ایمان کی پرورش

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
(اے لوگو جو ایمان والے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول( محمدﷺ) پر اور اُس کتاب پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (محمدﷺ) پر نازل کی ہے اور اُن کتابوں پر بھی جو اس (قرآن) سے پہلے بھی نازل کی گئیں تھیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اُس کے ملائکہ و کتابیں و رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرتا ہے تو گویا وہ گمراہی کی انتہا کو پہنچ گیا۔)(سورۃ النساء) ایمان کی دولت دین و دنیا کا سب سے بہترین متاع اور سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ایمان ہی درحقیقت بندگی کی بنیاد،فلاح و کامیابی کا سرچشمہ اور آخرت میں کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے۔امت مسلمہ اس وقت جن عظیم سرچشموں سے محروم ہے، ان میں سب سے اہم سرچشمہ ایمان ہے۔ اور اس محرومی کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایمان کو زندگی میں وہ مقام نہیں دیتے جو اسے ملنا چاہیے، حالانکہ اللہ پر اس کی وحدانیت پر ایمان لانا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا، اللہ کی بھیجی ہوئی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان لانا، اللہ کے تمام فرشتوں پر ایمان لانا، تقدیر پر ایمان لانا، بھلا ہو یا برا سب اللہ ہی کی طرف سے ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا، اور نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا،رمضان کے روزے رکھنا، حج کرنا۔ یہ سب موٹی موٹی بنیادی چیزیں ہیں جو فرض کا درجہ رکھتی ہیں۔ پھر ان کے مسائل سے واقفیت رکھنا جو واجب کا درجہ رکھتے ہیں۔ پھر ان کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا یہ مستحب کا درجہ ہے۔ جتنا بھی آپ زیادہ علم حاصل کریں گے اتنا ہی زیادہ آپ بڑے سے بڑے قوم کے پیشوا و مقتدا بنیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین و وارث بنیں گے اور ان کے مشن کو چلانے والے بنیں گے۔
ایمان کا اصل مقام دل ہے، اور عقل اس کی طاقت ہے۔ انسانی وجود میں دل کی حیثیت بادشاہ کی ہوتی ہے، اور اس کی فرماں روائی پورے انسانی وجود پر ہوتی ہے۔ ایمان کا حقیقی رتبہ یہ ہے کہ اسے دل پر فرماں روائی حاصل رہے۔ جب تک ایمان دل کے عرش پر متمکن نہیں ہوتا وہ بس زبان سے ادا ہونے والاایک کلمہ ہوتا ہے، اس کا آخرت میں کیا فائدہ ہوگا یہ تو اللہ کی رحمت ومشیت پر منحصر ہے، لیکن دنیا میں اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔ قرآن بار بار یاد دلاتا ہے کہ ایمان کو زبان پر سجائے رکھنے کے بجائے دل کے اندر تک لے جانا چاہیے۔اورایمان کا اصل مقام یہ ہے کہ زندگی کا ایک ایک گوشہ اور پہلو اس سے روشن ہوجائے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں سے الگ تھلگ ایک عقیدہ نہ رہے، بلکہ وہ روح بن کر زندگی کی رگ وپے میں اترجائے۔ وہ آخرت میں نجات اور کامیابی کا سبب ضرور بنے، لیکن اس کے لیے وہ دنیا ہی میں انسان کو ایسی پاکیزہ اور حسین سیرت عطا کردے کہ جنت میں جانا اسے زیبا ہوجائے۔ ایمان کا اصل رول گناہ گار کو جنت میں لے جانا نہیں ہے، بلکہ گناہ گار کو نیک اور صالح انسان بنانا ہے۔ ایمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کے لیے آخرت میں نجات پانے کی محض ایک امید نہیں رہے، بلکہ اس دنیا میں امت مسلمہ کی عظمت اور کردار کی بحالی کا ضامن بن جائے۔اپنی اصلاح ہو یا دوسروں کی، فکر ونظر کی درستگی ہو یا عمل اور معاملات کی، سماج کے رواجوں کو ٹھیک کرنا ہو یا ملکوں کے نظاموں کو۔ دلوں سے خرابی دور کرنا ہو یا زمین سے، شخصیت کو سنوارنا ہو یا دنیا کو، ایمان کے فیض سے یہ سب کچھ ہوسکتا ہے، اور ایمان کی کارفرمائی اور فرماں روائی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب میں سے ایک یا دو کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کرتے تھے: آ جاؤ ہم ایمان بڑھائیں، پس اللہ عز و جل کا ذکر کریں۔ایمان کامضبوط ہونا ہی نفاق کو دور کرتا ہے، لہذا جتنا ایمان مضبوط ہوگا اتنا ہی نفاق سے دوری ہوگی۔ نیز احادیث میں چند اعمال کا بھی ذکر ہے جن سے آدمی نفاق سے بچتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: جس نے چالیس دن تک تکبیر اولی کے ساتھ خالص اللہ کی رضا کے لیے باجماعت نماز پڑھی، اس کی دو چیزوں سے نجات لکھ دی جاتی ہے: جہنم سے نجات اور نفاق سے نجات۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر فجر اور عشاء کی نماز سے بھاری کوئی نماز نہیں ہے، اور اگر وہ اُس اَجر کو جان لیں جو اِن دو نمازوں میں ہے تو ان کے لیے ضرور آئیں اگرچہ سرین یا پیٹ کے بل گھسٹ کر (آنا پڑے)۔
نیز نفاق کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں ان سے بھی بچنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس شخص میں چار باتیں ہوں گی، وہ منافق ہوگا یا جس شخص میں ان چاروں میں سے کوئی خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی خصلت ہو گی، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے، جب وہ گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے، اور جب جھگڑا کرے تو بد زبانی کرے۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2297 حدیث مرفوع)
اس لئے ضروری ہے کہ دل کی زمین میں ایمان کا پودا اگایا جائے، اور اس کے بعد اس کی بہترین نشوونما بھی ہو۔ ورنہ وہ اپنے کردار سے بہت دور، زبان کا ایک کلمہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کی حالت ایک مرجھائے ہوئے کم زور پودے کی ہوجاتی ہے۔ امت کی اصلاح کا سب سے پہلا اور سب سے ضروری قدم اس کے اندر ایمان کی بہتر پرورش کو یقینی بنانا ہے۔ اور اس کے لیے رجوع الی القرآن کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ قرآن سے اپنے دل ودماغ کو پوری طرح جوڑ دینا ایک مومن کی سب سے بڑی ضرورت ہے، کیوں کہ اس کے ایمان کی پرورش اسی طرح ہوسکتی ہے۔
ایمان کی پرورش بہتر طریقے سے قرآن کے گہوارے میں ہوتی ہے، اور اس سے دور ہوکر اور کہیں نہیں ہوپاتی۔اسی لیے ایمان لانے کے بعد سب سے زیادہ ضروری کام قرآن سے گہرا اور کبھی کم زور نہیں ہونے والاتعلق قائم کرنا ہے، یہ تعلق ایمان کی پرورش کے لیے ضروری ہے۔ اگر پورا قرآن ایک بار صرف ایمان کے موضوع کو سامنے رکھ کر پڑھ لیا جائے، تو ایمان کی پرورش میں قرآن کا رول واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ اس مقصد کے ساتھ قرآن کا مطالعہ ہر مومن کو ضرور کرنا چاہیے۔کیونکہ جیسے جیسے قرآن پر غور وفکر بڑھتا ہے، عقل کے اطمینان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دلائل کی قوت اور کثرت بندہ مومن کو یہ فرحت بخش احساس عطا کرتی ہے کہ وہ ایمان کے پہلو سے بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔قرآن ایسا ایمان عطا کرتا ہے جس سے پوری زندگی شکوک وشبہات سے بہت دور مگر دلائل سے معمور ہوکر اطمینان کے ساتھ گزرتی ہے۔ یہ ایمان دلائل سے آراستہ ہوتا ہے، اور شکوک وشبہات کو دفع کرنے اور ان کا جواب دینے پر قدرت رکھتا ہے۔
اور ایمان اللہ تعالی کی اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہےبہر حا ل حقیقت یہ ہے کہ ’’ایمان‘‘ بندۂ مومن کے لیے ایک ایسی دولت ہے،جواس کی حفاظت کرگیا۔وہ بالآخر دارین میں فتح ونصرت سے مالا مال ہوگا۔ایسا یقین اور ایسا ایمان کامل کہ ہرسانس میںاللہ ہی اللہ۔رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بندے کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا،جب تک وہ اللہ ہی کے نام پر دوستی اور اللہ ہی کے نام پر دشمنی کرنے کا عادی نہ ہوجائے،پھر جب وہ عادی بن جاتا ہے تو وہ اس کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی ’’ولایت‘‘سے نواز دے‘‘۔(مسند احمد)بہت خوش نصیب ہے وہ انسان جس کی زندگی ایمان کی جلوہ گاہ بن جائے۔