مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم
از افادات: متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
تمہیدی گفتگو:
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ ومن تبعہ الی یوم الدین اما بعد!
اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مقدس و محترم جماعت کا نام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پوری امت کے درمیان اللہ رب العزت کا مقرر کیا ہوا واسطہ ہیں۔ اس کے بغیر نہ قرآن کریم ہاتھ میں آسکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا بیان جسے ہم سنت و حدیث سے تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے انہیں خیر امت اور امت وسط کے لقب سے نوازا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو یہ ڈیوٹی اور ذمہ داری سونپ دی۔ فرمایا:
بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً.
(صحیح البخاری: رقم الحدیث3461 عن عبد اللہ بن عمرو)
ترجمہ: میری طرف سے (امت کو) پہنچاؤ اگر چہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔
بلکہ حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں اس جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا:
فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ.
(صحیح البخاری: رقم الحدیث1741 عن ابی بکرۃ)
کہ حاضرین میری باتیں غائبین تک پہنچادیں۔
اس کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی تمام تر تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلایا جو ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ذمہ لگائی تھی اس کا پورا پورا حق ادا کردیا۔
ادھر دشمنان دین نے بھی سب سے پہلے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مقدس کردار کو داغدار کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے اختیار کیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور امت کے درمیان کا یہ واسطہ کمزور پڑجائے اور یوں بغیر کسی محنت کے اسلام کا یہ دینی سرمایا خود بخود زمین بوس ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد کے اظہار اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی ان دشمنان دین نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ہدف تنقید بنایا۔
مدینہ طیبہ کے گورنر عبداللہ بن مصعب فرماتے ہیں کہ خلیفہ مہدی نے مجھ سے پوچھا کہ جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص کرتے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: وہ زندیق ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرنے کی تو ان میں ہمت نہ تھی انہوں نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص بیان کرنا شروع کردی۔ گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم برے لوگوں کے ساتھ رہتے تھے۔
(تعجیل المنفعۃ :ص271)
خطیب بغدادی (م463ھ) نے یہی واقعہ کچھ تفصیل سے تاریخ بغداد (ج8ص220) میں بیان کیا ہے۔
اس تفصیل سے بعض صحابہ کرام اور ان کے بارے میں لب کشائی کا پس منظر واضح ہوجاتا ہے مگر دشمنان اسلام اپنی تمام تدبیروں کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ کے مقرر کردہ اس طبقہ کی عدالت و صداقت کو داغدار نہ کرسکے اور محدثین عظام اور فقہاء کرام نے بیک زبان ”الصحابۃ کلہم عدول“ کی ایسی صدا بلند کی کہ اس کے مقابلے میں تمام کوششیں ہیچ ثابت ہوئیں۔
اوائل میں اسلام دشمنی کے اس محاذ پر ابن سبا کی ذریت تھی، رفتہ رفتہ اس میں بعض فرقوں نے بھی حصہ لیا۔
آخری دور میں مستشرقین اور ان کی معنوی اولاد نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیامگر علمائے حق نے ہر دور میں اس فتنہ کا تعاقب کیا اور دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حق ادا کیا۔
سبِّ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ممانعت احادیث و آثار کے آئینے میں
چند روایات پیش کی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلاکہنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں۔
[۱]: حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذو ہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن آذاہم فقد آذانی.
(مشکوٰۃ المصابیح: ج2ص554)
ترجمہ: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! ان کو میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بد ظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذاء دی تو گویا اس نے مجھے ایذا ء دی۔
[۲]: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
دعولی اصحابی لا تسبو اصحابی.
(مسند البزار: ج2 ص342 )
میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر کرو، میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا نہ کہو۔
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی صحیح بخاری ومسلم کے راوی ہیں۔
(مجمع الزوائد ج10ص21)
[۳]: حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی.
(المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص94)
میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے۔
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:علی بن سہل کے علاوہ اس روایت کے سب راوی صحیح بخاری کے ہیں اور علی بن سہل بھی ثقہ ہے۔
(مجمع الزوائد ج10ص21)
[۴]: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین.
(المعجم الکبیر للطبرانی:ج12 ص142)
جو میرے صحابہ کو براکہتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت ہو۔
[۵]: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احفظونی فی اصحابی.
(سنن ابن ماجہ: ص172)
لوگو !میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو۔
بعض روایات میں ”احسنوا الی اصحابی “ کے الفاظ ہیں۔
(سنن النسائی: رقم الحدیث9175)
کہ میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔
[۶]: حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا ذکر اصحابی فامسکو واذا ذکرت النجوم فامسکوا وذا ذکر القدر فامسکوا.
(المعجم الکبیر للطبرانی: ج2 ص96)
کہ جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خامو ش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو۔
حضرت ابن عباس سے یہی روایت موقوفاً ان الفاظ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا:
یا غلام ایاک وسب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فان سبہم مفقرۃ الخ
(کتاب الثقات لابن حبان ج8ص3 )
کہ اے بر خوردار: صحابہ کرام کو برا کہنے سے اجتناب کرو کیونکہ ان کو برا کہنا فقر و مسکینی کا باعث ہے۔
[۷]: ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
امروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسبوہم .
(صحیح مسلم: ج2ص421)
لوگوں کو حکم تو دیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
[۸]: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لا تسبوا اصحاب محمد فان اللہ عز وجل امرنا بالا ستغفار لہم وھو یعلم انہم سیقتلون.
(الصارم المسلول فصل نمبر5 المسئلہ الثانیہ فی استتابۃ الذمی بیروت )
کہ صحابہ کرام کو برا مت کہو ،بےشک اللہ نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل و قتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استغفار کا حکم فرمایا ہے۔
[۹]: حضرت زین العابدین رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ عراق سے ان کے ہاں ایک وفد آیا جنہوں نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں تو آپ نے فرمایا: کیا تم مہاجرین میں سے ہو؟ انہوں نے کہا :جی نہیں ،پھر آپ نے پوچھا: کیا تم انصار میں سے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ اس پر حضرت زین العابدین فرمانے لگے: جب تم ان دونوں میں سے نہیں ہو تو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی ہرگز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا.
ان تمام احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بری اور ناگوار بات کرنا، ان کی مذمت یا ان کو سب شتم کرنا منع ہے اور اس کے مرتکبین کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ائمہ حضرات کی آراء
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م150ھ) کا موقف:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی من جملہ تصانیف میں ایک کتاب ”الفقہ الاکبر“بھی ہے۔ اس کتاب میں آپ فرماتے ہیں:
تولاہم جمیعا.
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں:
ولا نذکر احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الابخیر .
کہ ہم سب صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں:
یعنی وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم.
(شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یعنی گو بعض صحابہ کرام سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے۔
الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابو المنتہی احمد بن محمد المگنیساوی لکھتے ہیں:
اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم کما اثنی اللہ ورسولہ علیہم وما جری بین علی و معاویۃ کان مبنیا علی الاجتہاد .
(شرح الفقہ الاکبر مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعہ حیدر آباد دکن 1948)
اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان لڑائی ہوئی وہ اجتہاد کی بناء پر تھی۔
امام عبداللہ بن مبارک (م181ھ) کا فرمان:
مشہور محدث، فقیہ،مجاہد اور زاہد امام عبداللہ بن مبارک اس سلسلے میں کس قدر محتاط تھے، اس کا اندازہ ان کے حسب ذیل قول سے لگایا جاسکتا ہے، فرماتے ہیں:
السیف الذی وقع بین الصحابۃ فتنۃ ولا اقول لاحد منہم مفتون.
(السیر ج8ص405)
کہ صحابہ کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے۔
امام عبداللہ بن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز میں سے کون افضل ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
واللہ ان الغبار الذی دخل فی انف فرس معاویۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل من عمر بالف مرۃ صلّٰی معاویۃ خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویہ رضی اللہ عنہ ربنا لک الحمد فما بعد ھذا الشرف الاعظم.
(مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر58 ص32ج1 )
اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حضرت معاویہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز سے ہزار بار افضل ہے، حضرت معاویہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں آپ نے ”سمع اللہ لمن حمدہ“ فرمایا تو حضرت معاویہ نے ”ربنا لک الحمد“ کہا اس کے بعد اور بڑا فضل و شرف کیا ہوگا؟!
امام ابو جعفر طحاوی (م321ھ) کی وضاحت:
اما م ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ وعمل کے ترجمان ہیں، موصوف اپنی مشہور کتاب ”العقیدۃ الطحاویۃ“ میں لکھتے ہیں:
نحب اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا نفرط فی حب احد منہم ولا نتبرا من احد منہم و نبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم ولا نذکر ہم الا بخیر وحبہم دین وایمان و احسان وبغضہم کفر و نفاق وطغیان .
(شرح العقیدہ الطحاویہ ص704 ج2 بیروت )
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور بغیر خیر کے ان کا ذکر کرتا ہےہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں، ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے اور سرکشی ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ مزید اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ومن احسن القول فی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وازواجہ الطاہرات من کل دنس وذریاتہ المقدسین من کل رجس فقد برئ من النفاق .
(شرح العقیدہ الطحاویہ ص490)
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں اچھی بات کرتا ہے، ازواج مطہرات کو ہر قسم کے عیب سے پاک سمجھتا ہے اور آپ کی مقدس آل و اولاد کو ہر قسم کی آلودگی سے مبرا سمجھتا ہے وہ نفاق سے بری ہے۔
یعنی اہل السنت والجماعت ناصبیوں اور رافضیوں کے افراط و تفریط سے بچ کر سب سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کہتے ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں صحابہ کرام شامل نہ تھے:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امام برحق تھے اور مظلوم شہید ہوئے۔ اللہ نے صحابہ کرام کو بالفعل ان کے قتل کرنے سے محفوظ رکھا، ان کو شہید کرنے والا متعنت شیطان تھا، کسی صحابی نے آپ کے قتل پر رضا مندی کا اظہار ثابت نہیں بلکہ سب صحابہ کرام سے اس بارے میں انکار ثابت ہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مسئلہ اجتہادی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ قصاص ضرور لیں گے لیکن تاخیر سے لیں گے اسی میں مصلحت ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی کہ قصاص جلدی لینے میں مصلحت ہے۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور ان شاء اللہ ان میں سے ہر ایک اجر کا مستحق ہوگا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد امام بر حق حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء تاویل کرتے تھے اور ان میں وہ صحابہ کرام بھی شامل تھے جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے فریقین سے علیحدہ رہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے سے رک گئے۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔ وہ تمام حضرات عادل تھے اور دین کو نقل کرنے والے تھے۔ نیز وہ دین پر عمل کرے والے تھے۔ انہی کی تلوار سے دین غالب ہوا اور انہی کی زبانوں سے دین پھیلا۔ اگر ہم ان آیات کی تلاوت کریں اور ان احادیث کو بیان کریں جو ان کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو بات لمبی ہوجائے گی۔ یہ چند کلمات ایسے ہیں کہ جو ان کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ گمراہی اور بدعت میں مبتلا ہوگا دیندار آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں اس بات کو پختہ کرے، جو واقعات (مشاجرات) صحابہ کرام کے درمیان رونما ہوئے ہیں ان سے اپنی زبان کو روکے رکھے، یہ وہ خون ہے کہ اس سے اللہ جل شانہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک و صاف رکھا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو اس سے آلودہ نہ کریں۔
(تحریر الاصول مع شرح تقدیر الاصول ج2ص2260)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے جس عقیدے کی نشاندہی علامہ سبکی رحمہ اللہ نے کی ہے اس کی وضاحت پہلے بھی ائمہ کرام کے حوالے سے گزر چکی ہے البتہ علامہ نووی رحمہ اللہ کی طرح جو انہوں نے فرمایا کہ ان معاملات میں ایک تیسرا فریق بھی تھا جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے علیحدہ رہا محل نظر ہے۔ یہی فریق اکثریت میں تھا اور ان کی علیحدگی فتنہ سے بچنے کے لیے تھی جیسا کہ باحوالہ گزرچکا ہے۔
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی (م676ھ) کا فرمان:
امام محی الدین ابو زکریا یحیی بن شرف النووی المتوفیٰ 676ھ شرح مسلم میں رقم طراز ہیں :
ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم والامساك عما شجر بينهم وتأويل قتالهم وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ولامحض الدنيا بل اعتقد كل فريق أنه المحق ومخالفة باغ فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا فى الخطأ لأنه لاجتهاد والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه وكان على رضى الله عنه هو المحق المصيب فى تلك الحروب هذا مذهب أهل السنة.
(شرح صحیح مسلم ص390 ج2 کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما )
اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے، وہ بلا شبہ مجتہد اور صاحب رائے تھے، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ قتال ضروری ہے تاکہ وہ امر الہی کی طرف لوٹ آئے۔ اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطاء پر تھے اور خطاء کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاء پر بھی گنہگار نہیں ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے۔
علامہ نووی نے جو کچھ بیان فرمایا ہے تھوڑی سی تفصیل سے اہل سنت کا یہی موقف انہوں نے کتاب فضائل الصحابہ کے اوائل میں بیان کیا جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
حضرت علی کی خلافت بالاجماع صحیح ہے، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی۔ حضرت معاویہ عادل فضلاء اور نجباء صحابہ میں سے تھے۔ ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا۔ یہ سبھی عادل ہیں، جنگوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متاول ہیں ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لیے کہ وہ سب مجتہد تھے۔
(شرح مسلم ص272 ج2)
اکثر صحابہ قتال سے علیحدہ کیوں رہے؟
اکثر صحابہ کرام قتال سے علیحدہ اس لیے رہے کہ ان حروب میں حصہ نہ لینے کا سبب فتنہ سے بچاؤ کرنا تھا کیونکہ بہت سی نصوص میں باہمی خانہ جنگی کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اکثر صحابہ کرام اسی بناء پر اس سے کنارہ کش رہے۔ امام محمد بن سیرین سے بسند صحیح منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : فتنہ رونما ہوا تو صحابہ کرام دس ہزار کی تعداد میں تھے، ان میں سے ایک سو بلکہ تیس کے قریب شریک ہوئے۔
ان کا یہی قول امام ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے جس کی سند کے بارے میں وہ فرماتے ہیں:
ھذا الاسناد اصح اسناد علی وجہ الارض.
( منہاج السنہ ص147 جز6 قطربہ الشاملہ)
کہ یہ سند روئے زمین پر سب سے زیادہ صحیح ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) کا فرمان:
حافظ ابو الفضل امام احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی المتوفیٰ 852ھ فرماتے ہیں:
والظن بالصحابۃ فی تلک الحروب انہم کانوا فیہا متاولین وللمجتہد المخطی اجر واذا ثبت ھذا فی حق احادی الناس فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الاولیٰ .
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ :ج7ص312الشاملہ )
ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہےتو صحابہ کرام کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اسی بحث کے ضمن میں ایک مقام پر رقم طراز ہیں:
واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك ولو عرف المحق منهم لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب الا عن اجتهاد وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا وان المصيب يؤجر أجرين.
(فتح الباری ج13ص43 کتاب الفتن باب ا اذا التقیٰ المسلمان )
اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بناء پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے اگر چہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقف حق تھا کیونکہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناء پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا۔
علامہ کمال الدین ابن الہمام (م861ھ) کا فرمان:
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام المتوفیٰ 861 شرح مسامرہ میں فرماتے ہیں:
واعتقاد اہل السنۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللہ عنہم وجوبا باثبات اللہ انہ لکل منہم والکف عن الطعن فیہم والثناء علیہم کما اثنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ واثنی علیہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما جری بین معاویۃ وعلی من الحروب کان مبنیا علی الاجتہاد لا منازعۃ فی الامامۃ .
(المسامرہ بشرح المسایرہ ص259 باب الرکن الرابع الاصل الثامن )
اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کو لازمی طور پر پاک صاف مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تزکیہ فرمایا ہے اور اہل سنت ان کے بارے میں طعن و تشنیع نہیں کرتے اور ان سب کی مدح و ثناء بیان کرتے ہیں جیسا کہ اللہ نے ان کی تعریف کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تعریف کی ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں، یہ جنگیں امامت و خلافت کے جھگڑا کی بناء نہ تھیں۔
امام الہند شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م1176ھ) کا فیصلہ:
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے اپنے انداز میں لکھتے ہیں:
واما آن کہ حضرت عائشہ و طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم مجتہد مخطی معذور بودند ازاں قبیل کہ من اجتہد فقد اخطا فلہ اجر واحد پس ازاں جہت کہ متمسک بودند بشبہ ہر چند دلیل دیگر ارجح ازوی بعد و موجب آن شبہ دو چیز است الخ
(ازالۃ الخفاء مترجم ج4ص521)
رہا یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم خطا کرنے والے معذور تھے اس اصول پر کہ جس نے اجتہاد کیا اور خطا کھائی تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے تو وہ اس اعتبار سے معذور ہیں کہ انہوں نے شبہ سے استدلال کیا اگر چہ اس سے زیادہ راجح دوسری دلیل بھی موجود تھی، اس شبہ کا موجب دو چیزیں تھیں۔
اس کے بعد انہوں نے ان دو شبہات کو بیان کیا ہے اور دونوں کے قرائن و دلائل بھی بیان کیے ہیں۔ اس تفصیل کے بعد شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں: انہی شبہات کی بناء پر ہی حضرت معاویہ اور حضرت علی کے مابین جنگ صفین ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ ہیں:
واما آنکہ معاویہ مجتہد مخطی معذور بود پس ازاں جہت کہ متمسک بود بشبہ ہر چند دلیل دیگر در میزان شرح راجح تر ازاں بر آمد مانند آنچہ در قصر اہل جمل تقریر گردم باز یادات اشکال.
اور رہا یہ کہ حضرت معاویہ مجتہد مخطی اور معذور تھے تو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شبہ کے ساتھ دلیل پکڑے ہوئے تھے اگرچہ دوسری دلیل بھی موجود تھی جو میزان شریعت میں اس سے زیادہ وزن رکھتی تھی، اسی طرح جس کی تقریر ہم اہل جمل کے قصہ میں بیان کرچکے ہیں بعض اشکال کے اضافہ کے ساتھ۔
گویا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل جمل سے بھی زیادہ اشکالات تھے جن کی بناء پر وہ حضرت علی کی بیعت نہ کرسکے اور بالآخر اس کا نتیجہ جنگ صفین کی شکل میں سامنے آیا۔ ان اشکالات کی وجہ سے حضرت معاویہ بھی معذور تھے گو حضرت علی کا موقف ان سے راجح اور دلائل کے اعتبار سے زیادہ صحیح تھا۔ وہ مزید اشکالات کیا تھے اس کی تفصیل شائقین حضرات ازالۃ الخفاء میں ملاحظہ فرمائیں۔
 
جنگ جمل
جنگ جمل کا واقعہ نصف جمادی الاولیٰ یا عند البعض جمادی الثانی 36ھ میں پیش آیا تھا۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور بیعت کی گئی تو اس میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، دیگر اکابر صحابہ اور اہل مدینہ نے بھی بیعت کی۔ جب بیعت ہوچکی تو اس وقت حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر اکابر صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مطالبہ پیش کیا کہ آپ مسند خلافت پر تشریف فرماچکے ہیں اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے متعلق انتطام فرمادیں کیونکہ اگر ہم شہید مظلوم کا انتقام نہ لیں اور فسادیوں کا قلع قمع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے عتاب و غضب کے مستحق ٹھہریں گے تو اس مطالبہ کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عذر پیش کیا کہ:
ان ھولاء لہم مدد واعوان انہ لا یمکنہ ذلک یومہ ھذا.
(البدایہ لابن کثیر ج7ص229 تحت ذکر بیعت خلافت علوی )
ان لوگوں کو مدد گار اور حمایتی میسر ہیں اس لیے یہ کام اس وقت نہیں ہوسکتا حالات کے سازگار ہونے کے بعد یہ ہوسکے گا۔
بہرحال اس جواب پر ان حضرات کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ قاتلان حضرت عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے پناہ لی تھی جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے:
وقاتلان بجز آنکہ پناہی بحضرت مرتضیٰ بردند با او بیعت کنند علامے نیافشند وکیف ماکان عقد بیعت واقع شد .
(قرۃ العینین ص143 طبع مجتبائی دہلی )
یعنی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ملا کہ حضرت علی کی بیعت کریں اور اس کی پناہ میں آئیں جیسا کہ یہ معاملہ ہوا بھی، بہر کیف یہ بیعت منعقد ہوئی۔
تو ان دو حضرات؛ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے عمرہ کی غرض سے مکہ کا سفر شروع کیا، جب مکہ پہنچے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور امہات المومنین بھی عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچ چکی تھیں۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر حضرات مکہ تشریف لے گئے۔ یوں مکہ میں صحابہ کرام، امہات المومنین اور دیگر حضرات کا اجتماع ہوا، ان تمام کا مقصد ایک ہی تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون ناحق اور ظلماگرادیا گیا ہے اس لیے ان کے قصاص کا مسئلہ سب سے پہلے طے ہونا چاہیے اور مجروں کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آئیں۔ بالآخر طے ہوا کہ اس سلسلے میں بصرہ پہنچنا چاہیے۔ منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت اگر مطالبہ پر جمع ہوجائے تو امید ہے کہ فریق ثانی بھی اس کی طرف توجہ کرے گا اور باہمی موافقت کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل رہنے کی درخواست کی گئی تاکہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ چنانچہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
فسارت معہم بقصد الاصلاح وانتظام الامور .
(تفسیر روح المعانی ج22ص10 تحت آیت وقرن فی بیوتکن )
اس کے بعد بہت سارے حضرات ان اکابر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ) کے ساتھ شریک ہوگئے اور بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔ بصرہ کے قریب جب دونوں جماعتیں اپنے اپنے مقام پر پہنچیں تو بعض معتمد حضرات کے ذریعے مصالحت کی گفتگو جاری ہوئی۔ اسی موقعہ پر حضرت قعقاع بن عمر التمیمی حضرت عائشہ اور ان کی جماعت کے پاس آئے اور عرض کیا:
ای اُمُّہ ما اشخصک وما اقدمک ھذہ البلدۃ قالت: ای بنی! اصلاح بین الناس.
(روح المعانی ج22ص9، 10 وقرن فی بیوتکن )
حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے ام المومنین! اس شہر میں آپ کا تشریف لے آنا کسی مقصد کے لیے ہے؟ تو ام المومنین نے فرمایا اے بیٹے !لوگوں کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کرنے کے لیے۔
اس پر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کریں تاکہ مسلمانوں میں انتشار کی یہ فضا ختم ہوجائے اور اتفاق پیدا ہوجائے تاکہ حضرت عثمان کا بدلہ لینا آسان ہوجائے۔
افہام و تفہیم کے اس بیان کے بعد حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نے ارشاد فرمایا:
اصبت واحسنت فارجع الخ
یعنی آپ کی بات درست ہے ہم اس پر آمادہ ہیں۔ آپ جائیں (اور فریق ثانی کو اطلاع دیں)
فرجع الی علی فاخبرہ فاعجبہ ذالک واشرف القوم علی الصلح کرہ ذالک من کرہہ ورضیہ من رضیہ وارسلت عائشۃ الی علی تعلمہ انہا انما جاءت للصلح ففرح ھولاء وھولاء.
(البدایہ لابن کثیر ج7ص239 روح المعانی ج22 ص9، 10)
مختصر یہ کہ جب یہ اطلاع حضرت علی کو ملی تو بہت خوش ہوئے اور باقی لوگ بھی صلح پر متوجہ ہوئے۔ البتہ بعض لوگوں کو یہ چیز ناگوار گزری اور بعض کو پسند آئی۔ بہرحال فریقین نے صلح ومصالحت پر اتفاق ظاہر کیا۔
اس موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ :
الا وانی راحل غدا فارتحلوا الا ولا یرتحلن غدا احد اعان علی عثمان بشئی فی شئی من امور الناس.
(الفتنۃ وقعۃ الجمل لسیف بن عمر الضی ص147 البدایہ لابن کثیر ج7ص237)
ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے (اور دوسرے فریق کے پاس جائیں گے) اور خبردار جس نے بھی حضرت عثمان کے قتل پر اعانت کی ہے وہ ہم سے الگ ہوجائے، ہمارے ساتھ نہ رہے۔
جب یہ اعلان ہوا تو فتنہ انگیز پارٹی کے سربراہ شریح بن اوفیٰ، علباء بن الہیثم، سالم بن ثعلبہ العبسی، عبداللہ بن سبا المعروف بابن السوداء وغیر ہ سخت پریشان ہوئے اور انہیں اپنا انجام تاریک نظر آنے لگا۔ قابل غور بات یہ تھی کہ اس پارٹی میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
ولیس فیہم صحابی وللہ الحمد.
( البدایہ لابن کثیر ج7ص238)
اس پارٹی نے ایک خفیہ مشورہ کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن باہم اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام رہا۔ چنانچہ شیخ عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں:
فان بعضہم کان عزم علی الخروج علی الامام علی رضی اللہ عنہ وعلی قتلہ لما نادیٰ یوم الجمل بان یخرج عن قتلۃ عثمان الخ .
(کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77)
بہرحال یہ دشمن تو اپنے اس مذموم عمل میں ناکام رہے، ادھر دونوں جماعتیں دو مقام پر جمع ہوئیں۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ”زابوقہ“ کے مقام پر پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جماعت کے ساتھ ”ذاقار“ کے مقام پر تشریف لائے۔ قعقاع کے میدان میں فریقین کی صلح ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین کو شرعی سزا دینے پر راضی ہوگئے اور دوسری جماعت (حضرت طلحہ وغیرہ) بیعت پر راضی ہوگئے اور اس صلح پر کوئی شک نہ رہا۔
وہم لا یشکون فی الصلح .
(الفتنۃ وقعۃ الجمل ص155 روح المعانی ج22ص9، 10)
ان حالات میں تمام حضرات نے خیر اور سلامتی سے رات گذاری لیکن مفسدین اور قاتلین عثمان پوری رات فتنہ کھڑا کرنے کی تدابیر میں مصروف رہے آخر کار تاریکی میں دفعۃ لڑائی کرادینے پر ان کا اتفاق ہوگیا۔
اس واقعہ جمل کو علامہ قرطبی نے اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں سورۃ الحجرات کی آیات کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے:
قلت : فهذا قول في سبب الحرب الواقع بينهم. وقال جلة من أهل العلم : إن الوقعة بالبصرة بينهم كانت على غير عزيمة منهم على الحرب بل فجأة ، وعلى سبيل دفع كل واحد من الفريقين عن أنفسهم لظنه أن الفريق الآخر قد غدر به ، لأن الأمر كان قد انتظم بينهم ، وتم الصلح والتفرق على الرضا. فخاف قتلة عثمان رضي الله عنه من التمكين منهم والإحاطة بهم ، فاجتمعوا وتشاوروا واختلفوا ، ثم أتفقت آراؤهم على أن يفترقوا فريقين ، ويبدأوا بالحرب سحرة في العسكرين ، وتختلف السهام بينهم ، ويصيح الفريق الذي في عسكر علي : غدر طلحة والزبير. والفريق الذي في عسكر طلحة والزبير : غدر علي. فتم لهم ذلك على ما دبروه ، ونشبت الحرب ، فكان كل فريق دافعا لمكرته عند نفسه ، ومانعا من الإشاطة بدمه. وهذا صواب من الفريقين وطاعة لله تعالى ، إذ وقع القتال والامتناع منهما على هذه السبيل. وهذا هوالصحيح المشهور. والله أعلم.
(تفسیر قرطبی ج16ص318، 319)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بصرہ میں جنگ جمل کا جو واقعہ پیش آیا تھا وہ قتال کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ صورتحال اچانک قائم کردی گئی تھی، ایک فریق یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے فریق نے بد عہدی کی ہے اپنے دفاع کے لیے قتال کررہا تھا کیونکہ ان کے درمیان صلح کی بات تو ہوچکی تھی وہ اپنی اپنی جگہ باہمی اعتماد اور رضا مندی سے ٹھہرے ہوئے تھے لیکن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق ہوا کہ یہ صلح ہوگئی تو ہماری خیر نہیں لہذا وہ جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے، پہلے ان کا کچھ آپس میں اختلاف ہوا لیکن بعد میں اس امر پر متفق ہوگئے کہ ہم دو جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں کچھ حضرت علی کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور کچھ دوسرے فریق میں گھس جائیں اور علی الصباح دونوں لشکروں میں لڑائی کی ابتداء کریں، ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق پر تیر اندازی کریں اور جو فریق حضرت علی کے لشکر میں پہنچے وہ فریاد کرے کہ حضرت طلحہ والوں نے عہد شکنی کی ہے اور جو حضرت طلحہ والو ں کے لشکر میں ہوں وہ فریاد کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ قتال اور دفاع دونوں فریق کی طرف سے مذکورہ نوعیت میں واقع ہوا تھا۔ یہی بات درست اور صحیح ہے۔
اس کو جنگ ”جمل“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آخر کار اس لڑائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت غالب آگئی اور دوسرے فریق کے اکابر حضرت زبیر اور حضرت طلحہ وغیرہم شہید ہوگئے اور یہ فریق مغلوب ہوگیا۔ اس کے بعد امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ام المؤمنین کو حفاظتی انتظام کے ساتھ لایا گیا۔ حضرت علی نے سلام عرض کیے اور خیریت دریافت کی، حضرت صدیقہ نے فرمایا: میں بخیریت ہوں، اس کے بعد چند ایام بصرہ میں گذارنے کے بعد جب حجاز کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ضروریات سفر مہیا کر کے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ روانہ فرمایا۔ چونکہ یہ واقعہ دشمنوں کی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے سرزد ہوا اس لیے اس واقعہ پر دونوں فریقین کی طرف سے اظہارِ افسوس روایات بھی منقول ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اظہار افسوس:
عن قیس بن عبادۃ قال قال علی یوم الجمل یا حسن لیت اباک مات منذ عشرین سنۃ فقال لہ یا ابہ قد کنت انہاک عن ھذا قال یا بنی انی لم ار ان الامر یبلغ ھذا.
(البدایہ لابن کثیر ج2ص240)
حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا اظہار افسوس:
فقالت انما ارید ان یحجز بین الناس مکانی قالت ولم احسب ان یکون بین الناس قتال ولو علمت ذالک لم اقف ذالک الموقف ابدا.
(مصنف عبدالرزاق ج5ص475 غزوات ذات السلاسل وخیر علی و معاویہ )
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرا خیال تھا کہ میں اپنے مقام و مرتبہ کی بنا پر لوگوں کے درمیان جنگ و قتال سے مانع ہوں گی اور مجھے یہ گمان ہی نہ تھا کہ لوگوں کے درمیان لڑائی واقع ہوگی۔ اگر یہ بات مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میں اس مقام پر ہرگز نہ پہنچتی۔
 
امی عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراضات کا جائزہ:
جنگ جمل میں شرکت کی وجہ سے حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ پر جو سطحی قسم کے اعتراضات کیے گئے ہیں ذیل میں ان میں سے کچھ اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
اعتراض1:
قرآن پاک میں ازواج مطہرات کو اپنے گھر میں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا ہے حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں شرکت کر کے قرآن مجید کے احکام کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔
جواب:
مشہور مثال ہے ”المعترض کالاعمیٰ“ یہی حال مذکورہ اعتراض کرنے والوں کا بھی ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت کریمہ ”و قرن فی بیوتکن ولا تبرجن“ میں استقرار فی البیوت کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک خاص نوعیت اور کیفیت کے ساتھ ہے اور وہ جاہلیت کی رسم کے مطابق زیب و زینت کے ساتھ بغیر پردے کے گھر سے باہر نکلنا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کے قول کے مطابق اگر امہات المومنین کو گھروں سے نکلنا منع ہوتا تو وہ درج ذیل احکام شرع پر کیسے عمل کرتیں حالانکہ بالاتفاق مندرجہ ذیل احکام ان کے حق میں بھی وارد ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ امور سر انجام بھی دیے ہیں:
٭ حج و عمرہ کے لیے جانا
٭غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا
٭نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت اپنے حجروں سے نکل کر عیادت کے لیے حضرت عائشہ کے حجرہ مقدسہ میں جانا
٭فوت شدگان کی تعزیت کے لیے جانا
٭ والدین اور اقارب کی ملاقات کے لیے تشریف لے جانا
٭عیادت مریض کے لیے تشریف لے جانا
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب امہات المومنین سفر حج کے لیے جانے لگیں تو ان کے ساتھ محافظ کے طور پر سیدنا عثمان غنی اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف کو امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے روانہ کیا۔
(روح المعانی ج22 ص12 تحت الایہ قرن فی بیوتکن )
اس سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کا اپنے گھروں سے نکلنا مطلقا منع نہ تھا، اس لیے امہات المومنین مذکورہ بالا امور شرعیہ کو پوری زندگی سر انجام دیتی رہیں اور دینی معاملات کو پورا کرنے کے لیے تستر اور حجاب کے ساتھ گھروں سے نکلتی رہیں اور آج گئے گزرے دور میں بھی پردہ نشین عورتیں ستر وحجاب کی پابندیوں کے ساتھ سفر کے لیے نکلتی ہیں خاص طور پر وہ سفر جو دینی، ملی یا دنیاوی مصالح پر مبنی ہو جیسے حج و عمرہ اور جہاد وغیرہ
جنگ جمل کے موقع پر ام المومنین سیدہ عائشہ نے بھی ایک دینی مصلحت یعنی اصلاح بین الناس اور مطالبہ قصاص ازخلیفہ عادل کے لیے سفر اختیار فرمایا تھا جو کہ بالکل صحیح تھا اور اس کا جواز حج و عمرہ کی طرح ہے۔ چنانچہ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بھی اس نوعیت کا تھا کہ مسلمانوں میں باہم رخنہ پڑگیا تھا اس کی اصلاح ہو اور امام عادل کے قتل کے قصاص کے مطالبہ میں سب مسلمان متفق اور شریک ہوں… آپ کا یہ سفر حج و عمرہ کے سفر کی مانند تھا۔
تحفہ اثنا عشریہ ص630 عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی
اعتراض2:
حضرت عائشہ کا یہ سفر بغیر محرم کے تھا لہذا، عند الشرع صحیح نہ تھا۔
جواب:
یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر ایک نیک مقصد کے لیے تھا اور شرعی محارم کے ہمراہ تھا، علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اماں جی کے ساتھ آپ کی بہنوں؛ حضرت اسماء اور ام کلثوم کے صاحبزادے اس سفر میں موجود تھے۔ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دریں سفر عبداللہ بن زبیر ہمشیرہ زادہ حقیقی وے ہمراہ وے بود وطلحہ بن عبیداللہ شوہر خواہرش ام کلثوم بنے ابی بکر وزبیر بن العوام شوہر خواہر دیگرش بود اسمائ بنت ابی بکر واولاد ایں ہر دو نیز ہمراہ بود
تحفہ اثناء عشریہ ص330 طبع لاہور در تحت جواب طعن اول
نیز عظیم مفسر سید محمود آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وکان معہا ابن اختہا عبداللہ بن الزبیر وغیرہ من ابناء اخواتہا ام کلثوم زوج طلحہ واسماء زوج الزبیر بل کل من معہا بمنزلۃ الابناء فی المحرمیۃ وکانت فی ہودج من حدید
روح المعانی ج22ص10 تحت الایۃ وقرن فی بیوتکن
خلاصہ یہ ہے کہ اماں جی رضی اللہ عنہا کا یہ سفر محارم کے ساتھ ہوا تھا۔ اس لیے یہ اعتراض ساقط الاعتبار ہے۔
اعتراض3:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے یہ قتال حضرت علی سے عناد اور عداوت کی وجہ سے کیا تھا اور اس میں ناکامی کی وجہ سے بعد میں شرمندگی کا اظہار کرتی تھیں اور رویا کرتی تھیں۔
نیز یہ اعتراض حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی عائد ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں حضرات کو بھی حضرت علی کی خلافت سے شدید عداوت تھی، حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ ایک بہانہ تھا۔
جواب :
اس اعتراض کے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں:
[۱]: یہ اعتراض بھی جہلاء نے اہلِ بیتِ رسول سے بغض و عداوت کی وجہ سے وضع کیا ہے حالانکہ اہل بیت رسول کے ساتھ امیر المومنین سیدنا علی اور دیگر اصحاب رسول کا بہت ہی اچھا برتاؤ تھا اور اہل بیت بھی حضرت علی المرتضی اور اصحاب رسول سے محبت و مودت کا تعلق رکھتے تھے۔
[۲]: واقعہ جمل پر صرف حضرت عائشہ نے ندامت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ امیر المومنین محبوب المسلمین سیدنا علی سے بھی اس واقعہ پر اظہار افسوس اور متاسفانہ کلام منقول ہے ذیل میں دو حوالے درج کیے جاتے ہیں:
1: سید محمود آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقد صح انہ رضی اللہ عنہ لما وقع الا نہزام علی من مع ام المومنین وقتل من قتل من الجمعین طاف فی مقتل القتلیٰ کان یضرب فخذیہ ویقول : یا لیتنی مت من قبل ھذا وکنت نسیا منسیا .
(روح المعانی ج22ص11 )
2 : امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حضرت امیر قتلی را ملاحظہ فرمود، را نہائے خود را کوفتن گرفت و مے فرمود یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا .
(تحفہ اثناء عشریہ ص335)
مذکورہ دونوں حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین سیدنا علی نے جب جمل کے مقتولین پر نظر ڈالی تو اس وقت بے ساختہ طور پر اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ کاش میں اس سے قبل فوت ہوگیا ہوتا اور بھلا دیا گیا ہوتا۔
کیا معترضین اب حضرت علی کے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو انہوں نے اماں جی کے بارے میں کہاہے بلکہ اس مقام پر حضرت علی المرتضی کے کلام سے جو مراد لیا گیا ہےحضرت عائشہ کے فرمان میں بھی اسی قسم کا کلام پایا گیا ہے اور اس کا مقصد و محمل بھی وہی ہے۔
[۳]: حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام کا واقعہ جمل کے بعد اس پر تاسف کرنا اور پریشان ہونا خشیت الہی اور تقوی کی بناء پر تھا اور مسلمانوں کے باہم قتال اور افتراق بین المسلمین پر تھا۔ اس سے جانبین کی باہمی عداوت اور عناد کا تصور قائم کرنا اصل کلام کے محمل سے بعید تر ہے اور مقصد کلام کے خلاف ہے اور توجیہ القول بمالا یرضی بہ القائل کے قبیل سے ہے۔
اعتراض4:
حضرت عائشہ نے جنگ جمل کے سفر میں نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بلکہ اس پر جمی بھی رہیں وہ اس طرح کہ اہل تشیع کی عام روایات اور اہل السنۃ کی بعض روایات میں ہےکہ حضرت عائشہ کا لشکر مکہ سے بصرہ کی طرح جب عازم سفر ہوا تو راستہ میں ایک ایسے مقام سے گزرا جہاں پانی تھا تو وہاں کتوں نے بھونکنا شروع کردیا۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسامقام ہے؟ تو محمد بن طلحہ نے جواب دیا کہ اس جگہ کو ”حوآب“ کہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ فرمانے لگیں کہ ”ردونی“ مجھے واپس لے چلو کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تم میں سے اس کا کیا حال ہوگا جس پر حوآب کے کتے بھونکیں گے۔ اس پر حضرت طلحہ و زبیر اور لشکر کے دیگر نے تحقیق کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ مقام ماء الحوآب نہیں ہے۔ لوگوں کی شہادت کے بعد حضرت عائشہ نے پھر آگے سفر شروع کردیا۔
اس روایت کی بناء پر مخالفین صحابہ سیدہ پر سخت معترض ہوئے کہ انہوں نے اس فرمان نبوی کی علانیہ مخالفت کی اور بصرہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔
جواب:
اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے:
1: روایت کے اعتبار سے 2: درایت کے اعتبار سے۔
روایت کے اعتبار سے:
[۱]: مستند کتب احادیث میں یہ روایت نہیں ہے۔
[۲]: واقعہ کی اکثر سندوں کا آخری راوی قیس بن ابی حازم ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے اور اس سے کئی منکر روایات مروی ہیں جن میں سے ایک روایت ”کلاب الحوآب“ بھی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن الحجر العسقلانی تحریر کرتے ہیں:
قال ابن المدینی قال لی یحیی بن سعید: قیس بن ابی حازم منکر الحدیث ثم ذکر لہ یحیی احادیث مناکیر منہا حدیث کلاب الحوآب.
( تہذیب التہذیب ج8ص388 تحت قیس بن ابی حازم )
[۳]: اس واقعہ کی بعض روایات میں عبدالرحمان بن صالح ازدی پایا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ جلنے والا شیعہ ہے اور صحابہ کرام کے حق میں مثالب و مصائب کی بری روایات بیان کرتا ہے اور کوفہ کے مشہور غالی جلنے والے شیعوں میں سے ہے۔
(الکامل لابن عدی ج4ص1627 تحت عبدالرحمان بن صالح، العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیۃ لامام ابن الجوزی ج2ص366)
[۴]: عظیم محقق مولانا محمد نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس واقعہ کی عام روایات عموما عند المحدثین سقیم پائی جاتی ہیں اور بیشتر علماء کےنزدیک اس واقعہ کی روایت منکر و مجروح ہیں۔
( سیرت سید علی المرتضی ص241)
[۵]: واقعہ حوآب مورخین کے نزدیک کوئی متفق علیہ امر نہیں ہے کہ جس کا انکار کرنا مشکل ہو کیونکہ قدیمی مورخین میں سے اکثر نے اس واقعہ کو اس مقام میں ذکر ہی نہیں کیا شہادت کے طور پر ہم فریقین کے ایک ایک مؤرخ کا فقط نام ذکر کرتے ہیں:
1: خلیفہ بن خیاط م240ھ
2: صاحب اخبار الطوال احمد بن داود دینوری شیعی م282ھ
بعض مورخین نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور اور مجروح ہے مثلا مورخ الطبری نے اپنی تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی سند علماء فن کے نزدیک مجروح ہے۔ مثلا:
1: طبری کا استاد اسماعیل بن موسی فزاری ہے جو غالی شیعہ ہے
2: پھر اس کا استاد علی بن عابس الرزاق بالکل غیر معتبر ہے۔
3: اس کے بعد دو راوی ابو الخطاب الہجری اور صفوان بن قبیصہ الاحمسی دونوں مجہول ہیں
4: پھر ان سے اوپر والے راوی صاحب الجمل العرنی اور اس کے بعد العرش کو ایک سوار ملتا ہے العرنی اور سوار دونوں مجہول ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ طبری کی یہ روایت مذکورہ بالا کوائف کی وجہ سے بالکل بے حکم ہے، ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، بعد والے لوگوں نے طبری سے ہی نقل کی ہے۔
درایت کے اعتبار سے:
اگر بالفرض ”روایت حوآب “کو درست تسلیم کر لیا جائے اور علماء کی تنقیدات سے صرف نظر کرلیا جائے تب بھی درایت کے اعتبار سے جواب یہ ہے کہ پیش کردہ روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عامر کے پانیوں سے گزرنے سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہے بلکہ خود حضور صلی ا للہ علیہ وسلم نے اپنے ازواج مطہرات کو بطور پیش گوئی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں ایک کو یہ مصیبت پیش آئے گی جو بعد میں صحیح ثابت ہوئی۔ اس حدیث سے نہی سمجھنا اور مخالفت رسول پر اصرار اور ضد کی نسبت سیدہ صدیقہ کی طرف کرنا بالکل غلط ہے اور سیدہ اس اعتراض سے بری ہیں۔
﴿جنگِ صفین﴾
بلادِشام کی مشرق جانب میں ایک مقام ہے جس کا نام ”صفین “ ہے۔ وہاں فریقین کی جماعتوں کا اجتماع ہوا۔ یہ محرم 37ھ کا واقعہ ہے۔
فریقین کا موقف:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس مسئلہ میں موقف یہ تھا کہ فریق مقابل کے مطالبہ قصاصِ دمِ عثمان کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ پہلے بیعت کریں، اس کے بعد اپنا قصاص عثمانی کا مطالبہ مجلس خلیفہ میں پیش کریں۔ بعد ازاں حکم شریعت کے مطابق اس مطالبہ کا شرعی فیصلہ کیا جائے گا۔
(البدایہ لابن کثیر ج8ص127تحت ترجمہ معاویہ )
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت میں متعدد صحابہ کرام تھے جو ملک شام میں رہتے تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ظلماً شہید کےگئے ہیں اور ان کے قاتلین علوی جیش میں موجود ہیں، لہذا ان سے قصاص لیاجائے اور ہمارا مطالبہ صرف قصاص دم عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے خلافت کے بارے میں ہمارا نزاع نہیں ہے۔
واما الخلافۃ فلسنا مطلبھا.
(الفتنۃ وقعۃ الصفین لنصرین تراجم المنقری الشیعی ص 70)
حجۃ معاویۃ ومن معہ ماوقع معہ من قتل عثمان رضی اللہ عنہ مظلوماً ووجود قتلتہ باعیا نھم فی العسکر العراقی
(فتح الباری ج3ص246 کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
ولیس المراد بما شجر بین علی رضی اللہ عنہ ومعاویۃ رضی اللہ عنہ المنازعۃ فی الامارۃ کما تو ھمہ بعضہم وانما المنان عنہ کانت بسبب تسلیم قتلۃ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الیٰ عشیرتہ لیقتصوا منھم.
(کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص27 المسامرۃ للکمال بن ابی شریف ص 158،159)
مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں فریقین کے موقف سامنے آگئے ہیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مطالبہ پر حضرت رضی اللہ عنہ طرف سے جو رائے تھی وہ درج ذیل ہے :
لان علیا کان رای ان تاخیر تسلیمھم اصوب اذ العبادۃ بالقبض علیہم مع کثرۃ عشائرھم واختلاطہم بالعسکر یودی الیٰ اضطراب امر الامارہ.
(کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77الصواعق المحرقۃ مع تطہیر الجنان ص216)
لہذا تعجیل کی بجائے تاخیر کرنی چاہیے۔
فریقین کے موقف یہی تھے۔ اور دونوں اپنے اپنے نظریات پر شدت کے ساتھ قائم رہے تاآنکہ یہ واقعہ پیش آیا۔
ایک اشکال مع جواب:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عام اشکال یہ ہوتا ہے کہ مطالبہ کا حق وارث کو ہوتاہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطالبہ کیوں کیا؟
اس کا جواب خود شیعہ کتب میں موجود ہے:
ان معاویۃ یطلب بدم عثمان ومعہ ابان بن عثمان وولد عثمان رضی اللہ عنہ.
( کتاب سلیم بن قیس الکوفی الہلالی العامری الشیعی ص 153 مطبوعہ نجف)
یعنی دم ِ عثمان کے قصاص کے مطالبہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابان بن عثمان اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیگر فرزند شامل تھے۔
اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں:
فریقین کے درمیان اس دور کے بعض اکابر حضرات کے ذریعے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور یہ کوشش کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قیام گاہ سے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے شروع ہوئی اور دیگر حضرات کے ذریعے تخلیہ اور صفین کے مقامات پر قیام کے دوران بھی یہ کوشش جاری رہی۔
(البدایہ ج7ص253،258 سیر اعلام النبلاء للذھبی ج3ص93)
لیکن فریقین اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے آخر قتال کی صورت پیش آئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فتر اسلوا فلم یتم لھم امر فوقع القتال الیٰ ان قتل من الفریقین
(فتح الباری ج13ص73)
جانبین میں مر اسلت ہوئی لیکن کسی بات پر معاملہ طے نہ ہو سکا تو قتال واقع ہوا اور فریقین سے لوگ مقتول ہوئے۔
ان کی صحیح تعداد اللہ کومعلوم ہے۔ جیسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقتل فی ھذاالموطن خلق کثیر من الفریقین لا یعلم الا اللہ.
(البدایہ ج7ص271)
البتہ جن اکابر کی اس قتال میں شہادت ہوئی ہے ان میں حضرت عمار بن یاسر ، حضرت خزیمہ بن ثابت ، رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں تھےاور حضرت عبیداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا، حضرت ذوالکفل اور حوشب رضی اللہ عنہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت میں سے شہید ہوئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
بعض مورخین کے قول کے مطابق بدھ ، جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کی رات ماہ صفر 37ھ کے اوقات اس جنگ میں مشکل ترین تھے اور ان ایام میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔
( البدایہ ج7ص261)
آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی دعوت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا اور طے ہوا کہ ہر فریق کی طرف سے ایک ایک حکم اس مسئلے کے فیصلے کے لیے منتخب کیا جائے۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمروبن العاص فیصل تسلیم کیے گئے اور طے ہوا کہ ہر دو فریق کے یہ دونوں فیصل دومۃ الجندل کے مقام پر جمع ہو کر فیصلہ کریں گے۔
( تاریخ خلیفہ ابن خیاطِ ج 1ص173،174 العبر للذھبی ج1ص43)
اعتراض:
مخالفین کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت پر سب وشتم اور لعن طعن کیا جاتا تھا۔
جواب:
اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں، ان میں سے دوتین درج کیے جاتے ہیں:
1: جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق مقابل کو سب وشتم کرنے کا ذکر ہے وہ سب روایات قواعد فن کی رو سے درست نہیں۔ ان کے راوی اور ناقلین مجروح اور مردود الروایۃ ہیں۔ مثال کے طور پر اس قسم کی روایات کے راوی ابو مخنف لوط ،یحیی، ابو جناب یحیی بن ابی حی کلبی اور ہشام بن سائب کلبی ہیں اور یہ لوگ علماء رجال کے نزدیک کذاب، دجال، جھوٹے، مفتری، شیعہ امامیہ اور رافضی ہیں اور یہ لوگ روایات میں اپنی طرف سے ملاوٹ کرنے والے اور دروغ گوئی کرنے والے ہیں۔ اس لیے ان کی روایات ناقابل اعتبار اور متروک ہیں۔
2: بعض اوقات کلام میں الفاظ توسختی اور تلخ قسم کے پائے جاتے ہیں لیکن ان سے مراد گالی گلوچ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات باہمی درشت کلامی، سخت گوئی اور تلخ نوائی کو راوی سب و شتم سے تعبیر کردیتے ہیں ایسے مواقع پر صرف فریق مخالف کے عیوب کی نشان دہی کرنا اور دوسرے کی رائے کو غلط اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے، لعن طعن اور گالی مقصود نہیں ہوتی۔
3: اگر بالفرض کسی جگہ روایات میں سب و شتم اور لعن طعن پایا بھی جائے تو اس کے مقابل ان روایات پر بھی نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جن روایات میں سب و شتم اور لعن طعن سے منع کیا گیا ہے۔ پھر ان متقابل روایات میں قاعدہ ”والمحرم مقدم علی المبیح“ کے مطابق تطبیق دی جائے گی اور سب و شتم اور لعن و طعن سے منع کرنے والی روایات کو اباحت والی روایات پر ترجیح دی جائے گی۔