حضرت علی رضی اﷲ عنہ ایک نظر میں

حضرت علی رضی اﷲ عنہ ایک نظر میں
از قلم:… قاری محمد اکرام اوڈھروال ضلع چکوال
اللہ تعالیٰ جل شانہٗ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان واسطہ جبرئیل امین ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور ہمارے درمیان واسطہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔فرمایا:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے متعلق اچھا بیان دے وہی مؤمن ہے۔ان صحابہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ دینی شرف بھی کچھ کم نہیں کہ آپ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں‘ آپ کی زیرتربیت اپنی طفولیت بچپن اور جوانی کا زمانہ گزارا۔ ظاہر ہے کہ علم اور اخلاق کے لحاظ سے وہ شخص کس قدر بلند مرتبہ ہوگا جس نے افضل البشر اور خیرالرسل کے دامن شفقت میں پرورش پائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبوت بخشی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً دس برس اور ایک قول کے مطابق 13 برس تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تقریباً تیس برس بعد ۵۹۹ء میں ہوئی یعنی بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقریباً دس سال پہلے۔ مہینہ رجب کا تھا اور تاریخ تیرہ تھی۔ دن جمعہ کا تھا۔والد نے آپ کا نام زید‘ والدہ نے حیدر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکھا۔ ابو الحسن اور ابو تراب کنیت تھی۔ مرتضیٰ اور شیرِ خدا وغیرہ لقب ہیں۔مدینہ پہنچ کر جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں مواخاۃ کرائی تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا بھائی بنایا۔ بلاشبہ یہ کوئی کم اعزاز نہ تھا جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مرحمت ہوا۔آپ اتنے نیک طبع اور فرشتہ خصلت انسان تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہاکے لیے آپ ہی کا انتخاب فرمایا اور ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردیا۔
جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت دلیری اور شجاعت کے ساتھ میدانِ جنگ میں کود پڑے اور سب لڑائیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دادِ شجاعت دیتے رہے۔ خیبر کا مضبوط قلعہ آپ ہی کے زورِ بازو سے فتح ہوا۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت کا شرف حاصل ہوا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلافت کا سوال پیش آیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت شرح صدر کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور ہر کام میں ان کے معین و مددگار رہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ آیا تو فاروق اعظم کوئی کام بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے کے بغیر کرتے ہی نہ تھے اور ان کی رائے کو ہر شخص کی رائے پر ترجیح دیتے تھے۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مظلوم شہید ہوگئے تو خلافت آپ کے حصہ میں آئی اور ۲۴ ذی الحجہ۳۵ ہجری مطابق ۲۳ جون ۶۵۶ء کو آپ دنیائے اسلام کے خلیفہ منتخب ہوئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں فرمایا کہ تجھ کو دوست نہیں رکھتا مگر مؤمن ۔اور تجھ کو دشمن نہیں سمجھتا مگر منافق۔ یعنی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوستی ایمان کی نشانی اور دشمنی نفاق کی علامت ہے۔فرمایا چار شخص ہیں جن کی محبت منافق کے دل میں جمع نہیں ہوتی اور ان کو مؤمن کے سوا اور کوئی دوست نہیں رکھتا۔ یعنی ان کی محبت مؤمن کے دل میں ہی ہوتی ہے۔ ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔،فرمایا: ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت میں اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت میں ہیں۔یہ بات متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ اتقاء‘ پرہیزگاری‘ علم و دانش اور فہم و ذکاء کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام بہت بلند تھا اور تمام صحابہ کرام آپ کے اس بلند مقام کے معترف تھے۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی فاضلہ عورت نے کئی مرتبہ آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے۔فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ آپ سے مشورے لیے ہیں اور ان مشوروں پر عمل کیا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام میں بیٹھے ہوئے بھی دین کے بعض مشکل مسئلے آپ ہی سے خط لکھ کر حل کرایا کرتے تھے۔ قرآنی علوم و معارف کے آپ بینظیر ماہر تھے۔ ہر آیت کے متعلق جانتے تھے کہ یہ کب‘ کیوں‘ کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ قرآن پاک کی تفسیر اور آیات کی تشریح کرنے‘ قرآنی معارف بیان کرنے اور مطالب القرآن کی توضیح کرنے میں آپ کی قابلیت مسلمہ تھی۔ علم الفرائض اور حدیث نبویؐ کے آپ زبردست عالم تھے کیونکہ تیس سال کے عرصے تک حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیض محبت سے گھر کے اندر اور باہر مستفید ہوتے رہے۔ اس صورت میں ارشادات نبوی کا رازداں اور مزاج شناس رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے زیادہ اور کون ہوسکتا ہے؟ کتب احادیث میں جو روایتیں آپ سے منقول ہیں ان کی تعداد ۵۸۶ ہیں۔ یہ تعداد آپ کے تعلق رسول کے لحاظ سے کچھ کم دکھائی دیتی تھیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ حدیث روایت کرنے میں اپنے پیشرو خلفاء کی طرح نہایت درجہ محتاط تھے۔ دینی مسائل کے بیان کرنے اور بہت جلد مقدمہ کی تہہ کو پہنچ جانے میں آپ اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔
۱۷ رمضان سن ۴۰ ہجری مطابق ۲۵ جنوری ۶۶۱ء کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور ۱۹ رمضان المبارک کوآپ کی وفات ہوگئی۔چار سال آٹھ مہینے چوبیس دن آپ نے حکومت کی۔ اور ایک قول کے مطابق19 رمضان 40 ہجری میں شام سے آئے ایک شقی القلب شخص عبد الرحمن بن ملجم نامی شخص نے قطامہ نامی خارجی عورت کی مدد سے مسجد کوفہ میں حالتِ سجدہ میں پشت سے سر پر زہر بجھی تلوار سے وار کرکے زخمی کردیا، زخمی ہونے پر آپ کے لبوں پر جو پہلی صدا آئی وہ تھی کہ ’’ربِ کعبہ کی قسم آج علی کامیاب ہوگیا‘‘۔
دو روز تک حضرت علیؓ بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخرکار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔،واللہ اعلم!یہ ہے مختصر تذکرہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد‘ فاطمہؓ کے شوہر‘ ابو طالب کے فرزند‘ حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے والد‘ خلیفہ چہارم امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجہہ کا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور حضرات اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دینی و دنیوی دونوں طرح کا تعلق ہے اس لیے آپ کے حق میں ان حضرات کے حقوق بھی داخل ہوگئے ہیں۔ وہ یہ ہیں:…٭ ان حضرات کی اطاعت کرے۔٭ ان حضرات سے محبت رکھے۔٭ ان کے عادل ہونے کا اعتقاد رکھے۔٭ ان کے دوستوں سے محبت اور دشمنوں سے بغض رکھے۔