میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ جمیلہ/ پشپا

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

جمیلہ/ پشپا

میرے والد کا نام شیو رام بھگت تھا، والدہ کا نام سومی بائی تھا۔ میرا تعلق پنجاب کے راج پورہ ضلع پٹیالہ کے بھگت خاندان سے تھا۔ ہم لوگ تین بہنیں تھیں۔ میرے اللہ کو مجھ سے پیار تھا اور میرے رب نے کرم کیا کہ ایمان کی دولت سے نوازا اور کفر کو مجھ سے دور کیا اور بظاہر ”مسلم عورت کی ستر پوشی” میرے اسلام لانے کا سبب بنی۔ ہمارا گھرانہ غریب تھا۔ میری والدہ کی بہن کی شادی ایک بڑے گھرانے میں ہوئی۔ جب میری شادی ہوئی، اس وقت میری عمر ٢٠ سال تھی۔ میری خالہ نے سوچا کہ میری بھانجی بھی بڑے گھر میں آ جائے، اس لیے انھوں نے اپنے دیور کے بیٹے سے جو کہ سی بی آئی آفیسر تھے، میری شادی کرا دی۔ میری والدہ امیر غریب کے خوف کی وجہ سے شادی پر آمادہ نہ تھیں۔ ایک طرح زبردستی یہ شادی کرائی گئی۔ شادی کے بعد معلوم ہوا کہ جن سے میرا بندھن بندھا ہے، وہ بے حد لاپروا اور شرابی ہیں۔ سسرال میں میرا حال تو نوکر سے بھی بد تر تھا اور میں کٹھ پتلی کی طرح سسرال میکے میں گھمائی جاتی۔ ١٩٧٠ء میں میری شادی ہوئی اور ١٩٧٣ء میں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس وقت میں بے حد ستم رسیدہ حالت میں اسپتال میں تھی۔ میری ماں نے بھی میری پروا چھوڑ دی۔ بے چاری کیا کرتی، حالات ہی ایسے تھے۔ میں نے لوگوں کے جھاڑ و برتن کیے اور ایسے حالات میں اللہ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی کی مجھے ماں بنا دیا، اللہ نے مجھے دماغ بہت تیز دیا ہے۔

میں نے ١٩٨٠ ء میں سلائی کڑھائی کے کارخانے میں ٢٥٠ روپے ماہانہ تنخواہ پر کام شروع کیا۔ وہیں سے میرا اسلام سے تعلق جڑا۔ وہ کارخانہ کسی ہندو کا تھا، لیکن اس میں نوکر مسلمان تھے اورمسلمان بریلوی خیال کے تھے۔ میں ساڑی پہن کر کارخانے جاتی اور میرا بلاؤز بغیر آستین کے ہوتا تھا۔ مسلم ورکر بولے: بہن جی، آپ ہمارا ایمان خراب کرتی ہیں! میں بولی : ایمان کیا ؟ وہ بولے: ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہمارے یہاں مسلم عورت ستر پوش یعنی پوری ڈھکی چھپی رہتی ہے اور اس لیے مردوں کا ایمان بھی سلامت رہتا ہے اور عورتوں کا بھی۔

میں نے کہا کہ ایمان کیا ہے؟ بولے کہ ایک کلمہ ہے۔ وہ پڑھا جاتا ہے۔ میں بولی کہ وہ تو مسلمان عورتیں ہیں، اپنے دھرم کی وجہ سے کرتی ہیں، مسلم ورکر بہت دردمندی سے بولے کہ بہن جی، آپ چاہے جو بھی ہوں، ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ بھی ہماری ماں بہنوں کی طرح کپڑے پہنو۔ میرے دل میں ان کے ایمان کی، ستر پوشی کی بات گھر کر گئی اور میں سوچنے لگی کہ کیسا اچھا ایمان ہے ان کا، اور ان کے یہاں کس قدر عورت کی عزت کی جاتی ہے اور ان ورکرز کے ایمان کے اندر آنے کے لیے میرا دل بے قرار ہو گیا۔ اگلے دن میں نے کہا کہ بھائی میں تمھارے ایمان میں آنا چاہتی ہوں، مجھے کیا کرنا ہو گا؟ بولے: ایک کلمہ ہے، وہ پڑھنا ہو گا۔ میں نے کہا: جلدی مجھے پڑھاؤ۔ بولے کہ ہم نہیں پڑھا سکتے، ہمارے بابا پڑھائیں گے۔ اور وہ فلاں دن آتے ہیں۔ اب مجھے اس فلاں دن کا بے قراری سے انتظار رہنے لگا۔ خدا خدا کر کے وہ دن آ گیا۔ ایک لمبا سا چوغا اور طرح طرح کی گلے میں مالائیں پہنے اور ہری ٹوپی پہنے بابا کارخانے میں تشریف لائے اور انھوں نے رومال پکڑوا کر کہلوایا: صلی علیک یا محمد۔ یا اللہ۔ یا محمد۔ یا علی المدد۔ کر مدد۔ یہ اس زمانے کا میرا ایمان تھا۔ جیسے کہا، جو بتایا، میں نے کہا اور پڑھا اور بہت زمانے تک ہر وقت یہ ورد کرتی رہی اور پھر مجھے بتایا گیا کہ قبروں پر جانا ہے، میں ان بابا کی مرید بن گئی۔ اور میں نے ہندوستان کے بڑے بڑے مزاروں پر حاضری دی اور جیسا وہاں ہوتے دیکھا، ویسے کرتی رہی۔

ادھر میں نے ساڑی کی جگہ سوٹ پہننا شروع کیا اور خود کپڑے ڈیزائن کرنا شروع کیے اور میرے ڈیزائن ڈریس کی بہت قیمت لگی۔ میں نے الگ سے مشین خریدی اور خود ڈیزائن کر کے ڈریس تیار کی اور بازار میں فروخت کی، میرا کاروبار چل نکلا۔ ١٩٨٢ء میں اوکھلا فیز۔ ٢ میں، میں نے اپنے کارخانے کی بنیاد ڈالی اور الگ سے مسلم ورکرز رکھے۔ مجھے کمانے کی دھن لگ گئی اور اللہ نے قابل بنا دیا کہ نہرو نگر، نئی دہلی میں ٣ منزلہ ایک پورا کیمپس خرید لیا۔ ہاں ایک اور بات یاد آئی۔ جب میں کارخانے میں کام کرتی تھی، بابا کو خانقاہ کی ضرورت تھی، میری ماں نے میرے نام ایک دکان کر دی تھی، وہی ان کی کل جائداد تھی۔ بابا کو خانقاہ کے لیے زمین کی ضرورت تھی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: وہ دکان کے کاغذات دے دو مجھے ایک مکان خریدنا ہے۔ میں نے ماں سے جھوٹ بولا، ورنہ ماں بھی کاغذ نہ دیتی۔ میں نے کاغذات لے کر وہ دکان اس زمانے میں ١٢ ہزار کی فروخت کر دی۔ ١١ ہزار ان بابا کو خانقاہ کے لیے دے دیے۔ ایک ہزار خود رکھے، اس وقت سروس کرتی تھی۔ ٢٥٠ روپے تنخواہ، تین بچے اور خود اور مکان کا کرایہ، ایک ہزار کرایہ جمع کیا اور دلی کورٹ پٹیالہ ہاؤس میں جا کر باقی پیسے سے اسلام قبول کرنے کی کارروائی پوری کی۔ بس اس وقت اللہ کے نام پر دینے کی دھن سوار تھی۔ میں چاہتی تھی کہ کماؤں اور اللہ کے لیے لٹاؤں، مجھے کمانے کی دھن لگ گئی۔ نہرو نگر میں اللہ نے جائداد دلوا دی۔ وہاں جو وکرز کام کرتے تھے، وہ نماز نہ پڑھتے تھے، البتہ نماز کے بہانے جاتے اور باہر جا کر پکچر دیکھنے چلے جاتے اور میں نمازیوں کو ہی کام دیتی تھی۔ مگر ورکر چالاکی کرتے۔ میں نے سوچا، مجھے ایسی جگہ کارخانے کی تلاش کرنی چاہیے، جہاں مسجد کارخانے سے ملی ہوئی ہو، تب میں نے حاجی کالونی، غفور نگر (جامعہ نگر، دہلی۔ ٢٥) میں زمین خریدی اور کارخانہ ادھر شفٹ کیا، لیکن ادھر چونکہ میں اکیلی کام کرتی تھی اور مسلم ایریا میں مسجد کی وجہ سے شفٹ ہوئی تھی، تاکہ ورکر نماز ضرور پڑھیں اور دیر تک غائب بھی نہ ہوں کہ کارخانے میں کام کا نقصان نہ ہو، لیکن ادھر کے مسلمانوں نے مجھے بہت تنگ کیا کہ یہ کیسے مسلمان بنی ہے، لڑکوں سے کام کراتی ہے، طرح طرح کی باتیں … میرا ذہن پریشان ہو گیا، حتیٰ کہ میرا کارخانہ ٹھپ ہو نے لگا اور میں بچوں کے پاس نہرو نگر چلی گئی۔ کام بالکل بند ہو گیا۔ میں غریبی میں چلی گئی، فاقے ہونے لگے، میں نے کترن بیچنا شروع کی اور پھر کچھ سہارا شروع ہوا۔ پھر کچھ اور اچھی مسلمان بہنیں ملیں۔ انھوں نے سہارا دیا، اسی طرح مولوی ذوالفقار صاحب نے میری بڑی رہنمائی کی۔ انھوں نے مجھے اپنی ماں بنا لیا اور حقیقی ماں کی طرح میرا خیال رکھنے لگا۔ میں نے حاجی کالونی (جامعہ نگر، نئی دہلی۔ ٢٥) میں پھر کارخانہ شروع کیا۔ اور نائٹی، ٹاپ اور پٹیالیہ شلوار کی ڈیزائننگ کر کے مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دی اور یہاں بھی میں نے عمارت بنا لی اور خود بھی ادھر ہی شفٹ ہو گئی اور تب میں نے جانا کہ جس اسلام پر میں چلتی ہوں، قبر پرستی، وہ صحیح نہیں۔ کلمہ صحیح کیا ہے، اب معلوم ہوا۔ نماز یہاں آ کر سیکھی، قرآن کریم پڑھا، تبلیغی جماعت کی بہنوں سے میل جول پیدا کیا۔ میں نے جب نماز سیکھی اور اس کو ادا کیا تو سمجھ میں آیا کہ حدیث نبویؐ ”نماز مومن کی معراج ہے” کا کیا مطلب ہے، نماز واقعی معراج ہے۔

رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ میں روزے برابر رکھتی رہی، نمازیں بھی ادا کرتی، لیکن نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکتی تھی۔ مجھے شوگر ہو گئی او ر گھٹنوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ جہاں میں رہتی ہوں، وہاں میرے ایسے پورشن ہیں کہ بآسانی کرائے دار بھی رکھتی ہوں۔ لیلۃ القدر آ گیھ، سب لوگ کھڑے ہو کر نوافل میں مصروف تھے۔ میں بھی اس رات جاگ رہی تھی۔ پیروں کے درد کی وجہ سے اٹھ نہ سکتی تھی۔ کسی مسلم بہن نے بھی مجھے اس رات کے بارے میں کچھ خاص نہ بتایا۔ اور میرا دل پھٹا جا رہا تھا کہ کوئی آئے، مجھے تسلی دے، اس رات کی عظمت کے بارے مںک بتائے۔ میں ایسے میں کیسے عبادت کروں، کوئی میری مدد کرے۔ پھر بے بسی کی کیفیت طاری ہوئی۔ میں بیٹھے بیٹھے سجدے میں جا گری اور اسی طرح مالک کے سامنے آہ و فغاں کی، تڑپ تڑپ کر روئی، روتے روتے زور زور سے میری چیخیں لگ گئیں۔ مجھے کچھ ہوش نہ رہا، بس اللہ اور میں فریادی! میری یہ بے بسی کہ عبادت اور نماز بھی کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکوں، اس کا احساس ہوا کہ یکایک مجھے لگا، میں کھڑی ہو سکتی ہوں اور میں سیدھی کھڑی ہو گئی اور اس رات میں نے کھڑے ہو کر خوب نماز ادا کی اور میں جو چلنے پھرنے سے معذور تھی، چلنے پھرنے لگی اور کئی سال تک میں ایسی رہی کہ مجھے کوئی بیماری نہیں تھی، میری شوگر بھی ختم ہو گئی۔ ہم بہت نکمے ہیں، پھر دنیا داری میں پھنس گئی اور پھر وہی بیماری۔

میں نے ”فضائل اعمال” پڑھنا شروع کی۔ جب میں نے یہ پڑھا کہ جس کا بیٹا حافظ قرآن ہو گا، آخرت میں اس بیٹے کی ماں کو تاج پہنایا جائے گا۔ میں تڑپ گئی کہ یا اللہ! اب میں کیا کروں! میرے دو بیٹے ہیں، ان کی شادی ہو چکی، بچے بھی ہو گئے، کیونکہ میں بس صلی علیک یا محمد، المدد، کر مدد اور قبروں پر جانے کو مسلمان ہونا سمجھتی تھی، بس خود ہی مسلمان بنی رہی، لڑکے خاندانی حالت پر ہیں، ان کی شادی میں نے ہندو لڑکی سے کی اور مجھے پھر اس نعمت سے محرومی نے دکھی کر دیا۔ میں زار و قطار روئی کہ سب حافظوں کی ماؤں کو تاج پہنایا جائے گا، میرے لیے کوئی تاج نہ ہو گا۔ میرا کوئی بیٹا حافظ نہیں۔ ایک پڑوسن دین دار تھیں، میرے ہر وقت کے رونے کو دیکھ کر کہنے لیںے کہ تم میرے بیٹے کو پڑھا لو، حافظ بنا لو۔ دوسروں نے کہا کہ کوئی غریب بچہ پڑھا لو۔ میں نے غریب بچے کی تلاش شروع کر دی۔ ایک بچہ جس کا نام احتشام تھا، اس کو پڑھانے کے لیے سہارن پور مدرسہ سو کڑی میں چھوڑا اور وہ الحمد للہ حفظ کر رہا ہے، پھر مجھے لوگوں نے کہا: ایسے تاج نہیں پہنایا جائے گا۔ آپ بن ماں باپ کا بچہ تلاش کرو۔ اس کو حفظ کراؤ۔ اب میں اور رونے لگی اور لگتا تھا کہ روتے روتے جان چلی جائے گی کہ ہائے محرومی! مجھے تاج نہ پہنایا جائے گا۔ اب میں نے کسی ہندو غریب کی جھگی جھونپڑی میں تلاش شروع کر دی۔ ایک بچہ اللہ نے مجھے ملایا، جو بن ماں باپ کا ہے، عبد اللہ اس کا نام رکھا۔ اسے رائے پور سہارن پور کی طرف لے کر گئی اور اسے پڑھا رہی ہوں۔ ماشاء اللہ اس کا ١٢ واں پارہ ہے، رائے پور میں پڑھ رہا ہے۔ دونوں بچوں کے لیے کپڑا خرچ وغیرہ لے کر جاتی ہوں۔ میرا پوتا میرے پاس رہتا ہے۔ ١٢ سال کا ہے۔ اسے حوض والی مسجد میں بھیجا ہوا ہے، امن نام ہے، دعا کیجیے کہ وہ بھی حافظ ہو جائے، آمین!”فضائل اعمال” میں پڑھا کہ سود خور کے ساتھ یہ معاملہ ہو گا کہ اس کے پیٹ میں سانپ بچھو ہوں گے۔ ہمارے یہاں ہفتے میں اجتماع ہوتا ہے اور میں پنجاب وغیرہ بھی جاتی ہوں۔ وہاں ہندو بہنیں میرا وعظ سنتی ہیں۔ جالندھر میں میں نے جب یہ سود والی حدیث سنائی تو ہندو ہوتے ہوئے بھی سب نے یقین کر کے وہاں سود لینا دینا چھوڑ دیا، اور وہ بے چین رہتی ہیں کہ اپنے دھرم کی اور بات بتاؤ۔ لوگ پیاسے ہیں، مجھے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں، بس قرآن (ہندی ترجمہ) اور ”فضائل اعمال” پڑھی ہے۔ مسلمان اگر آگے آئیں تو لوگ پیاسے کھڑے ہیں۔ ذرا سے اشارے کی دیر ہے، دامن اسلام مںس آ جائیں گے۔

میرے شوہر نے ٢٥ سال سے میرا اور میرے بچوں کا کوئی خرچ نہیں اٹھایا۔ اب وہ پچھلے دنوں ریٹائر ہوئے اور انھوں نے فنڈ کے پیسے سے ایک فلیٹ خریدا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ وہ فلیٹ انھیں گروی رکھنا پڑا۔ ناچار میرے نہرو نگر والے فلیٹ میں جہاں میرے دونوں لڑکے اپنی فیلؤ کے ساتھ رہتے ہیں، ان کو آنا پڑا۔ میں برابر سب رشتے داروں سے ملتی ہوں، جب کچھ دن باپ کو بیٹے اور بہو کے پاس رہتے ہو گئے تو بڑی بہو نے انہیں باہر کر دیا۔ اب یہ دوسرے بیٹے کے گھر میں گئے۔ دیکھتی کیا ہوں کہ ایک دن میری بڑی بہو ان کو کھانا ایسے دیتی ہے، جےسی کسی کتے کو ڈالتے ہیں۔ میں نے کہا: تم اس طرح سلوک کرتی ہو، اس طرح تو لوگ کسی کتے کو بھی نہیں دیتے ہیں۔

خیر میں حسب معمول خرچہ دینے کے لیے رائے پور حفظ کرنے والے بچے کے پاس گئی تو وہاں جامعہ اسلامیہ دہلی کا ایک بچہ گیا، وہ وہاں حفظ کر رہا ہے، رائے پور میں رہتا ہے۔ اللہ نے اسے دین پر لگا دیا ہے۔ وہ بولا: ماں جی! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ میری سب کہانی کا حال اس نو مسلم بچے نے اسے بتا دیا ہو گا۔ بولا: آپ کے شوہر ہندو ہیں، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنے شوہر کو دین کی دعوت دیں۔ مجھے ان کے سلوک کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی تعلق محسوس نہ ہوتا تھا۔ میں نے کہا کہ بیٹے، وہ تو بہت بڑے شرابی ہیں، شراب کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ وہ بچہ بولا کہ اماں، اگر آپ کو شراب کا گلاس بھر کر بھی دین کی دعوت دینی پڑے، تب بھی آپ دین کی دعوت دیں۔ یہ دعوت دینا بہت ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ ضرور ایمان لے آئیں گے۔ آپ ایسے بھی جذبے والی ہیں۔ آپ یہ کام ہر حال میں کریں، اب میں گھر آ گئی۔ میں نے فون اٹھایا، ادھر سے فون انھوں نے اٹھایا، مگر میں کچھ ہمت نہ کر سکی۔ عجیب شرم محسوس ہوئی، مگر دل ہی دل میں اللہ سے گڑگڑاتی : اے اللہ، تو انھیں ایمان کی دعوت دینے کی مجھے ہمت عطا کر۔ میری بہن ہندو ہے، مگر سب کلمہ ورد جانتی ہے۔ وہ بھی بہنوئی کی ایسی درگت سے دکھی تھی۔ وہ روز کہتی کہ تو مسلمان بن جا، تیری زندگی بن جائے گی۔ دیکھ میری بہن کی مسلمان بننے سے کیسی زندگی بنی ہوئی ہے۔ روز روز کہتی رہی۔ ایک دن دیکھتی کیا ہوں کہ زبردستی میرے شوہر کو میرے گھر لے آئی۔ میں ناراض ہوئی کہ تو اس ہندو شرابی کو کیوں لے کر آئی ہے؟ وہ بولی: یہ مسلمان بننے کو تیار ہے۔ غفار منزل کی مسجد میں صبح ١٠ بجے کسی مولوی صاحب کا بیان تھا۔ ان کو وہاں لے گئی اور وہاں پر مولوی صاحب نے ان کو کلمہ پڑھایا، پھر نکاح پڑھایا۔ وہ نکاح پڑھا کر جانے لگے، میں روٹھی روٹھی تھی، میرے بیٹے ذوالفقار نے ان سے کہا: میری جمیلہ ماں کو سمجھائیے کہ پردہ کیے بیٹھی ہیں۔ پردہ چھوڑیں اور ناراضگی بھی ختم کریں۔ مولوی صاحب نے مجھے سمجھایا، میری سمجھ میں بات آ گئی۔ مگر ٢٥ سال سے الگ رہ رہی تھی، عجیب سا حجاب آتا ہے، ویسے جتنا کچھ ہو رہا ہے، خدمت کر رہی ہوں۔ آج ٢٢ دن ہو گئے انھوں نے شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔

میرے دونوں لڑکے اگرچہ ہندو ہیں، لیکن بسم اللہ، الحمد للہ سب پڑھتے ہیں۔ بڑی بہو تو کٹر ہے، لیکن چھوٹی بہو بہت نرم دل ہے۔ چھوٹا بیٹا میرے ساتھ کام کرتا ہے، بلکہ اب فیکٹری، دکان سب کچھ وہی سنبھالتا ہے۔ بس بہو سے ڈرتا ہے۔ مجھے ان کو اسلام کی دعوت دینا ہے۔ ویسے میرا یہ منہ بولا بیٹا ذوالفقار اور بہو مثالی بہو بیٹے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حج بھی کر چکی ہوں۔

ایک مرتبہ میں نے خواب دیکھا کہ میرا ایک کمرہ ہے، جو بے حد حسین اور طوطیا رنگ کا ہے، اس کے رنگ کا حسن بیان سے باہر ہے۔ وہاں میں اور ایک آدمی مسجد میں پڑے ہوئے ہیں۔ بے حد حسین، ناقابل بیان عورتیں، ہیرے جواہرات، زمرد، موتیوں کے تھال لیے بیٹھی ہوئی ہیں۔ دوسرا خواب کہ میں لا انتہا اونچائی پر کھڑی ہوں، بے حد سفید لباس میں اور میرے چاروں طرف بے حد سفید لباس ہیں اور بے حد شفاف پانی ہے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ تعبیر تو اللہ جانتا ہے، کیا ہے، مگر بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔ ایک بار دیکھا کہ چٹیل میدان ہے، میں اور میرا پوتا امن میرے ساتھ ہے کہ زبردست زلزلہ آیا، بڑا خوف ناک، میں الحمد شریف پڑھنے لگی ہوں کہ ایک دم زلزلہ الحمد پڑھنے سے رک جاتا ہے۔

مسلمانوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں، ہندوؤں سے میل جول رکھیں۔ یہ دوریوں کی سرحدیں گرائیں۔ ہندو قوم اسلام دھرم (مذہب) کے بارے میں جاننے کو بے چین اور متجسس رہتی ہے۔ قریب آئیں، ان شاء اللہ لوگ جوق در جوق اسلام میں کھنچے چلے آئیں گے۔

(بشکریہ ماہنامہ ”اللہ کی پکار” نومبر 2008)