از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
علامہ محمد اقبال بیسوں صدی کی عظیم شخصیت تھےآپ عالم اسلام کی آنکھوں کا تاراتھے ان کی فکر رسا نے ہر میدان میں سامانِ ہدایت فراہم کیا۔آپ ایک معروف شاعر ، مصنف ، قانون دان، سیاست دان ، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی نامور شخصیت تھے وہ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امتِ اسلام کی طرف تھا۔ ان کے افکار و خیالات ‘ شاعری اور عالم اسلام کیلئے درد نے ملت بیضا کی شیرازہ بندی کرنے اور مسلمانوں کے اندر روح محمد پھونکنے میں بڑی مدد کی ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا درجہ بحیثیت شاعر اور فلسفی دور حاضر کے ارباب سیاست سے کہیں اعلیٰ افضل تر ہے۔بہت کم شخصیتیں ایسی گزری ہیں جو اپنی حیات اور بعد مرگ شہرت و ناموری کی معراج پرجا پہنچتی ہوں ۔ ان میں سے ایک ایسے ہی نابغہ روزگار شخصیت علامہ اقبال رحمہ اللہ کی ہے جن کی شہرت کا آفتاب ہمہ وقت اوجِ ثریہ پر مقیم رہا۔آپ کا شمار نہ صرف اسلام کے اکابر شعرا میں ہوتا ہے بلکہ وہ وطن کے ان شیدائیوں میں سے ایک تھے جو بڑے بڑے لیڈروں پر فوقیت رکھتے تھے۔ زندگی کے تمام شعبہ حیات پر ان کی گہری نظر تھی آپ نے اپنے دور کی معروضی صورت حال کے کم وبیش ہر پہلو پر نظر ڈالی اور مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی صورت گری کے لیے اپنی سوچ اور فکر کے مطابق راہ نمائی مہیا کی۔آپ جنوبی ایشیا میں امت مسلمہ کے وہ عظیم فکری راہ نما تھے جنہوں نے اس خطے پر برطانوی استعمار کے تسلط اور مغربی فکر وثقافت کی یلغار کے دور میں علمی، فکری اور سیاسی شعبوں میں ملت اسلامیہ کی راہ نمائی کی اور ان کی ملی جدوجہد کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی نئی نسل اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغرب کے فکر وفلسفہ اور تمدن وثقافت سے مرعوب ہونے اور اس کے سامنے فکری طور پر سپر انداز ہونے سے محفوظ رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ بحیثیت سیاستدان ان کا بنیادی کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر پیش کیایہ نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔
علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ اقبال کے آبائو اجداد قبول ِ اسلام کے بعداٹھارویں صدی کے اختتام یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئےآپ نے ،ابتدائی تعلیم محلہ شوالہ کی مسجد سے حاصل کی ، پھر کوچہ میر حسام الدین کے ایک مکتب میں پڑھنا شروع کیا ، بعد ازاں اسکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا ، چنانچہ آپ کا بچپن فطری اصولوں کے مطابق فطرت کو سمجھنے میں گزرا، ابھی عمر بمشکل 16 سال ہو گی کہ علامہ اقبال مرحوم نے میٹرک پاس کی اور ڈویژن میں فرسٹ آئے ، تمغہ انعام میں حاصل کیا ، اس کے بعد کی تعلیم بھی اسکاچ مشن اسکول میں حاصل کی ، داغ شاعر سے کچھ عرصہ شاعری میں رہنمائی حاصل کی ، 1895 ء میں لاہور آ گئے اور گورنمنٹ کالج میں بی۔ اے کلاس میں داخلہ لیا، 1898ء کو بی۔ اے پاس کیا اور ایم۔اے فلسفہ میں داخلہ لیا ، مارچ 1899ء میں ایم۔ اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ایم۔ اے پاس کرنے کے بعد اقبالؒ 13 مئی 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہوئے اور چار سال تک یہیں رہے، اسی دوران انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اور ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے اردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب بھی تصنیف کی جو 1904ء میں شائع ہوئی۔اس کے بعد 25 دسمبر 1905ء کو انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونی ورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لیا ، ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ جرمنی چلے گئے، جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔4 نومبر 1907ء کو میونخ یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے، بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی ،کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہوگئے، جولائی 1908ء کو نتیجہ نکلا، کامیاب قرار دیے گئے۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رْکے، وطن واپس آگئے،جولائی 1908ء میں وطن کے لیے روانہ ہوئے،بمبئی سے ہوتے ہوئے 25 جولائی 1908ء کی رات دہلی پہنچے،اگست1908ء میں لاہور آ گئے۔
کچھ عرصہ بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر 10مئی 1910 سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا۔ لیکن ساتھ وکالت بھی جاری رکھی وقت کے ساتھ مصروفیات بڑھتی گئیں کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہو گیا۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برصغیر کی کئی جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہو گیا لالہ رام پرشاد پروفیسر تاریخ ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک کتاب تاریخ ہند مرتب کی آگے مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے۔ 1919کو اورینٹل فکلٹی کے ڈین بھی بنائے گئے 1923میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی اس دوران پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ 1923میں انہیں سر کا خطاب ملا۔ پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً 1932تک متعلق رہے۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ نہایت ہی حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری ہمیشہ بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنی رہے گی یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے۔ اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے ہیں اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں اقبال نے نئی نسل میںانقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا ان کے کئی کتب کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی ، جاپانی ، چینی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیںاقبال اپنی شاعری کے ذریعے اہلیان برصغیر میں آزای کا جذبہ پیدا کرتے رہے ، ان کی شاعری میں جہاں معنویت ، حقیقیت ، تاریخیت ، اسلامیت اور انسانیت ملتی ہے وہیں پر جذبہ آزادی ، اہل اسلام کی عروج کے اسباب و عوامل ، غلامی سے نجات پانے کے اصول اور خودی کا درس بھی ملتا ہے۔اور آپ نے فارسی کو اپنے اظہارِ خیال کے لئے ترجیح دی کیونکہ اردو کے مقابلے میں اس کا دائرہ وسیع تھا اور عربی کے بعد عالمِ اسلام کی وہ دوسری زبان کا درجہ رکھتی تھی۔اس دور میں ان کے اردو مجموعوں کے علاوہ فارسی زبان میں ان کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں:… اسرارِ خودی٭… رموزِ بے خودی٭… پیامِ مشرق) زبورِ عجم٭… پس چہ باید کرد٭… مسافراورآپ نےآزادی پاکستان کے خواب کی تعبیر کو پورا ہوتے دیکھ رہے تھے اس لیے قائد اعظمؒ کو واپسی کے کئی دردمندانہ خطوط لکھے چنانچہ آپ کے اصرار پر قائداعظمؒ ہندوستان واپس آئے اور 4 مارچ 1934ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔
1930 میں صدر مسلم لیگ (جناح ) کی عدم موجودگی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس اِلہ آباد کی صدارت علامہ اقبال نے کی، علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطاب میں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا میں اس بات کا خواہش مند ہوں کہ پنجاب شمالی مغربی سر حدی صوبہ سندھ بلوچستان میں مسلمانوں کی آزاد مملکت قائم کی جائے۔ وہ خواب جسے علامہ اقبال نے دیکھا جو پوری ملت کی امنگوں آرزوں کی علامت بن گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد24 دسمبر 1938ء کو پٹنہ میں مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمہ اللہ کی قیادت میں مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی ، مولانا شبیر علی تھانوی ، مولانا عبدالجبار ابوہری ، مولانا عبدالغنی پھول پوری اورمولانا معظم حسین امروہی رحمہم اللہ پر مشتمل پہلے وفدنے قائد اعظمؒ سے ملاقات کی اور آزادی وطن کی خاطر ہر ممکن تعاون کی مکمل یقین دہانی کرائی۔ آج ضرورت ہے کہ اقبالؒ کی فکر ، سوچ ، مذہبی حمیت ، فلسفہ آزادی کو اپنانے اور وطن عزیز کوافکار اقبال کی روشنی میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی۔ اقبال ؒاپنی نوجوان نسل کو جن اوصاف کا حامل دیکھنا چاہتے تھے وہی اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کوشش کی جائے۔ اور اقبال کے جس خواب کو قائداعظم نے شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے پاکستان حاصل کیا اس کی بقا اور ترقی ہماری ذمہ داری ہے۔ جس کے لئے ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرنا ہوگی تاکہ وطن عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
موت ایک فطری اور حقیقی عمل ہے،یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں ۔ جب بھی موت کے متعلق کسی سے دریافت کیاجاتا ہے تو تقریباً اس کا ایک ہی جواب ملتا ہے۔ موت سے کس کی رستگاری ہے آج وہ، کل ہماری باری ہے
آپ رحمہ اللہ ایک مدّت تک طرح طرح کے امراض و عوارض کے شکار رہے ہیں لیکن اس حال میں بھی شعر گوئی ، تصانیف اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مزید برآں ان دنوں کے مشاغل میں قومیت کے نظریے کی تردید ان کی تحریروں کا نہایت ہی نمایاں حصّہ رہا۔ آخرکار ان کی صحت نے جواب دے دیا اور وہ صاحبِ فراش ہو گئے۔بیماری کی حالت میں رات کافی دیر تک جاگتے اور روتے رہتے کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا خداجانت مسلمان قوم کا کیا حشر ہوگا۔
20 اپریل 1938 کی شب آپ کے پاس میاں محمد شفیع ڈاکٹر عبدالقیوم اور راجہ حسن اخترکے علاوہ عقیدت مندوں کی خاصی تعدادموجود تھی،اچانک شانوں میں درد ہونے لگاتو آپ نے اپنے بوڑھے وفادار خادم علی بخش کو شانے دبانے کے لئے کہا پھر اچانل لیٹے لیٹے پاوں پھیلا دئیے،اوپر کی طرف آنکھیں اٹھائیں،بایاں ہاتھ دل پررکھا اور دائیں ہاتھ سے سرکو تھامتے ہوئے کہااللہ!قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کرلیں اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف ڈھلک گیا۔21 اپریل 1938ء صبح پانچ بج کر چودہ منٹ پر آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔آپ کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔لوگ ہجوم درہجوم جاوید منزل کی طرف رخ کرنے لگے ،ہزاروں لوگوں نے آخری دیدار کیا۔شام پانچ بجے جاوید منزل سے آپ کا جنازہ اٹھاجنازے کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کندھا دے سکیںوزرائے حکومت ،عدالتوں کے جج وکلاء کالجز کے پروفیسرز اساتذہ طلباءشعراء ادباء مشائخ علماء تجار غرضیکہ عام فرزندان اسلام جنازہ کے ساتھ جارہے تھے اسلامیہ کالج کے وسیع گراونڈ میںتاحد نگاہ مسلمانان اسلام موجود تھے،مولانا غلام مرشد نے نماز عشاء سے قبل 8 بجےآپ کی نماز جنازہ پڑھائی پونے 9 بجے شب شاہی مسجد لاہور کے دروازے کے قریب آپ کو سپر دخاک کردیا گیا،اس طرھ سیالکوٹ سے طلوع ہونے والاعلم وادب فکر وتصوف اور شعروادب کا روشن ستارہ لاہور کی مٹی کو عزیز ہو گیا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
