مثالی طالب علم کیسے بنیں؟
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے امتحانات اورمدارس کھولنےکے اعلانات کے موقع پر عزیز طلبائے کرام کے لئےچند ہدایات پیش خدمت ہیں ،اللہ سبحانہ ہمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائیں۔آمین یا رب العٰلمین۔تعلیم کی وجہ سے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کی دستار فضیلت سے سرفراز کیا گیا ہے۔جب طلبہ اپنے طالب علمی کے دور کو اصولوں اور آداب کے مطابق گزارتے ہیں تب اللہ رب العزت ان سے دوسروں کی ہدایت و رہبری اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے کام لیتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصول و آداب کی اگر پابندی نہ کی جائے تب بڑے سے بڑے کام بھی مفید نتائج فراہم نہیں کر پاتے ۔
٭…حصول علم کا مقصدحضرت عبداللہ بن مبارک ؒ ایک جگہ سے گزر رہے تھے تب ان کی ایک لڑکے پر نظر پڑی جس کے چہرے سے ذہانت مترشح تھی۔آپؒ نے لڑکے سے پوچھا ”کچھ پڑھا بھی ہے یا یوں ہی اپنا وقت اور عمر برباد کر رہے ہو؟“ لڑکے نے جواب دیا ”کچھ زیادہ تو نہیں پڑھا ہے بس چار باتیں سیکھی ہیں۔“ آپ ؒ نے پوچھا ”کونسی“ کہنے لگا”سر کا علم،کانوں کا علم،زبان کا علم اور دل کا علم حاصل ہے۔“آپ ؒ نے کہا مجھے بھی کچھ بتاؤ۔لڑکے نے کہا ”سر اللہ تعالی کے سامنے جھکانے کے لئے ہے،کان اللہ کا کلام سننے کے لئے ہیں،زبان اس کے ذکر کے لئے ہے اور دل اللہ کی یاد بسانے کے لئے۔“حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ لڑکے کے حکمت آمیز کلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس سے نصیحت کے لئے کہا۔لڑکے نے آپ ؒ سے کہا آپ مجھے شکل سے عالم معلوم ہوتے ہیں اگر علم اللہ تعالی کے لئے پڑھا ہے تو پھر اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے کبھی امید نہ رکھنا۔“ اس واقعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ علم کا حصول ایک عبادت ہے اور اس کی قبولیت کا دارو مدار اخلاص و للہیت پر منحصر ہے۔حصول علم کا مقصد خود آگہی اور خدا آگہی ہونا چاہیئے نہ کہ دنیا کے حقیر مقاصد کا حصول۔٭…طالب علم کے دل میں ہمیشہ جذبہ حصول علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہو،اور دل ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہے کہ جب تک اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو وہ بیکل اور مضطرب رہے اور اپنے مقصد کے حصول تک مسلسل تگ و دو کرتا رہے۔٭… نہ صرف طلبا ء کے لئے بلکہ ہر انسان کے لئے وقت ایک عظیم نعمت ہے۔طلباء اپنے وقت کی حفاظت کریں اور اسے بیکار اور فضول کاموں میں برباد نہ کریں۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑدے۔طالب علموں کے لئے فضول اور لایعنی امور سے پرہیز لازمی ہے تاکہ ان کی قابلیت اور لیاقت میں اضافہ ہوسکے۔٭…اللہ تعالی انسان کو اسی محنت اور لگن کے بقدر عطا فرماتے ہیں۔کسی کام کو خوب اچھا کرنے کے لئے جد و جہد،سعی عمل،شغل تمام ضروری ہوتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں احسان اخلاص اور للہیت کو کہتے ہیں۔جو طلباء جتنی محنت کریں گے اللہ تعالی ان کو اتنا ہی علم کی دولت سے مالا مال کردیں گے۔طلبہ میں اخلاص اور للہیت کا فقدان علم نافع کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔محنت کے ساتھ طلباء کے لئے مطلوبہ صفات اخلاص،تواضع،ادب،حسن اخلاق،معصیت سے دوری حصول علم کے لئے ضروری گردانے گئے ہیں۔ حصول علم کے معاملے میں ہمارے اسلاف کی محنت ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ تساہل، کاہلی،بزدلی جیسے منفی صفات جب ایک مثالی طالب علم کے آگے سر اٹھاتے ہیں تب وہ اپنی اولوالعزمی سے ان تمام منفی جذبوں کو کچل دیتا ہے۔ طالب علم حرکت اور تحریک کا ایک مثالی نمونہ ہوتا ہے۔یاوہ گوئی،فضول اور لایعنی کاموں سے ایک مثالی طالب علم ہمیشہ خو د کو دور رکھتا ہے۔٭…اولعزمی،بلند ہمتی،حو صلہ،امنگیں،امید اور خو داعتمادی ایک مثالی طالب علم کے ہتھیار ہوتے ہیں۔مذکورہ صفات کی کمی طلبہ میں احساس کمتری کا باعث ہوتی ہے۔ ایک مثالی طالب علم کے لئے مسلسل جدو جہداور محنت کے ساتھ بلند ہمتی (اولعزمی) نہایت ضروری ہے۔اگر طالب علم خو ب محنت کرے لیکن اس میں بلند ہمتی نہ ہو،تب بھی وہ زیادہ علم حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ طالب علم میں ہمت اور بلند حوصلگی ہواور محنت کا فقدان پایا جائے تب بھی وہ علم حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔علم ایک قیمتی شئے ہے اور ہر قیمتی شئے کے حصول میں محنت اور بلند ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ مسلسل محنت،راحتوں اور لذتوں کو چھوڑنے سے ہی علم حاصل ہوتا ہے۔٭…روزانہ باقاعدہ مطالعہ کی عادت سے علم میں اضافہ کے ساتھ پختگی پیدا ہوتی ہے۔ جماعت میں سبق کی تدریس سے قبل سبق کے مطالعہ سے نہایت فائدہ ہوتا ہے۔روزانہ اسباق کے مطالعہ کابلاناغہ اہتمام کرنے سے سبق اچھی طرح ذہن نشین اور محفوظ ہوجائےمشہور مقولہ ہے کہ”علم اس وقت تک اپنا تھوڑا سا حصہ بھی نہیں دیتا ہے جب تک کہ طالب علم اپنے آپ کو پورے کا پورا علم کے حوالہ نہ کردے۔“ کتابوں کے انتخاب کرنے کے لئے طلباء اساتذہ سے رہنمائی حاصل کریں۔تن آسانی، سہل پسندی،اور آرام طلبی نہ صرف زمانہ طالب علمی بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔٭…مثالی طالب علم کے لئے استاد اور علم سے متعلق تما م اشیاء کا ادب و احترام لازم ہوتا ہے۔تحصیل علم میں جب تک تین آداب (1)استاذ کا ادب (2)درس گاہ اور مسجد کا ادب (3)کتاب کے ادب کو ملحوظ نہ رکھا جائے تب تک طالب علم کی نہ صلاحیتیں نکھرتی ہیں،نہ استعداد جلا پاتی ہے اور نہ ہی اس کو روحانی ترقی حاصل ہوتی ہے۔ طلبہ استاذ سے مقابلہ مناظرہ،مکابرہ اور مجادلہ سے ہروقت بچیں۔۔طالب علم سے اگر کوئی خطا،بے ادبی اور غلطی واقع ہوجائے تب وہ فوری استاذ سے عاجزی،انکساری ندامت اور لجاجت سے معافی چاہے۔٭…طالب علم محنتی ہو خوب مطالعہ کرنے والا ہو،اس کے پاس معلومات کا انبار ہو،لیکن جب اس کے اخلاق و کردار خراب ہوں تب یہ تمام اوصاف بے سود ثابت ہوتے ہیں۔ایک مثالی طالب علم پڑھائی میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ،زندہ دل،وسیع النظر،کشادہ دل،مثبت نظریات کا حامل،ملنسار اور سب کا بھلا چاہنے والا ہوتا ہے۔
(1)ایک مثالی طالب علم نماز پنچگانہ کا پابند ہوتا ہے کیونکہ نماز مومن کا ہتھیار ہے۔ نماز اور وضو طالب علم کو ہر پل تازہ دم رکھتے ہیں۔(2)اکثر طلباء رات دیر تک پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔طلبہ رات دس بجے تک سوجائیں۔چھ گھنٹے کی نیند لینے کے بعدعلی الصبح چار ساڑھے چار بجے بیدار ہوجائیں کیونکہ سحر خیز ی فطرت کے عین مطابق ہے۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پڑھائی کریں۔فجر کی نماز کے بعد مطالعہ کریں۔صبح کا وقت مطالعہ کے لئے بہت ہی بہتر ہوتا ہے۔(3) دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد قیلولہ کی عادت ڈالیں۔تاکہ صحت کے اصولوں کے مطابق آٹھ گھنٹے کی نیند پوری ہوجائے اور طالب علم ترو تازہ ہوجائے۔(4)عصر تا مغرب کوئی کھیل یا چہل قدمی صحت،ذہن و دل کے لئے مفید ہوتی ہے۔لغو تفریحات سے گریز لازمی ہے۔مثالی طالب علم کی تفریح بھی مثبت،تعمیر ی اور با مقصد ہوتی ہے۔خاص طور پر ایک مسلم طالب علم کی زندگی میں فضول چیزوں کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا ہے۔(5عشاء کی نماز کے بعد دو تا ڈھائی گھنٹے پڑھائی میں لگائیں۔رات میں جلد سونا صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے۔(6)طلبہ اپنے معمولات کو میکانکی انداز سے انجا م دینے کے بجائے انسانی فطرت کے مطابق بنائیں۔باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔کوئی ایسی سرگرمی اور عادت سے گریز کریں جو کہ صحت کے لئے مضر ہو۔مذکورہ بالااوصاف کے علاوہ ایک مثالی طالب علم میں خوف خدا،نبی اکرم ﷺ سے غایت درجہ محبت،اطاعت اور عظمت کا جذبہ،دین شریعت کے احکام کی پابندی،انسانیت کی خدمت کا جذبہ،پاکی اور صفائی،اساتذہ کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کی احسن طریقہ سے انجام دہی جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ ا یک مثالی طالب علم بلااجازت جماعت اور درس گا ہ میں داخل ہوتا ہے نہ باہرجاتا ہے۔اپنے خاندان ماں باپ، اساتذہ، اپنے کردار اور تعلیمی ادارے کی نیک نامی کو ہر حال میں برقرار رکھناایک مثالی طالب علم کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ایک مثالی طالب علم کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ تحصیل علم کے سفر کو پرکیف بنانے کے لئے اچھے ساتھیوں کا انتخاب کر ے تاکہ اس کے اساتذہ،والدین اور خاندان کے افراد کی امید و ں،آرزؤں اور ارمانو ں کا خون نہ ہو نے پائے۔ مذکورہ بالا صفات کو اپنے آپ میں پیدا کرتے ہوئے ایک طالب علم خود کو نہ صرف مثالی بنا دیتا ہے بلکہ دنیا و آخرت میں عزت اور رضائے الہی کا حقدار ہوجاتا ہے۔