o…شاگرد:استادِ محترم!ایمان اور نمازکے بعداسلام کا تیسرا رکن کون سا ہے؟دین میں اس کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
٭…استاد:اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ایمان اور نماز کے بعد دوسری عملی بات زکوٰۃ کا درجہ ہے۔اس فریضہ کانام اسلام نے زکوٰۃ اس لیے رکھا ہے کہ اس کے ذریعہ مالداروں کے مال میں سے غرباء کا حق نکال کر اُس مال کو جو امیر آدمی کے پاس رہ جاتا ہے پاک اور قابلِ استعمال بنایا جائے اور حقیقت میں طیب اور پاکیزہ اور قابلِ استعمال مال وہی ہے جس میں غرباء کو بھی شامل کیا جا ئے اور ان کا حصہ خدائی فرض سمجھ کر خوشی اور بشاشت کے ساتھ الگ نکالا جائے اور پھر اس حصہ کو خلوص کے ساتھ تقسیم کیا جائے نہ یہ کہ اسے نام ونمود کا ذریعہ بنایا جائے کیونکہ اپنے مال میں سے خدا تعالیٰ کا حصہ نکالے بغیر نہ کسی مسلمان کا مال پاک ہو سکتا ہے نہ اُس میں برکت ہو سکتی ہے۔
قرآن شریف میں جا بجانماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کی تاکید کی گئی ہے اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کا جو بُرا انجام قیامت میں ہونے والا ہے اور جو سزا ان کو ملنے والی ہے وہ اتنی سخت ہے کہ اُ س کے سننے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل کا نپنے لگتا ہے سورۂ توبہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے:…
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ہ یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُہُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ ہ
اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں ، اور اُس کو اﷲ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن کو ایک دردناک عذاب کی ’’ خوشخبری ‘‘ سنادو ۔جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا ، پھر اُس سے ان لوگوں کی پیشانیاں اور ان کی کروٹیں اور ا ن کی پیٹھیں داغی جائیں گی ، (اور کہا جائے گا کہ : ) ’’ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا ! اب چکھو اُس خزانے کا مزہ جو تم جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے ۔ ‘‘(سورۂ توبہ)
اس آیت کے مضمون کی کچھ تفصیل حضور صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ایک حدیث میں بھی فرمائی ہے۔اُس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ:…
’’جس شخص کے پاس سونا چاندی(یعنی مال ودولت) ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرے(یعنی زکوٰۃ وغیرہ نہ دیتا ہو)تو قیامت کے دن اُ س کے واسطے آگ کی تختیاں تیار کی جا ئیں گی،پھر اُن کو دوزخ کی آگ میں اور زیادہ گرم کرکے اُن سے اس شخص کی پیشانی کو اور کروٹ کو اور پشت کو داغا جائے گا اور اسی طرح بار بار اُن تختیوں کو دوزخ کی آگ میں تپا کے اُس شخص کو داغا جاتارہے گا اور روزِ قیامت کی پوری مدت میں اس عذاب کا سلسلہ جا ری رہے گا اور وہ مدت پچاس ہزار سال کی ہو گی(تو گو یا پچاس ہزار سال تک اُس کو یہ سخت عذاب ہوتا رہے گا۔)‘‘
بعض احادیثوں میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے اس کے علاوہ اور دوسرے قسم کے سخت عذابوں کا ذکر بھی آیا ہے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم کو اپنے عذاب سے بچائے۔
یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ کو قرآن مجید میں ستر سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ اسی لئے جب رسول اللہﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے اور توحید و رسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے۔ انہوں نے جب زکوٰۃ سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا کہ یہ نماز اور زکوٰۃ کے حکم میں تفریق کرتے ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دین سے انحراف اور ارتداد ہے… صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مشہور روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:…
’’خدا کی قسم نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے، میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا‘‘۔
پھر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان کے اس نقطہ نظر کو قبول کر لیا اور اس پر سب کا اجماع ہو گیا۔
قرآن مجید کی آیات کے علاوہ ہمیں ذخیرہ احادیث میں سے بھی بہت سی ایسی احادیث ملتی ہیں جن میںحضورﷺ نے اسلام کے ارکان اور بنیادی احکام و مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے توحید و رسالت کی شہادت کے بعد اقامت صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ ہی کا ذکر فرمایا ہے۔ بہر حال قرآن پاک اور رسول اللہﷺ کے ارشادات و خطبات میں اقامت صلوٰۃ اور اور ادائے زکوٰۃ کا ذکر عموماً اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا درجہ قریب قریب ایک ہی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی خاص رابطہ ہے۔
زکوٰۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو ہیں: ایک یہ کہ مؤمن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل و نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت اور اس کا قرب اس کو حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کا سمجھتا اور یقین کرتا ہے، اور اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے وہ اس کو قربان کرتا اور نذرانہ چڑھاتا ہے… زکوٰۃ کا شمار ’’عبادات‘‘ میں اسی پہلو سے ہے۔ دین و شریعت کی خاص اصطلاح میں ’’عبادات‘‘ بندے کے انہیں اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا خاص مقصد و موضوع اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی عبدیت اور بندگی کے تعلق کو ظاہر کرنا اور اس کے ذریعہ اس کا رحم و کرم اور اس کا قرب ڈھونڈھتا ہو۔
دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت و اعانت ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکوٰۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے۔
تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے حب مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے، زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے۔ اسی بناء پر قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
’’اے نبی )ﷺ(! آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ )زکوٰۃ( وصول کیجئے جس کے ذریعہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو‘‘۔ )التوبہ: ۱۰۳(
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:…
’’اور اس آتش دوزخ سے نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لئے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو‘‘۔ )سورۃ اللیل(
بلکہ زکوٰۃ کا نام غالباً اسی پہلو سے زکوٰۃ رکھا گیا ہے، کیونکہ زکوٰۃ کے اصل معنی ہی پاکیزگی کے ہیں۔
زکوٰۃ کا حکم پہلی شریعتوں میںزکوٰۃ کی اس غیر معمولی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اس کا حکم نبیﷺ سے پہلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی برابر رہا ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم !زکوٰۃ کا مطلب کیا ہے؟
٭…استاد:زکوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ جس مسلمان کے پاس ایک مقرر مقدار میں مال ودولت ہو وہ ہر سال حساب لگا کر اپنی اُس دولت کاچالیسواں حِصّہ غریبوں،مسکینوں پر،یا نیکی کے اُن دوسرے کاموں میں خرچ کر دیا کرے جو زکوٰۃ کے خرچ کے لیے اﷲ سبحانہ‘ وتعالیٰ اور رسول اﷲ!صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے مقرر کی ہیں۔
ذرا سوچو ہمارے آپ کے پاس جو کچھ مال ودولت ہے وہ سب اﷲ تبارک وتعالیٰ ہی کا تو دیا ہوا ہے اور ہم خود بھی اُس کے بندے اور اُسی کے پید اکیے ہو ئے ہیں۔اگر اﷲ تعالیٰ ہم سے ہمارا سارا مال بھی طلب کرے بلکہ جان دینے کو بھی کہے تو ہمارا فرض ہے کہ بلا چوں چرا کے سب کچھ دے دیں۔یہ تو اُس کا بڑا کرم واحسان ہے کہ اپنے دئیے ہو ئے مال میں سے صرف چالیسواں حصہ نکالنے کا اُس نے حکم دیا ہے۔اور پھر زکوٰۃ وصدقات سے دراصل اپنے ہی غریب اور ضرورت مند بھائیوں کی خدمت ہوتی ہے،تو زکوٰۃ نہ نکالنا در اصل اپنے اُن غریب اور مجبور بھائیوں پر ظلم کرنااور اُن کا حق مارنا ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!مقرر مقدار سے کیا مراد ہے؟
٭…جن مالوں میں زکوٰۃ فرض ہے،شریعت نے اُن کی خاص خاص مقدار مقرر کردی ہے۔جب اتنی مقدار کسی کے پاس پو ری ہو جا ئے تب زکوٰۃ فرض ہو تی ہے،اس مقدار کو نصاب کہتے ہیں۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے، اور پانچ راس اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔)بخاری، مسلم(
عہد نبویﷺ میں خاص کر مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں جو لوگ خوش حال اور دولت مند ہوتے تھے ان کے پاس دولت زیادہ تر تین جنسوں میں سے کسی جنس کی صورت میں ہوتی تھی۔ یا تو ان کے باغوں کی پیدا وار اور کھجور کی شکل میں، یا چاندی کی شکل میں، یا اونٹوں کی شکل میں… اس حدیث مبارکہ میں ان تینوں جنسوں کا نصاب زکوٰۃ بیان کیا گیا ہے۔ کھجوروں کے بارے میں آپﷺ نے بتایا کہ پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ ایک وسق قریاباً ۶من کا ہوتا ہے، اس حساب سے پانچ وسق کھجوریں تیس )۳۰( من کے قریب ہوں گی۔ اور چاندی کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، ایک اوقیہ چاندی چالیس درہم کے برابر ہوتی ہے، اس بناء پر پانچ اوقیہ چاندی دو سو درہم کے برابر ہوگی۔ جس کا وزن مشہور قول کے مطابق ساڑھے باون تولے ہوتا ہے۔ اور اونٹوں کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ پانچ راسوں سے کم میں زکوٰۃ واجب نہ ہو گی۔
اس حدیث مبارکہ میں صرف ان ہی تین جنسوں میں زکوٰۃ واجب ہونے کا کم سے کم نصاب بیان فرمایا گیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ پانچ وسق )۳۰من( کھجوریں ایک مختصر گھرانے کے سال بھر کے گذارے کے لئے کافی ہو جاتی ہیں، اسی طرح دو سو درہم میں سال بھر کا خرچ چل سکتا ہے، اور مالیت کے لحاظ سے قریب قریب یہی حیثیت پانچ اونٹوں کی ہوتی ہے، اس لئے اس مقدار کے مالک کو خوش حال اور صاحب مال قرار دے کر زکوٰۃ واجب قرار دے دی گئی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گھوڑوں میں اور غلاموں میں زکوٰۃ واجب نہیں کی گئی ہے۔ پس ادا کرو زکوٰۃ چاندی کی ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم، اور ۱۹۹ درہم تک میں کچھ واجب نہیں ہے، اور جب دو سو پورے ہو جائیں تو ان میں سے پانچ درہم واجب ہوں گے۔جامع ترمذی، سنن ابی داؤد(
o…شاگرد:استادِ محترم!کس کس مال میں زکوٰۃ فرض ہے؟
٭…استاد:چاندی سونے اور ہر قسم کے مالِ تجارت میں زکوٰۃ فرض ہے۔
گھوڑے اور غلام اگر کسی کے پاس تجارت کے لئے ہوں تو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق )جسے آگے بیان کیا جائے گا( ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ لیکن اگر تجارت کے لئے نہ ہوں بلکہ سواری کے لئے اور خدمت کے لئے ہوں تو خواہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو ان پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ اس حدیث مبارکہ میں غلاموں اور گھوڑوں پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے کا جو بیان ہے اس کا تعلق اسی صورت سے ہے۔ آگے چاندی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جب تک کسی کے پاس پورے دو سو درہم برابر چاندی نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ دو سو درہم برابر چاندی جس کے پاس ہو جائیں تو ان میں چالیسواں حصہ )یعنی ہر چالیس درہم پر ایک درہم( زکوٰۃ واجب ہو گی۔
o…شاگرد:استادِ محترم!مالِ تجارت سے کیا مراد ہے؟
٭…استاد:جو مال بیچنے اور نفع کمانے کے لیے ہو وہ مالِ تجارت ہے۔خواہ کسی قسم کا مال ہو،اُس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا ہم کو حکم تھا کہ ہم ہر اس چیز میں زکوٰۃ نکالیں جو ہم نے خرید و فروخت )یعنی تجارت( کے لئے مہیا کی ہو۔)سنن ابی داؤد(
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آدمی جس مال کی بھی تجارت اور سودا گری کرے اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس کسی کو کسی بھی جگہ سے مال حاصل ہو تو اس پر زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہیں ہو گی جب تک اس مال پر پورا سال نہ گزر جائے‘‘۔)جامع ترمذی(
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
o…شاگرد:استادِ محترم!چاندی سونے سے اُن کے سکّے جیسے اشرفیاں روپے،مراد ہیں یا اور کچھ ؟
٭استاد:چاندی سونے کی تمام چیزوں میں زکوٰۃ فرض ہے جیسے اشرفیاں،روپے زیور،برتن،گوٹہ ،ٹھپہ وغیرہ۔
o…شاگرد:استادِ محترم!چاندی کا نصاب کیا ہے؟
٭…استاد:چاندی کا نصاب چون۵۴ تولے۲ماشے بھر وزن کی چاندی ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!سونے کا نصاب کیا ہے؟
٭…استاد: سونے کا نصاب سات تولے ساڑھے آٹھ ماشے سونا ہے ۔اس کی زکوٰۃ دو ماشے ڈھائی رَتی سونا ہو ئی۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون اپنی ایک بیٹی کو لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس لڑکی کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے اور بھاری کنگن تھے۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا کہ : تم ان کنگنوں کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ ان خاتون نے عرض کیا کہ :میں اس کی زکوٰۃ تو نہیں دیتی! آپﷺ نے فرمایا: تو کیا تمہارے لئے یہ بات خوشی کی ہوگی اللہ تعالیٰ تمہیں کنگنوں )کی زکوٰۃ نہ دینے کی( وجہ سے قیامت میں آگ کے کنگن پہنائے؟ اللہ کی اس بندی نے وہ دونوں کنگن )اپنی بیٹی کے ہاتھوں سے( اتار کر رسول اللہﷺ کے سامنے ڈال دئیے اور عرض کیا کہ :اب یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں۔
)سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ(
ام المؤنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سونے کے ’’اوضاح‘‘ )ایک خاص زیور کا نام ہے( پہنتی تھی۔ میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ )ﷺ( سے دریافت کیا کہ :یا رسول اللہ! )ﷺ( کیا یہ بھی اس ’’کنز‘‘ میں داخل ہے؟ )جس پر سورۃ توبہ کی آیت :…والذین یکنزون الذہب والفضۃ… الآیۃ میں دوزخ کی وعید آئی ہے( آپﷺ نے فرمایا کہ: …جو مال اتنا ہو جائے کہ اس کی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہو، پھر حکم کے مطابق اس کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو ’’کنز‘‘ نہیں ہے۔)سنن ابی داؤد، موطا امام مالک(
ان حدیثوں ہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ سونے چاندی کے زیورات پر )اگر وہ بقدر نصاب ہوں( زکوٰۃ فرض ہونے کے قائل ہیں۔ لیکن دوسرے ائمہ امام مالکؒ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک زیورات پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں فرض ہے جب وہ تجارت کے لئے ہوں، یا مال کو محفوظ کرنے کے لئے بنوائے گئے ہوں، لیکن جو زیورات صرف استعمال اور آرائش کے لئے ہوں، ان آئمہ کے نزدیک ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے بھی مختلف رہی ہے۔ لیکن احادیث سے زیادہ تائید امام ابو حنیفہؒ ہی کے مسلک کی ہوتی ہے۔ اس لئے بعض شافعی المسلک علماء محققین نے بھی اس مسئلہ میں حنفی مسلک کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں امام رازیؒ نے یہی رویہ اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ظاہری روایات اسی کی تائید کرتی ہیں۔
o…شاگرد:استادِ محترم!کیا زکوٰۃ پیشگی بھی ادا کی جا سکتی ہے؟
٭…استاد:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی زکوٰۃ پیشگی ادا کرنے کے بارے میں بارے میں رسول اللہﷺ سے دریافت کیا تو آپﷺ نے ان کو اس کی اجازت دے دی۔
)سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی(
درحقیقت زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب مال پر پورا سال گزر جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی زکوٰۃ مال پر سال پورا ہونے سے پہلے بھی ادا کرنا چاہے تو شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ زکوٰۃ سال پورا ہونے سے پہلے بھی ادا کی جا سکتی ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین کون لوگ ہیں؟
٭…استاد:زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپﷺسے بیعت کی… آپﷺکی خدمت میں اس وقت ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ مجھے عنایت فرمائیے۔ رسول اللہﷺنے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو نہ تو کسی نبی کی مرضی پر چھوڑا ہے اور نہ کسی غیر نبی کی مرضی پر بلکہ خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے اور ان کے آٹھ حصے )یعنی آٹھ قسمیں( کردی ہیں تو اگر تم ان قسموں میں سے کسی قسم کے آدمی ہو تو میں زکوٰۃ میں سے تم کو دے دوں گا۔ )سنن ابی دائود(
رسول اللہﷺنے اس حدیث میں مصارف زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کا حوالہ دیا ہے وہ سورۂ توبہ کی اس آیت میں مذکور ہے:…
’’زکوٰۃ بس حق ہے مفلسوں اورمحتاجوں کا اور اس کی تحصیل وصول کا کام کرنے والوں کا اور مؤلفۃ القلوب کا، نیز وہ صرف کی جاسکتی ہے غلاموں کو آزادی دلانے اور ان کی گلو خلاصی کرانے میں اور ان لوگوں کی مدد میں جو قرض وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہوں اور )اسی طرح( مجاہدوں اور مسافروں کی مدد میں۔‘‘ )سورۂ توبہ ۹:۴۰(
o…شاگرد:استادِ محترم!مستحقین کا خلاصے کے طور پر ترتیب وار ذکر فرمادیں تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے؟
٭…استاد:مستحقین کا ترتیب وار ذکر یہ ہیمثلاً:…
فقراء: یعنی عام غریب اور مفلس لوگ… فقیر عربی زبان میں غنی کے مقابلے میں بولا جاتا ہے، اس لحاظ سے وہ تمام غریب لوگ اس میں آجاتے ہیں جو غنی نہیں ہیں )یعنی جن کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے( شریعت میں غناء کا معیار یہی ہے۔
مساکین: وہ حاجت مند جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہ ہو اور بالکل خالی ہاتھ ہوں۔
عاملین: یعنی زکوٰۃ کی تحصیل وصول کرنے والا عملہ… یہ لوگ اگر بالفرض غنی بھی ہوں جب بھی ان کی محنت اور ان کے وقت کا معاوضہ زکوٰۃ سے دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہﷺکے زمانہ میں یہی دستور تھا۔
مؤلفۃ القلوب: ایسے لوگ جن کی تالیف قلب اور دلجوئی اہم دینی و ملی مصالح کے لیے ضروری ہو وہ اگر دولت مند بھی ہوں تب بھی اس مقصد کے لیے زکوٰۃ کی مد سے ان پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔
رقاب: یعنی غلاموں اور باندیوں کی آزادی اور گلو خلاصی… اس مد میں بھی زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے۔
غارمین: جن لوگوں پر کوئی ایسا مالی بار آپڑا ہو، جس کے اٹھانے کی ان میں طاقت وقوت نہ ہو، جیسے اپنی مالی حیثیت سے زیادہ قرض کا بوجھ یا کوئی دوسرا مالی تاوان… ان لوگوں کی مدد بھی زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے۔
فی سبیل اللہ: علماء اور ائمہ کے نزدیک اس سے مراد دین کی نصرت و حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے کی ضروریات ہیں۔
ابن السبیل: اس سے مراد وہ مسافر ہیں جنہیں مسافرت میں ہونے کی وجہ سے مدد کی ضرورت ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا، اصلی مسکین )جس کی صدقہ سے مدد کرنی چاہیے( وہ آدمی نہیں ہے جو )مانگنے کے لیے( لوگوں کے پاس آتا جاتا ہے )در در پھرتا ہے اور سائلانہ چکر لگاتا ہے( اور ایک دولقمے یا ایک دوکھجوریں )جب اس کے ہاتھ میں رکھ دی جاتی ہیں تو( لے کر واپس لوٹ جاتا ہے۔ بلکہ اصل مسکین وہ بندہ ہے جس کے پاس اپنی ضرورتیں پوری کرنے کا سامان بھی نہیں ہے اور )چونکہ وہ اپنے اس حال کو لوگوں سے چھپاتا ہے اس لیے( کسی کو اس حاجت مندی کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ صدقہ سے اس کی مدد کی جائے اور نہ وہ چل پھر کر لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
حدیث کا مدعایہ ہے کہ وہ پیشہ ورسائل اور گداگر جو در در پھر کر لوگوں سے مانگتے ہیں، اصلی مسکین اور صدقہ کے اصلی مستحق نہیں بلکہ صدقہ کے لیے ایسے باعفت ضرورت مندوں کو تلاش کرنا چاہیے جو شرم وحیا اور عفت نفس کی وجہ سے لوگوں پر اپنی حاجت مندی ظاہر نہیں کرتے اور کسی سے سوال نہیں کرتے… یہی لوگ اصل مسکین ہیں۔ جن کی خدمت اور مدد نہایت مقبول اور پسندیدہ عمل ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!زکوٰۃ کے علاوہ مالی صدقات بھی ہیں؟
استاد:فاطمہ بنت قیسؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: مال میں زکواۃ کے علاوہ بھی )اللہ کا( حق ہے۔ پھر آپﷺنے )سورۃ البقرہ کی( یہ آیت تلاوت فرمائی:…
’’اصل نیکی اور بھلائی )کا معیار( یہ نہیں ہے کہ )عبادت میں( تم مشرق کی طرف اپنا رخ کرو یا مغرب کی طرف، بلکہ اصل نیکی کی راہ بس ان لوگوں کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پر اور اللہ کی کتابوں اور اس کے نبیوں پر اور جنہوں نے مال کی محبت کے باوجود اس کو خرچ کیا قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کو آزادی دلانے میں اور اچھی طرح قائم کی انہوں نے نماز اور ادا کی زکواۃ…الخ‘‘ )جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی(
حدیث کا مقصد و منشاء یہ ہے کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ مقررہ زکوٰۃ )یعنی فاضل سرمایہ کا چالیسواں حصہ( ادا کردینے کے بعد آدمی پر اللہ کا کوئی مالی حق اور مطالبہ باقی نہیں رہتا اور وہ اس سلسلہ کی ہر قسم کی ذمہ داریوں سے بالکل سبکدوش ہوجاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ خاص حالات میں زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی اللہ کے ضرورت مند بندوں کی مدد کی ذمہ داری دولت مندوں پر باقی رہتی ہے۔ مثلاً ایک صاحب ثروت آدمی حساب سے پوری زکوٰۃ ادا کرچکا ہو، اس کے بعد اسے معلوم ہوا کہ اس کے پڑوس میں فاقہ یا اس کا فلاں قریبی رشتہ دار سخت محتاجی کی حالت میں ہے، یا کوئی شریف مصیبت زدہ مسافر ایسی حالت میں اس کے پاس پہنچے جس کو فوری امداد کی ضرورت ہوتو ایسی صورتوں میں ان ضرورتمندوں، محتاجوں کی امداد اس پر واجب ہوگی۔
رسول اللہ!ﷺنے یہ بات بیان فرمائی اور بطور استشہاد سورۂ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات تلاوت فرمائی۔ اس آیت میں اعمال بِر )نیکی کے کاموں( کے ذیل میں ایمان کے بعد یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں وغیرہ حاجت مند طبقوں کی مالی مدد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کمزور اور ضرورت مند طبقوں کی مالی مدد کا جو ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے، کیونکہ زکوٰۃ کا مستقلاً ذکر اس آیت میں آگے موجود ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!کیا ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے؟
٭…استاد:حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:…
ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر کسی آدمی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپﷺنے فرمایا: اپنے دست وبازو سے محنت کرے اور کمائے۔ پھر اس سے خود بھی فائدے اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ عرض کیا گیا کہ اگر وہ یہ نہ کرسکتا ہو تو کیا کرے؟ آپﷺنے فرمایا: کسی پریشان حال محتاج کا کوئی کام کرکے اس کی مدد ہی کر دے )یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہے(۔ عرض کیا گیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے تو کیا کرے؟ آپﷺنے فرمایا: تو اپنی زبان ہی سے لوگوں کو بھلائی اور نیکی کے لیے کہے۔ لوگوں نے عرض کیا، اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے تو کیا کرے؟ آپﷺنے فرمایا: )کم ازکم( شر سے اپنے کو روکے )یعنی اس کا اہتمام کرے کہ اس سے کسی کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچے( یہ اس کے لیے ایک طرح کا صدقہ ہے۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر دولت اور سرمایہ نہ ہونے کی و جہ سے زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ان کو صدقہ کرنا چاہیے۔ اگر روپیہ پیسہ سے ہاتھ بالکل خالی ہو تو محنت مزدوری کرکے اور اپنا پیٹ کاٹ کر صدقہ کی سعادت حاصل کرنی چاہیے۔ اگر اپنے خاص حالات کی وجہ سے کوئی اس سے بھی مجبور ہوتو کسی پریشان حال کی خدمت ہی کردے اور ہاتھ پائوں سے کسی کا کام نہ کرسکے تو زبان ہی سے خدمت کرے۔ حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ ہر مسلمان خواہ امیر ہو یا غریب، طاقتور اور توانا ہو یا ضعیف اس کے لیے لازم ہے کہ دامے، درمے، قدمے، سخنے جس طرح اور جس قسم کی بھی مدد اللہ کے حاجت مند بندوں کی کرسکے ضرور کرے اور اس سے دریغ نہ کرے۔
o…شاگرد:استادِ محترم! صدقہ کی ترغیب پر کچھ احادیث بیان فرمادیں؟
٭…استاد:حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:…ہر بندے کو اللہ کا پیغام ہے کہ اے آدمؑ کے فرزند! تو )میرے ضرورت مند بندوں پر( اپنی کمائی خرچ کر، میں اپنے خزانہ میں سے تجھ کو دیتا رہوں گا۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جو بندہ اس کے ضرورت مند بندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ کے خزانہ غیب سے ملتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو یقین کی دولت سے نوازا ہے ہم نے دیکھا کہ ان کا یہی معمول ہے اور ان کے ساتھ ان کے رب کریم کا یہی معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی اس یقین کا کوئی حصہ نصیب فرمائے۔ آمین
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ان سے فرمایا:…
تم اللہ کے بھروسہ پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنو مت )یعنی اس فکر میں نہ پڑو کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں کتنا راہِ خدا میں دوں( اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کرکے دوگی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا )اور اگر بے حساب دوگی تو وہ بھی تمہیں اپنی نعمتوں پر بے حساب انڈیلے گا( اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کرکے نہ رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا )کہ رحمت اوربرکت کے دروازے تم پر خدانخوستہ بند ہوجائیں گے( لہٰذا تھوڑا بہت جو ہو سکے اور جس کی توفیق ملے راہِ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو۔ )صحیح بخاری وصحیح مسلم(
جو راہ خدا میں خرچ کردیا جائے وہی باقی اور کام آنے والا ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!حضورِ اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی زکوٰۃ دینے کی کیفیت کیا تھی؟
٭…استاد:آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام سے پہلے بھی بہت کچھ خیرات کیا کرتے تھے جیسا کہ آغاز اسلام میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے شہادت دی ہے اسلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی چیز نقد اپنے پاس رہنے نہیں دیتے تھے جو کچھ آتا مستحقین میں تقسیم فرما دیتے لیکن بایں ہمہ زکوۃ کا ادا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں اس سے بعض فقہاء نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی۔ لیکن اصل یہ ہے کہ زکوۃ کے دو مفہوم ہیں ایک مطلق زکوۃ و خیرات اور اس باب میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیفیت تھی وہ کس سے مخفی ہے؟ دوسرا یہ ہے کہ چاندی‘ سونے یا جانور وغیرہ کی مخصوص مقدار وتعداد پر جو حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو اور سال بھر تک مالک کے قبضہ میں رہے ایک خاص شرح رقم ادا کی جائے یہ مصطلحہ زکوۃ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرض ہی نہیں ہوئی کاشانہ نبوت میں کوئی قابل زکوۃ چیز سال بھر تو کیا رہتی یہ بھی پسند خاطر نہ تھا کہ شب گزر جائے اور مال و دولت کا کوئی نشان گھر کے اندر رہ جائے۔ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک ختم نہ ہوسکی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات بھر مسجد میں آرام فرمایا اور کاشانہ اقدس میں اس وقت تک قدم نہیں رکھا جب تک حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آکر یہ اطلاع نہ دی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ جل شانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سبکدوش کیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی )اور اس کا گوشت للہ صدقہ کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور( آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ :کیا بکری میں سے کچھ باقی رہا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ : …صرف ایک دستی اس کی باقی رہی ہے )باقی سب ختم ہوگیا( آپﷺ نے فرمایا کہ : اس دستی کے علاوہ جو للہ تقسیم کر دیا گیا در اصل وہی سب باقی ہے اور کام آنے والا ہے )یعنی آخرت میں ان شاء اللہ اس کا اجر ملے گا( )جامع ترمذی(
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو میرے لئے بڑی خوشی کی بات یہ ہو گی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس کو راہ خدا میں خرچ کر دوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے سوائے اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کے لئے اس میں سے کچھ بچالوں۔ )صحیح بخاری(
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ پہنچے اور دیکھا کہ ان کے پاس چھواروں کا ایک ڈھیر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :بلال یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو آئندہ کے لئے ذخیرہ کیا ہے )تاکہ مستقبل میں روزی کی طرف سے ایک گونہ اطمینان رہے( آپﷺ نے فرمایا :بلال! کیا تمہیں اس کا ڈر نہیں ہے کہ کل قیامت کے دن آتش دوزخ میں تم اس کی تپش اور سوزش دیکھو۔ اے بلال! جو تمہارے پاس آئے اس کو اپنے اوپر اور دوسروں پر خرچ کرتے رہواور عرش عظیم کے مالک سے قلت کا خوف نہ کرو )یعنی یقن رکھو کہ جس طرح اس نے یہ دیا ہے آئندہ بھی اسی طرح عطا فرماتا رہے گا، اس کے خزانے میں کیا کمی ہے، اس لئے کل کے لئے ذخیرہ رکھنے کی فکر نہ کرو )شعب الایمان للبیہقی(
o…شاگرد:استادِ محترم!جو دولت مند حضرات اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کریں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
٭…استاد:جو دولت مند کشادہ دستی سے راہ خدا میں خرچ نہ کریں بڑے خسارے میں ہیں…
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپﷺ اس وقت کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، آپﷺ نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا :رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں۔ میں نے عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر قربان! کون لوگ ہیں جو بڑے خسارے میں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا : وہ لوگ جو بڑے دولت مند ہیں، ان میں سے وہی لوگ خسارے سے محفوظ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں )ہر طرف خیر کے مصارف میں( اپنی دولت کشادہ دستی کے ساتھ صرف کرتے ہیں …… مگر ایسے دولت مند بہت کم ہوتے ہیں۔ )صحیح بخاری، صحیح مسلم(
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فقر کی زندگی اختیار کر رکھی تھی ۔ رسول اللہﷺ کی خدمت میں جب وہ حاضر ہوئے تو آپﷺ نے ان کے اطمینان خاطر کے لئے فرمایاکہ دولت مندی جو بظاہر بڑی نعمت ہے در اصل بڑی کڑی آزمائش بھی ہے اور صرف وہی بندے اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس سے دل نہ لگائیں اور پوری کشادہ دستی کے ساتھ دولت کو خیر کے کاموں میں خرچ کریں، جو ایسا نہ کریں گے وہ انجام کار بڑے خسارے میں رہیں گے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!صدقہ کے خواص و برکات کے متعلق کچھ بیان فرمادیں؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ :صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔ )جامع ترمذی(
جس طرح دنیا کی مادی چیزوں جڑی بوٹیوں تک کے خواص اور اثرات ہوتے ہیں، اسی طرح انسانوں کے اچھے برے اعمال اور اخلاق کے بھی خواص اور اثرات ہوتے ہیںجو انبیاء علیہم السلام کے ذریعے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں صدقہ کی دو خاصیتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اگر بندہ کسی بڑی لغزش اور معصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب او ر ناراضی کا مستحق بننے والا ہوتا ہے، کہ صدقہ دینے کی وجہ سے وہ اس سے محفوظ ہو جاتا ہے، غصہ اور غضب کے بجائے رضا اور رحمت کا مستحق بن جاتا ہے۔ اور دوسری خاصیت یہ ہے کہ صدقہ بری موت سے آدمی کو بچا تا ہے)یعنی صدقہ کی برکت سے اس کا خاتمہ اچھا ہوتاہے۔)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ :صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی )بلکہ اضافہ ہوتا ہے( اور قصور معاف کر دینے سے انسان نیچا نہیں ہوتا بلکہ اس کو سر بلند کر دیتا ہے۔ اور اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بلندی بخشے گا۔)صحیح مسلم(
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا ہ:اے اللہ کے نبی! )ﷺ( بتائیے کہ صدقہ کیا ہے؟ )یعنی اللہ کی طرف سے اس پر کیا اجر ملنے ولا ہے؟( آپﷺ نے فرمایا کہ :چند در چند )یعنی جتنا کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اس کا کئی گنا اس کو ملے گا( اور اللہ کے ہاں بہت ہے۔ )مسند احمد(
مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کی راہ میں جتنا صدقہ کرے گا اس کو اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا دوسری بعض احادیث میں دس گنا سے سات سو گنا تک کا ذکر ہے اور یہ بھی آخری حد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا، اس کے خزانے کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔
بعض حضرات اس حدیث کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ صدقہ کے عوض کئی گنا تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں عطا فرماتا ہے، اور اس کا صلہ جو آخرت میں عطا فرمایا جائے گا وہ اس سے بھی زیادہ ہوگا۔
اللہ کے بندوں کا یہ عام تجربہ ہے کہ اللہ پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے وہ اخلاص کے ساتھ جتنا اس کی راہ میں اس کے بندوں پر خرچ کرتے ہیں اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا ہی میں عطا فرمادیتا ہے، ہاں اخلاص اور یقین شرط ہے۔
o…شاگرد:استادِ محترم!کیا ضرورت مندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر و ثواب ہے؟
٭…استاد:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جس کسی مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا، پہننے کو کپڑا دیا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا۔ اور جس مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا۔ اور جس مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلایاتو اللہ تعالیٰ اس کو کی جنت کی مہر بند شراب طہور پلائے گا۔ )سنن ابی داؤد، جامع ترمذی(
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ:…جس بندے نے کسی مسلمان کو کپڑا پہنایا وہ یقیناً اس وقت تک اللہ کے حفظ و امان میں رہے گا جب تک کہ اس کے جسم پر اس کپڑے میں سے کچھ بھی رہے۔ )مسند احمد، جامع ترمذی(
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو میں آپﷺ کے پاس آیا، جب میں نے غور سے آپﷺ کا روئے انوردیکھا تو پہچان لیا کہ یہ ہر گز کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے سب سے پہلے جو بات فرمائی وہ یہ تھی کہ :’’اے لوگو! آپس میں سلام کی خوب اشاعت کرو اور سلام کو رواج دو، اور کھانا کھلاؤاور آپس میں صلہ رحمی کرو۔ اور رات کو جس وقت لوگ پڑے سوتے ہیں اللہ کے حضور میں نماز پڑھو، ایسا کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے۔)جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ(
o…شاگرد: استادِ محترم!زکوٰۃ اداکرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
٭…استاد:جس قدرزکوٰۃ واجب ہو ئی ہے وہ کسی مستحق کو خاص خدا کے وسطے دیدو اور اُسے مالک بنادو۔کسی خدمت یا کسی کام کی اُجرت میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ہاں اگر مالِ زکوٰۃ سے فقیروں کے لیے کو ئی چیز خرید کر ان کو تقسیم کردو تو جا ئز ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرنی بھی ضروری ہے یا نہیں؟
٭…استاد :ہاں زکوٰۃ دیتے وقت یاکم سے کم مالِ زکوٰۃ نکال کر علیحدہ رکھنے کے وقت یہ نیت کرنی ضروری ہے کہ یہ مالِ زکوٰۃ میں دیتا ہوں یا زکوٰۃ کے لیے علیحدہ کرتا ہوں،اگر بغیر خیالِ زکوٰۃ کسی کو روپیہ دے دیا اور دینے کے بعد اُس کو زکوٰۃ کے حساب میں لگا لیا تو زکوٰۃ ادانہ ہو گی۔
o…شاگرد: استادِ محترم!جس کو زکوٰۃ دی جا ئے اُسے یہ بتا دینا کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے ضروری ہے یا نہیں؟
٭…استاد:یہ ضروری نہیں بلکہ اگر انعام کے نام سے یا کسی غریب کے بچوں کو عیدی کے نام سے دے دو تب بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
o…شاگرد: استادِ محترم!مصارف ِزکوٰۃ کتنے اور کون کون سے ہیں؟
٭…استاد:موجودہ زمانہ میں مصارفِ زکوٰۃ یہ ہیں:…
٭…فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں
٭…مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہیں۔
٭…قرض داریعنی وہ شخص جس کے ذمے لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کو ئی مال نہ ہو۔
٭…مسافر جو حالت سفر میںتنگد ست ہو گیا ہو اُسے بقدرِ حاجت زکوٰۃ دینا جا ئز ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!کن لوگوں کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے؟
٭…استاد:مالدار یعنی وہ شخص جس پر خود زکوٰۃ فرض ہے یا نصاب کے برابرقیمت کا کوئی اور مال موجود ہو اور اُ س کی حاجت اصلیہ سے زائد ہو۔جیسے کسی کے پاس تانبے کے برتن روزِ مرہ کی ضرورت سے زائد رکھے ہوئے ہیں اور اُن کی قیمت بقدرِ نصاب ہے اُ س کو زکوٰۃ کا مال لینا حلال نہیں اگر چہ خود اُ س پر بھی اُن برتنوں کی زکوٰۃ دینا واجب نہیں۔
٭…سیّد اور بنی ہاشم بنی ہاشم سے حضرت حارث بن عبد المطلب اور حضرت جعفر اور حضرت عقیل اور حضرت عباس اور حضرت علی رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اولاد مراد ہے؟
٭…اپنے باپ۔ماں۔دادا۔دادی۔نانا۔نانی چاہے اوراوپر کے ہوں۔
٭…بیٹا۔بیٹی۔پوتا ۔پوتی۔نواسہ۔نواسی چاہے اور نیچے کے ہوں
٭…خاوند اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے خاوند کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔
٭…مالدار آدمی کی نابالغ اولاد۔ان تمام لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
o…شاگرد: استادِ محترم!کن کا موں میں زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ہے؟
٭…استاد:جن چیزوں میں کوئی مستحق مالک نہ بنا یا جا ئے اُن میں مالِ زکوٰۃ خرچ کرناجائز نہیںجیسے میت کے گوروکفن میں لگا دینا یا میت کا قرض ادا کرنا یا مسجد کی تعمیریا فرش یا لوٹوں یا پانی وغیرہ میں خرچ کرنا جا ئز نہیں۔
o…شاگرد: استادِ محترم!صدقہ فطر کسے کہتے ہیں؟
٭…استاد:فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔خداتعالیٰ نے اپنے بندوںپر ایک صدقہ مقرر فرمایا ہے کہ رمضان شریف کے ختم ہو نے پرروزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کریں اُسے صدقہ فطر کہتے ہیں اور اُسی روزہ کھلنے کی خوشی منانے کا دن ہونے کی وجہ سے رمضان شریف کے بعد والی عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
o…شاگرد: استادِ محترم!صدقہ فطر کس شخص پر واجب ہو تا ہے؟
٭…استاد: ہر مسلمان آزاد پرجبکہ بقدرِ نصاب مال مالک ہوصدقہ فطر واجب ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!صدقہ فطر واجب ہو نے کے لیے جو نصاب شرط ہے وہ وہی نصاب زکوٰۃ ہے جو بیان ہو چکا یا کچھ فرق ہے؟
٭…استاد:نصابِ زکوٰۃ اور نصابِ صدقہ فطر کی مقدار تو ایک ہی ہے مثلاً چوّن تولہ دوماشہ چاندی یا اُس کی قیمت۔لیکن نصاب زکوٰۃ اور نصاب صدقہ فطر میں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ فرض ہو نے کے لیے چاندی سونایا مالِ تجارت ہونا ضروری ہے اور صدقہ فطر واجب ہونے کے لیے ان تین چیزوں کی خصوصیت نہیں بلکہ اس کے نصاب میںہر قسم کا مال حساب میں لے لیا جا تا ہے۔ہاں حاجتِ اصلیہ سے زائد اور قرض سے بچا ہو اہونادونوں نصابوں میں شرط ہے۔پس اگر کسی شخص کے پاس اُس کے استعمال کے کپڑوں سے زائد رکھے ہوں یا روزِ مرہ کی ضرورت سے زائدتانبے ،پیتل چینی وغیرہ کے برتن رکھے ہوں یا کوئی مکان اُس کا خالی پڑا ہے یا اور کسی قسم کا سامان اوراسباب ہے اور اُس کی حاجت اصلیہ سے زائد ہے اور اُن چیزوں کی قیمت نصاب کے برابر یا زیادہ ہے تو اُس پر زکوٰۃ فرض نہیں،لیکن صدقہ فطر واجب ہے صدقہ فطر کے نصاب پر سال بھر گذرنا شرط نہیں بلکہ یہاں تک کہ اگر اُسی روز نصاب کا مالک ہواتو بھی صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!صدقہ فطر کس کس کی طرف سے دینا واجب ہے؟
٭…استاد:ہر مالک نصاب شخص پر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب ہے،لیکن نابالغوں کا اگر اپنا مال ہو تو اُن کے مال میں ادا کرے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!صدقہ فطر ادا کرنے کا بہتر وقت کیا ہے؟
٭…استاد:عید کے دن عید کی نماز کو جانے سے پہلے ادا کرنا بہتر ہے اور نماز کے بعد ادا کرے تو یہ بھی جا ئز ہے اور جب تک ادا نہ کرے تو اُس کے ذمہ واجب الادا رہے گا چاہے کتنی مُدّت گذر جائے۔
o…شاگرد: استادِ محترم!سب سے بہتر صدقہ فطر کس چیز کا ہے؟
٭…اگر گیہوں یا جو کی قیمت دے دی جا ئے تو یہ سب سے بہتر ہے۔اگر زمانہ ارزانی کا ہو تو نقد دینا بہتر ہے اگر خدا نخواستہ گرا نی کا ہو تو کھانے کی چیزوں کا دینا افضل ہے،اور اگران سے گراں چیز کی قیمت دیدیںمثلاً آج کل چھوہارا ،اور منقّٰے ان سب چیزوں میں گراں ہے لہٰذا اس کی قیمت دے دیا کریں کیونکہ حدیث میں وارد ہو اہے:…’’جب اﷲ تبارک وتعالیٰ تمہیں زیادہ دے تو تم بھی زیادہ دو۔‘‘
زکوٰۃ وصدقہ کاجو اجر وثواب اور جو انعام اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آخرت میں ملے گااُ س کے علاوہ اس دنیوی زندگی میں بھی اس سے بڑے فائدے حاصل ہو تے ہیں۔جیسے کہ:زکوٰۃ اور صدقات ادا کرنے والے مومن کا دل بڑا خوش اور مطمئن رہتا ہے،غریبوں کو اس پر حسد نہیں ہو تا،بلکہ وہ اُس کی بہتری چاہتے ہیں اُس کے لیے دعائیں کرتے ہیں اور اُس کی طرف محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں،عام دنیا کی نظروں میں بھی ایسے شخص کی بڑی وقعت ہوتی ہے اور سب لوگوں کی محبت و ہمدردی ایسے شخص کو حاصل ہو تی ہے اﷲ تعالیٰ اُ س کے ما ل میں بڑ ی بڑی برکتیں دیتا ہے۔ایک حدیث میںنبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرما یاکہ:…اﷲ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے کے اے فرزندِ آدم!تو(میرے غریب وحاجت مند بندوں پر اور نیکی کے دوسر ے کا موںمیں)میرا دیا ہوا مال خرچ کئے جا میں تجھ کو برابر دیتارہوں گا۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم کو نبی کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے ان ارشادات پر حقیقی ایمان ویقین نصیب فرمائے اور ذوق وشوق کے ساتھ عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین۔