نماز کا بیان – سبق نمبر 35:
عَنْ عَلِی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم:
یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ اَوْتِرُوْا فَاِنَّ اللہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اے مسلمانو! وتر پڑھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
وتر کی تین رکعات ہوتی ہیں ۔ وتر کے معنی طاق کے ہیں اور تین رکعات طاق عدد کو ظاہر کرتی ہیں جس کی بنا پر نمازِ وتر کو وتر کہتے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وِتْرُ اللَّيْلِ ثَلَاثٌ، کَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ.دار قطنی، السنن، 2: 27
’’دن کے وتروں یعنی نمازِ مغرب کی طرح رات کے وتروں کی بھی تین رکعات ہیں ۔ ‘‘
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ اپنا قول یوں بیان کرتے ہیں :
وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَکْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ.
’’جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم نے لوگوں کو تین وتر پڑھتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ ‘‘
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور مغرب کی نماز کی طرح تیسری رکعت میں سلام پھیرتے تھے ۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر کی تین رکعت ہیں اور آخر میں ہی سلام پھیرا جائے۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے ہیں ، رہا دوسری رکعت کے بعد قعدہ کرنے کا ثبوت تو ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں ملتی، جس میں یہ ذکر ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے اور دوسری رکعت کے بعد قاعدہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ اس کے برعکس متعدد ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن رات کی ہر نماز میں ہر دوسری رکعت پر قعدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ وتر کا اس عموم سے مستثنیٰ ہونا کسی ایک حدیث میں نہیں ملتا، اگر ایسا ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرماتے اور صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اہتمام سے امت تک پہونچاتے۔
نماز وتر اللہ تعالیٰ جل شانہ کے قر ب کے ليے سب سے افضل اور عظيم عبادات ميں شامل ہوتی ہے، علماء احناف۔ تو اسے واجبات ميں شمار کرتے ہيں ، جس کی ہر مسلمان شخص کو ضرور محافظت کرنی چاہيے، اور اسے ترک نہيں کرنا چاہيے .امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہيں :
نماز وتر چھوڑنے والاشخص برا آدمی ہے، اس کی گواہی قبول نہيں کرنی چاہيے
دعائے قنوت خواہ رکوع سے قبل یا رکوع کے بعد پڑھی جائے، دونوں شکلوں میں نماز ادا ہوجائے گی؛ البتہ افضل وقت کے متعلق فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے۔ صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے یہ ہے کہ دعائے قنوت پورے سال رکوع سے قبل پڑھی جائے۔ حضرت عاصم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہسے قنوت کے متعلق سوال کیا؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
قنوت ثابت ہے۔ میں نے عرض کیا:
رکوع سے قبل یا بعد؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
رکوع سے قبل۔ میں نے کہا کہ فلاں نے مجھے آپ کی بابت بتایا ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد پڑھی ہے؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اس نے جھوٹ کہا ہے۔ رکوع کے بعد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ماہ دعاء قنوت پڑھی ہے۔
بخاری شریف کی سب سے زیادہ مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تمام روایات کو پیش نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دعا قنوت کسی خاص وجہ سے (دعا وغیرہ کے لیے) پڑھی جائے تو بالاتفاق وہ رکوع کے بعد ہے اور جو قنوت عام حالات میں پڑھی جائے تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح طور پر یہی ثابت ہے کہ وہ رکوع سے پہلے ہے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے تھے۔
حضرت اسود حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ وتر کی آخری رکعت میں ”قل ہو اللہ احد“ پڑھتے، پھر دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتے تھے۔
نمازِ عشاء کے فرض، سنتیں اور نوافل ادا کرنے کے بعد تین رکعت وتر واجب ادا کریں۔ نماز وتر کی نیت بھی عام نمازوں کی طرح ہے۔ وتر پڑھنے کا طریقہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی ہے جو نماز مغرب کا ہے۔ یعنی دو رکعت پر تشہد کے لیے بیٹھیں ، البتہ قعدہ میں تشہد کے بعد درود وغیرہ نہ پڑھے ؛ بلکہ اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہوجائے، اس کے بعد فاتحہ پڑھے پھر سورت ملائے، اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر کانوں تک ہاتھ اٹھائے پھر ہاتھ حسب سابق باندھ لے، اس کے بعد دعائے قنوت پڑھے پھر رکوع سجدہ کرکے قعدہٴ اخیرہ (جس میں تشہد کے ساتھ درود اور دعا بھی پڑھے گا) کرے پھر دونوں طرف سلام پھیردے۔
اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَلُّ عَلَيْکَ، وَنُثْنِی عَلَيْکَ الْخَيْرَ، وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ يَفْجُرُکَ. اَللّٰهُمَّ اِيَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّی وَنَسْجُدُ وَاِلَيْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ، وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ.
(ابن ابی شيبہ، المصنف، 2: 95، رقم: 6893)
’’اے اﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں ، تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں ، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں ، تیرا شکر کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں ۔ اے اﷲ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں ، تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں ، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔ ‘‘
فرض نمازوں کے ساتھ ہمیں نماز وتر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ نیز سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے، جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اس کی تکمیل کردی جائے، جیساکہ احادیث میں ذکر آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے اور ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع پیدا فرمائے ؛ تاکہ ہماری نمازیں دنیا میں ہمیں برائیوں سے روکنے کا ذریعہ بنیں اور قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ بنیں ۔