غزوہ بدر
جمع وترتیب…قاری محمد اکرام چکوال
رمضان کریم کے دوسرے عشرے کے آخر میں سترہویں رمضان کو وہ اہم تاریخ ساز واقعہ پیش آیا جسے ہم یومِ بدر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی تہذیب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ رمضان کریم کی برکات کے حوالے سے بہت قابلِ غور ہے۔ اسلامی تاریخ میں بدر کی حیثیت ایسی ہے جیسے نبوت کے آغاز کے وقت قرآن پاک کے نزول کی ہے۔ قرآن پاک کے نزول نے آپؐ کی نبوت کا آغاز کیا، دینِ ابراہیمی کا احیاء ہوا۔ انسانیت کے لیے پیغام رحمت آیا۔ بدر کی فتح سے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا اور پوری انسانیت کو یہ معلوم ہوگیا کہ اب انسانیت کا مستقبل کیا ہو2ھ کے شروع میں قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام کی طرف جارہا تھا ،قافلے میں لاکھوں دراہم کی مالیت کا مال و اسباب اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔مسلمان چونکہ مکہ میں قریشیوں کے مہلک جان لیوا مظالم کو سہہ چکے تھے اس لیے وہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اگر قریش کی معیشت مضبوط ہو گئی تو وہ اسلام کو مٹانے میں ذرہ برابر تامل نہیں کریں گے چنانچہ حفظ ما تقدم کے اصول کے پیش نظر مسلمانوں نے اس قافلے کو روکنے کی کوشش کی تاکہ کافروں کی عسکری طاقت کی بنیاد ہی مسمار ہو جائے اور انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملے لیکن قافلہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔مسلمان اب اس انتظار میں تھے کہ کب یہ قافلہ واپس آتا ہے ؟
قافلے کے واپس ہونے کی اطلاع ملی تو 12 رمضان المبارک سن 2 ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 313 مسلمانوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے ، 60 مہاجرین جبکہ باقی انصار تھے۔دوسری طرف ابو سفیان کو جب مسلمانوں کی آمد کا علم ہوا تو اس نے ایک تیز رفتار گھڑ سوار مکہ کی طرف دوڑایا اور قریش مکہ کے نام پیغام بھیجا کہ یہی موقع ہے اسلام کی شمع کو ہمیشہ کے لیے بجھا دینے کا۔ تم جلدی سے اسلحہ اور سواریوں سمیت پہنچو ۔ قریش مکہ تو پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ کوچ کا نقارہ بجایا اور ایک ہزار سپاہی ،100 سواریاں ، تیر و تفنگ ، نیزے بھالے ، تلواریں ،ڈھالیں اور جنگی ہتھیار سے لیس ہو کر مسلمانوں کی طرف بڑھنے لگے۔
بدر …مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر واقع ایک جگہ ہے ۔قریشیوں کی فوج نے یہیں پڑاؤ ڈالا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے دریافت کی۔ مہاجرین کے سرخیل جناب ابو بکر و عمررضی اللہ عنہما نے مجاہدانہ تقاریر کیں ، جانثاری کا یقین دلایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ کی رائے لی۔قبیلہ کے خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تشریف لے جائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں ، جس سے جیسا چاہیں تعلق نبھائیں ، ہم سے جو لینا چاہیں یا ہمیں کچھ دینا چاہیں ہم ہر طرح تیار ہیں ، جو حکم فرمائیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ ہیں ، اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں ہم بلاچوں چرا کود پڑیں گے۔ اس کے بعد حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: ہم قوم ِ موسیٰ جیسی بے وفا قوم نہیں جنہوں نے اپنے نبی ؑ سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے ، ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اوربدر کے قریب ایک چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے عریش (چھپر) بنوایا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے جنگی صورتحال کو بچشم خود ملاحظہ فرما سکیں۔آج کل اس جگہ ایک مسجد ہے۔ جسے ’’مسجد عریش ‘‘ کہا جاتا ہے۔16 رمضان المبارک کو دونوں فوجیں پڑاؤ ڈال چکی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بارگاہ ایزدی میں دعا و مناجات کرتے رہے۔ بالآخر وہ وقت آن پہنچا جب بدر کا میدان رزم حق وباطل کا استعارہ بن گیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جرأت و شجاعت، بہادری و جانبازی ،اللہ کی مدد اور نصرت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین عسکری حکمت عملی کی مثال کے طور پر تاریخ عالم میں جانا جاتاہے۔ 17 رمضان المبارک، 2 ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کی صف بندی کی اور دست رحمت کو بارگاہ رحمت میں دراز کرتے ہوئے التجاء کی : اے پرودگار !جو آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اسے پورا فرما۔ آج اگر یہ مٹھی بھر جماعت مٹ گئی تو تاقیامت آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
یہ صبر آزما امتحان تھا۔مسلمانوں کے تلواروں کے نیچے ان کے قلب و جگر کے ٹکڑے اور بزرگ بھی آ رہے تھے لیکن اسلام کی محبت رشتوں کی محبت پر غالب تھی ۔حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی تلوار ان کے بیٹے پر بے نیام ہوئی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تلوار اُن کے ماموں کے خون سے رنگین ہوئی ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی تلوار اپنے والد عتبہ پر تن گئی ، قریش کے سپہ سالار عتبہ پر حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہمانے کاری ضرب لگائی ، شیبہ کو حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی ذوالفقار نے 2ٹکڑوں میں تقسیم کیا ، عبیدہ بن سعید کو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جہنم رسید کیا ،2 انصاری بچوں حضرت معوذ اور معاذ رضی اللہ عنہما نے ابوجہل کے غرور کو زمین بوس کیا ، عکرمہ بن ابی جہل نے حضرت معوذ رضی اللہ عنہ پر تلوار سے حملہ کیا جس سے ان کا بازو کندھے سے لٹک گیا لیکن شیر دل مجاہد اسلام پھر بھی لڑتے رہے۔ جب لٹکا ہوا بازو دشمن پر حملے کرنے سے رکاوٹ بنا تو حضرت معوذ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کو پاؤں کے نیچے رکھ سے ایک جھٹکے سے جھٹک دیا۔ ابو جہل کے مرنے سے قریش مکہ کی ہمت کافی حد تک پست ہوگئی، ان کے حوصلے جواب دینے لگے تھے لیکن ان کی ایک امید ابھی باقی تھی یعنی سردار امیہ بن خلف۔ پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی کیا جب بلال پر ستم ڈھانے والے امیہ کے جسم کو نیزوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کی فوج اتری ، کفر کے سرداروں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ابوجہل ،امیہ بن خلف ، عتبہ ، شیبہ ، ولید ، زمعہ بن اسود ، عاص بن ہشام ،منبہ ابن الحجاج اور ابو البختری کے ناپاک وجود سے اللہ کی زمین پاک ہو گئی۔70کفار مارے گئے ، 70 کو قیدی بنا لیا گیاجبکہ باقی دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ دوسری طرف 14 مسلمان جام شہادت نوش کر گئے۔
غزوہ بدر کے واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ ثابت قدمی ، جذبہ جہاد ، شوق شہادت ، اطاعت ِ امیر سے کڑے حالات کو اچھے حالات کی طرف موڑا جا سکتا ہے، محض دنیاوی وسائل، آلات جنگ اور سپاہیوں کی کثرت ہی جنگ جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوتیں۔رمضان کے مبارک مہینے میں اس غزوے کا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ رمضان میں قوتِ کار میں کمی ہوجاتی ہے۔ جہاد جیسے پْرمشقت مرحلے سے مسلمانوں کا کامیابی سے گزرنا ظاہر کرتا ہے کہ روزے سے قوتِ ایمانی میں اضافے کی وجہ سے جسمانی فعالیت اور قوت میں اضافہ ہی ہوتا ہے، کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
یوم بدر ہر سال رمضان کی 17 تاریخ کو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اپنی نیتوں کو اللہ کے لیے خالص کرکے صرف اس کے دین کی سربلندی کی خاطر جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو قلتِ تعداد کے باوجود وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ تعداد والے دشمن پر غالب آتے ہیں۔ اسلام تعداد سے زیادہ قوتِ کردار کو اہمیت دیتا ہے۔ اگر ایمان قوی ہو، نیت پاک ہو اور منزل کا شعور ہو تو پھر اللہ کی طرف سے غیبی امداد کا آنا یقینی ہوجاتا ہے۔ آج جب مسلمان دنیا کے بہت سے علاقوں میں اپنے آپ کو ’’اقلیت‘‘ سمجھتے ہیں اور اس بنا پر عموماً دب کر، محض بعض حقوق کی بھیک مانگنے پر مطمئن ہوجاتے ہیں، ان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر بدر کے موقع پر تعداد میں کم مسلمان زیادہ مسلح اور تعداد والوں پر غالب آسکتے ہیں تو آج یہ تاریخ کیوں نہیں دہرائی جاسکتی۔
جمع وترتیب…قاری محمد اکرام مدرسہ فیض القرآن اڈھروال ضلع چکوال
