عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنہُ قَالَ: مَرَّ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بقَبْرَيْنِ، فَقَالَ: ” إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ (وَفِىْ رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ لَا يَسْتَنْزِهُ) مِنَ البَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ (رواه البخارى)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے… کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا تو… آپ ﷺ نے فرمایا …کہ جو دو آدمی ان قبروں میں مدفون ہیں ان پر عذاب ہو رہا ہے…، اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے یہ عذاب نہیں ہو رہا ہے …جس کا معاملہ بہت مشکل ہوتا (یعنی جس سے بچنا بہت دشوار ہوتا) …بلکہ یہ دونوں اپنے ایسے گناہ کی پاداش میں عذاب دئیے جا رہے ہیں … جس سے بچنا کچھ مشکل نہ تھا) … ان میں سے ایک کا گناہ تو یہ تھا… کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ …یا پاک رہنے کی کوشش اور فکر نہیں کرتا تھا… اور دوسرے کا گناہ یہ تھا کہ چغلیاں لگاتا پھرتا تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے… ان دونوں صاحبوں کے عذاب کا سبب …ان کے دو خاص گناہوں کا بتایا ہے …ایک کے متعلق بتایا کہ وہ چغلی کرتا تھا جو ایک سنگین اخلاقی جرم ہے …، اور دوسرے کے عذاب کا سبب آپ نے یہ بتایا …کہ وہ پیشاب کی گندگی سے بچاؤ… اور پاک صاف رہنے میں بے احتیاطی کرتا…
(لاَ يَسْتَتِرُ اور لَا يَسْتَنْزِهُ)
دونوں کا حاصل مطلب یہی ہے، …اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کی گندگی سے… (اور اسی طرح دوسری ناپاکیوں سے) بچنا …یعنی اپنے جسم اور اپنے کپڑوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا …اللہ تعالیٰ کے اہم احکامات میں سےہے …اور اس میں کوتاہی اور بےاحتیاطی ایسی معصیت ہے… کہ جس کی سزا آدمی کو قبر میں بھگتنی پڑے گی۔ …اس حدیث کا خاص سبق اور خاص ہدایت یہ ہے… کہ پیشاب وغیرہ کی نجاست سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی پوری کوشش اور فکر کی جائے… اور جسم اور کپڑوں کے پاک صاف رکھنے کا اہتمام کیا جائے …اور چغلخوری جیسی منافقانہ اور مفسدانہ عادت سے بچا جائے… ورنہ ان دونوں باتوں میں کوتاہی اور بے احتیاطی کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔
اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا…..
طہارت کی حقیقت یہ ہے کہ حدث انسان کو ناپاکی کی طرف لے جاتا ہے… جبکہ طہارت انسان کو پاکیزگی کی طرف لے جاتی ہے۔ … حدث سے انسان ناپاک ہوتا ہے… اور طہارت سے انسان پاک ہوتا ہے۔ … حدث رابطہ توڑنے کا باعث بنتا ہے… اور طہارت رابطہ جوڑنے کا سبب بنتی ہے۔ … رب کی معرفت اور قربت اور اس کی عبادت میں حلاوت، طہارت سے میسر آتی ہے…۔ اس لئے شریعت مطہرہ نےاس بات کا اہتمام کیا… کہ انسان جب بھی اپنے مولا سے دید و ملاقات چاہے …تو یہ اعزاز بغیر طہارت کے اسے نہیں مل سکتا۔ … طہارت اسلام کی تعلیمات کی حقیقت مسلمہ ہے، …اسلام طہارت کو محدود نہیں کرتا… بلکہ وسیع تر طہارت کا حکم دیتا ہے۔ …
طہارت کا مطلب اپنے جسم اور کپڑوں کو ناپاک چیزوں سے بچانا …اور نظافت کا مطلب اپنے جسم اور کپڑوں وغیرہ کو ایسی پاک چیزوں سے بھی بچانا ہے… جن سے جسم اور کپڑوں میں میل اور بدبو پیدا ہو، جو معاشرے کے دیگر افراد کے لیے… تکلیف اور نفرت کا باعث ہو۔
شرعی نقطہٴ نظر سے طہارت دو قسم کی ہوتی ہے…: ایک حکمی اور معنوی طہارت جو وضو اور غسل سے حاصل ہوتی ہے…، دوسری طہارت حقیقیہ ہے جو ظاہری گندگی یعنی پیشاب اور پاخانہ وغیرہ سے… اپنے جسم اور کپڑوں کو پاک کرنے سے حاصل ہوتی ہے، … اسلام میں دونوں قسم کی طہارت کا حکم دیا گیا ہے۔
نیز علمائے کرام رحمہم اللہ نے طہارت کی چار اقسام بیان کی ہیں :
پہلا مرتبہ ظاہری طہارت کا ہے، جس کا پیچھے ذکر ہوا…، جیسے جسم اور کپڑوں کو ظاہری گندگیوں یعنی پیشاب، پاخانہ، … گوبر اور خون وغیرہ سے پاک رکھنا۔ … دوسرا مرتبہ اپنے اعضاء کو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے دور رکھنے کا ہے، …جیسے جھوٹ، غیبت، چغل خوری، زنا کاری اور چوری وغیرہ۔ …تیسرا مرتبہ اپنے دل کو روحانی بیماریوں جیسے حسد، بغض، …دنیا کی بہت زیادہ محبت اور کبر وغیرہ سے صاف کرنے کا ہے…۔ چوتھا مرتبہ اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر قسم کی محبت اور تعلق سے خالی کرنے کا ہے، … البتہ جو محبت اور تعلق اللہ ہی کی رضا کے لیے ہو، … وہ اس سے مانع نہیں ، … جیسے استاذ اور طالب علم کا تعلق…، شیخ اور مرید کا تعلق وغیرہ۔
شريعتِ مطہرہ میں طہارت کے ان تمام مراتب کے حصول کا حکم دیا گیا ہے …اور کامل انسان اسی وقت بنتا ہے جب ان تمام مراتب کو حاصل کر لیتا ہے، … انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی کا صحیح حق بھی اسی وقت ادا کر سکتا ہے، …جب وہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے… ہر قسم کی گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کر لے… اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے ہی خاص کر لے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے… کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: … جس شخص نے جمعہ کے دن غسل کیا …اور اپنی کوشش کے مطابق اپنے آپ کو پاک صاف کیا، … پھر کوئی تیل استعمال کیا یا اپنے گھر میں موجود کوئی خوشبو لگائی، … پھر جمعہ کی نماز کے لیے نکلا …اور دو آدمیوں کے درمیان گھس کر نہ بیٹھا، … اورجب امام (خطبہ کے لیے) نکلا تو خاموش رہا اور فرض نماز ادا کی… تو اللہ پاک ایسے شخص کے اس جمعہ سے اگلے جمعہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف فرما دیتے ہیں ۔ …
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے… کہ حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: … ہر مسلمان پر ہر سات دن میں (ایک مرتبہ) اس طرح غسل کرنا …اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ اس میں اپنے سر اور اپنے پورے جسم کو دھوئے۔ …
اس طرح اسلام ہرایک فرد کو پاکیزگی اور صفائی کی تعلیم دیتا ہے …اسی طرح اسلام اپنے ماحول اور معاشرے کو بھی …صاف ستھرا رکھنے کی نہ صرف ترغیب، بلکہ اس کا حکم دیتا ہے،
سیدنا حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے …کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: … لعنت کا باعث بننے والی تین چیزوں سے بچو: …انسانوں کی آمدو رفت کی جگہ پر…، راستے کے درمیان میں اور سائے میں پیشاب پاخانہ کرنے سے۔ …اسی حدیث کے پیشِ نظر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے… ہر ایسی جگہ پر پیشاب کرنے سے منع فرمایا… جہاں پر پیشاب کرنے سے عام انسانوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا …جو شخص یہ بدبودار درخت یعنی پیاز کھائے… وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، …کیونکہ ملائکہ کو ہر اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے …جس سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ “
مذکورہ بالا حدیث میں صرف مسجد ہی کی ممانعت نہیں …، بلکہ ہر ایسی جگہ جہاں لوگوں کا کچھ مجمع موجود ہو… وہاں بھی اس طرح کی چیز کھا کر جانا منع ہے۔ …اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ اگر کوئی فرد نظافت کاخیال نہ رکھتے ہوئے… دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا ہو تو… اس کولوگوں کے اجتماعات میں شرکت سے روکا جا سکتا ہے…، اگرچہ وہ نماز ادا کرنے کے لیے جماعت میں شرکت ہی کیوں نہ ہو، … جسے اکثر فقہائے کرام رحمہم اللہ نے واجب قرار دیا ہے۔
معاشرے میں رہتے ہوئے …ہرانسان اور خاص طورپر مسلمان پر لازم ہے… کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے… تین چیزوں میں خاص طور پرپاکیزگی، صفائی اور ستھرائی کا خیال رکھے:
سب سے پہلے انسان اپنی ذات اور اپنے کپڑوں وغیرہ کو صاف رکھے، … جس میں درج ذیل چیزوں کا اہتمام کرے:
٭…ہروضو کرتے وقت مسواک کرے…اور ہو سکے تو دن میں ایک آدھ بار ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کیا جائے، … نیز روزانہ یا کم از کم دو تین دن کے بعد غسل کیا جائے…۔
٭… ہر ہفتے یا پندرہ دن میں …یاکم از کم چالیس دن گزرنے سے پہلے پہلے جسم پر موجود زائد بالوں کی صفائی کی جائے
٭…، ڈاڑھی اور سر کے بالوں کو بھی وقتا فوقتاً درست رکھنے کا اہتمام کیا جائے …اور تیل لگانے کی بھی عادت ڈالی جائے…۔
٭…سنت پر عمل کرتے ہوئے ہفتہ یا پندرہ دن کے بعد… ناخن کاٹنے کا خاص اہتمام کیا جائے، … کیونکہ ناخن بڑھنے پر ان میں مٹی اور میل جم جاتی ہے…، جس سے بیماریاں پھیلتی ہیں ۔
٭…
صاف ستھرے کپڑے پہننے چاہیئں …، خصوصاً جب کسی مجلس میں شرکت یا نماز کے لیے جانا ہو تو… صاف دھلے ہوئے کپڑے اور خوشبو کا خاص طور پر اہتمام کرنا چاہیے، …تاکہ اس کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کو تکلیف نہ ہو۔
اللہ تبار ک وتعالیٰ ہمیں سرکار دوعالم ﷺ کی ان مبارک احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین یارب العٰلمین وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العٰلمین۔
Lesson 03 ناپاکی سے عذابِ قبر Punishment of the Grave from Impurity dars e Hadees Umar gallery ویڈیو
Please watch full video, like and share Lesson 03 ناپاکی سے عذابِ قبر Punishment of the Grave from Impurity dars e Hadees Umar gallery. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 10:56