پیارے نبیﷺ بات کے دھنی تھے۔ جو وعدہ فرما لیتے تھے اسے پورا کر کے رہتے تھے۔ آپ کی پوری زندگی سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جا سکتا جس سے عہد شکنی ثابت کی جا سکے۔ دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اعتراف کرتے تھے۔
تاریخ کو دیکھیے۔ قیصرِ روم ابو سفیان سے دریافت کرتا ہے” کیا محمد نے کبھی بد عہدی بھی کی ہے؟” ابو سفیان کا جواب نفی میں سن کر وہ کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔
صلح نامۂ حُدیبیہ کی ایک شرط تھی “کوئی مکہ والا مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو واپس کر دیا جائے گا۔” ٹھیک اسی وقت جب یہ عہد نامہ تحریر کیا جا رہا تھا ابو جندل رضی اللہ عنہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر مدینہ آ جاتے ہیں اور رسول اللہﷺ کو اپنی حالتِ زار دکھا کر فریادی ہوتے ہیں۔ یہ منظر بہت ہی درد انگیز اور جذباتی تھا۔ تمام مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں اور سفارش کرتے ہیں، لیکن حضورﷺ نہایت اطمینان اور پُر وقار انداز میں مخاطب ہوتے ہیں ______ “ابو جندل ! تم کو واپس جانا ہو گا، میں بد عہدی نہیں کرسکتا۔” الفاظ کرب و الم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ آپ کو حسرت بھری نظر سے دیکھتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔
٭٭٭