آیا صوفیا میوزیم سے مسجدتک

از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
ترکی کی سب سے اعلیٰ انتظامی عدالت، کونسل آف سٹیٹ نے جمعے کو اپنے فیصلے میں لکھا ‘ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصفیے کی دستاویز میں اسے مسجد کے لیے مختص کیا گیا تھا۔لہذا قانونی طور پر اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے1934 کا کابینہ کا فیصلہ جس میں اس عمارت کے مسجد کے کردار کو ختم کر کے میوزیم میں تبدیل کیا گیا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔عدالت کونسل آف اسٹیٹ کی جانب سے آیا صوفیا کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے حق میں فیصلہ آتے ہی عزت مآت ترک صدر جناب رجب طیب اردگان نے میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے صدارتی فرمان پر دستخط کردیئےاور اس عمارت کو واپس مسجد بنانے کا اعلان کیا،اور وہاں الحمدللہ نماز بھی ادا ہوئی ،یہ ایک عظیم خوشی کی خبر ہےجس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم مسلمانوں کو اس پر شکر اداکرنے اور اس کی قدر کی توفیق عنایت فرمادیں۔ یہ عمارت جو ڈیڑھ ہزار سال پہلے ایک کلیسا کے طور پر تعمیر کی گئی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں اس عمارت کو کلیسا سے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔جسےفاتح سلطان محمد نے آیا صوفیہ کو اپنی ذاتی ملکیت میں لیتے ہوئے اسے عبادت کے لیے وقف کیا تھا، آج اس نے اپنے اصل فرض کو واپسی اختیار کر لی۔اورجدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک نے 1934 میں آیا صوفیہ کو میوزیم بنانے کی منظوری دی تھی اور اس وقت سے اسے سیکولرازم کی ایک نشانی کے طور پر دیکھا جاتا رہاہے ۔
آیا صوفیہ دنیا کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک اور سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کی حامل تاریخی عمارت ہے۔ ترکی میں سیاح سب سے زیادہ اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں۔آیا صوفیہ کو 1500 سال پہلے بازنطینی عہد میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 900 سال بعد سلطنت عثمانیہ کی فوج نے استنبول پر قبضہ کیا اور اسے مسجد میں بدل دیا گیا۔ 80 سال قبل خلافت عثمانیہ ختم ہوئی تو اسے عجائب گھر بنادیا گیا تھا۔یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔ مشہور عثمانی ماہرِ تعمیر سنان نے اس عمارت کے گنبد کے ساتھ چار مینار تعمیر کیے اور مسجد کے اندر تصاویر ہٹا کر ان کی جگہ اسلامی خطاطی کی تھی۔موجودہ ترک صدر شروع ہی سے اسے مسجد بنانے کے لیے پرعزم تھے۔ سال 1994 میں جب وہ استنبول کے ناظم کا انتخاب لڑ رہے تھے تو انہوں نے اس عمارت کو نماز کے لیے کھولنے کا وعدہ کیا تھا جبکہ 2018 میں وہ یہاں قرآن کی تلاوت بھی کرچکے ہیں۔
آیا صوفیہ کا دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونا ،مسجد اقصی کے دوبارہ فتح ہونے کا پہلا قدم ہے”اردگان کی یہ بات مسلمانوں کی روح کو تسکین دے گئی ۔ جب کمال اتاترک جیسے ملحد نے جہاں ترکی سے خلافت ختم کی وہیں اللہ کے گھر آیا صوفیہ کو مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا ۔یاد رہے اس ملحد نے ترکی سے اسلام کامکمل خاتمہ کردیا تھا ۔سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے ترکی میں ہر اسلامی شعار، نماز ،قرآن اور اذان ہر چیز پہ پابندی ہی نہیں لگائی بلکہ ترکی زبان میں شامل عربی الفاط بھی ختم کردیئے تھے،پردے پہ پابندی لگا دی اور اپنے مغربی آقاوں کی خوب غلامی کرتے ہوئے اسلام سے غداری کی ۔لوگ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے اور وہاں پولیس گھر گھر جاکر تلاشی لیتے تھی کسی کے گھر سے جائے نماز یا قرآن نکل آتا تو اسے پکڑ کر لے جاتے تھے ۔لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے دل میں بس جائے پھر نکالنا آسان نہیں ہوتا ۔کیونکہ یہ سچا آفاقی مذہب ہے جو عین فطرت کے مطابق ہے ۔ترکی میں بھی لوگ چھپ چھپ کر نماز قرآن پڑھتے رہے اور اپنی اولاد کو بھی اسلام سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے اسلاف ست روشناس کرواتے رہے ۔ان کے دل سے کوئی اسلام نہ نکال سکا ۔کچھ لوگ تو محض ڈر کی وجہ سے بظاہر ایسا روپ دھارے ہوئے تھے ۔انھیں اسلام پسند لوگوں میں ایک احمد اردگان بھی تھےجنہوں نے اپنے بیٹے کو نہ صرف اسلام سے روشناس کروایا ۔بہر کیف طیب اردگان نے ترکی کی باگ ڈور سنبھالتے ہی مذہب پہ پابندی کا قانون معطل کردیا اور حجاب پہ لگی پابندی کا خاتمہ کر دیا ۔اس کی اپنی بیوی بھی حجاب لیتی ہے ۔اس سے اسلام پسند حلقے میں جہاں ترکی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہاں پوری دنیا کے مسلمانوں نے مسرت کا اظہار کیا ۔
خلاصہ کلام ترکی کی عدالت کے اس تاریخی فیصلے پروہاں سالوں بعد گونجتی اذان سےمسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑا گئی تو امید کی کرن بھی نظر آئی کہ کہیں مسلمان بھی ہیں جو کچھ کر سکتے ہیں ۔اور اللہ کا حکم پورا کرتے ہوئے دنیا کے ہر حکم کو ٹھوکر پہ رکھ سکتے ہیں۔دوسری طرف ہمارا پیاراملک پاکستان ہے جس کے وزیر اعظم صاحب کے اقدامات انتہائی افسوس ناک ہیں ۔گستاخان رسول کی رہائیاں ،علما کی گرفتاریاں اور بہت کچھ دوسرا ہونے کے ساتھ اب پاکستان کی عدالت کا اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ اور وزیر اعظم صاحب کی منظوری نے پاکستانی عوام کے دل توڑ دیئے ہیں ۔ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک لا الہ الا اللہ کی بنیاد پہ بننے والے ملک میں کس طرح ممکن ہے کفر و شرک کی عمارت کی تعمیر وہ بھی اسلامی ملک کی حکومت اپنے خرچے پہ کرے اور عوام کی رائے کو بھی رد کردے ۔اور بطور مسلمان ہم کیسے اپنے رب کے ساتھ بتوں کو شریک بنانے کے لئے خود اپنے خرچے سے عمارت بنا کر دینے پراضی ہو سکتے ہیں۔اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہمیں بھی اردگان جیسااسلام سے اور ملک پاکستان سے محبت رکھنے والا جی دار حکمران عطا فرمائیں ۔آمین یا رب العٰلمین!