نوجوانوں میںدھاگہ،کڑااور زنجیر پہننے کا بڑھتا ہوا رواج

نوجوانوں میں دھاگہ،کڑااور زنجیر پہننے کا بڑھتا ہوا رواج
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
ہمارے معاشرے میں آج کل ایک رواج نوجوانوں کے ہاتھوں کی کلائی میں دھاگے باندھنے کا بڑھتا جارہا ہے ، کبھی یہ دھاگہ کالا ہوتا ہے ، کبھی لال اور بعض دفعہ سونا چاندی یا لوہے کی زنجیر بھی پہنی جاتی ہےاور بہت سے لوگ نظر لگنے،بیمار پڑنے اور کمزوری سے بچنے کے لیے کڑا،چھلا کالا دھاگہ وغیرہ خود بھی پہنتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پہناتے ہیں جس کا شمار شرک میں ہوتا ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:کہہ دیجیے کہ بتادو جن چیزوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو کیا وہ اس ضرر کو دور کر سکتے ہیں یا اللہ مجھ پر رحم فرمائے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں تو کہہ دے مجھے تو اللہ ہی بس ہے اسی پر سب توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں۔(الزمر:38)رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہٖ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا کڑا دیکھا، تو فرمایا: تجھ پر افسوس ہے، تو نے کیا کردیا؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ میں نے بیماری کی وجہ سے پہنا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے تیری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا، اس کڑے کو تو اتار دے، کیونکہ اگر تو اس حالت میں مر گیا، تو تو کبھی بھی فلاح پانے والوں میں نہیں ہوگا۔ (مسند احمد: ج، 4، صفحہ، 445) (ابن ماجہ: حدیث نمبر،3531)
آج کل کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بکثرت کوئی نہ کوئی دھاگہ ،کڑا یا اس قسم کا کچھ ضرور ہوتا ہے۔بعض لوگوں نے یہ خاص منت یا بیماری وغیرہ کےسبب سے پہنا ہوتا ہے جوکہ صریح شرک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں کڑا پہنا ہوا دیکھا تو فوراً اسے اتروایا اور کہا کہ اس سے تو مزید بیماری میں اضافہ ہوگا اور اگر اسی حال میں تیری موت واقع ہوگئی تو کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔بعض نے یہ بطور تزین کے پہنا ہوتا ہےجوکہ عورتوں کے تزین کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہےاس میں عورتوں کی مشابہت بھی ہے ؛ کیوں کہ یہ عورتوں کے لیے مقام زینت ہے نہ کہ مردوں کے لیے، اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ، (صحیح البخاری )بعض نے یہ غیروں کی نقالی کرتے ہوئے اسے پہنا ہوتا ہے،یہ اس لئے ناجائز ہے کہ اس میں غیر مسلموں کی تشبیہ ہے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نےکسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔ہاتھ میں دھاگہ یازنجیر باندھنا اگر کسی نفع کی امید یا نقصان سے بچاؤ کی نیت وعقیدہ سے ہو تو اس عقیدہ کے ساتھ ہاتھوں میں دھاگہ یا زنجیر کا باندھنا بلکہ سونے اور لوہے کے کسی بھی زیور کا استعمال مرد کے لیے جائز نہیں ، چاندی کی بھی صرف انگوٹھی استعمال کی جاسکتی ہے ، زنجیر نہیں پہنی جاسکتی ہے۔کیونکہ دھاگہ، کڑا پہننا بعض غیر مسلموں کا مذہبی شعار ہے، اور غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (سنن أبی داؤد )ہمارےنوجوانوں کو چاہیے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے زیب و زینت اختیار کریں اور ہر رواج کو قبول کرنے کا مزاج نہ بنالیں مسلمان کا مقام یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے رنگ میں رنگ جائیں ؛ بلکہ ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ دنیا اس کو اپنے لیے نمونہ بنائے ۔ اس لیے کہ نفع ونقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ، اللہ ہی بھلائیاں عطا کرتے ہیں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں ،بلکہ بعض فقہاء نے تو ان افعالِ کفر میں شمار کیا ہے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے ، ان دھاگوں کو رتیمہ کہا جاتا ہے ،(رد المحتار ، ج:6، ص: 363)
بہر صورت بہتر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود قرآنی دعائیں اور حفاظت کے مسنون اذکار پڑھ سکتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ خود معوذات پڑھے اس میں ایمان وعقیدہ متاثر ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور اس سے تعلق مزید مضبوط ہوجاتاہے۔ اور اگر کوئی خود نہ پڑھ سکتاہو تو دھاگے پر پڑھوا کر اس پر گرہیں لگواکر گلے یا بازو میں پہننے کی بجائے کاغذ وغیرہ پر آیات یا مسنون اذکار وغیرہ پر مشتمل ادعیہ لکھ کر تعویذ پہن لیا جائے؛ کیوں کہ کلائی یا گلے میں دھاگا باندھنے میں ایک گونہ بدعقیدہ وبے راہ لوگوں سے مشابہت ہے اور صحیح العقیدہ لوگوں کے اشتباہ کا ذریعہ بھی ہے۔جو کالادھاگہ باندھتے ہیں یہ منت کے طور پر یا مصیبت وپریشانی کے دفعیہ کے لیے غلط عقیدہ کے ساتھ باندھتے ہیں، یہ مذہب اسلام میں ہرگز جائز نہیں، حرام ہے،؛ بلکہ بعض علما نے اسے کفر قرار دیا ہے، بعض ان پڑھ مسلمان بھی غیروں کی دیکھا دیکھی یا لاعلمی میں یہ دھاگہ باندھ لیتے ہیں جو ہرگز جائز نہیں، مسلمانوں کے لیے اس سے بچنا واجب وضروری ہے ورنہ نماز اور دیگر عبادات غارت ہوجانے کا اندیشہ ہے، اللہ تعالی اس طرح کی چیزوں سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں،اور صرف اسی پر اکتفاء کیا جائے۔جو شریعت میں ثابت ہے ۔ یعنی قرآن کریم اسماء حُسنیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اذکار اور دعایئں اور ایسے کلمات جن کے معنی واضح ہوں ۔ جن میں شرک کا شائبہ نہ ہو ۔ اور ایسے طریقے سے قرب الٰہی کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے ۔ جو اس نے خود مقرر فرمایا ہے ۔ تاکہ ثواب حاصل ہوسکے ۔ اللہ تعالیٰ ٰ تمام پریشانیوں کو دور فرمادے ۔ غم و فکر سے نجات دےدے ۔علم نافع سے سرفراز فرمائے ۔ ایک مسلمان کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ طریقے ہی کافی ہیں ۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ ٰ کے احکام اور ارشادات کوکافی سمجھے تو وہ اسے غیر اللہ سے بے نیاز کردیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ٰ ہی توفیق عطا فرمانے والاہے ۔