حقانیت قرآن کریم

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الرسل ہیں اور آپ کے بعد کسی نبی یا رسول کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کردہ کتاب خاتم الکتب ہے اور اس کے بعد کسی نئی کتاب کی ضرورت نہیں۔ (تفسیر القرآن ص ۱۶)
قرآن مجید کی بے انتہا عظمت کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کلام اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کی حقیقی صفت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے۔ یہاں تک کہ زمینی مخلوقات میں کعبۃ اللہ اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی مقدس ہستیاں اور عالم بالا اورعالم غیب کی مخلوقات میں عرش کرسی‘ لوح و قلم جنت اور جنت کی نعمتیں اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کے مقرب ترین فرشتے‘ یہ سب اپنی معلوم ومسلم عظمت کے باوجود غیر اللہ اور مخلوق ہیں۔ لیکن قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور اس سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقی صفت ہے جو اس کے ذات عالی کے ساتھ قائم ہے۔ یہ اللہ پاک کا بے انتہا کرم اور اس کی عظیم ترین نعمت ہے کہ اس نے اپنے رسول امین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ وہ کلام ہم تک پہنچایا اور ہمیں اس لائق بنایا کہ اس کی تلاوت کرسکیں اور اپنی زبان سے اس کو پڑھ سکیں پھر اس کو سمجھ کر اپنی زندگی کا رہنما بنا سکیں۔قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے طوی کی مقدس وادی میں ایک مبارک درخت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا کلام سنوایا تھا کتنا خوش قسمت تھا وہ بے جان درخت جس کو حق شانہ نے اپنا کلام سنوانے کیلئے بطور آلہ کے استعمال فرمایا تھا۔ جو بندہ اخلاص اور عظمت و احترام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے۔ اس کو اس وقت شجرہ موسوی والایہ شرف نصیب ہوتا ہے اور گویا وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے کلام مقدس کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ حق یہ ہے کہ انسان اس سے آگے کسی مشرف کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ (معارف الحدیث ج ۵ ص ۱۴)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو قرآن نے مشغول رکھا‘ میرے ذکر سے اور مجھ سے سوال اور دعا کرنے سے میں اس کو اس سے افضل عطا کروں گا جو سائلوں اور دعا کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں اور دوسرے اور کلاموں کے مقابلہ میں اللہ کے کلام کو ویسے ہی عظمت و فضیلت حاصل ہے‘ جیسی اپنی مخلوق کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کو۔ (معارف الحدیث جلد ۵ ص ۷۵‘۷۴)
جب کسی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے کوئی بات فرمائیں اور وہ بات قرآن مجید میں نہ ہو تو خاص عرف و اصطلاح میں ایسی حدیثوں کو حدیث قدسی کہتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری کی یہ حدیث بھی اسی طرح کی ہے۔ اس میں دو باتیں فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے جس بندے کو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام سے ایسا شغف ہو کہ وہ دن رات اسی میں لگا لپٹا رہتا ہو۔ یعنی اس کی تلاوت میں اس کے یاد کرنے میں اس کے تدبر اور تفکر میں یا اس کے سیکھنے سکھانے میں اخلاص کے ساتھ مشغول رہتا ہو اور قرآن پاک میں اس ہمہ وقتی مشغولیت کی وجہ سے‘ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے ذکر‘ اس کی حمد و تسبیح اور اس سے دعائیں کرنے کا موقع ہی اس کو نہ ملتا ہو تو وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ کچھ خسارے میں رہے گا اور ذکر و دعا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جل شانہ جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ اس کو نہ پاسکے گا۔
رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ میں ایسے بندوں کو اس سے زیادہ اور اس سے بہتر دوں گا جو ذکر کرنے والے اور دعائیں مانگنے والے اپنے بندوں کو دیتا ہوں۔ دوسری بات اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو دوسرے کلاموں کے مقابلہ میں ویسی ہی عظمت و فضیلت حاصل ہے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ کو اپنی خلوق کے مقابلہ میں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت قائمہ ہے۔ (معارف الحدیث جلد پنجم ص ۷۶‘۷۵)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس میں کئی طرح سے اعجاز ہے‘ یہ اعجاز تو مشہور ہی ہے کہ کوئی بھی شخص کیسا فصیح و بلیغ ہو‘ عربی ادب کا ماہر ہو‘ عربی زبان سے واقف ہو‘ اسالیب کلام کو جانتا ہو‘ قرآن جیسی کوئی صورت بنا کر نہیں لا سکتا۔ نہ کوئی لاسکا ہے اور نہ لا سکے گا اسی کو سورہ اسراء میں فرمایا۔
قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ہذا القرآن لایأتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا۔
آپ فرما دیجئے کہ اگر تمام انسان اور جنات اس بات کیلئے جمع ہوجائیں کہ قرآن جیسی کوئی چیز لے آئیں تو اس جیسی کوئی چیز نہی لا سکتے۔ اگرچہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہوجائیں۔
یہ معجزہ ساری دنیا کے سامنے ہے‘ قرآن نے تمام انسانوں اور جنات کو چیلنج کیا ہے لیکن سب اس جیسی چیز بناکر لانے سے عاجز ہیں اور عاجز رہیں گے۔ (تبلیغی اصلاحی مضامین جلد اول ۳۳۷)قرآن مجید کا یہ معجزہ ہے جو سب کے سامنے ہے کہ اس سے عورتیں‘ بوڑھے‘ بچے‘ جوان سب ہی حفظ کرلیتے ہیں‘ اتنی بڑی کتاب کوئی بھی شخص اپنی زبان کی لفظ بہ لفظ اور حرف بحرف یاد نہیں کرسکتا۔ قرآن بالفاظہ و حروف سینوں میں محفوظ ہے۔ اگر بالفرض خدانخواستہ سارے مصاحف ختم ہوجائیں تو قرآن مجید پھر بھی محفوظ رہے گا۔ ایک نو عمر حافظ بچہ کھڑے ہوکر پورا قرآن مجید لکھوا سکتا ہے۔ ا ہل کتاب نے لکھے ہوئے صحیفوں پر بھروسہ کیا اس لئے اپنی کتاب ضائع کردی۔ اب ان کے پاس ترجمے ہی ترجمے ہیں اصل کتابیں نہیں ہیں جن سے ترجموں کا میلان کیا جاسکے اور اسی وجہ سے کہ اصل کتابیں محفوظ نہیں رکھیں۔ (تبلیغی و اصلاحی مضامین جلد اول ص ۳۳۷)