نماز کی اہمیت

نماز کی اہمیت
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
نمازاسلام کی عبادت کا پہلا رکن ہے جو امیر وغریب،بوڑھے جوان،عورت ومرد،بیمار تندرست سب پر یکساں فرض ہے یہی وہ عبادت ہے جو کسی شخص سے کسی حال میں بھی ساقط نہیں ہوتی اگر اس فرض کو کھڑے ہوکر نہیں ادا کرسکتے تو بیٹھ کر ادا کرواگر اس کی بھی قدرت نہیں تو لیٹ کر کرسکتے ہواگر منہ سے نہیں بول سکتے تو اشاروں سے ادا کرو۔اگر کسی سخت مجبوری میں رک کر نہیں پڑھ سکتے تو چلتے ہوئے پڑھو۔اگر کسی سواری پر ہو تو جس طرف وہ چلے اس رخ پڑھو۔
نمازکیا ہے؟مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہارہے، اس رحمٰن اور رحیم کی یاد اور اس کے بے انتہا احسانات کا شکریہ ہے،حسن ازل کی حمدو ثنا اور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار ہے، یہ اپنے محبوب سے مہجور روح کا خطاب ہے ،یہ اپنے آقا کے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرض ونیاز ہے ،یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے ،یہ خالق ومخلوق کے درمیان تعلق کی گرہ اور وابستگی کا شیرازہ ہے یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اور مایوس دل کی دوا ہے ،یہ فطرت کی آواز ہے ،یہ حساس واثر پذیر طبیعت کی اندرونی پکار ہے ،یہ زندگی کا حاصل اور ہستی کا خلاصہ ہے ۔
یہ اسلام کا وہ فریضہ ہے جس سے کوئی مسلمان متنفس جب تک اس میں کچھ ہوش وحواس باقی ہیں کسی حالت میں بھی سبکدوش نہیں ہوسکتا قرآن پاک میں سو مرتبہ سے زیادہ اس کی تعریف اور اس کی بجاآوری کا حکم اور اس کی تاکید آئی ہے اور اس کے ادا کرنے میں سستی اور کا ہلی نفاق کی علامت ہے۔اور اس کا ترک کفر کی نشانی بتائی گئی ہے یہ وہ فرض ہے ۔ نماز کا بلند مرتبہ اس سے سمجھ لیں کہ دوسرے فرائض کا یہیں زمین پر رہتے ہوئے حکم دیا گیا اور نماز کا یہ مقام ہے کہ خدائے پاک وحدۂ لاشریک نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کراکر عالم بالا میں عطا فرمائی۔ اسلام کے فرائض میں دنیا میں سب سے پہلے نماز فرض ہوئی اور آخرت میں سب سے پہلے نماز ہی کا حساب ہوگا۔
نماز ہی ایمان کا سب سے پہلا مظہر ہے۔ شہادت ایمانی کے بعد سب سے پہلے جس چیز کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ یہی نماز ہے۔ یہ گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر انسان کے اندر ایمان موجود ہو او راللہ تعالیٰ جل شانہ کی معبودیت اور اپنی عبدیت پر اسے یقین ہو تو یہ یقین سب سے پہلے نماز کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ بات صرف انہی ایک دو حدیثوں میں نہیں پائی جاتی بلکہ قریب قریب ہر اس حدیث میں دکھائی دیتی ہے جس میں دین کے بنیادی اعمال گنائے گئے ہیں۔
آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا :نماز دین کا ستون ہے جس طرح ستون گر جانے سے عمارت گر جاتی ہے اس طرح نماز کے ترک کرنے سے دل کی دیانت داری بھی رخصت ہو جا تی ہے ۔آنحضرت صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم جب مبعوث ہوئے تو تو حید کے بعد سب سے پہلا حکم جو آپ کو ملا وہ نماز کا تھا۔اور آنحضرت صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم کو حکم ہوتا ہے کہ خود بھی نماز پڑھو اور اپنے اہل وعیال کو بھی اس کا حکم دو اور اس نماز پر جس کا مکہ کے قیام کے زمانہ میں ادا کرنا بہت مشکل ہے پوری پابندی اور مضبوطی کے ساتھ جمے رہو،فرمایا:
وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ط
’’اور اپنے گھر والوں پر نماز کی تاکید رکھو اور خود بھی اس کے اوپر جمے (پابند)رہو۔‘‘
نماز کیسی ہونی چاہیے۔اسلام سے پہلے بھی دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں آیا جس میں نماز کو اہمیت نہ دی گئی ہو۔قرآن کی رو سے دنیا میں کوئی ایسا پیغمبر نہیں آیا جس کو نماز کا حکم نہ دیا گیا ہو اوراس نے اپنی امت کو اس کی تاکید نہ کی ہو مگراس کی موجودہ حیثیت یہ ہے کہ اسلام کے سوا وہ کہیں نمایاں واضح اور مؤکد صورت میں باقی نہیں رہی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم خاتم الانبیاء اور قرآن پاک خاتم الکتب ہو کے آیا ہے اس لئے اس فریضہ ٔ الٰہی کو دین کامل میں ایسی منظم واضح اور مؤکد نمایا ںصورت دی گئی ہے کہ وہ قیامت تک دنیا میں قائم اور باقی رہے۔
نماز کے لئے اصل عربی لفظ صلوٰۃ ہے ،صلوٰۃ کے معنی عربی اور عبرانی زبانوں میں دعا کے ہیں اس لئے نماز کی لفظی حقیقت خدا سے درخواست اور التجا ء ہے اور اس کی معنوی حقیقت بھی یہی ہے۔
قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں نماز کے لئے متعددلفظ آئے ہیں ۔مثلاً صلوٰۃ،دعا،تسبیح اور ذکر ِ الٰہی اور یہ الفاظ خود نماز کے روحانی خصوصیات وآداب ظاہر کرتے ہیں ۔نماز جسم وروح دونوں کی عبادت ہے اگر اس میں جسم کی حرکت کے ساتھ دل کی جنبش شامل نہ ہو اور روح میں اہتزار پیدا نہ ہو جائے تو ایسی نماز گل بے رنگ اور شرابِ بے کیف سے زیاد ہ نہ ہوگی۔
نماز پڑھنے کے لئے قرآن پاک میں جابجا اقامت صلوٰۃ(نماز کو قائم کرنا)کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی صرف نماز پڑھنے کے نہیں ،بلکہ نماز کو اس کے آداب اور ارکان وسنن کے ساتھ ادا کرنے کے ہیں اورنماز کے بعد سنن وآداب کا اصلی جو ہر اخلاص ہے،یعنی یہ کہ نماز سے مقصودخدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور چیز نہ ہو ،کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو نماز نماز نہیں بلکہ ریا اور نما ئش ہو گی ۔
کیونکہ جس نماز کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جو نماز دین کا ستون ہی نہیں بلکہ ’’شاہ ستون‘‘ ہے وہ وجود میں نہیں آتی جب تک اسے ٹھیک طور سے ادا نہ کیا جائے۔ ٹھیک طور سے ادا کرنے کے لیے کتاب و سنت نے ایک خاص لفظ استعمال فرمایا ہے اور وہ ہے ’’اقامت‘‘ یعنی نماز قائم کرنے کا لفظ ہےجیساکہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس لفظ کو بولتے سنا جاسکتا ہے۔ نماز قائم کرنے کا مفہوم دو لفظوں میں یہ ہے کہ اسے تمام ظاہری آداب اور باطنی صفات کے ساتھ ادا کیا جائے۔ ان آداب اور صفات کی پوری تفصیل قرآن و سنت اور فقہ کی کتابوں میں ہر تلاش کرنے والے کو بآسانی مل جائے گی۔ مختصر لفظوں میں یوں سمجھئے کہ وہی ’’قائم کی ہوئی نماز‘‘ ہوتی ہے جو ٹھیک وقت پر اور جماعت کے ساتھ پڑھی گئی ہو‘ ٹھہر ٹھہر کر اور باقاعدگی کے ساتھ ادا کی گئی ہو جس کی قرأتوں میں ترتیل اور توجہ الی اللہ کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہو، جسم پر ادب اور فروتنی چھائی ہوئی ہو اور ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ کہ دل اللہ کی یاد میں کھویا ہوا ہو اور اس کی خشیت سے بھرا ہوا ہو اس کے خشوع میںڈوبا ہوا ہو۔ جس نماز میں ان باتوں کا اہتمام ہوگا صحیح معنوں میں وہی نماز ہوگی اور اسی قدر معیاری ہوگی جس قدر کہ اس میں یہ صفتیں موجود ہوں گی جس نمازمیں یہ چیزیں کم سے کم درجے میں بھی نہ ہوں گی وہ صورتاً نماز ہو تو حقیقتاً نماز ہرگز نہ ہوگی اور اس سے وہ فائدے کبھی حاصل نہ ہوسکیں گے جو نماز کے فائدے ہیں۔ اس طرح کی نماز اسلام کا ویسا ہی ستون ثابت ہوگی جیسے کہ ریت کی دیوار قلعے کی فصیل ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لئے جب نماز اللہ کی مناجات ہے تو اس میں نماز ہی کی طرف متوجہ رہنا ضروری ہے۔ باتیں اللہ سے ہورہی ہوں اور توجہ کسی دوسری طرف ہو‘ یہ بہت بڑی نادانی ہے‘ خشوع کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو نماز بہت زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے ۔ فرمایا: وَاَقِیْمُوْاوُجُوْھَکُمْ عِنْدَکُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۔
’’اور تم ہر نماز کے وقت اپنے رخ کو ٹھیک رکھو اور خدا تعالیٰ اخلاص کے ساتھ پکارو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ نماز میںاخلاص کا پید اکرنا اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔‘‘
آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا :’’جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر اس طرح نماز پڑھے کہ جو وہ کہتا ہے اس کو سمجھتا بھی ہے ،یہاں تک کہ نماز ختم کر لے تو وہ ایسا ہوجاتا ہے گو یا اسی دن وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہو۔‘‘
یہ نماز کے وہ باطنی آداب ہیںجن کے بغیرنماز کامل نہیں ہوتی ،جس طرح نماز کے ظاہری شرائط سے غفلت برتنانماز سے غفلت ہے اسی طرح نماز کے ان باطنی آداب کا لحاظ نہ کرنا بھی نماز سے غفلت ہے اور اس لئے آیت ذیل کے مصداق دونوں ہیں :’’پھٹکا رہوان نمازیوں پرجو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ،جو دکھاوے کی نماز پڑھتے ہیں۔‘‘(سورۃ الماعون)
ذرا ان الفاظ پر غور کیجئے’’ان نمازیوں پر جو اپنی نماز سے غافل ہیںپھٹکار ہو،نمازی ہونے کے باوجودنماز سے غافل ہو نے کے یہی معنی ہیں کہ نماز کے لئے جو ظاہری آداب ہیں مثلاً:وقت کا لحاظ اورادائے ارکان میں اعتدال وغیرہ اور جو باطنی آداب ہیں مثلاً:خشوع وخضوع،تضرع وزاری اور فہم وتدبر وغیرہ ضروری ہیں ان سے نماز میں تغافل برتا جائے۔
ایک دفعہ مسجد نبوی صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم میں ایک شخص نے آکر نہایت عجلت میں نماز پڑھی آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اے شخص!اپنی نماز پھر پڑھ کیونکہ تونے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اس نے دوبارہ اسی طرح نماز ادا کی آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے پھر وہی اشاد فرمایاجب تیسری دفعہ بھی ایسا ہی ہو اتو اس نے عرض کی یارسول اللہ!صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم کیسے نماز پڑھوں؟حضور کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایااس طرح کھڑے ہو ،اس طرح قرأت کرو،اس طرح اطمینان وسکون کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرو۔‘‘
آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے یہ بھی فرمایاکہ جب تک بندہ نماز میںدوسری طرف ملتفت نہیں ہوتا،خدا تعالیٰ اس کی طرف ملتفت رہتا ہے اور جب وہ خدا کی طرف سے منہ پھیر لیتا ہے تو خدا بھی اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیتا ہے۔اورایک دفعہ آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے فرمایا :’’سب سے بڑا چور وہ ہے جو نماز کی چوری کرتا ہے۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا یارسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نماز کی چوری کیا ہے؟فرمایا:’’رکوع اور سجدہ اچھی طرح نہ کرنا اور خشوع نہ ہونا۔‘‘
نماز میں سکون واطمینان پیدا کرنے کی بھی آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ہدایتیں فرمائی ہیںارشاد ہوا کہ ’’جب نماز ہورہی ہو اور تم باہر سے آؤتو دوڑ کر مت آؤبلکہ اس طرح آؤکہ تم پر سکون ہواور وقار طاری ہو۔اس سے اول تو یہ مقصود ہے کہ خود اس شخص پر سکون واطمینان طاری رہے،دوسرے یہ کہ اس دوڑ یا چال سے دوسرے نمازیوں کے سکون میں خلل نہ آئے ،اسی طرح بے اطمینانی کے اگر طبعی اسباب ہوںتو نماز سے پہلے اس سے بھی فراغت حاصل کر لی جائے ۔مثلاً بھوک ہو اور کھانا رکھا ہوا ہواور ادھر جماعت کھڑی ہورہی ہو تو پہلے کھانا کھا لینا چاہیے تاکہ نماز اطمینان سے ادا ہو۔اسی طرح اگر استنجایا قضائے حاجت کی ضرورت ہوتو پہلے اس سے فراغت کر لی جائے تب نماز پڑھی جائے۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ یارسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم مجھے کچھ ہدایت فرمائیے ارشاد ہو اکہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تمہاری نماز ایسی ہونی چاہیے کہ یہ معلوم ہو کہ تم اس وقت مررہے ہو اور دنیا کو چھوڑ رہے ہو ۔‘‘تمہاری نماز کی اس کیفیت کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے؟