از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
تقریبا ایک صدی قبل 1927 میںمتحدہ ہندوستان کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ نے دہلی سے باہر بستی نظام الدین سےدعوت اسلام کا کام شروع کیا۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ شہر کے بازاروں، گاوں اور قصبوں میں جاتے اور مسلمانوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے۔ مساجد اور تعلیم کے حلقوں سے جڑنے کی ترغیب دیتے تاکہ وہ اس طرح ایمان ، نماز اور اسلام کے بنیادی مسائل سیکھیں۔ان بنیادی مسائل اور اسلامی آداب کو خود سیکھنے، عملی طور پر اپنانے اور دوسروں کو سکھانے کے لیے ان سے مطالبہ کرتے تھے۔ آپ نے یہ تبلیغ بھی کی کہ اپنے خرچ پر مہینہ میں تین دن، سال میں چالیس دن اور عمر بھر میں چار ماہ کے لیے اللہ کی راہ میں نکلیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے اس بزرگ کی مخلصانہ محنت میں برکت فرمائی اور ان کے ارد گرد پاک سیرت اہل ایمان افراد کی ایسی جماعت مجتمع ہو گئی جن کا تعلق معاشرے کے ہر طبقے سے تھا، اس میں تاجر، کاشتکار، سرکاریاور غیر سرکاری ملازم، اساتذہ، طلبہ اور مزدور وغیرہ سب ہی تھے۔ انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ کسی قسم کے فروعی اور فقہی مسائل کو نہ چھیڑا جائے اور ہر شخص نے جو بھی مسلک اختیار کیا ہوا ہے اسی پر عمل کرے ،پوری توجہ اور اہتمام سے ایمان، یقین، اخلاص، نماز، علم، ذکر، مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھے،اوردعوت اور خروج فی سبیل اللہ میں مصروف رہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس بزرگ کی محنت میں ایسی برکت عطاء فرمائی کہ جو دعوت ایک بستی سے شروع ہوئی تھی وہ ترقی کرتے کرتے ایک عالمی اور بین الاقوامی دعوت و تحریک بن گئی۔حاجی عبد الوہاب صاحب رحمہ اللہ 1944ء کے آغاز میں تبلیغی مرکز بستی حضرت نظام الدین انڈیا میں موسسِ تبلیغ حضرت جی مولانا محمد الیاس کاندھلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہی کے ہو رہے۔ اصلاحی تعلق مولانا عبدالقادر رائے پوری علیہ الرحمہ سے تھا اور ان سے خاندانی تعلق بھی تھا۔ آپ پاکستان میں حاجی محمد شفیع قریشی صاحب، حاجی محمد بشیر صاحب اور مولانا ظاہر شاہ صاحب کے بعد چوتھے نمبر پر تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی کی وفات پر تبلیغی جماعت میں شورائی نظام نافذ ہونے کے بعد سے عبدالوہاب صاحب عالمی تبلیغی مرکز رائے ونڈ کی شوریٰ کے امیر اور مرکزی شوریٰ تبلیغی مرکز بستی حضرت نظام الدین دہلی کے رکن ہیں۔مولانا الیاس کاندھلوی کے ان پہلے 5 ساتھیوں میںشامل تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین کی تبلیغ کیلئے وقف کی اور اللہ سے محبت کا حق ادا کیا۔ مولانا الیاس کاندھلوی اپنے انتقال (1944) تک جماعت کے امیر رہے۔بانی کے انتقال کے بعد مولانا یوسف کاندھلوی 1965 تک، ان کے بعد مولانا انعام الحسن کاندھلوی 1995 تک تبلیغی جماعت کے امیر رہے۔ مولانا انعام الحسن کاندھلوی کے انتقال کے تقریباً 2 ماہ بعد حاجی عبدالوہاب 10 جون 1995 کو تبلیغی جماعت کے امیر مقرر ہوئے ۔اگر پاکستان میں تبلیغی جماعت کی امارت کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے امیر محمد شفیع قریشی تھے جن کے 1971 میں انتقال کے بعد حاجی محمد بشیر پاکستان میں تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر مقرر ہوئے۔ 1992 میں حاجی بشیر کے انتقال کے بعد حاجی عبدالوہاب تبلیغی جماعت کے پاکستان میں امیر مقرر ہوئے اور بعد ازاں مولانا انعام الحسن کاندھلوی کے انتقال کے بعد 1995 میں دنیا بھر میں تبلیغی جماعت کے امیر بنے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے جب حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کا انکار کرکے خود کے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو ردعمل میں تحریک ختم نبوت ﷺ علامہ عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی مجلس احرار شروع ہوئی – حاجی صاحب نے مجلس احرار میں شمولیت فرماکر مجلس احرار کے رکن کی حیثیت سے بھی اپنی مخلصانہ خدمات سرانجام دیں اور آقا ﷺ کی ختم نبوت کی خاطر برٹش گورنمنٹ میں اپنے تحصیل دار کی حیثیت سے سرکاری پوسٹ کو بھی چھوڑدیا۔ اور حاجی صاحب مرکز احرار کے سرگرم کارکن بھی رہے اور تحریک ختمِ نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1922ء میںآپ پیدائش دہلی میں ہوئی۔آپ کا آبائی گاؤں گمتھلہ راؤ تحصیل تھانیسر ضلع کرنال انبالہ ڈویژن ہے۔ آپ کا تعلق راجپوت خاندان سے ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انہوں نے بطور تحصیلدار فرائض سر انجام دیے۔ ہجرت کے بعد آپ پاکستان میں ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے چک نمبر 331/EB ٹوپیاں والا میں آباد ہوئے۔ابتدائی تعلیم انبالہ کے سکولوں میں حاصل کی۔ گریجوایشن اسلامیہ کالج، لاہور سے کی جہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی آپ کے استاد رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ تحصیلدار بھرتی ہو گئے۔
2014ء میں عالمی سطح پر 500 بااثر شخصیات میں دسویں نمبر پر آپ کا نام آیا اور پھر اب تک مسلسل آتا رہا۔ آپ کی قریب قریب ایک صدی پر محیط پوری زندگی دعوت و عزیمت سے عبارت رہی۔ آپ نے مروّجہ طریق پر درس نظامی کی کتب نہیں پڑھی تھیں، اس لیے آپ باقاعدہ عالم نہیں کہلاتے تھے، لیکن جب مجمع عام میں بیان کرنے بیٹھتے تو بہت سے دقیق مسائل ان کی جزئیات کے ساتھ پوری طرح بیان کردیتے اور بہت ہی سمجھداری اور زیرکی سے بہت سی ایسی چیزوں میں بھی اپنی جچی تلی رائے دے دیتے جو تبلیغی گفتگو سے ہٹ کر ہوتیں، جس سے یہی اندازہ ہوتا کہ دینی علوم و فنون اور علوم عربیہ متداولہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔
حضرت حاجی محمد عبدالوہاب صاحب نے اپنے پیشرو تینوں امراء کی صحبتوں سے جو کچھ سیکھا تھا، پوری زندگی وہ دوسروں کو سکھاتے رہے۔ ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا دعوت کی محنت تھی، وہ اعمال و اشغال کے بھی بڑے پابند تھے، پوری زندگی ہر حال میں ذکر و تہجد کے پابند رہے۔ عمر کے آخری حصے میں بعض عوارض و بیماریوں کے سبب نقل و حرکت سے تقریباً معذور ہوچکے تھے، لیکن ایسی حالت میں جب وہ دوسروں ہی کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے تھے تب بھی مسلسل حرکت میں رہتے تھے۔آپ نےاسی دعوت وتبلیغ کی محنت کے لئےملک و بیرون ملک کے درجنوں سفر کیے۔ تبلیغی مرکز رائے ونڈمیں آنے اور جانے والی جماعتوں کو اپنے ارشادات و ہدایات اورمصافحہ سے ون رات مستفید فرماتے رہتے تھے۔ الغرض! اپنے پیشرو بزرگوں سے انہوں نے دعوت و تبلیغ کے کام کو سنبھالنے کے جو وعدے کیے تھے پوری زندگی اس کو نبھاتے رہے۔ اس راہِ وفا میں جو تکلیفیں انہوں نے اٹھائیں اور جو تنگی و ترشی برداشت کی اور جن صبر آزما مصائب و مشکلات سے گزرے، ہم جیسےاس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے ابتدائی حالات جو بڑوں سے سنے کہ اسی دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے پورا پورا دن بھوکا پیاسا پیدل چل چل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اور لوگوں کی باتیں، گالیاں سننے، یہاں تک کہ ماریں کھا کر بھی ان کو دین کی دعوت دینا ان کے لیے معمولی بات تھی۔
جرآت و بہادری میں وہ اپنی مثال آپ تھے،ایک بار جب پہلی بارمیاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے تو ایک بارائیونڈ تبلیغی مرکز تشریف لائے، میاں صاحب حاجی صاحب کے پاس گئے اور ان کو ایک خطیر رقم بطور چندہ پیش کرنا چاہا، حاجی صاحب نے کہا میاں صاحب ! ہمیں پیسے نہیں آپ کا وقت چاہئے،اگر آپ اللہ کےراستے میں تین دن دے سکتے ہیں یا چالیس دن ؟ تو بسم اللہ!میاں صاحب نے کہا اتنی رقم آفر کرنیوالاآپ کو کوئی اور نہیں ملیگا، حاجی صاحب نے فرمایا ! میاں صاحب! آپ کو اتنی خطیر رقم واپس کرنیوالابھی کوئی نہیں ملے گا۔
مشرف دور حکومت میں اسلام آباد اجتماع پر پابندی لگائی گئی، اس دور کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ تھے، پرویز مشرف نے شیخ رشید کو حاجی صاحب سے مذاکرات کیلئے بھیج دیا،حضرت حاجی صاحب نےمحبت سے ایک تھپڑ رسید کیا، شیخ رشید نے پرویز مشرف سے کہا کہ حاجی صاحب سے تھپڑ کھا چکا ہوں اور وہ مان نہیں رہے! پرویز مشرف نے کہا مجھے ان کا تھپڑ بھی قبول ہے بشرطیکہ اجتماع نہ ہو، کیوں کہ سیکیورٹی کامسئلہ ہے۔حاجی صاحب ان کو محبت سے سمجھاتے رہے کہ اجتماع ایک پرامن تقریب ہے جس سے خوف ہراس کم ہوتا ہے، عبادت کے ذریعے اللہ خوف و دہشت کو ختم کریگا، حکمت و بصیرت اس درجے کی تھی اورحکم دیا کہ فورا آفتاب شیر پاو وزیرِداخلہ کے حلقے چارسدہ سے چند اہم تبلیغی ارکان کو ساتھ لیجائیں ، اور آفتاب شیر پاؤں کا قائل کریں کہ ہم حکومت کیساتھ ہر تعاون کیلئے تیار ہیں مگر اجتماع ہر صورت میں ہوگا۔ علاقائی احباب سے مذاکرات کے بعد شیرپاؤ صاحب راضی ہوئے اور اجتماع ہوگیا۔حاجی صاحب کو زندگی بہت سارے مشکلات پیش آئے مگر انہوں نے جس تندہی اور حکمت کیساتھ اس سلسلے کو چلایا وہ اپنی مثال آپ ہے،اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کی بے اعتنائی کے باوجود وہ بزرگوں کے اصولوں پر قائم رہے، ان کو ڈرایا گیا، دھمکایا گیا، مگر ہمت و استقلال سے کام کرتے رہے۔
حضرت حاجی صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے لیے بہت ہی کم وقت نکالا۔ کھانے، پینے او رسونے کا مطلقاً ہوش نہ تھا، بقول مولانا طارق جمیل لقمہ ہاتھ میں اٹھایا ہوتا، لوگوں سے گفتگو کر رہے ہوتے اور اسی حالت میں پون گھنٹہ گزر جاتا۔ سونے کا عالم یہ تھا کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے آرام کے لیے نکال پاتے اور بعض اوقات اس سے بھی کم وقت ملتا۔ لہٰذا جب بیان کرنے بیٹھتے تو منبر پر بیٹھے بیٹھے ہی اونگھنے لگتے۔ تبلغی مرکز رائے ونڈ میں اُن کا فجر کا بیان مشہور تھا۔ فجر کی نمار کے بعد جب وہ بیان کرتے تو درمیان میں نیند کا جھونکا آجاتا ،جب آنکھ کھلتی تو اپنی بات کا اغاز”ہاں تو میں کہہ رہا تھا“ سے کرتے۔دوپہر کے وقت جانے والی جماعتوں سے مصافحہ کے لیے بیٹھتے تو نیند آجاتی، ایسے میں مصافحہ کرنے والے بھی احتیاط سے ہاتھ چھوتے کہ کہیں حاجی صاحب جاگ نہ جائیں۔تبلیغی مراکز میں بیک وقت متعدد حلقوں میں بیا ن جاری رہتے ہیں۔حاجی صاحب کو مختلف حلقوں میں بیان کرنا ہوتا تھا۔ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تو اتنی تیز رفتاری سے چلتے کہ بعض ساتھ چلنے والوں کو باقاعدہ دوڑ لگانا پڑتی۔ سفید کرتے اور دھاری دار نیلے تہہ بند میں ملبوس حاجی صاحب یہاں سے وہاں جاتے اور متحرک رہتے، بلکہ دوسروں کو بھی حرکت میں رکھتے۔اسی سخت محنت نے ان کے جسم کو مختلف امراض کی آماج گاہ بنا دیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولنے والےانسان مسلمانوں کے حاجی عبدالوہاب تھے جسکے دن رات بولنے کی وجہ سے اسکی آواز مستقل طور پر بیٹھ چکی تھی- انکی زبان پر اکثرایک ہی دعوتی جملہ رواں رہتا تھا کہ ” اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور مخلوق خدا ( یعنی اللہ کے غیر) سے خدا کے ارادے بغیر، کچھ نہ ہونے کایقین” اور ” رسول مقبولﷺ کے نورانی طریقوں میں دنیا و آخرت کی کامیابی کایقین اور غیروں کے تمام طور طریقوں میں ناکامی کایقین ہمارے دلوں میں کیسے آئیگا اور عالم انسانیت کے دلوں میں کیسے آئیگا ؟” مسلسل بولنے کی وجہ سے ان کا گلا بیٹھ چکا تھا اور آواز بھی پھٹ گئی تھی۔ سانس لینے میں دشواری ہوتی اور سینے میں بھی تکلیف کی شکایت تھی۔
حضرت حاجی عبدالوہاب صاحب نے اپنی پوری زندگی دین کی دعوت اور دین کی محنت کے لیے وقف کررکھی تھی۔ انہیں حضرت مولانا الیاسؒ، حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ اور دیگر اکابر کی صحبت اور خدمت کا شرف نصیب ہوا۔ وہ اکابر کے مزاج شناس تھے اور زندگی بھر ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اور ان کی روایات کے امین رہے۔اپنی زندگی کے 75سال انہوں نے ایک ہی ادارے اور ایک ہی مقصد پر صرف کئے اور اپنے عملی کردار سے بہترین نتائج حاصل کئے جو بہت کم کسی کے حصے میں آئے۔انہوں نے ساری زندگی امن اور بھائی چارے کا پرچار کیا اور شدت پسندی کی ہر طرح سے مذمت کی۔ تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لیے وقف کر دی تھی۔ حاجی عبدالوہاب صاحب کو اللہ رب العزت نے امت کی فکر اور درد و کڑھن کی جس کیفیت سے نوازا تھا وہ انہی کا خاصہ تھا۔ ان کی فکر کا نتیجہ تھا کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں پھرے۔ اللہ رب العزت انہیں دین کی نسبت سے شرق و غرب اور شمال و جنوب تک لے گئے اور دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں ہوگا جس کی فضائوں میں حاجی عبدالوہاب صاحب کی درد میں ڈوبی اور ایمان و یقین سے معمور دعوت کی آواز نہ گونجی ہو۔ حاجی عبدالوہاب صاحب سے اللہ رب العزت نے اپنے دین کی خدمت اور دعوت کا اتنا کام لیا جتنا کوئی بہت بڑی تحریک، کئی تنظیمیں اور بہت سے ادارے مل کر نہیں کرپاتے، حاجی عبدالوہاب صاحب نے اتنا کام تن تنہا سرانجام دیا۔ حاجی صاحب کی شخصیت اتحاد و یک جہتی کا استعارہ تھا۔ آپ کے وجود کی برکت سے امت بہت سے انتشار و اختلافات اور فتنوں سے محفوظ تھی۔ حاجی صاحب کو اللہ رب العزت نے بہت بڑا دل عطا فرمایا تھا۔ ان کی عالی ظرفی اور وسعت ظرفی کا یہ عالم تھا کہ دین کے کام میں نوکری حارج ہوئی، اس کو چھوڑ دیا۔ اولاد کوئی تھی نہیں، اہلیہ کا کچھ عرصے کے بعد انتقال ہوگیا۔ حق تعالیٰ نے ہر طرف سے آپ کو تبلیغ کے لیے فرصت عطا فرمادی۔ یوں آپ نے خود کو تبلیغ کے لیے وقف کردیا۔حاجی عبدالوہاب گزشتہ کئی سالوں سے علیل تھے اور گاہے بگاہے ان کے مختلف آپریشنز ہوتے رہتے تھے۔اور اللہ سے توکل کا ایسا پختہ یقین اپنے دل میں جگایا کہ اس کی روشنی سے دنیا بھر میں کروڑوں دلوں نے تسکین پائی۔اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیر سے کچھ نہ ہونے کا یقین ‘ کا سبق کروڑوں انسانوں کو پڑھانے والے حاجی عبدالوہاب اسی کے پاس چلے گئے جس کے ’ کُن‘ پر پورا نظام قائم رہا ہے۔ ان کی عمر 94 سال تھی ۔ اٹھارہ نومبر2018 کو وہ خالق حقیقی سے جا ملے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔پاکستان میں جس کے نام پر ایک مرلہ زمین نہ تھی، اور جس کا ذاتی ایک کمرہ تک نہ تھا۔ وقف کے کمرے میں زِندگی گزارنے والا لوگوں کے دِلوں میں ایسا دھڑکتا تھا کہ آج وہ حیران کن منظر سُندر، مانگا منڈی اور قُرب و جِوار میں کھلی آنکھوں سے خود دیکھا کہ لوگ بلاکیج میں پھنسنے کے بعد کروڑوں روپے کی بڑی بڑی گاڑیوں کو روڈ پر چھوڑ کر پیدل پنڈال کی طرف بھاگ رہے تھے کہ بھاڑ میں جائے گاڑی۔ کسی طرح جنازہ مل جائے۔یہ دِیوانگی اُس فقیر کےلئے تھی‘ جس نے وِراثت کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں چھوڑی!’’پاکستان کا سب سے بڑا فقیر‘‘ پاکستانی عوام کی سب سے زیادہ محبت اور عقیدت لے کر یہ اِعلان کرگیا کہ لوگوں کے دِلوں میں دھڑکنے کےلئے بڑی بڑی گاڑیاں، بڑے بڑے بنگلے، سیاسی شعبدہ بازیاں قطعاً ضروری نہیں۔ حضرت حاجی محمد عبد الوھاب کا جنازہ شیخ الحدیث مولانا مفتی نذر الرحمن نے پڑھایا۔ جو حاجی عبد الوہاب کی وصیت کے مطابق تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے ہیں۔حاجی عبد الوہاب کے جنازے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 12 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
مولانا طارق جمیل نے امیر عالمی تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب کے سانحہ ارتحال پر رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حاجی عبدالوہاب نے اپنی زندگی کا ہر پل اور ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسولؐ کیلیے وقف کردیا تھا اور اسی میں ان کی جان گئی، نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے فرمایا تھا کہ حاجی عبدالوہاب نے اپنی زندگی کا ہر پل اور ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کیلیے وقف کردیا تھا اور اسی میں ان کی جان گئی۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں، اپنی ذات کی جذبات کی اور ضروریات کی قربانی دے کر لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں، ان میں سے ایک حاجی عبدالوہاب صاحب بھی تھے، مولانا طارق جمیل کا کہناتھا کہ میری زندگی کے کوئی پچاس سال حاجی عبدالوہاب صاحب کے ساتھ گزرے، اللہ نے مجھے تاریخ پڑھنے کا بھی موقع دیا، تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے پیدا ہوئے اور آیندہ بھی کم لوگ ایسے ہوں گے جو اس طرح اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے فنا کرکے لوگوں کے لیے نفع کا سامان بنے، وہ اپنی مثال آپ تھے، ان کی تربیت اور صحبت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔یہ صرف ہمارا نہیں پوری امت کیلیے بڑا نقصان ہے۔ مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ حاجی عبدالوہاب نے اپنی زندگی کا ہر پل اور ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے وقف کردیا تھا اور اسی میں ان کی جان گئی۔ انہوں نے کہا کہ حاجی عبدالوہاب کی جگہ کس کو تبلیغی جماعت کا امیر بنایا جائے گا، اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
ان کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا آسانی سے پُر ہونے والانہیں ہے۔بلاشبہ ʼʼہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ʼʼ مگر کچھ ہستیوں کا جانا ایسا نقصان ہے جو بہت کم پورا ہوتا ہے۔ حاجی صاحب کا شمار بھی ان ہستیوں میں کیا جاتا ہےجو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ یہ آپ کی تبلیغ کا نتیجہ اور کردار کی سچائی ہی تھی کہ کھیلوں اور شوبز سے وابستہ کئی معروف ہستیوں نے امیر حاجی عبدالوہاب کے ہاتھوں بیت کی اور تبلیغی سرگرمیوں کا حصہ بنے۔ آج وہ سب دین اور دنیا دونوں میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ انضمام الحق، محمد ثقلین، محمد یوسف ہوں یا مولانا طارق جمیل سب ہی حاجی صاحب کی صحبتوں سے فیض یاب ہو کر دنیا میں اسلام کے حقیقی چہرے امن و آتشی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔آپ کا شمار دنیا کے بااثر ترین افراد کی فہرست میں ہوتا تھا ۔ بلاشبہ حاجی عبدالوہاب صاحب کا نام پاکستان میں مذہبی روا داری، اخوت،بھائی چارے کے قیام اور تبلیغ اسلام کے حوالے سے ہمیشہ جلی حروف میں لکھا جائے گا۔ غلبہ اسلام اور تحریک ایمان کی اس عظیم محنت تبلیغی جماعت کی بنیادوں میں حاجی صاحب کی جو محنت اور قربانی ہے اللہ رب العٰلمین حاجی صاحب کی محنت اور قربانی کو قبول ومنظور فرمائے۔ آمین