اعتکاف کےچند ضروری مسائل
جمع وترتیب:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا مسنون اعتکاف ہے ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بالالتزام رمضان المبارک کے اخیرعشرہ میں اعتکاف کرنا ثابت ہے ‘ اس لئے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے مگر یہ سنت مؤکدہ ایسا ہے کہ اگر بعض افرادمحلے کی مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جائیں تو سب کا ذمہ فارغ ہو جائے گا ۔واجب اورمسنون اعتکاف اسی وقت صحیح اور معتبر ہوگا جب کہ اس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:٭… اعتکاف کی نیت شرط ہے قصدو ارادہ کے بغیر مسجد میں ٹھہر جانے کو اعتکاف نہیں کہتے،چونکہ نیت کے صحیح ہونے کے لیے نیت کرنے والے کا مسلمان ہونا اور عاقل ہونا شرط ہے اس لئے معتکف کا مسلمان اورعاقل ہونا شرط ہے۔بدائع الصنائع،باب الاعتکاف:۲؍۱۰۸٭… مرد کا ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا جس میں پنجوقتہ نماز باجماعت کے لئے امام ومؤذن باقاعدہ موجود ہوں (لہٰذا ویران مسجد میں تنہا اعتکاف معتبر نہ ہوگا)٭… معتکف کا روزہ دار ہونا (لہٰذا بغیر روزہ کے واجب اور مسنون اعتکاف معتبر نہ سمجھا جائے گا)٭… معتکف کا جنابت اور حیض ونفاس سے پاک ہونا (لہٰذا حدثِ اکبر کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کرنا ہرگز درست نہ ہوگا) ۔ (ہندیۃ ۱؍۲۱۱، مراقی الفلاح ۳۸۱-۳۸۲، البحر الرائق کراچی ۲؍۳۹۹)٭… جس شخص کے بدن یا منہ میں بد بو آئے مثلا کوئی سگریٹ ،حقہ ،نسوار کا پرانا عادی ہے اور اس کے منہ سے بدبوناقابل برداشت ہو تو ایسے شخص کے لئے اعتکاف کرنا جائز نہیں، البتہ اگر بدبو تھوڑی ہو جو خوشبو وغیرہ سے دور ہوجائے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو، تو جائز ہے۔ (فتاوی شامی ،باب الاعتکاف )اسی حکم میںہے ہروہ شخص جس کامرض متعدی ہویااس سے لوگوں کوتکلیف ہوتی ہو،چونکہ لوگوںکوایذاءرسانی سے بچانافرض ہے،اوراعتکاف سنت ہے۔(3) فتاوی شامی،باب الاعتکاف ،۳:؍۴۳۰۔٭…آخری عشرہ کے اعتکاف کے لئے بیس رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے مسجد میں داخل ہونا لازم ہے۔ [فتاویٰ دارالعلوم ص ۵۰۶ ج ۶]٭…اعتکاف نذر اور اخیر عشرہ کے اعتکاف میں ضرورت شدیدہ کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا حرام اور اعتکاف کو توڑ دیتاہے۔ [در مختار ص ۴۴۴ ج ۲]٭…غسل واجب‘ نماز فرض کا وضو‘ پیشاب‘ پائخانہ کے لئے بقدر ضرورت مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے۔ اور اسی طرح اگر مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا ہے تو دوسری مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے جانا بھی جائز ہے لیکن اس میں فضول وقت نہ گزارے بہت جلد واپس ہو جائے۔ لیکن اگر دیہات کی مسجد میں اعتکاف کیا ہے تو جمعہ کے لیے باہر نکلنا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ دیہات میں جمعہ جائز نہیں ہے۔ [در مختار کراچی ص ۴۴۵ ج ۲‘ کفایت المفتی ص ۲۳۲ ج ۴‘ فتاویٰ محمودیہ ص۱۷۵ ج۳]٭…نفل نماز باوضو رہنے‘ باوضو سونے اور تلاوت و ذکر کے لئے وضو کرنے کے لئے باہر نکلنا جائز ہے۔ اس لئے کہ معتکف کا ہر وقت باوضو رہنا مسنون ہے اور اگر مسجد کے اندر ٹب وغیرہ میں وضو کیا جا سکتا ہے تو باہر نکلنا جائز نہیں٭… اضطراری ضرورت: مثلاً مسجد منہدم ہوجانا، یا کسی ظالم کا معتکف کو مسجد سے زبردستی نکال دینا وغیرہ[فتاویٰ رحیمیہ ص ۲۶ ج۵]٭…اگر معتکف کو پیشاب کے بعد قطرات آنے کا اندیشہ رہتا ہے اور وہ اطمینان حاصل کرنے کے لئے کچھ دیر ٹہل کر مٹی کا ڈھیلا یا جاذب (ٹشو پیپر) استعمال کرتا ہے تو بحالتِ اعتکاف ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ طبعی ضرورت میں داخل ہےالخ۔ (شامی زکریا ۲؍۴۳۵)٭…اگر معتکف قضائے حاجت یا شرعی ضرورت کے لئے مسجد سے باہر جائے تو آتے جاتے چلتے ہوئے کسی سے سلام کلام کرنے سے اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا؛ البتہ اگر کھڑے کھڑے ٹھہرکر باتیں کرنے لگا تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (البحر الرائق کراچی ۲؍۳۰۲)٭…بیڑی وغیرہ پینے کا عادی شخص استنجاء وغیرہ کے لئے مسجد سے باہر نکلتے وقت اس ضرورت کو پورا کرلے خاص اسی ضرورت سے مسجد سے باہر نہ جائے(فتاویٰ رشیدیہ ۴۶۱، فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۲۰۲، فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل ۱۰؍۲۳۹، میرٹھ ۱۵؍۳۱۶)٭…اگر مسجد شرعی کی حد میں رہتے ہوئے غسل کا ایسا انتظام ہو کہ مسجد غسل کے پانی سے ملوث نہ ہو تو معتکف کے لئے مسجد میں ہر طرح کا غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر مسجد میں غسل کاایسا انتظام نہ ہو تو واجب غسل کے لئے مسجد سے باہر نکلنا بالاتفاق جائز ہے؛ البتہ غیر واجب غسل مثلاً بدن کی صفائی یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے اگر مسجد سے باہر جائے گا تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (تاہم اگر بول وبراز کی ضرورت کے لئے مسجد سے باہر نکلا اور وہیں بہ عجلت بدن پر پانی بہالیا تو اعتکاف میں کوئی فرق نہیں آئے ( فتاویٰ محمودیہ میرٹھ ۱۵؍۲۷۷)٭…عام فقہی کتابوں اور فتاویٰ میں تو یہی بات لکھی ہے کہ غیر واجب غسل کے لئے مسجد سے باہر نکلنا معتکف کے لئے درست نہیں ہے، اور غیر واجب غسل میں جمعہ کا غسل مسنون بھی داخل ہے؛ لیکن بعض فقہی عبارتوں سے جمعہ کے غسل کے لئے معتکف کو مسجد سے باہر نکلنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے (اس لئے ضرورت اور تقاضے کے وقت اس روایت پر عمل کی گنجائش ہے) (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۴؍۵۰۲) ٭…اگر احتلام ہو جائے تو آداب مسجد کی رعایت کرتے ہوئے تیمم کرکے باہر نکلے اور بہت جلد غسل کرکے واپس ہو جائے اور اس احتلام کی وجہ سے اعتکاف اور روزہ میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ اور سونے کی حالت میں احتلام ہو جانا اور ریح خارج ہو جانا آداب مسجد کے خلاف نہیں۔ [شامی کراچی ص ۴۴۵ ج۲]٭…اگر معتکف شخص بیمار ہو اور اسے مسجد سے باہر جاکر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہو تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس مقصد سے مسجد سے باہر جانے سے اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (ہندیۃ ۱؍۲۱۲) ٭…اگر معتکف کو اذان دینے کے واسطے حدودِ مسجد سے باہر جانا ناگزیر ہو (مثلاً:کوئی اور اذان دینے والا موجود نہ ہو اور لاؤڈاسپیکر باہر کمرے میں رکھا ہو، اور اسے مسجد میں نہ لایا جاسکتا ہو ) تویہ بھی حاجتِ شرعیہ میں داخل ہے، اور ایسا معتکف اذان دینے کے لئے بضرورت مسجد سے باہر جاسکتا ہے، اس سے اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (شامی زکریا ۳؍۴۳۶)٭…اگر کوئی آدمی ریاحی مریض ہے اس کے لئے اعتکاف ممنوع ہے لیکن اگر اتفاق سے ریح خارج کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو مسجد میں ریح نہ خارج کرے‘ باہر جا کر ریح خارج کرے اور جلد واپس لوٹ جائے تو اس کی اجازت ہے۔ [فتاویٰ رحیمیہ ص ۲۱۲ ج۵]٭…اعتکاف کے دوران اخبار پڑھنے یا خبریں سننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اعتکاف کے دوران رضا الہٰی والے امور میں مشغول رہنا چاہیے۔٭… معتکف کیلئے اعتکاف کی حالت میں خاموشی کو عبادت سمجھ کر چپ رہنا مکروہ تحریمی ہے مگر بلاضرورت اور فضول باتوں سے احتراز کرے” دوران اعتکاف دینی اور دنیوی گفتگو بقدر ضرورت کی جاسکتی ہے۔ ٭… معتکف کے لئے مسجد میں اتنی جگہ گھیرنا جس سے دوسرے معتکفین یا نمازیوں کو تکلیف ہو مکروہ ہے۔٭… اعتکاف کے دوران بامر مجبوری خرید و فروخت کرنا اگرچہ جائز ہے مگر سودا مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے۔٭… اعتکاف کے دوران نماز جنازہ ” کسی مریض کی عیادت” سرکاری یا غیر سرکاری ڈیوٹی ” اور اس قسم کے دوسرے قسم کے امور کے لئے نکلنا جو حوائج انسانی یا شرعی میں داخل نہ ہو” اعتکاف کو فاسد کردیتا ہے (فتاوی حقانیہ )٭… اعتکاف کا مقصد چونکہ قرب الہیٰ حاصل کرنا ہے ” اس لئے معتکف اپنے گھر بار دینوی مشاغل چھوڑ کر مسجد میں مقیم ہو جاتا ہے ” فقہا کرام نے لکھا ہے کہ معتکف حالت اعتکاف میں قرآن کریم کی تلاوت ” احادیث مبارکہ ” آنحضرت کی سیرت طیبہ ” انبیاء کرام اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ اور دیگر دینی امور میں مشغول رہنا چاہیے۔ دنیاوی باتیں ” ہنسی مذاق سے احتراز کرنا چاہیے ۔
