صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کی روشنی میں
’’اور مہاجرین اور انصار ایمان لانے میں سب سے سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں )جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کی نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘(سورہ توبہ:100)
’’جو لوگ بیعت کر رہے ہیں تو وہ (واقع میں )اللہ سے بیعت کر رہے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر (بیعت کے بعد)جو شخص عہد توڑے گا ، سو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پرے گا اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر (بیعت میں)خدا سے عہد کیا ہے تو بہت جلد اس کو بڑا جردے گا۔ ‘‘(سورہ فتح:10)
’’محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں، اے مخاطب تو انہیں دیکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں ،کبھی سجدہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں لگے ہیں، ان کے آثار سجدہ کی تاثیر کی وجہ سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ان کے اوصاف تو ریت میں ہیں اور انجیل میں، ان کا یہ وصف ہے کہ جیسے کھیتی ، اس نے اپنی سوئی نکالی ، پھر اس نے اس کو قوی کیا پھر وہ اور موٹی ہوئی اور پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی تاکہ ان سے کافروںکو جلا دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان صاحبوں سے جو کہ ایمان لائے ہیں اور نیک کام کر رہے ہیں، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ‘‘(سورہ فتح:29)
’’اور ان حاجت مند مہاجرین کا (خاص طور پر )حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (زبردستی اور ظلم سے)جدا کر دیے گئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت)اور رضا مندی کے طالب ہیں اور وہ اللہ اور رسول (کے دین)کی مدد کرتے ہیں(اور)یہی لوگ ایمان کے سچے ہیں اور ان لوگوں کا (یہی حق ہے )جو دارالسلام یعنی مدینہ میں ان (مہاجرین )کے (آنے سے)قبل قرار پکڑے ہوئے ہیں جوان کے پاس ہجرت کر کے آتا ہے، اس سے یہ لوگ محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ ملتا ہے، اس پہ انصار اپنے دلوں میں کوئی رشک نہیں پاتے ، اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان پر فاقہ ہی ہوا اور واقعی جو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور ان لوگوں کے (یعنی اس مال میں حق ہے)جو ان کے بعد آئے جو ان کے حق میں دعا کرتے ہیں کہا ے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو (بھی)جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں۔ ‘‘(سورۃ الحشر:8تا10)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث کے آئینے میں
٭…میرے صحابہ کو گالی نہ دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے بھی برابر سونا خرچ کرے تو وہ صحابہ کے ایک مد کے ثواب کو بھی نہیں پہنچے گا اور نہ اس کے آدھے حصے کے برابر ثواب کو پہنچے گا۔ (بخاری، مسلم)
٭…ستارے آسمان کے لیے امن کا سبب ہیں۔ جب ستارے جاتے رہیں گے تو وہ چیز آسمان پر آئے گی جس کا وعدہ کیا جاتا ہے (یعنی قیامت)اور میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے امن کا سبب ہوں۔ جب میں اس جہاں سے کوچ کر جائوں گا تو میرے صحابہ کو وہ چیز پیش آئے گی جس کا وعدہ دیا گیا ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امن کا سبب ہیں۔ صحابہ جاتے رہیں گے تو میری امت کو آپہنچے گی وہ چیز جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ (مسلم)
٭…میری امت کا بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے(یعنی صحابہ کا زمانہ)پھر وہ لوگ جو ان سے ملتے ہیں (یعنی تابعین کا زمانہ)۔ (بخاری۔مسلم)
٭…میرے صحابہ کی عزت کرو، اس لیے کہ وہ تم سے افضل ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں۔ پھر ظاہر ہو گا جھوٹ۔
٭…اس شخص کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی)
٭…میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا، جو ان سے محبت کرتا ہے ،وہ میری محبت کی وجہ سے محبت کرتا ہے، جو ان سے بغض رکھتا ہے ، مجھ سے بغض کی وجہ سے بغض رکھتا ہے۔ جو انہیں تکلیف دے، اس نے مجھے تکلیف دی ، جس نے مجھے تکلیف دی ، اس نے اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی، قریب ہے کہ اللہ انہیں پکڑ لے۔
٭…میری امت میں میرے صحابہ کا مقام کھانے میں نمک جیسا ہے، جیسے کھانا نمک کے بغیر اچھا نہیں ہوتا۔
٭…میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے صحابہ کے اختلافات کے بارے میں پوچھا، جو میرے بعد واقع ہو گا۔ اللہ نے میری طرف وحی کی ، اے محمد !تیرے صحابہ میرے نزدیک ستاروں کے مرتبے میں ہیں۔ آسمان پر بعض ان ستاروں میں سے بعض سے قوی تر ہیں اور ہر ایک کے لیے نور ہے جس شخص نے اس میں سے کچھ لیا جو اختلاف پر ہیں، ان میں سے ، وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہیں۔ (رزیں)
٭…میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ، راہ پائوگے۔ (رزیں)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
٭…دین کی بنیاد ہیں۔ ٭…ان کے دل پاک تھے۔ ٭…ان کا علم گہرا تھا۔٭…دین کو سب سے پہلے پھیلانے والے ہیں۔ ٭…انہوں نے دین حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ۔ ٭…دین کو ہم تک پہنچانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ ٭…یہ وہ مبارک جماعت ہے جسے اللہ جل شانہ ‘نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کے لیے بھیجا۔ ٭…یہ جماعت اس بات کی مستحق ہے کہ اس کو نمونہ بنا کر اس کی پیروی کی جائے۔ ٭…صحابہ رضی اللہ عنہم کا افضل ترین طبقہ ہیں۔ ٭…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کل کے کل متقی تھے۔ ٭…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمع شرعی حجت ہے۔ (یعنی جس بات پر تمام صحابہ کا اتفاق ہو ، وہ شرعی حکم ہے)۔٭…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔٭…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیارِ حق ہیں۔ (مولانا محمد یوسف کاندھلوی)
ارشاداتِ عارف باللہ
جمعہ کے دن کے سات اعمال کو صحاحِ ستہ کے چار محدثین نے روایت کیا ہے ، امام ابو دائود، امام ابن ماجہ، امام ترمذی اور امام نسائی نے یہ روایت بیان کی کہ جمعہ کے دن جو یہ سات اعمال کرلے تو مسجد تک جتنے قدم چلے گا ہر ایک قدم پر ایک سال نفلی نماز کا اور ایک سال کے نفلی روزوں کا ثواب ملے گا مثلاًاگر سو قدم پر مسجد ہے تو سو برس کی نماز کا ثواب اور سو برس کے روزوں کا ثواب مل جائے گا۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صحاحِ ستہ میں کسی عمل پر اتنی فضیلت وارد نہیں ہے جتنا کہ اس عمل پر ہے اور عمل بھی اتنا آسان کہ یہ ڈر بھی نہیں کہ بھائی جب اتنا ثواب ہے توبڑا مشکل عمل ہوگا۔ بہت آسان عمل ہے۔ سن لیجئے۔
(۱)…غسل کرنا۔(۲)…اچھے کپڑے پہننا۔(۳)…مسجد جلدی جانے کی کوشش کرنا۔ (۴)…پیدل جانا مشیٰ ولم یر کب سواری پر نہ جائے لیکن جو ضعیف کمزور اور بیمار ہووہ مستثنیٰ ہے۔ اس کو سواری پر جانے سے بھی ان شاء اللہ پیدل جانے کی فضیلت حاصل ہو گی۔ (۵)…امام کے قریب بیٹھنا۔ (۶)…خطبہ غور سے سننا۔ (۷)…کوئی لغو نہ کرنا یعنی فضول اور بے ہودہ حرکت نہ کرے۔
یہ سات عمل ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن جو یہ سات اعمال کرے گا اس کو مسجد تک ہر قدم پر ایک سال کے روزوں کا اور ایک سال کی نفلی نمازوں کا ثواب ملے گا اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عشاق کو حکم دیا کہ جمعہ کے مجھ پر درود شریف زیادہ پڑھو۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے بعد بھی ہم درود نہ پڑھیں تو کتنی نالائقی اور محرومی کی بات ہے۔ اس کے بعد ان شا ء اللہ کھانے پینے کی سنتیں بھی سنائوں گا۔ مذاکرہ کا سلسلہ رہنا چاہیے۔ سنتوں کی کتاب خرید لیجئے۔ اس میں سنت دیکھئے مثلاًکھانا ہاتھ دھوکر دستر خوان بچھا کر کھانا چاہیے، اور بسم اللہ وعلی برکۃ اللہ پڑھ کر کھانا چاہیے۔ یہ سب سنتیں ہیں لیکن آج دیکھتاہوں کہ کوئی کھڑے ہو کر کھاتا ہے۔ کوئی میز کرسی پر کھا رہا ہے۔ یہ سب حال دیکھ کر دل روتا ہے۔
ارے میاں قالین ، دری بچھائو کچھ نہیں ہے تو بوریا بچھا لو چٹائی بچھا لو ورنہ ایسے ہی فرش پر بیٹھ جائو دسترخوان بچھاکر کھائو دیکھو دل میں کتنا نور پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
(از:گناہوں سے بچنے کا راستہ۔)