سورۃ الحجرات سے نو نصیحتیں
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
7۔۔ ساتویں نصیحت :بدگمانی ایک مہلک بیماری ہے۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ…(الحجرات۴۹: ۱۲)
ترجمہ: “اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔”
بد گمانی عربی کے لفظ ‘الظن کا ترجمہ ہے ۔ عربی کا ‘ظن ‘اچھے اور برے دونوں معنی میں آتا ہے۔ جس طرح اردو میں گمان دونوں معنی میں آتا ہے۔ہر وہ خیال جو کسی ظاہری نشانی سے حاصل ہوتا ہے گمان کہلاتا ہے، جس کو ظن بھی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر دُور سے دُھواں اُٹھتا دیکھ کر آگ کی موجودگی کا خیال آنا، یہ گمان ہی ہے۔ بنیادی طور پر گمان یعنی ظن کی دو قسمیں ہیں: حسن ظن یعنی اچھا گمان اور سُوئے ظن یعنی بُرا گمان، جسے بدگمانی بھی کہتے ہیں۔اخلاقی اور معاشرتی برائیوں میں “بدگمانی” ایک بڑی برائی ہے۔یہ ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے۔ جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہوتا ہے ، اسے ہر دوسرے شخص کے کام میں بدنیتی معلوم ہوتی ہے اور کسی کام میں نیک نیتی نظر نہیں آتی۔ اور اس بدگمانی کے نتیجے میں وہ دوسروں کی طرف طرح طرح کی باتیں منسوب کرتا ہے جو خلاف واقعہ اور خلاف حقیقت ہوتی ہیں۔ قرآن مجید نے محض بدگمانی سے نہیں روکا، بلکہ اس نے کثرت گمان سے روکا ہے۔ یعنی قرآن مجید نے ہمیں اس بات سے روکا ہے کہ ہم خواہ مخواہ دوسروں کے بارے میں ظنون تراشتے رہیں۔ مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقوی کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لیے اس کا ترجمہ بد گمانی کیا جاتا ہے اور حدیث میں اس کو اکذب الحدیث سب سے بڑا جھوٹ کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔یہاں سیاق کلام سے یہ بات بالکل متعین ہے کہ یہاں جن گمانوں کی بات ہورہی ہے ، وہ لوگوں ہی سے متعلق ہیں۔یعنی اخلاقی دائرے میں آنے والے گمان۔ اس لیے اخلاقیات میں ہر خرابی اسلام کے نزدیک برائی ہے،ا ور وہ ایک قابل مواخذہ جرم ہے۔گویا لوگوں کے بارے میں ہمیں اصل میں ان ہی کے عمل و نظریہ کی بنیاد پر رائے بنانی چاہیے۔ ان کے بارے میں ہماری رائے نہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہمارے بے بنیاد خیالات پر، جوبلا دلیل ہمارے دل میں پیدا ہو گئے ہوں۔گمانوں کی کثرت سے اسی لیے بھی روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں خطا کا امکان ہے۔اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں یہ خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے ، کسی ٹھوس شاہد و دلیل پر مبنی نہیں ہے۔ بندۂ مومن کو اپنی آرا کو حتی الامکان ٹھوس چیزوں پر مبنی کرنا چاہیے۔
چونکہ ہمارے گمان بے بنیاد ہوتے ہیں، اس لیے ہم یہ نہیں جا ن سکتے کہ کون سا گمان گناہ والا ہے اور کون سا نہیں۔ یعنی جب ہمیں حقیقت کا علم ہو گا تو تبھی پتا چلے گا کہ ہم غلط سوچ رہے تھے یا ٹھیک۔اس لیے حقیقت کے سامنے آنے تک ہم یہ نہیں جان سکتے کہ ہم غلط سوچ رہے ہیں یا صحیح ۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ بدگمانی کو ترک کرو، بلکہ اس نے کہا کہ بہت گمان نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر غلط ہی ہوں گے۔شیطانی وسوسے اور ادھر ادھر کے خیالات دل میں آتے رہتے ہیں۔اگر ہم انھی خیالات پر جم گئے اور گمانوں پر ہی اپنے کسی بھائی کے بارے میں بری رائے بنا لی تو وہ گناہ کا باعث ہے۔ لیکن اگر وہ گمان ہمارے دل میں آیا، اور ہم اس میں مبتلا ہونے کے بجائے اس سے نکل گئے اوراس کو رد کردیا تو ہم گناہ سے بچ گئے۔اس لیے کہ کسی کے بارے میں بری یا محض غلط رائے بنا لینا اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔مثلاً آپ نیک نیتی سے کوئی عمل کریں،تو اس پر کوئی آدمی د ل ہی دل میں یہ رائے بنا لے کہ آپ ریا کار ہیں تو کیا یہ آپ کے ساتھ انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ انصاف نہیں ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے یہ گمان گناہ بن جاتے ہیں۔اورگمان کلیتاََ حرام نہیں بلکہ صرف وہ گمان ممنوع ہے جو گناہ ہو یا گناہ کا سبب بنے۔مثال کے طور پر کسی اجنبی سے مل کر یہ گمان رکھنا کہ یہ نیک ہی ہوگا۔یا راہ چلتے ہوئے کوئی دھکا لگنے پر یہ سمجھنا کہ غلطی سے ہوگیا ہوگا یہ خوش گمانی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ رب العزت فرماتا ہے میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق ان سے معاملہ کرتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ اپنے دل میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو ان سے بہتر ہے اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں چار ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں (میری رحمت) اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ [صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2308]
حدیث میں ہے جو شخص کسی مسلمان کی بےعزتی ایسی جگہ میں کرے جہاں اس کی آبرو ریزی اور توہین ہوتی ہو تو اسے بھی اللہ تعالیٰ ایسی جگہ رسوا کرے گا جہاں وہ اپنی مدد کا طالب ہو اور جو مسلمان ایسی جگہ اپنے بھائی کی حمایت کرے اللہ تعالیٰ بھی ایسی جگہ اس کی نصرت کرے گا (ابو داؤد)
اوربدگمانی ایساسنگین گناہ ہے کہ اس سے دیگربرائیاں جنم لیتی ہیں،اورمعاشرے میں بہت سے اخلاقی مفاسدوجودمیں آتے ہیں،بدگمانی کی وجہ سے نہ صرف انفرادی اورشخصی نقصان ہوتاہے ؛بلکہ بہت سے اجتماعی نقصانات اس پرمرتب ہوتے ہیں،مثلاً:… نفسیاتی بیماریاں٭… باہمی نفرتیں ، رنجشیں، رقابتیں ٭… معاشرے میں انتشار ٭… لڑائی جھگڑا اور قتال٭… خاندانی ، قبائلی، لسانی اور اداروں کی رقابتیں وغیرہ وغیرہ۔
بدگمانی چوں کہ بہت ہی مہلک اوربے شمارگناہوں کامقدمہ ہے ؛اسی لئے اس کے اسباب کوجاننابھی ازحدضروری ہے،تاکہ ہم بدگمانی اوراس کے اسبا ب سے کنارہ کش رہیں،اوراسلامی اصولوں کے مطابق ہم زندگی بسرکرسکیں،بدگمانی کے بہت سے اسباب ہیں،ذیل میں چندکاتذکرہ کیاجاتاہے:…بدگمانی کاایک سبب یہ ہے کہ خودانسان گناہوں میں مبتلاہوتاہے،طرح طرح کی اخلاقی برائیاں اس کی عملی زندگی میں پائی جاتی ہیں، چنانچہ جن گمراہ کن خطوط پروہ زندگی بسرکرتاہے دوسروں کے متعلق بھی وہ یہی سوچتاہے،اگروہ بدکاراورفاسق وفاجرہے تودوسروں کوبھی اس مرض کاشکارسمجھتاہے،اگروہ جھوٹ ،وعدہ خلافی اورامانت میں خیانت کرنے کاعادی ہے تودوسروں کوبھی ان باتوں کاعادی سمجھتاہے۔٭…بدگمانی کاایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان جس کے متعلق بدگمانی رکھتاہے اس کے بارے میں مکمل معلومات اسے نہیں ہوتی ہیں،اس کے شب وروزکے معمولات اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں،اس کاعلمی ودینی مقام ومرتبہ کااسے پتہ نہیں ہوتا،جس کی وجہ سے وہ بعض ظاہری امورکودیکھ کراس کے متعلق غلط رائے قائم کرلیتاہے،اوراس سے بدگمان ہوجاتاہے۔٭…بدگمانی کاایک سبب یہ بھی ہوتاہے کہ انسا ن منفی سوچ کاعادی ہوتاہے،ہرچیزکووہ تنقیدی نگاہ سے دیکھتاہے،ظاہرہے جب ایساانسان کسی چیزکودیکھے گاتومنفی اورغیرمثبت زاویہ سے دیکھے گا،جس سے بدگمانی پیداہونالازمی ہے۔٭…بدگمانی کاایک سبب یہ بھی ہوتاہے کہ انسان کوکسی خاص اورمتعین فردسے کوئی شکایت ہوتی ہے،مثلااس فردنے اس کونقصان پہونچایاہے ،چنانچہ اس فردکاجس جماعت اورتنظیم سے تعلق ہے اس پوری جماعت اورتنظیم سے انسان بدگمان ہوجاتاہے،اوراس کے متعلق غلط رائے قائم کرلیتاہے،حالاں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس جماعت کے سارے افرادبددیانت ہوں اوران کارویہ غیردرست ہو۔
بدگمانی کا علاج یہ ہے کہ:سب سے پہلے انسان اپنے اعمال کی اصلاح کرے،اورشریعت کے بتائے ہوئے رہنمایانہ خطوط پرگامزن رہے،آپﷺ کی ایک ایک سنت مبارکہ اپنی عملی زندگی میں لانے کی کوشش کرے،جب انسان کی ساری توجہات کامحوراپنی زندگی کی اصلاح ہوگی،اوراپنی خامیوں اورکوتاہیوں کودورکرنااس کامطمح فکرہوگاتوپھردوسروں کے متعلق بدگمان ہونے اورغلط رائے قائم کرنے کااسے موقع نہیں ملے ،بدگمانی سے بچناہرمسلمان کے لئے ضروری ہے ،ذیل میں بدگمانی سے بچنے کی تدابیراختصارکے ساتھ ذکرکی جارہی ہیں:…اگر مسئلہ اہم ہے تو معلومات میں اضافہ کر کے گمان کو خاتمہ کردیں۔٭…دوسروں کے متعلق بہت زیادہ سوچنے اور بلاوجہ رائے قائم کرنے سے گریز کریں۔٭… اپنی منفی سوچوں پر قابو رکھیں اور کسی بھی ناخوشگوار خیال پر گرفت کریں۔٭… اگر کسی کے خلاف کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے تو آخری حد تک بدگمانی سے جنگ لڑیں۔ مثال کے طور پر کسی شخص نے آپ سے بد تمیزی سے بات کی اور آپ نے یہ سوچا کہ شایدیہ میرا دشمن ہے۔ تو یہ گمان کریں کہ وہ میرا دشمن نہیں اور ممکن ہے وہ کسی گھریلو پریشانی میں الجھا ہوا ہو جس کی بنا پر وہ لڑا ہو۔٭… اپنا حق لوگوں کے لئے چھوڑنا شروع کریں۔٭…لوگوں کو انکی غلطی پر معاف کرنا سیکھیں کیونکہ اگر غلطی آپ کی ہے تو معا فی کیسی؟٭…جب دل میں کسی کے متعلق بدگمانی پیداہوتوان آیات واحادیث کااستحضارکرے جن میں مسلمانوں سے حسن ظن رکھنے کی تلقین کی گئی ہے،اوران کے متعلق غلط رائے قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے،اورانسان اپنے دل میں یہ تصوربٹھائے کہ بدگمانی جس کومیں ابھی معمولی اورہلکاسمجھ رہاہوں بعدکویہ بڑے گناہوں کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں،اورمیری اخروی زندگی کے لئے تباہ کن ہوسکتے ہیں،اورروزقیامت اللہ تعالی کے یہاں اس بارے میں مواخذہ ہوسکتاہے ،لیکن اگرمیں فلاں شخص کے متعلق حسن ظن رکھتاہوں اوراس کے متعلق اچھی رائے قائم کرتاہوں تومجھے قرآنی حکم پرعمل کرنے کاثواب ملے گا،اوراللہ کے حضوراس بارے میں مجھ سے بازپرس نہیں کی جائے گی۔
الحاصل اپنے گمان کو صاف رکھنے اور سوچ کوپاکیزہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہمہ وقت اس احساس کو تازہ رکھیں کہ ہم امتحان میں ہیں، ہم سے نہ صرف اعضاء وجوارح سے صادر ہونے والے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا؛ بلکہ بدون تحقیق دل میں راسخ ہونے والے خیالات پر بھی باز پرس ہوگی۔اگر ہم زندگی کے ہر موڑ پر اس احساس کو تازہ رکھیں تو اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ ہماری سوچ مثبت اور درست ہوجائے گی اور ہمارے اعمال بھی صحیح رخ پر گامزن ہوں گے۔حق تعالی ہمیں توفیق عمل نصیب فرمائے ۔اوراللہ ہم سب کو بدظنی جیسی مہلک بیماری سے بچا ئے۔( آمین یا رب العالمین)