عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعٌ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: يَا جُنَيْدِبُ، إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ.
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا، تو آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیر سے ہلا کر فرمایا: جنيدب! (یہ ابوذر کا نام ہے) سونے کا یہ انداز تو جہنمیوں کا ہے۔(سنن ابنِ ماجہ – آداب کا بیان۔ – حدیث نمبر 3724)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
إِنَّ هَذِهِ ضَجْعَةٌ لَا یُحِبُّهَا اﷲ
اس طرح لیٹنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔(ترمذي، السنن، 5: 97، رقم: 2748)
درج بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ پیٹ کے بل لیٹنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔اسلام صرف مذہب نہیں ‘بلکہ مکمل نظامِ حیات ہے جس میں ہر چیز کے متعلق احکام اور آداب پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ نینداورسوناانسان کی مادی ضرورت ہے اور اسلام نے اس مادی عمل کے بارے میں بھی احکام اورآداب بتائے ہیں۔ یہ آداب ایسے ہیں جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اور اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اعلیٰ و ارفع ہیں۔ ان آداب کی شرعی حیثیت واجب یا فرض کی نہیں ‘بلکہ سنت اور مستحب کی ہے۔لیکن یہ یاد رہے کہ ان آداب کی رعایت رکھنے سے ایک طرف تو بہت سے طبعی اورجسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان آداب کی رعایت رکھنے سے یہ مادی عمل بھی ثواب اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پیٹ کے بل الٹا لیٹنے سے احادیثِ مبارکہ میں ممانعت آئی ہے، اور ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے اس ممانعت کی وجوہات بھی بتادی ہیں کہ جہنمی اس طرح لیٹیں گے، نیز یہ اللہ کو ناپسند ہے، اور شیطان کے سونے کا طریقہ ہے، نیز اس طرح الٹا سونا صورتاً بھی قبیح اور برا ہے، اور طبی لحاظ سے صحت کے لیے بھی مضر اور نقصان دہ ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پیٹ کے بل لیٹنا سونے کا سب سے بدترین انداز ہے،اس لئے پیٹ کے بل سونا صحت کے لئے ضرر رساں ہے
٭پیٹ کے بل سونے والے مرگی کے شکار افراد میں حادثاتی موت کا خطرہ زیادہ ہے۔
٭اس حالت میں ریڑھ کی ہڈی غیر فطری رخ اختیار کر لیتی ہے۔اس کے عضلات اور مہروں پہ غیرضروری دبائو پڑتا ہے۔اگر انسان کئی دن پیٹ کے بل سوتا رہے،تو اس کی کمر اور گردن میں تکلیف ہو سکتی ہے۔
٭اس ہیئت میں سونے سے عموماً سانس لینے میں بھی رکاوٹ جنم لیتی ہے۔
٭اور بسا اوقات ایسا لیٹنا حرکت قلب اور معدے کے عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے کے باوجود ہم عملی طور پراپنی زندگیوں کو نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں اور سانچوں میں اس لیے نہیں ڈھالتے کہ ہمارے پاس اتنی فرصت نہیں کہ ہم آداب سنت کے طریقوں کو پڑھ سکیں یا کسی عالم دین سے سن سکیں۔ اور دنیا جہان کے کام ہمیں یاد آجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ساٹھ ستر سال دنیا میں رہنے اور خود کو فخر یہ انداز میں مسلمان کہلوانے کے باوجود ہم نبی کریم ﷺ کی سنت کے ان طریقوں پر عمل کرنے سے عاجز رہتے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر جنت کی ضمانت مل سکتی ہے۔ ہم کامیابیوں کو حاصل کرنے کی ہر ممکن جستجو تو کرتے ہیں لیکن جب موذن ہمیں حی علی الفلاح کہہ کر پکارتا ہے کہ مسلمانوں کامیابی کی طرف آؤ تو مسجدوں کی چند قدموں کی مسافت ہم پر بھاری ہوجاتی ہے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرنے کی خواہش تو بہت رکھتے ہیں لیکن ان آداب سنت پر عمل کرنے کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی۔ بہرحال سونے کے آداب کے حوالے سے اہم ترین آداب بیان کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کوئی مسلمان بھائی اسے پڑھ کے اپنے سونے کے طور طریقوں کو درست کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
سونے کے لیے لیٹنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ دائیں کروٹ پر دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر قبلہ کی طرف منہ کر کے سوئے۔ اگر مکمل وقت اسی کیفیت سے سونا مشکل ہو توکم از کم سونے کے لیے لیٹتے وقت اس ہیئت پر لیٹ جائے۔ بصورتِ دیگر سیدھا لیٹنے میں بھی حرج نہیں۔ البتہ پیٹ کے بل اُلٹا لیٹ کر سونا ناپسندیدہ اور ممنوع ہے،
٭اسی طرح نبی کریمﷺ نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا جس کے چاروں طرف دیوار یا منڈیر نہ ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نیند میں غفلت کے باعث کہیں چھت سے گر نہ جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص کسی گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس کا کوئی پردہ (دیوار)نہ ہو تو اس کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔‘‘(ابوداؤد)۔
اس ’’ذمہ داری‘‘سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی حفاظت کے غیبی انتظامات ہیں۔ جب کوئی شخص بغیر دیوار کی چھت پر سوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس حفاظتی انتظام کا حق کھو دیتا ہے اور حفاظت کرنے والے فرشتوں کی کوئی ذمہ داری نہیں رہتی۔
٭اور ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’سوتے وقت اثمد سرمہ اہتمام سے استعمال کیا کرو اس لیے کہ یہ بینائی میں اضافہ کرتا ہے اور بالوں کو اُگاتا ہے۔‘‘(ابن ماجہ)
٭اورسونے کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ جب لیٹنے کا ارادہ کرے تو اپنے بستر کو جھاڑے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی موذی جانور اس کے بستر پر موجود ہو اور اسے نقصان پہنچائے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے تہبند کے اندرونی حصہ سے اپنے بستر کو جھاڑے اور بسم اللہ پڑھے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد بستر پر کون اس کا جا نشین بنا تھا۔ ‘‘….مسلم
٭اسی طرحنبی کریم ﷺ نے سونے کے حوالے سے یہ ہدایت دی کہ جب رات کو سونے کا ارادہ کرو تو چراغ بجھا دیا کرو۔ تاکہ ہر قسم کے نقصان سے بچ سکو۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’رات کو جب تم سوتے ہو تو اپنے گھروں میں آگ اور چراغ کو چلتا نہ چھوڑو۔‘‘ (ابوداؤد)
آج کے دور میں چراغ اور آگ کا اطلاق خصوصی طور پر سوئی گیس کے چولہے اور ہیٹر پر ہوگا کہ سونے سے پہلے ان کو لازمی بند کر دیا جائے۔ورنہ آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ چولہے یا ہیٹر سے گھر کو آگ لگ گئی یا دم گھٹنے سے انسان کی موت واقع ہوگئی۔
٭اوراسی طرح اسلامی تعلیمات میں ستر پوشی کی خاص اہمیت ہے اورہر وہ حالت جس میں بے پردگی کا اندیشہ ہو ‘ اسلام نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔عہدِ رسولؐ میں لوگ زیادہ تر تہبند (پنجابی میں جسے دھوتی کہتے ہیں) پہنا کرتے تھے اور اس میں سیدھا لیٹ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھنے سے بے پردگی کا اندیشہ تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایا۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے سیدھے لیٹ کر ٹانگ پر ٹانگ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘(مسلم)البتہ اگر لباس ایسا ہو جس میں اس طرح لیٹنے سے بے پردگی کا اندیشہ نہ ہو تو پھر اس طرح لیٹنا جائز ہے۔
٭اورہر اچھے کام کی ابتدا دائیں طرف سے کرنا باعث برکت ہے اسی طرح سوتے وقت بھی دائیں کروٹ پر سونا برکت کا باعث ہے۔ نبی کریمﷺ کی بھی یہی عادت تھی کہ آپ دائیں کروٹ پر لیٹتے اور دائیں ہاتھ کو اپنی رخسار کے نیچے رکھتے تھے۔اور اپنے صحابہ کرام کو بھی اسی کی ہدایت فرماتے تھے: ’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ہدایت فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی سونے کا ارادہ کرے تو اپنی دائیں کروٹ پر لیٹے۔‘‘….مسلم
٭مندرجہ بالا آداب کے علاوہ نبی کریمﷺ نے اور بھی بہت سی ایسی ہدایات دی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان مختلف قسم کے نقصانات سے بچ جاتا ہے۔حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’٭ جب رات کی تاریکی آ جائے یا تمہارے سامنے شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو باہر نکلنے سے روکو اس لیے کہ اس وقت شیاطین پھیل جاتے ہیں اورجب رات کی ایک گھڑی گزر جائے تو ان کو چھوڑ دو۔اور
٭ اللہ کا نام لے کر دروازے بند کردو اس لیے کہ شیطان بند کیے ہوئے دروازے نہیں کھولتا۔اور
٭اوررسول اللہ ﷺ نے سونے کی دعابھی اپنی اُمت کو تعلیم فرمائی ہے جس کو پڑھنے سے انسان ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔
حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا جب سونے کے لیے لیٹتے تو اپنا(دائیاں) ہاتھ رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے:
اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰی
(اے اللہ !میں تیرے ہی نام کے ساتھ مرنا اور جینا چاہتا ہوں) ۔
علماء نے اس دعا کی فضیلت کے بارے میں لکھا ہے کہ جو شخص اس دعا کو اپنا معمول بنائے گا تو قیامت کے دن جب وہ اٹھایا جائے گا تو اس وقت اس کی زبان سے یہ دعا جاری ہوگی اور اس وقت اس دعا کے معنی پوری طرح صادق آئیں گے اس لیے کہ تب انسان حقیقی موت کے بعد ہی دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔مذکورہ بیان کردہ دعا کے علاوہ اوربھی کئی اذکار ہیں جن کو سوتے وقت پڑھنے کی بہت فضائل ہیں ‘مثلاً:
٭آیۃ الکرسی،اورسورۃ البقرہ کی آخری دو آیات:
حضرت ابومسعود بدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رات کو سوتے وقت سورۃ البقرہ کی آخری د وآیات پڑھ لے وہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘…بخاری
٭چاروں قل اور
٭سبحان اللہ‘الحمد للہ‘اللہ اکبر:
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریمﷺ کے پاس خادم مانگنے کے لیے گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں !سوتے وقت۳۳ بارسبحان اللہ۳۳بار الحمد للہ اور۳۴بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔‘‘ …
بخاری بیداری کے وقت کی دعا:
انسان جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ کا شکر بجا لائے اور یہ دعا پڑھے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النَّشُوْر…بخاری
٭اور نبی کریم ﷺ نے سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے کی ہدایت فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس وقت تم میں سے کوئی شخص رات میں نیند سے بیدار ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھولے۔‘‘…..نسائی۔
نبی کریم ﷺ بیدار ہونے کے فوراً بعد مسواک کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ رات یا دن میں جب بھی سو کر اٹھتے تو مسواک ضرور کرتے تھے۔‘‘(ابوداؤد)
سائنس بھی اس بات پر زور دیتی ہے کہ انسان کو نیند کے بعد اپنے دانتوں کی صفائی ضرورکرنی چاہیے اس سے انسان مختلف قسم کی بیماریوں سے بچ جاتا ہے اور تندرست و توانا رہتاہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کی رعایت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ﷲ ہم سب مسلمانوں کو اپنے نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین‘
Dars e Hadees Hadees 39 اُلٹا لیٹنے کی ممانعت اور سونے کے آداب Prohibition of Lying on the back an ویڈیو
Please watch full video, like and share Dars e Hadees Hadees 39 اُلٹا لیٹنے کی ممانعت اور سونے کے آداب Prohibition of Lying on the back an. Subscribe UmarGallery channel.
Video length: 13:35