مومن کی معراج
انسان اصلاً بندہ ہی پیدا ہوا ہے اور اس کی فطرت یہی ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ بندگیِٔ رب کے عہد پر جما رہے ۔ دینِ فطرت کی اسی روح کو ذہن و قلب میں جمانے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے نماز فرض کی ہے ۔ نماز قائم کرنا دراصل دینِ فطرت پر قائم رہنے کا اظہار ہے ۔
رسولوں کے بھیجنے کی اصل غرض یہی تھی کہ خدا کے بندے ہر ایک کی اطاعت اور بندگی سے منہ موڑ کر صرف خدائے واحد کی عبادت اور بندگی کریں ۔ ہر نبی کی شریعت میں بندوں کو عبادت کے کچھ طریقے بتائے گئے تھے ، ان عبادتوں میں سب سے اہم درجہ ’’ نماز ‘‘ کا ہے ۔
۱۔ نماز کیلئے قرآن نے ’’ صلٰوۃ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ لغت میں صلوٰۃ کے معنیٰ ہیں کسی چیز کی طرف رخ کرنا ، بڑھنا اور قریب ہونا ۔ قرآن کی اصطلاح میں صلوٰۃ کا مفہوم ہے خدا کی طرف متوجہ ہونا ، بڑھنا اور قریب سے قریب تر ہونا ۔
۲۔ لغت میں ’’ صلوٰۃ ‘‘ کے معنی دعاء کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں ’’ صلوٰۃ ‘‘ اس خاص عبادت کا نام ہے جو ارکان و شرائط کے ساتھ چند مخصوص اقوال و افعال کی صورت میں ادا کی جاتی ہے ۔ جس کی ابتداء تکبیر سے ہوتی ہے اور اختتام سلام پر ہوتا ہے ۔ فارسی اور اردو میں بھی اس کو ’’ نماز ‘‘ کہتے ہیں ۔ (۳)
۳۔ نماز توحید کا لازمی مظہر اور ایمان کی دائمی علامت ہے ۔ اعتقاد کے پہلو سے اگر توحید پورے دین کا سرچشمہ ہے تو عمل کے پہلو سے نماز پورے دین کی عملی بنیاد ہے ۔ اس کا قیام پورے دین کا قیام ہے ، یہ مومن کا ایک ’’ بہترین عمل ‘‘ ہی نہیں ، بلکہ تمام اعمالِ خیر کی اساس ہے ۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر قرآن نے نماز کے ادا کرنے کے لئے ’’ ادا کرنے ‘‘ کا سادہ سا انداز اختیار کرنے کے بجائے ’’ محافظت ‘‘ اور ’’اقامت‘‘ کے الفاظ استعمال کئے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نماز جوں توں پڑھنا ہی فرض نہیں ہے ۔ بلکہ پورے اہتمام ، توجہ ، یکسوئی اور آداب و ارکان کا لحاظ کرتے ہوئے ادا کرنا ضروری ہے ۔
فرائض اسلام میں نماز کا مقام :
اسلام کے فرائض اور اعمال تو بہت ہیں مگر نماز کو جو مقام دیا گیا ہے اس کی وجہ سے نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ نماز کا بلند مرتبہ اس سے سمجھ لو کہ دوسرے فرائض کا یہیں زمین پر رہتے ہوئے حکم دے دیا گیا اور نماز کیلئے خدائے پاک وحدہ‘ لا شریک نے یہ اہتمام فرمایا کہ رسولِ اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کو معراج کرا کر عالمِ بالا میں عطا فرمائی اور اسلام کے فرائض میں دنیا میں سب سے پہلے نماز فرض ہوئی اور آخرت میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا ۔ بلکہ آخرت کی کامیابی اور بامرادی کا مدار ہی نماز کے ٹھیک نکلنے پر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ اَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلٰوتُہ‘ فَاِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ اَفْلَحَ وَاَنْجَحَ وَاِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ
’’ قیامت کے دن بندہ کے اعمال کا جو حساب ہوگا ان میں سب سے اول نمبر پر نماز ہے ۔ سو اگر نماز ٹھیک نکلی تو (بندہ ) کامیاب اور بامراد ہوگا اور اگر نماز خراب نکلی تو ناکام ہوگا اور خسارہ میں پڑے گا یعنی نقصان اٹھائے گا ۔ ‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے پوچھا کہ اﷲ تعالیٰ کو تمام عبادتوں میں کون عبادت زیادہ پسند ہے ؟ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ نماز ۔
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک نماز کا بہت بڑا رتبہ ہے ، کوئی عبادت اﷲ تعالیٰ کے نزدیک نماز سے زیادہ پیاری نہیں ہے ۔
ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا جس کے پاس نماز نہیں (یعنی جو نماز نہ پڑھتا ہو ) اس کے پاس دین نہیں ۔ نماز کو دین سے وہ نسبت ہے جیسے کہ سر کو دھڑ سے کہ سر نہ ہو تو دھڑ مردہ ہے ۔ اسی طرح نماز نہ ہو تو تمام اعمال بے جان ہیں ۔
نماز ایمان کی فیصلہ کن علامت ہے :
قرآن میں ارشاد الٰہی ہے :
فَلاَ صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی ہوَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ہ
ایمان اور نماز لازم و ملزوم سی چیزیں ہیں ۔ یعنی اگر اس نے کتابِ ہدایت کی تصدیق کی ہوتی تو نماز بھی قائم کرتا ۔ اور نماز سے محرومی اس بات کا ثبوت ہے کہ دل میں تکذیب و انکار دنیا پرستی اور استکبار بھرا ہوا ہے .
نماز ہی ایمان کا سب سے پہلا مظہر ہے ۔
اس انداز بیان سے وہ دراصل یہی بتانا چاہتا ہے کہ دل میں اگر ایمان کا بیج پڑ چکا ہو تو اس سے عمل کا جو پہلا پودا نکلے گا وہ نماز کا پودا ہوگا ۔
نہ صرف یہ کہ نماز ایمان کا سب سے پہلا مظہر ہوتی ہے بلکہ وہ ایمان کا لازمی مظہر بھی ہوتی ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ دل میں ایمان تو ہو مگر سر میں رکوع اور سجدے کی تڑپ نہ ہو ۔ ایمان دل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہی کیفیت ہے جو خارج میں نماز کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ اس لیے جہاں ایمان ہو وہاں نماز ضرور ہوگی ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ جہاں سورج نکلا ہوا ہو وہاں روشنی اور گرمی ضرور ہوتی ہے ۔
یہ بات کہ نماز ایمان کا لازمہ ہے ، آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کے صاف اور صریح ارشادات کا فیصلہ ہے ، کوئی قیاس نہیں ہے ۔ آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم فرماتے ہیں :
بے شک انسان اور شرک و کفر کے درمیان علیحدگی پیدا کرنے والی چیز نماز ہے ۔
نماز کی ایک اور بڑی اہمیت کتاب و سنت سے یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ پوری شریعت کے جذبۂ اتباع کا سرچشمہ بھی ہے اور اس کی محافظ بھی ۔ وہ اگر ادا ہوگی تو شریعت کے باقی احکام بھی ادا ہوسکیں گے اور اگر اس کا حق ادا نہ ہوا تو باقی شریعت بھی غفلت کی نذر ہوجانے سے نہ بچ سکے گی ۔
مسلمان کا سب سے بڑا کام نماز ہے اور اس کا درجہ تمام کاموں سے بڑھ کر ہے ۔ پورے دینی نظام میں نماز کی جو امتیازی حیثیت ہے حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اس کو خوب سمجھا تھا ، اسی کی بنیاد پر حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اسلامی قلمرو کے تمام عمال (صوبوں کے اعلیٰ افسران ) کو ایک خاص گشتی فرمان لکھا تھا کہ :
تمہارے تمام کاموں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ مہتم بالشان کام نماز ہے جس نے نماز کی کماحقہ حفاظت کی اس نے اپنے پورے دین کی حفاظت کر لی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ دین کے دوسرے کاموںکو اور زیادہ برباد کردے گا ۔ (۱)
نماز ہی اصل زندگی ہے :
قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج
’’ کہہ دیجئے کہ بے شک میری نماز ، میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت ، سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ ‘‘
آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے ۔ نماز ، قربانی ، زندگی ، موت ۔ ترتیب میں نماز کے مقابلہ میں زندگی ، اور قربانی کے مقابلہ میں موت رکھی گئی ہے ۔ اس ترتیب میں اس حقیقت کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ نماز ہی اصل زندگی ہے ۔ جس طرح خدا کیلئے ہماری موت ، ہماری قربانی ہے ۔ اسی طرح خدا کیلئے ہماری زندگی یہ ہے کہ ہم اس کی نماز قائم کریں ۔
نمازی کا سارا جسم عبادت میں لگ جاتا ہے
نماز میں بڑی خوبی یہ ہے کہ نماز پڑھتے وقت نمازی کا سارا جسم عبادت میں ہی لگ جاتا ہے ۔ ہاتھ ، پائوں ، سر ، کمر ، ناک ، آنکھ ، زبان سب اسی طرح موقعہ بموقعہ رکھنے اور استعمال کرنے پڑتے ہیں جس طرح حکم ہے ۔ یوں سمجھو کہ نمازی کے بدن کا ہر حصہ خدا کے حکم پر چلنے کی مشق کرنے میں لگ جاتا ہے ۔ اور کوئی مرد یا عورت ٹھیک ٹھیک نماز پڑھے تو نماز کے باہر بھی گناہوں سے بچے گا ۔ قرآن شریف میں ارشاد ہے :
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرط
’’ یعنی نماز بے حیائی سے اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔ ‘‘
نماز اسلام کا رکنِ اعظم ہے ۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام کا دارومدار اسی پر ہے تب بھی بالکل مبالغہ نہیں ۔ ہر مسلمان عاقل ، بالغ پر ہر روز پانچ وقت نماز فرضِ عین ہے ۔ امیر ہو یا فقیر ، تندرست ہو یا مریض ، مسافر ہو یا مقیم ، یہاں تک کہ دشمن کے مقابلہ میں جب لڑائی کی آگ بھڑک رہی ہو اس وقت بھی اس کا چھوڑنا جائز نہیں ہے ۔ عورت کو جب وہ دردِ زہ میں مبتلا ہو ، جو ایک سخت مصیبت کا وقت ہے ،نماز کا چھوڑنا جائز نہیں ہے ۔
جو شخص نماز کی فرضیت کا انکار کرے وہ یقینا کافر ہے ۔ نماز کی تاکید اور فضائل سے قرآن مجید اور احادیث کے مبارک صفحات لبریز ہیں ۔ کسی اور عبادت کی اس قدر سخت تاکید شریعت میں نہیں ۔
حقیقت نماز :
ذہن فطری طور پر یہ سوال کرتا ہے کہ آخر نماز کا یہ مقام کیوں ہے ؟ کیا بات ہے کہ وہ شریعت کا ایک جزو ہوتے ہوئے بھی گویا پوری شریعت ہے اور ایک عمل ہوتے ہوئے بھی گویا اصل ایمان ہے ؟ اس سوال کا جواب ایک اور سوال کے جواب سے ملے گا ۔ اور وہ یہ کہ خود یہ نماز کیا چیز ہے ، اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ قرآن مجید بتاتا ہے کہ نماز اﷲ کی یاد کا نام ہے ۔ (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ہ ’’ میری یاد کیلئے نماز قائم کرو۔‘‘ ) اور یہ کہ نماز بندے کو اپنے رب سے قریب کر دیتی ہے ۔ (وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ہ ’’ سجدہ کر اور قریب ہوجا ۔ ‘‘ ) اتنا قریب کر دیتی ہے کہ اتنی قربت کسی بھی دوسرے عمل کے ذریعہ اور کسی بھی دوسری حالت میں اسے حاصل نہیں ہوسکتی ۔ (اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَّبِّہٖ وَھُوَ سَاجِد’‘ ) حتیّٰ کہ وہ اس وقت ہر ماسوا سے کٹ کر اپنے آقا و مولا کی حضور ی میں جا پہنچا ہوتا ہے اور اس سے ہم کلامی میں مشغول ہوتا ہے ۔ (اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا صَلّٰی یُنَاجِیْ رَبَّہ‘ ) اﷲ کی یاد ، اس کا قرب ، اس کی حضوری اور اس کی ہم کلامی ۔ کیا دین کی روح اور بندگی کی معراج ان چیزوں کے سوا اور بھی کچھ ہوسکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ نہیں ، اور ہر گز نہیں ۔ خدا پرستانہ عمل ایمان ہی کا ثمرہ ہوتا ہے اور ایمان کی جڑوں کو نمی اور تازگی صرف اﷲ کی یاد ہی سے ملتی ہے ۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ورد سے اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہو ۔ (جَدِّدُوْا اِیْمَانَکُمْ بِقَوْلِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ) جس درخت کی جڑوں کو نمی اور تازگی نہ پہنچتی ہو وہ سوکھنے لگتا ہے ۔ اور پھولنا پھلنا بند کردیتا ہے ۔ اس لیے جس شخص کا دل اﷲ کی یاد سے غافل ہو اس کا ایمان مرجھا کر رہ جائے گا ۔ اور جس کا ایمان مرجھا گیا ہو اس کا عمل نیکی اور خدا ترسی کا عمل نہیں ہوسکتا ۔ ایسا عمل اگر ہوسکتا ہے تو صرف ایسے شخص کا ہوسکتا ہے جس کے اندر ایمان کی تازگی موجود ہو اور ایمان اسی شخص کا تازہ ہو سکتا ہے جس کے دل میں اﷲ کی یاد گھر کیے ہو ۔ نماز نہ صرف یہ کہ اﷲ کی یاد ہے بلکہ اس یاد کا سب سے بہتر ، سب سے کامل اور سب سے زیادہ مؤثر طریقہ ہے ۔ اس لیے نیکی اور خدا پرستی کے وجود کو نماز کے وجود پر منحصر ہونا ہی چاہئے ۔ ( ۶)
نماز نہ پڑھنے کا ہولناک انجام :
نماز کی پابندی ہر بالغ مردو عورت پر لازم ہے ۔ ( ۴)
سورہ ماعون میں فرمایا :
فَوَیْل’‘ لِّلْمُصَلِّیْنَ ہالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَ ہ
’’ سو بڑی خرابی ہے ان نمازیوں کیلئے جو اپنی نمازوں کی جانب سے غفلت برتتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا :
وَلَا تَتْرُکُنَّ صَلٰوۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَاِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلٰوۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ
’’ اور فرض نماز ہر گز قصداً مت چھوڑ کیونکہ جس نے فرض نماز چھوڑ دی اس سے اﷲ کا ذمہ بری ہوگیا۔ یعنی دنیا و آخرت میں اسے عذاب و تکلیف سے اور ذلت سے بچانے کی ذ مہ داری اﷲ تعالیٰ پر نہیں رہی ۔ ‘‘
اسی طرح قرآن مجید میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اہلِ دوزخ سے فرشتے جب پوچھیں گے کہ ’’ مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ ‘‘ (تمہیں جہنم میں کس چیز نے ڈالا ؟ ) تو ان کا جواب ان لفظوں سے شروع ہوگا : ’’ لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ‘‘ (ہم نمازیوں میں سے نہ تھے ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز ی ہونا اور مومن و موحد ہونا گویا ایک سی بات ہے ۔ کیونکہ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جنتی اور دوزخی ہونے کا مدار ایمان اور کفر پر ہے ۔ اب اگر دوزخی ھقائق غیب کا انکشاف ہونے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم نماز نہ پڑھنے کے باعث جہنم میں ڈالے گئے ہیں ۔ ‘‘ تو دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ قیامت کے دن ایمان اور نماز لازم و ملزوم کی حیثیت سے نمایاں ہوں گے ۔ جبھی تو وہ جواب میں ’’ ہم مومن نہ تھے ۔ ‘‘ کے بجائے ’’ ہم نمازی نہ تھے ‘‘ کے لفظوں سے جواب کی ابتداء کریں گے ۔
ایک نماز کی قیمت کس قدر ہے ۔ سرورِ دوعالم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے کہ :
اَلَّذِیْ تَفُوْتُہ‘ صَلٰوۃُ الْعَصْرِ فَکَاَنَّمَا وُتِرَ اَھْلُہ‘ وَمَالُہ‘
’’ جس کی عصر کی (ایک ) نماز جاتی رہی (اس کا اس قدر نقصان ہوا کہ ) جیسے اس ک اہل و اولاد اور سارا مال ختم ہوگیا ۔ ‘‘
حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا ہے کہ پانچ نمازیں اﷲ تعالیٰ نے فرض کی ہیں ۔ جس نے ان نمازوں کا وضو اچھی طرح کیا اور ان کو بروقت پڑھا اور ان کا رکوع و سجدہ پوری طرح ادا کیا تو اس کیلئے اﷲ تعالیٰ کا ذمہ اور اس کا عہد ہے کہ اﷲ اس کو بخش دے گا اور جس نے ایسا نہ کیا تو اس کیلئے اﷲ کے ذمے کوئی عہد و بخشش کا نہیں چاہے بخشے چاہے عذاب دے ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے :
اَلْعَھْدُ الَّذِیْ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُم الصَّلٰوۃُ فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ
یعنی ہمارے اور کافروں کے درمیان جو اصلی اور واقعی فرق ہے وہ نماز پڑھنے نہ پڑھنے کا فرق ہے۔ پس جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کا کام کیا ۔
(یہی سارے احکام قرآن و سنت ہیں ) جن کی بنا پر بعض علمائے اسلام نے تو اس شخص کو گردن زدنی تک کہہ دیا ہے ۔ جو نماز کو جان بوجھ کر چھوڑ دے اور نہ پڑھنے پر مصر رہے ۔ جس طرح کہ دین سے پھر جانے والا گردن زدنی ہوا کرتا ہے ۔
نماز اور خواتین :
رسول اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ عورت جب پنچوقتہ نماز پڑھے اور رمضان کے روزے رکھے اور پاک دامن رہے اور شوہر کی فرمانبرداری کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ۔
رسول اﷲ ! صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا ایسی عورت پر اﷲ کی رحمت نازل ہو جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے کہ وہ بھی نماز پڑھے .
ایک حاملہ عورت کی دو رکعت کی نماز بغیر حاملہ عورت کی اسی رکعتوں سے بہتر ہے ۔
جو عورت حاملہ ہو ، اس کی رات ، عبادت کی رات اور دن روزہ میں شمار ہوتا ہے ۔
جب کسی عورت کا بچہ پیدا ہوجائے تو اس کیلئے ستر سال کی نماز اور روزے کا ثواب لکھا جاتا ہے اور بچہ پیدا ہونے میں جو تکلیف برداشت کرتی ہے ، ہر رگ کے درد پر ایک ایک حج کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔
جب شوہر سفر سے واپس آئے اور عورت اس کو کھانا کھلائے اور اس دوران اس نے کوئی خیانت بھی نہ کی ہو تو اس عورت کو بارہ سال کی نفلی عبادت کا ثواب ملتا ہے ۔
دو افراد کی نماز سر سے اوپر نہیں جاتی ، ایک وہ جو اپنے مالک سے بھاگا ہو ، دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو ۔
افسوس ہے کہ عورتیں نمازی بہت کم ہیں ۔ حالانکہ قرآن کی ایک آیت میں نماز ترک کرنے کو شرک میں داخل کیا گیا ہے ۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں :
مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ
یعنی اﷲ سے ڈرو ، نماز قائم کرو اور مشرکین میں مت بنو ۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز نہ پڑھنا مشرک بننا ہے ۔
اور حدیث میں تو یہ مضمون بہت صاف آیا ہے : من ترک الصلٰوۃ متعمدًا فقد کفر ۔ یعنی جس نے نماز کو قصداً ترک کر دیا وہ کافر ہوگیا ۔ گو جمہور علماء نے ان آیات و احادیث میں تاویل کی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ نماز کا چھوڑنا کافروں کا سا کام ہے ۔
(بہت سے اسباب ہیں ) جن کی وجہ سے نمازیں ترک کی جاتی ہیں مثلاً بچوں کے رونے کی وجہ سے یا ان کو نہلانے دھلانے کی وجہ سے اور کھلانے پلانے کی مشغولیت کی وجہ سے یا دیر میں سونے کے باعث دیر سے آنکھ کھلنے کی وجہ سے یا جلدی سونے کے تقاضے کی وجہ سے سفر کی وجہ سے ، اور دکھ تکلیف کی وجہ سے ، ان میں سے بہت سی چیزیں وہ ہیں جو عورتوں کی نمازیں قضا ہونے کا سبب بنتی ہیں ۔ حالانکہ جب تک جان میں جان رہے اور ہوش باقی ہو ۔ فرض نماز ترک کرنے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
بیاہ شادی کے موقعہ پر عورتیں اکثر نمازیں قضا کر دیتی ہیں ، اپنی نکالی ہوئی رسمیں تو ایسی پابندی سے پوری کرتی ہیں کہ گویا بالکل فرض ہیں اور خداوند کریم کے فرضوں سے بالکل غفلت برتتی ہیں اور دلہن جب تک دلہن رہتی ہے نماز پڑھتی ہی نہیں ۔ نماز پڑھنے کو بے شرمی سمجھا جاتا ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ کھانے پینے میں شرم نہیں اور نماز پڑھنے میں شرم آڑے آجاتی ہے ۔ کیسی بے جا بات ہے ؟
بعض عورتیں نماز وقت سے ٹال دیتی ہیں ۔ نماز کا وقت آگیا اور بیٹھی باتیں بنا رہی ہیں ۔ جب وقت قریب الختم (آخری ) ہوتا ہے اس وقت پیشاب پاخانہ کیلئے لوٹا ہاتھ میں لیا جاتا ہے ۔ حتیّٰ کہ ان مقدمات ہی میں وقت نکل جاتا ہے ۔ یاد رکھو بغیر کسی عذر کے نماز کا وقت سے ٹالنا سخت گناہ ہے ۔
بعض دفعہ ایام (مہینہ ) سے پاک ہونے کے بعد جلدی نماز شروع نہیں کرتیں دو تین وقت ٹال دیتی ہیں کہ کل سر دھوکر بال درست کر کے نہائیں گے پھر نماز شروع کریں گے ۔
بعض عورتیں اگر نماز پڑھتی بھی ہیں تو بہت ہی دیر کر کے اور مکروہ وقت میں اور پھر اس قدر جلدی کہ نہ قیام درست نہ رکوع ٹھیک ۔ گویا ایک مصیبت ہے کہ جس طرح بنے اس سے چھوٹیں ۔ اگر زیادہ ہمت نہیں تو نفلیں نہ پڑھا کرو لیکن فرائض اور سنتوں میں تو کتر بیونت (کانٹ چھانٹ اور کوتاہی ) نہ کیا کرو ان میں تو ارکان کی تعدیل کا لحاظ ضروری کیا کرو ۔
بعض عورتیں نماز پڑھتی ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ وہ رکوع سجدے ٹھیک نہیں کرتیں ، بڑی جلدی کرتی ہیں ۔ حالانکہ تعدیل ارکان واجب ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک فرض ہے ۔ تعدیل ارکان کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے ہر رکن کو اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کیا جائے ۔ مثلاً رکوع کے بعد سر اٹھا کر تھوڑی دیر سیدھا کھڑا ہوجانا چاہئے ۔ اور سمع اﷲ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمد ۔ سیدھا کھڑا ہو کر کہے ۔ اس کے بعد اطمینان سے سجدہ میں جائے ۔ اس کو قومہ کہتے ہیں ۔ عورتیں قومہ بالکل نہیں کرتی اور بعض مرد بھی نہیں کرتے بس رکو ع سے فارغ ہوکر ذرا سر کا اشارہ کر کے فوراً سجدے میں چلے جاتے ہیں ۔ اس طرح نماز نہیں ہوتی ۔ رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہوجانا ضروری ہے ، اسی طرح اکثر عورتیں دونوں سجدوں کے بیچ میں جلسہ نہیں کرتیں ۔ بس ایک سجدہ کر کے ذرا سا سر کا اشارہ کر کے فوراً دوسرا سجدہ کر دیتی ہیں ، اس طرح بھی نماز نہیں ہوتی ۔ اس کا خوب خیال رکھو اور قومہ و جلسہ خوب اطمینان سے ادا کرو ۔
بعض عورتیں خود تو نماز کی پابندی کرتی ہیں مگر بچوں اور مامائوں (گھر کی نوکرانیوں ) کو نماز کے واسطے نہیں کہتیں ۔ مامائوں (نوکرانیوں ) کو بھی نماز کی تاکید کرنی چاہئے ۔ چونکہ وہ تمہاری ماتحت (تابع) ہیں اگر تم ان کو دھمکائو گی تو ضرور اثر ہوگا ۔ اور اس میں سستی کرنے سے تم پر بھی مواخذہ (گناہ ) ہوگا ۔ کہ تم نے قدرت ہوتے ہوئے کیوں سستی کی ۔ بلکہ جس ماما (نوکرانی ) کو مقرر کرو اس سے یہ شرط طے کر لیا کرو کہ تم کو پانچوں وقت نماز پڑھنا ہوگی ۔ جس گھر میں ایک شخص بھی بے نماز ہوتا ہے اس گھر میں نحوست برستی ہے ۔ عورتوں کو اس طرف تو بالکل توجہ نہیں۔
یہ عورتوں کی نماز کے متعلق چند کوتاہیاں ہیں ۔
نبی اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم اور صحابہ کرام کا شوق نماز اور اس کا شدت سے اہتمام :
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم سے فرمایا کہ آپ کیلئے نماز محبوب بنا دی گئی ہے ۔ پس آپ جتنا چاہیں نماز سے لیں ۔
نماز میں خشوع اور تواضع اور توجہ الی اﷲ کی بڑی تاکید فرماتے تھے ۔ جس وقت زخمی ہوئے ہیں فجر کی نماز کا وقت تھا ۔ کسی نے کہا کہ امیرالمؤمنین کہ آج فجر کی نماز قضا ہوئی جاتی ہے ، بے ہوش تھے مگر یہ آواز سنتے ہی آنکھ کھول لی اور فرمایا مجھے جلدی نماز پڑھائو ۔ جس کی نماز جاتی رہی اس کا کچھ حصہ اسلام میں نہیں ۔ اس کے بعد آپ نے نماز پڑھی اور آپ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا ۔
عبد الرحمن بن یزید رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی فقیہ کو عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے کم روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نفلی روزے کیوں نہیں رکھتے ؟ تو آپ نے فرمایا میں نماز کو روزہ سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ جب میں روزہ رکھتا ہوں تو نماز پڑھنے سے کمزور ہوجاتا ہوں۔
حضرت ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کا سات رات مہمان رہا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ اور ان کا خادم اور ان کی عورت ایک دوسرے کے بعد تہائی تہائی رات میں عبادت کرتے رہے ۔
حضرت اسما ء رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابن زبیر رضی اﷲ عنہ راتوں کو عبادت کرنے والے اور دنوں کو روزہ رکھنے والے تھے اور ان کا نام مسجد کا کبوتر رکھا گیا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جب تک تو نماز میں ہے تو بادشاہ کے دروازہ کو کھٹکھٹا رہا ہے اور جو بادشاہ کے دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہی رہے اس کیلئے دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔
حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ تم اپنی حاجتوں کو فرض نمازوں پر اٹھا رکھو ۔ (یعنی فرض نمازوں کے بعد اپنی حاجتوں کو اﷲ سے مانگو )
آپ صلّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ نمازیں اُن خطائوں کا کفارہ ہیں جو اُن کے درمیان میں سرزد ہوتی ہیں ۔ جب تک کہ گناہ کبیرہ سے بچتا رہے ۔
صحابہ کرام جس مستعدی و سرگرمی کے ساتھ نماز پنجگانہ ادا فرماتے تھے اس کے متعلق احادیث میں نہایت کثرت سے واقعات مذکور ہیں ۔ بخاری میں ہے کہ جب جماعت کھڑی ہوتی تھی تو تمام صحابہ رضی اﷲ عنہم اس تیزی کے ساتھ دوڑتے تھے کہ شور ہوجاتا تھا ۔ سخت سے سخت مصروفیت کی حالت میں بھی جب نماز کا وقت آتا تھا تو تما م کاروبار چھوڑ کر سیدھے مسجد کی طرف روانہ ہوجاتے تھے ۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اﷲ سے روایت ہے :
صحابہ بیع و شرا کرتے تھے ، نماز مفروضہ کو جماعت کے ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے تھے ۔
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ مکہ میں حجاج کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے لیکن جب اس نے تاخیر کرنا شروع کی تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا چھوڑ دیا اور مکہ سے نکل گئے ۔
انسان اصلاً بندہ ہی پیدا ہوا ہے اور اس کی فطرت یہی ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ بندگی رب کے عہد پر جما رہے ۔ دینِ فطرت کی اسی روح کو ذہن و قلب میں جمانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے نماز فرض کی ہے ۔ نماز قائم کرنا دراصل اپنے دینِ فطرت پر قائم رہنے کا اظہار ہے ۔ بندہ دن میں بار با ر خدا کے حضور دست بستہ کھڑے ہو کر اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔ اس کی بندگی کا اقرار کرتا ہے اور اس کے آگے جھک کر ، سجدہ میں پڑ کر یہ اعلان کرتا ہے کہ میں سب سے رخ موڑ کر پوری یکسوئی کے ساتھ خدائے واحد کی بندگی کی راہ پرقائم ہوں ۔ (۲)
زندگی با بندگی تابندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی