نماز کا بیان – سبق نمبر 40:
عَنْ اَبِی الدَّرْدَآئِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلَّی الضُّحٰی رَکْعَتَیْنِ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی اَرْبَعاًکُتِبَ مِنَ الْعَابِدِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی سِتًّاکُفِیَ ذٰلِکَ الْیَوْمَ وَمَنْ صَلّٰی ثَمَانِیًاکَتَبَہُ اللّٰہُ مِنَ الْقَانِتِیْنَ وَمَنْ صَلّٰی ثِنْتَیْ عَشَرَۃَ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًافِی الْجَنَّۃِ۔ (مجمع الزوائد للھیثمی ج2 ص494 باب صلوٰۃ الضحیٰ، رقم الحدیث 3419)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے چاشت کی دو رکعات پڑھیں تو ا س کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا۔ جس نے چار رکعات پڑھیں تو اس کانام عابدین میں لکھا جائے گا۔ جس نے چھ رکعات پڑ ھیں اس دن اس کی کفایت کی جائے گی، جس نے آٹھ پڑھیں اسے اللہ تعالی اطاعت شعاروں میں لکھ دیں گے اور جس نے بارہ رکعات پڑھیں تو اس کے لئے اللہ تعالی جنت میں گھر بنا دیں گے
اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور ہر مسلمان اللہ پاک کا محبوب اور مقرب بندہ بننا چاہتا ہے۔ اللہ پاک نے بنی آدم کو اپنامحبوب و مقرب بندہ بننے کے بہت سے ذرائع بیان فرمائے ہیں جن کے ذریعے بندہ اللہ پاک کا محبوب و مقرب بندہ بن سکتا ہے۔ ان میں سے ایک ذریعہ نفلی نمازیں بھی ہے۔ بندہ نفلی نمازیں پڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک اس کو اپنا محبوب و مقرب بندہ بنا لیتا ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے فرمایا:
میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتے کرتے اس مقام کو پہنچ جاتا ہے کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ پاک نے ارشاد فرمایا:
جو چاشت کی دو رکعتیں پابندی سے ادا کرتا رہے اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اگر چہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔ (ابن ماجہ، 2 / 153، حديث: 1382)
نمازِ ضحیٰ جس کے معنی ہیں آفتاب کا بلند ہونا، دن کا چڑھنا، چاشت کا وقت، چناچہ آفتاب بلند ہونے کے بعد پڑھی جانے والی نماز کو نماز ضحی کہتے ہیں ۔ ضحی کی دو نمازیں ہیں ایک کونماز کو اشراق کہتے ہیں اور دوسری نماز نماز چاشت کہلاتی ہے یعنی بقدر ایک یا دو نیزے تک آفتاب بلند ہونے کے بعد، جب کہ وقت مکروہ ختم ہوجاتا ہے اور نماز پڑھنے کا وقت شروع ہوجاتا ہے تو پہلے پہر تک ضحی کی جو نماز پر ھی جاتی ہے اسے اصطلاح میں نماز اشراق کہتے ہیں اور جب آفتاب خوب بلند ہوجائے، فضاء میں اچھی طرح گرمی پیدا ہوجائے اور دھوپ اتنی زیادہ پھیل جائے کہ دوسرا پہر شروع ہوجائے تو زوال سے پہلے پہلے ضحی کی نماز پڑھی جاتی ہے وہ اصطلاح میں نماز چاشت کہلاتی ہے
چاشت کا اصل وقت جس وقت دھوپ تیز ہو، جیسے دس یا گیارہ بجے کا وقت ہے یہ چاشت کا اصل وقت ہے ، اور آفتاب طلوع ہونے سے زوال تک باقی رہتا ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ ایک چوتھائی دن گزرنے کے بعد چاشت کی نماز پڑھی جائے۔ نماز چاشت کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعات ہیں ۔ لیکن اگر آپ طلوعِ آفتاب کے بعد دو رکعت اِشراق اور دو رکعت چاشت پڑھ لیں تو بھی بہتر ہے۔ اس کو بھی یہی فضیلت عطا کی جائے گی۔
حضرت معاذہ العدویہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی الضُّحٰی اَرْبَعًاوَیَزِیْدُ مَاشَائَ اللّٰہُ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی (عموماً) چار رکعت پڑھتے تھے اور (کبھی) اس سے زیادہ بھی پڑھتے جو اللہ تعالی کو منظور ہوتا۔ (صحیح مسلم ج 1ص249 باب استحباب صلوۃ الضحی الخ)
حضرت ام ھانی رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن میرے گھر تشریف لائے، غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ میں نے کبھی اس سے ہلکی پھلکی نماز نہیں دیکھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں بھی رکوع و سجود پورا کر رہے تھے۔ ام ھانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ چاشت کی نماز تھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج1 ص115 باب صلوۃ الضحی، صحیح مسلم ج 1ص249 باب استحباب صلوۃ الضحی الخ)
حضرتِ ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، تم میں سے ہر شخص کے ذمہ اس کے جسم کے ایک ایک جوڑ کی سلامتی کے شکرانے میں روزانہ صبح ایک صدقہ ہوتا ہے، ہر بار سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار لا الہ الا اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار اللہ اکبر کہنا ایک صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے، بُرائی سے روکنا صدقہ ہے اور ہر جوڑ کے شکر کی ادائیگی کیلیے چاشت کے وقت دو رکعتیں پڑھنا کافی ہوجاتا ہے۔ (مسلم)۔
حضرت بُریدہ رضی اللہ عنۃ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سُنا:
آدمی میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں ۔ اُسکے ذمہ ضروری ہے کہ ہر جوڑ کی سلامتی کے شکرانہ میں ایک صدقہ ادا کیا کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ اتنے صدقے کون ادا کرسکتا ہے؟ ارشاد فرمایا:
مسجد میں اگر تھوک پڑا ہو تو اسے دفن کردینا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے، راستے سے تکلیف دینے والی چیز کا ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ اگر ان عملوں کا موقع نہ ملے تو چاشت کی دو رکعت نماز پڑھنا ان سب صدقات کے بدلے تمہارے لیے کافی ہے۔ (ابوداؤد)۔
حضرتَ ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو چاشت کی دو رکعت پڑھنے کا اہتمام کرتا ہے اس کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ (ابن ماجہ)۔ جامع تزمذی میں حضرتِ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ چاشت کی نماز اتنے اہتمام اور پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اب (غالباً) وہ اس نماز کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
اور کبھی اس نماز کو اتنے دن تک چھوڑے رکھتے کہ ایسا گمان ہونے لگتا جیسے اب وہ اس نماز کو کبھی نہیں پڑھیں گے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو اس بات کا خیال ہوگا کہ آپ ﷺ کی یہ نماز متواتر پڑھنے سے کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہو جائے۔
اشراق اور چاشت کی نیت سے جو نمازیں ادا کی جاتی ہیں ، ان میں رکعات کے بارے میں کوئی حد بندی نہیں کی گئی۔ جو جتنی رکعات پڑھنا چاہے اسی اختیار ہے، لیکن متعدد روایت کے مطابق کم ازکم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں ، اگر کوئی شخص بارہ رکعات سے بھی زیادہ پڑھنا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہے، لیکن متعدد روایت کے مطابق اشراق کی دو یا چار رکعات اور چاشت کی دو سے آٹھ رکعات تک معلوم ہوتی ہیں ۔ صحیح مسلم میں صحابیہ حضرتِ معاذہ عدویہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشادِ گرامی ہے کہ نبی کریم ﷺ چاشت میں چار رکعاتیں اور اس سے زیادہ جتنی اللہ چاہتا ادا کرلیا کرتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھے گا اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔ ‘‘(صحیح مسلم)
ان نوافل کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کیوں کہ نوافل کے ذریعے قرب خدواندی، تکمیل فرائض، قبولیت دعا اور درجات کی بلندی جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ پنچ وقتہ نماز کے پابند حضرات بھی صرف فرائض، واجبات اور سنن مؤکدہ پر اکتفا کرتے ہیں ، اللہ کا مزید قرب اور درجات کی بلندی کے لیے نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔