بہترین جانشین :…رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے

اللہ تعالیٰ شہادت، مغفرت اور اِکرام کا اعلیٰ مقام عطاء فرمائے…امیر المومنین ملا اختر محمد منصور بھی شہید ہو گئے…انا للہ وانا الیہ راجعون…

اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَعْطٰی وَلَہُ مَا اَخَذَ وَکُلُّ شَیْ ئٍ عِنْدَہُ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی…اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہُ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہُ اَللّٰھُمَّ اْجُرْنَا فِیْ مُصِیْبَتِنَا وَاخْلُفْ لَنَا خَیْراً مِّنْھَا…

منتخب اور برگزیدہ

سولہ لاکھ شہدائِ کرام کے خون کی برکت سے مسلمانوں کو…اس زمانے میں ایک ’’امیر برحق ‘‘ ملا…نام تھا حضرت مُلّا محمد عمر مجاہد…تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امت مسلمہ کے منتخب اور برگزیدہ بندے اُس ’’امیر ‘‘ کے گرد جمع ہونے شروع ہو گئے…

تمام رعنائیوں کے مظہر

تمام رنگینیوں کے منظر

سنبھل سنبھل کر سمٹ سمٹ کر

سب ایک مرکز پہ آ رہے ہیں

 

ایک منظم تحریک اور ایک مثالی حکومت کے لئے جس طرح کام کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے…وہ الحمد للہ حضرت امیر المومنین کو میسر آ گئے … اور یوں صدیوں بعد زمین نے اسلامی خلافت اور دینی حکومت کے حسین مناظر دیکھے…چند سال ہی سہی مگر موجودہ دور میں ایسی حکومت کا چند دن قائم رہنا بھی بڑا کارنامہ… اور بڑی تبدیلی ہے…وہ چیز جو تصور میں بھی نا ممکن سمجھی جا رہی تھی… وہ عملی طور پر وجود میں آ گئی…اور اس بات کا واضح اعلان کر گئی کہ…موجودہ عالمی ایٹمی نظام ہمیشہ کے لئے نہیں ہے…بلکہ اس نے جلد ختم ہونا ہے… حضرت امیر المومنین کو اس مبارک کام کے لئے … کام کے جو اَفراد ملے اُن میں ایک نمایاں نام…ملا اختر محمد منصور کا ہے…

دو ’’اختروں‘‘ کی جوڑی

ملا اختر محمد منصور…حضرت امیر المومنین مُلّا محمد عمر مجاہد کے مامور بھی تھے اور یار بھی…وزیر بھی تھے اور دوست بھی…عاشق بھی تھے اور وفادار بھی… یہ دراصل دو ’’اختروں‘‘ کی ایک مثالی جوڑی تھی… ایک تھے مُلّااختر محمد عثمانی اور دوسرے تھے مُلّااختر محمد منصور…

حصہ، جثہ اور مجموعی شباہت میں یہ دونوں ’’اختر محمد ‘‘ آپس میں سگے بھائی لگتے تھے… عثمانی بڑے اور منصور چھوٹے… دونوں میں حد درجہ محبت اور دوستی تھی… اور آپس میں اتحاد ، بے تکلفی اور مزاح کا رشتہ تھا… ملاقات میں تاخیر ہو جاتی تو مخابرے(وائرلیس) پر باتیں کرتے…اور دونوں کی باتوں کے درمیان ہنسی مذاق کی شبنم پھوٹتی رہتی …یہ دونوں مل کر اُلفت کے ماحول میں امارت اسلامی کی خدمت کرتے …دونوں کے شعبے اور عہدے الگ الگ تھے…مگر اُن کی باہمی محبت اور دوستی دونوں کے شعبوں اور محکموں کو بھی ایک کر دیتی تھی …یہ دونوں ’’اختر‘‘ امارت اسلامی افغانستان کے کئی اہم ستونوں میں سے دو تھے…مضبوط، خوش مزاج، پاک دل اور کار آمد جوڑی…

 مُلّا اختر محمد عثمانی…حضرت امیر المومنین کے ممکنہ جانشینوں میں سمجھے جاتے تھے…مگر مُلّا اختر محمد منصور کے ’’امیر المومنین ‘‘ بننے کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا… وہ کام کرنے اور کام نکالنے والے کارکن مزاج… اور کھلی ڈلی طبیعت کے آدمی تھے … ان دونوں ’’اختروں ‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے شہادت عطاء فرمائی… اور اتفاق یہ کہ دونوں کو ایک جیسی شہادت ملی… مُلّااختر محمد عثمانی کی گاڑی کو ’’ہلمند‘‘ میں نشانہ بنایا گیا… جبکہ مُلّااختر محمد منصور کو پاک افغان سرحد پر گاڑی میں شہید کیا گیاتھا…دونوں پرحملہ …صلیبی افواج کی فضائی طاقت سے ہوا… اور یوں وہ حدیث شریف کے مطابق عام شہداء سے دہرے اجر کے مستحق بنے…ماشاء اللہ کیا پیاری جوڑی تھی…اور ماشاء اللہ کتنا اچھا انجام پایا…

اللہ تعالیٰ اس مثالی جوڑی کو اپنے پیارے قُرب میں جمع فرمائے…(آمین )

ایک ملاقات کا حال

ایک بار مُلّا اختر محمد منصور سے قندھار ائیر پورٹ پر ملاقات ہوئی…یہ ہوائی اڈہ اُن کی ’’وزارت‘‘ کے ماتحت تھا… کراچی کے حضرات اَکابر کا وفد تھا… طالبان نے اَکابر کے اعزاز میں خصوصی طیارہ دیا جو انہیں کابل سے قندھار لایا… قندھار میں اس قافلے کا استقبال مُلّا اختر محمد منصور نے کیا…وہ مہمانوں کو وی آئی پی لاؤنج لے گئے …یہ بڑا لاؤنج عربی طرز کے فرنیچر اور صوفوں سے مزین تھا… اور اس کے آس پاس قطر و امارات کے کچھ افراد منڈلا رہے تھے… مُلّا اختر محمد منصور اگرچہ بے تکلف طبیعت کے آدمی تھے مگر…با وجاہت اور بارُعب… اُن کو دیکھ کر کئی افراد دائیں بائیں دبکنے لگے… مُلّا صاحب نے مجھے اپنی دائیں طرف ایک صوفے پر بٹھایا اور پھر زور زور سے ہنسنے لگے …فرمایا! اسی صوفے پر (بھارتی وزیر خارجہ) جسونت سنگھ کو بٹھایا تھا…جس دن وہ آپ کو انڈیا سے قندھار چھوڑنے آیا تھا… پھر وہ مزے لے لے کر اس دن کی داستان سناتے رہے … فرمایا! جسونت سنگھ نے مجھے کہا…ہمارے قیدی ابھی تک افغانستان میں ہوں گے…آپ انہیں پکڑ کر ہمارے حوالے کر دیں…ہم آپ کی حکومت کو مالا مال کر دیں گے…تب میں نے اسے کہا…آپ خود خیریت سے واپس چلے جائیں یہ بھی بڑی بات ہے… جسونت سنگھ نے جب یہ سنا تو اس کے ہاتھوں اور ٹانگوں میں کپکپی ط
اری ہو گئی… مُلّا صاحب نے اس کے ہاتھوں اور گھٹنے کی کپکپی عملی طور پر دکھائی اور قہقہوں میں ڈوب گئے … بتایا کہ جسونت سنگھ کو چائے پلائی تھی مگر کپ اس کے ہاتھ میں لرز رہا تھا…پھر اچانک امارت اسلامیہ کا یہ بارُعب وزیر… طالبعلم بن گیا اور اپنی تعلیم کا حال سنانے لگا …فرمایا میں نے چھوٹا دورہ (یعنی مشکوٰۃ شریف تک کا نصاب) تو پورا کر لیا ہے مگر ابھی تک بڑا دورہ ( یعنی دورہ حدیث) نہیں کر سکا… بہت شوق ہے کہ کسی طرح وہ کر لوں… یہ طالبان کی عجیب صفت تھی… وہ جو کچھ بھی بن جاتے مگر اُن کی اصل صفت یعنی ’’طالبعلم‘‘ ہونا یہ کبھی ماند نہیں پڑتی تھی… اُن کے ہاں اصل منصب اور اصل فخر قرآن و سنت کے علوم کا طالب ہونا ہی تھا…اُن کے کئی بڑے کمانڈروں اور وزراء کو دیکھا کہ وہ دوران گفتگو اچانک اپنی کمانڈری اور وزارت سے اُتر کر …فوراً ’’طالب‘‘ بن جاتے تھے… اس دن مُلّا اختر محمد منصور بھی… ملاقات کے آخر میں ایک معصوم طبیعت طالبعلم ہی لگ رہے تھے… نہ کہ ہوا بازی کے وزیر…

مسلمانوں کی باری

مُلّا اختر محمد منصور …اس وقت امارت اسلامی افغانستان کے امیر تھے…امیر المومنین پر ہونے والا یہ حملہ امت مسلمہ کے سینے پر وار ہے…اہل ایمان یقیناً اس حملے کو معمولی نہیں سمجھیں گے…یہ حملہ کفار و منافقین کے ایک مثلث، مربع یا مخمس اتحاد نے کیا ہے…اس حملے کے تمام مجرم ان شاء اللہ ضرور بے نقاب ہو جائیں گے…وہ ایران میں ہوں یا افغانستان و پاکستان میں …

پاکستان کی موجودہ نواز شریف حکومت… دین بیزاری اور جہاد دشمنی میں پرویز مشرف اور زرداری سے کئی قدم آگے ہے…یہ حکومت پاکستان کے محسنین کو پاکستان کا دشمن بنانے کی کوشش میں مسلسل مصروف ہے… ایرانی حکومت مسلمانوں اور طالبان کی سخت دشمن ہے… وہ طویل عرصہ سے تاک میں تھی کہ…طالبان سے حزب و حدت اور حرکت اسلامی کی شکست کا بدلہ لے… ایرانی حکومت کی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ یاری بھی اب خفیہ نہیں رہی… امریکہ افغانستان میں اپنی ۲۰۱۴؁ء کی عبرتناک شکست سے تلملایا ہوا ہے اور وہ بہت عرصہ سے ایسی کسی کارروائی کی کوشش میں تھا…جو اس کی ہزیمت کے داغ کو کچھ چھپا سکے…اور یوں مارکیٹ میں اس کی عزت بچی رہے…

اسی طرح کئی اور نفاقی عناصر بھی… طالبان کو کوئی بڑا جھٹکا دینے کی فکر میں تھے… آپ اندازہ لگائیں کہ…پندرہ سال کی طویل جنگ …ایک طرف دنیا کے چالیس سے زائد طاقتور ممالک اور دوسری طرف اکیلے طالبان… مگر ان پندرہ سالوں میں ایک دن بھی…طالبان کو شکست نہیں دی جا سکی… حضرت امیرالمومنین مُلّامحمد عمر مجاہد…تیرہ سال تک اس جنگ کی کمان کرتے رہے اور دشمن ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا…ایسے حالات میں دشمنوں کی شدید خواہش تھی کہ وہ کم از کم ایک بڑی کامیابی تو اپنے نام کر سکیں… چنانچہ انہوں نے مل جل کر یہ کارروائی تیار کی…مگر ان کی یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی… کیونکہ’’ امارت اسلامی‘‘ نے فوری طور پر نہایت اطمینان اور اتفاق سے نئے امیر کا تقرر کر دیا…

بہرحال مُلّامنصور کو شہید کر کے…تمام دشمنوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی ہے… وہ اپنا حملہ کر چکے… اب مسلمانوں کی باری ہے… امید ہے کہ دنیا بہت جلد عجیب مناظر دیکھے گی ان شاء اللہ…

بہترین جانشین

مُلّااختر محمد منصور شہید کے تمام کارنامے اور فضائل اپنی جگہ… مگر اُن کا ایک کارنامہ، اُن کی ایک فضیلت بہت بھاری ہے… اس میں وہ بڑے بڑے لوگوں کو پیچھے چھوڑ گئے…اور خود ایک مثال بن گئے… یہ درست کہ وہ مجاہد تھے…اور مجاہد بھی خالص… یہ سچ ہے کہ وہ تحریک اسلامی طالبان کے بنیادی لوگوں میں سے تھے…یہ بھی حقیقت کہ وہ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے … یہ بھی مسلّم کہ وہ حضرت امیر المومنین کے وفادار ترین رفقاء میں سے تھے…مگر ان کی سب سے بڑی خصوصیت اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ…وہ زمانے کے ایک بڑے آدمی کے… بہترین اور برحق جانشین ثابت ہوئے…

بہترین جانشین ہونا…آسان کام نہیں ہے … اہل ایمان میں سے یہ سعادت اُن خوش بختوں کو حاصل ہوتی ہے… جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خصوصی نسبت رکھتے ہیں… اور اس نسبت صدیقی سے مکمل طور پر فیض یاب ہوتے ہیں…

نسبت صدیقی… ایک بڑی مقبول اور وسیع ’’نسبت ‘‘ ہے… اس نسبت کے کئی رنگ ہیں… ان میں سب سے اہم رنگ کسی بڑے کا بہترین جانشین ہونا ہے… ایسا جانشین جو اپنے بڑے یعنی پیش رو کے کام کو سنبھالے… اُسی کے قدم بقدم چلے…اُسی کی طرز کو مضبوط پکڑے… اُسی کی بنیادوں کو قائم رکھے… اُسی کے کام کو مضبوط کرے… نہ کام کا رنگ پھیکا پڑنے دے اور نہ کام کا رنگ تبدیل ہونے دے… وہ خود کو بس اپنے پیش رو کے کام کا چوکیدار سمجھے…اور اپنی ذات کو اسی کام کی خدمت کے لئے وقف کر دے… یہ سب کچھ لکھنا آسان…مگر کرنا بہت مشکل ہے … ہر آدمی کا اپنا ذہن ہوتا ہے اور اپنا مزاج… اپنا حلقہ ہوتا ہے اور اپنی کمزوریاں… اسی لئے اکثر جانشین اپنے پیش رو کی مسند اُلٹ دیتے ہیں… اس کے کام کا رنگ اُجاڑ دیتے ہیں… اور اُس کے نظریات کو بھی اُس کے ساتھ دفن کر کے اپنے اختیارات کے مزے لوٹنے میں لگ جاتے ہیں … وہ وفا کی جگہ عقل استعمال کرتے ہیں اتباع کی جگہ اجتہاد سے کام لیتے ہیں…اورجانشینی کو جانشینی نہیں اپنا مستقل کمال سمجھتے ہیں…یہ ایک بہت لمبی اور مفصل داستان ہے…
اس امت میں ’’جانشینی‘‘ کا یہ سلسلہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے شروع ہوا…اور تاقیامت جاری رہے گا…ہر جانے والے کے پیچھے دوسرے نے آنا ہے… یہ سلسلہ اس وقت تک عمومی رہتا ہے… جب تک امت میں کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں ہوتی… لیکن جب کوئی بڑی شخصیت آ جائے …اور وہ امت کے لئے کوئی مفید کام شروع کرے تو …اب جانشینی کا معاملہ بہت اہم ہو جاتا ہے… ماضی میں کئی بڑے کام ، کئی بڑی تحریکیں… اور کئی بڑے ادارے … اچھے جانشین نہ ملنے کی وجہ سے اُلٹ گئے…یہ معاملہ امت مسلمہ کی قسمت سے بھی تعلق رکھتا ہے … خیر اس مفصل داستان میں اترنے کا تو اس وقت موقع نہیں …تحریک طالبان یا امارت اسلامی افغانستان…امت مسلمہ کے لئے ایک نعمت عظمیٰ ہے… اور اس تحریک کے بانی حضرت مُلّامحمد عمر مجاہدؒ اس امت کے محسن ایک عظیم شخصیت تھے … ایسے بھر پور اور منفرد شخص کی جانشینی بڑا مشکل اور خطرناک کام تھا… یعنی اگر اچھا جانشین بننا چاہو تو یہ بہت مشکل… اور اگر اُس کے راستے سے ہٹ جانے والا جانشین بنو تو یہ بہت خطرناک…کیونکہ یہ امت مسلمہ کے ساتھ خیانت ہے… ہر وہ شخص جس نے مُلّااختر محمد منصور کو قریب سے دیکھا ہے … وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ… ایسی کھلی ڈلی طبیعت کا مالک یہ بے پرواہ سا شخص… اتنی بڑی امانت اور جانشینی کو اتنے احسن طریقے سے سنبھال لے گا… مگر مُلّامنصور شہید نے یہ کارنامہ کر دکھایا … اور یہ ان کے دل میں اُترے ہوئے ایمان کی قوت تھی کہ انہوںنے … مُلّامحمد عمر مجاہدؒ کے کام کو  نہ پھیکا پڑنے دیا …اور نہ اس کام کے رخ میں کوئی تبدیلی لائی… اور نہ دشمنوں کو مُلّامحمد عمر کے جانے کی خوشی منانے دی… مُلّااختر محمد منصور ایک انچ بھی مُلّامحمد عمر مجاہد کے راستے سے نہ ہٹے… بلکہ اُسی راستے پر چلتے ہوئے کام کو مزید بلندی اور وسعت پر لے گئے…مُلّااختر محمد منصور شہید کا یہ وہ کارنامہ اور عمل ہے…جو ان شاء اللہ خود ان کے بھی بہت کام آئے گا اور امت مسلمہ کے لئے بھی ایک بہترین مثال بنا رہے گا…لیکن اگر وہ ’’امارت‘‘ کے مزے لوٹنے میں لگ جاتے… اپنی مستقل شناخت بنانے کے دھوکے میں پڑ جاتے …یا اپنی دنیا کو سرسبز اور پُر امن بنانے کے فریب میں مبتلا ہو جاتے تو…مسلمانوں کی یہ عظیم تحریک برباد ہو جاتی… اور مُلّامنصور تب بھی اتنی ہی زندگی پاتے جتنی اب انہوں نے پائی ہے… مگر اس وقت وہ اپنے ساتھ کیا لے کر جاتے؟… اسلام اور مسلمانوں کی لاج رکھنے ، اتنی بڑی اسلامی تحریک کو سنبھالنے…اور حضرت امیر المومنین کی بہترین جانشینی کا حق ادا کرنے پر…مُلّااختر محمد منصور شہید کو سلام… اللہ تعالیٰ اُن کو امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے… آمین