واجب قربانی یا صدقہ وخیرات

از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
کرونا وائرس کے بڑھتے اثر ات اور لاک ڈاؤن کے دوران آنے والی عید قربان کو لیکر مسلمانوں میں تشویش کا ماحول بنا ہوا ہے ایک صاحب نے پوچھاکہ جن لوگوں پر قربانی واجب ہے اگر وہ واجب قربانی ادا کرنے کی بجائے رقم ضرورت مندوں کو دے دیں تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ۔علمائے کرام کے نزدیک قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی واجب ہے اور قربانی کا کوئی بدل نہیں ہے یعنی ایام قربانی میں قربانی کرنا ہی ضروری ہے ،قربانی کی جگہ صدقہ و خیرات کرنا یہ قربانی کا نہ بدل ہے اور نہ ہی اس سے قربانی کا فریضہ ساقط ہوتا ہے۔اوراصولی طور پر قربانی کی رقم صدقہ کرنے سے قربانی کرنا افضل ہےکیونکہ قربانی کرنے سے جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کیا جاتا ہے اور اس سے قربِ الہی تلاش کیا جاتا ہے، ہاں اگر قربانی کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود کسی عذر کی وجہ سے قربا نی کے دنوں میں قربانی نہیں کی جاسکی تو اب اس کی قضا نہیں ہے بلکہ اگر جانور زندہ ہو تو وہی جانور یا پھر جانور کی قیمت صدقہ کر دی جائے ۔اگر صاحب نصاب حضرات واجب قربانی کر لیں اور نفلی قربانی کو اس سال ترک کر کے اس کے پیسے غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیں اس میں بھی علمائے امت کی رائے میں بہتر یہی ہوگا کہ ایام قربانی سے پہلے یا بعد میں وہ رقم صدقہ کی جائے اس لئے کہ ایام قربانی میں سب سے افضل عمل قربانی کرنا ہی ہے ۔
صاحبِ نصاب مسلمان مرد و عورت پر ایام النحر (10 ذوالحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک) میں جانور قربان کرنا واجب ہے۔ قربانی کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ادا نہیں‌ ہوتا، اس دن کا صدقہ یہ ہے کہ جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ دیں۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی۔( ترمذی (۱۵۱۲)۳/۱۲۹، مسند احمد۳۸/۲)اور ایک حدیث مبارکہ میں ہے:سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں۔
بعض اسلام دشمن اور ماڈرن قسم کے دانشورحضرات جن کو مخلوق خدا کی فلاح کا بہت زیادہ’’ درد ‘‘اٹھتا ہے ‘وہ اس نظریاتی مملکت میں برسوں سے زہرپھیلارہے ہیں او رخصوصیت کے ساتھ جدید تعلیم سے روشناس مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ قربانی ’’مولویوں کی ایجاہے ، کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہزاروں لاکھوں روپے کا خون بہاد یا جائے ، اس میں انسانیت کی کیا خدمت ہے ؟ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ’’مکہ ‘‘ میں ہی فرض ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں قربانی نہیں دی۔ کوئی شخص بھی اس بات کامجاز نہیں کہ دین متین میں ایک حرف کی بھی تبدیلی کرسکے ۔ قربانی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور ہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے ۔ جو چودہ سوسال سے ادا کی جارہی ہے۔ خود خاتم النبیین نبی اکرم ﷺ نے اور ان کے بعد ان کے خلفائے راشدین نے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور امت کی مسلّمہ شخصیتوں نے ادا کی اور کروائی ۔ یہ کہنا کتنا بڑادجل ہے کہ ختم المرسلین ﷺنے صرف مکہ میں قربانی کی ۔ حالانکہ احادیث ِ صحیحہ میں اس کا ثبوت موجود ہے کہ مدینہ میں بھی قربانی ہوئی اور لاکھوں مربع میل میں پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت میں بسنے والے مسلمانوں نے اس سنت کو ادا کیا ۔
قرآن حکیم نے قربانی اور قربانی کے جانوروں کی حیثیت دین اسلام کی علامتوں میں سے دوعلامتیں قراردی ہیں ۔ دین کی علامتوں کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے۔ ان شعائر کاا حترام نہ کرنے والے لوگ خلوص سے محروم ہیں ۔ شعائر اﷲ کی باقاعدہ و باضابطہ شرعی حیثیت و عظمت ہے۔ اس عمل کی ایک مذہبی ،شرعی اور قانونی تاریخ ہے اس کی تردید اور توھین ،احکام و مسائل اور قوانین قرآنی سے بے خبری ،لا علمی اور جہالت پر مبنی ہے۔ پھر ایسا آدمی جو قربانی جیسے عمل خیر کو روکتا ہے، اس کے خلاف ذہنوں کو ہموار کرتا ہے اور فضول قسم کی باتیں جویا وہ گوئی اور ہرزہ سرائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ، وہ معاشرے کو باہم ایک دوسرے سے کاٹناچاہتا ہے ۔ قربانی کے عمل سے معاشرہ کے تمام طبقات باہم مربوط ہوجاتے ہیں۔قربانی جدُّالانبیاء اور مجدّد الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ اور سیدنا اسماعیل ذبیح اﷲ علیہم السلام اور سید الاوّلین، قائد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اﷲ کی مقدس یادگار اور ابدی سنت ہے۔اہل اسلام سے التماس ہے کہ وہ اس قسم کی لغویات پر دھیان نہ دیں اور دین متین کی حفاظت کرتے ہوئے اور محبت رسول ا سے سرشار ہوکر اس سنت کو خوب ذوق و شوق سے ادا کریں تاکہ روزِ محشر بارگاہِ رب العزت میں نجات کا سبب اوراﷲ کے محبوب نبی کریم ﷺ کی شفاعت کے مستحق بنیں۔ خدا وند ِقدوس ہم سب کو سختی سے اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین ،ثمّ اٰمین