نماز کا بیان – سبق نمبر 21:
عَنِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً » (رواه البخارى ومسلم)
سیدناحضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا باجماعت نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ جب کسی عمل کے متعلق یہ فرماتے ہیں کہ یہ فلاں عمل کے مقابلے میں اتنے درجہ افضل ہے تو وہ اس انکشاف کی بناء پر فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ میں آپ ﷺ پر کیا جاتا ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ نماز باجماعت کی فضیلت اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں ۲۷ درجہ زیادہ ہے اور اس کا ثواب ۲۷ گنا زیادہ ملنے والا ہے، وہ حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر منکشف فرمائی اور آپ نے اہل ایمان کو بتلائی۔ اب صاحب ایمان کا مقام یہ ہے کہ وہ اس پر دل سے یقین کرتے ہوئے ہر وقت کی نماز جماعت ہی سے پڑھنے کا اہتمام کرے۔
اس حدیث سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیلے پڑھنے والے کی نماز بھی بالکل کالعدم نہیں ہے وہ بھی ادا ہو جاتی ہے لیکن ثواب میں ۲۶ درجہ کمی رہتی ہے اور یہ بھی یقیناً بہت بڑا خسارا اور بڑی محرومی ہے۔ باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.
’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔ ‘‘
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث بیان کی جاتی ہیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں :
اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ ‘‘بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب فضل صلاة الجماعة، 1: 232، رقم: 620
سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔ ‘‘ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب في فضل التکبيرة الاولٰی، 1: 281، رقم: 241
مطلب یہ ہے کہ کامل ایک چلہ ایسی پابندی اور اہتمام سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا کہ تکبیر اولیٰ بھی فوت نہ ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا مقبول و محبوب ہے اور بندہ کے ایمان و اخلاص کی ایسی نشانی ہے کہ اس کے لیے فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ اس کا دل نفاق سے پاک ہے اور یہ ایسا جنتی ہے کہ دوزخ کی آنچ سے بھی وہ کبھی آشنا نہ ہو گا۔ اللہ کے بندے صدق دل سے ارادہ اور ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ سے توفیق کی امید ہے، کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عمل خیر کی چالیس دن تک پابندی خاص تاثیر رکھتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح (یعنی پورے آداب کے ساتھ) وضو کیا، پھر وہ (جماعت کے ارادے سے مسجد کی طرف) گیا، وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے اور جماعت ہو چکی، تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو بھی ان لوگوں کے برابر ثواب دے گا جو جماعت میں شریک ہوئے اور جنہوں نے جماعت سے نماز ادا کی، اور یہ چیز ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہو گی۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی)
مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو جماعت کی پابندی کرتا ہے اور اس کے لیے پورا اہتمام کرتا ہے اس کو اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آ جائے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق اچھی طرح وضو کر کے جماعت کی نیت سے مسجد جائے اور وہاں جا کر اسے معلوم ہو کہ جماعت ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت اور اس کے اہتمام کی وجی سے اس کو جماعت والی نماز کا پورا ثواب عطا فرمائیں گے، کیوں کہ ظاہر ہے کہ اس کی کسی نادانستہ کوتاہی یا غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس کی جماعت فوت نہیں ہوئی ہے، بلکہ وقت کے اندازہ کی غلطی یا کسی ایسی ہی وجہ سے وہ بے چارہ جماعت سے رہ گیا ہے، جس میں اس کا قصور نہیں ہے۔
سیدنا حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :
’’جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہئے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے) ۔ ‘‘
پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا:
’’اگر تم منافقوں کی طرح بلاعذر مسجدوں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے تو اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ ‘‘مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعة من سنن الهدی، 1: 452، رقم: 654
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں بہت سے فائدے ہیں ۔ ہم چند فائدے بیان کرتے ہیں :
۱۔ ایک نماز پر ستائیس نمازوں کاثواب ملتاہے۔
۲۔ پانچوں وقت مسلمانوں کو آپس میں ملنا ہوتاہے۔
۳۔ اس کی وجہ سے آپس میں اتفاق اورمحبت ہونا۔
۴۔ دوسروں کو نماز پڑھتے دیکھ کر عبادت کا شوق ہونا۔
۵۔ نماز میں دل لگنا۔
۶۔ بزرگوں کی برکت سے گنہگاروں کی نماز قبول ہوجانا۔
۷۔ بیماروں اور غریبوں کاحال معلوم ہوتا رہنا۔
مل کر نماز پڑھنے سے ایک خاص شان کاظاہرہونا۔
جماعت میں نہ شریک ہونا کن لوگوں کے لیے جائز ہے؟
عورتوں کو اس زمانہ میں مسجد میں آنا اور جماعت سے نماز پڑھنا منع ہے ، نابالغ بچے، بیمار، بیمار کی خدمت کرنے والا، لولا، لنگڑا، اپاہج جس کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں ، بہت بوڑھا اندھا۔ ان سب پر جماعت میں حاضر ہونا لازم نہیں ہے۔
جماعت میں شریک نہ ہونے کے عذر:
سخت بارش، راستہ میں کیچڑ زیادہ ہونا، سخت جاڑا، رات میں آندھی کاآنا، سفر، کسی آدمی یا جانور کاخوف، قید ہونا، اندھاہونا، اپاہج ہونا، ہاتھ اور پاؤں کا کٹا ہوا ہونا، بیمار ہونا، چلنے سے مجبور ہونا، بہت زیادہ بوڑھا ہونا، علم دین کے ضروری سبق اور تکرار کا فوت ہوجانا کہ جوپھر نہ ہوسکتا ہو۔
کون سی نمازوں میں جماعت سُنَّتِ مؤکدہ ہے؟
تمام فرض نمازوں میں جماعت سُنَّتِ مؤکدہ ہے۔
نماز تراویح میں سُنَّتِ کفایہ ہے۔
تمام رمضان شریف میں وتر کی جماعت مُسْتَحب ہے۔
امام کس کو بنانا چاہیے؟
جوشخص عاقل، بالغ ہو اور نماز کے مسائل سے واقف ہو، قرآن مجید اچھا پڑھتا ہو، نیک ہو اس کو امام بنانا چاہیے۔ نابالغ کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ بدعتی، فاسق، جاہل، گنوار اورجواندھا احتیاط نہ کرتاہو، اِدھر اُدھر پھرتاہو اورحرامی کو امام بنانا مکروہ ہے۔ عورت کے پیچھے مرد کی نماز نہیں ہوتی۔
اللہ تعالی ہم سب کو باجماعت نماز کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمیں دین و شریعت کے تمام احکامات کو سمجھنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین