آسان طریقہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 503)
اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعاء وہی مسلمان کرتے ہیں…جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں…
یا اللہ ! ہمیں مقبول ایمان بالغیب عطاء فرما
دور والی بہت قریب
جنت ویسے تو ہم سے بہت دور ہے… کیونکہ جنت سات آسمانوں کے اوپر ہے… مگر بعض حالات ایسے آ جاتے ہیں کہ… جنت کسی انسان کے بالکل قریب ہو جاتی ہے…
مثلاً ایک غریب آدمی ہے…مہینہ میں مشکل سے پانچ دس ہزار روپے کماتا ہے… تو شہر کی مہنگی کوٹھیاں اس کی پہنچ سے کتنی دور ہیں؟… وہ اگر دس کروڑ کی ایک کوٹھی خریدنا چاہے تو اس کے لئے اس کی سو سال کی تنخواہ بھی کافی نہیں… اسی طرح شہر کے شورومز میں موجود مہنگی گاڑیاں اس سے کتنی دور ہیں؟… یقیناً بہت دور… وہ اگر دس سال بھی بچت کر کے پیسہ جمع کرے تو اچھی گاڑی نہیں خرید سکتا… مگر ایک دن اچانک اسے بہت سی رقم مل گئی…نوٹوں سے بھرا ایک بڑا صندوق… کم از کم پچاس ساٹھ کروڑ کی نقد رقم… اب اس لمحے وہ بہت سی چیزیں جو اس سے سالہا سال دور تھیں ایک دم قریب آ گئیں… اب وہ ایک گھنٹے میں ایک نئی گاڑی خرید سکتا ہے…
جنت واقعی بہت دور ہے… لیکن جب ’’بندہ مومن‘‘ ایمان اور اخلاص کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں نکلتا ہے تو…یہ کروڑوں اربوں سال کی دوری والی جنت…بالکل اُس کے قریب، اُس کے سر پر آ جاتی ہے… اور اس میں اور جنت میں بس اتنا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ…وہ مجاہد شہید ہواور فوراً جنت میں داخل ہو جائے… یعنی دو قدم کی مسافت… پہلا قدم شہادت اور دوسرا قدم جنت… یہ بات اپنی طرف سے نہیں لکھی… اس پر بڑے مضبوط دلائل موجود ہیں…بس یہاں صرف’’شہید بدر‘‘ حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کے مبارک الفاظ کافی ہیں:
’’ بخ بخ فما بینی وبین ان ادخل الجنۃ الا ان یقتلنی ھٰولاء‘‘
ترجمہ: واہ، واہ میرے اور جنت کے درمیان فاصلہ ہی کیا رہ گیا ہے،بس صرف اتنا کہ یہ مشرکین مجھے قتل کر ڈالیں…
وہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے، یہ الفاظ فرما کر کھجوریں پھینک دیں اور تلوار لے کر لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ شہید ہو گئے…
یہ اسلام کا پہلا بڑا معرکہ ’’غزوہ بدر‘‘ تھا… غزوہ بدر کے ہر منظر سے جہاد کی دلکش دعوت ملتی ہے …اور جہاد کے فضائل،معارف،حکمتیں اور قوانین معلوم ہوتے ہیں… اسی لئے غزوہ بدر کو یاد رکھنا چاہیے… اس کو بار بار پڑھنا چاہیے… اور اسے آپس میں سنتے سناتے رہنا چاہیے… کیونکہ یہ جہاد اور ’’علم جہاد‘‘ کا ایسا انمول خزانہ ہے…جو ہر ملاقات اور ہر مطالعہ پر نئے راز ،نئے اسباق اور نئی حکمتیں سکھاتا ہے…
پس وہ مسلمان جو جنت کے بہت زیادہ قریب ہونا چاہتا ہے…وہ جہاد میں نکلے… جہاد میں نکلتے ہی جنت اس کے قریب آ جائے گی… پھر وہ جس طرح بھی مرے…اس کی موت کا کوئی نتیجہ ظاہر ہو یا نہ ہو…ہر حال میں اس کے لئے جنت لازم ہے… علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ… اللہ تعالیٰ بعض ’’جہاد‘‘اس لئے قائم فرماتا ہے تاکہ… اپنے بندوں میں سے کچھ کو شہادت عطاء فرمائے…یعنی اس جہاد کا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا… اور نہ اس کا کوئی اور اثر زمین پر ظاہر ہوتا ہے… وہ جہاد بس اس لئے ہوتا ہے کہ… بعض خوش نصیب مسلمان ’’شہادت ‘‘ کا بلند مقام …شہادت کی مزیدار اور پائیدار زندگی… اور شہادت کا دائمی انعام پا لیں… اور یہ کوئی چھوٹا انعام یا مقصد نہیں ہے…ایک مسلمان کو مرتے ہی شاندار زندگی… ہمیشہ ہمیشہ کا عیش و آرام …اور ہمیشہ کی کامیابی مل جائے تو اسے اور کیا چاہیے…یہ تو ایسی نعمت ہے کہ… اگر اس کی خاطر سب کچھ ابھی قربان کرنا پڑے تو سودا بہت سستا اور بہت نفع والا ہے…
طاقتور بہت کمزور
مکہ کے مشرکین کس قدر طاقتور تھے؟…وہ تلواروں کے سائے میں پلتے تھے، گھوڑوں کی پیٹھ پر جوان ہوتے تھے اور بہادری اور شجاعت میں ساری دنیا پر فائق تھے…ان کی جنگ بازی،خونریزی اور بہادری کے واقعات جب ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے…
غزوہ بدر کے دن پورے قریش کی طاقت کا ’’مکھن‘‘ …میدان بدر میں موجود تھا…صرف ابو جہل کی جنگی اور طبعی طاقت کا حال لکھا جائے تو آج کا کالم اسی میں لگ جائے… فرعون سے بڑھ کر ضدی ابو جہل کی طاقت کا یہ حال تھا کہ…اس نے کئی مرتبہ عذاب کے فرشتے اور عذاب کی جھلکیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں… مگر یہ نہ تو بے ہوش ہوا اور نہ قائل ہوا… آج دنیا کے بڑے سے بڑے بہادر کو کسی پر حملہ کرتے وقت …اگر وہ مناظر نظر آ جائیں …جو ابو جہل نے حضور نبی کریم ﷺ پر حملہ کرتے وقت دیکھے تھے تو…وہ فوراً خوف سے مر جائے…
ابو جہل ظالم کہتا تھا کہ…جب حضور نبی کریم ﷺ سجدہ میں ہوں تو مجھے بتانا میں ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر …(نعوذ باللہ) گردن توڑ دوں گا…
ایک بار اسی ناپاک سے ارادے سے آگے بڑھا…مگر پھر اپنے دونوں ہاتھ منہ ہر رکھ کر ایک دم پیچھے ہٹا… اسی طرح دو تین بار آگے بڑھا اور پھر پیچھے ہٹا… لوگوں نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو کہنے لگا آگے ایک خندق آگ کی بھری ہوئی سامنے آ گئی اور ایک بڑا اژدھا میری طرف لپکا…اگر میں پیچھے نہ ہٹتا تو یا آگ میں جل مرتا یا وہ اژدھا مجھے نگل لیتا…
اندازہ لگائیں…ایسا منظر دیکھنے کے باوجود وہ نہ دہشت سے مرا…نہ بے ہوش ہو کر گرا… نہ وہاں سے بھاگا… بلکہ بار بار آگے بڑھ کر اپنے ناپاک ارادے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہا… غزوہ بدر کے میدان میں ابو جہل موجود تھا اور اسی جیسے اور چوبیس نامور سردار موجود تھے…ان میں ہر ایک کی مستقل جنگی اور عسکری داستان تھی…دوسری طرف مقابلے میں بے سروسامان مسلمان تھے…تعداد بھی کم اور سامان حرب بھی قلیل …مگر یہ جہاد کا میدان تھا…اور جہاد کے میدان کے لیئے اللہ تعالیٰ کے قوانین نرالے ہیں…یہاں دور کی چیزیں قریب اور قریب کی چیزیں دور ہو جاتی ہیں…یہاں بہت سے بارعب…اپنا رعب کھو دیتے ہیں…اور بہت سے مسکین بہت بارعب ہو جاتے ہیں…یہاں بہت سے طاقتور شہباز ’’چڑیا‘‘ بن جاتے ہیں…اور بہت سی ’’ابابیلیں‘‘ ہاتھیوں سے طاقتور…غزوہ بدر میں مقابلہ ہوا…کمزور اور قلیل مسلمان غالب آئے… ابو جہل اور اس کے ہم پلہ چوبیس سردار بالوں سے گھسیٹ کر ایک ناپاک کنویں میں ڈال دئیے گئے… یہ سارا قصہ اکثر مسلمانوں کو معلوم ہے… آج جو بات عرض کرنی ہے …وہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر غزوہ بدر فتح کر کے…مدینہ واپس آ رہا تھا… راستہ میں ’’مقام روحاء‘‘ پر کچھ مسلمانوں نے لشکر کا استقبال کیا اور آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو فتح مبین کی مبارک باد دی… اس پر حضرت سلمہ بن سلامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کس بات کی مبارک باد دیتے ہو…اللہ تعالیٰ کی قسم بوڑھی عورتوں سے پالا پڑا اور ہم نے ان کو رسی میں بندھے ہوئے اونٹوں کی طرح ذبح کر کے پھینک دیا…
غور فرمائیں…ابو جہل، عتبہ، شیبہ جیسے جنگ آزما ،سورما… جن کے خوف اور دہشت سے وادیاں کانپتی تھیں… ان کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ…بوڑھی عورتیں تھیں…اور رسیوں میں بندھے ہوئے جانور…
دراصل جہاد میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ…وہ کافروں اور ان کی طاقت کو ’’بہت چھوٹا‘‘ کر دیتا ہے… آج بھی ہمارے صاحب اقتدار مسلمان… کافروں سے بہت ڈرتے ہیں…اور ان کے رعب سے کانپتے ہیں… اور ان کے خوف اور دباؤ میں آ کر غلط کام کرتے ہیں… لیکن جہاد میں مشغول مسلمان… اپنے دل میں کافروں کے لئے کوئی خوف،کوئی رعب… یا کوئی بڑائی نہیں پاتے… ان کے نزدیک… سارے اوبامے، مودی اور یہودی… بوڑھی عورتیں اور رسی میں بندھے جانور ہیں…یاد رکھیں! ہر انسان نے اپنے وقت پر مرنا ہے…جو لوگ کافروں کے رعب میں رہتے ہیں وہ بھی اپنے وقت پر مرتے ہیں…اور جو کافروں کے رعب سے آزاد ہیں وہ بھی… اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتے… ہاں! یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ…کسی مسلمان کے دل میں کافروں کا رعب اور بڑائی نہ ہو…اور یہ نعمت جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے نصیب ہوتی ہے…
آسان طریقہ
اگر ہم چاہتے ہیں کہ… وہ جنت جو ہم سے بہت دور ہے…وہ ہمارے بہت قریب آ جائے …اگر ہم چاہتے ہیں کہ… دنیا بھر کے اسلام دشمن کافر ہماری نظروں میں چھوٹے اور حقیر ہو جائیں…اور ہمیں ان کی ذہنی غلامی سے نجات ملے تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم جہاد فی سبیل اللہ کے راستہ کو اختیار کر لیں… جہاد میں کامیابی ہی کامیابی…اور رحمت ہی رحمت ہے…
الرحمت ٹرسٹ کے جانباز داعی… آج کل مسجد،مسجد اور گلی گلی جہاد فی سبیل اللہ کی دعوت دیتے پھرتے ہیں…یہ دیوانے اس امت کے محسن ہیں …ان کا ساتھ دیں…ان کی مہم کو کامیاب بنائیں…اور آپ بھی ان کے ساتھ ’’قافلہ جہاد‘‘ میں شامل ہو جائیں…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اہم محنت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 502)
اللہ تعالیٰ ’’بخل‘‘ اور ’’لالچ‘‘ سے ہم سب کی حفاظت فرمائے
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ
بخل یعنی کنجوسی کی بیماری تین وجوہات سے پیدا ہوتی ہے:
(۱) مال کی محبت
(۲) زیادہ زندہ رہنے کا شوق ،لمبی تمنائیں
(۳) بے وقوفی…کم عقلی
ایک دلچسپ قصہ
ہمارے ہی زمانے کا یہ قصہ کسی نے نقل کیا ہے … ایک صاحب کو انگور بہت پسند تھے… صبح اپنی فیکٹری جاتے ہوئے انہیں راستے میں اچھے انگور نظر آئے…انہوں نے گاڑی روکی اور دوکلو انگور خرید کر نوکر کے ہاتھ گھر بھجوا دئیے اور خود اپنی تجارت پر چلے گئے… دوپہر کو کھانے کے لئے واپس گھر آئے…دستر خوان پر سب کچھ موجود تھا مگر انگور غائب… انہوں نے انگوروں کا پوچھا… گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو بچوں نے کھا لئے…کچھ ہم نے چکھ لئے…معمولی واقعہ تھا مگر بعض معمولی جھٹکے انسان کو بہت اونچا کر دیتے ہیں… اور اس کے دل کے تالے کھول دیتے ہیں… وہ صاحب فوراً دستر خوان سے اٹھے… اپنی تجوری کھولی، نوٹوں کی بہت سی گڈیاں نکال کر بیگ میں ڈالیں اور گھر سے نکل گئے… انہوںنے اپنے کچھ ملازم بھی بلوا لئے …پہلے وہ ایک پراپرٹی والے کے پاس گئے … کئی پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ منتخب کیا…فوراً اس کی قیمت ادا کی…پھر ٹھیکیدار اور انجینئر کو بلایا … جگہ کا عارضی نقشہ بنوا کر ٹھیکیدار کو مسجد کی تعمیر کے لئے… کافی رقم دے دی… اور کہا دو گھنٹے میں کھدائی شروع ہونی چاہیے…وہ یہ سب کام اس طرح تیزی سے کر رہے تھے…جیسے آج مغرب کی اذان تک ان کی زندگی باقی ہو…ان کاموں میں ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں… مگر جب دل میں اخلاص کی قوت ہو… ہاتھ بخل اور کنجوسی سے آزاد ہو تو… مہینوں کے کام منٹوں میں ہو جاتے ہیں…ایک صاحب ’’نو مسلم‘‘ تھے… ان کو نماز کی تکبیر اولیٰ پانے کا عشق تھا… ایک بار وضو میں کچھ تاخیر ہو گئی… نماز کے لئے اقامت شروع ہوئی تو وہ وضو خانے سے دیوانہ وار شوق میں مسجد کے صحن کی طرف بڑھے…جلدی میں وہ وضو خانے کی ایک دیوار کے سامنے آ گئے تو ان کا ہاتھ لگتے ہی وہ دیوار اچانک بیٹھنے اور گرنے لگی… وہ تیزی سے ایک طرف ہو کر گزر گئے…نماز کے بعد سب لوگ حیران تھے کہ اس دیوار کو کیا ہوا…وہ نو مسلم صاحب فرماتے ہیں کہ جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے جا کر دیوار پر زور لگانا شروع کیا کہ …کسی طرح سیدھی ہو جائے… مجھے خیال تھا کہ چونکہ میرے ہاتھوں سے یہ ٹیڑھی ہوئی ہے تو میں ہی اس کو سیدھا کر سکتا ہوں…مگر بار بار زور لگانے کے باوجود دیوار سیدھی نہ ہوئی…
تب سمجھ آیا کہ…نماز کو جاتے وقت میرے اندر اخلاص اور شوق کی جو طاقت تھی…اس نے اتنی مضبوط دیوار کو ہلا دیا تھا…اور اب وہ طاقت موجود نہیں ہے… یہی صورتحال تاجر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی… اخلاص اور شوق کی طاقت نے …چند گھنٹوں میں سارے کام کرا دئیے… بہترین موقع کا پلاٹ بھی مل گیا… اچھا انجینئر اور اچھا ٹھیکیدار بھی ہاتھ آ گیا… اور مغرب کی اذان سے پہلے پہلے کھدائی اور تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا …شام کو وہ صاحب واپس گھر آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آج آپ کھانا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟… کہنے لگے… اپنے اصلی گھر اور اصلی رہائشی گاہ کا انتظام کرنے…اور وہاں کھانے پینے کا نظام بنانے گیا تھا…الحمد للہ سارا انتظام ہو گیا … اب سکون سے مر سکتا ہوں… آپ لوگوں نے تو میری زندگی میں ہی… انگور کے چار دانے میرے لئے چھوڑنا گوارہ نہ کئے… اور میں اپنا سب کچھ آپ لوگوں کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا … میرے مرنے کے بعد آپ نے مجھے کیا بھیجنا تھا؟ … اس لئے اب میں نے خود ہی اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے آگے بھیج دیا ہے…اس پر میرا دل بہت سکون محسوس کر رہا ہے…
صدقہ ،خیرات کے فوائد
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں …صدقہ ،خیرات اور دین پر مال لگانے کے فضائل اس قدر زیادہ ہیں کہ… انہیں پڑھ کر پتھر دل انسان بھی ’’بخل‘‘ سے توبہ کر لیتا ہے…مگر شیطان پڑھنے نہیں دیتا… شیطان ہمارا دشمن ہے،اس نے ہمیں ذلیل کرنے کی قسم کھائی ہے…اور وہ ہمیں مال کے ذریعے زیادہ ذلیل کرتا ہے… مال کے نوکر بنے رہو…مال کے غلام بنے رہو… مال گن گن کر چھپا چھپا کر رکھتے رہو…دن رات مال جمع کرتے رہو…مال کی خاطر چوری کرو، خیانت کرو… حرمتیں پامال کرو… مال کی حفاظت کے لئے مرتے رہو…مال کے نقصان پر روتے رہو…
شیطان نے مال کے بارے میں جو’’ پیکج‘‘ بنایا ہے…اس کا خلاصہ ہے
’’سانپ سے سانپ تک‘‘
یعنی دنیا میں تم کالے سانپ کی طرح… مال کے اوپر چوکیدار بن کر بیٹھے رہو…اس مال سے کسی کو فائدہ نہ اٹھانے دو…اور جب یہ سارا مال چھوڑ کر مرجاؤ تو اس مال کو سانپ بنا کر تمہاری گردن میں لٹکا دیا جائے…اور وہ تمہارے چہرے پر کاٹتا رہے…
آج کے کروڑ پتی…ارب پتی اور سرمایہ دار کیا کر رہے ہیں؟… یہی سانپ والا کردار… غور کریں تو آپ کو ان کی شکلیں بھی سانپ جیسی نظر آئیں گی…
صدقہ،خیرات سے انسان کا نفس پاک ہو جاتا ہے… اس کا مال بھی پاک ہو جاتا ہے … آپ تجربہ کر لیں…سخت پریشانی اور سخت بیماری کے وقت اگر اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے مال خرچ کر دیا جائے تو… پریشانی دور اور بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے… دراصل مال کا وہ نوٹ یا حصہ… خود ایک بیماری اور پریشانی تھی…وہ جب تک ہمارے پاس موجود رہتا ہمیں اسی طرح تکلیف میں رکھتا مگر جب وہ چلا گیا… تو وہ خود بھی ہمارے لئے رحمت بن گیا …اور اپنے پیچھے بھی ہمارے لئے … رحمت چھوڑ گیا…
جہنم کی آگ کتنی سخت ہے… مگر صدقہ خیرات سے یہ آگ بجھ جاتی ہے…
قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہو گا…جس کا صدقہ زیادہ اس کا سایہ بھی زیادہ…گناہوں کی آگ کو بھی صدقہ اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو…دراصل انسان جو گناہ بھی کرتا ہے اس گناہ کے برے اثرات اس کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں …مگر صدقہ کی برکت سے وہ گرم اثرات ختم ہو جاتے ہیں … صدقہ میزان حسنات کو بھاری کر دیتا ہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صدقہ کرنے والے کی… اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر ومنزلت بہت بڑھ جاتی ہے … صدقہ انسان کو دنیا میں مالدار اور آخرت میں کامیاب بناتا ہے… اور صدقہ ہی اصل میں انسان کے دل کی خوشی ہے…
اہم مگر مشکل محنت
اسلام میں نیکیوں پر مال خرچ کرنے کی… بہت ترغیب ہے…
مسجد پر خرچ کرو…والدین پر خرچ کرو … اہل و اولاد پر خرچ کرو… دینی تعلیم پر خرچ کرو … غرباء مساکین پر خرچ کرو…کھانا کھلانے اور افطار کرانے پر خرچ کرو… مصیبت زدہ لوگوں پر خرچ کرو… پانی کے انتظام پر خرچ کرو… والدین کے ایصال ثواب پر خرچ کرو… وغیرہ
مگر سب سے زیادہ فضائل …جہاد پر خرچ کرنے کے ہیں…سب سے زیادہ اجر جہاد پر خرچ کرنے کا ہے… اور سب سے بڑا مقام جہاد میں مال لگانے کا ہے…
حتی کہ کعبہ شریف پر …اور حجاج کرام کی خدمت پر خرچ کرنے سے بھی زیادہ اجر جہاد پر خرچ کرنے کا ہے…جہاد چونکہ فرض ہے…اس لئے مال سے جہاد کرنا بھی فرض کے درجے میں آتا ہے…
ہمارے ساتھی اور رفقاء جو انفاق فی سبیل اللہ کی مہم میں شریک ہیں…وہ بہت اہم خدمت سر انجام دے رہے ہیں… آج ایک طرف یہ فتنہ سرگرم ہے کہ مجاہدین کو لوگوں سے بھیک نہیں مانگنی چاہیے…انہیں چاہیے کہ بینک لوٹیں،بھتہ لیں… لوگوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کریں … کئی افراد اس طرح کے نعروں میں گمراہ ہو گئے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو گئے… حالانکہ اسلام میں مسلمانوں کے مال کو اغواء وغیرہ کے ذریعے حاصل کرنے کو…شرمناک قسم کا حرام قرار دیا گیا ہے…
دوسرا فتنہ حکمرانوں کی طرف سے ہے کہ… وہ شرعی جہاد پر مال دینے سے لوگوں کو روکتے ہیں …مجاہدین کو چندہ کرنے پر پکڑتے ہیں…اور طرح طرح کی پابندیاں اور رکاوٹیں ڈالتے ہیں … قرآن مجید کی ’’سورۃ المنافقون ‘‘ نے …یہ مسئلہ سمجھایا ہے کہ…کافروں اور منافقوں کے نزدیک مال بڑی چیز ہوتا ہے… وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مجاہدین کے مالی راستے بند کر دئیے جائیں تو ان کا جہاد اور ان کا دین ختم ہو جائے گا…حالانکہ ان کی یہ سوچ غلط ہے…اور زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے…
تیسرا فتنہ…کمزور دل مسلمانوں کی طرف سے ہے کہ… وہ اپنی مساجد اور اپنے منبروں پر …کفار اور منافقین کے ڈر سے… جہاد فی سبیل اللہ کو بیان نہیں کرتے… اسی لئے مسلمانوں کو جہاد کے وہ مسائل بھی معلوم نہیں ہیں…جو قرآن مجید میں نص قطعی کے طور پر صراحت سے مذکور ہیں… مثلاً کئی مسلمان پوچھتے ہیں کہ کیا مجاہدین کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟… یہ مسئلہ قرآن مجید نے صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے کہ… مجاہدین زکوٰۃ کا مصرف ہیں… آج بدعات پر خرچ کرنے کی ترغیب دینے والے بہت ہیں… کروڑوں اربوں روپے بدعات و خرافات پر دین کے نام سے خرچ کئے جاتے ہیں… آج نفل کاموں پر خرچ کرنے کی ترغیب دینے والے بہت ہیں… کروڑوں اربوں روپے نفل عمروں، وہاں کی مہنگی رہائشوں اور مدارس میں انگریزی تعلیم پر خرچ کئے جاتے ہیں… مگر جہاد پر خرچ کی ترغیب سنانے کا کوئی سلسلہ مساجد اور منابر پر موجود نہیںہے…
اب ان تین فتنوں کی موجودگی میں …جہاد کے لئے چندہ کس قدر مشکل ہو جاتا ہے؟… مگر اخلاص اور شوق ہر مشکل کا علاج ہے…
اور اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا جوش… ناموافق حالات میں مزید بڑھ جاتا ہے…اے دین کے دیوانو! اللہ تعالیٰ آپ کو بہت جزائے خیر عطاء فرمائے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مرغوب اور مہنگی نعمت
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 501)
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو جو بہت قیمتی نعمتیں عطاء فرمائی ہیں…ان میں سے ایک انمول نعمت ’’گرمی کے روزے‘‘ ہیں…
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمْ
اللہ تعالیٰ کے ہاں جن عبادات کی قدر اور قیمت بہت زیادہ ہے…ان عبادات میں گرمی کے روزے بھی شامل ہیں…
سخت گرمی کے روزے!
موت کی سکرات کو ٹھنڈا کرتے ہیں … موت کے وقت کی گرمی سے اللہ تعالیٰ بچائے وہ دل اور جسم کو پگھلا دیتی ہے…
سخت گرمی کے روزے!
قیامت کے دن کی شدید پیاس اور شدید گرمی کے وقت کا ٹھنڈا شربت ہیں…اُس دن سورج سر پر ہو گا… بالکل قریب، نہ کوئی پردہ… نہ کوئی چھت، لوگ اپنے پسینے میں ڈوبتے ہوں گے… کھولتا ہوا گرم پسینہ…تب ان لوگوں کو ٹھنڈے جام پلائے جائیں گے…جو گرمیوں کے سخت روزے خوشی خوشی برداشت کرتے تھے…
سخت گرمی کے روزے!
ایمان کی خصلت اور علامت ہیں…یہ ایمان کی چوٹی تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں…یہ ایمان کی حقیقت کا حصہ ہیں…یعنی جو سچا مومن ہے وہ گرمی کے روزوں سے پیار رکھتا ہے…وہ گرم ترین دن ڈھونڈتا ہے تاکہ اس میں روزہ رکھے … وہ گرمی کے دن روزہ رکھ کر دوپہر کا انتظار کرتا ہے تاکہ…گرمی بڑھے تو پیاس زیادہ ہو…اور پھر وہ اس پیاس میں اپنے رب کے پیار کو تلاش کرتا ہے…
سخت گرمی کے روزے!
مومن کو اس مقام پر لے جاتے ہیں … جہاں اللہ تعالیٰ اس پر فخر فرماتے ہیں اور فرشتوں سے کہتے ہیں کہ… میرے بندے کو دیکھو! …اور اسی دن اللہ تعالیٰ جنت کی حور سے اس مومن کا نکاح کرا دیتے ہیں…
سخت گرمی کے روزے!
ان نعمتوں میں سے ہیں کہ… جن کی خاطر اللہ تعالیٰ کے خاص بندے دنیا میں زندہ رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ…اگر یہ نعمتیں نہ ہوں تو ہم ایک منٹ زندہ رہنا گوارہ نہ کریں… جہاد میں لڑنا …رات کو تہجد ادا کرنا…نماز کے لئے چل کر مسجد جانا… اور سخت گرم دن کا روزہ رکھنا…
سخت گرمی کے روزے!
ایک مومن کو ’’صبر‘‘ کا اونچا مقام دلاتے ہیں…اس کے عزم اور ہمت کو مضبوط کرتے ہیں اور اسے ایک کارآمد انسان بناتے ہیں…
اللہ کرے! ہمیں بھی گرمی کے روزوں سے عشق نصیب ہو جائے…تاکہ ہم موت اور آخرت کی گرمی سے بچنے کا انتظام کر سکیں…آئیے چند روایات اور چند حکایات پڑھتے ہیں…کیا عجب! ہم بھی اہل محبت کی یہ نشانی پا لیں…
سچے مومن کی چھ صفات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے… ( یعنی حضرت آقا مدنی ﷺ کا فرمان ہے)
چھ صفات جس شخص میں ہوں وہ حقیقی مومن ہے:
(۱) وضو پورا کرنا (۲) بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا (۳) سخت گرمی میں زیادہ روزے رکھنا (۴) دشمنوں کو تلوار سے قتل کرنا (۵) مصیبت پر صبر کرنا (۶) بحث نہ کرنا اگرچہ تو حق پر ہو ( الدیلمی فی الفردوس)
دوسری روایت میں آپ ﷺ کا فرمان ہے:
چھ خصلتیں خیر والی ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنا
(۲) گرم دن کا روزہ رکھنا
(۳) مصیبت کے وقت اچھا صبر کرنا
(۴) بحث نہ کرنا اگرچہ تم حق پر ہو
(۵) بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا
(۶) سردی کے دن اچھا ( یعنی پورا) وضو کرنا ( البیہقی)
ایک اور روایت میں ان صفات کو ایمان کی حقیقت قرار دیا گیا ہے کہ جس شخص کو یہ چھ صفات نصیب ہو جائیں تو وہ ایمان کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے ( رواہ المروزی)
ایک عجیب قصہ
یہ واقعہ حدیث شریف کی کئی کتابوں میں کچھ فرق کے ساتھ مذکور ہے… خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو …سمندری جہاد کے سفر پر بھیجا، آپ اپنے رفقاء کے ساتھ کشتی پر جا رہے تھے کہ …سمندر سے ایک غیبی آواز آئی… کیا میں تمہیں وہ فیصلہ نہ سناؤں جو اللہ تعالیٰ نے اوپر فرمایا ہے؟ …حضرت ابو موسیٰؓ نے کہا…ضرور سناؤ…آواز دینے والے نے کہا…اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ جو شخص خود کو کسی گرم دن…اللہ تعالیٰ کے لئے پیاسا رکھے گا ( یعنی روزہ رکھے گا) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم فرمایا ہے کہ …اس کو قیامت کے دن ضرور سیراب فرمائیں گے… حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے بعد گرم دنوں کی تلاش میں رہتے تھے…ایسے گرم دن کہ جن میں لوگ مرنے کے قریب ہوں… آپ ایسے دنوں میں روزہ رکھتے تھے… ( رواہ ابن المبارک وابن ابی شیبہ وعبد الرزاق وفی سندہ کلام)
حضرت آقا مدنی ﷺ کا عمل
بخاری اور مسلم کی ایک روایت کا خلاصہ ہے کہ:
حضور اقدس ﷺ ایک گرم دن میں سفر پر تشریف لے گئے ( رمضان المبارک کا مہینہ اور جہاد کا سفر تھا) گرمی اتنی شدید تھی کہ حضرات صحابہ کرام اپنے ہاتھ اپنے سروں پر رکھتے تھے…مگر اس حالت میں بھی حضور اقدس ﷺ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ روزہ کی حالت میں تھے … اور بھی کئی روایات میں سخت گرمی کے سفر کے دوران آپ ﷺ کا روزہ رکھنا ثابت ہے…اتنی گرمی کہ بعض اوقات آپ ﷺ نے اپنے اوپر پانی بھی ڈالا…تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہو…
حضرت ابو بکرؓ و عمرؓکا عمل
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تو مستقل یہ معمول تھا کہ:
’’گرمی کے موسم میں روزے رکھتے تھے اور سردیوں میں افطار فرماتے‘‘
یعنی نفل روزوں کے لئے گرمی کے موسم کو منتخب فرما رکھا تھا…حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بھی سخت گرمیوں میں روزے رکھنے کا معمول تھا…حتی کہ سفر میں جب گرم لو کے تھپیڑے آپ کو ایذاء پہنچا رہے ہوتے تھے تو آپ روزہ کی حالت میں ہوتی تھیں…
جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کے قریب اپنے بیٹے ’’عبد اللہ‘‘ کو وصیت فرمائی کہ اے پیارے بیٹے… ایمان والی صفات کو لازم پکڑنا…انہوں نے عرض کیا…اے پیارے ابا جی! وہ کونسی صفات ہیں…ارشاد فرمایا
(۱) سخت گرمی میں روزہ رکھنا
(۲) دشمنوں کو تلوار سے قتل کرنا ( یعنی اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو)
(۳) مصیبت پر صبر کرنا
(۴) سرد دنوں میں پورا وضو کرنا
(۵) بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا
(۶) شراب نہ پینا
( ابن سعد فی الطبقات)
مجھے گرمی لوٹا دو
حضرت عامر بن عبد قیس رضی اللہ عنہ … حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی دعوت پر بصرہ سے شام منتقل ہو گئے… وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے بار بار پوچھتے کہ کوئی حاجت، خدمت ہو تو بتائیں…مگر حضرت عامر کچھ نہ مانگتے …جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اصرار بڑھا تو حضرت عامرؓ نے فرمایا: مجھے بصرہ کی گرمی لوٹا دیجئے تاکہ مجھے سخت روزے نصیب ہوں… یہاں آپ کے ہاں روزہ بہت آسان گذر جاتا ہے… حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ …سخت گرمیوں میں نفل روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات بے ہوشی اور غشی طاری ہو جاتی …مگر روزہ نہ توڑتے … اور جب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو فرمایا:اپنے پیچھے ایسی کوئی چیز چھوڑ کر نہیں جا رہا کہ …جس کے چھوڑنے کا افسوس ہو…سوائے دو چیزوں کے …ایک گرمی کے روزہ میں دوپہر کی پیاس… اور دوسرا نماز کے لئے چلنا… ( بس ان دو چیزوں کے چھوٹنے کا افسوس ہے) ( ابن ابی شیبہ)
اسی طرح کی روایت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی ہے کہ وہ اپنی وفات کے وقت اس بات پر افسوس فرما رہے تھے کہ… اب گرمی کے روزے کی پیاس نصیب نہیں ہو گی…
میں کب آپ کی دلہن بنی؟
امام ابن رجب حنبلیؒ لکھتے ہیں…
جنت کی حور اپنے اللہ کے ولی خاوند سے پوچھے گی …کیا آپ کو معلوم ہے کہ کس دن مجھے آپ کے نکاح میں دیا گیا؟…یہ سوال و جواب اس وقت ہو گا جب وہ دونوں جنت میں …شراب کی نہر کے کنارے شان سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے…اور حور جام بھر بھر کر اپنے خاوند کو پلا رہی ہو گی…حور اپنے سوال کا جواب خود ہی دے گی … وہ ایک گرم دن تھا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو روزہ کی سخت پیاس میں دیکھا تو فرشتوں کے سامنے آپ پر فخر فرمایا…میرے بندے کو دیکھو! اس نے میری خاطر اور میرے پاس موجود نعمتوں کی رغبت میں …اپنی بیوی، لذت،کھانا اور پینا سب کچھ چھوڑا ہوا ہے…تم گواہ رہو کہ میں نے اس کی مغفرت کر دی ہے…پس اس دن اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت فرمائی …اور مجھے آپ کے نکاح میں دے دیا…
آخری بات
یہ موضوع بہت میٹھا اور مفصل ہے…ابھی مزید کچھ قصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر رمضان کے مبارک اوقات میں اختصار ہی بہتر ہے…آج کل ہم سب کو گرمی کے روزے نصیب ہیں…یہ بڑی مہنگی نعمت ہے جو پیسوں سے نہیں خریدی جا سکتی… اس نعمت کی قدر کریں…خوشی اور شکر سے روزے رکھیں… جو تھوڑی بہت تکلیف آئے وہ خندہ پیشانی سے برداشت کریں…شیطان کے اس جال میں کوئی نہ پھنسے کہ…یہ روزے میرے بس میں نہیں ہیں…کئی مرجی قسم کے مفکر بھی یہی فتوی دیتے ہیں… یہ سب ہمیں اس انمول نعمت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں…اگر گرمی کے روزے ہمارے بس میں نہ ہوتے …تو ہمارا رحیم و مہربان رب کبھی ہم پر یہ روزے فرض نہ فرماتا… جب اللہ تعالیٰ نے یہ روزے فرض فرمائے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ روزے ممکن ہیں… اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے سخت گرمی میں روزے بھی رکھتے ہیں اور مزدوری بھی کرتے ہیں… اور ساتھ خوشی اور شکر بھی ادا کرتے ہیں…دین کے دیوانے گرمی کے روزوں کے ساتھ ’’ مہم ‘‘ کی محنت اور حکمرانوں کے ’’جبر‘‘ کو بھی جھیل رہے ہیں…اللہ تعالیٰ ہمت، قبولیت، استقامت اور بہت جزائے خیر عطا فرمائے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مبارک مہینے کا نصاب
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 500)
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کو سمجھنے ، پانے ،منانے…اور کمانے کی توفیق عطاء فرمائے…
جھوٹ کے سمندر
ہم آج کل جس ماحول میں ہیں…وہ گویا کہ جھوٹ کا ایک ناپاک سمندر ہے…
سیاست جھوٹ، تجارت جھوٹ، تفریح جھوٹ … بس ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ…
جھوٹ کوئی چھوٹا گناہ تو ہے نہیں…یہ تو لعنت ہے لعنت… محرومی ہے محرومی اور اندھیرا ہے اندھیرا…فرمایا: مومن سے ہر گناہ ہو سکتا ہے مگر مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا… مگر اب تو ہر ہاتھ میں کئی کئی موبائل… اور ہر موبائل جھوٹ کا پہاڑ … ابھی چند دن پہلے عراق کے ایک شہری نے…جو برطانیہ میں مقیم ہے…فیس بک پر ایک جھوٹ چھوڑ دیا…’’شجوہ‘‘ نامی قبضے سے دولت اسلامیہ پسپا … قصبے پر عراقی حکومت کا قبضہ مستحکم… علاقہ چھوڑ کرجانے والے افراد واپس شجوہ کی طرف رواں دواں…دولت اسلامیہ کو ذلت آمیز شکست… اس نے اس جھوٹی خبر کے ساتھ چند نقشے اور تصویریں بھی لگا دیں… بس پھر کیا تھا…لاکھوں افراد اس خبر کو نشر کرنے لگے…کئی افراد نے تو اس جھوٹی دیگ میں مزید چاول بھی ڈال دئیے کہ… شجوہ کی لڑائی میں اتنے مجاہدین مارے گئے … عراقی اور ایرانی شیعوں کی ویب سائٹوں پر فوراً … فتح مبارک کے ہیش ٹیگ لگ گئے… کئی افراد نے اس جنگ میں شرکت کرنے اور بہادری دکھانے کے دعوے بھی نشر کر دئیے… تین چار دن یہ طوفان برپا رہا…تب اس عراقی شہری نے لکھا کہ…میں آپ سب سے معذرت چاہتا ہوں… عراق میں شجوہ نام کا کوئی شہر،قصبہ یا علاقہ ہے ہی نہیں… عراقی زبان میں شجوہ ’’پنیر‘‘ کو کہتے ہیں جو بہت شوق سے کھایا جاتا ہے… میں نے مذاق میں یہ خبر گھڑی تھی… اب میں شرمندہ ہوں…ازراہ کرام! یہ سلسلہ بند کیا جائے…
انداہ لگائیں کہ …جھوٹ کہاں تک ترقی کر گیا… ابھی ایک کمپنی پکڑی گئی ہے…جو بڑی بڑی تعلیمی سندیں اور ڈگریاں جاری کرتی تھی … معلوم ہوا کہ اس نے جو یونیورسٹیاں بنا رکھی تھیں … ان کا روئے زمین پر وجود ہی نہیں ہے…وہ سب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر قائم تھیں…اور سالہا سال سے تعلیمی اسناد جاری کر رہی تھیں… جی ہاں! وہی ڈگریاں جن کے فخر میں قرآن و سنت کی تعلیم کا (نعوذباللہ) مذاق اڑایا جاتا ہے…
آج کل کئی دن سے بی بی سی پر ایک خبر لگی ہوئی ہے…اور ایسی مضبوط لگی ہے کہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتی… حالانکہ جب کابل کے گیسٹ ہاؤس کو مجاہدین نے نشانہ بنایا تو وہ خبر صرف چند گھنٹے رہی … پھر اُڑا دی گئی… اسی طرح مجاہدین کی دیگر کارروائیوں والی خبریں…یا تو لگتی ہی نہیں … اور اگر کسی مجبوری سے لگانی پڑیں تو…دوچار گھنٹوں میں انہیں ہٹا دیا جاتا ہے…مگر یہ خبر کئی دن سے لگی ہوئی ہے کہ…ایران،طالبان کی مدد کر رہا ہے…یہ خبر یہودی اخبار ’’وال سٹریٹ جنرل‘‘ نے گھڑی ہے… ایران، افغانستان کے طالبان کو اسلحہ بھی دے رہا ہے اور پیسے بھی… اندازہ لگائیں …کیسی جھوٹی اور فتنہ انگیز خبر ہے… ایران امارت اسلامی افغانستان کا ہمیشہ سے عملی دشمن رہا ہے… اور اب بھی اس کی یہ دشمنی ٹھنڈی نہیں پڑی… مگر امارت اسلامیہ افغانستان کو بدنام کرنے…اور افغانستان میں ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے جنگجو کھڑے کرنے کے لئے …یہ خبر بنائی گئی ہے…تاکہ مجاہدین کو آپس میں لڑایا جا سکے… اور لوگوں میں یہ بات عام ہو کہ امارت اسلامی افغانستان… ایران کی حامی ہے اس لئے اس کے خلاف بھی (نعوذباللہ) جہاد کیا جائے…
الغرض …ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے … ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ… سچائیوں ،رحمتوں اور مغفرتوں سے بھرپور مہینہ رمضان المبارک تشریف لا رہا ہے…تاکہ ہم جھوٹ کے سمندر سے بچ کر… سچ اور رحمت کے جزیرے پر آئیں…اور اپنے محبوب رب سے ’’مغفرت‘‘ کا انعام پائیں… اس لئے جھوٹ کے تمام آلات بند کر دیں…جھوٹ پڑھنا، جھوٹ دیکھنا، جھوٹ سننا اور جھوٹ بولنا سب کچھ بند کر دیں … اپنے ٹچ موبائل بند کر کے تالوں میں ڈال دیں … اخباروں ، کالموں ، ڈراموں اور ویڈیو… سب سے تعلق توڑ لیں… اور مغفرت کے موسم سے…خوب خوب فیض یاب ہوں…
کیا معلوم اگلا رمضان ملے گا یا نہیں…
رمضان اور جہاد فی سبیل اللہ
رمضان المبارک اور جہاد فی سبیل اللہ کا تعلق اور رشتہ بہت گہرا ہے… غزوہ بدر جیسا عظیم معرکہ جو قرآن پاک کا خاص موضوع ہے… رمضان المبارک میں برپا ہوا… حج عمرے کی سعادتیں ساری امت کو’’فتح مکہ‘‘ کی برکت سے ملیں… اور فتح مکہ کا غزوہ رمضان المبارک میں ہوا… وہ بڑے بڑے بت جن سے …ایک دنیا گمراہ تھی …رمضان المبارک میں گرائے گئے… اکثر مورخین کے نزدیک جہاد کا مبارک آغاز بھی رمضان المبارک میں ہوا… جب آپ ﷺ نے …اپنے چچا جان محترم حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی کمان میں …اسلام کا پہلا سریہ روانہ فرمایا… عصماء یہودیہ کے قتل کا واقعہ بھی… رمضان المبارک کا مبارک کارنامہ ہے…یہ دشمن دین خاکہ پرست گمراہ عورت تھی…اسلامی غیرت کا شاہکار سریہ …’’ام قرفہ‘‘ بھی رمضان المبارک میں پیش آیا اور سریہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ…جویمن کی طرف بھیجا گیا تھا…وہ بھی رمضان المبارک میں لڑا گیا… اس سریہ کی خاص بات یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو ’’امیر لشکر‘‘ مقرر فرمایا اور پھر اپنے دست مبارک سے ان کے سر پر عمامہ باندھا…
رمضان اور جہاد کی ایک اور بڑی مناسبت …جو قرآن مجید کے الفاظ سے سمجھ آتی ہے…وہ یہ کہ… دونوں کی فرضیت کے لئے ایک جیسے الفاظ استعمال فرمائے گئے …
فرمایا: کتب علیکم الصیام…تم پر روزہ فرض کر دیا گیا… بالکل اسی طرح فرمایا …کتب علیکم القتال… کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا… اہل تفسیر نے اس میں بہت عجیب نکتے لکھے ہیں … اگر ہم وہ لکھنے میں مشغول ہوئے تو آج کا اصل موضوع رہ جائے گا… بس اتنا یاد رکھیں کہ… قرآن مجید کی ایک ہی سورت…یعنی سورہ بقرہ میں جہاد کی فرضیت بھی موجود ہے… اور رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت بھی… پس دونوں اسلام کے قطعی فریضے ہیں…اور کتب علیکم کے لفظ سے بہت تاکیدی فرضیت معلوم ہوتی ہے … کتب علیکم الصیام کہ تم پر روزہ پورا کا پورا ڈال دیا گیا ہے کہ…یہ روزہ دل سے بھی رکھو، زبان سے بھی…کانوں سے بھی…آنکھوں سے بھی…جسم سے بھی اور روح سے بھی…
بہت آسان نصاب
ہم رمضان المبارک کو کیسے پا سکتے ہیں؟… بڑے لوگوں نے تو بہت محنتیں فرمائیں… ہم اپنے اسلاف اور بزرگوں کے رمضان کا حال پڑھتے ہیں تو شرم اور ندامت سے پانی پانی ہو جاتے ہیں… اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو اپنے نفس کو فائدہ پہنچائیں اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ کا رسالہ… فضائل رمضان ایک بار ضرور مطالعہ کر لیں… اور کچھ نہیں تو کم از کم رمضان المبارک کا احساس اور شعور ضرور پیدا ہو جائے گا … اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو موبائل اورنیٹ کی لعنت سے بچائے…اور صرف اس کے ضروری اور مفید استعمال کی توفیق عطاء فرمائے… اس ظالم نے علم اور مطالعہ کے اوقات کو برباد کر دیا ہے… رمضان المبارک کے بارے میں قرآنی آیات … اور احادیث مبارکہ پڑھ کر بندہ نے ایک مختصر دس نکاتی نصاب نکالاہے… آپ ایک کاغذ پر یہ نصاب لکھ لیں…اور روزانہ رات کو اپنا محاسبہ کریں کہ…ہم نے اس پر کتنا عمل کیا…بے حد آسان اور ممکن نصاب ہے… پھر اللہ تعالیٰ جس کو توفیق عطاء فرمائے وہ مزید جو کچھ کر سکتا ہو…کرتا چلا جائے…
ہم نے رمضان المبارک میں ان شاء اللہ یہ دس کام روزانہ کرنے ہیں…
(۱)روزہ… یہ فرض ہے اور یہی رمضان المبارک کی اصل عبادت ہے…ساری زندگی کے نفل روزے رمضان المبارک کے ایک فرض روزے کے برابر نہیں ہو سکتے…
(۲) پانچ نمازوں کا باجماعت تکبیر اولیٰ سے اہتمام… ویسے تو یہ ہمیشہ کرنا چاہیے مگر رمضان المبارک میں اسے ایک لازمی سعادت کے طور پر دیکھا جائے کہ جو ہر حال میں حاصل کرنی ہے ان شاء اللہ… یہ عمل ہمارے لئے پورے رمضان کو پانے اور کمانے کا ذریعہ بن جائے گا…
(۳) تراویح… عشاء کی نماز کے بعد باجماعت بیس رکعات… یہ رمضان المبارک کا خاص تحفہ اور انعام ہے… اور اس میں ایک قرآن پاک پڑھنا یا سننا ایک مستقل سنت ہے…
(۴) قرآن پاک کی تلاوت اور قرآن پاک سے خاص تعلق …یہ بڑا مبارک عمل ہے…آگے چل کر ہم اسے کچھ تفصیل سے عرض کریں گے… اگر ہم اپنے ساتھ قبر اور آخرت میں پورا قرآن یا کچھ قرآن لے جانا چاہتے ہیں تو رمضان المبارک میں یہ نعمت پانا آسان ہے…
(۵) سحری کھانے کا اہتمام… سحری کے بہت فضائل اور برکات ہیں یہ ہرگز نہیں چھوڑنی چاہیے…مگر سحری رات کے آخری حصے میں کریں اور زیادہ دبا کر نہ کھائیں کہ سارا دن ڈکار بجاتے رہیں…
(۶) افطار کرانے کا اہتمام… یہ رمضان المبارک میں مغفرت کا خاص تحفہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو افطار کرائیں …خواتین کے تو مزے ہیں ان کو اپنے گھر والوں اور بچوں کو افطار کرانے کا اجر ملتا ہے… کیونکہ وہ اس قدر محنت سے افطار تیار کرتی ہیں…کسی روزے دار کو افطار کرانے کی فضیلت بہت زیادہ ہے… جب دل میں یہ فضیلت حاصل کرنے کا جذبہ ہو…اور یہ شعور ہو کہ اس عمل کی برکت سے مجھے مغفرت مل سکتی ہے تو … انسان خود ہی اپنی استطاعت کے مطابق بہت سے طریقے نکال سکتا ہے… بعض لوگوں کو دیکھا کہ عین افطار کے وقت کسی ویران جگہ جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں …چند کھجوریں،ٹھنڈا پانی یا شربت لے کر…اور پھر اس وقت جو وہاں سے گزرتا ہے اسے افطار کراتے ہیں… آپ افطار کے موقع پر …بعض لوگوں کی جو پُر تکلف دعوتیں کرتے ہیں … اگر اسی رقم سے عمومی افطاری تیار کریں تو… درجنوں افراد کو افطار کرا سکتے ہیں… کئی لوگوں کو دیکھا کہ اس حرص میں بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ… اللہ تعالیٰ کے پیارے مجاہدین کو …محاذ اور تربیت گاہوں تک افطار پہنچائیں …ہمارے کچھ دوست …جامع مسجد عثمانؓ و علیؓ کے معتکفین کے افطار اور سحر کا انتظام کرتے ہیں تو سچی بات ہے ان پر رشک آتا ہے…
بہرحال یہ ایک ایسا عمل ہے کہ… جو صرف رمضان المبارک میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے… عام دنوں میں آپ کھانے کا پورا ٹرک تقسیم کر دیں تو رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کو کھلائی گئی ایک روٹی کے برابر نہیں ہو سکتا…عام دنوں میں بھی روزہ رکھنے والوں کو…اگر آپ افطار کرائیں تو وہ بھی اجر کا کام ہے… مگر رمضان المبارک کی افطاری… بہت بڑی چیز ہے… بہت مبارک، بہت خاص…یا اللہ! وسعت اور توفیق عطاء فرما…
(۷) چار چیزوں کی کثرت پہلی چیز …لا الہ الا اللہ کا ورد… دوسری چیز!استغفار تیسری چیز اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال… چوتھی چیز جہنم سے پناہ مانگنا…
(۸) جہاد میں وقت لگانا…یہ اوپر رمضان المبارک اور جہاد کے تعلق میں اشارتاً آ چکا ہے… جہادی محنت میں وقت لگانا… جہاد میں مال لگانا … صدقہ خیرات اور مسلمانوں کے ساتھ غمخواری کرنا، ان کی حتی الوسع مدد کرنا…
(۹) اپنے ملازموں ،ماتحتوں ،گھر والوں پر کام کے معاملے میں نرمی، آسانی اور تخفیف کرنا … کسی مسلمان پر بوجھ زیادہ ہو تو اس کا بوجھ ہلکا کرنے میں مدد کرنا…
(۱۰) شراب خوری، والدین کی نافرمانی،رشتہ داروں سے قطع رحمی…مسلمانوں سے بغض رکھنا …جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا…ان چھ گناہوں سے خاص طور پر بچنا چاہیے کیونکہ یہ رمضان المبارک میں روزہ کی خرابی اور مغفرت سے محرومی کا ذریعہ بن جاتے ہیں…
یہ ہے وہ بہت آسان سا نصاب جو ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے ممکن ہے…خواتین نمازوں کو اہتمام سے اول وقت ادا کریں تو ان کا اجر باجماعت ادا کرنے والے مردوں کی طرح ہے … باقی جو اہل ہمت ہیں…ان کے لئے رمضان المبارک کمانے کا سیزن ہے…اعتکاف،قیام اللیل،نوافل،صدقات ، مجاہدے ، ریاضتیں اور بہت کچھ…
تین اوقات باندھ لیں
زندگی کے لمحات چونکہ گنے چنے ہیں…اس لئے ان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے…بلکہ ترتیب سے گزارنا چاہیے…اس رمضان المبارک میں تین اوقات باندھ لیں…یعنی اپنے پر یہ عہد لازم کر لیں کہ فلاں تین اوقات میں بس یہ تین کام کرنے ہیں…ان شاء اللہ
(۱) تلاوت کا وقت… اس میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھیں…جن کی تجوید کمزور اور غلط ہو وہ زیادہ تلاوت کی جگہ اس سال اپنا تلفظ درست کریں …اور اسی وقت میں قرآن مجید کا کچھ حصہ یاد بھی کر لیں…یہ وقت ایک گھنٹہ ہو یا کم ،زیادہ
(۲) قرآن سمجھنے کا وقت…اس میں قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں…اچھا ہے کہ کسی عالم سے…اگر اس کی ترتیب نہ بنے تو کسی مستند اردو تفسیر سے…اس عمل کی برکت سے آپ اللہ تعالیٰ کے کلام کو اپنے دل پر آتا محسوس کریں گے…
(۳) چار کاموں کی کثرت کا وقت… اس میں کلمہ طیبہ ،استغفار،جنت کی دعاء اور جہنم سے پناہ … یہ چاروں کام کم از کم تین سو بار سے تین ہزار بار تک…
اس رمضان المبارک میں…بندہ فقیر و محتاج کو بھی اپنی دعاء میں کبھی کبھار یاد کر لیا کریں… آپ کا احسان ہو گا…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول للّٰہ
٭…٭…٭
الحمدللّٰہ،استغفراللّٰہ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 499)
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے… ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب شائع ہوگئی اور بہت سے مسلمانوں تک پہنچ گئی
الحمد للہ، الحمد للہ
اس کتاب میں مزید بھی بہت کچھ لکھنے کا ارادہ تھا…مگر کوتاہی ہوئی اور وہ سب کچھ نہ لکھا جا سکا جس کا نقشہ دل و دماغ میں موجود تھا…اللہ تعالیٰ معاف فرمائے
استغفر اللہ، استغفر اللہ
ایک دعاء اپنا لیں
گذشتہ کالم میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسن ظن‘‘ رکھنے کی اہمیت کا بیان تھا …انسان جس نعمت کو پانا چاہے … اس کے لئے پہلا کام یہ کرے کہ اللہ تعالیٰ سے اس نعمت کو مانگے…دعاء بہت بڑی چیز ہے…یہ اگر دل سے ہو تو بڑے بڑے دروازے کھلوا دیتی ہے …مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر شہیدؒ سے ایک دعاء منقول ہے…
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ
یا اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے آپ پر سچا توکل اور آپ کے ساتھ ’’حسن ظن‘‘ نصیب ہو جائے…
بڑی اہم ،ضروری اور مؤثر دعاء ہے … تجربہ میں آیا ہے کہ جب دل پر غم، مایوسی اور بے بسی کے احساس کا حملہ ہو تو یہ دعاء مانگی جائے…بہت فائدہ ہوتا ہے…
حسن ظن کے مقامات
حضرت ابو العباس القرطبی ؒ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کا مطلب اور اس کے مواقع کو ایک جملے میں سمیٹنے کی کوشش فرمائی ہے…
اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ
٭ دعاء کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعاء سنتے ہیں اور قبول فرماتے ہیں…
٭ توبہ کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں…
٭ استغفار کے وقت یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مغفرت عطا فرماتے ہیں…
٭ نیک اعمال کو شریعت کے مطابق کرتے وقت یہ یقین ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو رہے ہیں…
یہ سارے یقین اس وجہ سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور اس کا فضل بے شمار ہے…یعنی جب انہوں نے خود فرما دیا کہ ہم توبہ قبول فرماتے ہیں…بلکہ چاہتے ہیں کہ تمہاری توبہ قبول فرمائیں…ہم استغفار کرنے والوں کو مغفرت عطا فرماتے ہیں…ہم دعاء سنتے ہیں اور پوری فرماتے ہیں…ہم اپنے بندوں کے اعمال کی قدر کرتے ہیں…اور ہمارا فضل بہت عظیم اور بہت بڑا ہے تو پھر بندے کو شک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو شک کرے گا اپنا ہی نقصان کرے گا…فرما دیا کہ … ہمارا بندہ ہم سے جو گمان رکھے گا، ہم اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرمائیں گے …
آئیے! پھر دعاء مانگ لیں:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ صِدْقَ التَّوَکُّلِ عَلَیْکَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِکَ
’’الیٰ مغفرۃ‘‘
آج جس کتاب کی بات چل رہی ہے…اس کا نام ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ ہے…سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا:
سَارِعُوا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ
دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف
اور سورۃ الحدید میں فرمایا گیا:
سَابِقُوا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ
سبقت کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف…
اس میں چند باتیں سمجھنے کی ہیں…
پہلی بات تو یہ کہ ان آیات سے ثابت ہوا کہ…ہم آج کل جہاں ہیں یہ ہماری جگہ نہیں…یہ ہمارے رہنے کا مقام نہیں…یہ ہماری کامیابی کا میدان نہیں…ہمیں یہاں سے دوڑ کر کسی اور طرف جانا ہے…جہاں ہمارے لئے راحت ہے اور بڑی کامیابی…
پس ثابت ہوا کہ …سب سے پہلے ہمیں اس دنیا میں رہنے، یہاں فٹ اور سیٹ ہونے اور یہاں سب کچھ بنانے کا خیال اپنے دل سے نکالنا ہو گا…
اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں کہ…اس میں یہاں رہنے اور بسنے کی فکر زیادہ ہے یا یہاں سے بھاگ کر کامیابی والے گھر کو بسانے کی فکر زیادہ ہے؟…
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ…انسان کو بہت جلدی جلدی اور بہت تیز تیز وہ اعمال کرنے چاہئیں جن سے مغفرت اور جنت ملتی ہو…بالغ ہونے کے بعد سستی عذاب ہے…وقت گزر رہا ہے…انسان کو چاہیے کہ آرام اور طعام میں زیادہ وقت برباد نہ کرے… اپنے ذہن پر ایک طرح کی جلدی سوار کرے…یہ جلدی نیک اعمال میں ہو کیونکہ ہمارے رب نے حکم فرما دیا کہ… آہستہ نہیں …بلکہ ’’سَارِعُوا‘‘ بہت تیز دوڑو…’’سَابِقُوا ‘‘ سبقت کرو… جنہوںنے اس حکم کو مانا وہ تھوڑی سی عمر میں بڑے بڑے کام کر گئے …اور جنہوں نے اس حکم کو نظر انداز کیا …وہ لمبی عمر پا کر بھی کچھ نہ کر سکے… حضرت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے جب بیت المقدس کو آزاد کرانے کا عزم کیا تو …اپنے اوپر بہت سے جائز اور حلال کام بھی ممنوع کر لئے…تاکہ مغفرت اور جنت والے کام میں تاخیر نہ ہو جائے…
تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ… دنیا مقابلے کی جگہ ہے…کھیلوں کے مقابلے، شکل و صورت کے مقابلے…مال و دولت کے مقابلے… حسب و نسب کے مقابلے…دنیا کے اکثر لوگ ان مقابلوں میں لگ کر برباد ہوتے ہیں…اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ’’مقابلہ بازی‘‘ کا شوق رکھا ہے…تو ان آیات میں سمجھا دیا کہ مقابلہ ضرور کرو مگر کھیل کود اور مال و دولت میں نہیں…بلکہ مغفرت پانے میں…جنت پانے میں… دین کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھو!…اور مقابلہ کر کے ،دوڑ لگا کر ان سے آگے بڑھنے کی فکر کرو … اور دنیا کے معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے کمزور افراد کو دیکھو… اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اسی کو کافی سمجھو…
حضرات مفسرین نے …ان دونوں آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ …مغفرت کی طرف دوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ …اُن اسباب کی طرف دوڑو جن سے مغفرت ملتی ہے… ایمان، اخلاص،جہاد میں ثابت قدمی، سود سے توبہ کرنا…کثرت سے استغفار کرنا …وغیرہ… مغفرت کے اسباب کون کون سے ہیں؟
آپ جب ’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کے سامنے ’’ اسباب مغفرت‘‘ کی پوری فہرست آ جائے گی…اور وہ کون سے اسباب ہیں جن کی نحوست سے انسان مغفرت سے محروم ہو جاتا ہے… ان کی تفصیل بھی اس کتاب میں موجود ہے…اس کتاب کا ایک بڑا مقصد یہی ہے کہ…مسلمانوں کو ’’مغفرت‘‘ کا مقام اور اس کی ضرورت معلوم ہو …اُن میں مغفرت پانے کا جنون پیدا ہو …ان کو مغفرت مانگنے کی عادت نصیب ہو… اور وہ مغفرت کی طرف بھاگ بھاگ کر لپکنے والے بن جائیں …یاد رکھیں …ایک مسلمان کو ’’مغفرت‘‘ مل جائے تو اسے سب کچھ مل گیا… اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کامیاب ہو گیا…
استغفر اللہ،استغفر اللہ،استغفر اللہ
یا اللہ! آپ سے مغفرت کا سوال ہے… مغفرت کا سوال ہے … مغفرت کا سوال ہے…
رکاوٹوں بھرا سفر
’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کتاب لکھتے وقت خود اپنی ذات کو بڑا فائدہ ہوا
الحمد للہ، الحمد للہ
پھر جن ساتھیوںنے اس کتاب میں معاونت کی… انہوں نے بتایا کہ کتاب کی تصحیح اور ترتیب کے دوران ان اوراق کو پڑھنے سے بہت فائدہ ہوا…یہ بات کئی افراد نے بتائی…
الحمد للہ، الحمد للہ
مگر اس کے باوجود کتاب میں تاخیر ہوتی چلی گئی … یقیناً یہ میری سستی اور کم ہمتی تھی …
استغفر اللہ، استغفر اللہ
دراصل کتاب شروع کرنے کے بعد سے لے کر…اس کی اشاعت تک بہت حوصلہ شکن رکاوٹیں آتی چلی گئیں… دل بے چین تھا کہ یہ کتاب جلدی آ جائے مگر ہر قدم پر کوئی رکاوٹ سامنے آ جاتی… اسی میں کئی سال بیت گئے… اسی دوران کئی افراد نے کتاب کا مسودہ پڑھ لیا اور کتاب جلد تیار کرنے کی فرمائش کی…اللہ تعالیٰ ان تمام افراد کو اپنی مغفرت اور جزائے خیر عطا فرمائے…جنہوں نے مختلف طریقوں سے اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں معاونت کی…بندہ ان سب کا دل سے شکر گزار ہے… مگر آخری سیڑھی بہت اہم ہوتی ہے… یہ سیڑھی انسان عبور کر لے تو پچھلا سارا سفر کا میاب ہو جاتا ہے… لیکن اگر اسی سیڑھی پر اٹک جائے تو پچھلا سفر بھی ندامت اور حسرت بن جاتا ہے… اس لئے آخری سیڑھی پر سہارا بننے والے کے لئے دل سے دعاء نکلتی ہے…برادر عزیز مولانا طلحہ السیف کی قسمت میں یہ نیکی آئی اور انہوں نے آخری سیڑھی کے مرحلے پر …اللہ تعالیٰ کی توفیق سے محنت،جانفشانی اور معاونت کا حق ادا کیا … کتاب کے بکھرے مواد کو مرتب کیا، بار بار پڑھ کر تصحیح اور کتابت کے مراحل سے گذارا…اور ان کی اس محنت کو دیکھ کر مجھے ہمت ملی کہ کتاب کے حصہ اول کو لکھنے بیٹھ گیا…اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت اور بہترین بدلہ عطا فرمائیں…بندہ کے مکتب اور معاون نے بھی بہت محنت کی…اور آخر میں شعبہ نشریات کے ذمہ داروں نے دل وجان لگا کر…کتاب کو تیار کیا…
بندہ ان سب کے لئے …اور وہ معاونین جن کا تذکرہ نہیں آ سکا … سب کے لئے دل کی گہرائی سے دعاء گو اور شکر گزار ہے…
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی وَلَھُمْ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی وَلَھُم،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی وَلَھُم
وہ جو رہ گیا
ارادہ تھا کہ کتاب میں یہ چند چیزیں بھی شامل کی جائیں
(۱) قرآن مجید میں آنے والے وہ اسماء الحسنی جن کا تعلق ، مغفرت، توبہ اور معافی سے ہے… ان اسماء الحسنی کے تفصیلی معانی اور معارف لکھنے کا ارادہ تھا مثلاً
الغفور،الغفار،التواب،العفو،واسع المغفرۃ،اہل المغفرۃ،خیر الغافرین
(۲) حضرات انبیاء علیہم السلام کے استغفار کو قرآن مجید نے بہت اہتمام سے بیان فرمایا ہے…ان کی الگ فہرستیں بنا کر…ان کے معارف لکھنے کا ارادہ تھا… مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لئے بار بار استغفار فرمایا…پھر اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا تو اس سے رک گئے…مگر اس کے باوجود قرآن مجید بار بار ان کے اس استغفار کو بیان فرماتا ہے… اس میں بڑے اہم نکتے ہیں…اگر ہر مسلمان بیٹا اپنے والد کا ایسا خیر خواہ بن جائے تو وہ کتنے اونچے مقامات پا سکتا ہے… کاش مسلمان بیٹے اور بیٹیاں اپنے مسلمان والدین کے لئے اسی اہتمام سے استغفار کرنے والے بن جائیں…
(۳) توبہ اور استغفار کے بارے میں آیات تو بہت ہیں…آپ ’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ کا مطالعہ کریں گے تو تقریباً سب آیات سامنے آ جائیں گی … مگر ان میں سے بعض آیات …توبہ اور استغفار پر بہت سے الٰہی قوانین اور نکات پر مشتمل ہیں…ارادہ تھا کہ ایسی دس آیات کی تفسیر مفصل لکھ دی جائے
(۴) توبہ اور استغفار دونوں کا معنی ایک ہے…یا دونوں میں فرق ہے؟ یہ بات ’’الیٰ مغفرۃ‘‘ میں واضح کر دی گئی ہے… مگر اس میں اور بہت سی تفاصیل تھیں جو تیاری کے باوجود نہ آ سکیں…
دراصل رکاوٹیں زیادہ تھیں…اور کتاب میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی …اس لئے جو کچھ تیار تھا اسی کو پیش کر دیا گیا …
الحمد للہ، استغفر اللہ،الحمد للہ، استغفر اللہ
اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ … اس کتاب سے مجاہدین کو جہاد میں ترقی اور استقامت کا راستہ ملے گا… سلوک و احسان کا ذوق رکھنے والوں کو معرفت کا آئینہ نصیب ہو گا…مایوسی کے گڑھوں میں سسکنے والوں کو امید کی سیڑھی ہاتھ آئے گی… گناہوں میں پھنسے اور الجھے ہوئے مسلمانوں کو دلدل سے باہر نکلنے کی راہ نظر آئے گی… مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا مسلمانوں کو… روشنی اور راحت کا جزیرہ دکھائی دے گا… ان شاء اللہ…
اور اہل دل کو دل کی غذا ملے گی… کیونکہ یہ قرآن مجید کی دعوت ہے…یہ احادیث مبارکہ کی روشنی ہے… اور یہ مسلمانوں کی ایک اہم ترین ضرورت ہے…یا اللہ! قبول فرما …یا اللہ! مغفرت نصیب فرما…
آمین یاخیرالغافرین
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا…
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
امید کا چراغ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 498)
اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعاء مانگو کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو…
یہ حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے…حدیث ترمذی شریف میں موجود ہے … اب دوسری حدیث شریف لیجئے!
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں …میں نے آپ ﷺ کی وفات سے تین دن پہلے آپ سے یہ فرمان سنا …تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن ‘‘ رکھتا ہو ( صحیح مسلم)
اب تیسری حدیث مبارکہ سے اپنے دل کو روشن کیجئے…
حضور اقدس ﷺ ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے…وہ موت آنے کی حالت میں تھا…آپ ﷺ نے فرمایا : تم خود کو کیسے پاتے ہو؟اس نے عرض کیا… یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کی قسم میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں…آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب ایسی حالت میں کسی بندے کے دل میں یہ دو چیزیں جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اسے وہ عطاء فرما دیتا ہے جس کی اسے اُمید ہو اور اسے اس چیز سے بچا لیتا ہے جس کا اسے خوف ہو( ترمذی)
ان تین احادیث مبارکہ میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن‘‘ یعنی اچھا گمان اور اچھی اُمید رکھنا یہ ایک عظیم الشان عبادت ہے…حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ…ایک مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسن ظن‘‘ نصیب ہونے سے بڑھ کر بہتر چیز اور کوئی نہیں…مشہور زمانہ بزرگ حضرت مالک بن دینار کا جب انتقال ہو گیا تو ایک محدث نے انہیں خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا : میں بہت گناہ لے کر حاضر ہوا مگر مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو ’’حسن ظن ‘‘ تھا اس نے میرے تمام گناہوں کو مٹا دیا…واقعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسن ظن‘‘ ایک بڑی نعمت،قلبی عبادت اور جنت کی قیمت ہے…مگر افسوس کہ آج اکثر لوگ اس نعمت سے محروم ہیں…ہر کسی کو اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہے کہ …میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ میرے ساتھ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اور میری تو دعائیں سنی ہی نہیں جاتی…اور میں تو ہوں ہی بد نصیب…استغفر اللہ،استغفر اللہ،استغفر اللہ … افسوس کہ بعض لوگ تو یہاں تک بھی سوچتے ہیں کہ …مجھ سے گناہ کروائے جا رہے ہیں تاکہ مجھے جہنم میں جلایا جا سکے…میں گناہوں سے بچنے کی جتنی کوشش کرتا ہوں…نہیں بچ پاتا… بہت غلط سوچ،بہت غلط سوچ…استغفر اللہ،استغفر اللہ، استغفر اللہ…خوب سن لیں…اللہ تعالیٰ سے بدگمانی رکھنے والے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے…
بات دراصل یہ ہے کہ شیطان پہلے ہاتھ پکڑ کر ہمیں گناہوں کی گلی میں لے جاتا ہے…اور پھر ہمیں سمجھاتا ہے کہ تم اب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قابل نہیں رہے…اس لئے دو چار دن کی زندگی ہے اس میں عیش عیاشی کر لو…نیکی کرنا اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا تمہارے بس میں نہیں ہے … توبہ پر قائم رہنا تمہارے لئے ممکن نہیں ہے…کئی لوگ شیطان کے اس دھوکے میں آ جاتے ہیں…اور پھر گناہوں میں دھنستے چلے جاتے ہیں…کاش ان مسلمانوں کے کانوں تک …کوئی اُن کے رب کا یہ اعلان پہنچا دے…اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیا ہے…تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو…اللہ تعالیٰ تو سارے گناہ بخش دیتے ہیں…وہ بہت بخشنے والے مہربان ہیں …بس موت سے پہلے پہلے ہماری طرف متوجہ ہو جاؤ…ہم سے رجوع کرو…ہم سے معافی مانگ لو…اچانک موت آ ئے گی تو پھر موقع نہیں رہے گا …سبحان اللہ! …ایسی رحمت والا اعلان فرمانے والے رب سے بھی اگر ’’حسن ظن‘‘ نہ ہو تو پھر کس سے ہو گا؟
دراصل گناہوں پر توبہ،استغفار نہ کرنے کی وجہ سے دل سخت ہو جاتا ہے…انسان ایک خاص گھٹن اور مایوسی کے پنجرے میں بند ہو جاتا ہے … اور شیطان اس پر مکمل قبضہ جما لیتا ہے…لیکن اگر بندہ ہمت کرے…اور اللہ تعالیٰ سے بار بار معافی مانگے…بار بار استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن‘‘ رکھے کہ وہ دعاء سنتے ہیں…قبول فرماتے ہیں…توبہ اور استغفار سنتے ہیں… مغفرت اور معافی دیتے ہیں …اُن کی رحمت میرے گناہوں سے بڑی ہے…وہ بار بار معاف فرمانے سے نہیں اُکتاتے…وہ اپنا دروازہ اپنے بندوں کے لئے بند نہیں فرماتے…میں جتنا گندا ہوں پھر بھی اُنہی کا بندہ ہوں اور ان کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے…تو ایسا بندہ شیطان کی قید سے آزاد ہو کر…بندگی کی شاہراہ پر آ جاتا ہے … یاد رکھیں ! ’’حسن ظن‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ انسان نہ فرائض ادا کرے…نہ حرام سے بچنے کی کوشش کرے…نہ وہ توبہ کرے اور نہ استغفار…نہ اپنے گناہوں پر نادم ہو اور نہ اپنے گناہوں کو گناہ سمجھے…اور ساتھ یہ کہتا پھر ے کہ…اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں…اور دین میں کوئی سختی اور پابندی نہیں ہے…یہ ساری باتیں وہی لوگ کرتے ہیں …جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے کوئی محبت…کوئی تعلق اور کوئی ’’حسن ظن‘‘ نہیں رکھتے…ان میں سے اکثر کو آخرت کا یقین نہیں ہوتا …وہ کہتے ہیں کہ اگر کبھی آخرت برپا ہوئی اور حساب کتاب ہوا تو اللہ تعالیٰ ہمیں نہیں پکڑے گا…کیونکہ ہم دنیا میںکامیاب ہیں…یہ ’’حسن ظن‘‘ نہیں دھوکا ہے …اور نفس کی شرارت ہے…’’حسن ظن‘‘ تو اللہ تعالیٰ سے وفاداری اور محبت کا نام ہے…اللہ تعالیٰ کی باتوں پر یقین اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اطمینان …
وہ دیکھیں ! سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا… ان کے چاروں طرف کے مناظر اللہ تعالیٰ سے مایوسی کی دعوت دے رہے ہیں…وقت کا سب سے بڑا ظالم اُن کی کھال اُدھیڑ رہا ہے…مگر وہ اللہ تعالیٰ پر یقین میں مستحکم ہیں…ایسے دردناک حالات میں بھی انہیں اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن‘‘ ہے کہ…وہ میرے لئے جنت کا گھر اپنے پاس بنا دیں گے … یہ ہے یقین اور یہ ہے ’’حسن ظن‘‘ … آج ہماری دو تین دعائیں قبول نہ ہوں تو فوراً اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہو جاتے ہیں…اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دائیں بائیں جھکنے لگتے ہیں…
یہ دیکھیں! یہ تین صحابہ کرام جو غزوہ تبوک سے رہ گئے تھے…حضور اقدس ﷺ نے ان سے قطع تعلق فرما لیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ آئے…آپ تینوں باقی مسلمانوں سے الگ رہیں…تینوں مدینہ منورہ میں اکیلے اور تنہا… غموں کے تھپیڑوں پر تھے…زمین اُن پر تنگ… اور اُن کی جانیں ان پر تنگ… حضرت آقا مدنیﷺ کی ناراضگی سے بڑھ کر اور کیا غم اور صدمہ ہو سکتا تھا…مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ تعالیٰ سے جڑے رہے…اُسی کو مناتے رہے…اُسی سے اُمید باندھتے رہے…ارشاد فرمایا: وَظَنُّوْااَنْ لَّامَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِیعنی اُن کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے صرف اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ بچا سکتی ہے…پس اسی اُمید نے کام بنا دیا اور ان کی توبہ ایسی شان سے قبول ہوئی کہ…قرآن عظیم الشان کی آیت مبارکہ بن گئی…
آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’حسن ظن ‘‘ رکھنے کی دعوت دی جائے…انہیں توبہ اور استغفار کی طرف بلایا جائے…مایوسی کے اندھیروں میں انہیں اُمید کا چراغ دکھایا جائے…حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں …جو اللہ تعالیٰ سے ’’حسن ظن ‘‘ رکھتا ہے وہ ہمیشہ اچھے اعمال کی طرف بڑھتا ہے… ماضی میں جھانکیں …توبہ،استغفار اور اُمید کی روشنی نے چوروں،ڈاکوؤں اور بدکاروں کو…زمانے کا صف شکن مجاہد اور ولی بنا دیا…مسلمانوں میں جب اللہ تعالیٰ سے اُمید پیدا ہو گی تو وہ مخلوق سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں گے…اللہ تعالیٰ سے اُمید ہو گی تو جہاد کا کامیابی والا راستہ سمجھ آئے گا … اور اللہ تعالیٰ کی نصرت پر یقین پیدا ہو گا…اللہ تعالیٰ سے اُمید ہو گی تو مسلمان ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد اپنے ساتھ لے سکیں گے…اُمید کا یہ چراغ روشن ہو…اُس کے لئے ایک ادنیٰ سی کاوش’’ الیٰ مغفرۃ ‘‘ کی شکل میں پیش کی گئی ہے …الحمد للہ یہ کتاب شائع ہو چکی ہے…اور اگلے آٹھ دن میں ملک کے چار شہروں میں ان شاء اللہ اس کی رونمائی کے اجتماعات ہوں گے …یا اللہ! آسان فرما…یا اللہ! قبول فرما …یا اللہ!
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
آج ہی سے
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 497)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’قرآنِ مجید‘‘ کا ساتھ نصیب فرمائے…دنیا میں بھی…مرتے وقت بھی…قبر میں بھی،حشر میں بھی…اور جنت میں بھی…قرآن مجید نور ہے،ہدایت ہے،روشنی ہے، رحمت ہے، امام ہے، رہنما ہے… بچانے والا ہے، بڑھانے والاہے،ساتھ نباہنے والا ہے… چھڑانے والا ہے… دلکش،دلربا اور مونس ساتھی اور ہمسفر ہے…
ہمیں سوچنا چاہیے کہ…مرتے وقت ہم اپنے ساتھ کتنا ’’قرآن مجید‘‘ لے کر جاتے ہیں…
مجاہدین کرام کے نام
کامیاب مجاہدین کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ…جیسے ہی ’’رجب‘‘ کا مہینہ ختم ہوا، انہوں نے قرآن اور جہاد کو تھام لیا…شعبان میں محنت کی اور رمضان المبارک میں فتوحات پائیں …ماشاء اللہ ،جہاد کا نور اب ہر طرف پھیل چکا ہے…جہاد کے دوست اور دشمن سب نمایاں ہو کر سامنے آ چکے ہیں…جہاد کے بری،بحری اور پہاڑی محاذ کھل چکے ہیں…قدیم اسلحہ اور گھوڑوں سے لے کر جہاز اور ٹینک تک مجاہدین کے پاس موجود ہیں…جہاد کا مسئلہ اب چند سال پہلے کی طرح ’’اجنبی‘‘ نہیں رہا…جہاد کے موضوع پر کتابیں، بیانات اور دیگر دستاویزات ہر جگہ مہیّا ہیں…دشمنانِ اسلام جہاں بھی مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں…وہاں انہیں مجاہدین کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے …اَقوامِ متحدہ نام کا ادارہ اب آخری ہچکیاںلے رہا ہے… سوویت یونین نام کا اِتحاد بکھر چکا ہے …اور دہشت کا نشان امریکہ اب ’’اُبامہ‘‘ ہوتا جا رہا ہے… کمزور، رسوا، بدنام، غیر مقبول…اور بے رُعب…اور یورپی اِتحاد اپنے وجود کو بچانے کی آخری کوششیں کر رہا ہے…جہاد نے گذشتہ پندرہ سال میں دنیا کے حالات اور دنیا کے نقشے کو بدل ڈالا ہے اور تبدیلی کا یہ عمل تیزی سے جاری ہے…مجاہدین کو چاہیے کہ قرآن مجید کو مضبوط تھام لیں…پھر ان کی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا…کیونکہ قرآن مجید کا آغاز ہی سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے…ماضی کے کئی اسلامی لشکروں نے سورۂ فاتحہ کی برکت سے بڑے بڑے شہر اور قلعے فتح کئے…اور اسی قرآن مجید میں سورہ ’’الفتح‘‘ موجود ہے… یہ سورت مجاہدین کو ’’فاتح جماعت‘‘ بنانے کا طریقہ سکھاتی ہے…اور اسی قرآن مجید میں سورہ ’’النصر‘‘ موجود ہے…جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اُتارنے کا طریقہ بتاتی ہے…مجاہدین کے معاشی مسائل کے حل کے لئے سورہ ’’اَنفال‘‘ موجود ہے…اور مجاہدین کو پہاڑوں جیسا حوصلہ دِلانے والی سورۂ توبہ بھی ہمارے سامنے ہے…
’’مجاہد‘‘ جس قدر ’’قرآن‘‘ سے جڑے گا،اسی قدر اس کا جہاد کامیاب اور شاندار ہو گا… شعبان شروع ہو چکا…قرآن مجید کو سینے سے لگا لیجئے… محاذوں کی گرمی ہو یا ریاضت و تربیت کی سرگرمی …دعوت کی بھاگ دوڑ ہو یا کسی مہم کی محنت … قرآن مجید آپ کے ساتھ رہے…جن کو درست پڑھنا نہ آتا ہو وہ فوراً سیکھنا شروع کر دیں…جو پڑھنا جانتے ہوں وہ تلاوت میں اضافہ کردیں … جو حفاظ ہیں وہ حفظ کو پختہ کر یں…اور سب مل کر قرآن مجید زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کریں…
قرآن،شعبان ،رمضان
قرآن مجید کو اپنے ساتھ لینے اور قرآن مجید کی خدمت کرنے کا میدان بہت وسیع ہے…سب سے پہلے اپنے دل میں ’’قرآن مجید‘‘ کی عظمت بٹھائیں کہ یہ کتنی بڑی اور کتنی ضروری نعمت ہے … کوئی نعمت اس کے برابر نہیں کیونکہ باقی سب نعمتیں ’’مخلوق ‘‘ ہیں…جبکہ قرآن مجید خود اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام ’’مخلوق‘‘ نہیں ہو سکتا…
اس کے لئے اچھا ہو گا کہ…آپ فضائل قرآن مجید کی احادیث کا ایک بار ضرور مطالعہ کر لیں…دوسرا کام یہ کہ اپنے دل میں اس بات کا عزم باندھیں کہ میں نے ان شاء اللہ قرآن مجید کو اپنے ساتھ لے جانا ہے…
جب یہ فکر دل میں بیٹھ گئی تو ان شاء اللہ اس کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا…
عجیب نقشے
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص تجوید کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا جانتا ہے…وہ بہت پختہ حافظ بھی ہے…اور قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر بھی جانتا ہے…مگر مرتے وقت قرآن مجید اس کے ساتھ نہیں جاتا… روح نکلتے وقت بھی قرآن مجید اس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں فرماتا…اور قبر و حشر میں بھی اس کا ساتھ نہیں دیتا…بلکہ اُلٹا اس کے خلاف گواہی دیتا ہے…یا اللہ! ایسی صورتحال سے آپ کی پناہ…
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ…ایک شخص شرعی عذر کی وجہ سے درست قرآن مجید نہیں پڑھ سکتا… وہ حافظ اور عالم بھی نہیں…تلاوت بھی زیادہ نہیں کر سکتا…مگر مرتے وقت قرآن مجید اس کے ساتھ جاتا ہے…اور آگے کے تمام مراحل میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا ہے…
وسیع اور دلکش میدان
دل میں قرآن مجید کی عظمت ہو…قرآن مجید پر مکمل ایمان ہو…قرآن مجید کو ساتھ لینے کی فکر، کڑھن اور حرص ہو…اور اسے اپنی اہم ضرورت سمجھتا ہوتو…خدمت قرآن کا میدان بہت دلکش اور وسیع ہے…تلاوت سیکھنا،تلاوت کرنا…ادب کرنا، قرآن مجید کو سمجھنا، سمجھانا … قرآن مجید پڑھانا…قرآن مجید کی تعلیم کے لئے سہولیات اور اَسباب فراہم کرنا…قرآن مجید کی طرف لوگوں کو بلانا…قرآن مجید کی دعوت چلانا …قرآن مجید چھاپنا، چھپوانا، تقسیم کرنا…قرآن مجید کی محبت عام کرنا…قرآن مجید پر عمل کرنا… عمل کرانا…قرآن مجید کے احکامات کو خود پر ، معاشرے پر اورزیرِاختیار اَفراداور علاقے پر نافذ کرنا…قرآنی تعلیم کی حفاظت کرنا…قرآن مجید کی تعلیم دِلوانا…قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا، تفسیر لکھنا یا کوئی بھی علمی خدمت کرنا…
ماضی میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں…جو قرآن مجید کے ادب کی بدولت کامیاب ہو گئے… اور ایسے بھی گذرے ہیں کہ بظاہر قرآن مجید ان کے ساتھ تھا…مگر یقین،عمل اور ادب کے نہ ہونے کی وجہ سے …وہ قرآن مجید کے ساتھ سے محروم رہے …ایک شخص قتال فی سبیل اللہ کا منکر ہو اور تلاوت کر رہا ہو آیاتِ قتال کی…یہ تلاوت خود اُس کے خلاف حجت بن جائے گی…
آج ہی سے
الحمد للہ شعبان شروع ہو چکا ہے…آپ آج سے ہی اپنی زندگی کا ’’قرآنی منصوبہ‘‘ طے کر لیں …پھر اس کے لئے دعاء اور محنت شروع کر دیں …اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں…ایک آدمی ہر وقت یہ سوچتا ہے کہ میں نے ان شاء اللہ مرنے سے پہلے قرآن مجید کے چار سو مکتب قائم کرنے ہیں… ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے ان شاء اللہ محاذوں تک قرآن مجید کے نسخے پہنچانے ہیں…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے اول تا آخر ایک بار قرآن مجید کی ہر آیت کو ان شاء اللہ ضرور سمجھنا ہے کہ میرا رب مجھ سے کیا فرما رہا ہے…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے درست تلفظ کے ساتھ قرآن مجید سیکھنا ہے،پھر روز تلاوت کرنی ہے اور اپنی ساری اولاد کو ان شاء اللہ حافظ بنانا ہے…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے ایک ایسا پریس قائم کرنا ہے جو صرف قرآن مجید چھاپے گا اور درست چھاپے گا اور مفت تقسیم کرے گا…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں نے ایک بار قرآن مجید کا اس طرح مطالعہ کرنا ہے کہ…ہر آیت پر غور کروں گا کہ میرا اس پر کتنا یقین ہے اور کتنا عمل ہے…ایک آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں ان شاء اللہ ایک سو افراد کو قرآن مجید پڑھنا سکھا جاؤں گا…وہ پڑھتے پڑھاتے رہیں گے…اور میرا کارخانہ چلتا رہے گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ…میں اپنی اولاد کو سورہ فاتحہ خود حفظ کراؤں گا…اولاد زندہ رہی اور بڑی ہوئی تو لاکھوں بار فاتحہ پڑھے گی جس کااجر ان شاء اللہ میرے لئے جاری رہے گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ میں جلد سازی کی چھوٹی سی دکان بنا لوں گا… چھٹی کے دن مساجد میں جاکر قرآن مجید کے ضعیف نسخے اٹھا لاؤں گا اور ان کی جلد بنا کر واپس رکھ دوں گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ…میں کسی غریب آدمی کے ایک بچے کی قرآنی تعلیم کا سارا بوجھ اپنے سر لے لوں گا…اور اس کی تعلیم مکمل ہونے تک ان شاء اللہ خرچہ اٹھاتا رہوں گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ میں قرآن پاک کے فضائل کی دس احادیث ٹھیک ٹھیک یاد کروں گا اور روز کچھ مسلمانوں کو سناؤں گا…اور انہیں قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کی دعوت دوں گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ روزآنہ اتنا قرآن مجید حفظ کروں گا اور مرتے دم تک حفظ کرتا رہوں گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ میں قرآن مجید کا ایک نسخہ لے کر…کسی مستند عالم یا مستند ترجمہ کے ذریعے اس پر نشانات لگا دوں گا تاکہ…تلاوت کے وقت دھیان رہے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں… پھر یہ نسخہ بعد والوں کے کام بھی آتا رہے گا…ایک آدمی سوچتا ہے کہ میں نے خود بھی قرآن مجید حفظ کرنا ہے…اپنی بیوی اور اولاد کو بھی کرانا ہے اور اپنے پورے خاندان کو بھی کرانا ہے ان شاء اللہ…
دیکھا آپ نے کہ خدمت قرآن کا میدان کتنا وسیع ہے…اور اہل ہمت کے لئے اس میں کیسے کیسے امکانات موجود ہیں…یہ اوپر جو چند نیتیں بغیر ترتیب کے لکھی ہیں …یہ بطور مثال ہیں… اصل ترتیب درج ذیل ہے:
(۱) قرآن مجید پر ایمان لانا
(۲) قرآن مجید پر عمل کرنا
(۳) قرآن مجید کی تلاوت سیکھنا اور کرنا
(۴) قرآن مجید کی دعوت دینا
(۵)قرآن مجید سمجھنا، سمجھانا، پڑھنا اور پڑھانا
(۶) قرآن مجید کو حفظ کرنا،پھر حفظ رکھنا، اور قرآن مجید کا ادب کرنا…
اسی طرح اوپر جو نیتیں لکھی ہیں…ان کے علاوہ بھی خدمت قرآن کے بے شمار طریقے ہیں …آپ صرف تاریخ پر نظر ڈالیں تو اہل سعادت نے خدمتِ قرآن پر زندگیاں قربان کر دیں… تفسیر الگ خدمت، ترجمہ الگ خدمت، الفاظ الگ خدمت، معانی الگ خدمت،تجوید الگ خدمت، کتابت،اشاعت، دعوت الگ خدمت …
اور بے شمار خدمات…ارے بھائیو! شہنشاہِ اعظم، اللہ اکبر کا عظمت والا کلام ہے…اس لئے اس کے خُدّام بھی بے شمار، خدمتیں بھی بے شمار اور ان خدمات کا اجر بھی بے شمار…اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے …مگر ایک کام تو ابھی سے کر لیں…شعبان آ گیا ہے آج سے ہی اپنی تلاوت میں کچھ اضافہ کر لیں…وقت بہت قیمتی ہو جائے گا…بہت قیمتی …
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مقدس ہستی،مبارک نام
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 496)
اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے آخری اور سب سے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کو چار پیاری پیاری بیٹیاں عطاء فرمائیں…
(۱) حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا
(۲) حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا
(۳) حضرت سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا
(۴) حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
آج مسلمانوں میں ان چار میں سے تین نام تو الحمد للہ بکثرت موجود ہیں…مگر ’’اُم کلثوم‘‘ نام بہت کم ہے…کسی کو مشورہ دیں تو ہچکچا جاتا ہے … کہ بچی ’’اُم‘‘ کیسے ہو گئی…وہ سمجھتے ہیں کہ ’’اُم‘‘ کا مطلب صرف ’’ماں‘‘ ہے…ایسا غلط ہے… حضور ﷺ کی پیاری بیٹی کا نام ’’اُم کلثوم‘‘ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی پیاری بیٹی کا نام ’’ اُم کلثوم‘‘ …حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی پیاری بیٹی کا نام ’’اُم کلثوم‘‘…حدیث کی روایت کرنے والی ایک عظیم صحابیہ کا نام ’’اُم کلثوم‘‘…رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہن
ایک دعاء یاد کر لیں
بیٹی کا تذکرہ چلا تو یاد آ گیا کہ…دو دن پہلے جماعت کے شعبہ تعارف نے اطلاع دی کہ پشاور کی ایک مسلمان بہن نے بارہ تولے سونا اور تین لاکھ روپے جہاد میں دئیے ہیں…اور دو فرمائشیں کی ہیں…
پہلی یہ کہ ان کے لئے دعاء کی جائے…اور دوسری یہ کہ کچھ عرصہ پہلے’’رنگ و نور‘‘ میں زکوٰۃ کے بارے میں جو کالم شائع ہوا تھا…ایک مسلمان کا اور کیا کام؟…وہ ماہنامہ بنات عائشہ رضی اللہ عنہا میں بھی شائع کیا جائے…
بندہ نے دعاء کر دی…تمام قارئین بھی دل کی گہرائی سے ان کے لئے دعاء کریں…اور مضمون ان شاء اللہ شائع کر دیا جائے گا…
ایک بات بتائیں
جب آپ کے ہاں ’’بیٹی‘‘ کی ولادت ہوتی ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں یا پریشان ؟اگر خوش ہوتے ہیں تو بہت مبارک ہو…بہت مبارک…
اور اگر پریشان ہوتے ہیں تو مشہور زمانہ تفسیر ’’روح المعانی‘‘ کی یہ عبارت پڑھ لیں جو حضرت علامہ آلوسیؒ نے سورۃ النحل آیت (۵۸) کی تفسیر میں لکھی ہے…فرماتے ہیں:
اس آیت میں ہر اس شخص کی واضح مذمت ہے جو بیٹی کی خبر سن کر غمگین ہوتا ہے …کیونکہ آیت مبارکہ بتا رہی ہے کہ یہ کافروں کا کام ہے…یعنی مشرک اور کافر کا یہ طریقہ ہے کہ وہ بیٹی پیدا ہونے کی خبر سے غمگین ہو جاتا ہے…
ایک خاص نکتہ
حدیث شریف میں ایک دعاء کا حکم ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النِّسَائِ
یا اللہ! عورتوں کے فتنہ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں
یہ دعاء ( نعوذ باللہ) اکثر عورتوں کو پسند نہیں ہے…اسی لئے مرد حضرات اپنی ’’عربی دان‘‘ بیویوں کے سامنے یہ دعاء نہیں پڑھتے کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں…پڑھنی بھی ہو تو آواز آہستہ کر لیتے ہیں…اور خواتین تو اکثر اس دعاء کو نہیں پڑھتیں …حالانکہ اس زمانہ میں عورتوں کے لئے یہ دعاء بہت ضروری ہے…کیونکہ آج کل عورتیں ہی دوسری عورتوں کو زیادہ تکلیف اور نقصان پہنچاتی ہیں …آپ جب یہ دعاء پڑھیں گی تو دوسری عورتوں کے شر اور فتنہ سے ان شاء اللہ حفاظت میں رہیں گی …یہ موضوع تو بڑا مفصل ہے کہ عورتیں کس طرح سے دوسری عورتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں…بس ایک مثال لے لیں کہ بیٹی کی پیدائش پر سب سے زیادہ تکلیف آج عورتوں کو ہی ہوتی ہے…ماں بھی پریشان کہ بیٹا کیوں نہیں ہوا…ساس بھی دکھی کہ پوتا کیوں نہیں ہوا…اری بہنو! اگر ہر گھر میں ہمیشہ بیٹا ہی ہوتا تو پھر نہ یہ ماں موجود ہوتی اور نہ یہ ساس…آپ خود تو پیدا ہو گئیں…حالانکہ آپ بھی تو بیٹی تھیں…اب اگر آپ کے ہاں ’’بیٹی‘‘ پیدا ہوئی ہے تو اسے بھی خوشی سے قبول کر لیجئے…بیٹا بیٹا کرتے کہیں خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ پرویز مشرف یا پرویز رشید جیسا کوئی پیدا ہو جائے … ایسے بیٹوں سے کروڑ بار اللہ تعالیٰ کی پناہ …زمین بھی ان کے وجود سے پناہ مانگتی ہے…
اُمّ کا مطلب
کسی بچی کے نام میں ’’اُم‘‘ کا لفظ آنا حیرت کی بات نہیں ہے…اُم ’’ماں‘‘ کو بھی کہتے ہیں…اصل کو بھی کہتے ہیں…جڑ کو بھی کہتے ہیں…اُم ’’والی‘‘ کے معنی میں بھی آتا ہے…اُم ایمن برکت والی…اُم کلثوم ریشم جیسے چہرے والی…ہمارے ہاں ’’اُم کلثوم‘‘ نام نہیں رکھتے ہاں بعض لوگ اپنی بچی کا نام ’’کلثوم‘‘ رکھ دیتے ہیں…عربی لغت کی مشہور کتاب ’’لسان العرب لابن منظور ‘‘ میں لکھا ہے :
کلثوم رجل وام کلثوم امرأۃ
’’کلثوم‘‘ مرد کا نام ہوتا ہے …اور اُم کلثوم عورت کا…
ہجرت کے موقع پر حضور اقدس ﷺ نے جب قباء میں قیام فرمایا تو آپ کا قیام جن صاحب کے گھر میں تھا…ان کا نام تھا کلثوم بن ھدم…اور بھی کئی مردوں کا نام ’’کلثوم‘‘ آیا ہے…اگرچہ ناموں میں کافی گنجائش ہوتی ہے…شاید اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے ہمارے ہاں عورتوں کا نام بھی ’’کلثوم‘‘ رکھ دیا جاتا ہے…مگر جن مبارک ہستیوں کو دیکھ کر یہ نام اسلامی معاشرے میں آیا ہے…ان سب کا اسم گرامی’’ اُم کلثوم‘‘ تھا…بندہ سے کئی لوگ اپنے بچوں کا نام رکھنے میں مشورہ کرتے ہیں…الحمد للہ بعض دوستوں کی بچیوں کا نام ’’اُم کلثوم ‘‘ رکھ دیا ہے …مگر انہیں سمجھانے میں محنت کرنی پڑی…اللہ کرے یہ کالم کام کر جائے اور ہمارے گھروں میں میرا،وینا، پلوشہ، ملالہ،گلالہ کی جگہ پیاری عائشہ،خدیجہ، فاطمہ ، اُم کلثوم، رقیہ، حفصہ، زینب، صفیہ،جویریہ، میمونہ،آمنہ،امامہ…اور ان جیسے دوسرے پاکیزہ نام آ جائیں…
ایک بری رسم
ہمارے معاشرے میں بچوں کے برے نام ایک بری رسم کی وجہ سے آئے ہیں…وہ رسم یہ کہ جو نام ایک بار کسی خاندان میں آ جائے…وہ اب دوبارہ کسی بچے کا نہیں ہو سکتا…خاندان ماشاء اللہ بڑے ہیں تو اس لئے کئی لوگ نئے نئے نام ڈھونڈتے ہوئے…کافروں،منافقوں،بتوں اور چڑیلوں کے ناموں تک پہنچ جاتے ہیں…اب بھلا پرویز بھی کوئی نام ہے؟ ماضی کا ایک دشمن اسلام کافر …ارے بھائیو! اور بہنو! اپنے بچوں کے بہت پیارے پیارے نام رکھو…یہ بچوں کا اپنے والدین پر لازمی شرعی حق ہے … بے شک ایک ہی خاندان میں محمد ہی محمد اور عائشہ ہی عائشہ ہر طرف نظر آئیں…سچی بات ہے بہت بھلا لگتا ہے… بہت خوبصورت…
ویسے اچھے ناموں کی بھی کمی نہیں ہے…بس اچھا نام رکھنے کی فکر ہو …ہزاروں صحابہ کرام اور صحابیات کے نام موجود ہیں…والحمد للہ رب العالمین
کوکب الاسلام
بات ایک مقدس ہستی کی چلی تو کچھ ان کا مبارک تذکرہ بھی آ جائے کہ…ان کے تذکرے پر بھی رحمت نازل ہوتی ہے…
سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا…حضور اقدس ﷺ کی تیسری صاحبزادی…ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی…چھ سال کی تھیں کہ والد مکرم کو نبوت اور ختم نبوت کا تاج پہنایا گیا…اپنی امی جی اور بہنوں کے ساتھ فوراً کلمہ پڑھ کر سابقین الاولین میں جگہ پائی…ابو لہب کے بیٹے سے رشتہ طے تھا …مگر اُس ملعون نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ طلاق دے دو…ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی…پھر حضرت آقا مدنی ﷺ کے ساتھ شعب ابی طالب کی سخت مشقت کاٹی…والدہ ماجدہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا انتقال فرما گئیں…بیٹیاں ماں کے بغیر رہ گئیں…حضرت آقا مدنی ﷺ اور آپ کی دوسری زوجہ حضرت سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے تربیت فرمائی…پھر مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی …پہلے حضرت آقا مدنی ﷺ تشریف لے گئے …پھر بیٹیوں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خاندان کے ساتھ ہجرت کی…حضرت آقا مدنی ﷺ نے خود استقبال فرمایا…ہجرت کے تیسرے سال بڑی بہن حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا…ان کے خاوند حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غم سے نڈھال تھے کہ…حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا خود بڑے مقام والی تھیں…اور ان کے ذریعے سے حضور اقدس ﷺ سے بھی رشتہ تھا…ایسی بیوی کا انتقال تو کمر توڑ دیتا ہے…تب جبرئیل امین عرش سے اللہ تعالیٰ کا حکم لائے کہ … سیدہ اُم کلثوم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا جائے…رشتہ ہو گیا اور اس رشتہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ’’ذی النورین‘‘ بنا دیا…
اس رشتہ سے پہلے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی …حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ پیش کیا … حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی …جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ غمگین تھے … تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا…حفصہ کو عثمان سے اچھا خاوند…اور عثمان کو حفصہ سے بہتر بیوی ملے گی…حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا تو حضور اقدس ﷺ کے عقد مبارک میں آ گئیں…مگر سب حیران تھے کہ حفصہ سے افضل اس وقت کون ہو گا؟ …جب سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا تو سب نے جان لیا کہ…وہ افضل خاتون حضرت سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا ہیں …بعض حضرات نے حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کو ’’کوکب الاسلام‘‘ کا لقب بھی دیا ہے …ہجرت کے نویں سال شعبان کے مہینہ میں آنحضرت ﷺ کی یہ پیاری لخت جگر…اس دنیا فانی سے کوچ کر گئیں…عمر ابھی تیس سال بھی نہیں ہوئی تھی…پیدا مکہ مکرمہ میں ہوئیں…جبکہ تدفین مدینہ منورہ جنت البقیع میں ہوئی…کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ…حضرت آقا مدنی ﷺ کے دل پر کیا گذری ہو گی جب آپ …سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں سیدہ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کو قبر میں اُتار رہے تھے…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحُزْنِ
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 495)
اللہ تعالیٰ کے ’’لشکر ‘‘ بے شمار ہیں…اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک بہت طاقتور لشکر کا نام ہے ’’اَلْھَمّ ‘‘…یعنی فکر،پریشانی،سخت اُلجھن… اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتے ہیں اِس لشکر کو مسلّط فرما دیتے ہیں…
آئیے! دعاء مانگ لیں…جو حضرت آقا مدنی ﷺ نے سکھائی ہے…
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ
یا اللہ ! اپنی حفاظت اور پناہ دے دیجئے پریشانی اور صدمے سے…
اُن دونوں کو سلام
آج کی مجلس کا اصل موضوع…فکر اور پریشانی کا علاج ہے…مجھے معلوم نہیں کہ آپ میں سے کون کون ’’پریشانی‘‘ کا شکار ہے؟ اور آپ کو علم نہیں کہ میں پریشان ہوں یا نہیں؟…بس آپس میں مل کر اس بھاری اور خطرناک بیماری کا علاج ڈھونڈتے ہیں…
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم سب الحمد للہ مسلمان ہیں…اور دنیا میں صرف ایک ’’دواخانہ‘‘ اور ہسپتال ایسا ہے جہاں ہر بیماری کی دواء اور علاج موجود ہے…وہ ہے ’’اسلام کا دواخانہ‘‘…جی ہاں! اسلام کے پاس ہر مرض کا علاج اور ہر بیماری کی دواء دستیاب ہے جبکہ باقی سب…صرف بیماریاں بیچ رہے ہیں صرف بیماریاں… ایڈز، کینسر،غم،فکر، خود کشی،بے حیائی، ہالی وڈ،بالی وڈ… فیشن،سود، حرص، لالچ، جھوٹ … عیاشی، فحاشی، بدمعاشی…کمیونزم، سیکولر ازم، سرمایہ داری،مغربی جمہوریت…اور نفس پرستی … بے شمار بیماریاں…
آج کا اصل موضوع چھیڑنے سے پہلے… دو گمنام شہداء کو سلام کر لیں…اس فکر بھری دنیا میں جن دو نوجوانوں کو…صرف ایک ہی فکر تھی کہ حضرت آقا مدنی ﷺ کے گستاخوں کا ایک جلسہ ہو رہا ہے…اس ناپاک جلسہ پر لعنت برس رہی ہے …اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھی حضرت آقا مدنی ﷺ کے ناموس کے لئے نہ اُٹھا تو… زمین و آسمان بھی شرمندہ ہوں گے اور لعنت کا وبال ہر طرف پھیل جائے گا…یہ دونوں نوجوان…نہ شادی کی فکر میں تھے نہ مال بنانے کی…
وہ ایسی تمام فکروں اور پریشانیوں سے آزاد تھے جن فکروں میں آج کے اکثر مسلمان دن رات روتے ہیں…انہوں نے بس ایک فکر کو اپنایا کہ حضرت آقا مدنی ﷺ کی حرمت اور ناموس کے لئے…جان دینی ہے…اور ناپاک و نجس کارٹون سازوں کو مارنا، ڈرانا اور بھگانا ہے…ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر عزم کیا…اور نکل پڑے…امریکہ جیسے ملک میں وہ ہر سیکورٹی رکاوٹ کو روندتے ہوئے…جلسہ گاہ تک جا پہنچے اور وہاں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے …اس لڑائی کے دوران ناپاک کارٹون ساز چوہوں کی طرح کانپتے رہے… ان کا جلسہ اور مقابلہ درہم برہم ہوگیا… وہ مار کھائے ہوئے گدھوں کی طرح وہاں سے بھاگ گئے…اور زمین و آسمان اور ساری مخلوقات میں درود و سلام کا شور برپا ہو گیا…
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدْ،اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدْ،اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدْ
رجب کے مہینے میں …عشقِ رسول ﷺ کی معراج پانے والے دونوں شہدائِ کرام کو دل کی گہرائی سے …عقیدت بھرا سلام
تین سخت لہریں
انسان کے دل پر جو تکلیف دِہ لہریں حملہ آور ہوتی ہیں…وہ تین طرح کی ہیں…
(۱) اَلْحُزْن
(۲) اَلْغَمّ
(۳) اَلْھَمّ
اگر ماضی میں گزرے ہوئے زمانہ کی کوئی تکلیف…کڑوی یاد بن کر دل پر حملہ آور ہو تو اسے عربی میں ’’حُزْن‘‘ کہتے ہیں…یعنی صدمہ … اردو میں غم بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے…
اور زمانہ حال کی کوئی تکلیف دل کو جلا اور پگھلا رہی ہو تو اسے عربی میں ’’غَمْ‘‘ کہتے ہیں…یعنی گھٹن ،بے چینی…
اور آگر آگے یعنی مستقبل کی کوئی فکر دل کو رُلا رہی ہو ،تڑپا رہی ہو…خونی اندھیروں میں نہلا رہی ہو…اور مایوسی کی کھائی میں گرا رہی ہو تو اسے ’’ھَمّ ْ‘‘ کہتے ہیں…یعنی فکر اور پریشانی…
ان تینوں مصیبتوں کا حملہ دل پر ہوتا ہے … اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر دل پر ہوتا ہے…کسی پر کم اور کسی پر زیادہ…کسی پر مفید اور کسی پر نقصان دِہ …ویسے علمی طور پر ان تین الفاظ میں …مزید تشریح اور فرق بھی ہے مگر آج ’’ کتب خانہ‘‘ کا نہیں ’’دواخانہ ‘‘ کا قصد ہے…آئیے پھر دعاء مانگ لیں…
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ، یَا حَیُّی یَا قَیُّومُ ،اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْغَمّ…
بہت طاقتور
لوہا بہت طاقتور ہے مگر آگ اسے پگھلا دیتی ہے…آگ کی طاقت بہت مگر پانی اسے بجھا دیتا ہے…پانی کی طاقت بہت مگر ہوا اُسے اڑا دیتی ہے…ہوا کی طاقت بہت مگر انسان ہوا کو قابو کر لیتا ہے…انسان کی طاقت بہت مگر نیند انسان کو گرا دیتی ہے…نیند کی طاقت بہت مگر فکر اور پریشانی نیند کوبھی بھگا دیتی ہے…معلوم ہوا کہ ’’اَلْھَمّ ‘‘ یعنی فکر اور پریشانی اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے بہت طاقتور لشکر ہے…یہ کسی دل پر اُتر جائے تو دل زخموں اور اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے…دنیا بھر کی دوائیاں اس کو دل سے نہیں نکال سکتیں…دنیا بھر کے کھانے اور مشروبات اس کا علاج نہیں کر سکتے…لوگ نشہ کرتے ہیں تاکہ فکر اور پریشانی ختم ہو جائے مگر وہ اور بڑھ جاتی ہے اور دل میں زیادہ گہری اتر جاتی ہے… چنانچہ نشے کرنے والے اپنا نشہ مزید بڑھاتے جاتے ہیں …مگر مرتے دم تک فکر دل سے نہیں نکلتی…اگر نشہ سے نکل جاتی تو نشہ کرنے والے ایک بار نشہ کر کے باز آ جاتے…یہی فکر اور پریشانی ہے جو انسان کو خود کشی پر آمادہ کرتی ہے…یہی انسان کو بہت بڑے بڑے گناہوں میں ڈالتی ہے …یا اللہ! آپ کی پناہ…
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ…یَا فَارِجَ الْھَمِّ کَاشِفَ الْغَمِّ اَذْھِبْ عَنَّا الْھَمَّ وَالْحُزْنَ
خوشخبری
اگر فکر اور پریشانی ’’آخرت ‘‘ کی ہو تو یہ بہت مبارک ہے…اس فکر اور پریشانی کی برکت سے دنیا کی پریشانیاں اور فکریں ختم ہو جاتی ہیں… انسان کا دل غنی ہو جاتا ہے…اور دنیا ناک رگڑ کر اس کے قدموں میں آتی ہے…اسے ’’ھَمُّ الْآخِرَۃْ‘‘ کہتے ہیں…دعاء مانگا کریں …
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ ھَمِّی الْآخِرَۃَ
یا اللہ! آخرت کو میری فکر بنا دے
اردو میں جو ہم ’’اہمیت‘‘ کا لفظ بولتے ہیں وہ اسی ’’اَلْھَمّ ‘‘ سے نکلا ہے…کہ دل میں آخرت کی اہمیت دنیا سے زیادہ ہو جائے…جس طرح کینسر کے مریض کو یہ فکر ہوتی ہے کہ…میں اس بیماری سے مر نہ جاؤں…چنانچہ وہ اس کے علاج کو ہر چیز سے بڑھ کر اہمیت دیتا ہے…اس علاج کی خاطر مال مویشی بیچنے پڑیں…گاڑی فروخت کرنی پڑے…مکان بیچنا پڑے یا قرض لینا پڑے … وہ سب کچھ کر گزرتا ہے…پس اسی طرح ایک مسلمان کو آخرت کی فکر لگ جائے کہ…میری موت ایمان پر آئے ،مجھے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت مغفرت اور اکرام ملے…مجھے قبر کی تنہائی اور عذاب سے حفاظت ملے…حشر کے دن اور پل صراط اور میزان پر میرا معاملہ ٹھیک رہے…ان سب باتوں کی فکر اور بہت اہمیت …اور پھر اس کے لئے تیاری،قربانی اور محنت … اسے ’’ھَمُّ الْآخِرَۃ ‘‘ کہتے ہیں…جو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہم میں سے اکثر کو…نصیب نہیں ہے…ہم اپنے جسم کی ایک چھوٹی سی بیماری پر لاکھوں خرچ کر سکتے ہیں…مگر آخرت کے لئے ہزاروں کا خرچہ بھی بھاری لگتا ہے…بہرحال جن مسلمانوں کو یہ فکر اور ’’ھَمّ ‘‘نصیب ہے انہیں بہت بہت مبارک ہو…اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرمائے…
دوسری خوشخبری
وہ مسلمان جن پر اچانک کوئی ’’ھَمّ ‘‘ یعنی فکر یا پریشانی مسلط ہو جاتی ہے…مگر وہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں …وہ اللہ تعالیٰ سے ہی اس کا علاج اور حل مانگتے ہیں…وہ اپنے جلے ہوئے دل سے اپنا ایمان یا دوسروں کا دل نہیں جلاتے…بلکہ اس جلے ہوئے دل سے اپنے آنسوؤں کو گرم کر کے سچا اِستغفار کرتے ہیں …ایسے لوگوں کو بھی بشارت اور خوشخبری ہو کہ…یہ پریشانی اور فکر کا یہ حملہ اُن کے گناہوں کو مٹانے اور درجات کو بلند کرنے کا ذریعہ بنتا ہے…اس سے ان کے بڑے بڑے خطرناک گناہ معاف ہو جاتے ہیں …اس سے ان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا مقام مل جاتا ہے…
کیونکہ جسمانی تکلیف سہنا آسان ہے … مگر جب جسمانی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اَجر کے اتنے وعدے ہیں تو …قلبی اور روحانی تکلیف تو بڑی اذیت ناک ہوتی ہے…جو اسے صبر اور ذکر کے ساتھ کاٹ لے اس کا مقام بہت اونچا ہوتا ہے…اسی لئے اللہ والے بزرگ ایسے لوگوں کو ہمیشہ صبر کے نسخے بتاتے رہتے ہیں … حضرت ابراہیم بن ادہم ؒ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اسی ’’ھَمّ ‘‘ یعنی فکر و پریشانی سے تڑپ رہا تھا…آپ نے اس بندہ ٔمومن سے فرمایا … میں تم سے تین باتیں پوچھتا ہوں :
(۱) کیا دنیا میں اللہ تعالیٰ کے چاہے بغیر کچھ ہو سکتا ہے؟
(۲) اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں جو رزق لکھ دیا ہے کیا اس میں سے کوئی ایک ذَرّہ کم کر سکتا ہے؟
(۳) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جتنی زندگی لکھ دی ہے…کیا اس میں سے کوئی ایک لحظہ یعنی سیکنڈ کم کر سکتا ہے؟…
اس شخص نے تینوں سوالوں کے جواب میں کہا …نہیں ہر گز نہیں…حضرت ؒ نے فرمایا: پھر فکر اور پریشانی کس بات کی؟
خطرہ ہے خطرہ
وہ لوگ جن کے دل پر ’’ھَمّ ‘‘ یعنی فکر اور پریشانی کا حملہ ہوتا ہے…مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے…کچھ مایوس ہو کر گناہوں اور نشے میں جا پڑتے ہیں…کچھ شرک ،کفر اور ٹونوں میں جا گرتے ہیں…کچھ دوسروں کو اِیذاء پہنچانے میں لگ جاتے ہیں…اور کچھ خود کشی کر کے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کر لیتے ہیں…
ایسے لوگوں کا دل…شیطان کا تخت ہوتا ہے …وہ اس پر بیٹھتا ہے،ناچتا ہے اور تباہی مچاتا ہے …ہم سب مسلمانوں کو ایسی فکر اور ایسی حالت سے ڈرنا چاہیے…اور اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے…دنیا بڑی عجیب جگہ ہے …اس کی جو جتنی زیادہ فکر کرے یہ اسی قدر زیادہ کاٹتی ہے اور زیادہ دور بھاگتی ہے…ایک مسلمان کو یہ سوچنا چاہیے کہ کسی بات کی فکر لگانے اور فکر کھانے سے کیا ہو گا؟…یہی وقت اللہ تعالیٰ سے مانگنے یا آخرت کی تیاری میں لگا دوں…
علاج
’’ھَمّ ‘‘ یعنی فکر اور پریشانی کا اصل علاج اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ ہے… کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے…وہ میری سنتا ہے…وہ میری ضرور مدد فرمائے گا…اندازہ لگائیں… ایک شخص کے دل پر بیک وقت تینوں خطرناک لہروں کا حملہ ہے… ماضی کا صدمہ بھی ہے یعنی حُزن…حال کا غم بھی جاری ہے…اور مستقبل کی فکر بھی ہے…محبوب ترین بیٹا سالہا سال سے گم ہے اور اب دوسرا بیٹا بھی گم ہو گیا…مگر اس کی زبان سے کیا نکلتا ہے؟
فَصَبْرٌ جَمِیلْ
ہاں! صبر ہی اچھا ہے…اور ساتھ فرماتا ہے
لَا تَیْأَسُوْا مِن رَّوْحِ اللّٰہ
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو…اللہ کی رحمت سے صرف کافر مایوس ہوتے ہیں…
دوسرا بڑا علاج یہ کہ جس بارے میں فکر کا حملہ ہو اسی کے خلاف کوئی نیک کام کر لیا جائے…مال کی فکر اور پریشانی دل کو رُلارہی ہے تو ہمت کر کے جیب سے پیسے نکال کر صدقہ کر دیں…تھوڑی دیر میں فکر کا حملہ بھی ختم…اور ساتھ اِن شاء اللہ سکینہ بھی شروع…ویسے بھی صدقہ اس بیماری کا بہترین اور بڑا علاج ہے…
تیسرا علاج کثرتِ اِستغفار ہے…اور یہ اہلِ دل کا مجرب ہے…اور حضرت آقا مدنی ﷺ نے بھی…استغفار لازم پکڑنے والوں کو ہر فکر و پریشانی سے نجات کی بشارت دی ہے…
چوتھا علاج …
’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ ‘‘
کی کثرت ہے،جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے …
پانچواںعلاج…درود شریف کی کثرت ہے …اس پر دلائل روایات میں موجود ہیں…
اور بہت سے علاج اور بہت سی دعائیں حدیث شریف میں آئی ہیں
جو علاج چاہتا ہو…وہ تلاش کر لے…اور دنیا میں جس چیز کی فکر اور پریشانی حد سے زیادہ مسلّط ہو…اگر انسان اُس کو چھوڑنے یعنی اُس کی قربانی دینے کا عزم کر لے تو …پریشانی بھی دور ہو جاتی ہے اور نصرت بھی آ جاتی ہے…
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْن
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مدارس اور رَجب
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 494)
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ’’دین‘‘ کا لازمی اور ضروری ’’علم‘‘ عطاء فرمائے
رجب اور مدارس
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے،ہمارے ملک میں خالص دینی تعلیم کے ادارے موجود ہیں…ان اداروں کو ’’مدارس‘‘ کہا جاتا ہے…مدارس یعنی درس کے مقامات…پہلے کئی صدیوں تک مسلمانوں کے دینی مدارس ’’مساجد‘‘ میں آباد رہے…ان کی الگ عمارت نہیں ہوتی تھی…ہر مسجد میں ’’مدرسہ‘‘ لازمی تھا…پھر آبادی بڑھی،افراد زیادہ ہوئے تو مساجد کے پڑوس میں ’’مدارس‘‘ کی الگ عمارتیں بننے لگیں اور یہ مبارک سلسلہ آج تک جاری ہے …خالص دینی تعلیم کے مدارس پاکستان ، ہندوستان،بنگلہ دیش…امریکہ ،یورپ اور کئی افریقی ممالک میں موجود ہیں…اب کئی سالوں سے عرب ممالک میں بھی قائم ہو رہے ہیں … ورنہ وہاں حکومت کی زیر نگرانی دینی و عصری تعلیم کے مخلوط ادارے تھے…اور عرب شیوخ اور طلبہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے شام ،عراق،ہند اور پاکستان کے مشائخ سے استفادہ کرتے تھے اور سند حدیث حاصل کرتے تھے…
ویسے وہاں بھی نجی طور پر اہل علم کے مدرسے ان کی ذات اور ان کے گھروں میں ہمیشہ قائم رہے ہیں…مدارس کو ’’دارالعلوم‘‘ بھی کہا جاتا ہے… اب ’’جامعہ‘‘ کا لفظ زیادہ چل نکلا ہے…کچھ عرصہ سے ’’معہد‘‘ یا ’’المعہد‘‘ کا لفظ بھی عام ہو رہا ہے …یہ عربی میں ’’سکول ‘‘ کا ہم معنی لفظ ہے…ان مدارس کا تعلیمی سال رمضان المبارک کے بعد ’’ شوال‘‘ کے مہینہ میں شروع ہوتا ہے…اور اختتام رجب کے آخر یا شعبان کے شروع میں ہوتا ہے …رجب کے مہینے میں مدارس کا ماحول بہت عجیب روح پرور بن جاتا ہے…طلبہ اپنے سالانہ امتحانات کی تیاری میں رات دن ایک کرتے ہیں …رات کے دو بجے بھی یہ مدارس اور ان سے ملحقہ مساجد کا ماحول جاگ رہا ہوتا ہے…علمی مذاکرے اور تکرار کی آوازیں گونجتی ہیں…کچھ طلبہ پریشان ہوتے ہیں کہ امتحان میں کیا ہو گا؟ کچھ پرسکون ہوتے ہیں کہ جیسا تیسا گزر ہی جائے گا کم از کم ’’راسب‘‘ یعنی فیل ہونے کا خطرہ نہیں…کچھ طلبہ مقابلہ کی کیفیت میں ہوتے ہیں کہ اچھی پوزیشن حاصل کریں…اور بعض طلبہ ان دنوں میں باقاعدہ توجہ سے دعاء بھی مانگتے ہیں …ورنہ پورا سال وہ دعاء سے دور رہتے ہیں…
لائق اور ذہین طلبہ کے گرد ان دنوں مجمع رہتا ہے…وہ خود بھی پڑھتے ہیں اور دوسروں کو بھی پڑھاتے ہیں…ذکر اور عبادت کے شوقین طلبہ ان دنوں اپنے معمولات کم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں …مگر دینی تعلیم میں مشغول ہونا خود ایک اہم عبادت ہے…تو وہ تجدید نیت کے ذریعہ عبادت کا ذوق پورا کرتے رہتے ہیں…ہمارے حضرت شیخ مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی نور اللہ مرقدہ … امتحانات میں اچھی کامیابی کا وظیفہ ارشاد فرماتے تھے کہ ’’سورۃ ابراہیم‘‘ پڑھ لی جائے…تعلیم کے آخری سالوں میں الحمد للہ اس کا معمول رہا کہ صبح امتحان گاہ جانے سے پہلے پڑھ لیتے تھے…الحمد للہ بہت فائدہ ہوا…اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیشہ اچھی کامیابی اور درجہ ممتاز عطاء فرمایا…اللہ تعالیٰ آخرت کے امتحان میں بھی کامیابی عطاء فرمائے…
دینی تعلیم کے درجے
دنیا فانی ہے اور اس کی تعلیم بھی عارضی نفع ہے …جبکہ دینی تعلیم کا نفع دائمی ہے…شرط یہ ہے کہ دینی تعلیم سے ’’دین‘‘ حاصل ہو جائے…دینی تعلیم کا ایک حصہ تو وہ ہے جو ہر مسلمان مرد اور عورت کے لئے فرض عین ہے …افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اکثر مسلمان دینی تعلیم کے اس’’فرض‘‘ حصے کو بھی حاصل نہیں کرتے … یوں وہ دین سے ’’جاہل‘‘ رہ جاتے ہیں…نہ ان کو فرائض ادا کرنے کا طریقہ آتا ہے اور نہ وہ حلال و حرام کے درمیان فرق کر سکتے ہیں…نہ ان کی زبان کلمات کفر سے محفوظ رہتی ہے اور نہ ان کو نکاح اور طلاق کا پتا چلتا ہے … یہ لوگ بظاہر بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لگتے ہیں …کوئی وزیر،کوئی لیڈر، کوئی بیوروکریٹ،کوئی سفارت کار، کوئی سائنسدان ،کوئی ڈاکٹر …اور کوئی انجینئر…مگر یہ بے چارے ’’غسل‘‘ تک کا طریقہ نہیں جانتے اور ناپاکی میں زندگی گذارتے ہیں …ان کے گھروں میں ’’قرآن عظیم الشان‘‘ کے نسخے موجود ہوتے ہیں مگر محرومی کی حد دیکھیں کہ وہ قرآن پاک کی ایک سطر بھی درست نہیں پڑھ سکتے …کیا کیمبرج کی ڈگریاں … اور کیا آکسفورڈ کی سندیں…یہ سب مل کر قرآن مجید کی ایک سطر کے علم کے برابر نہیں ہیں…
دینی تعلیم کا دوسرا درجہ وہ ہے جو ’’فرض کفایہ‘‘ ہے…کہ بعض مسلمان اسے حاصل کر لیں اور وہ باقی مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہیں…دینی مدارس کا جو نصاب ہے وہ اسی ’’فرض کفایہ‘‘ تعلیم پر مشتمل ہے… آج کل مسلمانوں کا رجوع عصری تعلیم کی طرف زیادہ ہے … اور مدارس کی طرف آنے والے طلبہ ان کے مقابلہ میں کافی کم ہیں … اس لئے فرض کفایہ بھی پورا نہیں ہو رہا… اور جو خوش نصیب طلبہ دینی مدارس کی طرف آ جاتے ہیں …ان کو بھی بہت سے لوگ واپس سکولوں کالجوں کی طرف گھسیٹ کر لے جاتے ہیں کہ … معاشرہ میں ان کچھ مقام ہو…یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے …دین اور دینی علم سے بڑھ کر اور کیا ’’عزت ‘‘ ہو سکتی ہے؟ …بہرحال دینی مدارس اس امت کا فرض ادا کر رہے ہیں…یہ زمین پر وحی الہٰی کی تعلیم و تبلیغ کے اسٹیشن ہیں…ان مدارس سے محبت رکھنا …ان کی حتی الوسع خدمت کرنا … ان کی آبادی میں محنت کرنا اور ان کی قدر کرنا…یہ سب ایمان کے تقاضے ہیں…
آج ہر مسلمان کوشش کرے کہ…کم از کم ایک بچہ…اپنا ہو تو بڑی خوش نصیبی ورنہ کسی اور کا …وہ اسے ضرور مدرسہ میں بھیجے گا…اس کے والدین کو دعوت دے کر…یا مالی تعاون کے ذریعہ …یا کسی بھی طرح…
ایک اچھا رجحان
الحمد للہ تحریک جہاد کے طاقتور ہونے سے … اسلام اور مسلمانوں کو عالمی طور پر جو عزت اور حیثیت ملی…اس کے نتیجہ میں بے شمار غیر مسلم افراد نے اسلام قبول کیا…اور الحمد للہ یہ سلسلہ زور و شور سے جاری ہے…دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو عصری تعلیم حاصل کر چکے تھے…یا کر رہے تھے…ان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا…ان کو اس بات کا احساس ہوا کہ ہم نے جو کچھ پڑھا ہے یہ تو زیادہ سے زیادہ…موت کے جھٹکے تک کام آنے کا ہے…مگر اس کے بعد آگے کیا ہو گا؟…قبر، حشر، پل صراط، میزان … حساب و کتاب یہ سب کچھ بالکل برحق ہے اور یقینی ہے…ہمیں ان یقینی اور بڑے مراحل کی تیاری کے لئے دینی علوم حاصل کرنے چاہئیں…آگے کے اندھیروں سے بچنے کے لئے قرآن کی روشنی ساتھ لینی چاہیے…آگے کا راستہ سمجھنے کے لئے سنت کا رہنما آلہ ساتھ لینا چاہیے …اس رجحان کے تحت بہت سے دنیا دار مسلمانوں نے مدارس و مساجد کا رخ کیا…مدارس نے بھی انہیں خوش آمدید کہا…کئی آسان اور مفید نصاب مرتب ہوئے…الحمد للہ ہماری جماعت نے دورہ اساسیہ اور دورہ خیر کے ذریعہ اس خیر میں اپنا حصہ شامل کیا اور ہزاروں مسلمانوں کو دین کی لازمی اور بنیادی تعلیم دی… وہ افراد جو کلمہ درست نہیں پڑھ سکتے تھے…وہ ان مختصر دوروں کی برکت سے نماز کی امامت کرانے کے قابل ہوئے…یادرکھیں درست اذان دینا اور امامت کرانا …یہ اتنا بڑا اعزازہے کہ…اس کی عظمت کو اگر سر اُٹھا کر دیکھیں تو ٹوپی گر جائے…والحمد للہ رب العالمین
ایک برا رُجحان
پاکستان میں ’’فتنہ پرویز مشرف‘‘ کے آنے کے بعد دینی مدارس کو جدید اور مولوی صاحب کو ’’لیپ ٹاپ‘‘ بنانے کا پروگرام ریاستی جبر کے ساتھ شروع ہوا…پرویز چلا گیا مگر بعد کی حکومتیں بھی اسی کی پالیسی پر گامزن رہیں…
الحمد للہ اکثر مدارس اور اہل مدارس ڈٹ گئے …ان کی استقامت پر اللہ تعالیٰ کی موعود نصرت اتری اور فتنہ ٹھنڈا اور کمزور پڑ گیا …مگر کچھ لوگ اپنی بد نصیبی سے پھسل گئے…شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ ’’جدت پسندی‘‘ اختیار کرنے میں دین کا تحفظ ہے،مدارس کا تحفظ ہے وغیرہ وغیرہ…
حالانکہ جو لوگ مدارس کی تاریخ جانتے ہیں…ان کے علم میں ہے کہ مدارس کا تحفظ کسی فرد،پارٹی یا پالیسی کا مرہون منت نہیں ہے…مدارس الحمد للہ صدیوں سے قائم ہیں…داڑھی اور پگڑی بھی ہمیشہ الحمد للہ اہل استقامت کے ہاں محفوظ رہی ہے …بڑے بڑے فتنے آتے ہیں مگر اہل استقامت کے سامنے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں … پرویز مشرف کا فتنہ جب عروج پر تھا اور اس کے منہ سے ہر دوسرا جملہ مدارس اور جہاد کے خلاف نکل رہا تھا…انہی دنوں ایک بڑے بزرگ عالم دین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا…بات مدارس کے تحفظ کی چل نکلی تو انہوں نے مسکرا کر قلندرانہ انداز میں فرمایا … مولانا ! کچھ بھی نہیں ہو گا کچھ بھی نہیں …یہ خود ختم ہو جائے گا،مدارس اسی طرح قائم رہیں گے ان شاء اللہ، آپ نوجوان ہیں، ایوب کا زمانہ آپ نے نہیں دیکھا ہو گا…وہ مدارس کے خلاف اس سے بھی زیادہ سخت دھمکیاں اٹھاتا تھا …بالآخر اپنے کانوں سے اپنے خلاف گالیاں سن کر الٹا جا گرا…مدارس کا اصل تحفظ یہ ہے کہ اپنی بنیاد پر قائم رہیں…اور دینی تعلیم کی عزت و عظمت کا پاس رکھیں… بہرحال سیلاب آتا ہے تو بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے…پرویزی فتنہ آیا تو یہ برا رجحان پڑ گیا کہ … دینی تعلیم حاصل کرنے والے کئی افراد …عصری تعلیم کی طرف بھی جانے لگے … میٹرک ،ایف اے،بی اے،ایم فل اور ایم اے کے امتحانات دینے کا رجحان بڑھ گیا… مسلمان اگر دین کے علاوہ کسی اور چیز…میں عزت دیکھے تو اسے ضرور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے …چنانچہ ایسے افراد پر بھی ذلت آئی کہ دینی تعلیم کے رنگ، حلاوت اور مزاج سے محروم ہوئے…کئی ایک نماز تک سے دور ہو گئے…کئی ٹی وی چینلوں کے بے حیا ماحول میں جا پھنسے…بعض نے دینی اور عصری مخلوط تعلیم کے ادارے بنا کر شرعی حدود کی پاسداری نہ کرتے ہوئے …اور عصری تعلیم کو دینی تعلیم کے اوپررکھتے ہوئے پردہ،تقویٰ اور اپنے دین کا جنازہ نکال دیا …اور کئی ایک مستقل طور پر بری سیاست میں غرق ہو گئے…
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
انہوں نے چٹائی پر بیٹھ کر قرآن مجید پڑھانے کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ حقیر سمجھا تو خود ایسے حقیر ہوئے کہ…دفتروں میں نوکریوں کے لئے دھکے کھاتے پھرے اور اذان کی آواز پر مسجد جانے سے ان کے قدم بھاری ہو گئے…
یہی وقت جو وہ عصری تعلیم کے امتحانات کی تیاری میں گزارتے ہیں…قرآن مجید سیکھنے ،سمجھنے اور سکھانے پر لگا دیتے تو کتنا عظیم خزانہ پا لیتے … علماء کے لئے عصری تعلیم ممنوع نہیں ہے مگر اس کے لئے بہت سی شرائط ہیں…ان شرائط کو پورا کئے بغیر قرآن مجید پر سائنس کی کتاب اور حدیث شریف پر کیمسٹری کی گائیڈ رکھ دینا…خطرہ ہے،نقصان ہے …بہت عظیم نقصان…اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کے دل میں دین اور دینی علوم کی وہ عزت عطاء فرمائے جو ہر مسلمان کے دل میں ہونا اس کے ایمان کے لئے لازمی ہے…
طلبہ کی چھٹیاں
قرآن مجید میں …دینی علوم کے طلبہ کی اپنے وطن واپسی کا تذکرہ موجود ہے…کہ وہ واپس جا کر اپنی قوم،قبیلے کو، خاندان کو…اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں…ان کو دین سکھائیں اور ان کی دینی رہنمائی کریں…کیا دینی مدارس کے طلبہ چھٹیوں میں گھر جا کر یہی کام کرتے ہیں…جی ہاں بعض طلبہ ضرور کرتے ہوں گے…قرآن مجید کے ہر حکم پر عمل کرنے والے افراد ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں…مگر اکثر طلبہ ایسا نہیں کرتے…بلکہ اپنے اعمال اور فرائض میں بھی مکمل طور پر مستعد نہیں رہتے…
ان سے گزارش ہے کہ …چھٹیوں کو قیمتی بنائیں…اہم ترین کام جہاد کی تربیت ہے… اسی طرح حافظ طلبہ قرآن مجید یاد کریں…آیات جہاد کا دورہ تفسیر…یا پورے قرآن مجید کا دورہ تفسیر پڑھیں…دعوت جہاد کا کام کریں…جماعت کا نصاب ماشاء اللہ دین کا جامع ہے…بس آج ہی نیت کر لیں کہ…چھٹیوں میں غفلت سے توبہ … اور کام کا عزم…دین کا کام…اللہ تعالیٰ کا کام …اور ہمیشہ کام آنے والا کام…ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اِس نعمت کی قدر کریں!
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 493)
اللہ تعالیٰ ’’قلم‘‘ تحریر اور وقت میں اپنے فضل سے ’’برکت‘‘ عطاء فرمائے… آج چار باتیں عرض کرنی ہیں
(۱) ایک شکر،ایک خطرہ
شکر اس بات کا کہ ’’یمن‘‘ کے بحران کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کے سامنے ’’ایران‘‘ کی اصلیت واضح ہو گئی ہے…مسلمانوں کے لئے ’’ اسرائیل‘‘ سے بڑا خطرہ ایران…برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کی صد سالہ محنت سے وجود پانے والا ایرانی انقلاب…ہاں! بے شک اسرائیل بھی بڑا خطرہ اور بڑا دشمن ہے…مگر وہ تو اپنے وجود کو بچانے کی فکر اور خوف میں رہتا ہے…نہ اس نے افغانستان میں عالمی سامراج کا ہاٹھ بٹایا…نہ اس نے عراق کی مسلم آبادی کا قتل عام کیا…نہ اس نے شام میں مسلمانوں کے خون سے دریا سرخ کیے … نہ اس نے یمن میں مسلمانوں کے گلے کاٹے… مگر ایران نے یہ سارے کام کر ڈالے … آپ صرف عراقی شہر تکریت میں…مسلمانوں کے بھیانک قتل عام کی لرزہ خیز داستان پڑھ لیں… آپ یقین نہیں کریں گے کہ…کیا کوئی انسان اس قدر درندگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟…
دولت اسلامیہ کے مظالم کی داستانیں اہل مغرب نے خود گھڑی اور اڑائی ہیں…مگر تکریت میں ایرانی پاسبان نے جس طرح سے چنگیز اور ہلاکو کو شرمندہ کیا ہے…اس کی رپورٹنگ کے لئے عالمی ذرائع ابلاغ کے پاس دو منٹ اور دو سطریں بھی نہیں…کیونکہ ایران اس وقت اہل کفر کی ’’ڈارلنگ‘‘ ہے…بی بی سی لندن کے بارے میں اندھے بھی جانتے ہیںکہ…یہ یہودیوں کے فنڈ سے چلنے والا ایک اسلام مخالف مؤثر ادارہ ہے … بی بی سی کو نہ مولوی بھاتے ہیں اور نہ اسلامی حکومتیں …مگر ایران کے لئے اس کا انداز ہی الگ ہے … وہاں کے ملاّ بھی برداشت،وہاں کی سخت گیر مذہبی حکومت بھی قبول…وہاں کی جارحانہ سزائیں بھی برداشت اور پھر…یمن بحران پر ایران کی دل کھول کر حمایت…جی ہاں! دجّال کا میدان تیار ہو رہا ہے … دجّال کا میدان ،ایران ہی ایران …اور اب اس عفریت کا پنجہ تہران سے بیروت تک پھیل چکا ہے…مگر آگے کے خواب کچھ کڑوے ہیں…یمن کے بعد سعودیہ ضرور ہے …مگر مکہ،مدینہ پر پہرہ ہے…بہت مضبوط پہرہ …وہاں دجال داخل نہیں ہو سکتا…ہاں! مسلمانو !ایران خطرہ ہے…ایران ہی اس خطے میں اسرائیل…اور تمام اہل کفر کا محافظ ہے…مگر شکر ہے…اللہ تعالیٰ کا شکر کہ اب ’’تقیہ‘‘ کے پردہ میں چھپا یہ دشمن…بے نقاب ہو رہا ہے…اگر اس نے اپنے قدم حرمین یا پاکستان کی طرف بڑھائے تو بے آبرو بھی بہت ہو گا ان شاء اللہ
(۲) زلزلوں،طوفانوں، شیطانوں کا حملہ
اگر آپ نے روئے زمین کی تاریخ پڑھی ہو تو …آپ جانتے ہوں گے کہ…کبھی کبھار ایسا موسم آتا ہے کہ زمین پر زلزلوں،طوفانوں…اور شیطانوں کے حملے بڑھ جاتے ہیں…
آج کل کچھ ایسے ہی حالات نظر آ رہے ہیں …دنیا کی بلند ترین چوٹی ’’ایورسٹ‘‘زلزلے سے لرزی ہے…اور ہزاروں میل تک زمین اندر سے کانپ اٹھی ہے…نیپال ٹوٹا پڑا ہے جبکہ…جگہ جگہ آسمان گرج رہا ہے…اور زمین پر بجلی اور پانی گرا رہا ہے…
ایسے وقت ’’عذاب الہٰی‘‘ سے حفاظت کی دعاء اور تدبیر کرنی چاہیے…
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکْ
عذاب الہٰی سے بچنے کا ایک بڑا نسخہ جو قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے…وہ ہے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘… جہاد میں نکل آؤ… عذاب سے بچ جاؤ …جہاں بھی شرعی جہاد کا محاذ ملے اس کی طرف نکل پڑو…عذابوں کا رخ تم سے ہٹ جائے گا …جہاد میں جان لگاؤ…جہاد میں مال لگاؤ … جہاد میں زبان لگاؤ…جنگ،تربیت،تجہیز، معاونت اور دعوت…اور پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور رحمت ہی رحمت…
اور عذاب سے بچنے کا دوسرا بڑا نسخہ ’’استغفار‘‘ ہے…ایک مسلمان کے لئے استغفار کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں…استغفار اس امت کی امان ہے اور استغفار ’’محافظ ایمان‘‘ ہے…اہل دل کے نزدیک ’’رجب‘‘ کے مہینے میں زیادہ استغفار بہت مفید ہے …گناہوں سے پاکی ملے گی تو ان شاء اللہ ہر مسئلہ حل ہو گا اور عذاب سے حفاظت رہے گی … زلزلوں،طوفانوں اور شیطانوں کے ان حملوں سے بچنے کے لئے استغفار بڑھا دیجئے…اپنے محبوب رب سے معافی مانتے جائیے اور اس کا قرب پاتے جائیے … استغفار کے وقت اللہ تعالیٰ کے خوف سے نکلنے والے آنسو کا قطرہ اتنا طاقتور ہے کہ … جہنم کی آگ کو بجھا دیتا ہے … دنیا کے طوفان اس کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں…
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
جب بارش اور طوفان آئے تو…جہاد کی نیت کریں،جہاد میں مال لگائیں…اور استغفار و نماز میںمشغول ہو جائیں…آسمانی بجلی سے حفاظت کی دعاء آپ کو یاد ہو گی…
سُبْحَانَ الَّذِی یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہ
اور دوسری دعائ:
اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَالِکَ
(۳) خدمت و حفاظت قرآن کا مقام
گذشتہ کل تاریخ کی مایہ ناز کتاب … ’’البدایہ والنہایہ‘‘ کی دسویں جلد کے ساتھ کچھ وقت گزارنا نصیب ہوا…یہ امام ابن کثیر الدمشقیؒ کی جامع تصنیف ہے اور اہل علم کے ہاں معتبر ہے … بات اس میں امت مسلمہ کے ایک جلیل القدر امام …حضرت امام احمد بن حنبلؒ کی چل نکلی…ان کے فضائل،حالات،وفات اور مناقب لکھنے کے بعد علامہ ابن کثیرؒ نے…امام صاحبؒ کے بارے میں دیکھے گئے خوابوں کا تذکرہ چھیڑا ہے…پہلے تو یہ ثبوت پیش کیا کہ سچے خواب معتبر ہوتے ہیں … اور یہ ایک مومن کے لئے…بشارت اور رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں…
اس پر صحیح احادیث بیان فرمائیں…اور آگے حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں دیکھے گئے ’’مبشِّرات ‘‘ نقل فرمائے…ایک بزرگ امام احمد بن حنبلؒ کے پاس آئے جب تعارف ہو گیا تو انہوں نے بتایا کہ…میںنے آپ سے ملنے کے لئے چار سو فرسخ کا سفر کاٹا ہے …مجھے حضرت خضر علیہ السلام نے خواب میں حکم فرمایا کہ آپ کے پاس جاؤں اور آپ کو بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے عرش کے ملائکہ سب آپ سے خوش ہیں…اسی طرح ایک اور خواب کا تذکرہ ہے کہ امام صاحب جنت میں چل رہے ہیں…اور بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے…میری تاج پوشی فرمائی ہے…مجھے سونے کے دو جوتے دئیے ہیں اور فرمایا ہے کہ…تم نے جو یہ کہا تھا کہ … قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے…یہ سب اس کا بدلہ ہے … امام صاحبؒ کے زمانہ میں ایک فتنہ اٹھا تھا …اور وقت کے حکمران اس فتنہ کے محافظ تھے … یہ فتنہ قرآن مجید کے خلاف تھا کہ …نعوذ باللہ قرآن مجید ’’مخلوق‘‘ ہے…حضرت امام صاحبؒ اس فتنہ کے خلاف ڈٹ گئے…اس پر انہیں مارا گیا،قید میں ڈالا گیا…پابندیاں لگائیں گئیں…اور کوڑوں سے پیٹا گیا…مگر آپ ڈٹے رہے اور بالآخر آپ کی استقامت نے اس فتنہ کی کمر توڑ دی …وہ پہلے کمزور ہوا اور پھر الحمد للہ بالکل ختم ہو گیا …امام صاحبؒ کی اس محنت کا حتمی نتیجہ تو ان کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ ظاہر ہوا…مگر امام صاحبؒ کی محنت اور استقامت…اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے مقام کے ساتھ قبول ہوئی…ہمارے زمانے میں … قرآن مجید کی آیات جہاد کے انکار کا فتنہ سرگرم ہے …حکمران اس فتنہ کے محافظ ہیں …اور یہ فتنہ بھی…خلق قرآن کے فتنہ کی طرح زمانے کی دانشوری سمجھا جاتا ہے…اس فتنہ کے علمبردار مختلف طبقے ہیں…کوئی کھلے انکار پر ہے تو کوئی تحریف کے راستے سے انکار تک آتا ہے … مقصد اور نتیجہ سب کے نزدیک ایک ہی نکلتا ہے کہ …ان آیات کا نعوذباللہ اس زمانہ میں تلاوت کے علاوہ اور کوئی مصرف نہیں ہے…اور مسلمانوں کو ان پر عمل کا تصور ہی چھوڑ دینا چاہیے…یہ فتنہ پہلے بہت طاقتور تھا اور منہ زور بیل کی طرح کسی کے قابو میں نہ آتا تھا…مگر اب الحمد للہ اس میں کمزوری آ رہی ہے…مگر آج بھی یہ فتنہ زندہ ہے…اور اسے زندہ رکھنے اور طاقتور بنانے کے لئے … اداروں کے ادارے اور ملکوں کے ملک محنت کر رہے ہیں …ایسے حالات میں چند دن بعد دیوانے آپ کے دروازے پر آئیں گے کہ…اے مسلمانو! چلو سات دن قرآن مجید کی آیات جہاد کی تفسیر پڑھ لو …آؤ ان آیات کی تفسیر پڑھو جن کی تفسیر کو مٹایا جا رہا ہے،چھپایا جا رہا ہے…آؤ اپنے رب کی کتاب کی اس خدمت میں اپنا حصہ ڈالو…آؤ اپنے رب کی کتاب کی حفاظت میں اپنا حصہ ڈالو…اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے…پھر وہ جن افراد کو اس کتاب کی حفاظت کی خدمت پر کھڑا فرماتا ہے…ان کو امام احمد بن حنبلؒ کی طرح اپنی مغفرت اور محبت سے مالا مال فرما دیتا ہے…
آج ہر ٹی وی چینل…ان آیات کے خلاف زہر اگل رہا ہے…آج ہر مغرب زدہ کالم نویس ان آیات کے مفہوم و معنٰی کا انکار لکھ رہا ہے…آج غیر ملکی سفارتخانوں سے…ماہانہ کروڑوں ڈالر کا فنڈ ان آیات کو مٹانے کے لئے جاری ہوتا ہے … آج قلم کاروں اور نام نہاد اہل تحقیق کے کئی جتھے …غامدی اور وحید الدین جیسے ملحدین کی قیادت میں ان آیات کے خلاف…اپنا پسینہ بہا رہے ہیں…
ان حالات میں اٹھو اور آؤ…ہم سب مل کر ان آیات کی تلاوت کریں…ان آیات کا ترجمہ پڑھیں…ان آیات کی تفسیر پڑھیں…ان آیات کی خوشبو سونگھیں اور اپنے دل و جان معطر کریں…
آؤ! ان آیات کے سائے میں شہداء بدر و احد سے ملاقات کریں…آؤ!ان آیات کی روشنی میں …اپنے محبوب نبی ﷺ کی بطور سپہ سالار زیارت کریں…آؤ! ان آیات کی روشنی میں عزت، عظمت اور آزادی و شہادت کا راستہ ڈھونڈیں … اور اعلان کر دیں…یا اللہ! ہم آپ کی کتاب پر ایمان لائے ہیں…ہم اس کتاب کی ایک ایک آیت …اور ایک ایک حکم کومانتے ہیں…ارے کیسے خوش نصیب ہیں وہ افراد…جو چند دن بعد ان مبارک آیات کا دورہ پڑھائیں گے…خود بھی چمکیں گے، سننے والوں کو بھی چمکائیں گے…خود بھی روئیں گے اور سننے والوں کو بھی رلائیں گے …اور مسلمانوں کو سمجھائیں گے کہ دین وہی ہے جو آقا ﷺ دے گئے…جہاد وہی ہے جو آقا ﷺ دے گئے…سبحان اللہ! خدمت قرآن،حفاظت قرآن اور دعوت قرآن کی یہ پر نور محفلیں…بس سجا ہی چاہتی ہیں…
بھائیو! ان محفلوں کے لئے محنت کرو…ان میں شرکت کرو…اور ان کی روشنی کا دائرہ وسیع کرو …ہاں سچ کہتا ہوں! اس نعمت کی قدر کرو…
(۴)مفید اور مبارک ذرات
چوتھی بات کے لئے جگہ کم رہ گئی…مختصر عرض ہے کہ کھانا اور رزق ضائع نہ کریں…پلیٹ اور برتن سنت کے مطابق صاف کریں…اجتماعی کھانا تو ہرگز ضائع نہ ہو…کھانے کے دوران جو ذرات اور لقمے دسترخوان پر گر جاتے ہیں…انکو چن کر کھا لیں…یہ ہمارے محبوب آقا ﷺ کی سنت ہے …دراصل شیطان ہمارے کھانے میں سے مفید اور برکت والے ذرات کو نیچے گراتا رہتا ہے … کیونکہ وہ دشمن ہے وہ نہیں چاہتاکہ ہم صحت و برکت حاصل کریں … اس لئے ہم اپنے محبوب کی سنت کے مطابق وہ مفید اور بابرکت ذرات چن کر شکر کے ساتھ کھا لیا کریں…چند دن اہتمام کریں تو فائدہ اور برکت اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں گے ان شاء اللہ
لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ،لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لاالہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مجموعہ مقبول استغفار
(شمارہ 491)
(۱) وفاداری کا اعلان اور استغفار
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیرْ ( البقرۃ ۲۸۵)
(۲) معافی،مغفرت، نصرت، رحمت، آسانی کے سوال پر مشتمل جامع استغفار
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِن نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَاتُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ( البقرۃ ۲۸۶)
(۳) ہمیشہ کی نعمتوں کے مستحق بندوں کا استغفار
رَبَّنَا اِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ( آل عمران ۱۶)
(۴)جہاد میں آزمائشیں اور مشکل حالات کے وقت کا مؤثر استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ( آل عمران ۱۴۷)
( ۵) عقل والوں کا استغفار
رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ( آل عمران ۱۹۳)
(۶) حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استغفار
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف:۲۳)
(۷) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تسبیح اور توبہ
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ(الاعراف:۱۴۳)
(۸) شدید ندامت والا استغفار
لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف: ۱۴۹)
(۹) صلہ رحمی والا استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (الاعراف:۱۵۱)
(۱۰) اجتماعی مصیبت اور قومی مشکل کے وقت کا استغفار
اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(الاعراف:۱۵۵)
(۱۱) ربّ غفور کے سہارے
بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا، اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(ہود:۴۱)
(۱۲) حضرت نوح علیہ السلام کا مؤثر استغفار
رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ، وَاِلَّاتَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(ہود:۴۷)
(۱۳) کسی کو معاف کرتے وقت کا استغفار
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(یوسف:۹۲)
(۱۴) اللہ تعالیٰ پر توکل… اور اللہ تعالیٰ ہی سے توبہ
ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ (الرعد:۳۰)
(۱۵) اپنے لئے، والدین کیلئے اور سب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(ابراہیم:۴۱)
(۱۶) اسم اعظم والا استغفار
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن(الانبیائ:۸۷)
(۱۷) مقبولین کا استغفار
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْن (المؤمنون:۱۰۹)
(۱۸) مغفرت اور رحمت مانگو
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ (المؤمنون:۱۱۸)
(۱۹) مقرب فرشتوں کا تائب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ، رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ، وَقِھِمُ السَّیِّاٰتْ ۔ وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہ۔ وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(المؤمن:۷تا۹)
(۲۰) مقبول اور سعادتمند بندوں کا استغفار
رَبِّ اَوْ زِعْنِی اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ۔ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الاحقاف : ۱۵)
(۲۱) بڑے مقام والا استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(الحشر:۱۰)
(۲۲) دشمنوں سے حفاظت والا استغفار
رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ، رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الممتحنۃ:۴۔۵)
(۲۳) اہل ایمان کا آخرت میں استغفار
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ(التحریم:۸)
(۲۴) حضرت نوح علیہ السلام کا جامع استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتْ (نوح:۲۸)
(۲۵)قبولیت اعمال کی استدعا اور استغفار
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُoوَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(البقرہ:۱۲۷،۱۲۸)
٭…٭…٭
اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ!! ( قسط ۲)
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 492)
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے…’’رجب‘‘ کا محترم اور معزز مہینہ شروع ہو گیا ہے…
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
کسی مہینہ کے ’’محترم‘‘ اور معزز ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ…اس مہینہ میں نیکیوں کا وزن بڑھ جاتا ہے…اس لئے نیکیوں کو بڑھا دیا جائے …اور اس مہینہ میں گناہوں کا بوجھ اور وبال بھی بڑھ جاتا ہے…پس گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم نہ کیا جائے…جان بے چاری اتنا بوجھ کیسے اٹھائے گی…
فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ
اصل موضوع کی یاد دہانی
گذشتہ کالم سے ہماری مجلس کا جو موضوع چل رہا ہے…وہ یاد کر لیں…قرآن مجید کی آیات توبہ و استغفار جمع کرنے کا داعیہ تھا…ایک بڑی قربانی والے مرد مومن نے قرآن مجید کا سرخ غلاف والا ایک نسخہ ہدیہ کیا…اس نسخے پر تلاوت کے دوران ’’آیات مغفرت‘‘ کا ابتدائی کام ہو گیا … الحمد للہ تقریباً ڈھائی سو آیات پر نشانات لگا دئیے گئے…اب یہ خواہش اور کوشش تھی کہ ان آیات کی آسان اور مختصر تشریح لکھ دی جائے…یہ کام اگرچہ ’’ فتح الجواد‘‘ کے کام کی طرح مشکل نہیں تھا …وہ بہت علمی،احتیاط طلب اور تحقیقی کام تھا … اور بالکل نیا اور پیچیدہ…ویسے ’’فتح الجواد‘‘ کو عام نظروں سے پڑھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ…وہ بھی معمول کا کام ہے…آیت اور اس کا ترجمہ لکھ دیا…اور نیچے تفسیروں سے عبارتیں نقل کرتے چلے گئے…مگر ایسا نہیں ہے…کوئی صاحب علم جس کی عمر کے سالہا سال تفسیر کے مطالعہ اور تفسیر کی تعلیم و تدریس میں گزرے ہوں…وہ اگر ’’ فتح الجواد‘‘ کو دیکھے تو سمجھ سکتا ہے کہ…یہ کتنا مشکل کام تھا … ایک موضوع کی آیات لانا…ان آیات کا ایک رخ متعین کرنا…اس رخ کی تائید میں اسلاف کی شہادتیں جمع کرنا…اور پھر حال کو ماضی سے جوڑنا اور …فتنہ انکار جہاد کی ہر دلیل کو غیر محسوس طریقے سے توڑتے چلے جانا…بس اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ کام ہو گیا …وہ نہ میرے بس کی بات تھی اور نہ اس میں میرا واقعی کوئی کمال تھا…دور حاضر کے شہداء کرام کی قربانی پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ…جہاد اس قدر ناقابل تردید دلائل کے ساتھ چمکا…والحمد للہ رب العالمین…
مگر ’’آیات استغفار‘‘ کا کام آسان تھا … کوئی بھی مسلمان ’’استغفار‘‘ کا انکار نہیں کرتا … ہاں! اس بارے میں غفلت موجود ہے…انکار اور غفلت میں بڑا فرق ہے…غفلت دور کرنے کے لئے دلائل سے زیادہ…دعوت اور یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے…کام آسان تھا مگر پھر بھی ’’قرآن مجید‘‘ کا ہر کام…خاص آداب،خاص توجہ اور خاص وقت مانگتا ہے…پس اسی خاص توجہ اور خاص وقت کی تلاش میں دو تین سال گزر گئے …اور قرآن مجید کا سرخ غلاف والا نسخہ سفر و حضر میں میرے ساتھ رہا…
استغفار پر دوسری محنت
اس دوران فکر تو تھی کہ…یہ کام جلد ہو اور اپنی مغفرت کا کچھ سامان ہو جائے…چنانچہ استغفار اور توبہ کے موضوع پر…دیگر مواد جمع ہوتا رہا…ایک تو رنگ و نور کے بعض مضامین…دوسرا مکتوبات استغفار…تیسرا صیغ استغفار کی احادیث …چوتھا توبہ کے متعلق احادیث…پانچواں استغفار کی فضیلت پر احادیث… چھٹا استغفار کے بارے میں امام غزالیؒ کے علمی شہ پاروں کی تلخیص اور تسہیل…اور ساتواں استغفار اور توبہ کے درمیان تعلق اور فرق کی تحقیق وغیرہ…
الحمد للہ یہ سارا کام جمع ہوتا رہا…اس کی کتابت بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی…پھر اس کی ترتیب بھی طے ہو گئی…ترتیب کے بعد بندہ نے اس سارے مسودے کو دوبارہ پڑھا تو دل میں شوق بھڑک اٹھا…کتاب کا مسودہ اٹھا کر ایک دوردراز مسجد میں جا بیٹھا اور وہاں اللہ تعالیٰ سے وقت متعین اور مقید کرنے کا عہد باندھ لیا…
اور یوں الحمد للہ آیات پر کام شروع ہوا … اور ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں مکمل ہو گیا…
والحمد للّٰہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات
دلنشین خلاصہ
قرآن مجید کی آیات توبہ، آیات استغفار اور آیات مغفرت کو پڑھا جائے تو دل میں ایک عجیب سی روشنی چمکنے لگتی ہے…چند مضامین کا خلاصہ پیش خدمت ہے…
٭ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مغفرت کی طرف بلا رہے ہیں…آ جاؤ میرے بندو آ جاؤ، میں تمہیں معاف کروں، تمہیں بخش دوں
٭ جو اللہ تعالیٰ کا جتنا مقرب ہے وہ اسی قدر اللہ تعالیٰ کی ’’مغفرت‘‘ اور ’’معافی‘‘ کا لالچی اور حریص ہے…اور وہ اللہ تعالیٰ سے بار بار مغفرت مانگ رہا ہے،استغفار کر رہا ہے…حالانکہ لگتا یوں ہے کہ ایسے لوگوں کو ’’استغفار‘‘ کی کیا ضرورت ؟؟ …وہ تو بخشے بخشائے لوگ ہیں…
٭ جو اللہ تعالیٰ سے جتنا دور ہے…جو جس قدر نفاق میں دفن ہے وہ اس قدر ’’استغفار‘‘ سے دور ہے…اس کے دل میں ہر چیز کی لالچ ہے…مگر ’’مغفرت‘‘ کی لالچ نہیں …حالانکہ ایسے لوگوں کو استغفار کی زیادہ ضرورت ہے…مگر وہ اپنے نفاق،اپنے گناہ اور اپنی حب دنیا پر مطمئن ہیں…اسی لئے نہ وہ معافی مانگتے ہیں اور نہ مغفرت…
٭ مسلمان کا ایسا کوئی بھی مسئلہ نہیں جو … استغفار سے حل نہ ہو سکتا ہو…ناممکن سے ناممکن کام…استغفار کی برکت سے ممکن ہو جاتا ہے … مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلنے کا واقعہ بطور دلیل موجود ہے…استغفار کی برکت سے شکست،فتح میں بدل جاتی ہے…استغفار کی برکت سے فتح پکی ہو جاتی ہے…استغفار کی برکت سے پانی، ہوا ،مٹی اور آگ کا نظام…انسان کے حق میں ٹھیک ہو جاتا ہے…خاندانی نظام درست ہو جاتا ہے… بانجھ پن دور ہو جاتا ہے…اقتصادی نظام بہترین ہو جاتا ہے…اور معاشرہ میں باہمی محبت، معافی، درگزر اور خدمت کا ماحول بن جاتا ہے…
٭ مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت پانے کی لالچ ہو تو…اس کو دو متضاد فائدے ملتے ہیں…پہلا یہ کہ اس میں ’’تکبر‘‘ پیدا نہیں ہوتا وہ دل سے عاجز رہتا ہے اور عاجزی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے…اور دوسرا یہ کہ اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے اور وہ بہت طاقتور مومن بن جاتا ہے…
٭مجاہدین استغفار کریں تو ان کو قوت، ثابت قدمی اور فتح ملتی ہے…اور ان کا جہاد اور کام دور دور تک پھیل جاتا ہے…علماء استغفارکریں تو ان کے علم میں روشنی اور برکت آ جاتی ہے…اور ان کا علم خود ان کے لئے اور دوسروں کے لئے نفع مند بن جاتا ہے…
٭کوئی گناہ ایسا نہیں جو …توبہ اور استغفار سے معاف نہ ہوتا ہو…شرط یہ کہ توبہ زندگی میں کرے…اور سچی توبہ کرے…جب عذاب کی علامات شروع ہو جائیں…موت کی سکرات شروع ہو جائے…یا جب موت آ جائے…تب توبہ قبول نہیں ہوتی…اس سے پہلے…ہر گناہ کی توبہ کا دروازہ کھلا ہے…اور سچی توبہ پر یہ بھی بشارت ہے کہ…گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا جاتا ہے…
٭ تم دیکھو گے کہ…لوگ مال،اولاد، عورتوں،مویشیوں،گھوڑوں،زیورات اور زمینوں کے حاصل کرنے میں…ایک دوسرے کو پیچھا دکھا رہے ہیں…ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے ہیں…ایسے وقت میں تم ان فانی چیزوں کو چھوڑو…اور اپنے رب کی مغفرت اور اپنے رب کی جنت پانے کے لئے…دوڑ لگا دو، محنت کرو، مقابلہ کرو اور ایک دوسرے سے سبقت کرو…
٭ کلمہ طیبہ کو دل میں بٹھا لو…اس کو پکا کرو…خود بھی پڑھو،اوروں تک بھی پہنچاؤ… استغفار خود بھی کرو…اس سے تمہارا کلمہ پکا اور مضبوط ہو گا…اور دوسرے ایمان والوں کے لئے بھی استغفار کرو…اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور استغفار کی طرف بلاؤ…
٭ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچتا رہے گا…اور جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرے گا وہی ہر جگہ مرے گا…اللہ تعالیٰ کا خوف نعمت ہے…مگر ایسا خوف جس کے ساتھ امید بھی ہو…خوف اور امید دونوں کا مشترکہ اظہار…سچے استغفار میں ہوتا ہے…ایک طرف ڈر کہ مجھ سے غلطی ہو گئی، مجھ سے ظلم ہو گیا، میں نے یہ کیا کر دیا…میں تو ہلاکت کی طرف جا پڑا…یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ… ساتھ امید کہ معافی مل سکتی ہے…یا اللہ معاف فرما دے…بخش دے، مغفرت عطا فرما…پس جس کو یہ نصیب ہو گیا…اس کو ایمان کا بلند مقام مل گیا…
جو گناہ کر کے اللہ سے ڈرے ہی نہ…وہ سخت خطرے میں ہے…اور جو گناہ کر کے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت سے مایوس ہو بیٹھے … وہ اس سے بھی زیادہ خطرے میں ہے…
٭ اسباب مغفرت کون کون سے ہیں؟ … مغفرت سے محرومی کے اسباب کون کون سے ہیں؟ …’’مغفرت‘‘ ایک مومن کے لئے سب سے بڑا انعام ہے…کس طرح؟
یہ سب کچھ قرآن مجید میں…موجود ہے … بس اتنا خلاصہ عرض کر دیا تاکہ خلاصہ …خلاصہ ہی رہے…
کتنی آسانی ہو گئی
توبہ،مغفرت اور استغفار کی جو آیات جمع کی ہیں وہ…ڈھائی سو سے کچھ زائد ہیں…ان آیات کی تفسیر میں…نہ تو لمبی چوڑی تقریر لکھی ہے اور نہ تفاسیر کے حوالے…بس چند سطروں میں اس آیت مبارکہ کا…توبہ،استغفار والا مضمون واضح کر دیا ہے…
اب عام پڑھا لکھا مسلمان…جو اردو پڑھ لیتا ہو…آسانی سے ان آیات کا مفہوم سمجھ سکتا ہے …اور تقریباً چار پانچ گھنٹے کے مطالعے یا تعلیم کے ذریعے…قرآن مجید کی تقریباً تمام آیات مغفرت کو پڑھ سکتا ہے…اور جو دین کے طالبعلم اور عربی سے واقف ہیں وہ ڈھائی تین گھنٹے میں ان تمام آیات کو پڑھ سکتے ہیں…ماشاء اللہ، لا قوۃ الا باللہ …دیکھیں کتنی آسانی ہو گئی کہ…اتنا اہم مضمون اور اس کی اتنی زیادہ آیات…چند گھنٹوں کی محنت سے سمجھی جا سکیں…آپ جانتے ہیں کہ…قرآن مجید بیماری بھی بتاتا ہے اور علاج بھی… ’’گناہ‘‘ بیماری ہے…اور’’ توبہ و استغفار‘‘ علاج اور شفاء ہے…علاج و شفاء کا مکمل نسخہ،مکمل نصاب، اور مکمل ترتیب…ان تمام آیات کو سمجھ کر پڑھنے سے ہمارے سامنے آ جائے گی ان شاء اللہ
الیٰ مغفرۃ
آیات توبہ اور آیات استغفار پر مشتمل اس کتاب کا نام…’’الیٰ مغفرۃ‘‘ رکھا ہے…یعنی مغفرت کی طرف…اس کتاب کے دو حصے ہیں …پہلے حصے میں قرآن مجید کی’’ آیات مغفرت ‘‘ …اور قرآن مجید کی استغفار والی دعائیں…جبکہ دوسرے حصے میں…استغفار اور توبہ کے موضوع پر احادیث مبارکہ…استغفار کے صیغے اور دعوت استغفار ہے…وہ بہت کچھ جو آپ ’’آیات‘‘ میں پڑھیں گے اس کی تشریح آپ کو دوسرے حصہ کی احادیث مبارکہ میں مل جائے گی…’’الیٰ مغفرۃ ‘‘ نامی یہ کتاب تیاری کے مراحل میں ہے…اہل دل اس کی جلد اشاعت کے لئے دعاء فرما دیں…
شکریہ شہید بھائی!
قرآن مجید کا نسخہ دینے والے شہید بھائی کا شکریہ…ان کی قربانی کا گہرا تاثّر اور ان کے اخلاص کی گہری حرارت نے…خیال اور عزم کو تقویت دی…قرآن مجید کے نسخے ہدیہ میں آتے رہتے ہیں…سب ہی بہت محترم اور بہت مبارک ہوتے ہیں…اکثر کچھ تلاوت کر کے آگے بڑھا دیے جاتے ہیں…مگر یہ نسخہ کئی سال ساتھ رہا … اور الحمدللہ ایک ایسے کام کی بنیاد بن گیا جس کی مجھے خود سخت ضرورت تھی…دل چاہا کہ اس شہید کا نام اور اس کے حالات اور قربانی بھی لکھ دوں…مگر بہت سی وجوہات ایسی ہیں کہ نہیں لکھ سکتا…یہ بھی شہید کی کرامت اور اخلاص ہے کہ…یوں چھپ کر آپ سب سے محبت اور دعائیں پا رہا ہے … اے شہید بھائی! بہت شکریہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے…
دو دعائیں
کتاب کے اس تعارف کے موقع پر مسافر کا دل اپنے غفور اور مہربان رب سے دو دعائیں مانگ رہا ہے…
پہلی دعائ:یا اللہ مجھے اپنی مغفرت کی ایسی شدید لالچ عطا فرما کہ میں اس کتاب سے سوائے آپ کی مغفرت پانے کے…اور کسی بھی صلے کی کبھی بھی کوئی خواہش نہ رکھوں…یا اللہ! کتاب کی تیاری میںمعاونت کرنے والے اور پھر کتاب چھاپنے والے عزیز و احباب کو اپنی مغفرت کی ایسی شدید حرص عطاء فرما کہ وہ اس کتاب کی تیاری اور اشاعت میں دل اور جان لگا کر حد درجہ مثالی محنت کریں اور اسے ہر طرح سے عمدہ تیار کریں…یا اللہ ! اپنے بعض خوش نصیب بندوں کو اپنی مغفرت کی ایسی سخت لالچ عطاء فرما کہ…وہ اس کتاب کو خود بھی پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ تقسیم بھی کریں…یا اللہ! اس کتاب کے پڑھنے والے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنی مغفرت کی ایسی شدید لالچ عطاء فرما کہ…وہ صبح و شام،رات دن آپ سے استغفار کریں یعنی آپ سے معافی اور مغفرت مانگیں…خصوصاً سحری کے وقت استغفار کو اپنا پختہ معمول بنائیں…
دوسری دعائ:یا اللہ جن جن کا تذکرہ پہلی دعاء میں ہوا…ان سب کو مغفرت کی لالچ ،مغفرت کا حرص اور مغفرت کی شدید خواہش دینے کے بعد…ان کی اس لالچ،حرص اور خواہش کو پورا بھی فرما دے…اور ان سب کو اپنی کامل مغفرت عطاء فرما دے…ایک بزرگ کا واقعہ پڑھا تھا…وہ کتے کو روٹی کھلا رہے تھے…اور یہ امید رکھ رہے تھے کہ…میں نے اس کے حرص اور لالچ کو پورا کیا ہے…
اللہ تعالیٰ تو مجھ سے زیادہ کریم اور سخی ہے…میں اگرچہ کتے سے بھی بدتر ہوں…مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کیا بعید کہ…مجھے معاف فرما دے اور میری لالچ پوری فرما دے اور میری لالچ ایک ہی ہے کہ…اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے، مجھے اپنی مغفرت عطاء فرما دے…
سبحانک اللھم وبحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک ونتوب الیک
لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ!! ( قسط ۱)
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 491)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ’’مغفرت‘‘ مانگنے والا بنائے… اور ہم سب کو اپنے فضل سے ’’مغفرت‘‘ پانے والا بنائے…
حد درجہ پُرکشش
’’مغفرت‘‘ کا لفظ بہت پُرکشش ہے…یہ لفظ سنتے ہی دل مچلنے لگتا ہے،کبھی کبھار دھڑکنے لگتا ہے …’’مغفرت‘‘ کوئی معمولی چیز تو ہے نہیں … قرآن مجید دکھاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…حضرت نوح علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…اور دونوں جلیل القدر پیغمبر فرما رہے ہیں کہ…یا اللہ! اگر ہمیں ’’مغفرت‘‘ نہ ملی تو ہم تباہ ہو جائیں گے … اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام ’’ مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…اللہ تعالیٰ کے کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں …وہ دیکھیں قرآن مجید میں بہت عجیب منظر … فرعون اپنی مکمل فرعونیت کے ساتھ ایمان لانے والے جادوگروں کو دھمکا رہا ہے…میں تمہیں کھجور کے درختوں سے اُلٹا لٹکا دوں گا… میں تمہارے بازو اور ٹانگیں کاٹ دوں گا…میں تمہیں سولی اور پھانسی پر اُلٹا دوں گا…میں تمہیں سسکا سسکا کر سخت عذاب میں ماروں گا…
ایمان لانے والے جادوگروں نے کہا…کوئی فکر نہیں! تو یہ سب کچھ کر لے…ہماری لالچ بس اتنی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’مغفرت‘‘ مل جائے…’’ مغفرت ‘‘کی تلاش میں تیرے مظالم قبول ہیں… ’’ مغفرت‘‘ کی خاطر کٹ مرنا اور لٹک کر مرنا سب منظور ہے…وہ دیکھیں حضرت داؤد علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…حضرت سلیمان علیہ السلام ’’مغفرت‘‘ مانگ رہے ہیں…یہ سب معصوم انبیاء ہیں…کبیرہ گناہوں سے بھی پاک اور صغیرہ گناہوں سے بھی پاک…مگر وہ کس طرح تڑپ تڑپ کر مغفرت مانگتے ہیں…کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی کو جانتے ہیں…اتنا عظیم رب ،اتنا عظیم،اتنا عظیم…اور ہم اتنے چھوٹے تو پھر اتنے عظیم رب کا حق کیسے ادا کر سکتے ہیں؟…اس کی عظمت اور شان کے مطابق کہاں اس کی عبادت کر سکتے ہیں؟…یا اللہ معافی، یا اللہ مغفرت…قرآن مجید نے اعلان فرمایا کہ…اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو ’’کامل مغفرت‘‘ عطاء فرما دی ہے… سبحان اللہ! حضرت آقا مدنی ﷺ کی خوشی کی حد نہ رہی…فرمایا آج تو ایسی سورت نازل ہوئی جو مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے … اور پھر مغفرت کے شکرانے میں…عبادت بڑھا دی، ریاضت بڑھا دی اور محنت بڑھا دی…کیا ہم گناہگاروں اور بے کاروں کو بھی ’’مغفرت‘‘ ملے گی؟…یہ سوچ کر دل دھڑکنے لگتا ہے…کبھی خوف سے ڈوبنے لگتا ہے تو کبھی امید سے مچلنے لگتا ہے … مغفرت ، مغفرت ، مغفرت … اسی مغفرت کے مانگنے کو ’’استغفار ‘‘ کہتے ہیں … استغفار کا ترجمہ ہے مغفرت مانگنا،مغفرت چاہنا، مغفرت طلب کرنا…مغفرت کی لالچ میں یہ خواہش تھی کہ قرآن مجید کی مغفرت،توبہ اور استغفار والی آیاتِ مبارکہ کو جمع کیا جائے…قرآن مجید کی استغفار اور توبہ والی دعاؤں کو جمع کیا جائے … سالہا سال تک یہ خواہش دل میں رہی…وہاں پلتی اور بڑھتی رہی…مگر عمل میں نہ آ سکی…اس دوران توبہ اور استغفار کے موضوع پر چند مضامین کی توفیق ملی…الحمدللہ نتائج بہت اچھے نکلے…پھر ’’استغفار‘‘ کی ایک مہم چلی،اس پر ’’مکتوبات‘‘ کی توفیق ملی…ماشاء اللہ نتائج حیرت انگیز تھے… بڑی خوشی یہ ہوئی کہ…استغفار مہم نے ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کو بہت فائدہ پہنچایا…مجاہدین میں اپنے لئے اور دوسروں کے لئے’’استغفار‘‘ کا ذوق ایک جنون کی طرح ابھرا اور دور دور تک پھیل گیا …اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی تعریف فرماتا ہے …جو سحری کے وقت مغفرت مانگتے ہیں…یعنی استغفار کرتے ہیں
وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونْ
الحمد للہ یہ کیفیت بھی مضبوط ہوئی…فدائی مجاہدین نے درخواست کی کہ…استغفار مہم بار بار چلائی جائے…ایک دن میں تیس ہزار استغفار کا عمل بھی خوب رہا…اور روزانہ ایک ہزار بار ’’ استغفار‘‘ بے شمار افراد کا وظیفہ بنا…فدائی مجاہدین کے دل آئینے کی طرح ہوتے ہیں…اور استغفار کے مقام کو دل والے ہی سمجھتے ہیں…محبوب کو منانا ،محبوب سے معافی مانگنا…محبوب سے بار بار معافی اور توجہ کی عاجزانہ التجا کرنا…اپنے کسی عمل پر ناز نہ کرنا بلکہ معافی ہی مانگتے چلے جانا…یہ وہ عمل ہے جو دل کو مانجھ دیتا ہے…جو نفس کو پاک کر دیتا ہے …جو پردوں کو ہٹا کر حقائق کا چہرہ صاف کر دیتا ہے…یہ ساری صورتحال دیکھ کر شوق مزید بڑھا کہ…آیات استغفار کو جمع کیا جائے…
ایک بات سمجھیں
قرآن مجید کسی ایک موضوع کی آیات کو … اکٹھا جمع نہیں فرماتا…
توحید کی آیات ہوں یا نماز کی…جہاد کی آیات ہوں یا استغفار کی…
قصص والی آیات ہوں یا فکر آخرت کی…یہ پورے قرآن میں بکھری ہوئی ہیں…اور ایسا کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بڑا احسان فرمایا ہے…اگر قرآن مجید میں بھی مخلوق کی کتابوں کی طرح ہر موضوع کی آیات اکٹھی ہوتیں تو…ہم بہت سی خیروں اور بہت سے علم سے محروم ہو جاتے …انسان کے ذہن میں جب نئی بات آتی ہے تو پچھلی بات مدھم پڑ جاتی ہے…ہم پہلے توحید کی آیات پڑھتے جو ہمارے دماغ میں روشن ہو جاتیں …مگر جب وہ باب ختم ہوتا اور ہم نماز کی سینکڑوں آیات کو اکٹھا پڑھتے تو توحید کا سبق دماغ میں مدھم ہو جاتا…پھر جب جہاد کی سینکڑوں آیات شروع ہوتیں تو نماز کا سبق کمزور ہونے لگتا…اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا کہ قرآن مجید میں تمام ضروری باتوں کو…جگہ جگہ پر بکھیر دیا…اس سے ہر سبق ہر وقت تازہ رہتا ہے…اور انسان اکتائے بغیر اپنے دماغ کو روشن کرتا ہے…اور مختلف موضوع جب باہم جڑتے ہیں…اور ایک ایک آیت میں کئی کئی اسباق ملتے ہیں تو انسان کے ذہن کی قوت اور صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے…اب آپ قرآن مجید کا کوئی بھی صفحہ کھولیں…آپ کو صرف ایک موضوع نہیں ملتابلکہ ہر صفحہ پر انسانی ضرورت کی بہت سی ہدایات مل جاتی ہیں
والحمد للہ رب العالمین
یہ تو صرف ایک حکمت عرض کی گئی… جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں… انسان غورکرتا جائے تو حکمتوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں… اب دوسری بات سمجھیں… کیا یہ جائز ہے کہ کوئی شخص محنت کرکے قرآن مجید میں سے ایک موضوع کی آیات…ایک جگہ جمع کر لے؟…پھر خود بھی ان سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے…جی ہاں! یہ جائز ہے،اچھا ہے،بہت مفید ہے…اور بہت نافع ہے …قرآن مجید کے کسی بھی ایک حکم کی آیات جمع کریں…ان کو سمجھیں تو اس حکم کا پورا نظام دل و دماغ میں اتر جاتا ہے…اور پھر جب انسان قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو …اس میں اسے زیادہ لطف اور فائدہ محسوس ہوتا ہے…
خصوصاً آج کل کے زمانے میں…جبکہ افسوس ہے کہ اکثر مسلمانوں کو قرآن پاک کا ترجمہ نہیں آتا…یعنی ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان کے مالک و خالق نے ان کی ہدایت کے لئے جو دستور نازل فرمایا ہے وہ کیا ہے؟…ان حالات میں کسی ایک موضوع کی آیات کو جمع کر کے وہ موضوع مسلمانوں کو سمجھانا پھر دوسرے موضوع کی آیات جمع کر کے وہ موضوع سمجھانا ایک مفید اور نافع خدمت ہے…یہ قرآن مجید کو ’’کاٹنا ‘‘ نہیں بلکہ مسلمانوں کو قرآن مجید سے ’’جوڑنا‘‘ ہے…
روشنی چمکی
آیات توبہ و استغفار جمع کرنے کا شوق تھا مگر زندگی بے ہنگم…بے ساحل و بے کنارا…ہمت کمزور اور وقت کی قلت…اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ایک روشنی کی کرن نظر آئی …ہوا یہ کہ ایک مجاہد نے بہت متاثر کیا…اس کی قربانی،جانثاری اور شوق شہادت نے دل پر بہت اثر ڈالا…وہ اپنی بات اور اپنی تشکیل منوا کر چلا گیا…اور جاتے جاتے میرے لئے قرآن مجید کا ایک خوبصورت نسخہ ہدیہ بھیج گیا…ایسا ہدیہ تو ویسے ہی ’’متبرک ‘‘ہوتا ہے…اور پھر اتنی بڑی قربانی پیش کرنے والے ’’مرد مومن‘‘ کا ہدیہ…
بس میں نے ارادہ کر لیا کہ ان شاء اللہ اسی ’’نسخہ مبارکہ‘‘ پر آیات استغفار جمع کرتا ہوں … اس شہید نے ایسی کوئی وصیت یا فرمائش نہیں کی تھی …اس نے بس خاموشی سے قرآن مجید بھیج دیا … معلوم نہیں اس نے کیا دعاء مانگی ہو گی…لاڈلوں کے تو اپنے ناز ہوتے ہیں اور اپنے انداز…فدائی مجاہدین کا دل چونکہ روشن ہوتا ہے اس لئے وہ … ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں جن کو دوسرے مسلمان آسانی سے نہیں سمجھ سکتے …مثلاً کئی افراد بندہ سے عجیب وغریب فرمائشیں کرتے ہیں…کوئی لکھتا ہے کہ جب آپ کو میر اخط ملے تو فوراً کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کریں اور میرے لئے دعاء کریں …کوئی لکھتا ہے کہ آپ کو قسم ہے کہ آپ نے روز تہجد میں میرا نام لے کر میرے لئے یہ تین دعائیں مانگنی ہیں…کوئی اصرار کرتا ہے کہ…میری بیوی خرچہ زیادہ کرتی ہے آپ اس موضوع پر فوراً مکتوب جاری کریں…وغیرہ…حالانکہ ایسے افراد جن پر امت کے اجتماعی معاملات کی ذمہ داری ہو…ان سے ایسے مطالبات کرنا درست نہیں ہے…ایسے افراد کا وقت ضائع کرنا اجتماعی نقصان کرنا ہے…اور ایسے افراد کو راحت پہنچانا اجتماعی نیکی ہے…یہ پورا معاملہ قرآن مجید نے نہایت تفصیل سے سمجھایا ہے…مگر چونکہ اپنی بات چل پڑی ہے اس لئے فی الحال اس کو تفصیل سے عرض نہیں کیا جا سکتا…لوگوں کے مطالبات کی ایک جھلک تو آپ نے پڑھ لی مگر آج تک کسی فدائی مجاہد نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا…جو تکلیف دِہ یا وقت ضائع کرنے والا ہو…وہ ہمیشہ آسان، مفید،اجتماعی اور نفع مند فرمائشیں کر کے جاتے ہیں…اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے سے دل خوش ہوتا ہے…
یہ شہید بہت قربانی والا تھا…اس نے خط میں لکھا کہ میں نے آپ کو کئی بار دیکھا ہے…مگر آپ نے مجھے نہیں دیکھا… اور میں آپ سے ملاقات کی سخت خواہش کے باوجود آپ سے اس کا مطالبہ نہیںکرتا…اور اپنی اس خواہش کو بھی اللہ کے لئے قربان کرتا ہوں…بس مجھے اجازت چاہیے…وہ چلا گیا…قرآن مجید کا نسخہ دے گیا …اور اس کے چند دن بعد میں نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ بیٹھ کر…دو طرفہ تلاوت کے دوران آیات توبہ و استغفار پر نشانات لگا دئیے … ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کہ اس موضوع پر بھی سینکڑوں آیات مبارکہ موجود ہیں…عمومی تلاوت اور عمومی تفسیر کے دوران اس کا اندازہ اکثر نہیں ہو سکتا…آیات کی فہرست توقع سے بڑی تھی … اس لئے پھر ہمت جواب دے گئی…اور میں سفر و حضر میں قرآن مجید کا یہ نسخہ ساتھ لئے پھرتا رہا … باقی داستان ان شاء اللہ اگلے ہفتے…
مجموعہ مقبول استغفار
رنگ و نور کے گزشتہ دو کالموں میں…قرآن مجید کی بیان فرمودہ توبہ و استغفار والی دعائیں جمع کی گئیں تھیں…بعض اہل ذوق کی فرمائش تھی کہ ان دعاؤں کو ترجمہ اور تشریح کے بغیر اکٹھا چھاپ دیا جائے تاکہ …پڑھنے والوں کو آسانی ہو… چوبیس دعائیں تو وہی ہیں جو دو کالموں میں تھیں … جبکہ پچیسویں دعائ…حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کے وقت کی دعاء ہے…یہ دعاء مفصل ہے…عام طور پر اس کے پہلے اور آخری حصے کو ملا کر…ایک دعاء بنا دیا جاتا ہے…
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیمْ ( البقرۃ ۱۲۷) …وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمْ ( البقرۃ ۱۲۸)
اور درمیانی حصہ کو ہٹا دیا جاتا ہے…چنانچہ اسی طریقہ پر اس دعاء کو بھی مجموعہ میں شامل کر کے القلم کے اس شمارہ میں یہ تحفہ بھی قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے…
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیمْ… وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمْ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مقبول استغفار اور مائدۃ الصابر ( قسط ۲)
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 490)
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی خیر کا ہر کام ہوتا ہے…
وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیبْ
انسان جاہل ہے،بلکہ جہول ہے، اللہ تعالیٰ اسے جو علم سکھائیں ،بس وہی حقیقی علم ہے
سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیمْ
علم کے ساتھ اگر اس علم پر یقین…یعنی شرح صدر بھی نصیب ہو جائے تو ایسا علم ’’دعوت‘‘ بن کر صدقہ جاریہ ہو جاتا ہے…شرح صدر بھی اللہ تعالیٰ عطاء فرماتے ہیں اور دعوت کے لئے زبان و قلم بھی…
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ ، وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِیْ یَفْقَہُو قَوْلِی
بارش چلتی رہے تو دریا اور ندی ،نالے آباد رہتے ہیں…بارش رک جائے تو دریا بھی سوکھ جاتے ہیں…مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم ملتا رہے تو علم و دعوت کا گلشن آباد رہتا ہے، اور علم میں اضافہ اللہ تعالیٰ ہی عطاء فرماتے ہیں…
رَبِّ زِدْنِی عِلْمَا
مقبول دعوت وہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف امید بھی…اللہ تعالیٰ مغفرت والے بھی ہیں اور عذاب والے بھی …اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان مقبول بندوں نے بھی…لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی طرف بلایا…جن کی دعوت کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے
وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلٰی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارْ
مغفرت اور امید کی طرف دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ…اللہ تعالیٰ کے بندوں کو توبہ اور استغفار کی طرف بلایا جائے…ان گناہوں سے بھی جن کو معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے…اور ان گناہوں سے بھی جو بہت خطرناک ہیں مگر ان کو گناہ نہیں سمجھا جاتا…اور ان پر توبہ نہیں کی جاتی…
دعوت کا یہ ایک مکمل نصاب ہے …اسی نصاب کا ایک حصہ ’’قرآن مجید‘‘ کی وہ دعائیں ہیں …جن میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی گئی ہے … استغفار کی یہ دعائیں…اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں؎…اسی لئے قرآن مجید کا حصہ ہیں…اور جنہوں نے ان دعاؤں کو پڑھا ان کو ماضی میں مغفرت اور کامیابی ملی…ان دعاؤں کی یہ تاثیر اب بھی برقرار ہے…الحمد للہ گذشتہ کالم میں پانچ دعائیں آ گئیں…آج اللہ تعالیٰ کی توفیق سے باقی دعائیں بیان کرنی ہیں…
(۶) حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استغفار
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف:۲۳)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔
یہ وہ استغفار ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود حضرت آدم علیہ السلام کو تلقین فرمایا…یہ وہ استغفار ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی …یہ انسان کا پہلا استغفار اور روئے زمین کا ابتدائی استغفار ہے…بہت جامع، بہت مؤثر، بہت پُرکیف اور مقبول استغفار…
(۷) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تسبیح اور توبہ
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ(الاعراف:۱۴۳)
یا اللہ ! آپ کی ذات پاک ہے، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شوق و محبت سے بے تاب ہو کر درخواست کی…یا اللہ اپنی زیارت کرا دیجئے…فرمایا! وہ (یہاں دنیا میں) ہرگز نہیں ہو سکتی…سامنے والے پہاڑ پر نظر رکھیں ہم اس پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں…اگر وہ سہہ گیا تو آپ بھی زیارت کر لینا…پہاڑ پر تجلی آئی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے …جب ہوش آیا تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی تسبیح تھی…اور اس بات پر توبہ کہ ایسی درخواست کیوں پیش کی…حضرات انبیاء علیہم السلام ہر طرح کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں…ان کا استغفار اور ان کی توبہ اُن کے بلند مقام کے لحاظ سے ہوتی ہے…کوئی بات یا کام اس مقام سے تھوڑا سا ہٹا تو فوراً استغفار اور توبہ میں لگ گئے…ہم جب ان الفاظ میں استغفار کریں تو ’’اول المومنین ‘‘ کی جگہ ’’من المومنین‘‘ کہہ لیا کریں…
سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا مِنَ الْمُؤْمِنِینْ
ویسے ’’اول‘‘ کا ایک معنی آگے بڑھ کر ایمان لانا ہے… جیسا کہ فرعون کے جادوگروں نے ایمان قبول کرتے وقت کہا تھا…اَنْ کُنَّا اَوَّلَ الْمُوْمِنِینْ
(۸) شدید ندامت والا استغفار
لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف: ۱۴۹)
ترجمہ: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں نہ بخشا تو بے شک ہم تباہ ہو جائیں گے…
حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام تورات لینے گئے …پیچھے قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اپنے ایمان کا جنازہ نکال دیا…جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس تشریف لائے اور قوم کو سمجھایا اور انہیں اس نقصان کا اندازہ دلایا جو وہ کر بیٹھے تھے…تب ان کی آنکھیں کھلیں ،باطل کا جوش ٹھنڈا پڑا…اور آگے ہمیشہ ہمیشہ کی آگ نظر آئی…اور یہ کہ کفر و شرک کر کے اپنی پوری زندگی کے عمل برباد کر ڈالے تب تو ان کے جسموں اور ہاتھوں تک کی جان نکلنے لگی…انتہائی شرمندگی،ندامت،بے قراری اور گہرے پانی میں ڈوبنتے انسان کی طرح چلائے…
لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْلَناَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
یہ اگرچہ دعاء کے الفاظ نہیں …مگر اظہار ندامت اور طلب مغفرت میں دعاء جیسے ہیں … تب رحمت الٰہی متوجہ ہوئی اور توبہ کا حکم نامہ اور طریقہ عطاء فرما دیا گیا…
(۹) صلہ رحمی والا استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (الاعراف:۱۵۱)
ترجمہ:اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما دیجئے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرمائیے اور آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں…
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے پیچھے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ گئے تھے…واپس آ کر قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا تو آپ پر شدید دکھ ، رنج اور غم و غصہ طاری ہو گیا…اسی دینی غصہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی پکڑ لیا اور جھنجھوڑا کہ …آپ نے جانشینی کا حق ادا نہیں کیا… حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنا عذر بیان فرمایا کہ میں نے قوم کو بہت سمجھایا…مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی الٹا مجھے قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے…اب آپ مجھ پر سختی کر کے قوم والوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں… اپنے بھائی کا عذر سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام … ان سے مطمئن ہوئے اور فوراً اپنے لئے اور ان کے لئے استغفار کرنے لگے…اس میں دو باتیں تھیں … ایک یہ کہ دعاء کرنے سے یہ اشارہ دیا کہ میں آپ سے مطمئن ہوں…اور دوسری یہ کہ سخت رویے کی وجہ سے بھائی کو جو تکلیف پہنچی اس کا بھی ازالہ ہو جائے … کسی کے لئے استغفار کرنا یعنی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت مانگنا…بہت بڑا تحفہ، ہدیہ اور احسان ہے …پھر اس میں یہ بھی اشارہ ملا کہ اپنے کسی بھی قریبی عزیز سے کوئی رنجش ہو جائے تو صلح کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے … قرآن مجید کے الفاظ موجود ہیں … بھائی سے رنجش اور صلح ہو تو یہی الفاظ اور اگر کوئی اور ہو تو ’’اخی‘‘ کی جگہ اس کا نام …مثلاً بیوی سے رنجش پھر صلح ہوئی تو
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِزَوجَتِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن
والدین سے تو رنجش ہونی ہی نہیں چاہیے … ان کے لئے بھی انہی الفاظ میں استغفار کر سکتے ہیں
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَبِیْ…رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاُمِّیْ…’’یا‘‘… رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْن
(۱۰) اجتماعی مصیبت اور قومی مشکل کے وقت کا استغفار
اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(الاعراف:۱۵۵)
ترجمہ: یا اللہ! تو ہی ہمارا تھامنے والا ہے، پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ستر نمائندہ افراد کو اپنے ساتھ ’’طور ‘‘ پر لے گئے … وہاں ان سب نے اللہ تعالیٰ سے کلام سنا مگر یقین کرنے کی بجائے اَڑ گئے کہ…جب تک ہم خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں ہم یقین نہیں کر سکتے…اس پر سخت زلزلہ آیا،بجلی کڑکی اور وہ سب کانپ کر مر گئے…حضرت موسی علیہ السلام بہت پریشان ہوئے کہ واپس جا کر قوم کو کیا بتائیں گے؟ وہ تو یہ سمجھیں گے کہ ان کے نمائندوں کو میں نے مار دیا تب خوب عاجزی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے دعاء مانگی،استغفار کیا تو وہ سب دوبارہ زندہ کر دئیے گئے…معلوم ہوا کہ اجتماعی مشکلات اور قومی مصیبتوں کا حل بھی ’’ توجہ الی اللہ‘‘ اور ’’استغفار‘‘ ہے…دعاء کے شروع میں اَللّٰھُمَّ لگا لیں…
(اَللّٰہُمَّ) اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْن
(۱۱) ربّ غفور کے سہارے
بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا، اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(ہود:۴۱)
ترجمہ: اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا، بے شک میرا رب ہی بخشنے والا مہربان ہے
جب طوفان آ گیا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے ایمان والے ساتھیوں سے فرمایا! اللہ کے نام سے کشتی پر سوار ہو جاؤ، کچھ غم ،فکر اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کشتی کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے … اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے لئے ’’غفور‘‘ یعنی بخشنے والا اور ’’رحیم‘‘ یعنی مہربان ہے…اللہ تعالیٰ کی شانِ مغفرت اور شانِ رحمت ہی ایمان والوں کو ہر طوفان ،ہر مصیبت اور ہر آزمائش سے پار لگاتی ہے …کشتی یا کسی بھی سواری پر…سوار ہوتے وقت یہ والہانہ دعاء پڑھ لینی چاہیے…
(۱۲) حضرت نوح علیہ السلام کا مؤثر استغفار
رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ، وَاِلَّاتَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(ہود:۴۷)
ترجمہ: اے میرے رب! میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے سوال کر وں اس چیز کا جس کا مجھے علم نہیں…اور اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں تباہ ہو جاؤں گا…
طوفان میں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا غرق ہو رہا تھا…حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی…اے میرے رب! میرا بیٹا بھی میرے ’’ اہل ‘‘ میں سے ہے…جن کو بچانے کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے… حکم آیا کہ …اے نوح! وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے…اس کے اعمال خراب ہیں آپ کو اس کے بارے ہم سے سوال نہیں کرنا چاہیے…اس تنبیہ پر حضرت نوح علیہ السلام کانپ اُٹھے اور فوراً توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے…اگر کسی مسلمان سے دعاء میں کوئی غلطی، بے ادبی…یا تجاوز ہو جائے…تو ان الفاظ میں استغفار ان شاء اللہ مفید رہے گا…
(۱۳) کسی کو معاف کرتے وقت کا استغفار
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(یوسف:۹۲)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنی غلطی تسلیم کی،ندامت کا سچا اظہار کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے معافی چاہی…حضرت یوسف علیہ السلام نے معافی دیتے وقت ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے استغفار فرمایا…پس کسی کو معاف کرتے وقت اس کے لئے استغفار کرنا خوبصورت سنت یوسفی ہے…
یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِینْ
(۱۴) اللہ تعالیٰ پر توکل… اور اللہ تعالیٰ ہی سے توبہ
ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ (الرعد:۳۰)
ترجمہ: وہی ( اللہ تعالیٰ) میرا رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں،اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے…
حکم دیا گیا کہ…آپ کہہ دیجئے…
ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابْ
(۱۵) اپنے لئے، والدین کیلئے اور سب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(ابراہیم:۴۱)
اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور ایمان والوں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے…
یہ دعاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگی …یہ بہت جامع اور نافع استغفار ہے…
(۱۶) اسم اعظم والا استغفار
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن(الانبیائ:۸۷)
ترجمہ: آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ بے عیب ہیں بے شک میں گناہگاروں میں سے تھا…
یہ حضرت یونس علیہ السلام کی تسبیح ہے…اس میں تہلیل بھی ہے یعنی لا الہ الا انت اور تسبیح بھی ہے ’’سبحانک ‘‘ اور استغفار بھی ہے…اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِین…
اس استغفار کے بہت فضائل احادیث و روایات میں آئے ہیں… یہ ہر غم ،مصیبت، مشکل اور پریشانی کا حل ہے…امت مسلمہ نے ہمیشہ اس تسبیح و استغفار سے بڑے بڑے منافع حاصل کئے ہیں…بندہ نے استغفار کے موضوع پر اپنی زیر طبع کتاب میں اس ’’آیت کریمہ‘‘ کے فضائل و خواص پر کئی روایات جمع کر دی ہیں…
(۱۷) مقبولین کا استغفار
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْن (المؤمنون:۱۰۹)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے،تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو بہت بڑا رحم فرمانے والا ہے…
دنیا میں کافر اور منافق خود کو عقلمند سمجھتے ہیں … اور ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ (نعوذ باللہ ) بیوقوف لوگ ہیں…ان کو دنیا کی سمجھ ہی نہیں …قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کے سامنے ان ایمان والوں کی کامیابی کا اعلان فرمائیں گے…اور ساتھ ان کے اِس استغفار کا بھی تذکرہ فرمائیں گے…کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ کہتے تھے
رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَناَ وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ
تو تم کفار ان کا مذاق اڑاتے تھے…
آج دیکھنا کہ میں ان کو کیسی کامیابی، بدلہ اور مقام دیتا ہوں…
(۱۸) مغفرت اور رحمت مانگو
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ (المؤمنون:۱۱۸)
ترجمہ: اے میرے رب معاف فرما اور رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے…یہ بہت مؤثر اور میٹھا استغفار ہے…اور قرآن مجید میں حکم فرمایا گیا ہے کہ
کہو! رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِینْ
وہ جو کچھ دینا چاہتے ہیں اسی کو مانگنے کا حکم فرماتے ہیں…مغفرت اور رحمت مل جائے تو اور کیا چاہیے…
(۱۹) مقرب فرشتوں کا تائب ایمان والوں کے لئے استغفار
رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ ، رَبَّنَا وَاَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ، وَقِھِمُ السَّیِّاٰتْ ۔ وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہ۔ وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(المؤمن:۷تا۹)
ترجمہ! اے ہمارے رب! تیری رحمت اور تیرا علم سب پر حاوی ہے پس جن لوگوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے پر چلتے ہیں انہیں بخش دے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے…
اے ہمارے رب! انہیں ہمیشہ کی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو جو ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میںسے نیک ہیں۔ بے شک تو غالب حکمت والا ہے اور انہیں برائیوں سے بچا اور جس کو تو اس دن برائیوں سے بچائے گا پس اس پر تو نے رحم کر دیا اور یہ بڑی کامیابی ہے…
یہ بڑی اہم دعاء ہے مکمل تفصیل تو یہاں ممکن نہیں چند اشارات لے لیں…
(۱) یہ دعاء عرش اٹھانے والے اور عرش کے گرد طواف کرنے والے مقرب فرشتوں کا وظیفہ ہے…اندازہ لگائیں کیسی برکتوں والی دعاء ہو گی…
(۲) اس دعاء میں اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں کے لئے استغفار ہے… ہم جب ایسے بندوں کے لئے دعاء اور استغفار کریں گے تو اس سے خود ہمیں بہت نفع ملے گا…
(۳) جب ہم یہ دعاء اللہ تعالیٰ کے تائب بندوں اور ان کے متعلقین کے لئے کریں گے تو حدیث شریف کے وعدے کے مطابق فرشتے یہی دعاء ہمارے لئے کریں گے…
(۲۰) مقبول اور سعادتمند بندوں کا استغفار
رَبِّ اَوْ زِعْنِی اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ۔ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الاحقاف : ۱۵)
ترجمہ: اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں… جسے تو پسند کرے اور میرے لئے میری اولاد میں اصلاح کر بے شک میں تیری طرف توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں…
یہ سعادتمند اور مقبول انسان بننے کا ایک قرآنی نصاب ہے…
(۱) اللہ تعالیٰ سے شکر کی توفیق مانگنا…ان نعمتوں پر جو اپنے اوپر اور اپنے والدین پر ہوں…
(۲) اللہ تعالیٰ سے نیک اور مقبول اعمال کی توفیق مانگنا
(۳) اپنی اولاد کی اصلاح اور نیکی کی دعاء مانگنا
(۴) اللہ تعالیٰ سے توبہ،استغفار کرنا…
(۵) اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اقرار کرنا…
اگلی آیت میں ان افراد کا جو یہ پانچ کام کرتے ہیں،بدلہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرماتے ہیں …ان کے گناہ معاف فرماتے ہیں …اور انہیں اہل جنت میں شامل فرماتے ہیں…
بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی …پس یہ بہت قیمتی دعاء ہے…توجہ اور یقین سے مانگنی چاہیے…
(۲۱) بڑے مقام والا استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(الحشر:۱۰)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کینہ قائم نہ ہونے پائے… اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان،نہایت رحم والا ہے…
یہ بہت نافع،مؤثر اور جامع استغفار ہے… قرآن مجید میں سمجھایا گیا کہ بعد والے مسلمان جو دل کے یقین کے ساتھ یہ دعاء مانگتے ہیں…وہ انعام میں اپنے سے پہلے والوں کے ساتھ ملحق کر دئیے جاتے ہیں…اس دعاء میں اپنے اسلاف کے لئے بھی استغفار ہے…جو بڑا فضیلت والا عمل ہے… وہ افراد جن کے دل میں مسلمانوں کے لئے بغض اور کینہ زیادہ پیدا ہوتا ہو وہ اس دعاء کا بہت اہتمام کریں …بے حد نافع ہے…
(۲۲) دشمنوں سے حفاظت والا استغفار
رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ، رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الممتحنۃ:۴۔۵)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم رجوع ہوئے اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے اے ہمارے رب ہمیں کفار ( کے ظلم و ستم ) کا تختہ مشق نہ بنا اور اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے…
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ایمان والے رفقاء نے استغفار پر مشتمل یہ دعاء مانگی … اور کافر حکمرانوں اور کفر کی طاقت سے کھلم کھلا براء ت کا اِعلان فرمایا…
(۲۳) اہل ایمان کا آخرت میں استغفار
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ(التحریم:۸)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارا نور پورا فرما اور ہمیں بخش دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
اہل ایمان یہ دعا آخرت میں مانگیں گے… دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے نور اور مغفرت مانگتے رہنا چاہیے…
(۲۴) حضرت نوح علیہ السلام کا جامع استغفار
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتْ (نوح:۲۸)
ترجمہ: اے میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور جو ایمان والا میرے گھر میں داخل ہو جائے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو (بخش دے)
الحمد للہ
الحمد للہ! قرآن مجید کے بیان فرمودہ چوبیس استغفار آ گئے… حضرت سلیمان علیہ السلام کا استغفار اور ملکہ بلقیس کا استغفار شامل نہیں کیا گیا …کیونکہ وہ ایسی دعاؤں پر مشتمل ہے جو کسی اور کو مانگنے کی اجازت نہیں…اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ اور سچا استغفار اور اپنی مغفرت نصیب فرمائے
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ نَشْھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مقبول استغفار اور مائدۃ الصابر ( قسط اول)
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 489)
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے…الحمد للّٰہ رب العٰلمین…اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں…انسان کے نفس پر پریشانیوں اور وساوس کا حملہ ہو جاتا ہے …اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت نہیں ہے…میں دنیا کا سب سے مظلوم ،سب سے بد حال اور سب سے زیادہ غمزدہ انسان ہوں …یہ بڑا خطرناک وقت ہوتا ہے…اکثر لوگ بڑی بڑی غلطیاں ایسے ہی لمحات میں کر بیٹھتے ہیں …اور پھر ساری زندگی پچھتاتے ہیں…ان کو یہاں تک یاد نہیں رہتا کہ ان کے پاس ’’کلمہ طیبہ‘‘ جیسی قیمتی نعمت ہے…وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جو سانس لے رہے ہیں وہ کتنی بڑی نعمت ہے…ان کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ ان کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی غذا ہے…ان کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے دل و دماغ میں قرآن مجید کی کتنی آیات ہیں…وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے کتنے پردے ہیں…ایسے پردے کہ اگر وہ اتار لئے جائیں تو ان کا سارا غم و غصہ شرمندگی میں بہہ جائے…
وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس وقت وہ جس غم و پریشانی کو محسوس کر رہے ہیں…یہ بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بعض قوتوں کے بل بوتے پر ہے…ورنہ ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ…انسان بے بسی کے جال میں پھنس جاتا ہے … تب وہ مار کھاتا ہے مگر غصہ نہیں کر سکتا …تب وہ ایسا تشدد دیکھتا ہے کہ جسم میں کچھ محسوس کرنے کی سکت تک نہیں رہتی…اس لئے جب بھی نفس پر پریشانیوں اور وساوس کا شدید حملہ ہو …اس وقت کوئی فیصلہ نہ کریں…اس وقت صرف اور صرف استغفار میں لگ جائیں…اپنے گناہ یاد کریں،ان پر روئیں…ان کی معافی اللہ تعالیٰ سے مانگیں…اور اپنے دل کو سمجھائیں کہ …اس وقت جو کچھ مجھ پر بیت رہی ہے وہ حقیقی باتیں نہیں…محض شیطان کا حملہ ہے…اور شیطان ذکر اور استغفار سے بھاگتا ہے…فیصلے کرنے ، دوسروں کو الزام دینے… اور زیادہ سوچنے سے نہیں…
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْن
مائدۃ الصّابر
الحمد للہ رنگ و نور کے عاجزانہ مضامین سے اب تک آٹھ کتابیں بن چکی ہیں…سات جلدیں رنگ و نور کے نام سے اور آٹھویں کتاب ’’مقامات‘‘ کے نام سے…آج کے کالم پر الحمد للہ نویں کتاب بھی ان شاء اللہ مکمل ہو جائے گی…اس کتاب کا نام ’’مائدۃ الصّابر‘‘ تجویزکیا ہے…بندہ نے اس کتاب کا ثواب ’’حضرت صابرؒ ‘‘ کے لئے ہدیہ کیا ہے…اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اسے حضرت ابا جی محترم اللہ بخش صابر نور اللہ مرقدہ کے لئے ’’صدقہ جاریہ‘‘ بنائے…
حضرت ابا جی ؒ کے بندہ پر اور جماعت پر بہت احسانات ہیں…ان کے جانے سے ہم نے جوکچھ کھویا ہے وہ واپس ہاتھ نہیں آیا…اللہ تعالیٰ اس کتاب کی عاجزانہ خدمت اور محنت کا مکمل ثواب حضرت ابا جیؒ کو عطا فرمائے…اور انہیں اپنی مغفرت اور اپنے فضل سے مقامِ صدیقین نصیب فرمائے…اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ’’مائدۃ الصّابر‘‘ سے ان شاء اللہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا …یہ کتاب کافی اہم مضامین پر مشتمل ہے اور ان پر رنگ و نور کے باقی تمام مضامین سے زیادہ محنت ہوئی ہے
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّااِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ۔وَتُبْ عَلَیْنَااِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
مقبول استغفار
’’مائدۃ الصّابر‘‘ کا آخری مضمون استغفار کی ان دعاؤں پر مشتمل ہے جو قرآن مجید نے بیان فرمائی ہیں…اور امت کو سکھائی ہیں…قرآن مجید…اللہ تعالیٰ کا کلام ہے…قرآن مجید حضرات انبیاء علیہم السلام کا استغفار سناتا ہے کہ … فلاں نبی نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی…فرشتے اس طرح سے ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں…ماضی کے مقبول مجاہدین نے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا …اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں…آج کے کالم میں ان شاء اللہ قرآن مجید کے تیس پاروں میں موجود استغفار کی تمام دعاؤں کو جمع کرنے کا ارادہ ہے … تاکہ ایک ہی مجلس میں یہ نعمت ہم سب کے سامنے آ جائے اور ہم سب کو نصیب ہو جائے…استغفار خود ہی بہت مقبول عبادت اور افضل ترین دعاء ہے …پھر اگر یہ دعاء اور عبادت…قرآن مجید کے محکم اور مبارک الفاظ میں ہو تو…وہ قبولیت کے بہت زیادہ قریب ہو جاتی ہے…ان تمام دعاؤں کو سمجھ لیں،یاد کر لیں اور اپنے پاس لکھ لیں…پھر تہجد کے وقت،جمعہ کی رات…جمعہ کے دن عصر کے بعد…اور عموماً فرض نمازوں کے بعد ان دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا کریں …یعنی مغفرت اور معافی مانگا کریں…امید ہے کہ ان شاء اللہ بہت کچھ ہاتھ آ جائے گا…
اہم نکتہ
قرآن مجید کے پر نور، پرکیف، پرسکون سمندر میں سے،استغفار کے موتی چننے سے پہلے چند باتیں دل میں بٹھا لیں…
(۱) استغفار کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگنا…چنانچہ حقیقی استغفار وہی مسلمان کرتا ہے جو خود کو گناہگار اور مغفرت کا محتاج سمجھتا ہے…
(۲) معافی مانگنے، مغفرت طلب کرنے … اور خود کو گناہگار سمجھنے کی کیفیت ہرکسی کو نصیب نہیںہوتی…جو لوگ شیطان اور نفس کی غلامی میں آ جاتے ہیں ان کو نہ اپنے گناہوں پر ندامت ہوتی ہے اور نہ وہ اپنے گناہوں کو گناہ سمجھتے ہیں…اس لئے استغفار کا نصیب ہونا بڑی نعمت ہے…
(۳) استغفار،بندے کو اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے…اور یہ امید کا وہ دروازہ ہے جو کسی بندے کو اللہ تعالیٰ سے ٹوٹنے نہیں دیتا…اسی لئے قرآن مجید نے ’’استغفار‘‘ کی دعوت دی…حضرات انبیاء علیہم السلام نے ’’استغفار‘‘ کی دعوت دی … ہم مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ دوسرے مسلمانوں کو ’’استغفار‘‘ کی دعوت دیا کریں…
(۴) استغفار کرنے والا مسلمان چند باتوں کا دل سے اعتراف کرتا ہے…پہلی بات یہ کہ میرا ایک رب ہے جسے میں نے منانا ہے…دوسری بات یہ کہ گناہ کی معافی صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مل سکتی ہے،کسی اور سے نہیں…تیسری بات یہ کہ میں گناہگار ہوں مگر اپنے گناہ پر خوش نہیں ہوں اور اس گناہ کے وبال سے خلاصی چاہتا ہوں…اندازہ لگائیں یہ تینوں باتیں کس قدر اہم اور وزنی ہیں … اسی لئے ایک بار ’’استغفر اللّٰہ‘‘ کہنا بہت بڑی عبادت اور دعاء ہے کہ اس میں…ایک ساتھ ایمان والی اتنی باتوں کا اقرار آ جاتا ہے…
اَسْتَغْفِرُا للّٰہَ الْعَظِیْمَ الَّذِی لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوبُ اِلَیْہ
آئیے اب ’’بسم اللہ‘‘ پڑھ کر قرآن مجید کی استغفار والی دعائیں ایک ایک کر کے سمجھتے اور پڑھتے ہیں…
(۱) وفاداری کا اعلان اور استغفار
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیرْ ( البقرۃ ۲۸۵)
ترجمہ: ہم نے ( اللہ تعالیٰ کے حکم کو قبول کرنے کی نیت سے ) سنا…اور ہم نے مان لیا…اے ہمارے رب ہم تیری بخشش ( مغفرت) چاہتے ہیں اور ( ہم نے ) تیری طرف لوٹ کر جانا ہے…
اس دعاء میں اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام احکامات سے وفاداری کا اقرار بھی آ گیا اور استغفار یعنی مغفرت کا سوال بھی آ گیا…وہ افراد جن کا دل گمراہی کی طرف بار بار بھٹکتا ہو ان کو اس دعاء کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے…
(۲) معافی،مغفرت، نصرت، رحمت، آسانی کے سوال پر مشتمل جامع استغفار
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِن نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَاتُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ( البقرۃ ۲۸۶)
ترجمہ: اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں نہ پکڑ، اے ہمارے رب! ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے والوں پر رکھا تھا،اے ہمارے رب! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف فرما دے،اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا کارساز ہے،کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد فرما…
استغفار پر مشتمل یہ قرآنی دعا ایک ’’نور ‘‘ ہے …جو انسان کسی بھی دشمنی یاحالت سے مغلوب ہو …وہ اسے زیادہ مانگے…کئی افراد جن کی شہوت بے قابو تھی انہوں نے اس استغفار کو اپنایا تو برائی ، بے تابی اور بے چینی سے نجات پائی…الغرض کوئی بھی برا دشمن،بری عادت یا بری حالت انسان کودبا رہی ہو تو یہ مبارک دعا یقین اور توجہ سے پڑھے … تو ان شاء اللہ اس دعاء کا نور مددگار بن کر پہنچ جائے گا…اس دعاء کے لئے ’’نور‘‘ کا لفظ حدیث پاک میں آیا ہے…
(۳) ہمیشہ کی نعمتوں کے مستحق بندوں کا استغفار
رَبَّنَا اِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ( آل عمران ۱۶)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم ایمان لاتے ہیں پس ہمارے لئے ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔
فرمایا کہ لوگ عموماً دنیا کی چیزوں پر فریفتہ ہوتے ہیں…دنیا کی چیزیں مثلاً عورتیں،بیٹے ، سونا چاندی کے ڈھیر، قیمتی گھوڑے،مویشی، کھیت وغیرہ… حالانکہ یہ وقتی فائدے کی چیزیں ہیں ہمیشہ کی کامیابی نہیں…جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لئے جو کچھ آخرت میں تیار فرمایا ہے وہ بہت بہتر ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کی رضا، جنت،حوریں وغیرہ… یہ دائمی نعمتیں جن بندوں کو ملیں گی ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہیں،اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور جہنم سے پناہ مانگتے ہیں…وہ کہتے ہیں
رَبَّنَا اِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
(۴)جہاد میں آزمائشیں اور مشکل حالات کے وقت کا مؤثر استغفار
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ( آل عمران ۱۴۷)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور جو ہمارے کام میں ہم سے زیادتی ہوئی ہے ( وہ بھی بخش دے) اور ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلے میں ہمیں مدد عطاء فرما…
قرآن مجید نے بتایا کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اور ان کے اللہ والے رفقاء نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کیا…اس جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے دوران جب ان پر کوئی تکلیف،آزمائش یا ظاہری شکست آئی تو وہ نہ گھبرائے،نہ انہوں نے ہمت ہاری اور نہ دشمن کے سامنے د بے…بلکہ فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر استغفار کرنے لگے
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
جب انہوں نے یہ طرز اپنایا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت کا بہترین اجر عطاء فرمایا … استغفار کی یہ دعاء بہت مقبول اور نافع ہے اور ہر زمانہ میں مجاہدین اور دین کی خاطر آزمائش اٹھانے والوں نے اسے اپنا کر اللہ تعالیٰ کی مغفرت، رحمت اور نصرت حاصل کی ہے…
( ۵) عقل والوں کا استغفار
رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ( آل عمران ۱۹۳)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے۔
قرآن مجید کی ان آیات میں ’’اولوالالباب ‘‘ کا تذکرہ ہے…عقل مند،عقل والے،روشن فکر، روشن خیال ، سمجھدار،دانشور اور ذہین لوگ کون ہیں؟ … قرآن مجید نے ان کی علامات بیان فرمائی ہیں …سورۃ آل عمران کے آخر میں ملاحظہ فرما لیں …ان عقل والوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں … اپنی برائیوں کے وبال سے بچنا چاہتے ہیں … اور ان کی بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ…ان کو ’’ حسن خاتمہ‘‘ یعنی ایمان پر موت نصیب ہو جائے …اس لئے وہ دعاء مانگتے ہیں
رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ
معذرت
ارادہ یہی تھا کہ آج کی مجلس میں قرآن مجید کی تمام استغفار والی دعائیں اکٹھی آ جائیں…مگر کالم کی جگہ پوری ہو گئی اور ابھی تک صرف پانچ دعائیں آئی ہیں…جبکہ بندہ نے جو دعائیں شمار کر رکھی ہیں وہ چوبیس کے لگ بھگ ہیں…اس لئے آپ سب سے معذرت…آج کے کالم کو پہلی قسط بنا کر باقی دعائیں آئندہ قسط میں ان شاء اللہ
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
اللہ، اللہ ربی لا اشرک بہ شیئاً
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 488)
اللہ، اللہ…اللہ تعالیٰ میرا رب ہے…میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
دو باتیں
آج کی مختصر سی مجلس میں بس دو باتیں ہیں
پہلی یہ کہ ایک بہت قیمتی اور طاقتور دعاء یاد کر لیں…یہ دعاء رسول نبی کریم ﷺ نے خاص طور پر اپنے گھر والوں کو سکھائی…اور پھر ساری امت کو سکھائی…
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
اللہ اللہ میرا رب ہے…میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا
دوسری بات یہ کہ…بہت اہم نکتہ دل میں بٹھا لیں کہ…جب ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ہر طاقت کا انکار کر دیں گے تو…ساری طاقتیں خودبخود ’’ بے طاقت‘‘ ہو جائیں گی…حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا… میں اللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں…نمرود کو نہیں…بس جیسے ہی دل کی گہرائی سے نمرود کی طاقت کا انکار فرمایا … نمرود، اس کی حکومت اور اس کی آگ… سب بے طاقت ہو گئیں…ارے! ہر کسی کو مانو تو ہر کوئی نقصان پہنچاتا ہے…اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ مانو تو کوئی بھی کچھ نہیںبگاڑ سکتا …
اللہ کا بندہ
آپ نے اپنے اردگرد یہ جملہ بہت سنا ہو گا کہ …فلاں آدمی کی بہت چلتی ہے…وہ وزیر اعظم کا بندہ ہے…فلاں آدمی کو پولیس کچھ نہیں کہتی وہ کور کمانڈر کا بندہ ہے…فلاں شخص سے تو انتظامیہ بھی ڈرتی ہے وہ گورنر کا بندہ ہے…بہت پہلے کی بات ہے کہ حج ویزہ کے سلسلہ میں ایک سرکاری دفتر جانا ہوا تھا…وہاں موجود وزیر صاحب نے ایک شخص کو ملاقات کے لئے جلد بلا لیا…وجہ یہ تھی کہ وہ کسی جنرل کا بندہ تھا…اندازہ لگائیں…کسی طاقتور کا بندہ ہونا کتنے کام کی چیز ہے…
اب جو شخص اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو…بلکہ صحیح معنی میں وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ بن جائے تو اس کی طاقت کتنی ہو گی؟…وزیر اعظم کے بندے کو وزیر اعظم سے چھوٹے عہدیدار کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے … جو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوگا اسے اللہ تعالیٰ سے چھوٹے افراد کس طرح کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں؟…اور اللہ تعالیٰ سے تو سب چھوٹے ہیں…وزیراعظم سے بڑے بہت سے ہو سکتے ہیں…مگر اللہ تعالیٰ سے بڑا کوئی بھی نہیں…اللہ اکبر، اللہ اکبر…اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے…
اس لئے دعاء کا پہلا حصہ ہی یہی ہے…’’ اللہ اللہ ربی‘‘…اللہ تعالیٰ میرا رب ہے…اور میں اس کا بندہ ہوں…سبحان اللہ…اللہ کا بندہ …اللہ کا بندہ… اللہ کا بندہ
جب کوئی شدت، پریشانی ،مصیبت آئے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ…رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اذا اصاب احدکم ھمّ اولاواء فلیقل:
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
جب تم میں سے کسی کو کوئی پریشانی یا سختی پیش آئے تو وہ کہے:
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
’’ ھَمّ‘‘ کہتے ہیں فکرمندی، پریشانی … الجھن،بے چینی…یا آج کل کے الفاظ میں تفکرات اور ٹینشن
’’لَاْوَاء ‘‘ کا معنی ہے…شدت، سختی، مصیبت… رزق یا زندگی کی تنگی…ان دو تکلیفوں کا علاج یہ فرمایا کہ…اعلان کر دو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں…اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں مانتا … دراصل ہمارے اندر توحید کی کمی آتی ہے تو ساتھ خوف،غم،پریشانیاں اور مصیبتیں لاتی ہے…دل میں توحید موجود ہو تو دل اپنے مرکز کے ساتھ جڑا رہتا ہے…اور اس میں کسی کا خوف نہیں آتا … مثال لے لیجئے…جو لوگ امریکہ سے ڈرتے ہیں …وہ دن رات امریکہ کی غلامی اور ذلت کا خوف اٹھاتے ہیں…اور جو نہیں ڈرتے ان کے لئے گویا امریکہ موجود ہی نہیں ہے…آپ کبھی محاذ جنگ پر جا کر وہاں موجود مجاہدین کی خوشی، بے فکری اور اطمینان دیکھ لیں تو حیران رہ جائیں گے…اس سے بھی زیادہ عام سی مثال لے لیں…جو لوگ جنات کو حد سے زیادہ مانتے ہیں…ان سے ڈرتے ہیں،ان کو طاقتور سمجھتے ہیں…وہی بتاتے ہیں کہ جنات ان کو ہر وقت چمٹے رہتے ہیں…ان کو ستاتے ہیں…ان کے گھروں پر حملے کرتے ہیں…لیکن جو جنات کو نہیں مانتے…نہ ماننے کا مطلب یہ کہ ان کو کوئی بڑی طاقت یا مؤثر قوت نہیںمانتے…آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کوئی جن ان کے قریب بھی کبھی آیا ہو…ارے بھائیو! اور بہنو!اللہ کے سوا کسی پتھر کو بھی مانو تو وہ بھی … خدا بننے کی کوشش میں سیدھا سر پر آ لگتا ہے…کسی کتے کو بھی طاقتور مانو تو وہ اچھل اچھل کر بھونکتا ہے اور کاٹنے کو دوڑتا ہے…اس لئے ضروری ہے کہ …دل میں توحید کو مضبوط کیا جائے…بس صرف ایک اللہ کو مانو…اور باقی سب سے کہہ دو کہ … نہیںمانتے،نہیں مانتے…لا الہ الا اللہ،لا الہ الا اللہ…اللہ ہی خالق، اللہ ہی نفع و نقصان کا مالک …باقی سب مخلوق،باقی سب فانی
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
کوئی لاکھ اچھلے،کودے،چیخے،دھاڑے کہ مجھے مانو…مجھے مانو…اس کو صاف بتا دیں کہ …جی بالکل نہیں مانتے…بالکل نہیں مانتے … بالکل نہیں مانتے…نہ کسی پتھر کو نہ مورتی کو…نہ کسی ستارے کو نہ کسی سیارے کو…نہ کسی طاقت کو نہ کسی قوت کو…نہ کسی جن کو نہ کسی سائے کو…نہ کسی قبر کو نہ کسی آستانے کو…نہ کسی پنڈت کو نہ کسی نجومی کو…نہ کسی مہاراج کو، نہ کسی گوروگھنٹال کو … نہ کسی ٹونے باز کو نہ کسی جادوگر کو…نہ ماننے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا وجود ہی نہیں…وجود تو ہے …مگر موثر نہیں…نفع و نقصان کا مالک نہیں … شر اور خیر کا فیصلہ کرنے والا نہیں…یہ سب محتاج یہ سب کمزور یہ سب فانی…میں تو اللہ کا بندہ ہوں …صرف ایک اللہ کا…اسی کے سامنے جھکتا ہوں…اسی سے مانگتا ہوں…صرف اسی کو مانتا ہوں…
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
کرب اور خوف کے وقت
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے…کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الا اعلمک کلمات تقولیھن عند الکرب او فی الکرب
کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں جو تم مصیبت کے وقت ،یا مصیبت میں کہا کرو
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
اللہ،اللہ ہی میرا رب ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتی
سبحان اللہ! جو انسان توحید خالص کے قلعہ میں پہنچ جائے…اسے کون تکلیف پہنچا سکتا ہے؟…
الکرب یعنی غم،مصیبت،تنگی…ہر وہ حالت جو انسان کو تکلیف اور پریشانی میں ڈال دیتی ہے…
ایک عجیب واقعہ
ایک مشہور محدث گزرے ہیں…عبد الرحمن بن زیادؒ…یہ اپنے رفقاء کے ساتھ سمندری سفر میں تھے کہ رومیوں نے انہیں قید کر لیا…مسلمانوں اور رومیوں کی جنگیں چلتی رہتی تھیں…چنانچہ یہ بھی جنگی قیدی بنا لئے گئے…اسی قید کے دوران رومیوں کا تہوار آیا تو بادشاہ کے حکم سے ان مسلمان قیدیوں کو بھی اس دن…اچھا کھانا دیا گیا اور وہ بھی زیادہ مقدار میں…بادشاہ کی مقرب ایک عورت دربار میں پہنچی اور چیخنے چلانے لگی کہ…ان مسلمانوں نے میرے بیٹے،خاوند اور بھائی کو قتل کیا ہے اور تم ان قاتلوں کی دعوتیں کر رہے ہو…اس نے اپنے بال نوچ کر ایسا غمناک ماتم کیا کہ بادشاہ بھی غصہ میں آ گیا اور کہنے لگا کہ…ان تمام قیدیوں کو لاؤ اور ایک ایک کر کے میرے سامنے قتل کرو…قیدی لائے گئے اور جلاد نے انہیں قتل کرنا شروع کیا…جب وہ حضرت عبد الرحمن بن زیاد کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا:
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
اللہ،اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا
سبحان اللہ! سزائے موت کا وقت جب لوگ جان بچانے کے لئے ہر سہارا ڈھونڈتے ہیں … ہر ظاہری طاقت کے قدموں میں گرتے ہیں…ہر صاحب اختیار کی منتیں کرتے ہیں…اور ہر کسی کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں…حضرت عبد الرحمن فرما رہے تھے کہ…اس وقت بھی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی طاقت کو نہیں مانتا…اس وقت بھی میںاللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طرف نہیں دیکھتا…اس وقت بھی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتا…میں تو اللہ کا بندہ ہوں … زندہ رہوں تب بھی اس کا بندہ…اور مر جاؤں تب بھی اس کا بندہ…وہ مجھے ان کافروں کے ہاتھوں موت دے تب بھی وہ میرا رب…وہ مجھے بچا دے تب بھی وہ میرا رب…یہ جہان بھی اس کا اور وہ جہان بھی اس کا…زندگی بھی اس کا عطیہ … اور موت بھی اس کا تحفہ…ہماری زندگی میں بھی وہی سب کچھ…اور ہمارے مرنے کے بعد بھی وہی سب کچھ…
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
انہوں نے جیسے ہی توحید کے یہ عاشقانہ الفاظ پڑھے،بادشاہ نے فوراً جلاد کو روک لیا اور کہا مسلمانوں کے اس عالم کو میرے پاس لاؤ … خلاصہ یہ کہ ان کو اور ان کے باقی رفقاء کو باعزت رہا کر دیا گیا…غور کریں…جس وقت بادشاہ کی طاقت اندھا ناچ رہی تھی…اور بادشاہ کے جلاد کی تلوار گردنیں کاٹ رہی تھی…رسیوں میں بندھے ہوئے ایک مرد مومن نے…بادشاہ کی طاقت کا انکار کر دیا کہ…میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا…تو اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو ان کے لئے ’’ بے طاقت ‘‘فرما دیا…
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
مبارک مصیبتیں
مسلمان پر تکلیف اور مصیبت اس لئے آتی ہے تاکہ اس کے گناہ معاف ہو جائیں اور وہ خالص ایک اللہ کی طرف رجوع کر کے…ایمان اور کامیابی کے بڑے بڑے درجات حاصل کر لے …ایک بزرگ کا فرمان ہے:
اے ابن آدم! تمہاری وہ حاجتیں اور مصیبتیں کتنی برکت والی ہیں جن میں تم بار بار اپنے مالک کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہو…
ایک اور اللہ والے فرماتے ہیں:
جب مجھے کسی تکلیف اور مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے مناجات کی لذت ملتی ہے…اور ایک اللہ سے مانگنے کی حلاوت دل میں اترتی ہے تو …میں چاہتا ہوں کہ کاش یہ مصیبت جلد دور نہ ہو …یہ حاجت جلد پوری نہ ہو…تاکہ مجھے اپنے مولیٰ، اپنے مالک اور اپنے محبوب کے دروازے پر اور زیادہ دیر بھیک مانگنے کی لذت ملتی رہے…
اسی لئے یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ … مصیبت،مخلص بندے کو اللہ تعالیٰ سے ملا دیتی ہے …کیونکہ مخلص بندہ…نہ حکومتوں کے سامنے جھکتا ہے…نہ مخلوق میں سفارشیں ڈھونڈتا ہے…نہ پتھروں اور آستانوں سے مدد مانگتا ہے…اور نہ دنیا کے طاقتور لوگوں کو سہارا بناتا ہے…وہ تو بس ایک مالک،ایک خالق ،ایک مولیٰ…یعنی اللہ تعالیٰ سے مانگنے میں مشغول ہو جاتا ہے…اور مانگتے مانگتے اپنے مالک کے قریب ہوتا جاتا ہے…ارے! محبوب مالک کا قرب مل جائے تو اور کیا چاہیے … سب بھائی اور بہنیں … اس دعا کو یقین کے ساتھ یاد کریں…
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
اور موجودہ حالات میں وجد کے ساتھ پڑھا کریں…
اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّی لَا اُشْرِکُ بِہِ شَیْئَا
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭
مغفرت کی بارش
رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے (شمارہ 487)
اللہ تعالیٰ ’’غافر‘‘ ہے، ’’غفور‘‘ ہے اور ’’غفّار‘‘ ہے…
بخشنے والا…مکمل بخشش اور مغفرت فرمانے والا…اور بار بار بخشنے والا…
اللہ تعالیٰ ’’سَاتِرْ‘‘ ہے، ’’سَتِّیر‘‘ ہے اور ’’سَتَّار ‘‘ ہے…
عیبوںپرپردہ ڈالنے والا…برائیوں اور کمزوریوں کو چھپانے والا…عیب دار انسانوں پر اچھائی کے پردے ڈالنے والا…
یہ اللہ تعالیٰ کے چھ اسماء الحسنی…پیارے پیارے نام ہمارے سامنے آ گئے…
اَلْغَافِرُ…اَلْغَفُوْرُ…اَلْغَفَّارُ…اَلسَّاتِرُ، السَّتِّیْرُ، اَلسَّتَّارُ…
اب نہایت ادب، بے حد توجہ اور عاجزی سے پکاریں…
یَا غَافِرُ…اے بخشنے والے…
یَاغَفُوْرُ…
اے مکمل مغفرت فرمانے والے…
یَا غَفَّارُ…
اے بار بار بخشش اور معافی دینے والے…
اِغْفِرْلِیْ…اِغْفِرْلِیْ…اِغْفِرْلِیْ…
میری مغفرت فرما…مجھے بخش دے … مجھے مغفرت عطاء فرما…
یَا سَاتِرُ…اے چھپانے والے…
یَا سَتِّیْرُ…اے پردہ ڈالنے والے…
یَا سَتَّارُ… اے ہر طرح کی کمزوریوں اور عیبوں کو ڈھانپنے والے…
اُسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا
ہماری کمزوریوں پر اپنا پردہ ڈال دے اور ہمارے خوف پر اپنا امن ڈال دے…
پہلے تین نام قرآن مجید میں آئے ہیں…
(۱) الغافر…یہ ایک مقام پر آیا ہے ( غافر الذنب)
(۲) الغفور…یہ قرآن مجید میں اکیانوے (۹۱) بار آیا ہے
(۳) الغفّار…یہ قرآن مجید میں پانچ بار آیا ہے…
گویا قرآن مجید میں مغفرت کا یہ نور … مسلمانوں پر ستانوے بار برسا…اگر ایک بار بھی برستا تو تمام اہل ایمان کی مغفرت کے لئے کافی تھا …مگر یہاں تو’’ربّ غفور‘‘ کی مغفرت کا سمندر ہے،پورا سمندر…اسی لئے تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت سے مایوس ہونا…بہت بڑا گناہ ہے،جی ہاں! اللہ تعالیٰ بچائے کبیرہ گناہ ہے…حضرت امام قرطبیؒ نے اپنی تفسیر میں وہ احادیث اوراقوال جمع فرمائے ہیں، جن میں ’’کبائر‘‘ یعنی کبیرہ گناہوں کی تفصیل ہے…سات سے لے کر سات سو تک…مگر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک فرمان یہ ہے کہ …کل کبیرہ گناہ چار ہیں…
(۱) اَلْیَأسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ…
اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مدد سے مایوس ہو جانا
(۲) اَلْقَنُوْطُ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ…
اللہ کی مغفرت اور رحمت سے نا امید ہو جانا
(۳) وَالْأمْنُ مِنْ مَکْرِ اللّٰہِ…
اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو جانا
(۴) وَالشِّرْکُ بِاللّٰہِ…
اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا
کچھ لوگ گناہ کرتے ہیں اور گناہوں کی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں…پھر جب خود کو ہر طرف سے گناہوں میں لتھڑا ہوا پاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مکمل طور پر مایوس ہو کر…نہ استغفار کرتے ہیں اور نہ توبہ…وہ کہتے ہیں کہ ہم تو گناہوں سے نکل ہی نہیں سکتے…زبانی توبہ کا کیا فائدہ؟…ہمیں استغفار سے شرم آتی ہے کہ بار بار توبہ توڑ تے ہیں…بظاہر یہ اچھی سوچ ہے مگر حقیقت میں شیطانی نظریہ اور سوچ ہے…یہ اللہ تعالیٰ سے مکمل طور کٹ کر شیطان کی گود میں گرنے کا اعلان ہے…یہ اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت اور قوت مغفرت کا انکار کرنا ہے…کون سا گناہ اللہ تعالیٰ سے بڑا ہے…کون سا گناہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے زیادہ وسیع ہے؟…اللہ تعالیٰ جب مغفرت دینے پر آ جائے تو ایسی قوت والی مغفرت دیتا ہے کہ…گناہوں کے تمام اثرات تک مٹ جاتے ہیں…اگر کسی کے گناہوں کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا…گناہوں کے انڈے بچے دور دور تک پھیل گئے…تب بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت جب آتی ہے تو اُن تمام گناہوں اور ان کے اثرات کو ختم کر دیتی ہے…اور جو حقوق گناہگار کے ذمہ لوگوں کے ہوتے ہیں…وہ بھی ادا کروا دیتی ہے…اور جن گناہوں کا داغ بہت گہرا ہو…ان کی جگہ گہری نیکیوں کی توفیق لے آتی ہے…
ایک آدمی کروڑوں روپے کی خیانت کر کے …سچی توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو اربوں روپے دے دیتے ہیں کہ وہ کروڑوں کی خیانت بھی واپس کر آئے اور مزید کروڑوں کے صدقات جاریہ بھی چھوڑ آئے…اللہ تعالیٰ کوئی معمولی معافی دینے والے نہیں…غفور ہی غفور…غفّار ہی غفّار … حضرت وحشی رضی اللہ عنہ جنہوں نے حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا جرم کیا تھا…توبہ کرنے اور توبہ قبول ہو جانے کے باوجود غم میں کڑھتے تھے تو …ربّ غفور نے انتظام فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کے ایک بڑے دشمن کو قتل کرنے کی سعادت عطا فرما دی… تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے…ارے سچے دل سے معافی تو مانگو،سچے دل سے توبہ کے دروازے پر تو آؤ…اللہ تعالیٰ غافر و غفور ہے…مغفرت کے اصل معنیٰ پردہ ڈالنے،ڈھانپنے اور چھپانے کے آتے ہیں… پرانے زمانے کی جنگوں میں سرپر جو لوہے کی ٹوپی پہنی جاتی تھی…اسے ’’مغفر‘‘ کہتے تھے…وہ سر کو حفاظت سے ڈھانپ لیتی تھی…اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مغفرت انسان کو گناہوں کے ہر شر سے … دنیا اورآخرت میں محفوظ کر دیتی ہے…ڈھانپ لیتی ہے…اہل دل فرماتے ہیں کہ…گناہ ایک ظلم ہے جو انسان اپنی ذات پر ڈھاتا ہے…پھر گناہگار تین قسم ہیں:
(۱) ظالم…یعنی عام گناہگار
(۲) ظلوم…بڑے سخت گناہگار
(۳) ظلّام…یعنی بار بار گناہوں میں گرنے والے
مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت دیکھیں کہ …جو بندے ’’ظالم‘‘ ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے ’’غافر‘‘ ہے…بخشنے والا…جو ’’ظلوم‘‘ ہیں یعنی سخت گناہگار…ان کے لئے اللہ تعالیٰ ’’غفور‘‘ ہے…یعنی ’’ٹھاٹھ‘‘ کی مغفرت دینے والا…اور جو ’’ظلّام ‘‘ ہیں بار بار گناہ کرنے والے ان کے لئے اللہ تعالیٰ ’’غفار‘‘ ہے…بار بار بخشش فرمانے والا…تم دل سے بخشش مانگو تو سہی…مغفرت مانگنے اور بخشش طلب کرنے کو ہی استغفار کہتے ہیں …دل کی ندامت کے ساتھ استغفار…بات یہ چل رہی تھی کہ…اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے نا امید ہونا یہ بڑا سخت کبیرہ گناہ ہے…دوسری طرف کچھ لوگ (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہو جاتے ہیں…وہ دنیا میں تکلیفیں اور مصیبتیں دیکھ دیکھ کر شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں کہ…اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) نہیں سنتا…اللہ تعالیٰ مدد نہیں فرماتا… تو ایسا نظریہ بنا لینا بھی سخت کبیرہ گناہ ہے…اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے اور وہ نصرت بھی فرماتا ہے…مگر جلد باز انسان اس کی نصرت کے انداز کو ہمیشہ نہیں سمجھ سکتا…وہ سمجھتا ہے کہ نصرت نہیںآ رہی…حالانکہ نصرت آئی ہوئی ہوتی ہے…اگر وہ نہ آتی تو معلوم نہیں انسان کا کیا حشر ہوتا…یہاں ایک ضروری بات یاد رکھیں … اگر اپنے ایمان کی سلامتی چاہتے ہیں تو …غیر مسنون وظیفے اور عملیات زیادہ نہ کریں…عامل بننے کا شوق دل سے نکالیں …مومن اور تائب بننے کا شوق دل میں بسائیں…اگر کوئی مرشد کامل نصیب ہے تو پوچھ پوچھ کر وظائف کریں…اگر مرشد کامل نصیب نہیں تو …تلاوت قرآن پاک …نوافل…نفل روزے،صدقہ…کلمہ طیبہ، استغفار،درودشریف…اور تیسرے کلمہ میں لگے رہیں…یعنی فرض عبادت کے بعد جو وقت ملے …ان میں بس یہی اعمال کریں اور مسنون دعاؤں کا اہتمام…ان کے لئے نہ کسی مرشد کی اجازت ضروری… اور نہ ان میں کوئی خطرہ … باقی وظائف یا تو آخر میں مایوسی کی طرف کھینچ لیں گے…یا نعوذ باللہ اپنی ذات کا تکبر دل میں آ جائے گا جو تمام بیماریوں کی جڑ…اور مہلک کینسر ہے…
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ…ذی النورین تھے، جنت کی پکی بشارت رکھتے تھے … آقا مدنی ﷺ کے محبوب تھے…سخاوت کے تاجدار تھے…صدقات جاریہ کے امام تھے … حیاء میں اپنی مثال آپ تھے…مگر قبر پر جاتے تو زاروقطار روتے اور عذاب قبر کے خوف سے تھر تھر کانپتے…پھر ہمیں یہ کیفیت کیوں نصیب نہیں ہوتی؟…ہمیں قبر کا خوف ایک آنسو تک نہیں رلاتا …معلوم ہوا کہ دل اور نفس میں خرابی اور تکبر ہے …اسی لئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ…اللہ تعالیٰ کی دنیا اور آخرت میں پکڑ سے بے خوف ہو جانا بھی کبیرہ گناہ ہے…یہ حالت بری صحبت سے بھی بن جاتی ہے…اور زیادہ غیر شرعی وظائف سے بھی کہ…انسان کو اپنے اصل مسائل موت، قبر،حشر اور آخرت کی فکر نہیں رہتی…اسی لئے جو وقت وظائف میں لگتا ہے…وہ سچے استغفار میں لگ جائے…استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ انسان کی حالت تبدیل فرما دیتے ہیں…حضرت سیدہ مطہرہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک عورت آئی …اور مسئلہ پوچھنے کے انداز میں اپنے گناہ کا تذکرہ کر گئی…شاید کسی نے احرام کی حالت میں اس کی پنڈلی کو پکڑا یا چھوا تھا…اس نے جیسے ہی یہ بات بتائی…حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فوراً چہرہ پھیر لیا اور فرمایا:
رک جاؤ، رک جاؤ، رک جاؤ
اور پھر ارشاد فرمایا: اے ایمان والی عورتو! اگر تم میں سے کسی سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ دوسروں کو نہ بتائے…بلکہ فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرے … یاد رکھو!بندے عار میں ڈالتے ہیں بدل نہیں سکتے …جبکہ اللہ تعالیٰ بدلتا ہے…عار میں نہیں ڈالتا …یعنی تم اپنے گناہ لوگوں کو بتاؤ گی تو لوگ تمہارے اس گناہ کو مٹا نہیں سکتے…نہ تمہاری حالت کو تبدیل کر سکتے ہیں…اور نہ گناہ کے شر اور نقصانات سے تمہیں بچا سکتے ہیں…ہاں البتہ وہ تمہیں عار اور شرمندگی میں ضرور ڈال سکتے ہیں… جب بھی اُن کو موقع ملا وہ تمہیں اس گناہ کی وجہ سے رسوائی،شرمندگی اور بدنامی میں مبتلا کر سکتے ہیں …جبکہ اللہ تعالیٰ نہ شرمندہ کرتے ہیں،نہ بدنام فرماتے ہیں اور نہ عار دلاتے ہیں…بلکہ وہ تمہاری بری حالت کو اچھی حالت میں تبدیل فرما دیتے ہیں …وہ تمہیں گناہ کے نقصانات سے بچا لیتے ہیں …وہ ’’العفو‘‘ ہیں…معاف فرمانے والے… کہ اس گناہ کو مٹا دیتے ہیں…اور ’’الغفور‘‘ ہیں کہ اس گناہ کو چھپا لیتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسی رحمت اور تبدیلی فرماتے ہیں کہ …خود گناہگار بندے کو بھی…اپنا گناہ یاد نہیں رہتا…گویا کہ گناہ کا ہر طرف سے نام و نشان ہی مٹ گیا…نہ وہ نامۂ اعمال میں باقی رہا، نہ وہ لکھنے والے فرشتے کو یاد رہا…نہ وہ اُس زمین کو یاد رہا جس پر وہ ہوا تھا …نہ وہ اُن اعضاء کو یاد رہا جن سے وہ گناہ کیا تھا … اور نہ خود گناہگار بندے کو یاد رہا…ایسا فضل اور ایسی مغفرت اور کون کر سکتا ہے؟…زندگی کے سانس چل رہے ہیں…سورج مشرق سے طلوع ہو رہا ہے…توبہ کا دروازہ کھلا ہے…بھائیو! کثرت استغفار،بہت استغفار،سچا استغفار…
اچھی توبہ،خالص توبہ،سچی توبہ ،پکی توبہ
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ نَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ،نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ…
لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ
اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
٭…٭…٭