نماز کا بیان – سبق نمبر 9:
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ مِفْتَاحُ الصَّلٰوۃِ اَالطُّہُوْرُ وَتَحْرِیْمُھَا التَّکْبِیْرُ وَتَحْلِیْلُھَا التَّسْلِیْمُ۔ (ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: نماز کی چابی طہارت ہے ، اور اس کی تحریمہ تکبیر ہے ، اور اس سے باہر نکلنا سلام سے ہے۔
نماز کی قبولیت کے لیے جہاں اس کے ارکان وشرائط کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اسے ہوبہو حضور نبی کریم ﷺ کے بیان کیے گئے طریقے کے مطابق ادا کیا جائے ارکان نماز کو انتہائی اطمینان اور خضوع وخشوع کو مدنظررکھتے ہوئے ادا کرنا چاہئے۔ نمازکے فرائض میں عُلمائے امت نے بہت سی چیزیں شمار کی ہیں مگر ہم چھ فرضوں کو (جو نمازکے اندرونی فرائض مشہور ہیں) مختصرطور سے بیان کرتے ہیں ۔
نیت باندھتے وقت اَللّٰہُ أَکْبَرُ یعنی خداکانام لے کر نماز شروع کرنے کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں ۔ اس تکبیر کے کہنے سے نمازشروع ہوجاتی ہے اور جو چیزیں نماز کے خلاف ہیں وہ تمام حرام ہوجاتی ہیں ، اس لیے اسکو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں ۔ تکبیر تحریمہ سیدھے کھڑے ہوکر کہنا ضروری ہے، اگر کوئی بلاعذر جھک کر یا رکوع میں شامل ہوکر تکبیر تحریمہ کہے گا تو نماز نہ ہوگی۔
تکبیر تحریمہ کا ظاہری طریقہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے :
حضرت مالک بن حویرث سے مروی ہے کہ ’’انہوں نے (بوقت تکبیر تحریمہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کانوں کی لو تک ہاتھ بلند کرتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘ عورت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھائے۔ عبداللہ بن زیتون بیان کرتے ہیں :
’’میں نے حضرت ام درداء رضی اﷲ عنہا کو نماز شروع کرتے وقت ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘
حضرت وائل بن حجر ص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نماز پڑھو تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ سینے تک اٹھائے۔ ‘‘
نماز شروع کرتے وقت جواللہ اکبر کہہ کر نیت باندھی جاتی ہے وہ تکبیر تحریمہ ہے، اور وہ فرض ہے، اس کے علاوہ ایک رکن سے دوسرے رکن میں جاتے ہوئے جو تکبیر کہی جاتی ہیں ، وہ تکبیرات انتقالیہ ہیں اور وہ مسنون ہیں ۔
تکبیر تحریمہ صحیح ہونے کی چند شرطیں ہیں :
1۔ مثلاً تکبیر تحریمہ کا نیت کے ساتھ ملا ہوا ہونا، یعنی نیت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان ایسی کوئی چیز فاصل اور حائل نہ ہو جو نماز کے منافی ہو، مثلا نیت کے بعد کسی سے بات چیت کی، یا کھانا وغیرہ کھایا اور اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہی تو یہ درست نہیں ہے۔
2۔ جن نمازوں میں کھڑا ہونا فرض ہے ان کی تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہنا ضروری ہے، بیٹھ کر یا رکوع کی حالت میں یا رکوع کے قریب جھک کر تکبیر تحریمہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس سے نماز نہیں ہوگی۔
3۔۔ تکبیر تحریمہ نیت سے پہلے نہ ہو، اگر تکبیر تحریمہ پہلے کہی اور نیت اس کے بعد کی تو نماز صحیح نہیں ہوگی۔
4۔ تکبیر تحریمہ اتنی آواز سے کہنا ضروری ہے کہ اس کی آواز خود سن سکے، بشر ط یہ کہ بہرا نہ ہو۔ البتہ گونگے کو تکبیر تحریمہ کے لیے زبان ہلانا ضروری نہیں ہے۔
5۔ ”الله أکبر“ کے ہمزہ یا با کو لمبا نہ کرے ، اگر لفظِ ”الله“ یا لفظِ ”أکبر“ کے شروع میں ہمزہ کو لمبا کیا جائے اور ”آلله “ یا ”آ کبر“پڑھاجائے، یا ’’الله اکبار‘‘ پڑھا جائے تو اس کی تکبیر تحریمہ اور نماز درست نہیں ہوگی۔
6۔ ”الله أکبر“کے لفظِ ”الله“ میں لام کے بعد الف کہنا، اگر کوئی شخص لام کے بعد الف نہیں کہے گا تو اس کی تکبیر تحریمہ صحیح نہیں ہوگی۔
7۔ بسم اللہ وغیرہ سے تکبیر تحریمہ ادا نہ کرنا، اگر کوئی شخص تکبیر تحریمہ کی جگہ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم وغیرہ کہے گا تو اس کی تکبیر تحریمہ صحیح نہیں ہوگی۔
2۔ قیام یعنی کھڑا ہونا:
جس شخص کو کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت ہے اس کے لیے کھڑا ہونا فرض ہے۔ واضح رہے ازروئے شرع بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت اس شخص کو ہے جو بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں ، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے لیکن زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو۔ اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں ، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد وہ بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے۔ اور اگر نماز کے دوران اٹھنے بیٹھنے میں دقت ہورہی ہو، لیکن تکلیف قابلِ برداشت ہو تو نماز قیام کے ساتھ کھڑے ہوکر ہی پڑھنی چاہیے ؛ کیوں کہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ۔ اور اگر نماز کے دوران اٹھنے بیٹھنے میں ناقابلِ برداشت درد ہوتو پھر باقی نماز بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے۔ ہاں جو کسی عذر کی وجہ سے کھڑانہ ہوسکتا ہو اس کے لیے بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھنا جائز ہے۔ فرض اور واجب نماز میں اتنا قیام فرض ہے کہ جس میں فرض قراء ت پڑھی جاسکے۔ نفل نماز میں قیام فرض نہیں ہے بلاعذر بھی بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے لیکن آدھا ثواب ملتاہے۔
3۔ قراء ت:
نماز میں کم از کم ایک آیت پڑھنا فرض ہے اور سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے ۔ اور فرض کی پہلی دو رکعتوں اور نماز وتراورسنت اور نفل کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورت یا کم از کم بڑی ایک آیت یا چھوٹی تین آیتیں پڑھنا واجب ہے۔ اور فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت کے علاوہ واجب، سنت اور نفل کی ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ اگر کسی کو ایک آیت بھی یاد نہ ہو اور نماز پڑھے تو سبحان اللہ یاالحمدللہ قراء ت کی جگہ پڑھ لے ، مگر بہت جلدقرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت فرض کی مقدار یادکرلینا فرض ہے اورواجب کی مقدار یادکرنا واجب ہے، فرض اور واجب کی مقدار اگر قرآن شریف سے یاد نہ کرے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ امام کومغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں اور فجر، جمعہ، عیدین اور تراویح ووتر کی تمام رکعتوں میں آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ ظہر، عصر میں امام کو اور تنہا پڑھنے والے کو بھی قراء ت آہستہ کرنی چاہیے ، زور سے پڑھنے کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی آواز پاس والے شخص کے کان میں پہنچ سکے۔
قرات میں سنت کی خلاف ورزی اور افضل صورت کو ترک کرنا عام طور پر ہماری نمازوں میں دیکھا جاتا ہے، مثلا یہ چیز بہت زیادہ عام ہو گئی ہے کہ ہمارے ائمہ کرام (ظہر اور عصر کا علم نہیں) مغرب، عشاء اور فجر کی نماز میں قرات کی سنت اور افضل صورت کو چھوڑ کر غیر افضل صورت اختیار کرتے ہیں ، ایسے اماموں کی ایک بڑی تعداد ا ہے جو یک رکعت میں مکمل سورت نہیں پڑھتے ؛ بلکہ بڑی سورتوں میں سے تین یا چار آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے ہیں یا ایک سورت کو دو رکعت میں پڑھتے ہیں یا کوئی سورت آدھی پڑھ کر چھوڑ دیتے ہیں اوردوسری رکعت میں دوسری سورت شروع کر دیتے ہیں ، نماز میں اس طرح قرآن کریم پڑھنے سے نماز تو ادا ہو جائے گی لیکن عمومی احوال میں ایسا کرنا سنت کے خلا ف اور غیر اولیٰ ہے ، اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں اکثر مضمون کا لحاظ نہیں کیا جاتا مضمون ناقص اور بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔ جیسے کسی کتاب کے درمیان سے دو چار سطریں پڑھنے کی سورت میں ہو تی ہے ۔ اسی طرح مختلف مقامات سے نماز میں قرأت کرنا:
قرآن کریم کی آیتیں معنی و مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں لہذا مختلف مقامات سے نماز میں چند آیات تلاوت کرنے سے بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ مضمون پورا نہیں ہو تا، کبھی کبھی قرأت کی ابتدا وانتہا ایسی یات پر ہو تی ہے کہ بات بالکل بے معنیٰ سی لگتی ہے ، اور ہمارے ائمہ کی اکثریت غیر علماء کی ہے ، جو عالم ہیں ان میں بھی بہت کم درس وتدریس سے جڑے ہیں ، اس کی وجہ سے معنیٰ ومضمون کی پوری رعایت وہ بھی نہیں کر پاتے ، لہذا اس طرح قرأت کرنا خلاف اولیٰ ہے ۔
ہمیں اپنے طرز عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے اللہ ہمیں صحیح اور حق کے قبول کرنے کی تو فیق دے۔ اور میں اپنے معزز ائمہ کی خدمت میں گذارش کروں گا کہ وہ ا پنے پیارے آقا ﷺ کی نماز اور قراءت کے تعلق سے آپ ﷺ کا معمول دیکھیں ، دوسری طرف اپنی نماز اور اپنی قراءت کا جائزہ لیں اور انصاف کریں کہ ہمارا معمول پیارے آقا ﷺ کے معمول سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ؟ اگر رکھتا ہے تو خدا کا شکر بجا لائیں اور اگر نہیں رکھتا تو آج ہی سے اپنے معمول تبدیل کر نے کا عزم کرلیں اور یہ پیغام زیادہ سے زیادہ ائمہ تک پہنچائیں ؛ تاکہ ان کی نماز بھی سنت کے مطابق ہو جائے ۔