از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
دارالحکومت اسلام آباد سے قریب 170 کلو میٹر مغرب کی طرف شہر پشاور کے اس مدرسے میں عین اس وقت ایک بم دھماکا ہوا جب قریب بیسیوں بچے وہاں قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، ذرائع کے مطابق 13افرادشہیداور 90سے زائدزخمی ہو گئے ہیں۔ہسپتال کے ترجمان کے مطابق جو لاشیں اور زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں ان میں بیشتر کے جسم جلے ہوئے ہیں اور جسم میں چھرے بھی موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کو ایل آر ایچ برن یونٹ اور ای این ٹی کے شعبے میں منتقل کیا گیا ہے دھماکہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا جب بچے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کے خبر کےمطابق ابتدائی تحقیقات سے لگتا ہے کہ پانچ سے چھ کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا جسے ایک بیگ میں رکھا گیا تھا۔یہ مسجد رنگ روڈ پر دیر کالونی میں واقع ہے اور مسجد سے چند قدم کے فاصلے پر ایک گلی میں دارالعلوم زبیریہ کے نام سے جانا جاتا ہےیہ شہدادارالعلوم زبیریہ کے طالب علم تھے ،ان طلباء کے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے دوران بم دھماکے سے چھیتڑے اڑایئے گئے،وہ مسجد جو سجدہ گاہ ہے و حیوانوں سے بدتر انسانوں نے دھماکہ کیا،ان بچوںکے والدین صدمے سے نڈھال ہیں، اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار ہے اور ہر سوچ رونے پر مجبور ہے، ان درندوں،حیوانوں کے دل نہ تھے جو پسیج جاتے ؟ان پھول جیسے بچوں کو خون میں رنگ د یا گیاآخر ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا ، یہ سفاکی کی انتہا ہے ہر باشعور ذہن اس سوچ میں مبتلا ہے کہ انسان اس حد تک بھی درندہ ہو سکتا ہے؟کسی بھی باغ کی رونق وہاں کے مہکتے پھولوں کے دم سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ باغ کی رونق کو برقرار رکھنے کے لئے ہی مالی ان مہکتے پھولوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی پتھر دل انسان ان پھولوں کو توڑ کر مسل دے تو باغ کی رونق کے ساتھ ساتھ پھولوں کی مہک بھی دم توڑ جاتی ہے اور گلستان تباہ حال قبرستان کا سا منظر پیش کرتا ہے والدین اہل اقتدار سے یہ سوال کرتےہیں کہ آخر ان معصوم بچوں سے کیا غلطی سرزد ہوئی تھی جو ان کے نازک جسموں میں بے دردی اور بے رحمی سے بارود اتار دیا گیا۔ ان ننھے فرشتوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ اڑنے سے پہلے ہی ان کے پر کاٹ دیے گئے؟ یہ ایسا دکھ کہ شاید اس کا مداوا ناممکن ہے۔ میں تو کیا کوئی بھی احساس رکھنے والا انسان اس سانحے کو نہیں بھلا سکے گا۔دارالعلوم زبیریہ کے شہید بچے بھی اس گلستان کے وہ غنچے تھے کہ جو ابھی کھلے بھی نہیں تھے۔ ابھی تو ان غنچوں کی مہک محسوس کرنے کے لئے ان کی نشوونما ہو رہی تھی۔ لیکن سفاک درندوں نے ان کو مسل کر گلستان کی مہک کو تہہ خاک ملا دیا۔درندہ صفت لوگوں نے مدرسہ میںبم دھماکہ کرکے علم کی شمع بجھانا چاہی انشاء اللہ، اللہ کے مہمانوں کے خون کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔
سچ تویہ ہے کہ دینی مدرسے کے معصوم طالب علموں کی شہادت پر ریاست اور میڈیا میں وہ ہلچل پیدا نہیں ہوئی کہ جو اے پی ایس کے بچوں کی شہادت کے وقت پیدا ہوئی تھی، منگل کے دن جب پشاور میں 13شہیدوں کے اکٹھے جنازے ہو رہے تھے… جنازوں کی اس بارات میں نہ وزیراعلیٰ کے پی کے شامل ہوئےنہ وزیراعظم یا ان کا چیلا چپاٹا ،اورکیا آرمی چیف ؟ ڈی جی آئی ایس پی آر کی خصوصی پریس بریفنگ ہوئی؟وزیراعظم یا صدر تو درکنار پختونخوا کے وزیر اعلیٰ یا کسی وزیر نے جائے وقوعہ یا اسپتال کا دورہ کیا ہے؟وزیراعلیٰ نے سی ایم ہاوس میں بیٹھ کر مدرسے کے شہید طلبہ کا خوں تولااور حساب لگایا کہ شہید کا خون 5 لاکھ اور زخمی کا 2 لاکھ کے برابر ہے !کسی چینلز پر خصوصی شو ہوا؟۔یہ اتنی بے رخی کیوں ہے؟کیونکہ یہ مدارس کے طلبہ تھے۔یہ اللہ کے مہمان تھے،اور مہمانان رسول ﷺ تھے ،حالانکہ اسی شہر میںجب اسکول پہ حملہ ہوا ہم آپ کے ساتھ روئے آج مدرسے پہ حملہ ہوا تو ہم اکیلے رو رہے ہیں۔ایسا کیوں؟ اب ذراہمارے محافظوں کے سربراہ آئی جی کے پی کے کی بھی سنیئے وہ فرماتے ہیں کہ اس طرح کے چھوٹے موٹے واقعات ہو جاتے ہیں،ہونے تو نہیں چاہئیںاور ہم ہزاروں مدرسوں اور مسجدوں کو سیکورٹی نہیں دے سکتے جس صوبے کے آئی جی کی سوچ اور اس کا مائینڈ سیٹ یہ ہو اس صوبے کے عوام کا پھر اللہ ہی حافظ ہے مطلب یہ کہ ایک دینی مدرسے میں ہونے والے بم دھماکے میں معصوم بچوں سمیت 13افراد شہید اور درجنوں بچے زخمی ہوگئے، قرآن مقدس اور احادیث رسول کی کتب طالب علموں کے خون سے سرخ ہوگئیں… مسجد کا صحن زخمیوں سے بھر گیا… مگر آئی جی کے پی کے کے لئے یہ چھوٹا موٹا واقعہ ہے انسان اپنے منصب سے گر بھی سکتا ہے. لیکن کوئی اتنا بھی گر جائے گا یہ تو کبھی بھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا چھوٹے ذہن کے لوگ جب بڑے مناصب پر فائز ہوں گےتو پھر مسجدوں اور مدرسوں میں بم دھماکے ہی ہوں گے،سوال یہ ہے کہ جن ہزاروں مدارس اور مساجد کی بات آئی جی نے کی ہے، وہ مدارس اور مساجد کے پی کے کی حدود کے اندر ہی ہیںیا پھر کسی اوردنیاپر واقع ہیں؟ اگر تو کے پی کے کی حدود میں ہیں تو پھر ان کو سیکورٹی دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ جو حکومت دینی مدارس اور مساجد کو سیکورٹی نہیں دے سکتی اسے کیا حق ہے کہ وہ اقتدار سے چمٹی رہے؟ میری پشاور کے صحافی دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اس آئی جی کی اپنی سیکورٹی کے حوالے سے بھی قوم کو بتائیں کہ خود اس کے ساتھ کتنے باوردی پولیس والے سیکورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں،کیا قوم کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے یہ ادارے صرف وزیروں مشیروں گورنروں اور بیورو کریٹس کی سیکورٹی اور چاکری کے لئے قائم ہیں؟ اس صورتحال میں تو پھر مولانا فضل الرحمن کی یہ بات ہی آئیڈیل سمجھی… جائے گی کہ دینی مدارس اور مساجد کی سیکورٹی… علماء طلباء اور دینی کارکنوں کو خود کرنا پڑے گی… جو آئی جی 13شہادتوں کے بعد بھی اس خونی واردات کو چھوٹی قرار دے رہا ہےکیا وہ اس قابل نہیں ہے کہ اسے ہتھکڑی لگا کر جیل میں بند کر دیاجائے؟سیدھی سی بات ہے کہ دہشت گردی سکول میں ہویا مدرسہ میں ساری قوم کو مل کر اسے مسترد کرنا چاہیے. لیکن پشاور کے دینی مدرسے میں معصوم طالب علموں کی شہادتوں کے بعد میڈیا اور حکمرانوں کا رویہ بہرحال سوتیلا رہاجس کی وجہ سے عوام میں غلط پیغام گیااللہ تعالیٰ ایسے سنگ دل انسانوں سے نجات دلائےاور ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
بہر کیف!موجودہ دور اہل ایمان کے لیے آزمائشوں، ابتلا اور امتحانات کا دور ہے۔ ہر طلوع ہونے والی صبح اپنے ساتھ نئے نئے فتنے لے کر آتی ہے اور ہر رات اپنے پیچھے لاتعداد فتنوں کے اثرات و نقوش چھوڑ جاتی ہے۔یہ پر آشوب ماحول اور پر فتن ساعتیں صاحبان ایمان کے لیے کچھ نامانوس اور اوپری ہر گز نہیں، کیوں کہ آج سے چودہ سو برس پیش تر ہی ہمارے پیارے نبی، جناب نبی کریم، سرکار دو عالم ﷺنے امت کو ان باتوں کی خبر دے دی تھی ۔ حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قرب قیامت کی چھوٹی چھوٹی علامات پوری ہوچکی ہیں۔ اب صرف بڑی نشانیاں باقی ہیں۔احادیث مبارکہ میں جناب نبی کریم، سرکار دو عالمﷺنے ”آخری زمانے“ کی جو متعدد نشانیاں بتائی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قتل و قتال بہت عام ہوجائے گا۔ آج ہم کھلی آنکھوں اس امر کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ معاشرے سے امن و امان عنقا ہے۔ کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں۔ہر شخص غیر محفوظ ہے۔امیر ہو یا غریب،خواص ہوں یا عوام، حد یہ کہ عالم ہو یا عامی، کسی کو جان کی امان حاصل نہیں ہے۔ ہر طرف عدم تحفظ کی فضا عام ہے۔ ہر کوئی اس خوف کاشکار ہے کہ کوئی اندھی گولی اس کی زندگی کا چراغ گل نہ کردے۔ انسانی جان پانی سے زیادہ سستی ہوچکی ہے۔ ذاتی و نفسانی مفادات کے لیے دوسرے انسان کی جان لے لینا سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ حالاں کہ قرآن و حدیث کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک انسان کی جان بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور جو اس معاملے میں اللہ کی بتائی گئی حد کو پامال کرتا ہے، اس کے لیے عنداللہ ذلت و رسوائی کا طوق تیار ہے۔
اورنہ قتل کرو اس جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘. یہ الفاظ بڑے قابل غور ہیں. انسانی جان بہت محترم ہے. انسان کی جان کا ناحق لے لینا‘ خونِ ناحق بہانا‘ یہ بہت بڑا جرم ہے۔اگر کسی معاشرے میں ایک دوسرے کی جان کا احترام ہی نہ رہے تو ظاہر بات ہے کہ گویا تمدن کی جڑوں پر کلہاڑا رکھ دیا گیا ہے. مذہب و اخلاق کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، کسی انسان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے، جو حقوق اللہ ہے، وہاں اس میں ایک انسان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ ”حقوق العباد“ سے تعلق رکھتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی، نیز جب اس ذہنیت کا چلن عام ہو جائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہو جاتے ہیں، لہذا قتلِ ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو، تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے۔ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله تعالیٰ نے قاتل کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے، لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے، حتٰی کہ کسی بھی درجہ میں قتل کی معاونت سے بچنا بھی لازم ہے، کیونکہ بسا اوقات ایک شخص کے قتل سے نہ صرف اس کی بیوی بچوں کی زندگی، بلکہ خاندان کے مختلف افراد کی زندگی بعد میں دوبھر ہو جاتی ہے اور اس طرح خوش حال خاندان کے افراد بیوہ، یتیم اور محتاج بن کر تکلیفوں اور پریشانیوں میں زندگی گزارنے والے بن جاتے ہیں، جس کا سبب اور گناہ گار یہ قاتل ہوتا ہے۔الغرض!اس المناک سانحہ سے ہر صاحبِ درد شخص کا دل تڑپ اٹھا ہے اور کرب و اضطراب نے اہل حق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔شہداء و زخمیوں کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی و تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت شہداء کو جنت الفردوس میں جگہ دیں، زخمیوں کو صحت کاملہ و عاجلہ عطاء فرمائیں،غمزدہ خاندانوں کوصبراور نعم البدل عطا فرما ئیں، ملک و قوم کے امن کو تباہ کرنے کے درپے عناصر کو ہدایت سے نوازیںاگر ہدایت نصیبے میں نہیں ہے تو ان کو اور ان کی نسلوں تباہ وبرباد فرمادیںاللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین
