توبہ کیسے کریں؟
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
انسان کی پریشانیوں کا سبب وہ بداعمالیاں ہیں جن سے اس کی زندگی مرقع ہے۔ ان میں سے کچھ بداعمالیاں توشایداسے یاد بھی ہوں۔لیکن ان گنت ایسی بھی بداعمالیاں ہونگی جن کااسے احساس تک نہ ہوگا ۔اورجب ان اعمال بد کے نتیجے میں اسے پریشانی و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ انتہائی بے بسی اورحسرت سے سوچتا ہے کہ کاش وہ ماضی میں ان بداعمالیوں کا ارتکاب نہ کرتا توآج اسے نہ یہ دن دیکھنا پڑتا اور نہ ہی اس قدرپریشانی کا سامنا کرناپڑتا۔ حالانکہ ابھی وہ زندہ ہے اور ان سانسوں کی ڈور کےقائم ہونے کی وجہ سے اس کے لئے توبہ کے دروازے کھلے ہیں۔ اگر یہ قیامت کادن ہوتا، روز حشر ہوتا، اعمال تولے جانے والے ہوتے، تواس شخص کی کیا حالت ہوتی؟
اس دنیا میں تو انسان ہلکی سی سزا، ناگواربات ،حتی کہ کسی کی طرف سے کی گئی ہلکی سی تنقید برداشت نہیں کرتا جب تک اس کے منہ پر جوتا نہ مارلے یا اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دے،روزمحشر وہ کیا کرے گا جب دوسرے افراد اس سے اپنے حق کا تقاضہ کریں گے اورحق ثابت ہونے پر، بدلے میں اس کی نیکیاں لے اڑیں گے یا پھر اپنے گناہوں کا ٹوکرا اس کے سر منڈھ دیں گے۔اوراس سبب وہ مجرمین میں شامل کردیا جائے گا۔لیکن اس صورتحال پر مایوس و ناامید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اللہ رب العزت اپنے ان بندوں سے جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا فرماتاہے:
آپ(ﷺ) ان سے فرما دیجئے کہ اے میرے بندو تم نے اپنی جانوں پر (کتنے ہی) ظلم کئے ہوں ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا یقیناً اللہ تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا۔ وہ تو غفور الرّحیم ہے ۔ِ (الزمر:53)اے اللہ! دنیا اورآخرت دونوں جہانوں میں تو ہمیں معاف فرما۔آمین!
گناہ ومعصیت کیا ہے؟گناہ رب کے احکامات سے روگردانی کرنا ہے۔ یہ رب کی رحمت سے انسان کو دور کردیتاہے۔ گناہ و معصیت کوفسق وظلم ، کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔فسق کے معنی ہیں احکام کو چھوڑنا اور منع کردہ افعال کا ارتکاب کرنا۔نیز بعض اوقات نیکی و بھلائی کے کام بھی برائی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ نیکی رب کی رضا ہے ۔ وہ نیکی جوانسان کی خودنمائی کوپروان چڑھائے وہ نیکی نہیں اپنی خواہشات کی تکمیل ہے ۔رب کی خاطر نیک کام کرنے والا دوسروں کوحقیر نہ سمجھے گا۔ لیکن جب انسان اپنی خواہشات ، شہرت ، خودنمائی کی خاطر نیکی کرے وہ دوسروں کو حقیر سمجھنے کے ساتھ ساتھ خود پرستی میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی خود پرستی اس کی خدا(معبود) بن جاتی ہے ۔
گناہ کیوں ہوجاتاہے!: انسان پر بعض اوقات غفلت طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ خواہش نفس کاغلام بن جاتاہے اوراللہ رب العزت کی موجودگی کے احساس کو کھودیتا ہے۔ وہ اس حالت میں رب کی نافرمانی کربیٹھتا ہے۔ گناہ میں بھی اسے اک لذت سی محسوس ہوتی ہے،خواہ عارضی اور شیطان کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو ۔ کچھ اس قسم کی کشش و مقناطیست کا سحر اسے جکڑ لیتاہے کہ باجودوعید و سزا کے اعلان کے انسان وقتی طور پر اسے کرگزرتاہے۔ گناہ کی منصوبہ بندی کرنے والے انسان کی آنکھوں پر پردہ پڑجاتاہے وہ سوچتا ہے کہ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی ابھی تو میں یہ کرگزروں۔۔لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ وقتی جذبات میں آکر بہکنے والا انسان اپنے پیچھے صرف پچھتاوے کی راکھ چھوڑجاتاہے۔ کیونکہ بظاہر جس کام کی جانب اس کا دل مائل ہے اور وہ وقتی لذت و خوشی محسوس کررہا ہے اس کام کے نتائج بہت ہی بھیانک ظاہرہوں گے ۔اسی طرح انسان جب گناہوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے تو ان میں اس کے مبتلا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتاہے۔ جب رب کی نافرمانی،سرکشی اورعصیان کا معاملہ ہو ،غلطی پر غلطی ، ڈھٹائی، اصرارکرتاہے اور اس گناہ کے انجام کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتا جتنی مکھی کے ناک پر بیٹھنے کو کیوکہ مکھی کے ناک پر بیٹھنے سے ظاہری و مادی دنیا میں کچھ تو تکلیف ہوتی ہے لیکن نادان کو گناہ سے بظاہر کوئی تکلیف ہوتی محسوس نہیں ہوتی۔ یہی وہ عمل ہے جو اسے بے باک اور جری کردیتاہے اورآہستہ آہستہ وہ سیاہ قلب والا بن جاتاہے۔
گناہوں کے سلسلہ میں ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر کسی کو آگاہ نہ کرے۔ وہ اس طرح وہ خود اپنے گناہوں پر لوگوں کو گواہ بنادے گا۔ جب اللہ رب العزت نے پردہ رکھا اس پردہ کا کھولنا بیوقوفی ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر اپنے سیاہ کارناموں کا چرچا کرتے ہیں، گپیں ہانکتے ہیں بلکہ بعض اوقات اپنے گناہ بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہیں جتنا گناہ نہ کیا ہو ،شاید ایسا وہ بڑائی بیان کرنے کے لئے کرتے ہیں حالانکہ یہ شرم سے پانی پانی ہونے کا مقام ہے۔الامان و الحفیظ
ایسا نہیں کہ اللہ رب العزت انسان کو پہلی بار ہی گناہ کرنے پردنیا میں عذاب یا انتقام کا نشانہ بنادیتاہے۔ بلکہ وہ انسان کوبار بار مہلت دیتاہے۔ابتداء میں تو اس کے گناہ کا پردہ رکھتا ہے۔ ہاں اگر انسان ہی اپنا پردہ فاش کردے یاگناہوں میں بے باک ہوجائے توپھر دنیا میں بھی اسے رسوائی و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑتاہے۔گناہ کرنے والے شخص دو رویہ ہوتے ہیں ۔ ایک رویہ ان افراد کا ہے جن کے اندر اچھائی برائی کی کشمکش ہو۔ایساانسان جب کسی غلط کام کا ارادہ کرے یا وہ کوئی غلط کام کررہا ہو تو اس کے چہرے پر خوف کی لہریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ آواز کا گلے میں پھنسنا،جسم میں کپکپاہٹ کاطاری ہونا ،گھبراہٹ ،اضطراب پریشانی کا ہونا،دل کی دھڑکن کابے قابو ہونا، وغیرہ وغیرہ۔نیزوہ گناہ کرنے سے پہلے ادھر ادھر دیکھتا ہے۔یہ وہ علامات ہیں جن سے وہ شخص پہچان سکتا ہے یہ گناہ کا عمل ہے۔
ایک حدیث مبارکہ ہےگناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے۔اور دوسروں کا(اس سے) مطلع ہوجانا تجھے برالگے۔(صحیح مسلم :2553)
دوسرا رویہ ان عادی مجرمین کا ہے جنہیں گناہ کرنے پر احساس گناہ،پشیمانی،ندامت ،خفت،شرمندگی اورافسوس نہیں ہوتا اورنہ ہی انہیں نیکی کرنے پر کوئی خوشی ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انہیں گناہ کا کوئی خوف نہیں رہتا ۔ ان کا دل اس قدر سخت ہوچکا ہوتا ہے کہ ان میں ایمان کی علامتیں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔کیونکہ نیکی پر خوشی اور بدی پر کراہت یہ تو علامات ایمان میں سے ہیں۔حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ ایک شخص نےرسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تیری نیکی تجھے خوش کرے اور تیرا گناہ تجھے برا لگے تو تو مومن ہے ۔(مسند احمد:رقم 22166)
گناہ کے نقصانات:گناہ اللہ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔انسان اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتاہے۔ گناہ کرنے سے انسان کی رزق،عمر اور علم میں برکت نہیں رہتی۔انسان کی آخرت کی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تنگ ہوجاتی ہے۔ اور پھریہ بھی ذہن میں رہے کہ سچی توبہ کرنے سے رب تومعاف کردیتا ہے لیکن بسا اوقات انسان انسان کو معاف نہیں کرتے۔ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ ہو خواہ سو قتل کرنے ،شرک و کفر کا ہی گناہ کیوں نہ ہو اللہ رب العزت سچی توبہ کرنے سے معاف کردیتاہے اوربندے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے درمیان توبہ کے معاملہ میں کوئی بھی حائل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال توبہ خلوص دل سے ہی کرنی چاہئے اور ایسی صورت میں لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔
توبہ کیا ہے؟شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کی معصیت و نا فرمانی ترک کرکے اس کی اطاعت اختیار کر نے کوتوبہ کہتے ہیں ۔لہذا اللہ رب العزت کی طرف لوٹنے،پلٹنے، رجوع کرنےکوتوبہ کہتے ہیں۔ محض گناہ چھوڑنے کو توبہ نہیں کہتے۔ گناہ سے معافی مانگنا بھی توبہ نہیں یہ استغفار ہے۔ گناہ چھوڑنا،اس پر اظہار ندامت کرنا اورمغفرت طلب کرکے نیکی، اطاعت اور تقویٰ کی طرف پلٹ جانے کو توبہ کہتے ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ: النَّدَمُ تَوْبَةٌ ۔(سنن ابن ماجہ:4252)توبہ درحقیقت شرمندگی کا نام ہے ۔ زبان سے لاکھ توبہ و استغفار کہیں ،بے سود وبے کارہے۔خلوص نیت وتہہ دل سے شرمندگی وندامت کے ساتھ ایک بار توبہ کی جائے اس عہد کے ساتھ کہ آئندہ اس گناہ کے قریب بھی نہ پھٹکوں گا ، یقینا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قبولیت کی امیدہے ۔
گناہ ایک زہر ہے جس کا تریاق توبہ ہے،گناہ ایک جرم ہے جس کا کفارہ توبہ ہے، گناہ ایک بیماری ہے جس کا علاج توبہ ہے، گناہ ایک خسارہ ہے جس کا مداوا توبہ ہے،گناہ ایک بدنما داغ ہے جس کی صفائی ودھلائی توبہ ہے، گناہ حکمی نجاست ہے اور اس نجاست سے غسل کے لئے عام پانی نہیں بلکہ آنکھ سے نکلنے وا لے آنسو وںکی ضرورت ہے۔ توبہ یہ ہے کہ جب گناہ کی یاد آئے تو نفس اس میں لذت محسوس نہ کرے بلکہ ندامت ،پشیمانی اورکراہت کا احساس ابھرآئے۔یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو امڈآئیں۔اورآنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلے۔
ایک لحاظ سے یہ بہت ہی آسان کام ہے کہ اس پر نہ کچھ خرچ ہوگا نہ کوئی جسمانی محنت ہوگی،نہ ہی کسی کی سفارش کی ضرورت ہے ،نہ کوئی دماغی محنت یا منصوبہ سازی درکار ہے۔ بس دو قطرے آنسو بہانا ہے۔۔۔لیکن ایک اعتبار سے سب سے مشکل کام ہے۔ بہت ہی مشکل۔اول اپنی غلطی تسلیم کرنا ہی بڑی بات ہے اس پر ندامت کرنا،عاجزی کا اظہار کرنا،جھکنا،اورآئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ توبہ کے لئے اپنے نفس کو مارنا پڑتاہے،اپنی انا کو دبانا پڑتاہے،کچلنا پڑتاہے۔ یہی وہ مقام ہے جو انسان کو شیطان سے ممتاز کرتاہے۔ شیطان اپنی غلطی پر اکڑگیا،اڑ گیا،اصرار کرنے لگا،تاویلات پیش کرنے لگا اوراپنی غلطی کو صحیح قراردینے لگا۔لیکن توبہ نہ کی اورنہ کبھی کرسکتاہے! اتنا بھی آسان نہیں،رب جسے توفیق عطافرمائے۔
جسمانی غلطی ،مالی غلطی ،سماجی غلطی، جذباتی غلطی میں توشاید ایسا نہ ہوسکتا ہولیکن روحانی غلطی(جو سب سے بڑی غلطی ہے) کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج توبہ و استغفار ہے۔حضرت ابوذرغفاری سے مرفوعا نقل ہے کہ بیشک ہر بیماری کی دوا موجود ہے اور بیشک گناہوں کا علاج استغفار ہے۔یعنی توبہ و استغفار سے انسان اپنی غلطی بالکل مٹاسکتا ہے ۔ایسا کرکے انسان اپنی غلطیوں کو یکسرختم کرنے کی یا انہیں نیکوں سے بدلنے کی خواہش پوری کرسکتاہے۔
ایک بات ذہن میں رہے کہ غفلت سے کئے ہوئے گناہ پر توبہ کی توفیق مل جاتی ہے لیکن تکبر سے کئے ہوئے گناہ پر توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔توبہ کرتے وقت اگر دل میں برائی سے نفرت موجود نہیں یا پھر خواہش گناہ موجود ہے تو توبہ ہوئی ہی نہیں۔وقتِ توبہ برائی سے نفرت ہونا اور دل میں عزم کہ آئندہ کبھی نہ کروں گا توبہ کا جزو لازم ہے۔اگر بعد میں پھر غفلت و شہوت کی بنا پرگناہ میں مبتلا ہوگیا تو پھر فورا توبہ کرلے۔ اسی طرح وہ عبادات،نمازیں، عمرہ وحج ، جس میں پیش نظر حکمت یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کو ختم کرنے کے لئے کررہا ہوں آئندہ ابھی نہ توبہ ہے نہ ہی توبہ کا ارادہ ہے تو پھر جان لیں کہ ایسی عبادات سے پچھلے گناہ ختم ہوئے ہی نہیں۔
توبہ کیسے کی جاتی ہے؟امام شرف الدین یحییٰ نووی فرماتے ہیں: اگر گناہ کا تعلق اللہ اور بندے کے درمیان ہے، کسی آدمی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے تو توبہ کی تین شرطیں ہیں:اول : گناہ سے باز آجائےدوم : سچے دل سے اپنے فعل پرنادم ہوسوم: وہ یہ عزم کرے کہ گناہ کی طرف کبھی نہ پلٹے گا۔
اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو اس کی چار شرطیں ہیں: تین تو وہی جو اوپر بیان کی گئیں اور چہارم : جس کے خلاف جرم کیا ہواس سے معاف کروائے، اگر مال لیا ہو تو اس کو واپس کرے، اگر تہمت،بہتان اورافتراء باندھا ہو جس سے کوئی سزا اس پرواجب ہوتی ہے تواس کو موقع دے یا معاف کرائے یا غیبت کی ہے، تو اس سے معاملہ صاف کرلے، اگران شرائط میں سے کوئی فوت ہوگئی تو توبہ صحیح نہیں ہے۔ (ریاض الصالحین، ص:11)
توبہ و استغفار میں فرق اول استغفار کا مطلب ہے گناہ سے معافی مانگنالیکن گناہ کوچھوڑ کر،اس پر اظہار ندامت کرکے،مغفرت طلب کرکے نیکی، اطاعت اور تقویٰ کی طرف پلٹ جانے کو توبہ کہتے ہیں۔دوم انسان مغفرت طلب کسی کے لئے بھی کرسکتاہے لیکن توبہ صرف اپنی جانب سے ہی کرتاہے۔سوم: استغفار کی قبولیت سے صرف گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے لیکن توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہونے پر بعض اوقات اس کے سابقہ گناہ بھی نیکیوں سے بدل دیئے جاتے ہیں ۔ انسان گناہوں کے انبار لگادیتا ہے لیکن آخر صدق دل سے توبہ کرلے ، توبہ نصوح کرلے تو اللہ اس کی توبہ کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے اس کے گناہوں کو نیکیوں کو بدل دیتاہے۔
امت محمدیہ ﷺ پر فضل:پہلی امتوں کے لئے توبہ کرنا بھی اس قدر آسان نہ تھا بلکہ انہیں گناہوں کی مناسبت سے دنیا میں بھی سزا بھگتنی پڑتی ۔مثلاًخود کو قتل کرنا پڑتا،اپنی آنکھیں نکالنی پڑتی وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو رب ذوالجلال کا فضل عظیم ہے کہ اس امت کے لئے اس قدر آسانیاں پیدا کردیں۔ تاکہ بندہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ محسوس کرے۔
توبہ کی برکات:توبہ کی برکت سے اللہ رب العزت انسان کے تمام گناہوں کو یکسر مٹادیتا ہےاور وہ دوبارہ سے اس شخص کی مانند ہوجاتاہے جس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔سنن ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ
گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی جیسا کہ اس کا کوئی گناہ نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ:4250)
کیا اب بھی ہمارے لئے وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی سیاہ کاریوں سے توبہ کریں۔کیا ہمیں اس وقت کا انتظار ہے جب موت اچانک آن دبوچے گی پھر وہ ایک لمحہ بھی موخر نہ ہوگی اور اس کے آتے ہی توبہ کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔ اس لمحہ کے آنے سے پہلے توبہ کرلو ایسا نہ ہو تاخیر ہوجائے اور کف افسوس ملنے کا بھی موقعہ نہ مل سکے۔
