نماز کا بیان – سبق نمبر 8:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا، فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔
شرط کا لغوی معنی”علامت” ہے اور اصطلاحاً شرط وہ ہے جس کے نہ ہونے سے کسی چیز کا نہ ہونا لازم آئے شرائط نماز سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کا حصول ممکن ہوتو ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی، بلکہ ان میں سے ایک بھی مفقود ہوتو نماز صحیح نہیں ہوتی۔
جس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور نماز ادا کرنا فرض ہے ‘ اسی طرح ہرنمازی پریہ بھی فرض ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے دوران قرآن وسنت کے احکام کی پابندی کرے۔ لہذا ضروری ہے تمام نمازی نماز کے متعلق قرآن وسنت کی چند اہم ترین شرائط پوری کریں ‘ جو مختصراً یہ ہیں :
نماز پڑھنے سے پہلے چھ چیزوں کی ضرورت ہے ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور ان چیزوں کو شرائطِ نماز یا بیرونی فرائض بھی کہتے ہیں ۔
1۔ بدن اور کپڑوں کاپاک ہونا۔
2۔ جگہ کاپاک ہونا۔
3۔ ستر کا چھپانا۔
4۔ نمازوں کا وقت ہونا۔
5۔ قبلہ کی طرف منہ کرنا۔
6۔ نیت کرنا۔
1۔ بدن کا پاک ہونا:
نماز کی سب سے پہلی شرط بدن کے پاک ہونے کامطلب یہ ہے کہ بدن پر کسی قسم کی نجاست (ناپاکی) نہ ہو۔ نجاست کی دو قسمیں ہیں :
ایک حقیقی،
دوسری حکمی۔
حقیقی سے مراد وہ ظاہری نجاست ہے جو دیکھنے میں آسکے جیسے پیشاب، پاخانہ، خون، شراب۔ حکمی سے مراد وہ نجاست ہے جو شریعت کے حکم سے ثابت ہو اور دیکھی نہ جاسکے جیسے بے وضو ہونا، غسل کی حاجت ہوجانا۔ نمازکے لیے دونوں قسموں کی نجاست سے پاک ہوناضروری ہے۔
نجاستِ حکمیہ کی پھر دو قسمیں ہیں :
ایک حَدَثِ اصغر یعنی چھوٹی نجاست،
دوسری حَدَثِ اکبر یعنی بڑی نجاست۔
چھوٹی نجاست حکمیہ سے بدن وضو کرنے سے پاک ہوتاہے، اور بڑی نجاستِ حکمیہ سے غسل کرنے سے پاک ہوتاہے۔ اورکپڑوں سے مراد وہ کپڑے جو نمازی کے بدن پر ہوں جیسے کُرتا، پاجامہ، ٹوپی عمامہ وغیرہ ان سب کاپاک ہوناضروری ہے یعنی ان میں کسی پر نجاستِ غلیظہ کا ایک درہم سے زیادہ نہ ہونا، نجاست خفیفہ کا چوتھائی کپڑے تک نہ پہنچنا نماز کے درست ہونے کے لیے شرط ہے۔ اگر نجاستِ غلیظہ ایک درہم یا اس سے کم اور نجاستِ خفیفہ چوتھائی کپڑے سے کم لگی ہو تو نماز ہوجائے گی۔
2۔ نماز کی دوسری شرط جگہ کا پاک ہونا:
نماز صحیح ہونے کے لئے جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے، نماز میں جگہ کے پاک ہونے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں نمازی اپنے اعضاء رکھتا ہے ، یعنی کم از کم دونوں قدم، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور پیشانی کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہوں ، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔
3۔ نماز کی تیسری شرط ’’ستر‘‘ ہے یعنی جسم کے مخصوص حصے لباس سے ڈھکے ہوئے ہوں ۔ فقہی اصطلاح میں اسے ’’ستر عورت‘‘ کہا جاتا ہے۔ مرد کوناف سے گھٹنے تک اپنا بدن چھپانا فرض ہے۔ نماز میں بھی فرض ہے اورنماز کے علاوہ بھی فرض ہے ، اورعورت کو دونوں ہتھیلیوں اور دونوں پاؤں اور منہ کے سوا تمام بدن ڈھانکنا فرض ہے لیکن عورت کو نماز میں منہ چھپانا فرض نہیں ۔ بلکہ غیر مردوں کے سامنے کھلے منہ آنا ناجائز ہے۔ اگر کسی کے پاس کپڑا بالکل نہ ہو تو کسی چیز سے بدن کو ڈھانکے مثلاً ٹاٹ، درختوں کے پتّے وغیرہ۔ اورجب کچھ بھی نہ ملے تو ننگا بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع سجدہ اشارہ سے کرے۔ کتب فقہ میں مرد اور عورت کے جسم کا ڈھانپناازروئے شرع فرض قرار دیا گیا ہے اگر ستر پوری طرح ملحوظ نہ رکھا جائے تو نماز نہیں ہو گی۔
4۔ پابندیِ وقت: نماز کی چوتھی شرط:
اللہ تعالیٰ نے بعض عبادتوں کواپنے وقت پر ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ علمِ توقیت کے جاننے والے علماء نے سورج کے تحت یعنی شمسی نظام کے مطابق کلینڈر ایجاد کئے جس سے ہم باآسانی نماز کے اوقات معلوم کرسکتے ہیں ۔ ’’نماز مقررہ اوقات کے اندر ادا کرنا‘‘ ہے نماز کے لیے جو وقت شریعت نے مقرر کیا ہے اس وقت میں نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اس وقت سے پہلے اگر پڑھی جائے گی تو نماز نہ ہوگی، اور اس کے بعد پڑھنے سے ادا نہ ہوگی بلکہ قضا ہوگی۔
نماز ادا کرنے کی دو حدیں ہیں ، ایک وقت شروع ہونے کی ابتدائی حد اور دوسری ختم ہونے کی آخری حد اگر ان دو حدود کے اندر نماز ادا کی جائے تو وہ ادا ہو جائے گی ورنہ نہیں مثلاً نماز فجر کو صبح صادق سے لے کر طلوع شمس سے پہلے تک کی حدود میں ادا کرنا ہے، ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہوتا ہے اگر آپ نے اس سے قبل نماز ادا کر لی تو وہ ظہر کی نماز تصور نہیں ہو گی۔ اسی طرح نماز ظہر کی آخری حد اس وقت تک ہے جب تک ہر چیز کا سایہ اس چیز سے دوگنا نہ ہو جائے۔ اس کے بعد چونکہ نماز عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اس لیے اس کے بعد ظہر کی نماز ادا نہیں ہو سکتی۔ نماز عصر کی آخری حد غروب آفتاب سے قبل ہے۔ اسی طرح نماز مغرب کا وقت غروب آفتاب سے لے کر شفق (یعنی مغرب کی طرف سے آسمان کی سرخی اور سفیدی) کے غائب ہونے تک ہے، جس کے گزر جانے کے بعد عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے جو صبح صادق ہونے سے پہلے تک رہتا ہے۔ نماز پنجگانہ کے اوقات کی مقررہ حدود کی پابندی ہر مسلمان پر فرض کر دی گئی ہے۔ نماز کے اوقات اس سے پہلے اسباق میں بیان ہوچکے ہیں ۔
5۔ اِستقبالِ قبلہ: پانچویں شرط:
ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی حصّے میں بھی ہو نماز کے لئے اپنی چہرہ قبلے کی طرف کرے۔ یعنی نماز میں داخل ہونے سے پہلے اپنے آپ کو ’’قبلہ رخ‘‘ کھڑا کرنا ہے۔ حالت نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے چہرے اور پورے جسم کا قبلہ رخ کر لینا ضروری ہے تاہم حالت سفر میں اگر سمت قبلہ کا تعین کرنا ممکن نہ ہو تو انسان کو مجبوری کی بنا پر اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے چنانچہ اس صورت میں کسی بھی سمت جس کی طرف اس کا گمان غالب ہو کہ اس سمت قبلہ ہوگا تو اس سمت کی طرف رخ کر کے کھڑا ہونے سے نماز ادا ہو جائے گی۔
6۔ نیت: نماز کی چھٹی شرط:
’’نماز کی نیت‘‘ ہے ہر کام کا دارومدار نیت پر ہے بغیر نیت کے کوئی کام بھی دُرست نہیں ۔ نیت دل سے ارادہ کرنے کو کہتے ہیں ۔ نماز کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ جو نماز پڑھنا چاہے مثلاً ظہر کی نماز پڑھنی ہے تو یہ ارادہ کرے کہ آج کی ظہر کی نماز پڑھتا ہوں ۔ اگر قضا نماز ہوتو یہ ارادہ کرے کہ فلاں دن کی ظہر کی قضا نماز پڑھتاہوں ۔ اگر امام کے پیچھے ہوتو اس کی بھی نیت کرے۔ زبان سے نیت کے الفاظ کا کہنا ضروری نہیں ہے۔ نفل، سنّت کے لیے اتنی نیت کافی ہے کہ نفل نمازپڑھتاہوں ۔ ۔ اس کو الفاظ میں بیان کرنا لازم نہیں کیونکہ نیت بہرحال دل کی کیفیت کا نام ہے۔ ہاں زبان سے کہ لینا مستحب اور بہتر ہے۔ نماز کے ان چھ ظاہری شرائط کی پابندی کیے بغیر شرعی اعتبار سے نماز نہیں ہوتی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔