نماز کا بیان – سبق نمبر 20:
عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ.
سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صفیں برابر رکھو کیونکہ صفوں کا برابر رکھنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے۔
اسلام ایک منظم و کامل دین ہے، اس کی تمام تعلیمات میں نظم وضبط، اجتماعیت اور اتفاق و اتحاد کی عمدہ تربیت دی گئی ہے، جس کا اعلی نمونہ نماز میں نظر آتا ہے۔ لہذا لوگوں کو ان کے تمام اجتماعات میں منظم رکھنے کے لیے صف بندی کی تعلیمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باجماعت نماز میں صفوں کو سیدھا رکھنے پر خصوصی توجہ دلائی ہے اور اسے ”حسنِ صلوٰۃ“ اور ”اتمام صلوٰۃ“ قرار دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
نماز میں صف کو درست کرو اس لئے کہ صف کو درست کرنا نمازکے محاسن میں سے ہے۔ (صحیح البخاری: ج1 ص100 باب اقامۃالصف من تمام الصلاۃ)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اپنی صفوں کو برابر کیا کرو، کیوں کہ صف کا سیدھا کرنا نماز کے مکمل ہونے کا جزو ہے۔ (صحیح مسلم)
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہماری صفوں کو اس قدر سیدھا اور برابر کرتے، گویا کہ ان کے ذریعے آپﷺ تیروں کو سیدھا کریں گے، یہاں تک کہ آپﷺ کو خیال ہو گیا کہ اب ہم سمجھ گئے (کہ ہمیں کس طرح برابر ہونا چاہیے) اس کے بعد ایک دن ایسا ہوا کہ آپﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لیے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہو گئے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپﷺ نماز شروع فرما دیں کہ آپﷺ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ کے بندو، اپنی صفوں کو سیدھا اور بالکل برابر کرو، ورنہ اللہ تمہارے رُخ ایک دوسرے کے مخالف کر دے گا۔ (صحیح مسلم)
ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ دوران نماز صفوں کو درست، سیدھا اور برابر کرنے کی کس قدر تاکید ہے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریمﷺ صحابہ کرامؓ کی صفیں اس قدر سیدھی اور برابر کرنے کی کوشش فرماتے تھے کہ ان میں کوئی سوت برابر بھی آگے پیچھے نہ رہنے پائے، یہاں تک کہ طویل مدت کی مسلسل کوشش اور تربیت کے بعد آپ ﷺ کو اطمینان ہو گیا کہ اب انہیں صف بندی کا طریقہ آگیا ہے، لیکن اس کے بعد جب ایک دن آپﷺ نے اس معاملے میں ایک بندے کی کوتاہی دیکھی توپُر جلال انداز میں فرمایا میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ اگر صفوں کو سیدھا اور برابر کرنے میں تم لا پروائی اور کوتاہی کرو گے تو اللہ اس کی سزا میں تمہارے رُخ ایک دوسرے سے مختلف کر دے گا یعنی تمہاری و حدت اور اجتماعیت پارہ پارہ کر دی جائے گی اور تم میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ (معارف الحدیث)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو تم میں کندھوں کے اعتبار سے نرم ہو (یعنی کندھوں کو نماز میں اس طرح سخت کرکے نہ رکھے کہ دائیں بائیں والے کو ایذا ہو۔) (صحیح ابن خزیمہ)
حضرت عرباض بن ساریہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف (والوں) کے لیے تین مرتبہ اور دوسری صف (والوں) کے لیے ایک مرتبہ استغفار فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمہ)
حضرت حکم بن عمیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر تمہیں قدرت ہو تو(صف اول میں) امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرو (یعنی عین امام کے پیچھے نماز میں کھڑے ہوا کرو) اور (راوی) نے فرمایا کہ حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمر ؓ ایسے ہی نبی کریم ﷺ کے پیچھے (نماز میں کھڑے) ہوا کرتے تھے۔ (بیہقی)
نماز با جماعت میں صف بندی کا طریقہ یہ ہے کہ نمازی اپنے کندھوں کو ملا کر کھڑے ہو جائیں ، پاؤں کی ایڑیوں کے پچھلے حصے کو صف کے پچھلے کنارے پر رکھ لیں ، تو صف سیدھی ہوجائے گی۔
احادیث اور فقہ کی کتابوں میں صف بندی کی ترتیب یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلا مقتدی امام کے پیچھے کھڑا ہو، اس کے بعد آنے والا شخص پہلے مقتدی کی دائیں جانب سے، پھر بائیں جانب، پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب، اس طرح جب پہلی صف مکمل ہوجائے اس کے بعد دوسری صف بنائی جائے ، اس کے بعد تیسری، چوتھی صف بنائی جائے ۔
اگلی صف میں جگہ خالی ہوتے ہوئے پچھلی صف میں کھڑا ہونا مکروہ ہے اسی طرح درمیان میں ایک مکمل یا کئی صف خالی چھوڑکر پیچھے کھڑا ہونا خلاف سنت اور مکروہ ہے یعنی نماز ہوجائے گی لیکن ثواب میں کمی ہوگی اور اگر مانع اقتداء کوئی چیز پائی گئی مثلاً درمیان میں شارع عام حائل ہے اور اس حائل کے بعد کوئی شخص امام کی اقتداء میں نماز پڑھتا ہے اور درمیان میں صفوں کا تسلسل بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں اقتداء درست نہ ہوگی، اور ہر صف کی ترتیب میں شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے آنے والا شخص امام کے پیچھے کھڑا ہو، دوسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی دائیں جانب اور تیسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی بائیں جانب، اس کے بعد چوتھے نمبر پر آنے والا دوسرے کی دائیں جانب اور پانچویں نمبر پر آنے والا تیسرے کی بائیں جانب کھڑا ہو اور اس طرح پوری صف بنائی جائے، یہ نہ ہو کہ امام کی ایک جانب مقتدی زیادہ ہوں اور دوسری جانب کم ہوں ، البتہ اگر امام سے قرب یا بعد میں دونوں جانب برابر ہوں تو ایسی صورت میں دائیں جانب کو بائیں پر ترجیح ہوگی، یعنی: نیا آنے والا شخص صف میں دائیں جانب کھڑا ہو،
حدیث میں ہے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ،
صحابہ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ آپ نے پھر یہی فرمایا کہ اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ، صحابہ کرام نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ تو آپ نے پھر یہی فرمایا:
اور چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا:
اور دوسری صف والوں پر۔ اور پہلی، دوسری اور تیسری صف وغیرہ میں بھی فضیلت صف کی دائیں جانب کو، جیسا کہ حضرت عائشہؓ کی روایت میں ہے، لیکن اگر دائیں جانب مقتدی زیادہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب کھڑے ہونے والوں کو دوہرے اجر کی بشارت دی ہے،
پس دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضلیت اس صورت میں ہے جب کہ بائیں جانب مقتدیوں کی تعداد کم نہ ہو، دونوں جانب برابر مقتدی ہوں ، ورنہ بائیں جانب کھڑا ہونا، دائیں جانب کھڑے ہونے سے افضل ہوگا اور اس پر دوہرا اجر ملے گا۔ اور دوہرے اجر کا مطلب یہ ہے کہ دائیں طرف کھڑے ہونے والوں کو جتنا اجر ملے گا، اسے اس کا ڈبل ملے گا؛کیوں کہ امام کا صفوں کے بیچ میں ہونا اور اس کی دونوں جانب مقتدیوں کا برابر ہونا دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضیلت سے زیادہ اہم ہے۔
اللہ تعالیٰ جل شانہٗ سے دعاہے کہ ہمیں جماعت نماز میں اپنی صفوں کو درست کرنے اور سنت کے مطابق کرنے کی توفیق عطافرمائے اورہمار ے ہر عمل کوقرآن وسنت کے مطابق بنانے کی توفیق عطا فرمائیں آمین یارب العٰلمین۔