حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ایک نظر میں
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
سوشل میڈیا پرخبرچل رہی ہے کہ امیر المومین خلیفہ ثانی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کی شیعوں نے توہین کی ۔ اس واقعہ سے پوری مسلم دنیا بے چین ہوگئی ہےاس لعنتی ٹولے کے خلاف کاروائی کا سخت مطالبہ ہے ۔ شام کے ادلب میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ کا مقبرہ ہے ۔ خبر ہے کہ ایران نواز امامیہ اور نصیریہ شعیہ گروپ نے عمر بن عبد العزیز اور ان کی اہلیہ فاطمہ کی قبر کھود کر دونوں کے جسم کی توہین اور بے حرمتی کی ہے ۔ لاتوں سے مارا اور تھوکا ہے ۔ پھر پورے مقبرہ کو نذر آتش کردیا ہے ۔1400 سوسال بعد ان کی قبر کی بے حرمتی عالم اسلام کی تاریخ کا شرمناک اور افسوسنا ک واقعہ ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ کی شخصیت تعارف سے بے نیاز ہے، ادب وتاریخ کی کتب ان کے تدبر کے واقعات سے لبریز ہیں، ہمیشہ ان کی سیاست کامیاب وکامران رہی، وہ اپنے زمانے کے اہل اللہ اور مقرب الی اللہ تھے۔مسلمان حکمرانوں میں حضرت عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ واحد حکمراں تھے کہ جن کےدورِ خلافت نے خلافتِ راشدہ کے دَور کی یادیں تازہ کیں۔ انہوں نے وہی طرز عمل اختیار کیا، جو خلفائے اربعہ کا رہا تھا۔ یعنی حقیقتاً باشندگانِ ریاست کے خادم کا کردار ادا کرکے دکھایا۔ جب خلیفہ ولید نے حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ کو مدینہ منورہ کا گورنر بنایا، تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی شرط پر گورنری منظور کرتا ہوں کہ مجھے پہلے گورنروں کی طرح ظلم واستبداد پر مجبور نہ کیاجائے۔ خلیفہ نے کہا: ”آپ حق وعدل پر عمل کریں خواہ خزانہٴ شاہی کو ایک پائی بھی نہ ملے“ آپ نے مدینہ منورہ پہنچ کر سب سے پہلے علماء واکابر کوجمع کیا اور ان لوگوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایاکہ: ”اگر آپ لوگوں کو میری ریاست میں کہیں بھی، کسی پر بھی ظلم وستم ہوتا ہوا نظر آجائے، تو خدا کی قسم مجھے اس کی اطلاع ضرور کریں، جب تک آپ مدینہ کے گورنر رہے کسی شخص نے آپ سے عدل وانصاف، نیکی وبھلائی، سخاوت، فیاضی، ہمدردی وغمگساری اور خیرخواہی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔
عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث چھٹا خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے ۔عمر بن عبدالعزیز آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہاشم کے جڑواں بھائی عبد شمس کی اولاد میں سے تھے۔ نام عمر بن عبد العزیز بن مروان اور ابو حفص کنیت تھی۔ آپ کی والدہ کا نام ام عاصم تھا جو عاصم بن الخطاب کی صاحبزادی تھیں گویا حضرت عمر فاروق کی پوتی ہوئیں اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں فاروقی خون تھا۔ 61ھ/681ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔والد نے خدام کے ساتھ میں شہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھیج دیا۔ صالح بن کیساکو ہدایت کی کہ عمر کی نمازوں کا خاص دھیان رکھنا۔ آپ اپنی عمرکے لڑکوں کے بجائے زیادہ تر بزرگوں کی صحبت میں رہے۔ تمام محدثین اور فقہا سے استفادہ کیا۔ ان میں سے انس بن مالک ، عبد اللہ بن جعفر، سائب بن یزید، سہل بن سعد، سعید بن مسیب ،عروہ بن زبیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمان، یحیٰی بن قاسم اور عامر بن سعد کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے والد مسلسل 21 برس مصر کے گورنر رہے۔ دولت و ثروت کی فراوانی تھی لہذا نازو نعم کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔ جس کا اثر خلیفہ بننے تک قائم رہا۔ وہ ایک نفیس طبع خوش پوش مگر صالح نوجوان تھے۔ عہد شباب میں اچھے سے اچھا لباس پہنتے۔ دن میں کئی پوشاکیں تبدیل کرتے، خوشبو کو بے حد پسند کرتے، جس راہ سے گزر جاتے فضا مہک جاتی۔ ان ظاہری علامات کو دیکھ کر اس امر کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی تھی جو خلیفہ بننے کے بعد ظاہر ہوئے لیکن چونکہ طبیعت بچپن ہی سے پاکیزگی اور زہد و تقویٰ کی طرف راغب تھی اس لیے یہ ظاہری اسباب و نشاط ان کو قطعاً متاثر نہ کر سکے۔ ان کا دل ہمیشہ اللہ تعالٰی کی عظمت اور خوف سے لبریز رہا۔ پاکیزگی نفس اور تقدس آپ کی شخصیت کا ایک نہایت ہی اہم اور خصوصی وصف تھا۔
آپ کے والد نے آپ کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ مشہور عالم اور محدث صالح بن کیسان کو آپ کا اتالیق مقرر کیا۔ اس دور کے دیگر اہل علم مثلاً حضرت انس بن مالک، سائب بن یزید اور یوسف بن عبد اللہ جیسے جلیل القدر صحابہ اور تابعین کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کر لیا اور قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کرکے ایک خاص مقام حاصل کیا۔ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی شخصیت ان تمام برائیوں سے پاک تھی جن میں بیشتر بنوامیہ مبتلا تھے۔ نگرانی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار عمر نماز میں شریک نہ ہو سکے استاد نے پوچھا تو آپ نے بتایا کہ میں اس وقت بالوں کو کنگھی کر رہا تھا استاد کو یہ جواب پسند نہ آیا اور فوراً والد والیٔ مصر سے شکایت لکھ دی وہاں سے ایک خاص آدمی انہیں سزا دینے کے لیے مدینہ آیا اور ان کے بال منڈا دیے اور ان کے بعد ان سے بات چیت کی۔آپ طبعاً صالح اور نیک تھے اس کی نشان دہی ان کے استاد صالح بن کیسان، عبد العزیز کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ان الفاظ میں کر چکے تھے۔مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں ، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو۔
بنی امیہ کی حکومت کے 92 سالہ دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے ڈھائی سال تاریکی میں روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔آپ جب خلیفہ بنے تو اس وقت حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما زندگی کے آخری حصے میں تھے، جو رشتے میں آپ کے نانا لگتےہیں.ان کو خط لکھا اور عرض کی کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکومت کے اصلاحات بھیجیں تا کہ اسے اپناؤں،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اصلاحات بھیجی، اور ساتھ یہ بھی تحریر کیا،کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں میں عوام اصحابِ کرا م رضی اللہ عنہم تھے، اس لئے ان حضرات پر ایسی اصلاحات لاگو کرنا آسان تھا، اس دور میں اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو یہ بہت بڑی بات ہو گی،کیونکہ ہرطرف حرص اور لالچ ہے۔
اورپھر آپ نے ثابت کر دیا. کہ واقعی آپ عمر ثانی ہیں خود اپنی ذات اور اھل و عیال سے احتساب شروع کرکے اپنے دادا مروان اور چچا عبدالملک کی اولاد سے سرکاری املاک لے کر بیت المال میں جمع کی جن کے قبضے میں پورے پورے ملک تھے۔ یہ کام انتہائی مشکل تھا اس لئے سارا خاندان دشمن بنا،آپ کا زمانۂ خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح بہت ہی مختصر تھا۔ لیکن جس طرح عہد صدیقی بہت اہم زمانہ تھا اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ بھی عالم اسلام کے لیے قیمتی زمانہ تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ خلافت اسلامیہ کو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم کرکے عہد صدیقی اورعہد فاروقی کو دنیا میں پھر واپس لے آئے تھے۔جب آپ خلیفہ بنے تو آپ نے اعلان کیا کہ جو غیر مسلم اسلام قبول کرے اس کا جزیہ معاف ہوگا۔ اور فرماتے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم ھادی بنا کر بھیجے گئیں نہ کہ ٹیکس وصول کرنےتاریخ گواہ ہے کہ اس سال کوفہ سے سینکڑوں گنا ذیادہ جزیہ وصول ہوا۔
رجب 101ھ بمطابق جنوری 720ء میں آپ بیمار پڑگئے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوادیا تھا۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہوگیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروادیں اور غلام کو آزاد کردیا۔ زہر دینے کی وجوہات میں ایک تو یہ بات شامل تھی کہ آپ خلفائے راشدین کی مانند خلافت کے امور چلاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کی وجہ سے بنو امیہ اپنی مخصوص مالی لوٹ مار نہیں کر سکے۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے۔طبیعت بہت خراب ہوگئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی۔ پھر اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور فرمایا: ”اے میرے بچو! دو باتوں میں سے ایک بات تمہارے باپ کے اختیار میں تھی، ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجاؤ اور تمہارا باپ دوزخ میں جائے، دوسری یہ کہ تمہارا باپ جنت میں داخل ہو، میں نے آخری بات پسند کرلی، اب میں تمہیں صرف خدا ہی کے حوالے کرتا ہوں۔پھر فرمایا جب مجھے دفن کرو تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ”ناخن اور موئے مبارک“ میرے کفن کے اندر رکھ دینا، اسی وقت پیغام ربانی آگیا اور زبانِ مبارک پر یہ آیات جاری ہوگئیں: ﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا وَلاَ فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ اور روحِ اطہر جسم سے پرواز کرگئی۔ اِنّا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کی وفات 40سال کی عمر میں جمعہ کے دن 20/24یا 25رجب 101 ھ کو ہوئی،آپ کی نماز جنازہ یزید بن عبدالملک نے پڑھائی(عقد الفرید)آپ کو گرجا کی خریدی ہوئی زمین میں دفن کیا گیا۔چنانچہ 25 رجب 101ھ بمطابق 10 فروری 720ء کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 40 سال تھی۔ آپ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو شام میں ہے۔آپ کا دور خلافت انتہائی مختصر تھا مگر خیر و برکت اور انصاف کی ہمہ گیری کی وجہ سے لوگ بہت لمبا عرصہ شمار کرتے ہیں،بنوامیہ کے خلفاء تو بہت گزرے مگردنیا نے صرف حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اپنے سینوں میں جگہ دی،آج بھی آپ کی سیرت و کردار کا تذکرہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور سکون قلب کا باعث ہے۔