ملکوں کی… مجاہدین کے لئے الگ سیل ہوتے ہیں،الگ طرح کا تشدد ہوتا ہے …اور ان کے لئے ملک کا ہر قانون تبدیل کر دیا جاتا ہے…
پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں …کئی مسلمان پھانسی پر لٹکا دیئے گئے…ان کا کیس لڑنے والا ایڈووکیٹ چیختا رہا کہ… پرویز مشرف خود زندہ ہے توپھر کوئی اس کا قاتل کیسے بن گیا؟…مگر یہ لوگ داڑھیوں والے تھے،دین سے نسبت رکھتے تھے تو انہیں بے دردی سے لٹکا دیا گیا …یعنی زندہ مقتول کے قاتل مار دیئے گئے… جبکہ صولت مرزا نے ایک سو قاتلانہ وارداتوں کا اقرار کیا…مگر چونکہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ ابھی تک زندہ ہے…معلوم نہیں یہ حکمران کس منہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے…بادامی باغ کا آر آر سینٹر کوئی جیل نہیں تھا…وہ ایک تفتیشی مرکز تھا…قانون کے مطابق وہاں کسی بھی قیدی کو صرف نوے دن تک رکھنے کی اجازت تھی…پھر یا تو اسے رہا کر دیا جاتا تھا یا کیس بنا کر جیل بھیج دیا جاتا تھا…یہ بہت تنگ اور اذیت ناک جگہ تھی… وہاں نوے دن رہنا بھی آسان کام نہیں تھا…مگر جب ہمارا معاملہ آیا تو یہ قانون بھی تبدیل ہو گیا اور ہمیں ایک سال کے لگ بھگ غیر قانونی طور پر اس سینٹر میں رکھا گیا…مقامی کشمیری مجاہدین آتے اور چلے جاتے مگر ہم پاکستانی اپنے تنگ اور تاریک سیلوں میں پڑے رہ جاتے…اور ہمیں کہا جاتا کہ تم نے بس یہیں رہنا ہے، یہیں مرنا ہے…اسی دوران کسی خیرخواہ نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ لوگ یہاں سے نکلنے کے لئے کچھ کریں…کیونکہ یہاں رہتے ہوئے نہ تو آپ کا اپنے گھروں سے رابطہ ممکن ہے …اور نہ ساتھیوں سے…اور چونکہ آپ لوگوں کو یہاں غیر قانونی طور پر رکھا گیا ہے تو اس لئے جب …معاملہ اوپر تک جائے گا تو شاید قانون کے مطابق آپ کو جیلوں میں شفٹ کر دیا جائے…مشورہ معقول تھا اور آپس کے مشورے میں طے پایا کہ بھوک ہڑتال کی جائے…ایسی بھوک ہڑتال جس میں جان نہ جائے کہ خود کشی ہو …مگر حکام پر کچھ دباؤ آ جائے…ہم بارہ افراد تھے…اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ہم نے بھوک ہڑتال شروع کر دی…اور مطالبہ یہ رکھا کہ ہمیں بھی جیل منتقل کیا جائے…
آزمائش کے آٹھ دن
ہم پہلے ہی عقوبت خانے کی آزمائش میں تھے …اب ساتھ بھوک ہڑتال بھی چل پڑی… ابتداء میں مقامی حکام نے سمجھانے کی کوشش کی …مگر ہم مضبوط رہے…پھر انہوں نے زور زبردستی شروع کی…مگر ہم ڈٹے رہے…وہ ہمیں اپنی سیلوں سے نکال کر باہر برآمدے میں بٹھا دیتے اور ہمارے سامنے ابلے ہوئے چاولوں کی پلیٹیں رکھ کر…بھاشن دیتے کہ آپ لوگ کھانا کھا لو…کھانا نہ کھانے سے آپ کا مسئلہ حل ہونے والا نہیں…کھانا نہ کھانے میں آپ لوگوں کا اپنا ہی نقصان ہے…اور آپ کا دھرم(دین) بھی بھوک ہڑتال کی اجازت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ…اس وقت ہم اپنا مطالبہ دہراتے کہ نہیں ہم نے ہرگز کھانا نہیں کھانا…آپ لوگ کم از کم اپنے قانون کا تو احترام کرو وغیرہ…
یہ سلسلہ چار دن چلا …ہمارے بعض ساتھی کمزور ہو گئے اور بعض بیمار…مجبوراً مقامی حکام کو اوپر بتانا پڑا…تب ویڈیو کیمرے لا کر ان کے سامنے وہی سب کچھ کیاگیا جو روز ہوتا تھا…پھر بعض ساتھی بیمار ہو گئے تو انہیں آرمی کے ہسپتال لے جایا گیا…جہاں ان کی داڑھیاں کاٹ دی گئیں اور زبردستی ان کی بھوک ہڑتال ختم کرا دی گئی… باقی جو ساتھی رہ گئے ان کو روز ڈرایا دھمکایا جاتا… مختلف طریقے سے خوف پھیلایا جاتا…اور بعض ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا…
آخری دن
بالآ خر وہ دن آ گیا جس میں ہمارے لئے فتح اور آسانی مقدر تھی…مگر انسان کہاں جانتا ہے کہ کون سا دن فتح والا ہے اور کون سا دن شکست والا …اس دن کا آغاز بہت مشکل تھا مگر اختتام بہت پیارا…صبح سے ہی ہمیں ڈرانے،دھمکانے کا عمل تیز ہو گیا…بعض ساتھیوں کو میڈیکل روم لے کر جا کر سخت مارا گیا…اور پھر انہیں نڈھال حالت میں لا کر ہمارے سامنے گھسیٹتے ہوئے اپنے سیلوں میں ڈال دیا گیا…حکام اس دن سرخ آنکھوں کے ساتھ آتے اور طرح طرح کی گالیاں بکتے…اور کہتے کہ آج اگر تم نے بھوک ہڑتال نہ توڑی تو ہم تمہیں ’’بی ایس ایف‘‘ کے ٹارچر سیل ’’پاپا ٹو‘‘ میں ڈال دیں گے…’’پاپاٹو‘‘ کے تشدد کی داستانیں وہاں بہت عام اور بہت دردناک تھیں…
جب دو ساتھیوں کو بہت مارا گیا تو …ان کی حالت دیکھ کر اکثر ساتھیوںکا غم سے برا حال ہو گیا …انسان اپنی تکلیف سہہ لیتا ہے مگر اپنے عزیز ساتھیوں کی تکلیف سے دل زخمی ہو جاتا ہے… ایک معزز ساتھی کسی طرح میرے سیل پر آئے اور کہنے لگے …اب ہمیں بھوک ہڑتال توڑ دینی چاہیے …اور ساتھیوں کو کھانے پینے کی اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ…ظلم اور تشدد بہت بڑھ گیا ہے…اور اگر ہماری قسمت میں اسی عقوبت خانے کا دانہ پانی ہے تو …اپنے مقدر کو قبول کر لینا چاہیے …اب ساتھیوں کو مزید مار کھاتے دیکھنا میرے بس میں نہیں…آپ اس پر ہمدردی سے سوچ لیں … میں ان کی بات سے متاثر ہوا اور کہا کہ میں دو رکعت پڑھ کر استخارہ کرتا ہوں…پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں…اللہ اکبر کبیرا…وہ عجیب دردناک لمحات تھے…کمزوری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز ادا نہیںکر سکتا تھا…اب دل پر مزید بوجھ کہ اگر ہم بھوک ہڑتال توڑیں تو…مشرکین کے سامنے اہل اسلام کی پسپائی اور ظاہری شکست ہے…اور اگر بھوک ہڑتال جاری رکھیں تو…مظلوم اور مسافر مجاہدین پر مزید تشدد کے ہم ذمہ دار بنتے ہیں… اس وقت جو حالت تھی،کیفیت تھی،درد تھا اور بے بسی تھی اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے… بیٹھے بیٹھے دو رکعت نماز ادا کی اور دعاء میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی…ذہن اسی طرف جا رہا تھا کہ ساتھیوں کو تشدد سے بچایا جائے اور بھوک ہڑتال ختم کر دی جائے…دعاء کے دوران بوٹوں کی زور دار آواز آئی…ایک سپاہی تیزی سے میرے سیل کے سامنے آیا بلند آواز سے مجھے برا بھلا کیا…کھانا کھانے کا اصرار کیا اور اسی درمیان چپکے سے منہ قریب کر کے کہا…آپ کا مسئلہ حل ہونے والا ہے …چند گھنٹے ہیں، مضبوط رہنا…یہ آہستہ سے یہ کہہ کر پھر بلند آواز سے بھوک ہڑتال توڑنے کا کہتا ہوا تیزی سے واپس چلا گیا…اور یوں …غریب ،مسافر،بے بس،نڈھال اور کمزور مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت آ گئی…اس نے چند گھنٹوں والی جو بات کہی تھی وہ فوراً سب ساتھیوں کو بتا دی گئی…اور سب کے جذبے دوبارہ جوان ہو گئے…
آخری گھنٹے
غالباً اوپر کے حکام نے نیچے والوں کو اب یہ آخری تین چار گھنٹے دئیے تھے کہ ان میں …جو کر سکتے ہو وہ کر کے بھوک ہڑتال ختم کراؤ…ورنہ ہمیں مجبورا ًان کو جیل میں منتقل کرنا پڑے گا… بس پھر کیا تھا…
عقوبت خانے کے حکام نے ہم پردباؤ کی حد کردی… ایسا سخت دباؤ کہ اگر ہمیں پہلے سے اطلاع نہ مل چکی ہوتی تو یقینا ہم ٹوٹ جاتے… آخر گوشت پوست کے بنے کمزور انسان تھے… ان آخری چار گھنٹوں میں ایسا خوفناک اور دہشت ناک ماحول بنایا گیا کہ…کبھی کبھار دل مکمل طور پر بیٹھ جاتا اور یہ خیال آتا کہ شاید وہ اطلاع بھی جھوٹی ہے…اور ہمیں پھنسانے کے لئے خود ہی غلط اطلاع دی گئی ہے…مگر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی …اور ہم ان کی سختی کے مقابلے میں پہلے سے بھی زیادہ سختی،مضبوطی اور عزیمت دکھانے لگے… بالآخرچار گھنٹے یہ خونی تماشا ختم ہوا…سرخ آنکھوں والے چہرے مسکراتے ہوئے آئے… کچھ نئے لوگ بھی ساتھ تھے…ہمیں مبارک باد دی کہ ابھی گاڑیاں پہنچ رہی ہیں…آپ کوٹ بھلوال جا رہے ہیں …چلو ہمارا آخری کھانا کھا لو…ہم نے کہا: ہم کوٹ بھلوال جا کر کھا لیں گے …تھوڑی دیر میں گاڑیاں آ گئیں اور ہم تنگ جیل سے ایک کھلی جیل کی طرف روانہ ہو گئے…
موجودہ حالات
الحمد للہ کفر کے اتحادی لشکر عبرتناک شکست کھا چکے ہیں…زمانے کا مؤرخ حیران ہے کہ اس واقعہ کو کیسے لکھے کہ…چالیس ملکوں کے مشترکہ اتحادی لشکر نے افغانستان میں اکیلے طالبان سے شکست کھائی ہے…ایٹمی طاقتوں کا غرور ٹوٹ چکا ہے…اور وہ جس جہاد کو مٹانے نکلے تھے وہ جہاد خود ان کے ملکوں میں داخل ہو چکا ہے…اور مجاہدین کے بڑے بڑے نئے لشکر وجود میں آ چکے ہیں…افغانستان سے غیر ملکی افواج تیزی سے نکل رہی ہیں…مگر وہ جاتے جاتے آخری لمحات میں ایسا خوف، ایسا ظلم اور ایسی دہشت مچانا چاہتے ہیں کہ…شاید اس کی وجہ سے وہ مجاہدین سے اپنی شکست کا بدلہ لے سکیں…اور اپنی شرمندگی کو کچھ کم کر سکیں…ساتھ ہی وہ ’’ پاکستان‘‘ کو اپنی شکست کا بڑا ذمہ دار سمجھتے ہیں …اور چاہتے ہیں کہ … جاتے جاتے اس ملک کو کھنڈر بنا جائیں…
بس اب آخری گھنٹوں کا خونی کھیل شروع ہے…پاکستان میں ہر طرف مارو،پکڑو، لٹکاؤ کی آوازیں ہیں…اور یہ ملک ایک نئی خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے…اور مجاہدین پر ہر طرف سے دباؤ ہے،تشدد ہے اور سخت پابندیاں ہیں…ہاں! شکست کھانے والا کفر ہمیشہ آخری گھنٹوں میں … یہی حرکت کرتا ہے…مگر اے مجاہدین اسلام!
یہ تو سوچو کہ…گذشتہ چودہ سال تم کس کی نصرت سے ’’فتح یاب‘‘ ہوئے؟…ہاں! صرف ایک اللہ کی نصرت سے…صرف اللہ تعالیٰ کی نصرت سے…
تو پھر ان آخری گھنٹوں میں بھی…اللہ تعالیٰ موجود ہے…وہ ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا… حوصلہ رکھو، ایک دوسرے کو حوصلہ دلاؤ…تشدد سے نہ گھبراؤ…پابندیوں اور بیانات سے نہ ڈرو… اللہ تعالیٰ کل بھی موجود تھا، آج بھی موجود ہے… اللہ تعالیٰ کل بھی ناصر تھا…آج بھی ناصر ہے… اسی کی طرف رجوع کرو…اور اسی کو پکارو…
اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ، اللّٰہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مسلمان کا اس دنیا میں اور کیا کام؟
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 479)
اللہ تعالیٰ نے ’’زکوٰۃ‘‘ میں برکت بھی رکھی ہے اور رحمت بھی… مسلمان جب خوشی،جذبے اور شوق کے ساتھ ’’زکوٰۃ‘‘ ادا کرتے ہیں تو ان کا مال خوب پاک ہو جاتا ہے اور بہت بڑھ جاتا ہے … اور آسمان سے برکت والی بروقت بارش ہوتی ہے … ایسی بارش جو قحط،بیماری اور نحوست کو دور کر دیتی ہے…مگر افسوس کہ مسلمان ’’زکوٰۃ‘‘ کے بارے میں بہت ظلم کرنے لگے ہیں…بہت سے مسلمان زکوٰۃ ادا ہی نہیں کرتے…کتنا بڑا جرم ہے،کتنا بڑا …اسلام کے ایک محکم اور قطعی فریضے کو چھوڑ دینا …واقعی بڑا دردناک جرم ہے…
اور بہت سے مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں … مگر رو رو کر،ناپ ناپ کر اور بجھے دل کے ساتھ … ہائے افسوس کہ اتنی بڑی خوشی کے موقع کو اپنے لئے غم بنا دیتے ہیں…زکوٰۃ تو فرض ہے…اور ایک مسلمان فرض ادا کرتے وقت اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے ایک ایک بال پر لذت طاری ہو جاتی ہے…اور اس کا دل خوشی سے رقص کرتا ہے کہ…الحمد للہ، الحمد للہ مجھے اپنے رب کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق ملی…اللہ والے تو مال ملنے پر پہلی خوشی ہی یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ہم ایک اسلامی فریضہ ادا کرنے کے قابل ہو گئے…سبحان اللہ! اب ہم زکوٰۃ ادا کریں گے…یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان الحمد للہ حج پر تو خوش ہوتے ہیں…اچھی بات ہے…مگر زکوٰۃ پر خوش نہیں ہوتے…شاید شیطان کی محنت کا اثر ہے…ورنہ غریب سے غریب مسلمان کے لئے مال میں پہلی خوشی یہ ہوتی تھی کہ …اس میں سے زکوٰۃ ادا کریں گے … ارے بھائیو! اور بہنو! ساری دنیا کی نفل عبادت مل کر ایک فرض کے برابر نہیں ہو سکتیں…اور اسلام کی پوری عمارت ’’فرائض‘‘ پر کھڑی ہے…فرائض کے برابر نہ کوئی سنت ہو سکتی ہے اور نہ کوئی اور غیر فرض نیکی…ہم نے اپنی زندگی میں خوشی خوشی حج کرنے والے تو بہت مسلمان دیکھے ہیں…مگر دل کے شوق اور مزے کے ساتھ زکوٰۃ نکالنے والے بہت کم دیکھے ہیں…ایک صاحب کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی…ان کو زکوٰۃ نکالنے کا ایسے شوق تھا جس طرح کسی چیز کے عادی انسان کو اس چیز کا شوق ہوتا ہے…وہ سال پورا ہونے سے پہلے اپنے سارے مال کی زکوٰۃ ادا کر دیتے…مگر ان کا دل نہیں بھرتا تھا…پھر اپنے منشی کو بلا کر کہتے کہ یار اگلے سال کی زکوٰۃ بھی حساب کرکے نکال دو…یوں ہر وقت اگلے کئی کئی سالوں کی پیشگی زکوٰۃ ادا کرتے رہتے…مگر ان کا مال اتنا بڑھ جاتا کہ سال کے آخر میں انہیں حساب کر کے مزید زکوٰۃ ادا کرنا پڑتی…جس پر ان کی خوشی اور بڑھ جاتی…بس اس اللہ کے بندے کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ …فرائض اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں…فرائض کے ذریعے انسان کو اللہ تعالیٰ کا خصوصی قرب ملتا ہے…اور فرائض سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں…چنانچہ اس کے دل میں فرائض کی محبت بیٹھ گئی…وہ فرائض سے عشق کرنے لگا…فریضہ نماز خود بھی ادا کرتا اور دوسروں کے لئے مسجدیں بھی بناتا…جماعت کی ایک بڑی مسجد اس نے اکیلے ہی بنا کر دے دی…زکوٰۃ کا اسے حرص تھا،اس کا بس چلتا تو روز اپنا مال گن کر ہر دن چالیسواں حصہ زکوٰۃ نکال دیتا…ہاں واقعی مال کا اصل فائدہ ہی یہ ہے کہ اس سے اپنے محبوب کی محبت حاصل کی جائے…حج بھی وہ پابندی سے کرتا اور اپنے ساتھ بہت سے غریب مسلمانوں کو بھی حج کراتا…اور فریضہ جہاد میں بھی اس نے دل کھول کر مال لگایا…اللہ کرے وہ جہاں بھی ہو…اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہو…زکوٰۃ کی وجہ سے اس کے مال میں بے حد برکت تھی…ایک بار بتا رہے تھے کہ میں نے سال کے شروع میں سارا مال شمار کر کے دو سال کی زکوٰۃ ادا کر دی…سال کے آخر میں جب حساب ہوا تو مال اس قدر بڑھ چکا تھا کہ وہ دو سال کی زکوٰۃ …ایک سال کے لئے بھی پوری نہ ہوئی… چنانچہ مزید زکوٰۃ نکالی…یعنی اس سال ان کے مال میں سو فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا…مگر وہ کبھی بھی اس نیت سے زکوٰۃ نہیں نکالتے تھے کہ مال میں برکت ہو…بلکہ ہمیشہ یہی نیت کہ اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو…اللہ تعالیٰ کا فرض ادا ہو…اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت نصیب ہو…جبکہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو طرح طرح کی تاویلیں کر کے…زکوٰۃ سے اپنی جان بچاتے ہیں…یعنی اپنی جان کو نعمت زکوٰۃ سے محروم رکھتے ہیں…مغلیہ خاندان کے دور اقتدار میں ایک قاضی تھے…ان کے علمی مقام کی وجہ سے ان کو بادشاہ سے بڑے بڑے انعامات اور ہدایا ملتے تھے مگر ان پر بخل کا کینسر حملہ آور تھا…وہ گیارہ مہینے مال اپنے پاس رکھتے اور بارہویں مہینے وہ سارا مال اپنی بیوی کو ہدیہ کر دیتے…زکوٰۃ کے وجوب کے لئے مال پر ایک سال گزرنا شرط ہے تو وہ کہتے کہ…میرے پاس تو یہ مال ایک سال رہا نہیں اس لئے مجھ پر زکوٰۃ نہیں ہے…اور بیوی بھی خاوند جیسی تھی، وہ گیارہ مہینے بعد سارا مال خاوند کو ہدیہ کر دیتی…یوں دونوں نے پوری زندگی زکوٰۃ ادا نہ کی…ان کی اولاد بھی نہیں تھی…دونوں سارا مال چھوڑ کر مر کھپ گئے اور بادشاہ نے وہ مال اٹھوا کر شاہی خزانے میں جمع کرا دیا…اکثر عورتیں اس مرض کا شکار ہیں کہ … زیور کی زکوٰۃ ادا کرنے سے ڈرتی ہیں کہ وہ کم ہو جائے گا…اری مسلمان بہن! ایسے مال اور ایسے زیور کا کیا فائدہ جس سے تم اسلام کے ایک اہم فریضے کو ادا نہ کر سکو…مسلمان تو دنیا میں آیا ہی … ایمان پر قائم رہنے،فرائض ادا کرنے،دین پر عمل کرنے،دین کیلئے غیرت کھانے،مخلوق کے شرعی حقوق اداکرنے اور ایمان پر مرنے کے لئے ہے …مسلمان کا اس دنیا میں اور کیا کام؟…کھانا،پینا،خواہشات پوری کرنا … اور جائدادیں بنانا؟یہ کسی مسلمان کا مقصد زندگی نہیں ہو سکتا…یہ تو جانوروں اور کافروں کا مقصد حیات ہے…مسلمان تو اس تاک میں رہتا ہے کہ کب وقت داخل ہو تو میں فرض ادا کروں …کب مال ملے تو میں زکوٰۃ ادا کروں اور اس مال سے جنت خریدوں…کئی غریب لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ شرعاً ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی مگر ان کو سو روپے بھی ہاتھ آ جائیں تو فوراً ڈھائی روپے نکال کو زکوٰۃ ادا کر دیتے ہیں کہ…چلو ایک فرض کی مشابہت اور صدقہ کا اجر تو مل جائے گا…سو روپے میں سے ڈھائی روپے نکالنے سے کیا کمی آتی ہے؟ …کچھ بھی نہیں …مگر یہی ڈھائی روپے جب نکال دئیے جائیں تو وہ کروڑوں سے بھی زیادہ قیمتی بن جاتے ہیں…کیونکہ ایک فرض کو زندہ کرنے کے لئے نکالے گئے ہیں…اور فرائض پرہی دین قائم ہے …اور فرائض پر ہی دنیا قائم ہے…آج ہمارے ملک میں بارش کا بحران ہے…اس سال کئی علاقوں میں خوفناک قحط پڑا ہے…ہر طرف خشک سالی ہے…اور حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی نحوست بھی…ان حالات کو دیکھ کر خیال آیا کہ مسلمانوں کو…زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی جائے…اور زکوٰۃ کا شوق دلایا جائے…اسی مقصد کے تحت یہ چند سطریں لکھی ہیں…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے…خود بھی عمل کریں اور دوسرے مسلمان تک بھی یہ پیغام پہنچائیں … ہمارا ملک اس وقت بہت خطرناک دور سے گزر رہا ہے…پرویز مشرف کے جن اقدامات کی وجہ سے اس پُر اَمن ملک میں ’’بد امنی ‘‘ آئی…موجودہ حکومت انہی اقدامات کو زیادہ شدت کے ساتھ نافذ کر رہی ہے…عجیب بات ہے کہ کلمہ پڑھنے والے اور خود کو مسلمان کہلانے والے حکمران … اسلام کے ایک قطعی فریضے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کو نعوذباللہ گالی اور جرم بنا کر پیش کر رہے ہیں …
توبہ،توبہ،استغفر اللہ،استغفر اللہ
کیا ان لوگوں نے قرآن مجید نہیں پڑھا؟ … کیا ان لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ نہیں پڑھی؟…یہ جن کافروں کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں…وہ کافر ان کے کسی کام نہیں آئیں گے…الٹا یہ ملک زیادہ بد امنی کا شکار ہو جائے گا…کیونکہ حکمران جو دہشت پھیلا رہے ہیں…یہی بعد میں دہشت گردی بن جاتی ہے…یقین نہ آئے تو پاکستان کے گذشتہ بیس سال کے حالات کو سامنے رکھ لیں…اب تو امریکہ اور یورپ سے خود مجاہدین…اٹھ رہے ہیں …حالانکہ وہاں نہ تو کوئی مدرسہ ہے…اور نہ کوئی ’’جہادی تنظیم‘‘ …وہاں نہ تو عورتوں پر کوئی پابندی ہے…اور نہ لاؤڈ سپیکر کھلے ہیں…مگر ہزاروں یورپین مسلمان…جہاد کے لئے شام و عراق پہنچ چکے ہیں…اور ابھی حال ہی میں تین چار مجاہدین نے…پیرس کے گستاخانِ رسول کو خاک میں ملا دیا ہے…جمعۃ المبارک کے مقدس دن شہید ہونے والے…شریف کواچی شہید اور سعید کواچی شہید کی تدفین خفیہ مقامات پر کر دی گئی ہے…اندازہ لگائیں کہ خود کو ایٹمی پاور اور سپر پاور کہلوانے والے ممالک…مجاہدین کی لاشوں تک سے ڈرتے ہیں…ابھی تیسرے مجاہد احمدی شہید کی تدفین باقی ہے…یقیناً ان کی خوشبودار،کشادہ اور پُرتعیش قبر بے چینی سے ان کا انتظار کر رہی ہو گی کہ… کب محبوب آئے گا تو اسے لذتوں اور مزوں سے سرشار کر دوں گی…
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو…شہدائے ناموسِ رسالت پر…اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو تمام شہدائے اِسلام پر…
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللّٰہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 478)
اللہ تعالیٰ کا سلام اور بے شمار رحمتیں…اُن شہداء کرام پر جنہوں نے عشق رسول ﷺ کا حق اَدا کر دیا…پیرس میں اِسلامی غیرت اور عشقِ محمد ﷺ کی شمع اپنی جان سے روشن کرنے والو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قلم ہاتھ سے چھوٹتا ہے
سبحان اللہ ! کیسا تاریخی واقعہ ہے اور وہ تینوں شہداء کتنے عظیم ہیں…سچ کہتا ہوں جوش ،جذبے اور عقیدت سے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور قلم ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے…گستاخانہ خانے بنانے والوں پر تڑ،تڑ گولیاں برسانے والے…بڑا اونچا مقام لُوٹ گئے… جس کے دل میں بھی ایک ذرہ برابر عشق رسول ﷺ ہو گا وہ ضرور…ان شہداء کرام کو خراج تحسین پیش کرے گا…ان کے لئے دعاء مانگنا اپنی سعادت سمجھے گا…مجھے تو اس ولولے اور خوشی کے موقع پر ایک شعر بھی سوجھا ہے…
میرے آقا کی محبت کا یہ منظر دیکھو
مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے
من لی بھذا الخبیث؟
ہم جب اپنے آقا مدنی ﷺ کی زندہ سیرت پڑھتے ہیں تو اس میں ہمیں یہ اَلفاظ ملتے ہیں:
’’ من لی بھذا الخبیث‘‘
کون ہے؟کون ہے، جو میرے لئے… یعنی محض میری عزت و حرمت کے لئے اس خبیث کو ختم کر دے…کون ہے اس خبیث کے مقابلے میں میری نصرت کرنے والا؟…یہ ۲ھ کا واقعہ ہے…ایک یہودی تھا ’’ابو عفک‘‘ … بہت بڈھا… بہت ناپاک اور بہت منہ پھٹ…یعنی اس زمانے کا ’’چارلی ایبڈو‘‘…وہ حضرت آقا مدنیﷺ کی گستاخی میں اَشعار بکتا تھا…گویا کہ اللہ تعالیٰ کو گالیاں بکتا تھا…حضور اقدس ﷺ کی گستاخی …دراصل اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے…حضور اقدس ﷺ کی گستاخی…ہزاروں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ خطرناک جرم ہے…کیونکہ یہ جرم انسانوں کے لئے جہنم اور ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی کے دروازے کھولتا ہے… حضور اقدس ﷺ کی شان اَقدس میں گستاخی پورے پورے شہروں کو آبادیوں سمیت جلا دینے سے بھی زیادہ مہلک اور نقصان دِہ گناہ ہے…یہ گناہ ایک ہستی کے خلاف نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے خلاف ہے… ابو عفک یہودی کی گستاخی جب حد سے گذر گئی تو حضرت آقا مدنیﷺ نے انسانیت کی حفاظت کے لئے نہایت درد کے ساتھ فرمایا:
’’ من لی بھذا الخبیث‘‘
کون ہے میرا مددگار،اس خبیث کے بارے میں؟
سبحان اللہ ! سعادت کا قرعہ حضرت سیدنا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ کے حق میں نکلا…انہوں نے حضرت آقا مدنی ﷺ کے اَلفاظ مبارک سنے تو تڑپ اُٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! میں نے پہلے ہی منت مانی ہوئی ہے کہ ’’ابو عفک ‘‘ کو قتل کر دوں گا یا خود مر جاؤں گا… پھر فوراً تلوار لے کر نکلے اور اس ظالم ،موذی،کینسر، ایڈز، ایبولا کو ختم کر دیا… چارلی ایبڈو رسالے نے جب حضور اقدس ﷺ کی شان عالی مقام کی گستاخی کا ارتکاب کیا…کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر خنجر چلایا… احتجاج کے باوجود اَڑیل گدھوں کی طرح اپنی ضد پر اَڑے رہے…اور اپنی سکیورٹی پر ناز کرتے ہوئے اپنی گستاخی پر قائم رہے تو میں سوچتا ہوں…گنبد خضراء سے آواز آتی ہو گی…
’’ من لی بھذا الخبیث‘‘
کون ہے؟ کون ہے،میرا عاشق،میرا جانباز اس خبیث رسالے کے مقابلے میں؟
آہ! چار سال تک یہ آواز آتی رہی…ہم مسلمان روتے رہے، بلکتے رہے، شرم میں ڈوبتے رہے…کئی دیوانے چاقو چھریاں لے کر روانہ بھی ہوئے مگر پکڑے گئے یا مارے گئے… کئی دیوانے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر روئے بھی… ہر ایک چاہتا تھا کہ پکار کر کہے:
انایارسول اللّٰہ،انایارسول اللّٰہ
میں ہوں، میں ہوں…اے اللہ کے رسول! آپ کی عزت و حرمت کا بدلہ لینے والا… مگر قسمت جاگی تو شریف اور سعید کی…وہ مکمل تیاری کے ساتھ اپنے ہدف پر پہنچے اور ایسی جنگ لڑی کہ آسمان بھی جھک جھک کر دیکھتا اور سلام کرتا ہو گا… چارلی ایبڈو کا غرور اور گستاخی خاک میں مل گئی…کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر شفاء کا مرہم لگا…سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم … دنیا نے دیکھ لیا کہ اسلام کی گود ابھی بانجھ نہیں ہوئی…اور حضرت آقا مدنی ﷺ کی محبت کا سورج آج بھی…الحمد للہ نصف النہار پر ہے…
میرے آقا کی محبت کا یہ منظر دیکھو
مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے
انصارِ محمد ﷺ
ہم جب اپنے آقا ﷺ کی سیرت مبارکہ پڑھتے ہیں تو اس میں ایک ایسا خوش نصیب ،خوش بخت، عالی مقام اور قابل رشک شخص بھی نظر آتا ہے جو آنکھوں سے معذور تھا مگر …اس کے دل کی آنکھیں روشن تھیں…
اُن کا اسم گرامی تھا…حضرت سیدنا عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ
سب پڑھنے والے جھوم کر والہانہ دعا کریں:
رضی اللہ عنہ، رضی اللہ عنہ، رضی اللہ عنہ واَرضاہ
مدینہ منورہ میں ایک بدبخت عورت تھی… عصماء یہودیہ… یہ بھی حضورِ اقدس ﷺ کی شان مبارک میں گستاخانہ اَشعار بکتی تھی…حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ اس نجاست کو ضرور ختم فرمائیں گے…اور پھر رمضان المبارک کی ایک رات انہوں نے یہ سعادت حاصل کر لی…
ارے ! یہ تو ایسی عظیم عبادت اور عظیم سعادت ہے کہ…کوئی شخص سو سال تک کعبہ شریف میں عبادت کرتا رہے اور نہ تھکے…اور کوئی شخص سو سال تک مسجد نبوی شریف میں اِعتکاف کرے اور ہر نماز پہلی صف میں اَدا کرے…اور روز لاکھوں بار مواجہہ شریف پر… درودشریف پیش کرے…تب بھی وہ اس عاشقِ رسول کے برابر تو کیا قریب بھی نہیں ہو سکتا …جو کسی گستاخِ رسول کا خاتمہ کر دے… حضرت کاندھلویؒ لکھتے ہیں:
’’ پیغمبر برحق ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا قتل اَعظمِ قربات اور اَفضل عبادت میں سے ہے‘‘
حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے جب یہ عظیم کارنامہ سراَنجام دے دیا تو آپ ﷺ بے حد مسرور ہوئے اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’اذا احببتم ان تنظروا الی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی‘‘
’’اگر آپ لوگ ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کی تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو‘‘
اب ایک اور بہت مزے کی بات سنیں… عشقِ رسول ﷺ تک پہنچ جانا کتنی بڑی سعادت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ…حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ ’’نابینا‘‘ تھے… لوگ انہیں ’’اَعمیٰ‘‘ یعنی نابینا کہتے تھے…آپ ﷺ نے پابندی لگا دی کہ اِن کو اَعمیٰ یعنی نابینا نہ کہو یہ تو ’’بصیر‘‘ یعنی خوب دیکھنے والے ہیں…
سبحان اللّٰہ وبحمدہ،سبحان اللّٰہ العظیم
ہاں ! اصل اَعمیٰ یعنی نابینا تو وہ ہیں جو … حضورِ اَقدس ﷺ کے مقام کو نہیں دیکھ سکتے… وہ اَندھے جو اپنی آنکھوں سے دنیا بھر کی طاقتوں کو دیکھتے ہیں… دنیا بھر کے گناہوں کو دیکھتے ہیں…مگر کائنات کی سب سے روشن ہستی کو نہیں پہچانتے… ہاں وہ اندھے ہیں جنہیں پاکستان میں ناموس رسالت کا قانون بُرا لگتا ہے… ہاں وہ اَندھے ہیں جو گستاخانِ رسول کا تحفظ کرتے ہیں… اور عاشقانِ رسول ﷺ کو نعوذ باللہ مجرم اور دہشت گرد سمجھتے ہیں… اَرے وہ آنکھیں کس کام کی جو جمالِ محمد ﷺ کو نہ دیکھ سکیں… جو شانِ محمد ﷺ کا اِدراک نہ کر سکیں… سلام ہو! ان گرم خون نوجوانوں کو جنہوں نے ہمارے زمانے کی لاج رکھ لی… اور خاکے والوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا… ہاں ! وہ اللہ تعالیٰ کے ’’اَنصار ‘‘ ہیں… ہاں ! وہ آقا مدنی ﷺ کے ’’اَنصار ‘‘ ہیں… دنیا لاکھ اُن کی مذمت کرے… ہم اُن سے محبت رکھتے ہیں…اُن کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں… اگر اُن کی تعریف کرنا جرم ہے…تو ایسا جرم بھی سعادت… اگر میں شاعر ہوتا تو آج ایک پورا قصیدہ…ان سچے جانباز عاشقوں کی شان میں لکھ دیتا…فی الحال تو…میرا دل ان کے ساتھ خوشی کا رقص کر رہا ہے…
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامان رُسوائی سربازار می رقصم
جو ہونا ہے، ہوتا رہے
یورپ والے بڑے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں…ہر ملک اپنی سیکیورٹی سخت کر رہا ہے… یہ بیوقوف اتنا نہیں سوچتے کہ نائن الیون کے بعد سے تم سب یہی کچھ تو کر رہے ہو… مار رہے ہو،پکڑ رہے ہو، بمباری کر رہے ہو،…پھانسیاں دے رہے ہو…سیکیورٹی سخت کر رہے ہو…دھمکیاں دے رہے ہو،ڈرا رہے ہو… مگر تمہارے ان تمام اِقدامات کا کیا نتیجہ نکلا؟… سوچو، سوچو! کہ جہاد کمزور ہوا یا طاقتور… قتال فی سبیل اللہ محدود ہوا یا وسیع؟… اِسلام کی خاطر لڑنے والے کم ہوئے یا زیادہ؟… اب تم مزید بھی یہی اِقدامات کرو گے تو نتیجہ پہلے جیسا ہی نکلے گا…جب تم گستاخانہ خاکے بناؤ گے تو کیا حضرت محمد ﷺ کے دیوانے عاشق…ہاتھ میں چوڑیاں پہن کر بیٹھے رہیں گے؟… فرانس کو بڑا شوق ہے بمباری کا … افغانستان ہو یا لیبیا یا عراق…اس کے میراج طیارے ہر جگہ سب سے پہلے مسلمانوں پر بم برسانے پہنچ جاتے ہیں… تم بم برساؤ گے تو کیا مدینہ منورہ کے بیٹے تم پر پھول نچھاور کرتے رہیں گے؟… اَرے مان لو! کہ اسلام ایک حقیقت ہے… جہاد ایک حقیقت ہے… اور حضرت محمد ﷺ کی محبت ایک بہت بڑی حقیقت ہے… تم جس قدر جنگ کی آگ بھڑکاتے جاؤ گے…سختیاں کرتے جاؤ گے…مسلمان اسی قدر مضبوط اور جنگجو ہوتے چلے جائیں گے…کل جب تم نے خاکے بنائے تو ہم نے کہا تھا…
خاک ہو جائیں گے خاکے بنانے والے
اور آج الحمد للہ ہم یہ کہنے کے قابل ہو گئے کہ…
مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے
یاد رکھو! مسلمان کے لئے موت…کوئی ڈراوے کی چیز نہیں … بلکہ یہ تو وہ حسینہ ہے جس کے اَنگ اَنگ میں لذت اور راحت ہے…مسلمان اپنے دین کا… اپنے اللہ کا اور اپنے رسول ﷺ کا وفادار ہی رہے گا…اِن شاء اللہ…
اُسے یہ پرواہ نہیں کہ… کیا ہو گا؟…جو ہوتا ہے، ہوتا رہے…ہمارے لئے کل بھی اَللّٰہ… آج بھی اَللّٰہ… حسبنا اللّٰہ …اَللّٰہ ہی اَللّٰہ …اَللّٰہ ھو اَللّٰہ
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
ابینا ابینا
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 477)
اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتے ہیں … اگر ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت کریں تو بڑے ہی بدنصیب ہیں…اللہ تعالیٰ کیا ہی اچھا ربّ ہے…اور اُس کا دین کیا ہی اچھا دین ہے…
آپ سمجھے؟
اوپر جو الفاظ لکھے ہیں…کیا ان کو پڑھ کر آپ وہ واقعہ سمجھے جس کی طرف اِشارہ کرنا مقصود ہے؟…یہ سخت سردی کا موسم تھا،جیسے آج کل ہمارے ہاں چل رہا ہے…مدینہ منورہ سخت محاصرے میں تھا…دس ہزار کا مسلح لشکر مدینہ منورہ کو گھیر چکا تھا…مدینہ منورہ میں موجود یہودیوں نے بھی خونخوار دانت نکال لیے تھے…اور منافقین کی زبانیں قینچیوں کی طرح چل رہی تھیں…
بس یوں سمجھیں کہ مسلمانوں پر پانچ دشمنوں نے ایک ساتھ حملہ کر دیا تھا:
(۱) مشرکین کا لشکر (۲) مدینہ کے یہودی (۳) داخلی منافقین (۴) سردی (۵) فاقہ
اللہ اکبر کبیرا…حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کرام نے بھوک اور فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے…ایسا خوفناک،ہولناک اور دہشت ناک ماحول مسلمانوں کے خلاف بن گیا تھاکہ… کلیجے منہ کو آ رہے تھے اور آنکھیں دہشت سے پتھرا جاتی تھیں…سارا منظر قرآن مجید نے سورۃ اَحزاب میں کھینچ ڈالا ہے…واقعی بہت سخت آزمائش تھی…یوں لگتا تھا کہ بس اسلام کا قصہ ختم، مسلمانوں کا قصہ ختم…
ہر طرف سے آوازیں تھیں کہ…مار دو،ختم کر دو، مٹا دو، جڑ سے اکھاڑ دو…ایک کو بھی نہ چھوڑو…ایسا موقع پھر شاید نہ ملے،اس موقع کا فائدہ اٹھاؤ اور ان کی بنیاد ہی ادھیڑ دو…ایسے حالات میں حضور اقدس ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر خندق کھود رہے تھے…اور ان اشعار کو اپنی خوبصورت آواز سے عزت بخش رہے تھے…
بِسْمِ اللّٰہِ وَبِہِ بَدَیْنَا
وَلَوْ عَبَدْنَا غَیْرَہُ شَقِیْنَا
بسم اللہ…ہم اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتے ہیں…اگر ہم اس کے سوا کسی کی عبادت کریں تو بڑے ہی بد نصیب ہیں…اللہ تعالیٰ کتنا اچھا ربّ ہے اور اس کا دین کتنا اچھا دین ہے…سبحان اللہ! ایسے خوفناک حالات میں ایسی مضبوطی،ایسی استقامت…اور دشمنوں کو یہ پیغام کہ… ہم اپنے دین پر مضبوط ہیں،مطمئن ہیں …اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ…موت اور خوف کی دہشت پھیلا کر ہمیں ہمارے دین اور ہمارے راستے سے ہٹا دو گے تو یہ تمہاری بھول ہے …ان حالات میں بھی ہم اپنے رب کے وفادار …اپنے دین کے وفادار…اور اپنے رب سے راضی ہیں…
اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْراً، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْراً وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً
ایسا وقت بھی آتا ہے
حضرت آقا مدنی ﷺ کی سیرت مبارکہ … ہر مسلمان کی ہر موقع پر رہنمائی فرماتی ہے… مسلمان خوش نصیب ہیں کہ ان کے پاس اپنے آقا ﷺکی مکمل سیرت محفوظ ہے…اس وقت پاکستان میں جو خوفناک حالات چل رہے ہیں اگر ہم صرف انہیں پر غور کریں تو …دل بیٹھ جائیں اور حوصلے پست ہو جائیں…مگر ہمارے پاس زندہ سیرت موجود ہے…جو ہمیں فوراً۵ھ کے شوال کی سردیوں میں لے جاتی ہے…تب مدینہ منورہ مکمل محاصرے میں تھا اور ظاہری اسباب کے درجے میں مسلمانوں کا مکمل خاتمہ یقینی تھا…عربوں کا اتحادی لشکر مکمل تیاری اور عزم کے ساتھ آیا تھا اور لشکر کی تعداد ایسی تھی کہ …مدینہ منورہ اس کے سائے میں گم ہو سکتا تھا…پھر داخلی طور پر بھی حالات بگڑ گئے تھے اور یہودی اپنا معاہدہ توڑ کر مقابلے پر آ گئے تھے…ایسے حالات میں ’’منافقین‘‘ کے میلے ہو جاتے ہیں…وہ خوف پھیلانے والے دانشور بن کر اُبھرتے ہیں…اپنی عقلمندی کے گیت گاتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ بس چند دن کا ہے…اب ان کو خاتمے سے کوئی نہیں بچا سکتا…وہ کمزور مسلمانوں کو ڈرا ڈرا کر کہہ رہے تھے کہ اسلام چھوڑ دو، واپس اپنے پرانے دین پر آ جاؤ…ادھر موسم بہت سخت تھا…سردی تھی،اور مسلمانوں کے پاس خوراک کی شدید کمی تھی…اب مسلمان کیا کرتے؟…باہر سے حملہ آور لشکر کا مقابلہ کرتے یا اندر یہودیوں سے اپنی عورتوں اور بچوں کو محفوظ کرتے…منافقین کی زبانوں کو پکڑتے یا لشکر کے لئے خوراک کا انتظام کرتے…قرآن مجید نے فرمایا:
وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْداً
یعنی ایسے سخت حالات تھے کہ مسلمانوں پر گویا ہر طرف سے زلزلہ ہی زلزلہ تھا…ایسا زلزلہ جو جسموں کے ساتھ روحوں کو بھی لرزا دے…
سیرت مبارکہ کا یہ پورا منظر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ… دین کا کام کرنے والوں اور جہاد کی محنت کرنے والوں پر…ایسے حالات بھی آتے ہیں جو بے حد خوفزدہ کرنے والے ہوتے ہیں…اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ بس اب سارا کام ختم…اب کچھ بھی نہیں بچ سکتا…سیرت مبارکہ کا یہ منظر اہل ایمان کو طرح طرح کی حفاظتی دعائیں ،حفاظتی تدابیر اور عزیمت کے اسباق سکھاتا ہے…غزوہ احزاب کے اسی منظر نے ہمیں وہ دعاء عطاء فرمائی جو دل سے خوف کو نکال کر اطمینان نصیب کرتی ہے…
اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا
یا اللہ! ہمارے عیبوں کو چھپا دیجیے اور ہمارے خوف کو دور فرما دیجیے…
صحابہ کرام نے محاصرے کی شدت اور سختی کے وقت رسول کریم ﷺ سے دعا کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے یہی دعاء سکھائی:
اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا
اور وجد آفریں دعاء بھی تلقین فرمائی:
اَللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَ مُجْرِئَ السَّحَابِ وَھَازِمَ الاَحْزَابِ ۔ اِھْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ
یا اللہ! کتاب کو نازل فرمانے والے … بادلوں کو چلانے والے…لشکروں کو شکست دینے والے…انہیں شکست دیجیے اور ان کے مقابلے میں ہماری نصرت فرمائے…
عجیب صورتحال
ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکمران خود کسی ایسے واقعہ کے انتظار میں تھے…جسے وہ نائن الیون قرار دے کر پاکستان کے دینی طبقے کو ختم کر سکیں… امریکہ،یورپ اور انڈیا کا ہمیشہ سے ہمارے حکمرانوں پر دباؤ ہے کہ وہ…پاکستان کے دینی طبقے کو مٹا دیں…
پشاور سکول کا واقعہ پیش آیا تو …حکومت کو موقع مل گیا…اورمنافقین کے میلے ہو گئے… اب صبح،شام متحدہ اجلاس طلب ہو رہے ہیں… ملک میں فوجی عدالتیں قائم ہورہی ہیں… مدارس اور دینی جماعتوں کے خلاف زبانیں گرم ہورہی ہیں … گلی گلی میں حفاظتی دستے ہر داڑھی والے اور پگڑی والے کو پکڑ رہے ہیں ،ستا رہے ہیں…اور فوجی عدالتوں کے بارے میں صاف اعلان ہے کہ… ان میں نہ کسی ڈاکو کا مقدمہ سنا جا سکے گا…نہ کسی چور کا…ڈاکو جب کسی کو قتل کرتے ہیں تو مقتول کی ماں کو اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے جتنی کسی سکول کے مقتول بچے کی ماں کو…مگر حکومت کے نزدیک مذہب سے تعلق رکھنا،چوری ڈاکے اور بدکاری سے بڑاجرم ہے…وہ لسانی تنظیمیں جنہوں نے پاکستان کی بنیادوں تک کو ہلا دیا ہے…اور ہزاروں افراد کو قتل کر دیا ہے…ان کا مقدمہ بھی ان فوجی عدالتوں میں نہیں سنا جا سکے گا…کیونکہ لسانیت کے نام پر ساٹھ ہزار افراد کو قتل کرنا حکومت کے نزدیک جرم نہیں ہے…جبکہ قرآن پاک کی آیاتِ جہاد کو بیان کرنا جرم ہے…
ملک کے سارے سیاسی مگرمچھ پارلیمنٹ ہاؤس میں جمع ہوئے…اور سب نے دینی جماعتوں کے خلاف فوجی عدالتوں کے قیام کی تجویز پر اتفاق کر لیا …کیا ان کو اپنے جرائم یاد نہیں ہیں…ان میں سے کون ہے جو بد عنوانی اور کرپشن میں ملوث نہیں؟…ان میں سے کون ہے جو ناجائز قتل و غارت میں ملوث نہیں؟…ان میں سے کون ہے جو اپنی پارٹی کے عسکری ونگ نہیں رکھتا؟ … پاکستان کے اربوں ڈالر لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے والے …ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کرنے والے یہ سیاستدان…کس منہ سے پاکستان کے مدارس اور دینی جماعتوں کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں…مگر ہاں! آج کل یہ خوش ہیں، ان کے میلے لگے ہوئے ہیں…ان کو اپنے ارمان پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں…ان کو اپنے غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی مل رہی ہے…
مگر یہ سب کچھ فانی ہے…یہ سب کچھ وقتی ہے…یہ سارا ظلم واپس خود ان کی طرف لوٹے گا …وہ جہادی جماعتیں جنہوں نے پاکستان کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا یہ اگر ان جماعتوں پر شب خون ماریں گے تو…اللہ تعالیٰ کے انتقام سے نہیں بچ سکیں گے…اور مخلص فدایانِ اسلام کی آہیں اور بددعائیں ان کے گھروں اور دلوں کو آگ لگا دیں گی…ان شاء اللہ
دو طبقے
سیرت مبارکہ کا یہ منظر جو شوال ۵ھ میں سامنے آیا ایک اور بڑی اہم بات سمجھاتا ہے…وہ یہ کہ جب اہل ایمان،اہل جہاد پر حالات سخت ہوتے ہیں تو دو طبقے سامنے آجاتے ہیں…
(۱) ایمانی، تسلیمی…یہ وہ لوگ ہیں جن کو جس قدر بھی ڈرایا جائے وہ اپنے ایمان اور اپنے کام پر ڈٹے رہتے ہیں…بلکہ ان کا ایمان بھی بڑھ جاتا ہے اور ان کی ثابت قدمی بھی بڑھ جاتی ہے…وہ اللہ تعالیٰ سے جڑے رہتے ہیں…اور اللہ تعالیٰ کے کام میں لگے رہتے ہیں…دشمنوں کی کثرت اور حالات کی خرابی…ان کے عزم کو اور مضبوط کر دیتی ہے…اور وہ کہتے ہیں کہ…یہی اصل وقت ہے وفاداری کا اور قربانی کا…
وَمَا زَادَھُمْ اِلَّا اِیْمَاناً وَّتَسْلِیْماً
اس طبقے کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے سورۃ احزاب آیت ۲۲
(۲) فراری…دوسرا طبقہ ان لوگوں کا سامنے آتا ہے جو برے حالات دیکھ کر فورا بھاگ جاتے ہیں…یہ لوگ بڑے عجیب بہانے بناتے ہیں اور دین کے کام سے کٹ جاتے ہیں…کوئی ان کے کان میں کہہ دے کہ اب حالات ٹھیک نہیں رہے تو فوراً…فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں… اور اپنے بچاؤ کے لئے جنت کے راستے کو چھوڑ دیتے ہیں…یار ہم سے قید برداشت نہیں ہوتی …یار دین کا کام تو ٹھیک ہے مگر ڈنڈے کھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے…یار ڈر تو نہیں ہے مگر کچھ گھر کی دیکھ بھال بھی کرنی ہے…
قرآن مجید فرماتا ہے:
اِن یُّرِیْدُوْنَ اِلَّافِرَاراً
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ بھاگنا چاہتے ہیں، باقی سب بہانے ہیں…اس طبقے کی تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں سورۃ احزاب آیت ۱۳
اَبَیْنَا اَبَیْنَا
غزوۂ احزاب کے مناظر میں ایک بڑا حسین، بہت دلکش اور بے حد ولولہ انگیز منظر بھی آتا ہے…اس منظر کے دو حصے ہیں، پہلے چھوٹا حصہ دیکھتے ہیں پھر بڑا حصہ…
(۱) خوف،بھوک،فاقے اور شدید خطرے کے دوران…حضرات صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے…اور ساتھ ساتھ یہ شعر پڑھ رہے تھے:
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوا مُحَمَّداً
عَلیٰ الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَداً
ہم ہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے…حضرت محمد ﷺ سے بیعت کی ہے کہ ہم مرتے دم تک جہاد کرتے رہیں گے…
سبحان اللہ!…یہ شعر پڑھنے کا اصل وقت ہی تب ہے جب جہاد کا نام لینے پر پابندی ہو…اور جہاد کا علَم تھامنے پر موت سامنے نظر آتی ہو…کون ہے جو موجودہ حالات میں بھی دل کے یقین کے ساتھ یہ شعر پڑھے اور پھر اس پر سچا رہے،پکا رہے … خواہ قید آئے یا موت!
(۲) دوسرا منظر جو پہلے والے سے بھی زیادہ دلکش ہے…
حضور اقدس ﷺ غزوہ خندق کے موقع پر خود بنفس نفیس مٹی ڈُھو رہے تھے…اس مٹی نے جسم مبارک کو بھی گرد آلود کر دیا تھا…مگر آپ ﷺ یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
وَاللّٰہِ لَوْلَا اللّٰہُ مَا اھْتَدَیْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا
فَاَنْزِلَنْ سَکِیْنَۃً عَلَیْنَا
وَثَبِّتِ الاَقْدَامَ اِن لَّاقَیْنَا
اللہ کی قسم…اگر اللہ تعالیٰ توفیق نہ دے، تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ دیتے،نہ نماز پڑھتے…یا اللہ! ہم پر سکینہ نازل فرمائیے اور جنگ میں ہمیں ثابت قدمی عطاء فرمائیے…
اب آخری شعر ملاحظہ فرمائیں…جو اس منظر کی ’’جان ‘‘ ہے
اِنَّ الْاُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا
اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَۃً اَبَیْنَا
یہ ہمارے دشمن ہم پر ظلم کرنے کو چڑھ آئے ہیں…یہ اگر ہمیں فتنہ میں ڈالنا چاہتے ہیں… یعنی ہمیں اپنے دین سے ہٹانا چاہتے ہیں تو ہماری طرف سے صاف انکار ہے…
شعر کے آخری الفاظ…اَبَیْنَا اَبَیْنَا کو آپ ﷺبلند آواز سے پڑھتے کہ…اے دین کے دشمنو! ہم تمہارے دباؤ میں آنے سے انکار کرتے ہیں…انکار کرتے ہیں…انکار کرتے ہیں … ہم دین چھوڑنے اور فتنہ میں پڑنے سے انکار کرتے ہیں…انکار کرتے ہیں…اے دین کے دیوانو! کہہ دو:
اَبَیْنَا اَبَیْنَا
سبحان اللہ! کیسا عزت و غیرت والا منظر ہے
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیراکثیرا
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مدنی سیر ت سچی ہے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 476)
اللہ تعالیٰ کے محبوب اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت ’’پیر‘‘ کے دن ہوئی … یہ بات حتمی ہے کیونکہ حضرت آقا مدنی ﷺ نے خود ارشاد فرمائی ہے…
’’سلام ہو آپ پر اور آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر‘‘
حضور اقدس ﷺ کی ولادت مبارکہ کا مہینہ ’’ربیع الاوّل‘‘ ہے…اور یہی وفات مبارکہ کا مہینہ ہے…اسی میں تشریف لائے اور اسی میں تشریف لے گئے…جب تشریف لائے تو عالم جگمگا اُٹھا …اور جب تشریف لے گئے تو سارا عالم سکتے میں آ گیا…غموں کے پہاڑ آل رسول ﷺ اور اصحاب رسول ﷺ پر ٹوٹ پڑے…
صلوۃ وسلام ہو آپ ﷺ پر
زندگی مبارک…جسے ’’سیرت طیبہ‘‘ کہا جاتا ہے…اول تا آخر آزمائشوں میں بسر ہوئی…ان آزمائشوں میں سے ہر آزمائش اتنی بھاری ہے کہ اگر ہم میں سے کسی پر آئے تو وہ ٹوٹ پھوٹ جائے …مگر حضرت آقا مدنی ﷺ ان آزمائشوں کو سہتے رہے اور آگے بڑھتے رہے…اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کو زمین پر جماتے گئے… جب یہ دین جم گیا…اور ناقابل شکست ہو گیا تو حضرت آقا مدنی ﷺ …اپنے محبوب حقیقی کے پاس تشریف لے گئے…کیونکہ دنیا بہت ادنیٰ جگہ ہے …یہ حضرات انبیائ، صحابہ، مقربین اور اولیاء کے رہنے کی جگہ نہیں ہے…یہ حضرات تو یہاں ایک خاص ذمہ داری کے لئے بھیجے جاتے ہیں…جیسے ہی ان کی ’’ذمہ داری‘‘ پوری ہوتی ہے تو انہیں یہاں کی پُرمشقت زندگی سے…آزادی دے کر اللہ تعالیٰ کے قرب میں…بلا لیا جاتا ہے…جہاں سکون ہے، آرام ہے،راحت ہے اور بہت وسعت ہے…زمین تو بہت چھوٹی اور بہت تنگ جگہ ہے…جی ہاں! آخرت کے مقابلے میں بہت چھوٹی…
حضور اقدس ﷺ کی سیرت مبارکہ میں یہ عجیب تاثیر ہے کہ…یہ سیرت ہر گرنے والے انسان کو سنبھال کر دوبارہ کھڑی کر دیتی ہے…یہ ہر دکھی انسان کے لئے بہترین مرہم ہے…آپ کو یقین نہ آئے تو آج ہی سیرت المصطفیٰﷺ کے چند صفحات پڑھ لیجئے…دل سے مایوسی،خوف اور پریشانی یوں دور ہوجائے گی جیسے صابن سے ہاتھ دھو لینے سے…ہاتھوں کی میل دور ہو جاتی ہے…
ویسے آج کل ہم سب کو ضرورت ہے کہ…سیرت طیبہ کا دل کی آنکھوں سے مطالعہ کریں…کیونکہ شیطان نے فضاء کو خوف اور بے یقینی سے بھرنے کے لئے…اپنے لاکھوں کارندے سرگرم کر دئیے ہیں…کوئی بھی اخبار اٹھا لیں…بس خوف ہی خوف کی دعوت ہے کہ … اے دین محمد ﷺ کے دیوانو! ڈر جاؤ،ڈر جاؤ…
قرآن مجید نے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَائَہٗ
یہ شیطان ہی کا کام ہے کہ وہ…اپنے یاروں سے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے … تاکہ شیطان کے یار غالب آ جائیں اور اہل اسلام مغلوب ہو جائیں…عالمی سامراج سے ڈر جاؤ …وہ تمہیں بالکل تباہ کر دے گا…امریکہ سے ڈر جاؤ وہ سپر پاور ہے تمہیں مٹا دے گا…انڈیا سے ڈر جاؤ وہ بہت بڑی طاقت ہے تمہیں ختم کر دے گا … عالمی برادری سے ڈر جاؤ وہ ناراض ہو گئی تو تم دنیا میں اکیلے رہ جاؤ گے…موت سے ڈر جاؤ…قید سے ڈر جاؤ ، بس ڈرجاؤ اور ڈر جاؤ…یہ ہے شیطانی آواز…
جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے :
فَلَا تَخْشَوُوْاالنَّاسَ
اے مسلمانو! کسی انسان سے نہ ڈرو…اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے بھی نہ ڈرو…ہرگز نہ ڈرو … موت نام ہے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا…ارے محبوب کے وصال سے بھی کوئی ڈرتا ہے؟…آج تو دل چاہتا ہے کہ وہ آیات لکھتا چلا جاؤں جن میں اللہ تعالیٰ نے …ایمان والوں کو تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو…کوئی بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا…ایک نعرہ مستانہ لگاؤ … حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل…حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل…اور یہ اعلان کر دو کہ:
قُلْ لَن یُّصِیْبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا
ارے ہمیں کوئی بھی تکلیف نہیں پہنچ سکتی مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں لکھ دی ہے …اور بلند آواز سے کہہ دو:
ہُوَ مَوْلَانَا
بس اللہ تعالیٰ ہی ہمارا مولیٰ ہے…وہی ہمارا مالک ہے، وہی ہمارا ناصر ہے…وہی ہمارا محافظ ہے…وہی ہمارا سب کچھ ہے…اور وہ دنیا بھر کے کافروں اور منافقوں کی طاقت کو مکڑی کے جالے کی طرح کمزور فرما دیتا ہے…
ذٰلِکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ مُوْہِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ
آج تو موقع نہیں بن رہا …ان شاء اللہ کسی فرصت کے وقت ان آیات کو اپنے لئے اور آپ کے لئے جمع کر دوں گا…جو آیات ہر کافر،ہر منافق،ہر سازش،ہر سختی اور ہر طاقت کا خوف ہمارے دلوں سے نکال دیتی ہیں…
قرآن مجید سمجھاتا ہے کہ…موت جب آ جائے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا…مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ موت سے بچتا پھرے اور موت سے بچنے کے لئے اپنا ایمان اور اپنی آخرت خراب کرتا رہے …اور موت کے خوف سے ہر دن مرتا رہے … موت تو محبت کی علامت ہے…یہودیوں نے محبت کا دعویٰ کیا توفرمایا گیا اگر سچے ہو تو موت کی تمنا کرو…مگر وہ بھاگ گئے کیونکہ جھوٹے تھے…وہ نہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے تھے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے محبوب تھے…قرآن سمجھاتا ہے کہ…جب موت کا وقت آ جائے تو دنیا بھر کے حفاظتی اقدامات انسان کو نہیں بچا سکتے…ابھی کچھ عرصہ پہلے نیپال کا بادشاہ مارا گیا…اس کے خاندان کی حکومت ڈھائی سو سال سے جاری تھی…ملک کے لوگ اپنے بادشاہ کے دیوانے تھے…حفاظت کا نظام اور انتظام بھی بھرپور تھا…اور آس پڑوس کسی ملک سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی…وہ اپنے اُس محل کے ایک محفوظ کمرے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا…جس محل کا حفاظتی نظام ناقابل شکست تھا …اب بتائیے کہ اس زمین پر ’’امن‘‘ کے لئے اور کیا چاہیے؟…تب اسی لمحے اس کا اکلوتا بیٹا اندر داخل ہوا اور اس نے فائرنگ کر کے…بادشاہ اور اس کی بیوی کو ہلاک کر دیا…اور پھر خود کو بھی گولی مار دی…امن کے ایسے انتظامات کے بیچ … ڈھائی سو سالہ بادشاہت کا بت پاش پاش ہو گیا … نہ پہرے دار کچھ کر سکے…اور نہ باڈی گارڈ بچا سکے…
دنیا میں ایسے واقعات بے شمار ہیں…کاش یہ ان مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں جن کو … کوئی کان میں کہہ دے کہ حالات سخت خراب ہیں تو وہ دین کا کام چھوڑ دیتے ہیں…جہاد کا کام چھوڑ دیتے ہیں…
آپ کبھی شمار کریں کہ…روزانہ ٹریفک حادثات میں کتنے افراد مرتے ہیں؟…کتنے زخمی ہوتے ہیں؟کتنے معذور ہوتے ہیں؟ اور کتنے جیل جاتے ہیں؟ آپ حیران ہوں گے کہ…یہ تعداد روزانہ لاکھوں کے عدد تک پہنچ جاتی ہے…مگر اس کے خوف سے کوئی بھی…سفر نہیں چھوڑتا…پھر موت،گرفتاری اور تشدد کے خوف سے لوگ… دین کا کام اوردین کا نام کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ …حالانکہ دین کے کام کااصل مزہ ہی تب ہے جب حالات سخت ہوں، حالات خطرناک ہوں …اور فضاء میں شیطانی خوف پھیلایا جا رہا ہو … سوچنے کی بات یہ ہے کہ قسمت میں اگر جلدی موت لکھی ہو تو ہم دین کا کام کریں یا نہ کریں وہ ضرور آ جائے گی…قسمت میں اگر قید لکھی ہو تو …ہم جہاد کا کام کریں یا نہ کریں وہ ضرور آ جائے گی … قسمت میں اگر پھانسی لکھی ہو تو ہم دین پر رہیں یا دنیا پر وہ بھی ہر حال میں آ جائے گی…کاش مسلمان میلاد کی دیگیں کھانے کی بجائے حضور اقدس ﷺ کی سیرت مطہرہ سے روشنی حاصل کریں…مکہ مکرمہ میں کیسی خوفناک اور دہشت ناک فضاء تھی…ہر شخص قاتل تھا، دشمن تھا اورموذی تھا…ایسے حالات میں حضور اقدس ﷺ اور چند حضرات صحابہ کرام اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھے…دین کے کام میں مشغول تھے…دن رات ماریںکھاتے، زخمی ہوتے اور پھر اسی حالت میں اپنے کام پر نکل کھڑے ہوتے…آج ہر شخص کی زبان پر یہ جملہ ہے کہ…ہماری ہڈیوں میں مار کھانے کی طاقت نہیں ہے…ایسے مسلمان کس منہ سے اپنی نسبت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف کر سکتے ہیں…جن کو اتنا مارا گیا کہ قریبی رشتہ دار بھی ان کو نہیں پہچان سکتے تھے…یعنی مار اور تشدد کی وجہ سے چہرہ مبارک پر اتنے زخم اور اتنی سوجن آئی کہ حلیہ مبارکہ تک تبدیل ہو گیا…سلام ہو ہمارے زمانے کے اُن اہل عزیمت کو جن کی قربانیوں نے آج زمین کا رنگ ہی بدل دیا ہے…سلام ہو اس پاکباز نہتی بہن کو…جسے ہم عافیہ صدیقی کے نام سے یاد کرتے ہیں…سلام ہوگوانٹاناموبے،تہاڑ جیل، شبرغان،پل چرخی، فلوجہ،ابوغریب،غرب اُردن …اور دور دور کی جیلوں میں قربانیاں پیش کرنے والے اہل ایمان کو…ان کی عزیمتوں نے آج وقت کا دھارا بدل دیا ہے…نائن الیون کے وقت عالمی سامراج جتنا طاقتور تھا…آج وہ اس قدر طاقتور نہیں…اسے معلوم ہو چکا ہے کہ وہ مسلمانوں سے نہیں لڑ سکتا…اسے گذشتہ پندرہ سالوں میں…تین بار بڑی شکست کا سامنا ہوا ہے …اور اب وہ صرف مسلمانوں کو …مسلمانوں سے لڑانے کی فکر اور محنت میں ہے…اور اس کے انڈے اور کارندے آج کل…مسلمانوں میں خوف،دہشت اور انتشار پھیلانے کے لئے … میڈیا پر سوار ہیں…
مگر یہ سب سن لیں کہ…دین اسلام کو نہیں مٹایاجا سکتا…مسلمانوں کو نہیں مٹایا جا سکتا … جہاد فی سبیل اللہ کو نہیں مٹایا جا سکتا…
یہ بات قرآن مجید نے بتائی ہے… اور قرآن مجید سچا ہے…اور یہ بات ہمارے نبی ﷺ کی سیرت مبارکہ نے سمجھائی ہے…اور سیرت مبارکہ سچی ہے…والحمد للہ رب العالمین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الااللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللّٰہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اصلی خطرہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 475)
اللہ تعالیٰ ہی زندگی اور موت کا مالک ہے…
ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ
زندگی کا پوشیدہ نظام
زندگی ہر وقت جاری رہتی ہے…مگر آپ نے کبھی یہ جملہ نہیں سنا ہو گا کہ…فلاں جگہ زندگی رقص کر رہی ہے…حالانکہ روزانہ ہزاروں، لاکھوں افراد پیدا ہوتے ہیں…کتنی نئی روحیں روزآنہ زمین پر اُترتی ہیں…ہمیشہ نئے پیدا ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے …اسی لئے زمین کی آبادی ہر دن بڑھ رہی ہے …مگر زندگی کا نظام خاموش ہے…جبکہ موت کا نظام کافی ہنگامہ خیز ہے…جہاں چند افراد زیادہ مرے…وہاں شور پڑ جاتا ہے کہ موت رقص کر رہی ہے…
دراصل موت انسانوں کو اچھی نہیں لگتی… اس لئے اس کا اثر،صدمہ اور شور زیادہ ہوتا ہے… لیکن اگر صرف ایک دن کے لئے موت کا نظام بند کر دیا جائے تو سمندر زمین پر اُبل پڑے…اور زمین پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے…ظاہری اسباب کے درجہ میں ’’موت‘‘ ہی نے ’’زندگی‘‘ کو تھام رکھا ہے…اصل تھامنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے …لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین پر ایک نظام اتار دیا ہے…اس نظام میں اگر موت نہ ہو، تو زندگی… زندہ نہ رہ سکے…موت نے بہرحال آنا ہے… بس دعاء کرنی چاہیے کہ اچھے وقت،اچھے حالات، اچھے طریقے سے اچھی موت مل جائے…موت کے بعد ایک نیا سفر ہے،ایک نیا جہان اور ایک نئی دنیا…موجودہ دنیا سے بہت بڑی،بہت وسیع… اور ایمان والوں کے لئے بہت لذیذ…خود کو اور آپ کو پھر یاد دلاتا ہوں…یہ دعاء پڑھا کریں:
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوتْ
اتفاقی نظام
دنیا میں بعض چیزیں محض اتفاقی ہیں…وہ ہمیشہ کا قانون نہیں ہوتیں…مگر وہ ’’اتفاق‘‘ ایسی ترتیب سے بار بار ہوتا ہے کہ …لوگ اسے ہمیشہ کا قانون سمجھ لیتے ہیں…مثلا بعض لوگ کہتے ہیں …میری زندگی میں منگل کا دن بڑی مصیبت والا ہے…پھر وہ منگل میں اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض واقعات کی فہرست سنا دیتے ہیں… اور زندگی بھر وہم اور غلط عقیدے میں مبتلا رہتے ہیں …اس طرح بعض لوگ کسی مہینے کو اپنے لئے ’’منحوس‘‘ کہہ کر…اللہ تعالیٰ کی بجائے اس مہینے کی نحوست سے خوفزدہ رہتے ہیں…یہ بڑا خطرناک اور قابل اصلاح مرض ہے…
اول تو ہم یہ نہیں جانتے کہ…کون سی چیز مصیبت ہے اور کون سی چیز نعمت…ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے مصیبت کو نعمت…اور نعمت کو مصیبت سمجھتے رہتے ہیں…
مثلاً ایک شخص قید ہو گیا،گرفتار ہو گیا…وہ سمجھتا ہے کہ یہ ’’مصیبت ‘‘ ہے…حالانکہ اسے اس قید میں توبہ کی قبولیت اور ترقی نصیب ہونا ہوتی ہے…ایک دوسرے شخص کو بہت قیمتی موبائل تحفے میں ملا …وہ سمجھا کہ نعمت ہے…حالانکہ وہ بعد میں اس موبائل کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہو گیا …دوسری بات یہ ہے کہ محض چند واقعات ہی کا نام تو زندگی نہیں…زندگی کے چند واقعات اتفاقاً کسی خاص دن یا مہینے میں ہوئے جبکہ ان گنت واقعات …دوسرے دنوں اور مہینوں میں ہوئے…مگر انسان نے چند واقعات کا اثر لیا اور کسی دن یا مہینے کی ’’نحوست‘‘ یا ’’بھاری‘‘ ہونے کا عقیدہ بنا لیا…یہ غلط ہے…جو اس میں مبتلا ہو وہ توبہ کرے…اپنا دل درست کرے…وہم اور بدفالی کے وقت پڑھی جانے والی مسنون دعائیں پڑھے…اور اللہ تعالیٰ کے عرش والے مخفی خزانے کی طاقت پکڑے وہ مخفی خزانہ ہے…لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ…بس یقین اور کثرت سے پڑھے…
لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ، لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ، لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ
پاکستان کا دسمبر
اتفاقاً چند سالوں سے ’’دسمبر‘‘ کا مہینہ خونی اورخوفناک جا رہا ہے…یہ زمین کا کوئی اٹل قانون نہیں…دسمبر کڑوے بھی آتے ہیں…اور میٹھے بھی…ویسے بھی ہم مسلمانوں کے نزدیک ہجری قمری مہینوں کا اصل عتبار ہے…محرم صفر وغیرہ … اس لئے ہمارے ہاں تو دسمبر کبھی کس مہینے میں آتا ہے اور کبھی کس میں…ہم نے وہ چھ دسمبر بھی دیکھا جس میں پیاری بابری مسجد شہید کی گئی…بڑا عظیم سانحہ تھا ’’بہت دردناک‘‘…اور پھر اکتیس دسمبر بھی دیکھا جب اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو ایک بڑی خوشی اور فتح عطاء فرمائی…آج کل چند سالوں سے دسمبر خونخوار آ رہا ہے…اس ظاہری شر میں معلوم نہیں کیا کیا ’’خیریں‘‘ پوشیدہ ہوں گی… پشاور کا سانحہ ہوا…پورا ملک لرز کر رہ گیا…پھول جیسے بچے ذبح کر دئیے گئے…اور پھر خونخواری اور خونریزی کا ایسا دور چلا کہ…آج کئی دن گذرنے کے بعد بھی فضا میں خون ہی نظر آ رہا ہے…ہاں! جب حکومتیں بھی توازن کھو بیٹھیں تو حالات کبھی درست نہیں ہو سکتے کبھی بھی … بس اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعاء ہے:
اَللّٰہُمَّ ارْحَمْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ ﷺ
اپنا ہی قصور ہے
نہ امریکہ پر کوئی الزام ہے نہ انڈیا سے کوئی گلہ شکوہ…وہ تو مسلمانوں کے دشمن ہیں…ان کا کام ہی مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے…اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب یہاں کے اپنے لوگوں کا ہی بویا ہوا ہے…پرویز مشرف پاکستانی تھا…اس نے پاکستان کو ایک حرام جنگ میںدھکیلا…وہ اپنا کام کر کے اپنے آقاؤں کے پاس چلا گیا…مگر بعد کے حکمرانوں نے اسی کی پالیسیوں کو جاری رکھا…امریکہ کی چاپلوسی اور انڈیاسے یاری …غیروں کی غلامی اور اپنوں پر مظالم…اور ایک اندھی جنگ میں بے دریغ تعاون …تب پاکستان میں بھی ایک ایسی قوت وجود میں آ گئی جو ریاست سے جنگ میں الجھ گئی…اور پھر پاکستان خود میدان جنگ بن گیا…اس جنگ کو روکا جا سکتا ہے…اسے امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے…مگر اب دونوں طرف امن کی خواہش ختم ہو چکی ہے…اور جنگ ان کی مجبوری بن چکی ہے …دونوں فریق اب اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں رہے…دونوں پر شدید دباؤ ہے کہ بس لڑتے رہو، مرتے رہو…اگر ایک قدم بھی پیچھے ہٹے تو ہم تمہاری گردن دبا دیں گے…اب اگر تم نے صلح یا مذاکرات کی بات کی تو ہم تمہارا سب کچھ بگاڑ دیں گے…چنانچہ دونوں فریق لڑ رہے ہیں…جبکہ پاکستان مر رہا ہے…مسلمان مر رہا ہے…بے قصور مر رہا ہے…اور دشمن اوپر سے جعلی اشک اور اندر سے قہقہے برسا رہے ہیں…کوئی ہے جو حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کو سمجھا سکے کہ…آپ دونوںیہ جنگ نہیں جیت سکتے… ہاں جنگ سے آپ ایک دوسرے کو ختم نہیںکر سکتے …اب یہ جنگ اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ… آپ دونوں میں سے کوئی فریق مکمل طور پر اسے نہیں جیت سکتا…اور نہ ہی کوئی فریق اس جنگ سے اپنے ’’مقاصد‘‘ حاصل کر سکتا ہے…ہاں اس جنگ میں صرف مارا جا سکتا ہے اور مرا جا سکتا ہے …اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی مرنے میں شریک کیا جا سکتا ہے…میں جانتا ہوں…ان حالات میں یہ بات لکھنا کتنا خطرناک ہے…مگر میرے دل میں مسلمانوں کا درد ہے…اسلام کا درد ہے اور پاکستان کا درد ہے اس لئے میںاپنا فرض ادا کر رہا ہوں…میں جنگوں اور ان کے نتائج کو اچھی طرح سمجھتا ہوں…میں نے جنگ کا پورا نظام ’’قرآن مجید‘‘ سے سمجھا ہے…اس لئے دنیا کی کسی بھی جنگ کو غور سے دیکھ کر اس کے حالات اور نتائج آسانی سے سمجھ سکتا ہوں…افغانستان،عراق اور بہت سی جنگوں کے بارے میں قرآن مجید کی روشنی سے جو کچھ دیکھا…وہی بعد میں سامنے آیا…یہ کوئی علمی یا کشفی دعوی نہیں…اور نہ ہی دعووں کا وقت یا شوق ہے…ہر مسلمان کو قرآن مجید سے روشنی لینی چاہیے…اسی روشنی سے یہ نظر آ رہا ہے کہ …پاکستان میں حالیہ جنگ کے دونوں فریق …ایک لاحاصل ،بے کار اور خونریز جنگ میں الجھ چکے ہیں…اور اب دنیا بھر کے اسلام دشمن عناصر پورا زور لگا رہے ہیں کہ یہ جنگ مزید بھڑک جائے …اور پاکستان صومالیہ بن جائے…
خطرناک لوگ
آزاد گروپ، آزاد ہوتے ہیں… مگر حکومت پر لازم ہے کہ وہ قانون کی پابند رہے…اسے فلمی ڈائیلاگ، انتقامی جملے اور غیر قانونی کارروائیاں زیب نہیں دیتیں…اور جو حکومت اور ملک کسی موقع پر جذبات میں آ کر اپنا توازن کھو بیٹھے…اور قانون کے دائرے سے نکل جائے تو اس ملک کا حال بہت برا ہوتا ہے…پھانسیاں دینی تھیں تو اس ترتیب سے دی جاتیں جس کا تقاضا قانون کرتا ہے نہ کہ بد حواس ہو کر …پھانسیوں کو بھی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ بنا دیا جائے…اور خوف کی فضا پھیلا کر مزید ہلاکت خیز واقعات کی راہ ہموار کی جائے…
امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا…امریکہ غصے اور جذبات میں اپنا توازن کھو بیٹھا…کوئی حقیقت کی نظر سے دیکھے کہ امریکہ نے جن مقاصد کو حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا،ان میں سے کتنے اس نے پا لئے…جواب یہ ہے کہ ایک بھی نہیں…یہ میرا جواب نہیں خود امریکہ اس کا اعتراف کرتا ہے…جبکہ امریکہ نے کیا کیا کھویا اس کی فہرست بہت طویل ہے…پچاس ہزار فوجیوں کی ہلاکت …ہزاروں فوجیوں کی معذوری،خود کشی اور دماغی بیماری…ساری دنیا سے رعب کا خاتمہ… کھربوں ڈالر کا نقصان…داخلی سیاست کی تباہی …اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن کو مٹانے نکلا تھا وہ کئی گنا زیادہ بڑھ گئے…اور اب ساری دنیا میں امریکی فوجی اور عوام دھڑا دھڑ مر رہے ہیں…عدم تحفظ کا شکار ہیں…اور امریکہ اس جنگ سے نکلنے کے لئے بے قرار ہے جس میں وہ بڑے سے فخر داخل ہوا تھا…پشاور کے واقعے کو پاکستان کا ’’نائن الیون‘‘ قرار دے کر جو لوگ حکومت کو مزید اندھی جنگ میں دھکیل رہے ہیں…وہ پاکستان کے دوست ہرگز نہیں ہیں …پاکستان کے لئے اصل خطرناک یہی لوگ ہیں…
ڈر اور خوف کی ضرورت نہیں
کسی شاعر نے کہا تھا:
ہے مقصد زندگانی کا کہ کچھ دنیا میں کر جانا
خیال موت بے جا ہے وہ جب آئے تو مر جانا
بعض لوگ ہر موقع پر ضرورت سے زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں…اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی باجماعت خوفزدہ کرتے ہیں…پاکستان میں دینی طبقہ پر ہمیشہ سے شدید دباؤ رہا ہے …اور یہاں موجود سیکولر،ملحد اور بد دین لوگ…اس جنگ کی آڑ میں پاکستان کے دینی طبقے کو ختم کرانا چاہتے ہیں…وہ مدارس اور مساجد کے دشمن ہیں…اور شرعی جہاد کی بات کرنے والی جماعتیں ان کا اصل ہدف ہیں…
نائن الیون کے بعد …اس سیکولر طبقے کو امید تھی کہ…اب پاکستان میں نہ کوئی مدرسہ بچے گا نہ کوئی دینی جماعت…مگر الحمد للہ سب کچھ بچ گیا بلکہ بڑھ گیا…پھر بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور پاکستان پر غیر ملکی دباؤ پڑا تو سیکولر چوہے فوراً بلوں سے نکل آئے…اس بار ان کو کچھ کامیابی ملی اور پرویز مشرف نے جہادی جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر …اور ان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کر کے …تحریک طالبان پاکستان بننے کے مواقع کھڑے کر دئیے…اور پاکستان کو ایک داخلی جنگ میں جھونک دیا…مگر پھر بھی پاکستان کے دینی مدارس اور جماعتیں بچ گئیں…پھر بمبئی کا واقعہ ہوا…تو خوب شور ہوا اور دباؤ پڑا…مگر اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت عقلمند لوگوں پر مشتمل تھی …اور انہوں نے اس دباؤ میں اپنے ملک کو تباہ نہیں ہونے دیا…اسی طرح جب بھی کوئی سانحہ اور واقعہ ہوتا ہے تو…یہ امریکی چوہے اور انڈین انڈے فوراً باہر نکل آتے ہیں کہ…بس مار دو،جلا دو ،لٹکا دو…کسی مولوی کو نہ چھوڑو، کسی مدرسہ کو نہ چھوڑو…کسی مجاہد کو نہ چھوڑو…ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی داخلی جنگ یہاں کی ایک ایک گلی میں پھیل جائے…مسلمانوں کا یہ ملک ختم ہو جائے اور ان ظالموں کی تنخواہ پکی ہو جائے…ان حالات میں دینی طبقوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد ،ہر موقع پر بہت خوفزدہ ہو جاتے ہیں…اور وہ دوسروں کو بھی خوفزدہ کرتے ہیں…جو اچھا کام نہیں…قرآن مجید میں منافق کی علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ہر مصیبت کا رخ اپنی طرف سمجھتا ہے …یعنی ہمیشہ بوکھلا کر پریشان ہو جاتا ہے… پشاور کے سکول کی قتل وغارت سے…پاکستان کے مدارس کا کیا تعلق؟…پاکستان کی مساجد کا کیا تعلق؟…شرعی جہاد کی دعوت دینے والوں کا کیا تعلق؟…جب کوئی تعلق نہیں تو پھر ڈرنے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟…حکومت اگر ظلم اور غلطی کر کے آپ کا رخ کرے گی تو خود ہی اپنا اور ملک کا نقصان کرے گی…اور مزید جنگ بھڑکائے گی…آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا شرعی،مثبت اور دینی کام کرتے رہیں…پاکستان میں جو رہا سہا امن موجود ہے وہ آپ کے اسی کام کی برکت سے ہے…آج کے حکمرانوں کو اگر غیر ملکی دباؤ کی وجہ سے آپ کے کام کی افادیت نظر نہیں آ رہی تو …نہ نظر آئے…
وہ اگر آپ کی طرف ظلم کا ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں تو بڑھا لیں…اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و محافظ ہے…پرویز مشرف نے کون سا ہتھیار اور ہتھکنڈا آپ کو ختم کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا؟… زرداری کون سا آپ کا خیرخواہ تھا؟…موجودہ حکمران بھی اگر ان کے نقش قدم پر چلیں گے تو انہیں جیسے نتائج پائیں گے…آپ کا دینی کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے…آپ کا شرعی جہاد امت مسلمہ کی فلاح کے لئے ہے…
بس اپنے کام میں لگے رہیں…اللہ تعالیٰ کے راستے پر جمے رہیں…اس راستے کی زندگی بھی پیاری ہے…اور اس راستے کی موت بھی میٹھی ہے…
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ
حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیل
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
ایک سبق
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 474)
اللہ تعالیٰ ہمیں اُن خوش نصیبوں میں سے بنائے جو صرف ’’اللہ تعالیٰ‘‘ سے مانگتے ہیں…اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں مانگتے…
اَللّٰہُمَّ اَغْنِنَا بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ
یا اللہ! اپنا فضل فرما کر ہمیں اپنے سوا ہر کسی سے غنی فرما دیجئے…
قرآنی نقشہ
’’دعاء‘‘ کتنی بڑی چیز ہے…اور کتنی ضروری چیز ہے اسے سمجھنا ہو تو قرآن مجید میں جھانک کر دیکھیں…بڑے بڑے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگ رہے ہیں…بڑے بڑے مجاہدین دعاء مانگ رہے ہیں…بڑے بڑے بادشاہ دعاء مانگ رہے ہیں…فاتحین بھی دعاء مانگ رہے ہیں…اور مظلوم بھی دعاء مانگ رہے ہیں…اور جو بھی اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگ رہا ہے وہ کامیاب ہو رہا ہے…
قرآن مجید کی دعائیں پڑھتے جائیں…ان دعاؤں کے آس پاس والا قصہ پڑھتے جائیں… آپ کے دل میں دعاء کی اہمیت اچھی طرح بیٹھ جائے گی…افسوس کہ آج مسلمانوں نے دعاء بہت کم کر دی ہے…اکثر مانگتے ہی نہیں…اور جو مانگتے ہیں وہ توجہ اور یقین سے نہیں مانگتے…
آج کا سبق
آج کئی باتیں عرض کرنی تھیں مگر ایک ضروری بات جس کا تعلق دعاء کے ساتھ ہے وہ ہر بار رہ جاتی ہے…آج کوشش کرتے ہیں کہ اس کا کچھ تذکرہ ہو جائے…دعاء کے بارے میں ہم پر کچھ حقوق ہیں…کچھ لوازمات ہیں اور کچھ قرضے…بس یہی ایک نکتہ آج کا سبق ہے…
تین طبقے
ہم میں سے ہر مسلمان کی زندگی میں تین طبقے ضرور موجود ہوتے ہیں:
(۱) ہم پر احسان کرنے والے…ہمارے ساتھ بھلائی کرنے والے مسلمان
(۲) ہم پر ظلم کرنے والے…ہمیں ستانے والے مسلمان
(۳) وہ مسلمان جن پر ہم کوئی ظلم کر بیٹھتے ہیں…کوئی زیادتی،غیبت،حق تلفی وغیرہ…
آپ کو اپنی زندگی میں یہ تین طبقے ضرور نظر آئیں گے…اور مرتے دم تک یہ تینوں ہمارے ساتھ رہتے ہیں…ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی روزانہ کی دعاء میں ان تین طبقوں کو ان کا پورا حق دیں…جو مسلمان یہ حق ادا کرتا ہے وہ بڑی بڑی نعمتیں پا لیتا ہے…
پہلا طبقہ
ناشکری بہت خطرناک گناہ اور جرم ہے … ناشکری انسان کو کفر تک لے جاتی ہے…اسی لئے عربی زبان میں ناشکری کو ’’کفران‘‘ کہتے ہیں … اور یہ مقولہ مشہور ہے کہ کفران بڑھ جائے تو انسان کو کفر میں گرا دیتا ہے…اور فرمایا کہ جس نے لوگوں کی ناشکری کی…یعنی ان کے احسان کو نہیں مانا، ان کے احسان کو محسوس نہیں کیا وہ انسان…اللہ تعالیٰ کا بھی ’’ناشکرا‘‘ ہوتا ہے…حضرت امام بخاریؒ نے اپنی مایہ ناز اصلاحی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں ہر مسلمان کو یہ نکتہ سمجھانے کے لئے بہت زور لگایا ہے …اللہ تعالیٰ توفیق دے تو وہاں ضرور پڑھ لیجئے گا…اللہ تعالیٰ ہماری زندگی میں ایسے افراد کو لاتا ہے جو ہم پر ’’احسان‘‘ کرتے ہیں… اوران کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں بڑی انمول نعمتیں عطاء فرماتا ہے مگر شیطان کی پوری کوشش رہتی ہے کہ …ہم ایسے افراد اور ان کے احسانات کی ناقدری کریں ،ناشکری کریں… ایسے افراد کے لئے روزانہ دعاء کو اپنا معمول بنانا چاہیے…دعاء بھی شکر گزاری اور احسان کا بدلہ دینے کا ایک بہترین ذریعہ ہے… کسی نے ہم پر دینی احسان کیا،کسی نے ہم پر روحانی احسان کیا…کسی نے ہم پر دنیاوی احسان کیا… کسی نے ہم پر علمی احسان کیا…یا اللہ! جس مسلمان نے بھی ہمارے ساتھ کوئی احسان کیا،ہمیں کوئی بھی خیر یا بھلائی پہنچائی اسے اس کا بہترین بدلہ…جزائے خیر دنیا وآخرت میںعطافرما دیجئے …ایسے تمام افراد کی مغفرت فرما دیجئے!انہیں وافر رزق حلال عطاء فرما دیجئے …اور انہیں جہنم کی آگ اور دھوئیں تک سے بچا لیجئے … یا اللہ! آپ کے علم میں جو افراد ہمارے لئے خیر والے ہیںہمیں ان کی قدر دانی نصیب فرما دیجئے …
یہی دعاء کر لیجئے یا اس سے ملتے جلتے اپنے حسب حال الفاظ استعمال کیجئے…یقین کریں اگر آپ نے اس دعاء کو اپنا معمول بنا لیا تو …ان شاء اللہ آپ کے بہت سے قرضے اُتر جائیں گے… بہت سے حقوق ادا ہو جائیں گے…اور آپ بہت سی محرومیوں سے بچ جائیں گے…آپ کے ’’اہل احسان‘‘ وفات پا چکے ہیں یا زندہ ہوں…دونوں کے لئے دعاء کو اپنا معمول بنا لیں…
دوسراطبقہ
وہ مسلمان جو ہمیں ستاتے ہیں،تنگ کرتے ہیں…ہم پر ظلم یا زیادتی کرتے ہیں…ہماری غیبت کرتے ہیں…ہماری حق تلفی کرتے ہیں… ہمیں ایذاء پہنچاتے ہیں…یہ حضرات بھی دراصل ہمارے ’’محسن‘‘ ہیں…یہ اگر ہماری زندگی میں نہ آئیں تو ہم کبھی ترقی نہ کر سکیں …یہ افراد نہ ہوں تو ہم ہمیشہ کمزور رہ جائیں…یہ افراد نہ ہوں تو ہماری زندگی بہت سی اچھی تبدیلیوں سے محروم رہ جائے …یہ ہمارے محسن ہیں…جس طرح پہلے طبقے والے ہمارے محسن ہیں…فرق اتنا ہے کہ… پہلے طبقے والے ہمارے ساتھ بھی بھلا کرتے ہیں اور اپنے ساتھ بھی بھلا کرتے ہیں…جبکہ دوسرے طبقے والے وہ لوگ ہیں جو اپنا نقصان کر کے ہمارا بھلا کرتے ہیں…مثلاً اگر وہ ہماری غیبت کرتے ہیں تو اس میں ان کا شدید نقصان ہے مگر ہمارا بھلا ہے کہ…ہمارے گناہ اب ان کے سر چلے جائیں گے…وہ ہمیں ستاتے ہیں تو اپنا نقصان کرتے ہیںکیونکہ مسلمانوں کو ستانا جرم ہے…مگر ان کے ستانے کی وجہ سے ہمارے اندر مضبوطی اور اچھی تبدیلی آتی ہے…اورہماری اصلاح ہوتی ہے… اس لئے جو مسلمان جس قدر زیادہ کام والا ہوتا ہے اس کو ستانے والے بھی اس قدر زیادہ ہوتے ہیں …لوگوں کے ستانے اور ایذاء پہنچانے سے ہمیں کون کون سی نعمتیں ملتی ہیں…یہ قرآن مجید نے کئی جگہ بہت لطیف انداز میں سمجھایا ہے…آپ خود اپنی زندگی میں غور کریں…ماضی کے واقعات یاد کریں …اگر بہت سے ستانے والے اور ایذاء پہنچانے والے افراد آپ کی زندگی میں نہ آتے تو آپ کتنی نعمتوں سے محروم ہو جاتے…خیر یہ ایک بڑا وسیع موضوع ہے…آج یہ عرض کرنا ہے کہ اس طبقے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر ہم روز اسے معاف کریں …اور روز ان کے لئے دعاء کریں تو دو نعمتیں ملنے کا قوی امکان ہے…پہلی نعمت یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی مل جائے گی جس کے ہم بے حد محتاج ہیں…اور دوسری نعمت یہ کہ رزق میں ایسی برکت ہو گی کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی…
یا اللہ! ہر وہ مسلمان جس نے ہماری غیبت کی، حق تلفی کی…ہم پر کوئی ظلم کیا،زیادتی کی…ہمیں ایذاء پہنچائی …یا اللہ! ہم نے اسے آپ کی رضا کے لئے معاف کر دیا…آپ اسے معاف فرما دیجئے اور اپنی مغفرت اور رحمت اسے عطاء فرما دیجئے …
یہ دعاء اگر دل کی موافقت کے ساتھ نصیب ہو جائے …اور ہمارا عمل بھی اس کے مطابق ہوجائے تو… پھر ان شاء اللہ توفیق، مغفرت اور رزق کے دروازے ہم پر کھل جاتے ہیں…
یہ وہ طبقہ ہے کہ اگر ہم اسے معاف نہ کریں تو یہ بھی جائز ہے… اگرہم اُس سے برابر کا بدلہ لیں تو یہ بھی جائز ہے…اور اگر ہم ان کے لئے کچھ شرائط کے ساتھ بددعاء کریں تو وہ بھی جائز ہے…
مگر جو مسلمان …اپنے آقا مدنی ﷺ کے حکم پر سر جھکا کر اپنے یہ تمام جائز حقوق چھوڑ دے …ظلم کرنے والوں کو معاف کرے اور برائی کرنے والوں کے ساتھ اچھائی کرے…
وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلیٰ مَنْ اَسَائَ اِلَیْکَ
تو ایسا مسلمان …اپنے عظیم آقا مدنی ﷺ کے مبارک اخلاق کی پیروی کرتا ہے…آپ ایسے مسلمان کے اونچے مقام کا خود اندازہ لگا لیجئے…
تیسرا طبقہ
دعاء کے باب میں یہ طبقہ سب سے زیادہ ’’اہم‘‘ اور ’’ضروری‘‘ ہے…یہ وہ مسلمان ہیں جو ہمارے ’’ اہل حقوق‘‘ اور ’’اہل مظالم ‘‘ ہیں…ہم پر ان کے حقوق لازم تھے جو ہم نے ادا نہیں کئے … اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کی ہم نے غیبت کر ڈالی…گویا ان کا گوشت کھا گئے…
بعض ایسے ہیں جن پر ہم نے کوئی ظلم کر ڈالا …اور قیامت کے دن اپنی گردن ان کے ہاتھ میں دے دی…بعض ایسے ہیں کہ ہم نے انہیں کوئی ایذاء یا تکلیف پہنچا کر …مسلمان کی جگہ ’’موذی‘‘ ہونے کا کردار ادا کیا…یہ لوگ اگرہمیں معاف کئے بغیر دنیا سے جا چکے ہیں تومعاملہ زیادہ خوفناک ہے… اور اگر زندہ ہیں تو پھر کچھ کم خوفناک ہے …ہم پر لازم ہے کہ ہم دعاء اور نفل عبادات کے ایصال ثواب کے ذریعے اس معاملہ میں اپنی جان کا بھلا کریں…
یا اللہ! وہ تمام مسلمان جن کی ہم نے غیبت کی، حق تلفی کی، ایذاء رسانی کی…انہیںکوئی تکلیف پہنچائی… یا اللہ! ہمیں اور انہیں اپنی معافی عطا فرما دیجئے…یا اللہ! انہیں اس کے بدلے بہترین نعمتیں،اپنی رحمتیں اور برکتیں عطا فرما دیجئے…یا اللہ!انہیں توفیق دیجئے کہ وہ ہمیں معاف کر دیں …یا اللہ! آئندہ اس طرح کے گناہوں سے ہماری حفاظت فرما دیجئے…یہ الفاظ یا اپنے حسب حال جو بھی الفاظ ہوں ان میں دل کی توجہ سے…اور اپنی اہم ضرورت سمجھ کر اس دعاء کو اپنا معمول بنائیں …
ہم نے ایسے حضرات کو دیکھا ہے جو …فکرِ آخرت رکھتے تھے، وہ ہمیشہ اپنے اس تیسرے طبقے کے معاملہ میں بہت فکر مند رہتے اور سخت محنت کرتے …میں نے خود ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ روزانہ سات پارے تلاوت کر کے اپنے ’’اہل حقوق‘‘ اور ’’اہل مظالم‘‘ کو ایصال ثواب کرتے تھے …یعنی وہ افراد جن کی انہوں نے کبھی حق تلفی کی اور جن پر ان سے کوئی ظلم ہوا…اس طبقے کے لئے دعاء کے فوائد بے شمار ہیں…انسان کو اپنے گناہوں کا احساس رہتا ہے…اپنے بشر اور کمزور ہونے کا احساس رہتا ہے…اور دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی اہمیت بھی دل میں رہتی ہے …اور بہت سا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے…
اے مسلمانو! دعا کو اپنا لو…آپس میں رحم کرنے والے بنو…اللہ کے دشمنوں کے لئے سخت بنو… مسلمانوں کے حقوق ادا کرو…اور مسلمانوں کے دشمنوں سے جہاد کرو…دیکھو! کامیاب ترین طبقے کی یہی صفات قرآن مجید نے بیان فرمائی ہیں…
اَشِدَّائُ عَلیٰ الْکُفَّارِ،رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭