مذاق اور مزاح کی شرعی حیثیت

مذاق اور مزاح کی شرعی حیثیت
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے. اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت وآبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت وآبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔ مذاق اڑانا ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے مذاق اڑانے کا منطقی نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس ایذا رسانی کی ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذاء نہ پائیں۔ (صحیح بخاری: جلد اول: حدیث نمبر 9)
اہل علم نے مزاح کرنے کے کئی اسباب بیان کئے ہیں ۔ مثلاً ایک سبب برتری کا احساس ہے چنانچہ اس احساس کے تحت ہم جسے کم تر ، بے ڈھنگا، بدصورت، غلط، احمق یا کسی اور پہلو سے کمتر سمجھتے ہیں تو اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور سبب غیر مطابقت ہے یعنی جب نتائج مروجہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو ہم ہنس پڑتے ہیں جیسے ایک غیر اہل زبان اردو کا کوئی لفظ ادا نہ کرپائے تو لوگ ہنستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سبب دباؤ کی تخفیف ہے یعنی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے یا ہلکا پھلکا ہونے کے لئے بھی مزاح کرتے ہیں۔
اگر مذاق میں کوئی جھوٹ شامل ہے تو وہ جائز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی مذاق میں فحاشی کا عنصر ہو یا کوئی گالی ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔ اس کے علاوہ مذاق میں کسی بدتمیزی ، بدتہذیبی یا کوئی اور غیراخلاقی حرکت ہورہی ہو تو یہ بھی ناجائز حدود ہیں۔ کسی شرعی مسلمے کی خلاف ورزی بھی ناجائز ہے جیسے نماز یا روزے کا مذاق اڑانا یا کسی شرعی حکم کی تحقیر کرنا۔ اس ضمن میں میں ایک جملہ معترضہ کے طور پر یہ سمجھ لیں کہ کچھ محاورے بھی ایسے ہیں جن میں دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے جیسے “نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے۔” اس قسم کے محاورے یا ضرب الامثال مناسب نہیں۔ یوں تو ہم سب جانتے ہیں کہ مذاق اڑانے میں کن کن باتوں کو عام طور پر بیان کیا جاتا ہے مثال کے طور پر٭… جسمانی ساخت کی تحقیر جیسے کالی رنگت، پست قامتی، بدصورتی، گنج پن، ناک، کان یا دیگر اعضاء کی ساخت، کوئی جسمانی معذوری۔٭… حرکات و سکنات کا مذاق اڑانا مثلاََ چلنے، اٹھنے بیٹھنے یا بولنے کا انداز۔٭… پیشے کا مذاق جیسے کسی کو حقارت سے موچی کا طعنہ دینا۔٭… حسب نسب یا ذات پات کا مذاق اڑانا۔٭… لسانی بنیادوں پر مذاق اڑانامثال کے طور پر پشتو بولنے والوں کی تحقیر یا اردو بولنے والوں پر جملے بازی۔٭… برے ناموں سے پکارنا جیسے کسی کو تحقیر کی نیت سے چاچا، کالو، لمبو، موٹے وغیرہ کہنا۔٭… دین کا مذاق اڑانا یا دین پر عمل کرنے والوں کا مذاق اڑانا٭… اللہ کا یا اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا۔٭… رسولوں کا مذاق اڑانا۔ اسی لئے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرے گا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی. (صحیح بخاری: جلد دوم: حدیث نمبر 440)۔
اگر آپ اس گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں تو درج ذیل ہدایات پر عمل کریں:٭… اگر آپ تکبر کی وجہ سے مذاق اڑاتے ہیں تو تکبر کا علا ج کریں اور اپنا مسئلہ اہل علم حضرات سے مشورہ کرکےحل کریں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ تکبر حرام ہےاور متکبر شخص جنت میں نہیں جائے گا۔۲۔ عام طور پر لوگ کمزوروں کا ہی مذاق اڑاتے ہیں جو غربت، جسمانی کمزروی یا احساس کمتری کی بنا پر کسی فوری رد عمل کا اظہار نہیں کرسکتے۔ اگر آپ بھی ایسا کرتے ہیں تو وہی مذاق کسی صاحب حیثیت شخص کے سامنے کریں تو انشاء اللہ طبیعت راہ راست پر آجائے گی۔٭…بولنے سے پہلے دوسروں کے جذبات کا خیال کیا جائے ۔خود کو اس شخص کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ اس کی جگہ ہوتے تو آُ پ پر کیا بیتتی۔٭… اگر بعد میں یہ احساس ہوجائے کہ کسی کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے تو اس شخص سے برملا اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور معافی مانگی جائے۔ اس کے علاوہ اس کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جائے مثلاً اس شخص کو تحفہ دینا، اس کی دعوت کرنا، اس کے ساتھ کوئی خصوصی رویہ اختیار کرنا۔کم از کم اس کیلئے دعا کرنا وغیرہ۔٭…اسی طرح ایس ایم ایس، یا فیس بک اور سوشل میڈیا پر ایسے ناجائز مذاق کو ہرگز آگے فارورڈ نہ کریں اور ایسا کرنے والوں کی اصلاح کی کوشش کریں٭… ایسی محفلوں میں چوکنے بیٹھیں جہاں لوگوں کی تضحیک کی جاتی ہو۔ اگر اس کو روکنا ممکن نہ ہو تو اس کا حصہ نہ بنیں اور اس سے اجتناب کریں۔٭… اگر پھر بھی اس عادت پر قابو نہ ہو تو اپنے لیے جرمانے کا نظام نافذ کرلیں۔ یعنی کسی کا مذاق اڑانے کی صورت میں آپ یا تو ایک مخصوص رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کریں، یا روزہ رکھیں یا مخصوص تعدا د میں نوافل ادا کریں۔ لیکن جرماہ نہ تو اتنا سخت ہوکہ اس پر عمل ہی نہ ہوسکتا ہو اور نہ ہی اتنا نرم ہو کہ طبیعت کو بالکل بار محسوس نہ ہو۔