از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
سورۃ الحجرات سے نو نصیحتیں:2:…دوسری نصیحت فَاَصْلِحُوْا : توصلح کرادو
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صلح کی اہمیت و ضرورت، اس کی ترغیب اور خاندانی و معاشرتی نظام زندگی میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسے’’خیر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اسے ضروری قرار دیا گیا ہے، ایسے لوگوں کی مدح اور تعریف کی گئی ہے جو صلح پسند ہوں،اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ وہ قدم پسند ہیں جو مسلمانوں میں صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھیں۔اور اس بات پر بھی غور کریں کہ صلح کروانا ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں آپس میں صلح کروانے کا حکم دیا ہے:یاد رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (سورۃ الحجرات، آیت :10)
لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی پیدا ہو جائے یا خاندانوں،جماعتوں، فریقوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں اور توتو میں میں ،ہاتھا پائی،لڑائی ،خون خرابہ یا جنگ وجدال کی نوبت آجائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں نہ کہ مسالہ لگا کر اس معاملے کو طول دیں ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ سورہ نساء کی آیت نمبر 114 کی تفسیر مین خادم رسول سیدناانس رضی اللہ عنہ کا قول لائے ہیں :جوشخص دوناراض بھائیوں میں صلح کرادے اللہ مالک الملک اسے ہرکلمہ کے عوض ایک غلام آزاد کرنے کاثواب عطافرماتاہے ۔
سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو جھوٹی بات صلح کرانے کے لیے کہہ دے بشرطیکہ نیت اچھی ہو۔
مثلاًدو آدمیوں میں رنج ہو اور یہ ملاپ کرانے کی نیت سے کہے کہ وہ تو آپ کے خیر خواہ ہیں یا آپ کی تعریف کرتے ہیں ۔امام قسطلانی نے کہا کہ ایسے جھوٹ کی رخصت ہے جس میں بہت فائدے کی امید ہو ۔ امام مسلم رحمہ اللہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت ہے ایک تو لڑائی میں ،دوسرے مسلمانوں میں آپس میں میل جول کرانے میں ،تیسرے اپنی بیوی سے ۔
احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بیشمار فضائل بیان ہوئے ہیں چنانچہ حضرت سیدنا اَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے ’’جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرما دیگا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا‘‘۔ ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ’’کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتائوں؟ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونیوالا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے‘‘۔
صلح ، باہمی اختلاف کو دور کرنے کا نہایت بہترین طریقہ، بلکہ یہ اختلافات سے باہر آنے کا باعزت راستہ ہے۔ اس لیے کہ اس میں کسی فریق کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ اس سے سماج میں بھی انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی دولت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی ’’اَنا‘‘ کے خول سے باہر آئے اور بڑائی کے احساس سے اپنے ذہن کو فارغ کرے۔ اپنے بھائی کو حقیر نہ سمجھے۔ اس کے اندر حقائق کو قبول کرنے کی جرات ہو، اور اس کی نگاہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
بہرحال! مسلمانوں کے آپس میں بھائی بھائی ہونے کا سب سے پہلا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم دوسرے کے حقوق کا بھر پور خیال کریں۔ حق لینے سے زیادہ دوسرے کا حق ادا کرنے کی فکر ہو۔ اگر زندگی کے کسی موڑ پر اونچ نیچ ہو جائے تو ایک دوسرے کے لیے سینہ کشادہ رکھا جائے۔ مسلسل معاف کرنے اور در گزر کرنے کو عادت ثانیہ بنا لیا جائے۔ صلح و صفائی میں مشکل پیش آ رہی ہو تو عدالتوں کی طرف بھاگنے کے بجائے کسی ثالث کے ذریعے شریعت کے مطابق فیصلہ کروا لیا جائے۔ اس سب سے بڑھ کر اسلامی بھائی چارے کے ناتے ہم اپنے کسی دو بھائیوں کے درمیان فاصلہ اور دوری دیکھیں تو آگے بڑھ کر ان کا معاملہ حل کرانے کی کوشش کریں۔ آج شاید ہی کوئی ایسا خاندان یا گھر ہو جہاں باہمی چپقلش اور اختلافات نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک فرض منصبی سمجھتے ہوئے اگر اخلاص نیت سے ان اختلافات کو مٹا کر مصالحت کی کوشش کرے تو کئی گھر اور خاندان جنت نظیر ہو سکتے ہیں۔کئی گھروں میں میاں بیوی کے مابین نوبت طلاق تک جانے سے رک سکتی ہے۔ بہت سے لوگ گالی گلوچ، لڑائی جھگڑے اور ذہنی کوفت سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ آپ ایسے مواقع پر ہمیشہ اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد رکھیے: ’’اور صلح کر لینا بہتر ہے۔‘‘(النسائ: 128)
اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنانے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
