از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
گردش لیل ونہار میں بار بار یہ حقیقت مجسم شکل میں نظر آتی ہے: کل نفس ذائقۃ الموت یعنی جو نفس بھی اس کائنات میں آیا، اسے واپس جانا ہی ہے، مگر ایسے نفوس معدود ے چند ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں انجمن، ایک محفل اور ایک ادارہ ہوتے ہیں، ایسے افراد کا دنیا سے کوچ کرجانا سیکڑوں، ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں انسانوں کے دنیا سے چلے جانے سے زیادہ باعث ضیاع وزیاں ہوتا ہے۔انہی چنیدہ شخصیات میں 22فروری عالم اسلام کی معروف شخصیت ، نڈر و بے باک قیادت ،سپاہ صحابہ پاکستان کےسرپرست وبانی امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی رحمہ اللہ کا یوم شہادت ہے۔
امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگویؒ 1952ء میں چاہ کچھی والا موضع چیلہ تھانہ مسن ضلع جھنگ میں ولی محمد مرحوم کے گھر پیدا ہوئے،والدہ محترمہ کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا ،پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی محلہ میں اپنے ماموں حافظ جان محمد سے دو سال میں قرآن پاک مکمل حفظ کرلیا،علم قرات و تجوید شیخاں والی مسجد خانیوال میں مولانا قاری تاج محمود ؒ فاضل دارلعلوم دیوبند سیپڑھنے کے بعد علوم اسلامیہ کی تحصیل کے لیے دارلعلوم کبیروالہ میں داخلہ لیا ،یہاں محدث کبیر مولانا عبدالخالق ؒ اور شیخ الحدیث مولانا علی محمد ؒ سمیت دیگر کبار اساتذہ سے کسب فیض کیا،دورہ حدیث شریف کے لیے عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ خیر المدارس میں داخلہ لیا جہاں شیخ الحدیث مولانامحمد شریف کشمیریؒ اور دیگر شیوخ کے سامنے زانوئے تلمذ طے لیا اور یہیں سند فراغت حاصل کی۔
امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگویؒ نے عملی زندگی کی ابتداء جھنگ صدر مسجد پپلیاں والی میں اپنی خطابت سے کیا،آپ نےاپنے انداز خطابت سے زیادہ جرات مندانہ رویے،عوام الناس کے ساتھ ہمدردی ، غمخواری اور اجلے کردار سے اپناایک حلقہ عقیدت و محبت قائم کرلیا،آپ نے اپنے مطالعے ، مشاہدے ، افکار،درد دل،اخلاص ،للہیت اورتقویٰ کی بنیاد پر بہت کم عرصہ میں اپنے معاصرین علماء کرام میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔اسلام ،شعائراسلام اورختم نبوت کا تحفظ،توہین صحابہ اور اہلبیت کا سدباب کرنے اور مسلمانوں میں دینی حمیت کو زندہ کرنے کی جدوجہد آپ کامقصد حیات تھا۔
جھنگ کی عوام انتہائی پسماندہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزار رہے تھے،تعلیم و شعور کی کمی کے ساتھ ساتھ وڈیروں اور جاگیرداروں کے ظلم و ستم سہہ رہے تھے ،خوف کے مارے عوام حرف شکایت کسی سے نہیں کرتے تھے،ستم بالائے ستم یہ کہ شیعہ جاگیرداروں کی زیرسرپرستی مسلکی تعصبات اور انتہاپسندی ،توہین صحابہ کرام کے واقعات آئے روز رونما ہوتے تھے،جن کی روک تھام اور مظلوم سنی عوام کی آواز کو بلند کرنے کے لیے آپ نے سب سے پہلے تحریک مدح صحابہ چلائی ، پھر 6ستمبر 1984 پپلیاں والی مسجد میں آپ کی سرپرستی میں انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی ،مختصر سے عرصہ کے بعد انجم کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیل گیا اور مولانا کے موقف کے ہمنواؤں کی تعداد میں گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا،آپ 1984 ء سے لے کر 1990ء تک انجمن سپاہ صحابہ کے سرپرست رہے،اس دوران جیلیں،ہتھکڑیاں ،مصائب و مشکلات اورعزیمت کی عظیم داستانیں آپ نے رقم فرمائیں۔
امیر عزیمت مولاناحق نواز جھنگویؒ نے شہادت سے قبل خطبہ جمعہ میں ایک خطرے کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کے خلاف ایران،دبئی اور پاکستان میں قتل کرنے کی سازش کامنصوبہ تیار کیا گیا ہے،اور ان کے قتل کا منصوبہ 20 اور 25 فروری کے درمیان مکمل کیا جائے گا،اور وہی ہوا جس کا امیر عزیمت ؒ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ 22 فروری مغرب کے بعد گھر کی دہلیز پر دہشت گردوں کو گولیوں کو نشانہ بنے ، اس وقت آپ کی عمر 38 سال تھی۔
یہ تقریباً سوا آٹھ بجے کا عمل ہوگا آپ گھر سے باہر نکلے ہی تھے اور ابھی چند قدم بھی اٹھائےنہ تھے کہ سفاک قاتلوں نے ریوالوروں سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور قبل اس کے مولانا حق نواز جھنگوی شھیدؒ سنبھل سکیں نشانہ بن گئے گولیاں آپ کے سر سینہ اور پہلو میں لگیں اور نرم و نازک بدن سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے آپ وہیں گرگئے کچھ لوگوں نے آوازیں سُنیں ۔مگر شادی کی گہماگہمی میں آوازدَب گئی۔کیونکہ مکان کے سامنے گراؤنڈ میں شادی کی ایک تقریب تھی، امیرعزیمت نے شور کوٹ جانے سے قبل اس شادی میں بھی شریک ہونا تھا، فائر کی آواز سے لوگوں نے سمجھا کہ شادی کی خوشی میں نوجوان فائرنگ کر رہے ہیں، یہی اشتباہ حملہ آوروں کے لیے غنیمت ثابت ہوا اور وہ موقع سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔امیر عزیمت کو گرتا دیکھ کر اردگرد کے کچھ لوگ متوجہ ہوئے، علاقہ میں کہرام مچ گیا، مولانا شہیدؒ کو فورًا ہسپتال لے جایا گیا مگر ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی وہ عروسِ شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔
امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمہ اللہ تھے جن کی آواز اور پکار میں اتنا درد اور اخلاص تھا کہ آج 32 سال گزر جانے کے باوجود بھی اس شہباز کی بازگشت دنیا کے کونے کونے میں گونج رہی ہے۔امیر عزیمت دیوانہ وار آگے بڑھتے رہے اور حکمرانوں کو یہ بتاتے رہے ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، سیدہ عائشہ ، حفصہ ، ام حبیبہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے تقدس سے بڑھ کر پاکستان کا تقدس نہیں ہے۔ پاکستان کو تقدس انہی ہستیوں کے طفیل ملا ہے آج اگر پاکستان میں ماں عائشہ صدیقہ ؓ ماں حفصہ ؓ کی عزت محفوظ نہیں تو پھر کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں ، اگر صحابہ کرامؓ کی عزت و حرمت محفوظ نہیں تو پھر کسی کی عزت و حرمت محفوظ نہیں۔اور درد بھری آوازسےامّی امّی امّی کہہ کر پکارتے تو فضاؤں میں ارتعاش آجاتا زمین تھر تھراتی نظر آتی شجروحجرلرزہ براندام دکھائی دیتے عوام کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی تھیں۔
جب آپ امہات المؤمنین ؓ کی پاکدامنی علوّشان کے کُن گاتےہوئے رو سیاہ بدباطن دشمنان اصحاب رسول ﷺ کی خرافات قوم کوسناتے پھر ان کی نزہت وطہارت پر بے تابانہ جذب و مستی میں میری *امّی امّی امّی* کہہ کر یوں پکارا کرتے تھے جیسے بیماری سے تنگ آیا دکھیارا یا جدائی کا مارا ننھا بچہ روتے بلکتے اپنی امّی پر نظر پڑجانے پر پکار رہاہو تو ان کے یوں *امّی امّی* کہہ کر کرجلسہ عام میں پکارنےسے فضاؤن مین ایک ارتعاش ساپیدا ہوجاتا درودیوار شجر وحجر کیا جلسہ گاہ کی ہر ہر چیز انکا ساتھ دیتی نظر آتی یوں محسوس ہوتا ان کی مقدسہ مطہرہ منظر*امّی* کیلئے کائنات کی ہر شے ہمہ تن گوش ہے اور دست بستہ ادباًایستادہ ہے
ان کی ہی نہیں پوری امت کی اماں کے حضور نعرہ سے اظہار حسن عقیدت کے متصل بعد مستانہ دار یہ نعرہ لگتا جیوں جیوں حق نواز آج وہ اپنی امّی سے بچھڑا ہوا بیٹا امّی کے حضور جا پنہچا تھا آج وہ زندگی کا مقصد پاچکا ہے اور جی چکاتھا وہ حیات جاوادں پاچکاتھا اب اسےموت نہیں آنی تھی بل احیاء عندربھم یرزقون ۔القرآن*
بقول مفسر وخادم قرآن مولانا اسلم شیخوپوری شہیدؒ مولانا حق نوازجھنگوی شہید ؒ نے مختصر زندگی میں تعلیمی و تدریسی ذمہ داریاں بھی نبھائیں ،سیاست بھی کی،آمریت کو بھی للکارا،جمہوریت کی جنگ بھی لڑی،الیکشن میں بھی حصہ لیا،مرحلہ دار ورسن سے بھی گزرے،جیلوں کو بھی آباد کیا،ہزاروں اجتماعات سے بھی خطاب کیا،لاکھوں انسانوں کے دلوں میں اسلام کی حقانیت ،رسول اللہ کی محبت اور صحابہ کی عظمت کو بٹھایا ،منظم جماعت سپاہ صحابہ کو ملکی سطح ہر مقبول عام کیا۔یہ سب کام جھٹ پٹ انجام دے کرشہادت کا تاج پہن کرہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگے۔
نماز جنازہ اگلے روز جمعہ کی نماز کے بعد اسلامیہ ہائی سکول کی گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جھنگ میں کرفیو کے اعلان اور چاروں طرف باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لیے پولیس کی ناکہ بندی کے باوجود ملک کے مختلف حصوں سے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اخبارات کی رپورٹ کے مطابق یہ جھنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ نمازِ جنازہ کے بعد مولانا حق نواز جھنگویؒ کے قائم کردہ جامعہ محمودیہ میں انہیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ان کا جنازہ بزبان حال سے ان کی جدوجہد کی کامیابی کا اعلان کر رہا ہوتا ہے،انسانیت ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کی احسان مند اور ممنون رہی ہے، امیر عزیمت ،مجدد العصر شیراسلام مولانا حق نواز جھنگویؒ انہی شخصیات میں سے نابغہ روزگار شخصیت ہیں، جو حیات مستعار کا قلیل حصہ لے کر دنیا میں آئے مگر دینی وملی خدمات کا بہت بڑا فریضہ سرانجام دے خالق حقیقی سے جا ملے۔
امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگویؒ کا نام، خدمت اور قربانی و ایثار کی روایات زندہ رہیں گی ۔ اللہ تعالیٰ مولانا شہیدؒ کے درجات بلند فرمائیں اور ان کے رفقاء، پسماندگان اور عقیدتمندوں کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ وطن عزیز میں نظام خلفاءِ راشدین کے عملی نفاذ کے جذبے کے ساتھ دفاعِ صحابہ کا جذبہ نصیب ہو۔ اور دین اسلام کے آفاقی دستور کی حفاظت کے لیے ہر فتنے کے سامنے سرسکندری بننے کا من جانب اللہ اعزاز حاصل ہوجائے۔آمین ثم آمین ۔
